Tag: Pagers

  • اسرائیل نے تائیوان سے درآمد شدہ پیجرز میں دھماکا خیز مواد شامل کیا: نیویارک ٹائمز کی رپورٹ

    اسرائیل نے تائیوان سے درآمد شدہ پیجرز میں دھماکا خیز مواد شامل کیا: نیویارک ٹائمز کی رپورٹ

    نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل نے تائیوان سے درآمد شدہ پیجرز میں دھماکا خیز مواد شامل کیا تھا۔

    نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام کو اس آپریشن سے متعلق بریفنگ دی گئی ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کے ارکان پر منگل کو ہونے والے حملے کو انجام دینے کے لیے اسرائیلی فوج نے تائیوان کے پیجرز کی ایک کھیپ میں دھماکا خیز مواد چھپا رکھا تھا۔

    کچھ عہدے داروں نے دعویٰ کیا کہ حزب اللہ نے تائیوان کی کمپنی گولڈ اپولو سے پیجرز کا آرڈر دیا تھا، لیکن لبنان پہنچنے سے پہلے ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔

    پیجرز کس نے بنائے؟ تائیوان کی کمپنی کا بڑا بیان سامنے آ گیا

    رپورٹ کے مطابق زیادہ تر پیجرز کمپنی کے AP924 ماڈل تھے، جب کہ تین دیگر گولڈ اپولو ماڈل بھی بحری کھیپ میں تھے۔

    امریکی آفیشلز کے دو ذرائع نے بتایا کہ ہر پیجر میں ایک سے دو اونس (تقریباً 30 سے ​​60 گرام) دھماکا خیز مواد بیٹری کے ساتھ لگایا گیا تھا، جب کہ ایک ڈیٹونیٹر بھی نصب کیا گیا تھا جسے دور سے ٹریگر کیا جا سکتا تھا۔

    اسرائیل نے پیجرز میں دھماکا خیز ڈیوائس کب اور کیسے نصب کی؟ سنسنی خیز انکشاف

    واضح رہے کہ لبنان میں پیجرز کے پھٹنے سے کم از کم 9 افراد ہلاک اور 2,750 زخمی ہو گئے ہیں۔ اسرائیل نے ابھی تک اس حملے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔

  • پیجرز کس نے بنائے؟ تائیوان کی کمپنی کا بڑا بیان سامنے آ گیا

    پیجرز کس نے بنائے؟ تائیوان کی کمپنی کا بڑا بیان سامنے آ گیا

    تائپے: لبنان میں ہزاروں لوگوں کو نشانہ بنانے والے پیجرز کے ہولناک دھماکوں کے سلسلے میں تائیوان کی کمپنی کا اہم بیان سامنے آ گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق تائیوان کی وائرلیس کمپنی ’’گولڈ اپولو‘‘ نے آج بدھ کو صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے وہ پیجرز نہیں بنائے جو منگل کو لبنان میں ہونے والے دھماکوں میں استعمال کیے گئے۔

    روئٹرز کے مطابق تباہ شدہ پیجز کی تصاویر کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں پچھلے حصے پر ایک خاص قسم کا فارمیٹ اور اسٹیکرز تھے، جو گولڈ اپولو کے بنائے ہوئے پیجرز سے مطابقت رکھتے تھے۔ تاہم کمپنی کے بانی ہسُو چنگ کوآنگ نے کہا یہ پیجرز ان کے بنائے ہوئے نہیں تھے۔

    منگل کے روز لبنان بھر میں حزب اللہ کے ارکان کے زیر استعمال پیجرز کے دھماکوں میں کم از کم 9 افراد ہلاک اور تقریباً 3000 زخمی ہوئے ہیں۔ کمپنی کے بانی نے کہا کہ دھماکے میں استعمال ہونے والے پیجرز یورپ کی ایک کمپنی نے بنائے تھے، جسے تائیوان کی فرم کے برانڈ کو استعمال کرنے کا حق حاصل تھا۔

    تائیوان کے بنائے گئے پیجرز کس کام کے لیے استعمال ہوتے ہیں؟

    تائیوان کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسر جھائی چرن لیو نے کہا کہ یہ خیال کہ تائیوان کی کوئی بھی فرم لبنان کی حزب اللہ پر حملے میں ملوث ہو جائے گی، نہ صرف ناممکن بلکہ ناقابل تصور خیال ہے۔

    واضح رہے کہ بین الاقوامی میڈیا میں لبنان میں حملوں میں استعمال ہونے والے پیجرز کے بارے میں یہ تبصرے شائع ہوئے ہیں کہ یہ تائیوان کی کمپنی گولڈ اپولو نے بنائے تھے۔ تاہم کمپنی نے اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آلات یورپ کی ایک کمپنی نے بنائے تھے جسے اس کا برانڈ استعمال کرنے کا حق حاصل تھا۔

    لیو نے الجزیرہ کو بتایا کہ گولڈ اپولو ایک چھوٹی کمپنی ہے، پیجر بنانے میں مہارت رکھتی ہے، خاص طور پر وہ قسمیں جو عام طور پر شاپنگ مالز میں کھانے کے اسٹالوں میں استعمال ہوتی ہیں، تاکہ گاہکوں کو مطلع کیا جا سکے کہ کھانا یا میز تیار ہے۔

    اسرائیل نے پیجرز میں دھماکا خیز ڈیوائس کب اور کیسے نصب کی؟ سنسنی خیز انکشاف

    انھوں نے کہا کہ یہ کمپنی 1995 میں قائم ہوئی تھی، جس کی مالیت تقریباً 3 ملین ڈالر تھی اور اس میں 35 ملازمین تھے۔ اگرچہ تائیوان تمام پہلوؤں سے امریکا کے بہت قریب رہا ہے، مجھے یقین نہیں ہے کہ تائیوان میں کوئی بھی کمپنی اس طرح کی مہلک سازش میں ملوث ہوگی، کیوں کہ تائیوان ایک کھلا معاشرہ اور مکمل جمہوریت ہے۔

  • اسرائیل نے پیجرز میں دھماکا خیز ڈیوائس کب اور کیسے نصب کی؟ سنسنی خیز انکشاف

    اسرائیل نے پیجرز میں دھماکا خیز ڈیوائس کب اور کیسے نصب کی؟ سنسنی خیز انکشاف

    اسرائیل نے پیجرز میں دھماکا خیز ڈیوائس کب اور کیسے نصب کی؟ اس سلسلے میں بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے اہم انکشافات کیے ہیں۔

    برسلز سے تعلق رکھنے والے ایک عسکری اور سیاسی تجزیہ کار ایلیاہ میگنیئر نے الجزیرہ کو بتایا کہ کس طرح حزب اللہ کے ارکان پر حملے میں استعمال ہونے والے پیجرز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔

    میگنیئر نے بتایا ’’ایک قسم کا دھماکا خیز مواد ہے جسے PETN کہا جاتا ہے، اسے پیجر الیکٹرانک سرکٹ کے اندر نصب کر دیا گیا تھا، اور یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، بلکہ اس میں ایک اعلیٰ درجے کی تیکنیکی مہارت درکار تھی، اور اس سے پتا چلتا ہے کہ اس میں ریاستی سطح کی انٹیلیجنس ایجنسی ملوث تھی۔‘‘

    انھوں نے کہا ’’پیجرز کی جو کھیپ منگوائی گئی تھی، وہ براہ راست لبنان نہیں آئی، کیوں کہ لبنان کے لیے اس قسم کے آلات حاصل کرنا منع ہے، یہ کھیپ قریب ہی ایک بندرگاہ پر 3 مہینوں تک رکی رہی، حزب اللہ کی تحقیقات کے مطابق اس دوران اسرائیلیوں کے لیے دھماکا خیز مواد نصب کرنے کے لیے کافی وقت تھا۔‘‘

    میگنیئر نے یہ بھی بتایا کہ دھماکے کیسے ہوئے

    انھوں نے کہا ’’اسرائیلیوں نے جس طرح سے یہ کیا، اس سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے ان پیجرز کو ایررز (errors) والا ایک پیغام بھیجا تھا، تین مرتبہ کے ایررز۔ جس کی وجہ سے لوگوں نے اسے دیکھنے کے لیے اٹھایا اور آن کیا، جس سے پیجر وائبریٹ کرنے لگا۔ اور پھر پیجر پھٹ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ 300 سے زیادہ لوگوں نے اپنے دونوں ہاتھ کھوئے اور بہت سے لوگوں کی ایک آنکھ یا دونوں آنکھیں ضائع ہوئیں، جب کہ 150 دیگر نے اپنے پیٹ کا کچھ حصہ کھو دیا۔‘‘

    میگنیئر نے بتایا کہ تفتیش کار ان نتائج پر ان پیجرز کی مدد سے پہنچے جو کسی وجہ سے پھٹ نہیں پائے تھے۔ ’’اور ایسے ہزاروں موبائل تھے جو پھٹ نہیں سکے تھے، بہت سارے صرف جل گئے تھے اور کچھ پیجرز کا ٹرگر سسٹم فیل ہو گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ تفتیش کار نقطے جوڑتے ہوئے تمام سسٹم کو سمجھ گئے۔

    الجزیرہ کو ایک اور دفاعی محققق حمزے عطار نے بتایا کہ اس حملے کے ذریعے حزب اللہ کے سیکیورٹی سسٹم کو توڑا اور ناکام بنایا گیا ہے، حزب اللہ کے لیے یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ثابت ہوا۔ انھوں نے کہا کہ یہ بنیادی طور پر مواصلات کا مسئلہ ہے، اور ایسے کئی امکانات موجود ہیں جو اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ حملہ کیسے کیا گیا۔

    انھوں نے کہا اسرائیل پیجرز کے سامان کو روکنے اور انھیں ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوا، اس نے سپلائی چین میں کہیں کسی جگہ ڈیوائس کے اجزا میں سے ایک میں مداخلت کی، مائیکرو پروسیسرز کو نشانہ بنایا گیا اور انھیں ’’اوور لوڈ‘‘ کیا گیا، جس سے بیٹری اڑ گئی۔