Tag: oxygen

  • سیارہ مشتری پر آکسیجن دریافت؟

    سیارہ مشتری پر آکسیجن دریافت؟

    ماہرین ایک طویل عرصے سے دوسرے سیاروں پر زندگی یا زندگی کے لیے سازگار حالات کی تلاش میں ہیں اور اب ایک تحقیق میں انہیں سیارہ مشتری پر آکسیجن کے شواہد ملے ہیں۔

    حال ہی میں ہونے وال ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا کہ مشتری کے چاند یورپا کے برف کے خول میں موجود نمکین پانی ممکنہ طور پر برف سے ڈھکے مائع پانی کے سمندر میں آکسیجن کی آمد و رفت کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ چاند کی ناسازگار سرزمین کے اندر ایسا ہونا زندگی کو کی بقا کے لیے سازگار ہوسکتا ہے۔

    ان کا ماننا ہے کہ یورپا کے سمندر میں موجود آکسیجن کی مقدار ممکنہ طور پر اتنی ہی ہوسکتی ہے جتنی مقدار اس کی آج زمین کے سمندر میں ہے۔

    یہ تھیوری پہلے پیش کی جا چکی ہے لیکن امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر آسٹن میں قائم یونیورسٹی آف ٹیکسس کے ماہرین نے دنیا کی پہلی طبیعات پر مبنی اس عمل کی کمپیوٹر سمیولیشن آزمائش کے لیے بنائی۔

    یو ٹی جیکسن اسکول آف جیو سائنسز کے شعبہ ارضیاتی سائنسز سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے سربراہ محقق مارک ہیسی کا کہنا تھا کہ ان کی ریسرچ نے اس عمل کو ممکنات کی دنیا میں ڈال دیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں ایک یورپا کے سمندر کے اندر کی سطح میں زندگی کی افزائش کے حوالے سے مسئلے کا ایک حل فراہم کرتا ہے۔

  • چاند پر موجود آکسیجن سے متعلق بڑا انکشاف

    چاند پر موجود آکسیجن سے متعلق بڑا انکشاف

    چاند کی مٹی اور پتھروں پر تحقیق کرنے والے خلائی سائنس کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ چاند پر موجود آکسیجن دنیا کے انسانوں کے لیے ایک لاکھ سال تک کافی ہوگی۔

    گزشتہ ماہ اکتوبر میں، آسٹریلوی خلائی ایجنسی اور ناسا نے آرٹیمس پروگرام کے تحت چاند پر آسٹریلوی ساختہ روور بھیجنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کا مقصد چاند کی چٹانوں کو جمع کرنا ہے، ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ چاند پر سانس لینے کے قابل آکسیجن فراہم کر سکتے ہیں۔

    اس سلسلے میں چھپنے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ چاند پر موجود مٹی، پتھروں اور چٹانوں پر اتنی آکسیجن موجود ہے کہ وہ دنیا کے 8 ارب انسانوں کے لیے ایک لاکھ سال تک بھی کم نہیں ہوگی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سائنس دان چاند کی مٹی اور چٹانوں سے آکسیجن لے کر انسانوں کے لیے قابل استعمال بنانے کا طریقہ وضع کر لیں تو چاند پر انسانوں کی بستیاں بسائی جا سکتی ہیں، کیوں کہ یہ آکسیجن مرکبات کی شکل میں ہے، جب کہ چاند پر ہوا کا تناسب نہ ہونے کا برابر ہے، اور ہوا میں زیادہ مقدار ہیلیم، نیون اور ہائیڈروجن کی ہے۔

    ماہرین کے مطابق معدنیات جیسا کہ سیلیکا، ایلومینیم، آئرن اور میگنیشیم آکسائیڈز چاند کی زمین کی سطح پر بڑی مقدار میں موجود ہیں، اور یہ تمام معدنیات آکسیجن پر مشتمل ہوتی ہیں، لیکن اس شکل میں نہیں جس تک ہمارے پھیپھڑے رسائی حاصل کر سکیں۔

    یہ مواد ان گنت ہزار سالوں سے چاند کی سطح پر ٹکرانے والے شہابیوں کے اثرات کے نتیجے میں آیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ چاند کی چٹانوں میں 45 فی صد تک آکسیجن موجود ہے، لیکن ان مرکبات کو توڑ کر آکسیجن کو خالص شکل میں لانے کے لیے بہت زیادہ مقدار میں توانائی صرف کرنے کی ضرورت پڑے گی۔

    اس لیے اگر چاند پر توانائی کا انتظام کر کے آکسیجن حاصل کی جائے، یا کوئی ایسا طریقہ ایجاد کر لیا جائے کہ کم توانائی کے استعمال سے ہی آکسیجن کو مرکبات سے الگ کیا جا سکے، تو چاند پر انسانی زندگی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔

  • کرونا مریضوں میں آکسیجن کی سطح کیوں کم ہو جاتی ہے؟

    کرونا مریضوں میں آکسیجن کی سطح کیوں کم ہو جاتی ہے؟

    کینیڈا: سائنس دانوں نے کرونا مریضوں میں آکسیجن کی سطح کی کم ہونے کی وجہ معلوم کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا کے مریضوں میں آکسیجن کی سطح کم کیوں ہو جاتی ہے؟ اس سلسلے میں نئی طبی تحقیق سامنے آ گئی ہے، ایرانی نژاد مسلمان سائنس دان نے اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

    جریدے اسٹیم سیل رپورٹس میں شائع شدہ نئے طبی مطالعے میں مرکزی مصنف ایسوسی ایٹ پروفیسر شکر اللہ الہٰی کا کہنا ہے کہ خون میں آکسیجن کی کمی کو وِڈ 19 کے مریضوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے، ہمارے نزدیک اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کرونا وائرس انسانی جسم میں خون کے سرخ خلیات کی پیدوار کو متاثر کرتا ہے۔

    ریسرچ کے دوران طبی ماہرین کی ٹیم نے کرونا وائرس سے متاثرہ 128 مریضوں کا معائنہ کیا، ان میں شدید بیمار، کم بیمار اور معمولی علامات والے افراد سب شامل تھے۔

    ایسوسی ایٹ پروفیسر شکر اللہ الہٰی

    محققین نے دیکھا کہ جیسے ہی کرونا وائرس کی وجہ سے مرض کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، خون میں اُن سرخ خلیات کا سیلاب امڈ آتا ہے جو ابھی پوری طرح سے بنے نہیں ہوتے، اور بعض اوقات خون میں موجود خلیوں کی کُل تعداد میں ان کا تناسب 60% تک پہنچ جاتا ہے، جب کہ صحت مند آدمی کے خون میں اس کا تناسب 1 فی صد یا بالکل نہیں ہوتا۔

    شکر اللہ کا کہنا تھا کہ خون کے یہ خام خلیے آکسیجن منتقل نہیں کرتے، اور انھیں کرونا وائرس کا شدید خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے، جب کرونا وائرس خون کے ان خام سرخ خلیوں کو حملے میں تباہ کر دیتا ہے، تو جسم ان کی جگہ خون کے مکمل سرخ خلیے (جن کی عمر 120 روز سے زیادہ نہیں ہوتی) نہیں لا پاتا، اس طرح خون میں آکسیجن منتقل کرنے کی صلاحیت ماند پڑ جاتی ہے۔

    شکر اللہ الہٰی کے مطابق ان کی ٹیم کی تحقیق سے 2 اہم نتائج سامنے آئے ہیں، پہلا یہ کہ کرونا وائرس سے خون کے نامکمل سرخ خلیے متاثر ہوتے ہیں، جب وائرس ان خلیوں کو مار دیتا ہے تو پھر انسانی جسم ہڈیوں کے مغز سے مزید نامکمل سرخ خلیوں کو کھینچ کر مطلوبہ آکسیجن کی رسد پوری کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، تاہم اس سے محض وائرس کے لیے مزید اہداف ہی جنم لیتے ہیں۔

    دوسرا یہ کہ خون میں نامکمل سرخ خلیے درحقیقت طاقت ور ’امیونو سپریسیو سیلز‘ ہوتے ہیں، جو انسانی جسم میں اینٹی باڈیز کی تیاری کو دبا دیتے ہیں اور کرونا وائرس کے خلاف خلیوں کی مدافعت کو بھی کچل دیتے ہیں، اس کے نتیجے میں انسان کی حالت خراب ہو جاتی ہے۔

    اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سوزش کے خاتمے کے لیے استعمال ہونے والی دوا ’ڈیکسا میتھاسون‘ کرونا وائرس کے علاج میں کیوں مؤثر ہے؟

  • بھارت: آکسیجن سلنڈر کی ری فلنگ پر دو گروپوں میں تصادم

    بھارت: آکسیجن سلنڈر کی ری فلنگ پر دو گروپوں میں تصادم

    نئی دہلی: بھارت میں کرونا وائرس کا خوفناک پھیلاؤ اور آکسیجن کی قلت امن و امان کے مسائل بھی کھڑے کرنے لگی، ریاست گجرات میں آکسیجن سلنڈر کے معاملے پر دو گروپوں میں تصادم ہوگیا جس کے دوران فائرنگ بھی ہوئی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق گجرات میں آکسیجن سلنڈرز کی ری فلنگ کے دوران طویل قطار میں کھڑے دو افراد آپس میں لڑ پڑے۔

    دونوں افراد اسپتالوں میں آکسیجن کی فراہمی کا کام کرتے ہیں، دونوں کے درمیان پہلے زبانی تلخ کلامی ہوئی جس کے دوران ایک شخص نے جیب سے پستول نکال کر زمین کی طرف گولی چلا دی۔

    اس موقع پر وہاں موجود پولیس کانسٹیبل نے اسے روکنے کی کوشش کی تو اس نے مزید فائرنگ کی جس کے بعد وہاں موجود افراد میں بھگدڑ مچ گئی۔

    کانسٹیبل نے فوری طور پر مزید پولیس فورس طلب کی، لیکن اس سے قبل ہی دونوں کے ساتھ آئے افراد آپس میں گتھم گتھا ہوچکے تھے جبکہ انہوں نے وہاں پارک کی ہوئی گاڑیوں کو بھی توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا تھا۔

    پولیس کے آنے سے قبل دونوں گروپوں کے افراد منتشر ہوگئے۔

    مقامی پولیس نے متعدد افراد کے خلاف انتشار پھیلانے اور اقدام قتل کا مقدمہ درج کر کے ملزمان کی تلاش شروع کردی۔

  • زمین سے زندگی کا خاتمہ؟ ماہرین نے خبردار کر دیا

    زمین سے زندگی کا خاتمہ؟ ماہرین نے خبردار کر دیا

    سائنس دان برسوں سے اس سوال کا جواب کھوج رہے ہیں کہ زمین سے زندگی کا خاتمہ کب ہوگا۔

    جاپانی اور امریکی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایک ارب سال میں زمین پر موجود زیادہ تر زندگی کا صفایا ہو جائے گا۔

    ماہرین نے ایک تحقیقاتی مطالعے میں پیش گوئی کی ہے کہ ایک ارب سال کے عرصے میں ماحولیاتی آکسیجن کی سطح میں انتہائی کمی آ جانے سے زمین کی زیادہ تر زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔

    جاپان اور امریکا کے محققین نے اس سلسلے میں ایک ماڈل کے ذریعے یہ دکھایا ہے کہ کس طرح مختلف حیاتیاتی، آب و ہوا اور ارضیاتی عمل کی روشنی میں ہمارے سیارے کی فضا بدلے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آکسیجن میں شدید کمی (Deoxygenation) دراصل سورج سے بڑھتی ہوئی توانائی کے بہاؤ کے نتیجے میں ہوگا، کیوں کہ اس سے زمین مزید روشن ہو جائے گی، اس کی سطح کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو جائے گا اور فوٹو سنتھیسز (ضیائی تالیف) میں کمی آ جائے گی۔

    ماہرین کے مطابق تقریباً ایک ارب سال میں ڈی آکسی جنیشن ماحول کو غیر مہربان بنا دے گا اور زمین میتھین گیس سے بھرپور مرکب والی ابتدائی حالت میں لوٹ جائے گی۔

    انھوں نے کہا کہ زمین کا یہ انجام اُس نام نہاد ’مرطوب گرین ہاؤس صورت حال‘ کی آمد سے بھی قبل واقع ہوگا، جس میں سیارے کے ماحول سے پانی ناقابل تلافی طور پر نکل جائے گا۔

    ماہرین نے بتایا کہ ماحولیاتی آکسیجن رہائش والے سیاروں کی مستقل حقیقت نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہم دوسری دنیاؤں میں زندگی کی تلاش میں رہتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق 2.4 بلین سال قبل زمین کی فضا میتھین، امونیا، پانی کے بخارات اور غیر عامل گیس نیین سے بھرپور تھی، لیکن اس میں فری آکسیجن کی کمی تھی، اور پھر زمین پر آکسیجنیشن کا عظیم عمل شروع ہو گیا، جس کے دوران سمندروں میں رہنے والے سیانو بیکٹیریا نے فوٹو سنتھیسز کے ذریعے قابل ذکر مقدار میں آکسیجن پیدا کرنی شروع کر دی، اور یوں فضا میں بڑا بدلاؤ آ گیا۔

  • ڈیڈی میں سانس نہیں لے پا رہا، بائے بائے، کورونا مریض نے سب کو رلا دیا

    ڈیڈی میں سانس نہیں لے پا رہا، بائے بائے، کورونا مریض نے سب کو رلا دیا

    نئی دہلی : بھارت میں کرونا مریض نے مرنے سے قبل اہل خانہ کو اپنی تکلیف اور کیفیت سے آگاہ کیا، اسی دوران وہ موت کے منہ میں چلا گیا، اہل خانہ نے اسپتال انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست آندھراپردیش کے دارالحکومت حیدرآباد سے ایک بہت تکلیف دہ واقعہ سامنے آیا ہے، یہاں کے ایک اسپتال میں داخل کورونا کے ایک مریض کی موت واقع ہوگئی۔ 34 سالہ مریض نے مرنے سے پہلے اپنے اہل خانہ کو کال اور ویڈیو میسیج بھی کیا تھا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق حیدرآباد کے ایک اسپتال میں داخل روی کمار نام کا کورونا مریض گزشتہ رات چل بسا۔ اہل خانہ کو ملنے والے ویڈیو میسیج کے مطابق موت سے پہلے روی کمار نے کہا تھا کہ ڈیڈی میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں۔ آکسیجن نہیں مل رہا ہے۔ بائے پاپا بائے۔

    اس حوالے سے متوفی کے اہل خانہ اسپتال انتظامیہ پر مسلسل الزام عائد کررہے ہیں کہ اسپتال کے اسٹاف نے وینٹی لیٹر کو ہٹا دیا تھا جس کی وجہ سے اسے سانس لینے میں دقت ہوئی اور اسے اپنے دل کی دھڑکن رکنے کا بھی احساس ہو رہا تھا۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ اسپتال عملے کی لاپرواہی کی وجہ سے ان کا بیٹا تین گھنٹے تک تڑپتا رہا۔

    دوسری جانب اسپتال کے سپرنٹنڈنٹ محبوب خان نے کہا کہ روی کمار نامی شخص 24 تاریخ کو داخل ہوا تھا اور 26 تاریخ کو اس کی موت واقع ہوگئی، اس کی طبیعت پہلے دن سے ہی بہت خراب تھی ہم نے ہر طریقے سے اس کی جانچ پڑتال کی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے مریض سے آکسیجن یا وینٹی لیٹر نہیں نکالا تھا، روی کمار کو کورونا وائرس پھیپھڑے کے ساتھ ساتھ دل میں پر بھی بہت اثر کر گیا تھا۔

    میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ نوجوان کے کورونا ٹیسٹ کے مثبت ہونے کی تصدیق اس کی آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد ہوئی۔

  • مریخ پر بھی زندگی سانس لے سکتی ہے؟

    مریخ پر بھی زندگی سانس لے سکتی ہے؟

    انسان نے زمین کی حدود سے باہر جانے کے بعد جہاں دیگر سیاروں پر اپنے قدم رکھے، وہیں وہاں پر اپنا گھر بنانے کا بھی سوچا، لیکن ہر سیارہ زمین کی طرح زندگی کے لیے موزوں مقام نہیں ہے جہاں زندگی کے لیے ضروری آکسیجن اور پانی مل سکے۔

    تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مریخ کی اوپری سطح سے نیچے موجود نمکین پانی میں آکسیجن کی اتنی مقدار موجود ہے جو زندگی کے لیے کافی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جس طر ح زمین پر اربوں سال قبل خوردبینی جاندار موجود تھے اسی طرح مریخ پر بھی ایسی آبادیاں بس سکتی ہیں۔

    جرنل نیچر جیو سائنس میں چھپنے والی اس تحقیق کے مطابق مریخ پر کئی مقامت میں اتنی آکسیجن موجود ہے جو کثیر خلیہ جاندار جیسے اسفنج کی زندگ کے لیے معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

    اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ مریخ پر اتنی بھی آکسجین موجود نہیں کہ وہاں خوردبینی جاندار زندہ رہ سکیں، تاہم نئی تحقیق مریخ پر کیے جانے والے مطالعے کو نیا رخ دے گی۔

    اس سے قبل بھی کئی بار مریخ پر پانی کی موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے جس کے باعث کہا گیا کہ ماضی میں مریخ پر بھی زندگی ہوا کرتی تھی۔

    ایک تحقیق میں سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ مریخ پر موجود کچھ نشانات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں یہاں وافر مقدار میں پانی موجود تھا۔ محققین کا کہنا ہے کہ پانی کی موجودگی سے آبادی کا قیاس کرنا غلط نہ ہوگا۔

    اس سے قبل نومبر 2016 میں ناسا کے ایک سائنسدان کی ریسرچ کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ مریخ کے ایک علاقے میں برف کا ایک بڑا ٹکڑا موجود ہے جو برفانی پہاڑ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک بار پھر مریخ پر راکٹ بھیجنا پڑے گا تاکہ ابہام کو دور کیا جا سکے۔

  • لاکھوں میل دور کہکشاں پر آکسیجن کے اشارے مل گئے

    لاکھوں میل دور کہکشاں پر آکسیجن کے اشارے مل گئے

    ٹوکیو: لاکھوں میل دور کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے ملے ہیں، یہ کہکشاں بگ ہینگ (عظیم دھماکے) کے فقط ڈھائی سو ملین سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوئی تھی، اس سے کائنات کی ابتدا سے متعلق اہم معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

    ماہرین فلکیات کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کائناتی اعتبار سے ڈھائی سو ملین برس کا عرصہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے، اس لیے اس کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے یہ جاننے میں مدد دے سکتے ہیں کہ کائنات کی ابتدا کے باعث بننے والے عظیم دھماکے کے بعد اس کائنات کی ماہیت کیا تھی۔

    اس کہکشاں کو ایم اے سی ایس 1149 جے ڈی وی کا نام دیا گیا ہے اور یہ 13.8 ارب سال پہلے ہونے والے بگ ہینگ کے ساڑھے پانچ سو ملین سال بعد مکمل طور پر موجود تھی۔

    محققین کے مطابق اس کہکشاں سے چلنے والی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 13.28 ارب نوری سال لگے جبکہ سائنسدان اس روشنی کے ذریعے اس کہکشاں کو دیکھنے کو ’ماضی انتہائی بعید‘ میں جھانکنے سے تعبیر بھی کرتے ہیں۔

    سائنس دانوں کے مطابق اس کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے ملنے سے اس نظریے کو تقوت ملتی ہے کہ کائنات کی ابتدا کے بعد یہاں آکسیجن، کاربن اور نائٹروجن ہی سب سے پہلے بننے والے عناصر تھے اور ابتدائی ستاروں پر یہی عناصر موجود ہوتے تھے تاہم بعد میں ان ابتدائی اور بڑے ستاروں کے پھٹنے کے بعد نئے اور بھاری عناصر تخلیق ہوئے۔

    یونیورسٹی آف جاپان سے وابستہ خلانورد تاکویا ہاتیسھوتو کے مطابق اس مطالعے سے قبل ہمارے پاس ابتدائی طرز کے ستاروں کی تخلیق سے متعلق فقط نظریاتی پیش گوئیاں ہی تھیں مگر اب ہم اس کائنات میں ابتدائی دور کے ستاروں کی تخلیق کا براہ راست مشاہدہ کررہے ہیں۔

    اس مطالعے کو بگ ہینگ کے بعد ستاروں اور کہکشاؤں کی تخلیق اور آغاز سے متعلق شواہد کی راہ میں بڑی پیش رفت قرار دیا جارہا ہے، سائنس دان عظیم دھماکے کے بعد اس ابتدائی دور کو کاسمک ڈان یا کائناتی صبح قرار دیتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔