Tag: omicron

  • کیا اومیکرون ڈیلٹا ویرینٹ کی جگہ لے سکتا ہے؟

    کیا اومیکرون ڈیلٹا ویرینٹ کی جگہ لے سکتا ہے؟

    ہارورڈ میڈیکل اسکول میں مختلف ویرینٹس کو مانیٹر کرنے والے ڈاکٹر جیکب لیمیوکس کا کہنا ہے کہ کرونا کا اومیکرون ویرینٹ دنیا بھر میں پھیلے ڈیلٹا کی جگہ لے سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے جنوبی افریقی ممالک میں پھیلنے اور دنیا بھر کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد، سائنس دان بے چینی سے ایک ایسی جنگ کو دیکھ رہے ہیں جو وبائی مرض کے مستقبل کا تعین کر سکتی ہے۔

    سائنس دان اب اس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ کیا اومیکرون ڈیلٹا کی جگہ لے سکتا ہے، کچھ سائنس دان جنوبی افریقا اور برطانیہ کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اومیکرون ایسا کر سکتا ہے۔

    ڈاکٹر جیکب لیمیوکس کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی ابتدائی دن ہیں لیکن اعداد و شمار میں تیزی سے تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ اگر سب جگہوں پر نہیں تو اومیکرون بہت سے مقامات پر ڈیلٹا سے مقابلہ کر سکتا ہے۔

    لیکن دوسرے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اومیکرون ڈیلٹا سے زیادہ مؤثر طریقے سے پھیلے گا، میو کلینک میں کلینیکل وائرولوجی کے ڈائریکٹر میتھیو بنیکر کا کہنا ہے کہ امریکا میں ڈیلٹا میں نمایاں اضافہ ہوا، کیا اومی کرون اس کی جگہ لے لے گا، مجھے لگتا ہے کہ ہمیں تقریباً دو ہفتوں میں معلوم ہو جائے گا۔

    فی الوقت اومیکرون کے بارے میں بہت سے اہم سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے ہیں، کہ کیا وائرس ہلکی یا زیادہ شدید بیماری کا سبب بنتا ہے، اور یہ ماضی میں کرونا سے بیمار ہونے والوں یا ویکسین لگوانے والے افراد کو متاثر کر سکتا ہے؟

  • کیا اومیکرون سے بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں؟

    کیا اومیکرون سے بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں؟

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر سومیا سوامیناتھن نے کہا کہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ جنوبی افریقا میں بچے زیادہ اومیکرون سے متاثر ہو رہے ہیں۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سوامیناتھن نے خبردار کیا کہ فی الحال بچوں کے لیے زیادہ ویکسینز دستیاب نہیں ہیں اور صرف چند ممالک نے بچوں کے لیے ویکسین شروع کی ہے، جس کی وجہ سے کیسز میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ بہت کم ممالک بچوں کو ویکسین دے رہے ہیں، جب کیسز بڑھتے ہیں تو بچے اور ٹیکے نہ لگوانے والے انفیکشن کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں، ہم اب بھی اعداد و شمار کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ بچوں پر اومیکرون کے مختلف اثرات کا نتیجہ نکالا جا سکے۔

    عالمی ادارہ صحت کی سائنس دان نے کہا کہ تمام ممالک کو عمر اور علاقے کے لحاظ سے ویکسین کے ڈیٹا کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ان لوگوں کا اندازہ لگایا جا سکے جو چھوٹ گئے ہیں اور ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ 18 سال سے زیادہ عمر کے تمام لوگوں کو ویکسین لگائی جائے تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکے۔

    ڈاکٹر سومیا نے کہا کہ ہم وبائی مرض میں مزید ڈیٹا شیئرنگ چاہتے ہیں اور ہمیں ان ممالک کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو مختلف اقسام اور ڈیٹا کو ظاہر کر رہے ہیں، اس کے لیے ہمیں ممالک کے درمیان ایک مربوط معاہدے کی ضرورت ہے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اومیکرون انفیکشن کی طبی خصوصیات کو سمجھنے کے یہ ابھی ابتدائی دن ہیں، کیسز میں اضافے اور اسپتال میں داخل ہونے کے درمیان ایک وقفہ ہے، اسپتال میں داخل ہونے کی شرحوں کا مطالعہ کرنے کے لیے دو سے تین ہفتوں تک انتظار کرنا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ بیماری کتنی شدید ہے۔

  • اومیکرون یا ڈیلٹا، کم خطرناک ویرینٹ کون سا؟

    اومیکرون یا ڈیلٹا، کم خطرناک ویرینٹ کون سا؟

    واشنگٹن: امریکی محکمہ صحت نے کہا ہے کہ اومیکرون، ڈیلٹا ویرینٹ سے بھی کم خطرناک ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی محکمہ صحت کے حکام نے کہا ہے کہ ابتدائی نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ کرونا کی نئی قسم اومیکرون اس سے پہلے سامنے آنے والے ڈیلٹا ویرینٹ سے کم خطرناک ہو سکتی ہے۔

    صدر جو بائیڈن کے چیف میڈیکل ایڈوائزر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے کہا کہ ابھی تک یہ نہیں لگتا کہ اومیکرون اتنا زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں یہ کہنے میں بھی احتیاط برتنی چاہیے کہ یہ ڈیلٹا سے کم متاثر کرتا ہے یا اس سے کوئی زیادہ بیمار نہیں ہو سکتا۔

    تاہم عالمی ادارۂ صحت کی ماہر وبائی امراض ڈاکٹر ماریہ وان کیرکوو نے خبردار کیا ہے کہ اومیکرون اگر کم خطرناک بھی ہے تو یہ ایک مسئلہ ضرور ہے، اگرچہ زیادہ کیسز کم شدت والے ہیں، لیکن پھر بھی کچھ لوگوں کو اسپتال جانے کی ضرورت پڑے گی، ان میں سے کچھ آئی سی یو میں جائیں گے اور کچھ مر جائیں گے۔

    بھارت اومیکرون وائرس کے نشانے پر!

    ادھر بائیڈن انتظامیہ افریقی ممالک سے آنے والے غیر ملکیوں کو امریکا میں داخلے کی اجازت دینے پر غور کر رہی ہے، ڈاکٹر فاؤچی کا کہنا تھا کہ امید ہے تھوڑے عرصے میں ہم یہ پابندی ہٹا دیں گے، جنوبہ افریقا اور دیگر افریقی ممالک پر پابندی لگانے کو ہم اچھا نہیں سمجھتے۔

    واضح رہے کہ سائنس دانوں کو اومیکرون کی شدت کے بارے میں حتمی نتائج اخذ کرنے سے پہلے مزید معلومات درکار ہیں۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کیسے سامنے آئی؟

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کیسے سامنے آئی؟

    10کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے بارے میں ابھی بہت سی معلومات ہونا باقی ہیں تاہم حال ہی میں اس کے ارتقا کے بارے میں ایک تحقیق کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کا ارتقا عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے وائرس کے جینیاتی مواد کے ایک حصے کے ذریعے ہوا۔

    امریکی بائیو میڈیکل کمپنی اینفرینس کی اس تحقیق کے ابتدائی نتائج سے عندیہ ملا ہے کہ کرونا کی یہ نئی قسم ممکنہ طور پر اسی وجہ سے سابقہ اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہوسکتی ہے۔

    تحقیق میں موجود ڈیٹا سے انکشاف ہوا کہ اومیکرون میں جینیاتی مواد نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک اور انسانی کرونا وائرس ایچ کوو 229 ای سے مماثلت رکھتا ہے۔

    ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ اومیکرون کا ارتقا کسی ایسے فرد کے اندر ہوا جو کووڈ کے ساتھ ساتھ ایچ کوو 229 ای سے بیک وقت متاثر تھا۔

    انہوں نے کہا کہ اومیکرون کا جینیاتی سیکونس کرونا وائرس کی سابقہ اقسام میں نظر نہیں آتا بلکہ وہ عام نزلہ زکام والے وائرس اور انسانی جینوم کا امتزاج ہے۔ اس جینیات کے مواد کے باعث اومیکرون خود کو زیادہ انسانی دکھانے والی قسم بن گئی جس کے باعث اس کے لیے انسانی مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونا آسان ہوا۔

    تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ ممکنہ طور پر اس سے وائرس کو زیادہ آسانی سے پھیلنے میں مدد ملی، مگر ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے یا سنگین بیماری کا باعث بن سکتی ہے یا نہیں۔

    ماہرین نے کہا کہ ان سوالات کے جواب جاننے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔

    اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ پھیپھڑوں اور نظام ہاضمہ کے خلیات میں سارس کوو 2 اور عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کرونا وائرسز بیک وقت رہ سکتے ہیں۔

    ایک ہی میزبان خلیے میں 2 مختلف وائرسز میں اس طرح کے تعلق کے بعد وہ اپنی نقول بناتے ہوئے ایسی نئی نقول تیار کرتے ہیں جن کا کچھ جینیات مواد یکساں ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ نئی میوٹیشن کسی ایسے فرد میں ہوئی ہوگی جو دونوں وائرسز سے متاثر ہوگا اور اس دوران کوو 2 نے دوسرے وائرس کے جینیاتی سیکونس کو اٹھا لیا ہوگا۔

    اس طرح کے جینیاتی سیکونسز انسانوں میں نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک کورونا وائرس ایچ کوو 229 ایس میں متعدد بار ظاہر ہوا ہے جبکہ ایچ آئی وی وائرس میں بھی ایسا ہوتا ہے۔

  • اومی کرون کا خطرہ ، پاکستان آنے والے مسافروں کیلئے اہم خبر ، نئی پابندی عائد

    اومی کرون کا خطرہ ، پاکستان آنے والے مسافروں کیلئے اہم خبر ، نئی پابندی عائد

    اسلام آباد : این سی اوسی نے اومی کرون کے خطرے کے پیش نظر مزید نو ممالک کو کیٹیگری سی میں شامل کردیا اور کیٹیگری سی میں شامل ممالک سے پاکستان آنے پر مکمل پابندی عائد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا اجلاس ہوا ، جس میں دنیا بھر میں کورونا کے پھیلاؤ پر غور کیا گیا اور ایئر ٹریول پالیسی سمیت کیٹ سی لسٹ پر نظر ثانی کی گئی۔

    این سی اوسی نے کہا کہ ایئرپالیسی اور کیٹ سی لسٹ پرنظر ثانی عالمی صورتحال کے پیش نظرکی گئی، جس کے بعد مزید 9 ممالک کو شامل کرلیا گیا ، جس کے بعد کیٹ سی لسٹ شامل ممالک کی تعداد پندرہ ہوگئی تاہم پاکستان آنیوالے مسافر کورونا پروٹوکول پر عمل کے پابند ہوں گے۔

    نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے بتایا پندرہ ممالک میں کروشیا، ہنگری، نیدرلینڈ، یوکرائن، آئرلینڈ ، سلوینیا، ویتنام، پولینڈ، جنوبی افریقہ ، موزمبیق، لیسوتھو، ایسوتینی، بوٹسوانا، زمبابوے، نیمبیا شامل ہیں۔

    این سی اوسی کے مطابق کیٹ سی والے ممالک سے پاکستان داخلے پر مکمل پابندی ہو گی تاہم لسٹ والے ممالک سے پاکستان ضروری آمد مشروط طور ہو گی۔

    این سی اوسی کا کہنا تھا کہ کیٹ سی ممالک سے آنے والوں کو ایگزمشن کمیٹی سے ایگزمشن سرٹیفکیٹ لینا ہوگا اور پاکستان آنے والے افراد کیلئے مکمل ویکسی نیشن اور 6 سال سے زائدعمر افراد کیلئے کورونا پی سی آر ٹیسٹ لازم ہے۔

    نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے بتایا کہ کیٹ بی لسٹ میں جرمنی، ٹرنڈاڈ، ٹوباگو، آذربائیجان ، میکسیکو، سری لنکا، روس، امریکا، تھائی لینڈ، فرانس، آسٹریا، افغانستان، ترکی شامل ہیں۔

    پاکستان آنے والے مسافروں کیلئے نیگیٹیو پی سی آرٹیسٹ رپورٹ لازم ہوگی جبکہ کیٹ سی ممالک سے آنے والے افراد کا ایئرپورٹ پر کورونا ریپڈ ٹیسٹ ہوگا، منفی کوروناریپڈ ٹیسٹ والے مسافر ایئرپورٹ سے باہرجا سکیں گے اور مثبت کوروناریپڈٹیسٹ والے مسافر کو دس دن قرنطینہ کیا جائے گا۔

    کیٹ اے والے ممالک کے مسافرریپڈ کوروناٹیسٹ سے مستثنی ہوں گے تاہم براستہ سعودی عرب،قطر، یو اے ای پاکستان آنے والے مسافروں کا رپیڈ ٹیسٹ ہوگا۔

    این سی اوسی نے مزید کہا کہ کیٹ سی ممالک سے پاکستانی 15 دسمبر تک وطن واپس آسکتے ہیں تاہم کیٹ سی ممالک سے آنے والے پاکستانیوں کو کورونا پروٹوکول پر عمل کرنا ہوگا۔

  • ایک اور ملک میں اومیکرون کا کیس رپورٹ

    ایک اور ملک میں اومیکرون کا کیس رپورٹ

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے، ایک اور افریقی ملک تیونس میں بھی اومیکرون کا کیس سامنے آگیا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق تیونس کے وزیر صحت نے کہا ہے کہ اومیکرون ویرینٹ کا پہلا کیس سامنے آگیا ہے، متاثرہ شخص استنبول سے تیونس پہنچا تھا۔

    وزیر صحت علی مرابط کا کہنا ہے کہ کانگو کے 23 سالہ شخص کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے، ترکی سے آنے والی پرواز کے تمام مسافروں نے بھی تیونسی حکام سے رابطہ کیا ہے تاکہ ان کا بھی ٹیسٹ کیا جائے۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ اس نے کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے کیسز دنیا کے 38 ممالک میں سامنے آئے ہیں تاہم اس سے کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق وہ تشویش کا باعث بننے والے ویریئنٹ کے بارے میں شواہد اکٹھے کر رہا ہے کیونکہ دنیا بھر کے ممالک اسے پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

  • روسی ماہرین کا اومیکرون کے حوالے سے دنیا سے بالکل مختلف بیان

    روسی ماہرین کا اومیکرون کے حوالے سے دنیا سے بالکل مختلف بیان

    ماسکو: روسی ماہرین نے کرونا وائرس کی نئی قِسم اومیکرون کے حوالے سے دنیا سے بالکل مختلف بیان جاری کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ نئی کرونا وائرس قِسم وبا کے خاتمے کی پہلی علامت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روسی ماہرین نے نئے ویرینٹ اومیکرون کے سامنے آنے کو کرونا وبا کے خاتمے کی پہلی علامت قرار دے دیا ہے۔

    روسی فیڈرل میڈیکل بائیولوجیکل ایجنسی کے متعدی امراض کے چیف ماہر ولادی میر نیکوفوروف کا کہنا ہے کہ کووِڈ 19 کے اومیکرون ویرینٹ کا پھوٹنا اس بات کا پہلا اشارہ ہو سکتا ہے کہ کرونا وبا اپنے خاتمے کے قریب ہے۔

    اومیکرون نے خود کو بدلنے کے لیے عام نزلے کے وائرس کے ساتھ کیا کیا؟

    وائرس کی نئی قِسم جس کی ابتدا جنوبی افریقا میں ہوئی اور جو زیادہ متعدی ہے، سے متعلق انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس اعداد و شمار موجود ہیں جو اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ یہ وائرس کم خطرناک ہے اور اس وائرس سے متاثر ہونے کے بعد علامات انتہائی کم ہیں۔

    ولادی میر نیکوفوروف نے کہا کہ یہ نیا ویرینٹ پھیپھڑوں کو شدید نقصان نہیں پہنچاتا، اور مجھے لگتا ہے کہ یہ اس ڈراؤنے خواب کے اختتام کا آغاز ہو سکتا ہے۔

    وبائی امراض کے ماہر کا کہنا تھا کہ وہ اس ویرینٹ کو وبا کے خاتمے کی پہلی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں، کیوں کہ وائرس کم ہونا شروع ہو گیا ہے۔

    انھوں نے ایک اہم نکتہ یہ بھی بتایا کہ وائرس کی نئی قِسم کی وجہ سے کرونا وائرس ایک عام موسمی سانس کا انفیکشن بن سکتا ہے۔

  • کیا اومیکرون پانچ سال سے کم عمر بچوں میں بھی تیزی سے پھیلتا ہے؟

    کیا اومیکرون پانچ سال سے کم عمر بچوں میں بھی تیزی سے پھیلتا ہے؟

    کیپ ٹاؤن: کیا اومیکرون پانچ سال سے کم عمر بچوں میں بھی تیزی سے پھیلتا ہے؟ جنوبی افریقا کے ماہرین نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی افریقی ماہرین نے چھوٹے بچوں میں کرونا انفیکشن کے پھیلاؤ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اومیکرون ویرینٹ 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں بھی بہت زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

    نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کمیونی کیبل ڈیزیز (این آئی سی ڈی) کی ڈاکٹر واسیلا جاسیٹ نے جمعے کے روز وزارت صحت کی میڈیا بریفنگ میں کہا اب اس لہر کے شروع میں ہم تمام عمر کے زمروں میں کرونا انفیکشن میں تیز اضافہ دیکھ رہے ہیں۔

    اومیکرون نے خود کو بدلنے کے لیے عام نزلے کے وائرس کے ساتھ کیا کیا؟

    انھوں نے کہا ماضی میں کرونا کا اثر بچوں پر بہت زیادہ نہیں پڑا اور انھیں اسپتالوں میں داخل نہیں کرانا پڑا، لیکن تیسری لہر میں ہم پانچ سال سے کم عمر کے بچوں اور 15 سے 19 سال کے نوعمروں میں انفیکشن میں تیزی دیکھ رہے ہیں۔

    ڈاکٹر واسیلا جاسیٹ کا کہنا تھا کہ بچوں میں خدشے کے مطابق کیسز کم ہیں، تاہم بالکل چھوٹے بچوں میں اب یہ انفیکشن دوسرے نمبر پر آ گیا ہے، اس کے ساتھ 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں بھی وائرس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

  • اومیکرون نے خود کو بدلنے کے لیے عام نزلے کے وائرس کے ساتھ کیا کیا؟

    اومیکرون نے خود کو بدلنے کے لیے عام نزلے کے وائرس کے ساتھ کیا کیا؟

    نیویارک: کیا کووِڈ نائنٹین کی تبدیل شدہ صورت اومیکرون ویرینٹ نے خود کو بدلنے کے لیے عام نزلے کے وائرس کے ساتھ کچھ کیا ہے؟ محققین نے اس سلسلے میں ایک نیا انکشاف کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اومیکرون نے انھیں حیران کیا ہے، اس میں 50 تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، جب کہ سب سے زیادہ خطرناک سمجھی جانے والی قسم ڈیلٹا میں صرف 2 تبدیلیاں پائی گئی تھیں۔

    محققین کے مطابق اومیکرون ویرینٹ نے اپنے اندر جو تبدیلیاں کی ہیں، ان میں سے ایک تغیر ایسا بھی ہے جس کے لیے اس نے کسی دوسرے وائرس سے جینیاتی مواد کا ایک ٹکڑا لیا ہے، اور ممکنہ طور پر یہ ٹکڑا اس وائرس کا ہے جو عام نزلے کا سبب بنتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اومیکرون میں شامل عام نزلے کا یہ ٹکڑا اس نے اُسی متاثرہ خلیے سے لیا ہے، جس میں وہ خود موجود تھا، یعنی اس وقت اس خلیے میں عام نزلے کا وائرس بھی پڑا ہوا تھا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ یہ جینیاتی تسلسل کرونا وائرس کی دیگر ابتدائی اقسام میں ظاہر نہیں ہوا، جسے SARS-CoV-2 کہا جاتا ہے، لیکن یہ بہت سے دوسرے وائرسز میں ہر جگہ موجود ہے، ان میں بھی جو عام نزلے کا سبب بنتے ہیں، اور انسانی جینوم میں بھی۔

    اس تحقیق کے سربراہ کیمبرج میساچوسٹس ڈیٹا انالیٹکس کمپنی نفرینس کے وینکی ساؤنڈرراجن نے جمعرات کو بتایا کہ ان مخصوص ٹکڑوں کو اپنے اندر داخل کرنے سے اومیکرون خود کو "زیادہ انسانی” بنا رہا ہوگا، تاکہ اسے انسانی مدافعتی نظام کے حملے سے بچنے میں مدد ملے۔

    اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس (اومیکرون) زیادہ آسانی سے منتقل ہوتا ہے، جب کہ صرف ہلکی یا غیر علاماتی بیماری کا سبب بنتا ہے۔ سائنس دان ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ آیا اومیکرون دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے، آیا یہ زیادہ شدید بیماری کا سبب بنتا ہے یا یہ ڈیلٹا کو زیادہ تیزی سے پھیلنے کے حوالے سے پیچھے چھوڑ دے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔

    ابتدائی مطالعات کے مطابق، پھیپھڑوں اور معدے کے نظام میں خلیے بہ یک وقت کرونا وائرس اور عام نزلے والے وائرس کو پناہ دے سکتے ہیں، اس طرح کے مشترکہ انفیکشن سے ایک وائرل ری کمبینیشن سامنے آتا ہے، یہ ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس میں ایک ہی میزبان سیل میں دو مختلف وائرس اپنی کاپیاں بناتے ہوئے آپس میں تعامل کرتے ہیں، اور یہ ایسی نئی کاپیاں تیار کرتے ہیں جن میں دونوں "والدین” سے کچھ جینیاتی مواد شامل ہوا کرتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ یہ نیا تغیر پہلی بار کسی شخص میں اس وقت رونما ہوا ہو گا جب وہ دونوں پیتھوجنز (جراثیم) سے متاثر تھا، اور اس دوران کرونا وائرس کی ایک قسم نے دوسری قسم (نزلے کا کرونا وائرس) سے جینیاتی مواد لے لیا۔

    ساؤنڈرراجن نے بتایا کہ ایک ہی جینیاتی تسلسل جو کئی بار کسی ایک کرونا وائرس میں ظاہر ہوتا ہے، جو لوگوں میں نزلہ زکام کا سبب بنتا ہے، اسے HCoV-229E کا نام دیا گیا ہے، یہی HIV وائرس میں بھی ظاہر ہوتا ہے جو ایڈز کا سبب بنتا ہے۔

    خیال رہے کہ اومیکرون کی پہلی بار شناخت جنوبی افریقا میں ہوئی تھی، جو دنیا میں ایچ آئی وی کی سب سے زیادہ شرح رکھتا ہے، یہ وائرس مدافعتی نظام کو کمزور کرتا ہے اور یہ لوگوں میں عام نزلے کے وائرسز اور دیگر جراثیموں سے ہونے والے انفیکشنز کا خطرہ بہت بڑھا دیتا ہے۔

  • اومیکرون پر تحقیق کا نیا ڈیٹا سامنے آگیا

    اومیکرون پر تحقیق کا نیا ڈیٹا سامنے آگیا

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے اور حال ہی میں اس پر کی گئی ایک تحقیق کے نتائج سامنے آگئے ہیں۔

    جنوبی افریقہ کے سائنسدانوں کی جانب سے جاری تحقیق میں بتایا گیا کہ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کرونا کی یہ نئی قسم بیماری کے خلاف جسم میں پیدا ہونے والی مدافعت کے خلاف کسی حد تک حملہ آور ہو سکتی ہے۔

    درحقیقت ماہرین نے جنوبی افریقہ میں ایسے افراد کی تعداد میں اضافے کو دیکھا ہے جو دوسری یا اس سے زیادہ بار کووڈ 19 سے متاثر ہوئے ہیں۔

    یہ ایک ابتدائی تجزیہ ہے اور حتمی نہیں، مگر اومیکرون کے اسپائیک پروٹین میں ہونے والی میوٹیشنز کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات سے مطابقت رکھتا ہے۔

    ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ ویکسینز سے کووڈ 19 سے ملنے والے تحفظ کے حوالے سے یہ ڈیٹا کس حد تک کارآمد ہے۔

    جنوبی افریقہ نے ہی کرونا کی اس نئی قسم کو سب سے پہلے رپورٹ کیا تھا اور دنیا بھر کے ماہرین اس کے حقیقی خطرے کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    اب اومیکرون کے حوالے سے پہلی تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں جس کے مطابق جو افراد ماضی میں کووڈ کا سامنا کرچکے ہیں، ان میں پیدا ہونے والی مدافعت ممکنہ طور پر اومیکرون سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں۔

    واضح رہے کہ اومیکرون کے کیسز اب تک 30 سے زیادہ ممالک میں سامنے آچکے ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے جنوبی افریقہ میں کووڈ ری انفیکشن کے لگ بھگ 36 ہزار مشتبہ کیسز کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی تاکہ دیکھا جاسکے کہ وبا کے دوران دوبارہ بیمار ہونے کی شرح میں کس حد تک تبدیلیاں آئی ہیں۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ سے دوبارہ متاثر ہونے کی شرح میں بیٹا یا ڈیلٹا کی لہروں کے دوران کوئی تبدیلی نہیں آئی مگر اس بار جنوبی افریقہ میں ری انفیکشن کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔

    ماہرین نے تمام مریضوں کو ٹیسٹ کر کے اومیکرون سے متاثر ہونے کی تصدیق تو نہیں مگر ان کا کہنا تھا کہ بیماری کے وقت سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ نئی قسم ہی اس کی وجہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اومیکرون میں کم از کم قدرتی بیماری کا سامنا رکھنے والے افراد کو بیمار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

    مگر یہ معمے کا ایک حصہ ہے اور ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ ویکسینز سے پیدا ہونے والی مدافعت کے خلاف یہ نئی قسم کس حد تک خطرناک ہے اور مدافعت میں کس حد تک کمی دوبارہ بیماری کا باعث بنتی ہے۔

    وائرس پر حملہ آور ہونے والی اینٹی باڈیز کے بارے میں لیبارٹری تحقیقی رپورٹس کے نتائج آئندہ ہفتے سے سامنے آنے کا امکان ہے۔

    جنوبی افریقہ میں ابھی صرف 24 فیصد افراد کی ویکسی نیشن مکمل ہوئی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی صورتحال کا سامنا ان ممالک کو بھی ہوسکتا ہے جہاں ویکسی نیشن کی شرح کم اور قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت کی شرح زیادہ ہے۔

    ماہرین نے زور دیا کہ ابھی ایسا نہیں کہا جاسکتا کہ اومیکرون ویکسین سے بننے والی مدافعت پر حملہ آور ہوسکتی ہے کیونکہ ابھی اس حوالے سے ڈیٹا موجود نہیں۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے۔