Tag: online fraud

  • لاکھوں ڈالر فراڈ میں ملوث ’ہش پپی‘ نے دنیا کو کیسے دھوکا دیا؟

    لاکھوں ڈالر فراڈ میں ملوث ’ہش پپی‘ نے دنیا کو کیسے دھوکا دیا؟

    نائجیریا سے تعلق رکھنے والے انسٹاگرام کی مشہور اور انتہائی مالدار شخصیت رامون عباس جسے "ہش پپی” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے کیسے عالمی سطح پر دھوکہ دہی کا ارتکاب کیا؟ اور بالآخر ساتھیوں سمیت پکڑا گیا۔

    یہ اپنی نوعیت کا ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ کس طرح ایک نائجیرین انفلوئنسر، شمالی کوریا کے ہیکر اور کینیڈا کے اسکیمر نے مل کر دنیا بھر میں لوگوں سے دھوکہ بازی کی اور دولت کے انبار لگا دیئے۔

    بڑے پیمانے پر فراڈ کی کارروائیوں کے باعث وہ تیزی سے ملٹی ملین ڈالر کے کاروبار کا حصہ بن رہے تھے لیکن بالآخر پھر ایک دن وہ امریکی خفیہ سروس کی نظروں میں آگئے۔

    رامون عباس قانون کی نظر میں کیسے آیا؟ 

    یہ بات نومبر 2017 کی ہے جب امریکی خفیہ ایجنسی نے ایک شخص کو گرفتار کیا جو ڈلاس، ٹیکساس کے ایک بینک میں دھوکہ دہی سے قرض حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

    اس سے یو ایس سیکرٹ ایجنسی کے عہدیدار ایجنٹ گلین کیسلر نے پوچھ گچھ کی، ملزم نے بتایا کہ اسے ایک فراڈ گروہ نے اسے اس مقصد کیلیے بھرتی کیا ہے تاکہ وہ متاثرین کی جگہ بینک سے قرضہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

    جیسے جیسے ملزم اپنے جرائم کی تفصیل بیان کرتا گیا ویسے ویسے کہانی مزید عجیب اور سنسنی خیز موڑ اختیار کرتی چلی گئی، اس نے کیسلر کو بتایا کہ اس گروہ میں ایک عالمی سازش بھی کار فرما ہے، جس میں ایک ملک بھی شامل ہے، کیسلر کو اس پر شک ہوا کیونکہ یہ سب کچھ بہت غیر حقیقی لگ رہا تھا۔

    تاہم امریکی خفیہ ایجنسی نے اس گروہ کی نگرانی برقرار رکھی، جس کے بعد یہ علم ہوا کہ یہ فراڈ گروہ ایک شخص کی زیرِ نگرانی کام کرتا تھا جس کو عرفیت میں "اوکی” سے پکارا جاتا تھا۔ اوکی نے اپنی شناخت چھپانے میں انتہائی احتیاط برتی لیکن تقریباً ایک سال کی محنت کے بعد سیکرٹ سروس کو ایک بڑی کامیابی ملی۔

    اہلکاروں کو ایک کریڈٹ کارڈ کی تصویر ملی جسے اوکی نے اپنے ایک ساتھی کو بھیجا تھا، یہاں اس نے ایک غلطی کی وہ یہ کہ اس تصویر میں اس کی ایک انگلی بھی نظر آرہی تھی۔ سیکرٹ سروس نے یہ تصویر فارنزک کیلئے لیبارٹری کو بھیجی۔

    حیرت انگیز طور پر وہ اس انگلی کے نشان کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، انہوں نے اس نشان کا امریکا کے قومی مجرمانہ ڈیٹا بیس سے موازنہ کیا جس میں انہیں ایک ریکارڈ ملا جس کی فائل پر نام غالب الاومری درج تھا۔

    غالب الاومری کینیڈا میں مقیم تھا جو ایجنسی کے دائرہ اختیار سے باہر تھا، انہیں صرف اس پر نظر رکھنی تھی اور موقع کا انتظار کرنا تھا، وہ یہ پیش گوئی بھی نہیں کر سکتے تھے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔

    اگست 2018 میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، دنیا بھر میں سینکڑوں افراد امریکہ سے لے کر برطانیہ، ترکی سے جاپان تک، ایک خفیہ مشن پر نکلے۔ وہ اے ٹی ایم مشینوں کے گرد گھومتے رہے اور مختلف اے ٹی ایم کارڈز کا استعمال کرتے ہوئے جتنا زیادہ پیسہ نکال سکتے تھے، نکالتے گئے۔

    یہ اے ٹی ایم کارڈز ان کے اپنے نہیں تھے اور نہ ہی وہ پیسے ان کے تھے یہ ایک منظم ہیکنگ کا نتیجہ تھا۔ اس نیٹ ورک کو "منی میولز” کہا گیا اور انہوں نے 28 مختلف ممالک میں بیک وقت 12ہزار بار اے ٹی ایمز سے پیسہ نکالا، جس کی مجموعی رقم 16.3 ملین ڈالر تھی، یہ پورا عمل دو گھنٹے اور 13 منٹ میں مکمل ہوگیا۔

    اے ٹی ایم کارڈز کا تعلق ایک بھارتی بینک، کاسموس کوآپریٹیو بینک کے اکاؤنٹس سے تھا، پچھلے چند ماہ میں دنیا کے سب سے ماہر ہیکرز نے اس بینک کے اے ٹی ایم سافٹ ویئر میں نقب لگالی تھی، جس سے انہیں یہ اختیار مل گیا تھا کہ وہ کسی بھی کاسموس بینک کارڈ سے دنیا بھر میں کہیں بھی کی جانے والی اے ٹی ایم سے رقم نکالنے کی اجازت دے سکیں۔

    لیکن اس حیرت انگیز طاقت کو استعمال کرنے سے پہلے انہیں دو چیزوں کی ضرورت تھی
    کاسموس کارڈز کا ایک ذخیرہ اور ایک ایسا نیٹ ورک جس کے لوگ ان کارڈز کو لے کر اے ٹی ایم مشینوں تک جائیں اور یہاں ان کی ملاقات غالب الاومری سے ہوئی۔

    الاومری کو سوئیٹ نامی ایک شخص کی جانب سے مدد کی درخواست کی گئی تاکہ کاسموس اکاؤنٹس سے منسلک ‘کلونڈ’ کارڈز تیار کیے جاسکیں جو شمالی امریکہ میں اے ٹی ایمز پر ان کارڈز کا استعمال کیئ جائیں۔ سوئیٹ اسی طرح کی کارروائیاں دیگر بیس سے زیادہ ممالک میں بھی ترتیب دے رہا تھا۔

    رامون عباس کیسے گرفتار ہوا ؟

    رامون عباس انسٹاگرام پر ہش پپی کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہاں اس کے 25 لاکھ فالوورز ہیں۔ اسے ایف بی آئی نے دنیا کا ہائی پروفائل فراڈیا قرار دیا ہے اور اسے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ کا الزام ثابت ہونے پر 20 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

    انسٹاگرام انفلوئنسر رامون عباس کو گذشتہ برس گرفتار کیا گیا تھا۔ اس نے اپنے جرائم کی شروعات نائجیریا میں یاہو بوائے کے طور پر کی اور پھر نام نہاد کروڑ پتی گوچی ماسٹر بن کر دبئی میں شاہانہ زندگی گزارنے لگا۔

    یہ جون 2020 کا دن ہے جب دبئی کے ایک انتہائی پرتعیش ہوٹل میں دنیا کے مہنگے ترین لباس پہنا 37 سالہ رامون عباس اپنے قیمتی ترین صوفے پر براجمان تھا اور برانڈڈ جوتوں اور کپڑوں سے بھری اپنی الماریوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے عروج کی بلندیوں پر بیٹھا نیچے دیکھ رہا تھا کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور دبئی پولیس اہلکاروں کی مسلح ٹیم نے اس پر دھاوا بول دیا۔،

    پولیس افسران کی ایک ٹیم اندر پہنچی، اس کا لیپ ٹاپ اور فون قبضے میں لیے، تصویریں کھینچیں اور جو کچھ بھی ملا وہ ساتھ لے گئے، عباس ان سب کے بیچ میں حراست میں کھڑا تھا اس کے ہاتھ ایک سیاہ پوش پولیس افسر نے باندھ رکھے تھے۔

    رامون عباس کون تھا؟

    رامون عباس 11 اکتوبر 1982 کو لاگوس کے ایک غریب علاقے باریگا میں پیدا ہوا۔ دیگر نوجوانوں کی طرح اس نے بھی اپنے اچھے مستقل اور روزگار کے لیے جدوجہد کی، تاہم اس نے اپنے جرائم کی ابتداء نائجیریا میں یاہو بوائے نامی گروہ میں شمولیت اختیار کرکے کی۔

    سال2009 تک الاومری نے ابتدا میں نسبتاً کم سطح کی دھوکہ دہی اور کریڈٹ کارڈ کے جرائم کے بعد اس نے کام کو جدید طریقے پر ڈھالتے ہوئے آن لائن کام کا آغاز کیا اور ’ڈارک ویب‘ کو متعارف کرایا۔

    یہاں اس نے دوسرے سائبر کرمنلز کو مالی جرائم کی خدمات فراہم کیں۔ اس نے جو انڈر ورلڈ نام چنا، وہ اس کی بڑائی کو ظاہر کرتا ہے، یعنی الاومری ’بگ باس‘ بن گیا۔

    سال 2012 میں اس نے انسٹاگرام اکاؤنٹ بنایا جس کے ذریعے لاکھوں فالوورز اسے ایک نام ‘ہش پپی’ سے جاننے لگے۔

    وہ سوشل میڈیا کے انفلوئنسرز کی صف میں اوپر اٹھتا چلا گیا اس نے اپنی بڑھتی ہوئی دولت اور شاہانہ طرز زندگی کی تصاویر پوسٹ کرکے خصوصاً نوجوان نسل کو اپنی جانب راغب کیا۔

    سال 2017تک عباس اس مقام تک پہنچ چکا تھا جو نہ صرف دولت کی تشہیر کے لیے ایک مثالی جگہ بن گئی تھی۔

    بظاہر وہ ایک کامیاب سوشل میڈیا انفلونسر کی کہانی کی طرح نظر آتا تھا جبکہ حقیقت میں اس کی زندگی سنگین قسم کے سائبر کرائم سے بھرپور تھی۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق عباس پر الزام ہے کہ اس نے لوگوں کا مجموعی طور پر 24 ملین امریکی ڈالرز کا نقصان کیا لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اصل رقم اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

    اس پر بیرون ملک منی لانڈرنگ کے جرائم، اکاؤنٹ ہیک کرنے، آن لائن دھوکہ دہی کے لیے بہروپیا بننے، ای بینکنگ کے ذریعے رقم نکالنے اور مختلف لوگوں کے شناختی کارڈ چوری کرکے انہیں آن لائن دھوکہ دہی کے جرائم میں استعمال کرنے کے الزامات ہیں جو سچ ثابت ہوئے اور آج وہ سلاخوں کے پیچھے اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہے۔

  • منافع کے چکر میں نوجوان ’آن لائن ٹریڈرز‘ کا شکار کیسے بنا ؟

    منافع کے چکر میں نوجوان ’آن لائن ٹریڈرز‘ کا شکار کیسے بنا ؟

    کراچی : سوشل میڈیا موجودہ دور میں ہماری روز مرہ کی ضروریات کا حصہ بنتا جارہا ہے، بدقسمتی سے اس کا استعمال اب دھوکہ دہی کیلئے بھی کیا جارہا ہے جس سے بچنے کیلئے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان سمیر نے سوشل میڈیا پر ایک ایپ کے ذریعے اپنے لُٹ جانے کا واقعہ ناظرین کو بتایا۔

    انہوں نے بتایا کہ میں نے ’آن لائن ٹریڈر‘ کے نام سے ایک آئی ڈی کو فالو کیا ہوا تھا جہاں پر لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے روزانہ کسی نہ کسی کو کئی ہزار روپے منافع کی خبریں جاری کی جاتی تھیں۔

    سمیر نے بتایا کہ اس کام کا قانون یہ تھا کہ کم سے کم سو ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا ضروری تھی میں نے بھی آغاز میں سو ڈالر دیئے تو اگلے 24 گھنٹے میں ایک سو بیس ڈالر میرے اکاؤنٹ میں آگئے۔

    نوجوان کا کہنا تھا کہ 5روز تک میں اس آئی ڈی کو مانیٹر کرتا رہا اور پھر 500 ڈالر یعنی ایک لاکھ چالیس ہزار روپے جمع کرائے تو اگلے 24ویں گھنٹے میں مجھے بلاک کردیا گیا اور میری ساری رقم ڈوب گئی۔

    سوشل میڈیا پر دھوکہ بازی سے کیسے بچا جائے؟

    یاد رکھیں کہ سوشل میڈیا پر دھوکے بازوں سے بچنے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ایسے کسی بھی رابطہ کار کے کسی سوال یا بات کا جواب نہ دیا جائے۔ ٹیلیفون اور کبھی ای میل بھیج کر نجی معلومات کے حصول کے لیے رابطہ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ایسی ای میل بھی نہ کھولی جائے جو نا معلوم ذرائع کی جانب سے بھیجی گئی ہو۔

    مختلف بینکوں کے ’لوگو‘ کے ذریعے ملنے والے پیغامات سے بھی ہوشیار رہیں اور مکمل طور پر ہوشیار رہیں تاکہ دھوکہ نہ کھاسکیں، دھوکہ باز عناصر یہ طریقہ واردات انسانی نفسیات سے کھیلنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

  • سعودی عرب: آن لائن دھوکا دہی پر ایک کروڑ ریال کا جرمانہ

    سعودی عرب: آن لائن دھوکا دہی پر ایک کروڑ ریال کا جرمانہ

    ریاض: سعودی عرب میں 11 ملین ریال کا فراڈ کرنے والے 2 افراد کو 28 برس قید اور 1 کروڑ ریال جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی پبلک پراسیکیوشن کا کہنا ہے کہ دھوکا دہی سے رقم ہتھیانے والے 2 افراد کو 28 برس قید اور ایک کروڑ ریال جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔

    پبلک پراسیکیوشن کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ مالی دھوکہ دہی کی رپورٹ ملنے پر سعودی شہری اور مقیم غیر ملکی سے پوچھ گچھ کی گئی۔

    ملزمان سعودی عرب کے باہر ایک گروہ کے ساتھ ساز باز کیے ہوئے تھے اور ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر پروگرامنگ کے ذریعے آن لائن وارداتیں کر رہے تھے۔

    ملزمان مالیاتی دھوکہ دہی کے ذریعے 11 ملین ریال سے زیادہ کی رقم ہتھیا چکے تھے۔

    پنلک پراسیکیوشن کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ دونوں ملزمان کو پوچھ گچھ کے بعد اسپیشل کورٹ کے حوالے کردیا گیا۔

    عدالت نے الزام ثابت ہوجانے پر دونوں کو 14، 14 سال قید اور 5، 5 ملین ریال جرمانے کی سزا سنائی، دھوکہ دہی میں استعمال ہونے والی ڈیوائسز بھی ضبط کرنے کا حکم دیا گیا۔

    پبلک پراسیکیوشن کا کہنا ہے کہ مالیاتی دھوکہ دہی کے جرائم کو روکنے کے سلسلے میں پرعزم ہیں، کسی بھی شخص کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہوگی۔

  • جعلی ادارے اور آن لائن فراڈ میں ملوث گروہ کا کارندہ گرفتار

    جعلی ادارے اور آن لائن فراڈ میں ملوث گروہ کا کارندہ گرفتار

    اسلام آباد : ایف آئی اے اسلام آباد زون نے ٹیکنیکل بورڈ، ٹریننگ کونسل کے نام سے جعلی ادارہ چلانے والوں کیخلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے گروہ کے اہم رکن کو گرفتار کرلیا۔

    اس حوالے سے ترجمان ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملزم عدنان رشید ٹیکنیکل بورڈ، ٹریننگ کونسل کے نام سے جعلی ادارہ چلانے میں ملوث ہے، ملزم کو ای الیون اسلام آباد سے خفیہ اطلاع پر گرفتار کیا گیا۔

    ملزم نے ساتھی کی مدد سےعام شہریوں سے بھاری رقم اینٹھی، ملزمان نے جعلی نرسنگ، انجینئرنگ ڈپلومہ، ڈگریاں اور اسلحہ رسیدیں جاری کیں، دھوکہ باز گروہ نے ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کے نام سے جعلی ویب سائٹس بھی بنا رکھی تھیں۔

    ایف آئی اے کے مطابق ملزم اسلحہ ڈیلرز سے مل کر بغیر خریداری رسیدیں بنانے میں بھی ملوث تھا، ملزم مختلف پرنٹنگ پریس سے جعلی ڈگریاں بھی بنواتا تھا، دوران تلاشی دفتر سے جعلی ڈگریاں، نرسنگ سرٹیفکیٹ، جعلی لائسنس اور اسلحہ رسیدیں برآمد ہوئی ہیں۔

    ملزم سے سرکاری اداروں، مختلف ایمبیسی، تعلیمی بورڈز، فارن آفس کی جعلی مہریں بھی برآمد ہوئی ہیں، ملزم نے آن لائن داخلے کے نام پر بھاری فیسیں وصول کی ہوئی تھیں۔

    ترجمان ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملزم عدنان رشید سمیت 5 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، دیگر ملزمان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں، جعلی،غیرقانونی تعلیمی اداروں کیخلاف بلاامتیاز کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔

  • آن لائن فراڈ سے بچنا ہے تو دبئی پولیس کے ان مشوروں پر عمل کریں

    آن لائن فراڈ سے بچنا ہے تو دبئی پولیس کے ان مشوروں پر عمل کریں

    آن لائن جعلسازی آج دنیا بھر کا بڑا مسئلہ بن گیا ہے دبئی پولیس نے عوام کو ان فراڈیوں سے بچنے کے لیے 4 مشورے دیے ہیں۔

    دنیا گلوبل ولیج بننے کے بعد اب ڈیجیٹل ہوکر آپ کے ہاتھوں میں موجود چند انچ کے موبائل میں قید ہوگئی ہے، اس دنیا میں ہر روز ہونے والی ترقی نے جہاں لوگوں کے لیے زندگی کو آسان بنایا ہے وہیں جعلسازی کے ایسے دروازے بھی کھول دیے ہیں جس کے ذریعے فراڈی نہ صرف سادہ لوح بلکہ پڑھے لکھے لوگوں کو بھی اپنے جال میں پھنسا کر انہیں لوٹ لیتے ہیں۔

    اکثر آپ کو بھی آپ کے موبائل فون پر بھی ایسی کالز یا میسیجز آتے ہوں گے جن میں آپ کو کسی ٹی وی گیم شو میں بڑے انعام یا سرکاری فلاحی پروگراموں میں امدادی رقوم ملنے کے حوالے سے خوشخبریاں ملتی ہوں گی، یا کوئی خود کو کسی بینک کا ملازم ظاہر کرکے آپ  سے ذاتی معلومات  لینا چاہتا ہوگا۔

    کئی لوگ ایسے نوسربازوں کا نشانہ بھی بن چکے ہوں گے مگر اب دبئی پولیس نے چار نکات پر مشتمل ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس پر عمل کرکے لوگ اس آن لائن جعلسازی سے بچ سکتے ہیں۔

    دبئی پولیس نے ٹوئٹر پر ایک خصوصی تھریڈ مہم کے ذریعے عوام میں سائبر کرائم کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کی مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس میں چار ایسے طریقے بتائے گئے ہیں جن کو اپنا کر وہ ان جعلسازوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

    سائبر سیکیورٹی ایجنسی کے مطابق شہری انجان نمبروں سے آنیوالی ٹیلیفون کالز پر کسی کو بھی اپنی ذاتی معلومات فراہم نہیں کریں، کیونکہ پولیس سمیت کوئی بھی سرکاری ادارہ کسی سے اس کی ذاتی معلومات لینے کا مجاز نہیں۔

    عوام اپنے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات بھی کسی سے شیئر نہ کریں جبکہ بینک سے متعلق کسی بھی مشتبہ آن لائن لنکس پر کلک کرنے سے بھی بچیں۔

    سیکیورٹی حکام نے عوام الناس کو جعلسازوں کی جانب سے دی جانیوالی پرکشش آفرز کے بارے میں بھی خبردار رہنے کا انتباہ دیا ہے، کیونکہ اکثر فراڈی عوام کو انعامات کا لالچ دے کر بھی لوٹتے ہیں۔

    حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر کسی کی ذاتی معلومات چوری یا اکاؤنٹ سے رقم چوری ہوتو اس کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں۔

  • پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے ذریعے 10کروڑ ڈالر کا آن لائن فراڈ، ایف آئی اے  کا بڑا ایکشن

    پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے ذریعے 10کروڑ ڈالر کا آن لائن فراڈ، ایف آئی اے کا بڑا ایکشن

    کراچی : پاکستان میں آئن لائن اپیلکیشن کے ذریعے 10 کروڑ ڈالر کے فراڈ پر کرپٹو کرنسی ایکسچینج کمپنی کو پہلی بار نوٹس جاری کردئیے گئے، کرپٹو کرنسی کی آڑ میں پاکستانی شہریوں سے 18 ارب سے زائد روپے کے فراڈ کا انکشاف ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم نے پاکستان میں آن لائن دس کروڑ ڈالر کے فراڈ پر ایکشن لیتے ہوئے کرپٹو کرنسی ایکسچینج کو نوٹس جاری کردیا۔
    .
    ایف آئی اے سائبر کرائم سندھ کے سربراہ عمران ریاض نے بتایا فراڈ کرنے والوں نے رقم کرپٹو کرنسی کے زریعے بیرون ملک منتقل کی ، اس حوالے سے ایف آئی اے سائبر کرائم کو 9 آن لائن اپلیکیشن کے زریعے اربوں روپے فراڈ کرنے کی شکایات ملیں۔

    عمران ریاض کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں سے اربوں روپے کا فراڈ آن لائن ایپلی کیشنز کے ذریعے کیا گیا اور یہ آن لائن ایپلی کیشنز کرپٹو کرنسی کی عالمی ایکسچینج بائینانس سے جڑی تھیں۔

    ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے بائینانس کے پاکستان میں جنرل منیجر کو نوٹس جاری کر دیا ہے، اس کے علاوہ ایف آئی اے نے امریکا اور کے مین آئی لینڈ میں بائینانس کے ہیڈکوارٹرز کو بھی نوٹسز بھیجے ہیں۔

    ایف آئی اے کی جانب سے بھیجے گئے نوٹسز میں کہا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر کرپٹو کرنسی سے ٹیرر فنانسنگ اور منی لانڈرنگ بھی ہو رہی تھی، پاکستان میں 11 موبائل فون ایپلی کیشنز بائینانس سے رجسٹرڈ تھیں،۔ جن کے ذریعے فراڈ ہوا۔

    سربراہ ایف آئی اے سائبر کرائم نے بتایا 11 موبائل فون ایپلی کیشنز دسمبر میں اچانک بند ہو گئیں، جن پر ہزاروں پاکستانی رجسٹرڈ تھے، ان ہزاروں پاکستانیوں نے ان ایپلی کیشنز پر اربوں روپے لگا رکھے تھے۔

    عمران ریاض کا کہنا تھا کہ ایپلی کیشنز کے ذریعے ابتدا میں ورچوئل کرنسیز میں کاروبار کی سہولت دی جاتی تھی، بٹ کوائن، ایتھرام، ڈوج کوائن وغیرہ میں سرمایہ کاری بائینانس کے ذریعے ظاہر کی جاتی تھی جبکہ ایپلی کیشنز کے ٹیلی گرام اکاوٴنٹ پر ماہرین کرپٹو کرنسی پر جوا بھی کھلاتے تھے۔

    انھوں نے مزید بتایا کہ ایک ایپلی کیشن پر 5 سے 30 ہزار کسٹمر اور سرمایہ کاری 100 سے 80 ہزار ڈالر تھی، ایپلی کیشنز کے ذریعے عوام کو مزید افراد کو لانے پر بھاری منافع کا لالچ دیا جاتا تھا۔

    سربراہ سائبر کرائم ونگ نے کہا کہ ایف آئی اے کو بائینانس کے 26 مشتبہ بلاک چین والٹ ملے، جن پر رقوم ٹرانسفر ہوئیں، بینانس نامی کرپٹو کرنسی ایکسچینج سے ایف آئی اے سائبر کرائم سے تمام افراد کا ریکارڈ طلب کیا ہے اور کہا ہے کہ جن افراد نے فراڈ کیا ان کی کرنسی کو بلاک کیا جائے۔

    عمران ریاض کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے پاکستان سے بائینانس کے ذریعے ہونے والی ٹرانزیکشن کی چھان بین کر رہی ہے، بائینانس ٹیرر فائنانسنگ اور منی لانڈرنگ کے لیے آسان راستہ ہے، امید ہے بائینانس ان مالی جرائم کی تحقیقات میں پاکستان سے تعاون کرے گا۔

  • سعودی عرب : شہری آن لائن فراڈ سے کیسے بچیں؟ جانیے

    سعودی عرب : شہری آن لائن فراڈ سے کیسے بچیں؟ جانیے

    ریاض : دھوکہ بازوں کی جانب سے آن لائن پیغامات اور اشتہارات ڈیجیٹل دنیا میں عام ہیں اس لیے یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ کچھ سعودی شہری ان کا شکار ہو رہے ہیں۔

    کچھ واقعات میں یہ دھوکے باز لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ان کی رقوم خطرے میں ہے اور کچھ دوسرے میں یہ پیسے کمانے کے آسان طریقے بتاتے ہیں۔

    عرب نیوز کے مطابق حال ہی میں کچھ لوگوں کو میسیجز بھیج کر بتایا گیا کہ ان کے بینک اکاؤنٹس خطرے میں ہیں اور ان کو محفوظ بنایا جائے اور اس طریقے سے ان سے نجی معاشی تفصیلات حاصل کی گئیں۔

    ایک اور طریقے میں مملکت کے بااعتماد اداروں جیسے کہ سعودی عریبین مانیٹری اتھارٹی (ساما) یا پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے نام سرمایہ کاری کے جعلی اشتہارات میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

    ریٹائرڈ انجینیئر ایم المنصوری اس دن کو پچھتا رہے ہیں جب انہوں نے ایک ایسی ٹیلی فون کال پر جواب دیا تھا جس میں کسی نے ایک سرکاری ادارے سے کال کرنے کا دعوٰی کیا تھا۔ بالآخر انہیں 50 ہزار سعودی ریال کا نقصان اٹھانا پڑا۔

    اس فون کال پر جس خاتون سے ان کی بات ہوئی انہوں نے ان کو بتایا تھا کہ ان کی ذاتی معلومات بشمول سعودی شناخت کی تفصیلات اور بینک کارڈ کے آخری چار ہندسوں کی تصدیق کرنی ہے۔

    المنصوری نے بتایا کہ آدھے گھنٹے سے کم وقت میں مجھے ایس ایم ایس پیغامات ملے کہ میرے بینک کارڈ کی تفصیلات پیسے حاصل کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھیں۔

    میں نے سمجھا کہ کچھ غلطی ہو گئی ہے لیکن میسیج آنا بند نہیں ہوئے اور مجھے اچانک پتہ چلا کہ میرے اکاؤنٹ سے 50 ہزار سعودی ریال نکال لیے گئے ہیں۔

    سعودی عرب

    سعودی بینکس کے ترجمان طلعت ذکی حافظ نے عرب نیوز کو بتایا کہ دھوکے باز سوشل انجینیئرنگ کے ذریعے اور انسانی غلطی کا فائدہ اٹھا کر ذاتی تفصیلات تک رسائی حاصل کر کے ممکنہ سرمایہ کاروں کو لالچ دیتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ طریقہ دھوکے بازوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے متاثرین کو آہستہ آہستہ راغب کریں اور اپنے فراڈ کو مکمل کرنے کے لیے ان سے ذاتی اور بینک سے متعلقہ معلومات حاصل کریں۔

    وہ یہ طریقہ بڑے پیمانے پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ سرکاری نام اورموثر افراد کے نام استعمال کر کے اپنی جعلسازی کی طرف راغب کر کے۔

    خوش قسمتی سے فراڈی میلز، پیغامات اور ویب سائٹس پر دھوکے بازوں کی جانب سے استعمال کیے گئے کئی طریقوں کے بارے میں عوامی آگاہی بڑھ رہی ہے۔

    جب ایچ الروائق نے ایک ای میل وصول کی جس میں ایک اجنبی نے ایک سعودی خیراتی فاونڈیشن میں کام کرنے کا دعوٰی کیا اور ان کو ایک لاکھ ڈالر منتقل کرنے کی پیشکش کی تو انہیں فورا شک ہو گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ مجھے اسی وقت پتہ چل گیا کہ یہ کسی قسم کا دھوکہ ہے اور میں نے جواب نہیں دیا۔ میں نے اس ای میل کو بس نظر انداز کر دیا۔

    دھوکے بازوں کی جانب سے خطرات کے بارے میں آگاہی رکھنے والے اے ال انازی اکثر اپنے کولیگز کو ایسے افراد کے بارے میں تنبیہہ کرتے رہتے ہیں جو بغیر کسی تعلق کے کال کرتے ہیں اور کسی انویسٹمنٹ کمپنی جو بیرون ملک سرمایہ کاری کرتی ہے کا بتاتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے ایک شخص نے ان کی نصیحت پر عمل نہیں کیا اور ایک سرمایہ کاری سے ماہانہ منافع کے دعوے سے دھوکہ کھا کر ہزاروں ریال گنوا بیٹھا۔ جب اس کو اندازہ ہوا کہ یہ دھوکہ ہے تو اس نے سودا منسوخ کرنے کی کوشش کی اور اپنی رقم واپس مانگی لیکن اس کو جواب نہیں ملا۔

    ایک فنانشل ایڈوائزر ابراہیم عدوسری کہتے ہیں کہ دھوکے بازوں نے غیر مشکوک متاثرین کو لوٹنے کے لیے نفیس مہارت حاصل کر لی ہے اور وہ اکثرناقابل یقین حد تک قائل کر سکتے ہیں۔ جو لوگ پہلے ہی معاشی دباؤ میں ہوتے ہیں وہ بآسانی ایسے دھوکوں کا شکار بن سکتے ہیں۔

    وہ جلدی امیر ہونے والی سکیموں کے ذریعے اپنے مسائل کے خاتمے کے موقعے کے لالچ میں آ جاتے ہیں اورتنبیہی اشاروں کو نظر انداز کر کے کسی سے مشورہ کرنے یا تحقیق کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

    عدوسری کا کہنا تھا کہ متاثرین کی ایک بڑی تعداد جلدی میں ہوتی ہے اور ماہرین سے مشورہ کیے بغیر جلدی میں فیصلے کرتی ہے۔
    کالرز جو کہتے ہیں متاثرین ان پر یقین کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ خاص کر جب کال کرنے والی خواتین ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دھوکے باز ان طریقوں میں خواتین کو استعمال کرتے ہیں۔

    ایک اور وجہ متاثرین کی سرمایہ کاری کے متعلق آگاہی اورعلم کی کمی ہے۔ ان میں سے بہت سے نہیں جانتے کہ فائدے اور نقصان میں ایک تعلق ہے اور یہ تعلق ان دونوں میں براہ راست ہے۔

    عدوسری نے کہا کہ عوام میں مالی دھوکے بازیوں کے متعلق آگاہی پھیلانا اہم ہے اور اس سلسلے میں حکام کی کوششوں کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے اس قسم کے دھوکوں سے آگاہی حاصل کرنے والوں سے کہا کہ وہ اس کو 330330 پر کال کر کے رپورٹ کریں۔

    میں سمجھتا ہوں کہ دھوکے کا جرم ایک فرد کی ذمہ داری ہے نہ کہ ریاست کی۔ کئی حکومتی اداروں بشمول ساما نے عوام سے رقم لوٹنے کے لیے پیغامات میں اپنا نام استعمال کیے جانے کے متعلق انتباہ کے لیے آگاہی مہم شروع کی ہے۔ مالی ماہرین کے مطابق آگاہی پھیلانا لوگوں کو فراڈ سے بچانے کے لیے موثر ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔

    ساما کے مطابق لوگوں سے بینک کی تفصیلات کے لیے بھیجے جانے والے جعلی پیغامات میں اضافہ ہوا ہے۔ جعلساز اکثر ایک حکومتی ادارے سے تعلق ظاہر کر کے لوگوں کو کہتے ہیں کہ ان کے ذمے رقم واجب الادا ہے اور انہیں ایک لنک پر کلک کر کے اپنی بینک کی معلومات اپڈیٹ کرنی ہیں۔

    اگر وہ ایسا کریں تو ان کی معلومات خطرے میں ہوتی ہیں۔ ساما کا کہنا ہے کہ بینک کی تفصیلات راز میں ہوتی ہیں اور ان کو کبھی ظاہر نہیں کیا جانا چاہیے۔

    پی آئی ایف (پبلک انویسٹمنٹ فنڈ)، جو مملکت کا خودمختارفنڈ ہے، نے بھی فراڈ میں اپنا نام استعمال کیے جانے کے متعلق تنبیہہ جاری کی ہے۔

    اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ادارے نے زور دیا ہے کہ وہ افراد کو براہ راست کوئی مالی یا سرمایہ کاری کے متعلق مشورہ نہیں دیتے اور عوام کو ہدایت کی کہ صرف قابل اعتماد سرکاری ذرائع سے حاصل کردہ معلومات پر ہی انحصار کریں۔

    فارن ایکسچینج مارکیٹ میں غیر مجاز سکیوریٹیز کی سرگرمیوں پر قائمہ کمیٹی نے عوام کو تنبیہہ کی ہے کہ غیر لائسنس کاروبار جو جعلی سرمایہ کاری، کرنسی کی منتقلی اور فاریکس میں دوسری غیر قانونی سرگرمیوں کی پیشکش کرتے ہیں، سے محتاط رہیں۔

    لیگل کنسلٹنٹ ترکی الرشید کا کہنا ہے کہ سزا یافتہ دھوکے بازوں کو متعدد متوقع سزاوؤں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جتنا مشکل فراڈ ہو گا اتنا زیادہ جرمانہ ہو گا۔ یہ خاص کر بین الااقوامی فراڈ جس میں منی لانڈرنگ اور منشیات کی اسمگلنگ شامل ہے کے بارے میں سچ ہے۔

    کچھ فراڈ ثابت کرنا مشکل ہوسکتا ہے جیسے کہ بینک ٹرانسفرز اور بغیر ثبوت کے کانٹریکٹ۔ الرشید نے لوگوں سے کہا کہ کسی بھی زیرغور مالی معاہدے کے متعلق ماہرانہ رائے حاصل کریں۔ اوربڑے بڑے وعدوں یا فیس ویلیو پر اعتماد نہ کریں۔

    سٹریٹیجی ایکس کے مینیجنگ پارٹنر اور سعودی فنانشل ایسویس ایشن کے بورڈ مینیجر محمد علی اصلاطین کا کہنا ہے کہ حکام کو دھوکے بازوں کے طریقوں کے متعلق عوام کو باقاعدگی سے بتانا اور آگاہی پھیلانا چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ کہ روائتی اور الیکٹرونک میڈیا کو بھی مانیٹرنگ اور فراڈ کے واقعات کو فورا رپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جن اداروں کا نام دھوکے باز استعمال کر رہے ہیں ان کو لوگوں کو دھوکے سے بچانے کے لیے اپنے کلائنٹس کوضرور بتانا چاہیے۔

  • آن لائن ریفرل کے نام پر عوام کو لاکھوں روپے کا چونا لگ گیا

    آن لائن ریفرل کے نام پر عوام کو لاکھوں روپے کا چونا لگ گیا

    آن لائن ریفرل کے نام پر ویب سائٹ بنا کر عوام سے لاکھوں روپے لوٹ لئے گئے۔

    شاطر لوگوں نے ویب سائٹ لانچ کی جو آن لائن اکاونٹ کھلوانے کے بعد لوگوں کو ماہانہ منافع دیتی تھی، ویب سائٹ کا ممبر بننے کے لئے نجی بینک میں اکائونٹ کھلوایا جاتا تھا۔

    متاثرین کا کہنا ہے کہ اکاونٹ ہولڈرز کو اپنے جاننے والوں کو ویب سائٹ پر لانے کے بعد زیادہ منافع ملتا تھا، پہلے مرحلے میں صارفین کو اچھا منافع دیا گیا،لاکھوں افراد کے پیسے بٹورنے کے بعد ویب سائٹ بند کر دی گئی، متاثرین  نے بتایا کہ ایف آئی اے میں شکایت درج کروانے کے باوجوود کارروائی نہیں ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے پاس سائبر کرائم روکنے کے لئے قانون ہی موجود نہیں، بڑھتے ہوئے سائبر جرائم پر قابو پانے کے لئے مؤثر قانون سازی وقت کی اہم ضرورت بن گئی ہے۔

  • انٹرنیٹ صارفین سے کئے جانے والے بڑے فراڈ

    انٹرنیٹ صارفین سے کئے جانے والے بڑے فراڈ

    لندن: انٹرنیٹ کی دنیا میں اب وہ سب کام ممکن ہیں جو کبھی صرف حقیقی دنیا کا حصہ تھے، تفریح اور معلومات سے لے کر کاروبار تک آن لائن ہورہا ہے اور بالکل حقیقی دنیا کی طرح آن لائن دنیا میں فراڈ اور دھوکہ بازی بھی ایک حقیقت ہے، جیسے اکثر انٹرنیٹ صارفین ابھی اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن جب بھی انٹرنیٹ استعمال کریں تو یہ باتیں ذہن میں رکھیں کیونکہ  انٹرنیٹ پر آن لائن دھوکہ بازیوں اور فراڈ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

    انٹرنیٹ پر آن لائن شاپنگ کیلئے استعمال ہونے والے کریڈٹ کارڈ یا بینک اکاﺅنٹ کی معلومات چوری کرکے فراڈ کیا جاتا ہے

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ پر ادائیگی کے باوجود اشیاء پہنچائی نہیں جاتی ہیں یا گھٹیا کوالٹی کی اشیاء دے دی جاتی ہیں۔

    بعض ویب سائٹوں پر خریداری سے قبل ایڈوانس رقم کا تقاضہ کیا جاتا ہے جو دھوکے سے ہتھیالی جاتی ہے۔

    بعض اوقات فراڈ کرنے والے اصل ویب سائٹوں سے ملتی جلتی جعلی ویب سائٹس بنا کر عوام کو لوٹتے ہیں۔

    وائرس اور سپائی ویئر پروگراموں کے ذریعے قیمتی معلومات چوری کرلی جاتی ہیں۔

    بعض ویب سائٹوں پر خریداری سے قبل ایڈوانس رقم کا تقاضہ کیا جاتا ہے جو دھوکے سے ہتھیالی جاتی ہے۔

    بعض اوقات فراڈ کرنے والے اصل ویب سائٹوں سے ملتی جلتی جعلی ویب سائٹس بنا کر عوام کو لوٹتے ہیں۔

    آج کل سوشل میڈیا کا استعمال عام پے ، سوشل میڈیا ویب سائٹوں پر دوستی قائم کرکے رقم لوٹی جاتی ہے۔  سوشل میڈیا اور ای میل پاس ورڈ کی چوری کا فراڈ بھی عام پایا جاتا ہے۔

    انٹرنیٹ پر جعلی ٹکٹوں کی فروخت بھی فراڈ کا ایک عام طریقہ ہے۔

      بعض اوقات فراڈ کرنے والے کسٹمر کا روپ دھار کر کمپنیوں سے اشیاء منگواکر ادائیگی کئے بغیر غائب ہوجاتے ہیں۔

    ایسی اشیاء یا عمارتیں کرائے کیلئے پیش کردی جاتی ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔