Tag: opinion

  • ’بچے جتنے بھی ہوں ان کی تربیت ہوجاتی ہے‘ یاسر حسین 12 بچوں کے خواہمشند

    ’بچے جتنے بھی ہوں ان کی تربیت ہوجاتی ہے‘ یاسر حسین 12 بچوں کے خواہمشند

    پاکستان شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار یاسر حسین نے کہا ہے کہ مجھے بچے بہت پسند ہیں اور بچے جتنے بھی ہوں ان کی تربیت ہو ہی جاتی ہے۔

    یاسر حسین ایک اداکار، ہدایت کار، مصنف اور پروڈیوسر ہیں، انہوں نے تھیٹر، ڈراموں اور فلموں میں کام کیا، ان کی شادی پاکستان کی سپر اسٹار اقرا عزیز سے ہوئی اور یہ جوڑا ایک بیٹے کبیر حسین کے والدین ہیں۔

    یاسر کا تعلق ایک بڑے خاندان سے ہے اداکار کے 11 بہن بھائی ہیں جنہوں نے سخت محنت سے اپنی زندگی میں کامیابیاں حاصل کیں۔

    حال ہی میں اداکار یاسر نے ایک نجی ٹی وی چینل کے شو میں شریک ہوئے، جہاں انہوں نے مختلف موضوعات پر کھل کر گفتگو کی۔

    پروگرام کے دوران یاسر حسین نے کہا کہ ہم 12 بہن بھائی ہیں اور میں ان سب  میں سب سے چھوٹا ہوں، اتنے بہن بھائی ہونے کے باوجود بچپن بہت پرسکون تھا، ہمارے گھر میں ایک ہی باتھ روم تھا اور  ہم سب بہن بھائی ایک ہی باتھ روم استعمال کرتے تھے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Yasir Hussain (@yasir.hussain131)

    یاسر حسین کی بات ہوسٹ نے سوال کیا کہ آپ کے نزدیک لوگ جدید دور میں 12 بچوں کی ذمہ داری نبھاسکتے ہیں؟ جس پر یاسر نے کہا بخوبی نبھاسکتے ہیں اور آج بھی ایسے لوگ ہیں جن کے 12، 12 بچے ہیں۔

    اس پر ہوسٹ نے کہا کیا آپ اور اقرا جیسے مصروف انسان 12 بچے چاہیں گے؟ یاسر نے ہسنتے ہوئے خوشی سے کہا ’آپ کے منہ میں گھی شکر‘، بچے جتنے بھی ہوں ان کی تربیت ہوجاتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود ڈرامے نہیں دیکھتے، اقرا عزیز اپنے ڈرامے الگ بیٹھ کر دیکھتی ہیں، اس لیے وہ ان کے کام میں کبھی کوئی برائی نہیں نکالتے، ان کے بقول، شوہر کو بیوی کے کام میں کبھی برائی نہیں نکالنی چاہیے۔

    واضح رہے کہ یاسر حسین اور اقرا عزیز نے دسمبر 2018 میں شادی کی تھی، دونوں کے ہاں جولائی 2021 میں پہلے بیٹے کبیر حسین کی پیدائش ہوئی تھی۔

    بچے زیادہ ہونے چاہئیں: یاسر حسین

  • افغانستان میں امن کے شراکت دار بنیں گے، لیکن امریکا کو فوجی اڈے نہیں دیں گے: وزیر اعظم

    افغانستان میں امن کے شراکت دار بنیں گے، لیکن امریکا کو فوجی اڈے نہیں دیں گے: وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر دو ٹوک لہجے میں کہہ دیا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن کا شراکت دار بننے کے لیے تیار ہے، لیکن امریکا کو فوجی اڈے فراہم نہیں کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے افغانستان میں مفادات مشترکہ ہیں، دونوں ممالک افغانستان میں سیاسی مفاہمت اور معاشی ترقی چاہتے ہیں۔

    وزیر اعظم نے لکھا کہ تاریخ گواہ ہے افغانستان کو باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، فغانستان میں کسی بھی فوجی تسلط کے حامی نہیں، فوجی تسلط سے افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ ہے۔ خانہ جنگی کی صورت میں مزید مہاجرین کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    انہوں نے لکھا کہ ہم نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے سفارتی کوششیں کیں، افغانستان میں طالبان کو بھی حکومت سازی میں شریک کیا جائے، امریکا 20 سال میں جنگ نہیں جیت سکا تو اڈے دینے سے کیا فرق پڑے گا۔

    وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکا کو فوجی اڈے فراہم کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، امریکا کو اڈے دیے تو دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا، افغان جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان کو 150 ارب ڈالر سے زائد نقصان ہوا، امریکا نے صرف 20 ارب ڈالر دیے۔

    انہوں نے کہا کہ علاقائی تجارت اور معاشی رابطوں سے افغانستان میں امن کو فروغ ملے گا، طالبان نے فوجی کامیابی کا اعلان کیا تو اس سے مزید خون ریزی ہوگی، توقع ہے افغان حکومت مذاکرات میں لچک کا مظاہرہ کرے گی۔ امریکا سے مل کر افغانستان میں امن کے شراکت دار بننے کے لیے تیار ہیں۔

  • افغانستان سے جلد بازی میں انخلا غیر دانشمندانہ ہوگا: وزیر اعظم

    افغانستان سے جلد بازی میں انخلا غیر دانشمندانہ ہوگا: وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کا انعقاد جبر کے تحت نہیں کیا جانا چاہیئے، افغانستان سے جلد بازی میں انخلا غیر دانشمندی ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں مضمون لکھتے ہوئے کہا کہ دوحہ مذاکرات سے افغان جنگ خاتمے کے قریب ہے، افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہے۔ افغانستان سے جلد بازی میں انخلا غیر دانشمندی ہوگا۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان اور خطے کے لیے امید کا سنہری موقع ہے، افغان عوام کے بعد سب سے زیادہ قیمت پاکستانی عوام نے چکائی۔ پاکستان نے 40 لاکھ مہاجرین کی دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھائی۔

    انہوں نے کہا کہ افغان جنگوں کے باعث پاکستان میں اسلحہ اور منشیات پھیلی، امن مذاکرات کا انعقاد جبر کے تحت نہیں کیا جانا چاہیئے، پاکستان افغان میں فریقین پر تشدد میں کمی پر زور دیتا ہے۔

    اپنے مضمون میں وزیر اعظم نے لکھا کہ افغان حکومت نے طالبان کو بطور سیاسی حقیقت تسلیم کیا، امید ہے طالبان بھی افغانستان کی پیشرفت کو تسلیم کریں گے۔ پاکستان افغانستان کو عالمی دہشت گردی کی پناہ گاہ بنتے نہیں دیکھنا چاہتا۔

    وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ آزاد اور خود مختار افغانستان کی جدوجہد میں افغان عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔

  • قطر بحران کا خاتمہ چاہتا ہے تو اپنے مؤقف پر نظرثانی کرے، انور قرقاش

    قطر بحران کا خاتمہ چاہتا ہے تو اپنے مؤقف پر نظرثانی کرے، انور قرقاش

    ابوظبی : اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کا قطر تنازعے سے متعلق کہنا ہے کہ خلیج سربراہی اجلاس سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے قطر تنازع روایتی طریقوں سے حل نہیں ہو سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے کہا کہ مکہ میں خلیج تعاون کونسل کا سعودی عرب میں حال ہی میں منعقدہ اجلاس سے ثابت ہو گیا ہے کہ قطر کو درپیش بحران کا حل روایتی طریقوں سے ممکن نہیں، اس کے لئے قطر کو برملا اپنے نقطہ نظر پر نظرثانی کرنا ہو گی۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امارات، سعودی عرب، بحرین اور مصر کے ساتھ سفارتی تعلقات خاتمے کے دو برس مکمل ہونے پر اپنے سلسلہ وار ٹویٹر پیغامات میں انور قرقاش نے کہا کہ خلیج سربراہی اجلاس سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ دوحا تنازع روایتی طریقوں سے حل نہیں ہو سکتا۔

    انور قرقاش کا کہنا تھا کہ اس کے لئے شیخ حمد بن خلیفہ کی قیادت میں اختیار کردہ پالیسیوں پرنظر ثانی کرنا ہو گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ معقولیت اور منطق کا تفاضہ ہے کہ شیخ تمیم (امیر قطر) پالیسیوں پر برملا نظرثانی کرتے ہوئے ملک کو درپیش بحران ختم کرنے کے لئے نئی پالیسی اختیار کریں تاکہ قطر کی دوبارہ خلیجی اور عرب ماحول میں واپسی ممکن ہو سکے۔

    اماراتی وزیر مملکت برائے خارجہ امور کا کہنا تھا کہ جون 2017 میں سعودی عرب، یو اے ای، بحرین اور مصر نے قطر کی انتہا پسند گروپوں کے لئے مبینہ حمایت کی وجہ سے سفارتی اور مواصلاتی رابطے منقطع کر لئے تھے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ چاروں ملکوں نے قطر سے تعلقات بحالی کے لئے متعدد شرائط پیش کیں۔ ان میں ایک شرط قطر کے عسکری اور دہشت گرد تنظیموں سے رابطے ختم کرنے سے متعلق بھی تھی۔