Tag: Omicron virus

  • شہباز شریف کے اومیکرون وائرس میں مبتلا ہونے کا انکشاف

    شہباز شریف کے اومیکرون وائرس میں مبتلا ہونے کا انکشاف

    لاہور : شہباز شریف کے اومیکرون وائرس میں مبتلا ہونے کا انکشاف سامنے آیا ، شہباز شریف ہڈیو ں کی شدید تکلیف اور نزلے کھانسی میں مبتلا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اومی کرون وائرس میں مبتلا ہیں ، پہلے دو روز وہ ہڈیوں کی شدید تکلیف میں مبتلا رہے جبکہ ابتدا سے اب تک انھیں نزلے کھانسی بھی ہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ شہباز شریف کی صحت ابتدائی تکلیف سے قدرے بہتر ہے۔

    یاد رہے 19 جنوری کو اپوزیشن لیڈر شہبازشریف دوسری بار کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا ، جس کے بعد انھوں نے خود کو گھرمیں قرنطینہ کرلیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے شہبازشریف کے کورونا میں مبتلا ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ شہبازشریف کا دوسری بار کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے ، جس کے بعد انھوں نے خود کو گھرمیں قرنطینہ کرلیا۔

    مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے شہبازشریف کے کورونا میں مبتلا ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا شہباز شریف کی صحتیابی کے لیےعوام،پارٹی وابستگان سے دعا کی اپیل کی اور بتایا تھا کہ ڈاکٹروں نےشہبازشریف کومکمل آرام کامشورہ دیا ہے۔

  • امید کی کرن : سائنسدانوں نے اومیکرون کا توڑ نکال لیا

    امید کی کرن : سائنسدانوں نے اومیکرون کا توڑ نکال لیا

    فارماسوٹیکل کمپنی فائزر اور بائیو این ٹیک نے کورونا کے نئے ویریئنٹ اومیکرون کے سد باب کیلئے اپنی تیار کردہ کوویڈ ویکسین کو مفید اور مؤثر قرار دیا ہے۔

    دونوں ادویہ ساز کمپنیوں کے مطابق کوویڈ 19 ویکسین کی کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے خلاف افادیت کی ابتدائی تفصیلات جاری کردی گئی ہیں۔

    فائزر اور بائیو این ٹیک کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ابتدائی لیبارٹری تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ ان کی تیار کردہ ویکسین کی تیسری خوراک اومیکرون قسم کو ناکارہ بناسکتی ہے۔ کمپنیوں کو توقع ہے کہ ابتدائی نتائج سے دنیا بھر میں بوسٹر ڈوز فراہم کرنے کی مہمات میں تیزی آئے گی۔

    بیان میں بتایا گیا کہ موجودہ ویکسین کی تیسری خوراک سے وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں 25 گنا اضافہ ہوتا ہے، اس سے لوگوں کو اومیکرون کے خلاف وائرس کی اصل اور دیگر اقسام جتنا ہی تحفظ ملتا ہے۔

    کمپنیوں کے مطابق ٹی سیلز بھی اومیکرون سے متاثر ہونے پر بیماری کی سنگین شدت سے تحفظ فراہم کرتے ہیں مگر ان نتائج کے باوجود دونوں کمپنیوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ پراعتماد ہیں کہ اومیکرون کے خلاف ویکسین کے مخصوص ورژن کو مارچ 2022 تک تیار کرلیا جائے گا۔

    اس تحقیق میں فائزر ویکسین کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کے بلڈ پلازما کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں اومیکرون کے خلاف وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں اصل وائرس کے مقابلے میں 25 گنا کمی آئی۔ یہ نتائج اومیکرون کے خلاف ابتدائی ڈیٹا کی سیریز کا حصہ ہیں۔

    اس سے قبل7 دسمبر کو افریقہ ہیلتھ ریسرچ انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون ویکسینیز اور قدرتی بیماری سے ملنے والے تحفظ پر جزوی حد تک اثرانداز ہوسکتی ہے۔

    تحقیق میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ کورونا کی یہ نئی قسم کا مدافعتی نظام سے مکمل طور پر نہیں بچ پاتی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسینز کے استعمال کے بعد وقت گزرنے سے تحفظ میں آنے والی کمی کو اینٹی باڈیز بڑھا کر بحال کیا جاسکتا ہے۔

    محققین نے کہا کہ اس حوالے سے کلینکل نتیجہ کی تصدیق ہونا باقی ہے مگر نتائج سے اس خیال کو ٹھوس تقویت ملتی ہے کہ بوسٹر ویکسینیشن اومیکرون سے تحفظ کے لیے مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔

    فائزر کے سی ای او البرٹ بورلا نے بتایا کہ ابتدائی ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ ویکسین کی تیسری خوراک سے بیماری کے خلاف تحفظ میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔

    بائیو این ٹیک کے سی ای او ایغور شاہین نے کہا کہ تیسری خوراک کے ابتدائی ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سے بیماری کے خلاف مناسب تحفظ مل سکتا ہے۔ خیال رہے کہ یہ ڈیٹا ابتدائی ہے اور دونوں کمپنیوں کی جانب سے کورونا کی اس نئی قسم پر تحقیق کا سلسلہ جاری رہے گا۔

    کمپنیوں کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کو بھی اومیکرون قسم سے ہونے والی بیماری کی سنگین شدت سے تحفظ مل سکتا ہے، جس کی وجہ مدافعتی نظام کا وہ حصہ ہے جسے ٹی سیلز ہے جو وائرس کی اقسام میں ہونے والی میوٹیشنز سے متاثر نہیں ہوتا۔

  • کویت: اومیکرون وائرس کے باعث  غیر ملکی نئی پریشانی کا شکار

    کویت: اومیکرون وائرس کے باعث غیر ملکی نئی پریشانی کا شکار

    کویت سٹی: اومیکرون وائرس کے حالیہ پھیلاؤ کی وجہ سے کویت سے دوسرے ممالک چھٹیوں پر جانے والے غیر ملکیوں نے واپسی کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔

    ٹریول اینڈ ٹورزم مارکیٹ ذرائع کے مطابق گزشتہ کئی گھنٹوں سے گردش کرنے والی خبروں نے دنیا کے بہت سے ممالک کو وائرس سے متاثرہ ممالک کے لیے پروازوں کو معطل کرنے پر مجبور کیا ہے، جس کے باعث کویت واپسی کے لئے ٹکٹوں کی قیمت کو ایک بار پھر سے تقریباً دوگنا کردیا گیا ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ اس کی بڑی وجہ صحت کے حکام کی جانب سے اٹھائے جانے والے کسی بھی احتیاطی اقدامات کے اثرات ہیں جو کویت میں دوبارہ داخل ہونے کی صلاحیت کو محدود کر دیں گے جیسا کہ پچھلے سال وبائی امراض کے ابتدائی دنوں میں ہوا تھا۔

    اسی خوف کی وجہ سے بہت سے تارکین وطن نے اپنی سالانہ تعطیلات کو مختصر کرنے اور اگلے مہینے کے آغاز میں کویت واپس آنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق حالیہ تناظر میں کویت میں بہت سے ٹریول اور ٹورازم دفاتر نے اپنے صارفین کی جانب سے واپسی کی تاریخوں کو تبدیل کرنے کی درخواستیں وصول کرنا شروع کر دیں ہیں۔

    اس عمل نے اس مہینے کے بقیہ دنوں کے لیے پروازوں کے نظام الاوقات کی بہت زیادہ مانگ پیدا کر دی ہے جس سے واپسی کے سفر کی قیمت اوسط 69 دینار سے بڑھا کر ایک ٹکٹ کے لیے 200 دینار سے زیادہ ہو گئی ہ جبکہ البشیر نے اشارہ کیا کہ کویت سے باہر تمام مقامات کے لیے پروازیں اب بھی عام قیمتوں پر دستیاب ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: اومی کرون وائرس: کویت نے بڑی پابندیاں عائد کردیں

    کویت کے سول ایوی ایشن ٹریول و ٹورزم ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر کووڈ19 کے نئے ورژن کے انفیکشن کی شرح میں اضافے کے باعث عالمی سطح پر احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں تو اگلے چند دنوں کے دوران کویت واپسی کے سفر کی مانگ میں اضافے کی توقع ہو سکتا ہے۔

    انہوں نے انکشاف کیا کہ متعدد تارکین وطن نے تصدیق کی کہ انہوں نے چار اہم پہلوؤں کے خوف سے کویت واپسی کا شیڈول تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔

    کویت اپنے احتیاطی صحت کے اقدامات میں سخت ترین ممالک میں سے ایک تھا جس میں طویل عرصے سے غیر ملکیوں کے داخلے پر پابندی شامل تھی۔

    بہت سے تارکین وطن ٹرانزٹ ممالک میں 14 دنوں تک رہنے کے تجربے کو دہرانا نہیں چاہتے جو کہ لمبا ہو سکتا ہے جیسا کہ پہلے ماضی میں دیکھا گیا ہے۔

    بہت سے تارکین وطن اپنی ملازمتوں کو برقرار رکھنے اور اپنی آمدنی جاری رکھنے کے لیے تیزی سے واپس آنے اور اپنے کام میں دوبارہ شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    بہت سے تارکین وطن کا خیال ہے کہ اگر ماضی کی طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو زیادہ قیمت برداشت کرنے کے بجائے آنے والے دنوں میں سفری ٹکٹوں کی زیادہ قیمت برداشت کرنا بہتر ہے۔

    ایسی صورت میں لاگت بہت زیادہ ہو جائے گی خاص طور پر ان کی آمدنی میں کٹوتی کے بڑھتے ہوئے امکانات کے ساتھ وہ اس وقت اسے برداشت نہ کر سکیں۔