Tag: Pacific Ocean

  • بادلوں میں دکھائی دینے والی "پراسرار مخلوق” ویڈیو وائرل

    بادلوں میں دکھائی دینے والی "پراسرار مخلوق” ویڈیو وائرل

    خلاؤں یا سمندروں میں ہونے والے پراسرار واقعات یا ویڈیوز آپ نے دیکھی ہوں گی جنہیں دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید جیسے یہ کوئی خلائی مخلوق ہیں یا کوئی جنات کا گروہ گزر رہا ہے۔

    ایک ایسی ہی ویڈیو ایک پائلٹ نے اڑتے ہوئے جہاز سے  بنائی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روشنی کی لائنیں ایک ترتیب سے گزر رہی ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ایلیئنز ہیں۔

    سطح سمندر  سے تقریباً 39ہزار فٹ کی بلندی سے بنائی گئی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ روشنیاں ( اڑن طشتریاں)جو کبھی9 تو کبھی12 دکھائی دیتی ہیں اور  آہستہ آہستہ بادلوں  میں جاکر غائب ہوجاتی ہیں۔

    مغربی بحرالکاہل کی فضاؤں کی یہ ویڈیو بنانے والے  پائلٹ کا کہنا ہے کہ میں نے اس سے پہلے کبھی کوئی ایسا منظر نہیں دیکھا میں نہیں جانتا کہ یہ کیا چیز ہے؟ کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔

    مذکورہ ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہورہی ہے اور صارفین اس پر اپنے مختلف خیالات کا اظہار کررہے ہیں، بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ کئی سال میں دیکھا جانے والا بہترین منظر تھا۔

    بہت سے صارفین چلتی ہوئی ان روشنیوں سے حیران رہ گئے،انہوں نے بات کی جانب اشارہ کیا کہ شاید یہ اینٹی میزائل شعلے تھے جنہیں کسی جنگی طیارے سے مارا گیا تھا لیکن وہ اس ترتیب میں کیسے آگے بڑھ رہے تھے؟

  • آسٹریلوی حکومت اس کبوتر کو کیوں قتل کرنا چاہتی ہے؟

    آسٹریلوی حکومت اس کبوتر کو کیوں قتل کرنا چاہتی ہے؟

    کینبرا : امریکی ریاست اوریگون میں ریس کے دوران لاپتہ ہونے والا کبوتر جو ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے آسٹریلیا پہنچ گیا، اسے آخری بار ایک ریس میں دیکھا گیا تھا۔ آسٹریلیا حکومت نے اسے مارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    آسٹریلوی حکام نے اسے پرندوں اور پولٹری صنعت کے لیے بائیو سیکیورٹی رسک قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا  ہے کہ یہ کبوتر جانوروں اور پرندوں میں کسی قسم کی بیماری پھیلا سکتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک مہاجر کبوتر اوشین پیسفک سے اڑ کر امریکہ سے ہوتا ہوا آسٹریلیا پہنچا، اس کبوتر نے 13ہزار کلومیٹر(8ہزار میل)کا فاصلہ طے کیا۔

    آسٹریلوی سیکیورٹی حکام نے بیماری کا خطرہ سمجھتے ہوئے کبوتر کو مارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے کبوتروں کے ایک ماہر کیون سیلی برڈ کا کہنا ہے کہ یہ کبوتر29 اکتوبر کو امریکی ریاست اوریگون میں اپنے جتھے سے غائب ہوگیا تھا جو 26 دسمبر کو آسٹریلیا کے شہر میلبورن پہنچا۔

    کیون سیلی برڈ کا اس کی پرواز سے متعلق شبہ کا اظہار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ یہ کبوتر بحرالکاہل کو عبور کرنے کے لئے ایک کارگو جہاز پر سوار رہا۔

    میڈیا میں خبر نشر ہونے کے بعد محکمہ صحت نے  پرندوں کی بیماری کے خطرے کے پیش نظر سیلی برڈ سے اس کبوتر کو پکڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کبوتر کا تعلق امریکہ سے ہے تو خطرہ ہے کہ ہمارے یہاں موجود پرندے بھی بیماری محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

    سیلی برڈ کا کہنا ہے کہ میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ اسے پکڑنا آسان نہیں ہے، میں نے اس کو پکڑنے کی کافی کوشش کی لیکن ناکام رہا جس کے بعد محکمہ صحت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کسی اور پیشہ ور پرندہ پکڑنے والے سے رابطہ کریں گے۔

    دوسری جانب آسٹریلیا کے محمکہ زراعت نے بھی اس کبوتر کی موجودگی پر اپنی تشویش کا اظہاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کبوتر کا آسٹریلیا میں رہنا یہاں کے دیگر پرندوں کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ پولٹری صنعت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

  • زمین کا وہ مقام جو خلائی اسٹیشن سے بے حد نزدیک ہے

    زمین کا وہ مقام جو خلائی اسٹیشن سے بے حد نزدیک ہے

    کیا آپ جانتے ہیں ہماری زمین پر ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں پہنچنا بے حد مشکل ہے، اور اسے زمین کا مشکل ترین مقام قرار دیا جاتا ہے؟

    اور مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عالمی خلائی اسٹیشن پر موجود انسان اس مقام سے، زمین پر موجود انسانوں کی نسبت زیادہ نزدیک ہیں۔

    پوائنٹ نیمو نامی یہ مقام جنوب بحر اوقیانوس کے وسط میں واقع ہے اور یہ خشکی سے نہایت دور ہے۔ اس مقام سے قریب ترین زمین 1400 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے۔

    لفظ ’نیمو‘ لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’کوئی نہیں‘۔

    کسی بھی قسم کے جاندار سے خالی اس مقام کو سنہ 1992 میں اس وقت دریافت کیا گیا جب سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے اس خطے کا نقشہ تیار کیا جارہا تھا۔

    اس مقام کے آس پاس مہر آئی لینڈ، ایسٹر آئی لینڈ اور ڈیوئس آئی لینڈ نامی جزیرے موجود ہیں لیکن یہ بھی اس سے 2300 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اس مقام کو زمین کا تنہا ترین مقام بھی کہا جاتا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق عالمی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) پر موجود انسان، دیگر زمینی باشندوں کی نسبت اس مقام سے زیادہ نزدیک ہیں، یہ اسٹیشن زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔

    پوائنٹ نیمو کو خلائی جہازوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔ جب بھی خلا سے کوئی سیٹلائٹ، خلائی اسٹیشن یا خلائی جہاز ناکارہ ہونے کے بعد واپس زمین پر پھینکا جاتا ہے تو اسے اسی مقام پر پھینکا جاتا ہے تاکہ یہ کسی انسانی آبادی کو نقصان نہ پہنچائے۔