Tag: oxford university press

  • خنک ہوا، کراچی لٹریچرفیسٹیول اورگرم چائے

    خنک ہوا، کراچی لٹریچرفیسٹیول اورگرم چائے

    شہر قائد میں تین روز سے جاری ’ کراچی لٹریچر فیسٹیول‘ کا دسواں ایڈیشن گزشتہ شام ساحل کنارے ڈوبتے سورج کے ہمراہ اختتام پذیر ہوگیا، ہمیشہ کی طرح امسال بھی اس فیسٹیول  کی عوام  نے بھرپور پذیرائی کی۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کے زیراہتمام یہ کے ایل ایف کا دسواں ایڈیشن تھا ، جو کہ ساحل سمندر پرواقع ایک نجی ہوٹل میں  1 تا 3 مارچ منعقد کیا گیا۔ ان تین دنوں میں شہریوں کی کثیر تعداد علم و ادب سے اپنی محبت کے اظہار کے لیے فیسٹیول میں شریک ہوئی۔

    کراچی لٹریچر فیسٹیول کا آغاز سنہ 2010 میں کیا گیا تھا اور حالیہ ایونٹ اس کا دسواں ایڈیشن تھا۔ اس موقع پرمتعدد سیشن منعقد کیے گئے ، جن میں  مخصوص موضوعات پر مباحثہ، انٹرویوز، بک ریڈنگ اورمختلف کتب کی لانچنگ کے سیشن منعقد ہوئے۔ساتھ ہی ساتھ فوڈ کورٹ،  مشاعرے اورمیوزک  کنسرٹ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔

     کتاب دوست شخصیات کے لیے  پاکستان کے کئی بڑے پبلشرز نے اسٹال بھی لگائے تھے، تاہم قارئین نے ایک عمومی شکایت کی کہ کتابوں کے ریٹ عام مارکیٹ سے زیادہ ہیں۔  پبلشرز کا کہنا تھا کہ اس کا سبب انتظامیہ کی جانب سے اسٹال کی قیمت زیادہ رکھنا ہے جس کے سبب وہ قارئین کو زیادہ فائدہ نہیں دے پاتے۔

    یوں تو اس ایونٹ میں کئی اہم شخصیات کے سیشن تھے لیکن آخری دن معروف مزاح نگار انور مقصود اور صداکار اور آرٹسٹ ضیا محی الدین کے سیشن قارئین کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے رہے، سیشن کے دوران ہالز میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اور ادب دوست افراد اپنی پسندیدہ شخصیات کو سنتے رہے۔

    ایونٹ میں جہاں  ادب سے تعلق رکھنے والی اہم ملکی شخصیات نے شرکت کی تو کئی غیر ملکی ادبی شخصیات بھی ایونٹ کا حصہ رہیں۔

    مشاعرے میں ملک کے نامور شعرا نے حصہ لیا جن میں افتخار عارف، زہرہ نگاہ، انور شعور، عقیل عباس جعفری، عذرا عباس،  عنبرین حسیب عنبر سمیت کئی نامور شعرائے کرام نے عوام کو اپنے کلام سے نوازا۔

    ایک کتاب کی لانچنگ کے سیشن میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی پینل کا خصوصی حصہ تھے، جبکہ سابق گورنراسٹیٹ بینک ڈاکٹرشمشاد اختراورڈاکٹرعشرت حسین بھی سامعین کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔

     نامورصحافیوں میں اظہرعباس،  فہد حسین، وسعت اللہ خان،  فاضل جمیلی، غازی صلاح الدین، کاشف رضا اوردیگر شامل ہیں، جبکہ اے آروائی نیوز کے پروگرام ہوسٹ اور معروف اداکار فہد مصطفیٰ بھی اسپیکرز میں شامل رہے۔

    رواں سال کراچی میں فروری کے اوائل میں ختم ہوجانے والا سرد موسم مارچ تک طوالت اختیار کرگیا ہے، جس کے سبب ساحل کے کنارے ہونے والے اس فیسٹیول میں ادبی فضاء  جاندار اورموسم شانداررہا۔  ساحل سے حد ِفاصل معین کرنے کے لیے  لگی ریلنگ کے ساتھ  معروف محقق اور اردو لغت بورڈ کے ایڈیٹر عقیل عباس جعفری نے  راقم الحروف  کے ساتھ چائے پیتے ہوئے  ۔گفتگو اس شعر کے ساتھ ختم کی کہ ۔۔۔۔

    بیٹھ جاتا ہوں جہاں چائے بنی ہوتی ہے

    ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

  • کراچی لٹریچرفیسٹیول 2017 کیسا رہا؟

    کراچی لٹریچرفیسٹیول 2017 کیسا رہا؟

    کراچی: شہرقائد میں تین روز سے جاری آٹھواں کراچی لٹریچرفیسٹیول بالاخر اپنی تمام تر رونقیں سمیٹ کراختتام پذیر ہوگیا‘ فیسٹیول میں متعدد ادبی سیشنز سمیت 20 کتابوں کی تقریبِ رونمائی کا انعقاد کیا گیا۔

    سال 2017 میں شہرقائد میں ہونے والی پہلی ادبی سرگرمی یعنی کہ کراچی لٹریچر فیسٹیول 10 فروری تا 12 فروری جاری رہا‘ فیسٹیول میں کئی ممالک سے ادب وفن سے وابستہ نامورشخصیات نے شرکت کی۔

    لٹریچر فسٹیول کا انعقاد ساحل کنارے واقع بیچ لگژری ہوٹل میں کیا گیا ‘ ایونٹ کی افتتاحی تقریب میں دیگر معزز مہمانوں کے ہمراہ امریکی اور بھارتی سفارت کار نے بھی شرکت کی۔

    کراچی کا ادبی میلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری

     ایونٹ میں کل 75 سیشنز تھے جن میں ادب وفن سے وابستہ 200 ملکی اور غیر ملکی شخصیات نے حصہ لیا جبکہ تین روزہ فیسٹیول میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ دو لاکھ افراد نے شرکت کری جو کہ اس فیسٹیول کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ 2010میں منعقد ہونے والے پہلے لٹریچر فیسٹیول میں کل پانچ ہزار افراد شریک ہوئے تھے۔

    معروف فلمی شخصیات جو کہ ایونٹ کے مختلف سیشنز میں شریک ہوئے ان میں ندیم‘ مصطفیٰ قریشی‘ اور بشریٰ انصاری قابلِ ذکر ہیں جبکہ بنگلہ دیش سے خصوصی طورپر پاکستان تشریف لائیں نامور اداکارہ شبنم نے بھی اس ایونٹ کو رونق بخشی۔

    post-2

    post-6

    ادب کے میدان میں مشتاق احمد یوسفی‘ مستنصر حسین تارڑ‘ ضیا محی الدین‘ عائشہ جلال‘ منزہ شمسی سمیت دیگر غالب رہے بالخصوص دوسرے دن مین گارڈن میں ہونے والے مرکزی سیشنز پر مستنصر حسین تارڑ اور آخری دن ضیا محی الدین چھائے رہے‘ حاضرین کی بڑی تعداد ان شخصیات کو سننے کے لیے جگہ کم پڑجانے کے سبب کھڑے ہوکر انہیں سنتی رہی۔

    post-7

    post-3

    ایونٹ کے دوسرے دن مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا تاہم مشاعرے میں کراچی کے اساتذہ شعرائے کرام کی کمی شدت سے محسوس کی گئی جیسے کہ سحرانصاری‘ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم‘ رسائی چغتائی اور جاذب قریشی جبکہ زہرہ نگاہ‘ ریحانہ روحی اور شہناز نور جیسی شاعرات جو کہ دبستانِ کراچی کی شناخت ہیں۔ ایک عالمی ایونٹ ہونے کی حیثیت سے افتخارعارف کی کمی بھی شدت سے محسوس کی گئی۔

    کراچی لٹریچر فیسٹیول کی افتتاحی تقریب میں آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کی مینیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید کا کہنا تھا کہ حاظرین کی اتنی بڑی تعداد ایونٹ کی کامیابی اور عوام میں ادب سے محبت کا ثبوت ہے۔ یہاں کسی بھی قسم کے مزاج کے حامل شخص کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور موجود ہے جو کہ لوگوں کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔

    کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ملک بھر کی مختلف جامعات سے تعلق رکھنے والے طلبہ طالبات کی پینٹنگز اور آرٹ ورک کو بھی اس ادبی میلے کا حصہ بنایاگیا  تھا‘ جس سے نہ صرف طالب علموں کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایک بڑا پلیٹ فارم میسر آیا بلکہ وہاں آنے والے نوجوانوں کو بھی اس سے تحریک ملی۔

    اردو ڈکشنری بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری کا کہنا تھا کہ ایسے ایونٹس نا صرف یہ کہ صحت مند معاشرے کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ان کے انعقاد سے عالمی دنیا میں مثبت پیغام بھی جاتا ہے جو کہ پاکستان کے موجودہ حالات کے پیشِ نظرانتہائی ضروری ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف اس قسم کے فیسٹیول ہراول دستے کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں کچھ کرنے کے خواہش مند نوجوانوں کے لیے بے پناہ مواقع ہیں۔

    امورِ پاکستان کے ماہراور جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز کے سابق سربراہ ڈاکٹرجعفراحمد کا کہنا تھاکہ یہ اس طرح کی تہذیبی سرگرمیاں بے حد کارآمد ہوتی ہیں یہ عام لوگوں کے لیے ایک آسان موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ ادیب‘ شاعر یا فنکار سے مل سکیں اوران سے ربط استوار کرسکیں۔ انہوں مزید کہا کہ بدقستمی سے افغان جہاد کے دنوں سے پاکستان کا حقیقی تشخص مرجھا کررہ گیا تھالیکن اب صورتحال بہتر ہورہی ہے ایسے فیسٹیول اقوامِ عالم میں پاکستان کے تشخص کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

    پاکستان میں نٹیا شاسترارقص کے ماہر مانی چاؤ کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھا ایونٹ ہے جہاں فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد اکھٹے ہوئے ہیں اورپاکستان میں موجود فن کو عالمی دنیا تک رسائی کا موقع مل رہا ہے۔ مانی چاؤ عنقریب پاکستان میں رقص کا عالمی مقابلہ منعقد کرانے کے لیے پر عزم ہیں اور کہتے ہیں کہ آئندہ ماہ تک اس حوالے سے حتمی اعلان کردیا جائے گا۔

    بھارت سے تعلق رکھنے والی انٹرٹینمنٹ رائٹر پریانکا جھا نے ایونٹ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگےبڑھنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے کہ عوام میں باہم ربط بڑھایاجائے اور انہیں ایک دوسرے کے قریب آنے اور تبادلہ خیال کرنے کا موقع دیا جائے۔

    ایونٹ کے بانیان میں شامل معروف ادیب اورنقاد آصف فرخی نے کراچی لٹریچر فیسٹیول کی اس عظیم الشان کامیابی اظہارِ مسرت کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سال عوام کو اس سے بھی بہتر ادب کے ذائقے سے روشناس کرانے کی کوشش کریں گے۔

    post-1

    post-5

    عوام کی اس کثیر تعداد میں آمد جہاں ایک جانب کراچی لٹریچر فیسٹیول کی کامیابی کا ثبوت ہے وہیں رش بڑھ جانے کے سبب شہریوں کو جہاں پارکنگ میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہیں ہاؤس فل ہونے کے سبب بہت سے لوگ اپنے پسندیدہ ادیبوں کو سننے سے بھی محروم رہے‘ لٹریچرفیسٹیول میں کتابوں کی خریداری کے رحجان میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے اوراس کی نسبت جگہ کم ہونے کے سبب بہت سے افراد نے خریداری کاارادہ ترک کردیا۔

    کراچی کے ساحل کے کنارے تین روز سےآباد علم و ادب اورفن کا یہ عظیم میلہ گزشتہ رات میوزیکل کنسرٹ کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا اور اپنے پیچھے آئندہ سال تک کے لیے بے شمار یادیں چھوڑگیا۔

  • کراچی ادبی میلے کا آخری روز،عوام کی زبردست پذیرائی

    کراچی ادبی میلے کا آخری روز،عوام کی زبردست پذیرائی

    کراچی : آکسفورڈیونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام کراچی میں لٹریچر فیسٹیول کا آج آخری روز ہے ۔ شاعروں اور ادیبوں کے میلے میں غیر ملکی مندوبین بھی شریک ہیں۔

    ادب ، شاعری ، مذہب ، حالات حاضرہ یا بات کرنی ہو تاریخ کی اسی لئے کراچی میں ادبی میلہ سجایا گیا ہے۔ جس میں نامور شاعر ادیب اوردانشورشرکت کر رہے ہیں ۔

    ادبی میلے میں ممتاز ناول نگار اور شاعر امجد اسلام امجد کا کہنا تھا کہ کراچی پاکستان کا دل ہے۔  اس میلے میں آکرخوشی ہوئی۔

    معروف ادکار ساجد حسن کا کہنا تھا کہ کراچی کے نامساعد حالات میں ایسی سرگرمیاں خوش آئند ہیں۔ ادبی میلے کے آخری روز شہریوں کی بھی بڑی تعداد شریک ہے ۔

    چھٹے ادبی میلے میں کتابوں،مذاکروں،اورمشاعروں میں لوگوں کی دلچسپی اس بات کا عندیہ ہےکہ شہرمیں ایسے میلوں کا انعقاد ہونا شہریوں کے لئے کسی خوشگوار جھوکے سے کم نہیں۔