پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے فنکار پیر حامد علی کے فن پارے کو اٹلی میں ہونے والی ایک نمائش کے لیے منتخب کرلیا گیا۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے حامد علی مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور آرٹ پڑھاتے ہیں۔
وہ لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 10 سال کی عمر میں پہلا پورٹریٹ بنایا تھا جو ان کے والد صاحب کا تھا۔
حامد علی اب تک اپنے آرٹ پر ایک درجن سے زائد ایوارڈز حاصل کرچکے ہیں جبکہ اٹلی میں منعقدہ نمائش کے لیے ان کا فن پارہ تیسری بار منتخب ہوا ہے۔
اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر موجود مختلف آرٹ گروپس کا حصہ ہیں، وہیں پر انہوں نے اپنا فن پارہ بھیجا تھا جسے بے حد پسند کیا گیا اور اٹلی میں نمائش کے لیے منتخب کرلیا گیا۔
جھوٹ پکڑنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر کامن سینس سے کام لیا جائے اور بغور مشاہدے کی عادت ڈال لی جائے تو کسی کا بھی جھوٹ باآسانی پکڑا جاسکتا ہے۔
آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک مصور کے جھوٹ کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جو اگر اپنے مقصد میں کامیاب رہتا تو کسی شخص کو بھاری مالی نقصان پہنچا سکتا تھا، آپ کو اس مصور کا جھوٹ پکڑنے کی کوشش کرنی ہے۔
اس مصور کو پیسوں کی ضرورت تھی، اس نے اخبار میں ایک اشتہار دیا کہ اس کے پاس سترہویں صدی کی ایک پینٹنگ ہے جو وہ اپنے مالی حالات کی وجہ سے فروخت کرنا چاہتا ہے۔
اخبار میں اشتہار شائع ہونے کے بعد کئی افراد نے اس سے رابطہ کیا جن میں ایک پولیس افسر بھی شامل تھا۔
پولیس افسر نے اس پینٹنگ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور جب وہ اس فن پارے کو دیکھنے کے لیے پہنچا تو اس نے چند لمحوں میں جان لیا کہ مصور جھوٹ بول رہا ہے۔ پینٹنگ سترہویں صدی کی نہیں تھی بلکہ خود مصور کی بنائی ہوئی تھی جو وہ جھوٹ بول کر فروخت کرنا چاہ رہا تھا۔
کیا آپ جانتے ہیں پولیس افسر نے مصور کا جھوٹ کیسے پکڑا؟
⬇
⬇
⬇
⬇
⬇
⬇
⬇
⬇
⬇
⬇
اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ پینٹنگ میں الیکٹرک پولز اور تاریں موجود ہیں، سترہویں صدی میں بجلی کی تاروں تو کیا بجلی کا ہی وجود نہیں تھا۔ پولیس افسر کے بغور دیکھنے کے بعد مصور کے جھوٹ کا پول کھل گیا اور وہ ایک بڑی رقم لوٹنے میں ناکام رہا۔
نیدر لینڈز میں معروف مصوروں کے کروڑوں یورو مالیت کے فن پارے چرانے والے چور کو گرفتار کرلیا گیا، تاحال اس سے فن پاروں کی برآمدگی نہیں ہوسکی۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق نیدر لینڈز کے دارالحکومت ایمسٹر ڈیم سے گرفتار ہونے والے مشتبہ چور کی عمر 58 برس ہے اور اس پر شبہ ہے کہ اس نے گزشتہ برس لاک ڈاؤن کے دوران وین گوف اور فرانز ہالز کے 2 فن پارے چرائے ہیں۔
یہ دونوں فن پارے گزشتہ برس اس وقت چوری کیے گئے جب نیدر لینڈز میں تمام میوزیمز کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے بند کیے جا چکے تھے۔
گزشتہ برس 30 مارچ کو علیٰ الصبح ایمسٹر ڈیم سے کچھ دور سنگر لارین میوزیم سے اس فن پارے کو چرا لیا گیا، چوری کے لیے اس میوزیم کا شیشے کا مرکزی دروازہ توڑ دیا گیا تھا اور الارم بجنے کے بعد جب پولیس وہاں پہنچی، تب تک چور یہ فن پارہ لے کر فرار ہوچکے تھے۔
دوسری پینٹنگ فرانز ہالز کی ہے جس کا نام 2 لافنگ بوائز ہے، مصوری کے سنہری دور کے ماسٹر پینٹر قرار دیے جانے والے اس مصور کا یہ فن پارہ بھی گزشتہ برس چرایا گیا تھا۔
فرانز ہالز کا فن پارہ
اس فن پارے کو سنہ 1626 میں تخلیق کیا گیا تھا۔
ہالز کا یہ شاہکار بھی اس طرح چرایا گیا تھا کہ اس جرم کے لیے ڈچ دارالحکومت سے 60 کلو میٹر جنوب کی طرف واقع لیئرڈم کے ایک چھوٹے سے میوزیم کا دروازہ توڑ دیا گیا تھا۔
ان دونوں فن پاروں کی مجموعی مالیت کروڑوں یورو بنتی ہے۔ پولیس کے مطابق شواہد کی بنیاد پر مشتبہ چور کو گرفتار تو کر لیا گیا ہے اور اس سے پوچھ گچھ بھی جاری ہے، تاہم ابھی تک دونوں چوری شدہ شاہکاروں میں سے کوئی ایک بھی برآمد نہیں ہوا۔
پولیس نے مزید کوئی تفصیلات بتائے بغیر صرف یہ تصدیق کی کہ ملزم کو ایمسٹرڈیم کے مضافات میں اس کے فلیٹ سے گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق ملزم کی رہائشگاہ اس سنگر لارین میوزیم سے زیادہ دور نہیں، جہاں سے وین گوف کا فن پارہ چرایا گیا۔
دبئی: دنیا کی سب سے بڑی کینوس پینٹنگ دبئی میں 62 ملین ڈالر میں فروخت ہو گئی۔
تفصیلات کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا کینوس فن پارہ ’انسانیت کا سفر‘ دبئی میں 227 ملین درہم سے زائد میں فروخت ہو گیا، یہ فن پارہ برطانوی آرٹسٹ سَچا جعفری نے تخلیق کیا ہے، اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی تمام رقم بچوں کے خیراتی اداروں کو جائے گی۔
یہ پینٹنگ ’The Journey of Humanity‘ دبئی میں رہنے والے ایک فرانسیسی شہری آندرے ایبڈون نے 22 مارچ کو خریدی، جس کے لیے نیلامی دبئی ہی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کی گئی تھی۔
یہ فن پارہ سائز کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا فن پارہ ہے، جو فریم شدہ 70 سیکشنز میں منقسم ہے، اور اس کی پیمائش 17 ہزار 176 اسکوائر فٹ ہے، یعنی 6 ٹینس کورٹس کی لمبائی کے برابر۔
اس پینٹگ کو گنیز ورلڈ ریکارڈز نے بھی لارجسٹ آرٹ کینوس کے طور پر تسلیم کیا ہے، اس کی نمائش ہوٹل کے بال روم میں کی گئی تھی، اور یہ سوچا گیا تھا کہ اسے ٹکڑوں کی صورت میں فروخت کیا جائے گا لیکن آندرے ایبڈون نے اسے پورا خرید لیا۔
انتظامیہ کا کہنا تھا کہ جتنی رقم میں پینٹنگ فروخت ہوئی ہے، یہ ہدف سے دگنی ہے۔
کرپٹو کرنسی کا کاروبار کرنے والے فرانسیسی شہری آندرے ایبڈون نے کہا کہ میرا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا، اور میں یہ جانتا ہوں کہ جب کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تو کیسا محسوس ہوتا ہے، لیکن میرے پاس کم از کم میرے والدین کی محبت تھی، اسکول جاتا تھا۔
انھوں نے کہا جب میں نے اس فن پارے کو دیکھا تو مجھے یہ نہایت طاقت ور لگا، اور میرے لیے یہ بہت بڑی غلطی ہوتی اگر اس کے ٹکڑے الگ کر دیے جاتے، اس لیے میں نے اسے مکمل خریدا۔
ایمسٹرڈیم: کرونا وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر چور ایک میوزیم سے شہرہ آفاق مصور وین گوف کی لاکھوں ڈالر مالیت کی پینٹنگ لے اڑے۔
ونسنٹ وین گوف کے فن پارے کی چوری ایمسٹرڈیم کے قریب واقع ایک میوزیم سنگر لارین سے ہوئی۔ پولیس کے مطابق چور صبح ساڑھے 3 بجے میوزیم کا ایک شیشہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور بیش قیمت فن پارہ لے اڑے۔
اس فن پارے کی قیمت اندازاً 66 لاکھ ڈالر بتائی جارہی ہے۔ واقعے کی خبر ہوتے ہی پولیس فوراً موقع پر پہنچی تاہم چور تب تک فرار ہوچکا تھا۔
میوزیم کے ڈائریکٹر جان رالف نے اس واقعے پر سخت افسوس کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ آرٹ دیکھنے، لطف اندوز ہونے اور سکون حاصل کرنے کے لیے ہے خصوصاً آج کل کے کٹھن حالات میں اس کی زیادہ ضرورت ہے
ان کے مطابق یہ فن پارہ شمالی نیدر لینڈز کے ایک اور میوزیم سے لا کر ایک نمائش کے لیے یہاں رکھا گیا تھا۔
نیدر لینڈز سے تعلق رکھنے والے مصور ونسنٹ وین گوف کے فن مصوری نے اس دور کی مصوری پر اہم اثرات مرتب کیے، وہ مشہور مصور پکاسو سے متاثر تھا۔ وین گوف کا مذکورہ چوری شدہ فن پارہ سنہ 1884 میں بنایا گیا تھا۔
اس سے قبل بھی وین گوف کے فن پاروں کی چوری کے واقعات پیش آچکے ہیں۔
سنہ 2002 میں ایمسٹر ڈیم کے ہی ایک میوزیم سے وین گوف کے 2 فن پارے چرائے گئے تھے جو سنہ 2016 میں بازیاب کرلیے گئے، دونوں پینٹنگز نیپلز مافیا نامی گروہ نے چرائے تھے۔
انڈونیشیا کے ایک غار سے ایک پینٹنگ دریافت ہوئی ہے جسے اب تک معلوم انسانی تاریخ کی اولین ترین پینٹنگ قرار دیا جارہا ہے۔
یہ پینٹنگ انڈونیشیا کے جزیرے سلوویسی سے دریافت ہوئی ہے، پینٹنگ سنہ 2017 میں دریافت کی گئی تھی اور اس کا تحقیقاتی کام اب مکمل ہوا ہے جس کے بعد علم ہوا کہ یہ 44 ہزار سال پرانی ہے۔
غار میں کندہ اس فن پارے میں ایک بھینس نظر آرہی ہے اور انسان اور جانور کے دھڑ پر مشتمل کچھ جاندار ہیں جنہوں نے نیزے اور ممکنہ طور پر رسیاں پکڑ رکھیں ہیں اور وہ اس بھینس کا شکار کر رہے ہیں۔
فن پارے پر شکار کے انداز سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ شکار کا کوئی مقابلہ منعقد کیا جارہا ہے۔
اسے دریافت کرنے والے آسٹریلوی و انڈونیشین ماہرین کے مطابق یہ منظر دنیا کی سب سے پرانی کہانی ہو سکتی ہے جسے ریکارڈ کیا گیا، اس کی عمر ممکنہ طور پر 44 ہزار سال ہے۔
اس سے قبل معلوم تاریخ کا سب سے قدیم فن پارہ جرمنی کے ایک غار میں دریافت ہونے والے نقوش کو مانا جاتا ہے جن کی عمر اندازاً 40 ہزار برس ہے۔
ماہرین کے مطابق اس علاقے میں غاروں میں بنے فن پارے پہلی بار سنہ 1950 میں دریافت ہوئے جب 242 غاروں کو مختلف تصاویر اور نقوش سے مزین پایا گیا۔
ان قدیم نقوش کے خراب ہونے کا خدشہ بھی ہے۔ دھول، مٹی، نمک، دھواں اور جراثیم ان نقوش کو خراب کرنے اور مٹانے کا سبب بن رہے ہیں۔
ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ نقوش غائب ہوگئے تو یقیناً یہ انسانی ثقافت کا ایک بڑا نقصان ہوگا۔
آپ نے اب تک پتوں پر فن مصوری کے بے شمار نمونے دیکھے ہوں گے۔ مختلف باصلاحیت فنکار ان پتوں کو مختلف انداز سے ڈھال کر فن مصوری کا شاہکار بنا دیتے ہیں۔
ایسی ہی ایک فنکارہ لینا ال ہیک بھی ہیں جو انگور کے پتوں پرخوبصورت نقش و نگار بناتی ہیں۔ لینا کا تعلق غزہ سے ہے، 21 سالہ یہ مصورہ ان پتوں پر خوبصورت آئل پینٹنگز بناتی ہیں۔
ان کی مہارت ان پتوں کو مصوری کے شاہکار میں تبدیل کردیتی ہے۔ لینا سوشل میڈیا پر متحرک تو نہیں ہیں تاہم وہ اپنے فن کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتی ہیں۔
اٹلی کے شہر روم میں 4 ڈرونز نے دیوار پر گریفٹی بنا ڈالی۔ دیوار پر پینٹنگ کا یہ مظاہرہ ایک پروجیکٹ کے تحت کیا گیا۔
روم کی شہری انتظامیہ نے ’اربن فلائنگ اوپرا‘ نامی ایک پروجیکٹ کا اعلان کیا جس کے تحت شہریوں سے متاثر کن منصوبوں کے بارے میں پوچھا گیا، ایک ہزار افراد کے بھیجے گئے پروجیکٹ آئیڈیاز میں سے 100 کو قبول کیا گیا۔
انہی میں سے ایک ڈرون کے ذریعے گریفٹی بنانے کا منصوبہ بھی تھا جسے روم کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی آف ٹیورن اور ٹیورن یونیورسٹی نے مشترکہ طور پر عملی جامہ پہنایا۔
دیوار پر پینٹنگ کے لیے ماہرین نے 4 ڈرونز کو کنٹرول کیا جو دیوار کو خوبصورت شاہکار میں تبدیل کرتے گئے۔ 3 مختلف مرحلوں میں دیوار پر شہر کی زندگی کی جھلک دکھائی گئی۔
ماہرین کے مطابق اس کامیاب عملی مظاہرے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ مستقبل میں ڈرونز رنگ و روغن اور پینٹنگ کا کام بھی کرسکیں گے۔
اوٹاوا: کینیڈا میں نوجوان آرٹسٹ کے فن پارے کی دھوم مچ گئی، مونالیزا کی شہرہ آفاق پینٹنگ کو اسنو لیزا میں تبدیل کردیا۔
تفصیلات کے مطابق مونالیزا کی مشہور پینٹنگ کو کینیڈین نوجوان نے ایسی مہارت سے برف پر نقش کیا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔
ٹورنٹو کے رہائشی رابرٹ گرین فیلڈ نے آرٹ کا یہ عمدہ نمونہ پینٹنگ کرکے نہیں بلکہ برف کی سفید چادر میں ڈھکے اپنے گھر کے عقبی صحن میں ایک بیلچے کی مدد سے پیش کیا۔
کمال مہارت سے برف پر بنائی گئی مونا لیزا کی یہ پینٹنگ سوشل میڈیا آتے ہی چھاگئی ہے، ہزاروں افراد پینٹنگ کو دیکھ کر نوجوان آرٹسٹ کے فن کو سرارہے ہیں۔
آرٹسٹ کا کہنا ہے کہ اس نے بیلچے اور ہاکی کی مدد سے یہ اسنو لیزا تیار کیا، کینیڈا میں ہونے والی برفباری سے یہ تخلیق کرنے میں کامیاب ہوا۔
کینیڈا میں ان دنوں شدید برفباری ہورہی ہے، سڑکوں اور گلیوں میں چھ انچ تک برف کی تہہ جم چکی ہے جبکہ شہری شدید ٹھنڈ کے باعث بلاضرورت گھر سے باہر جانے سے اجتناب کررہے ہیں۔
خیال رہے کہ مشہور زمانہ مونا لیزا کی پینٹنگ اٹلی کے مصور لیونا رڈو ڈا ونسی نے تیار کی تھی، شہکار تخلیق کی ابتدا سال 1503 یا 1504 میں شروع کی جبکہ اپنے مرنے سے کچھ عرصے قبل ہی 1509میں مکمل کی۔
یہ پینٹنگ ان کی پسندیدہ تھی اس غیر معمولی پینٹنگ کو وہ اپنے ساتھ فرانس لے گیا اور آخری وقت تک اپنے ساتھ رکھا۔
عبدالستار ایدھی کی خدمات کبھی بھلائی نہیں جاسکتی، جس تازہ مثال لندن سے تعلق رکھنے والے فنکار کی ہے جس نے ٹریفلگر اسکوائر پر ایدھی صاحب کی خدمات کو پینٹنگ بناکر خراج عقیدت پیش کیا.
تفصیلات کے مطابق پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کو دکھانے والے اور انسانیت کا درس دینے والے عبدالستار ایدھی صرف پاکستان میں ہی بلکہ پوری دنیا میں اپنے کام کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔جس کی تازہ ترین مثال برطانوی فنکار دانیل سوان کا فن پارا ہے جس کے ذریعے انہوں نے ایدھی صاحب کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
حال ہی میں لندن سے تعلق رکھنے والے مصور اور سماجی کارکن دانیل سون نے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس چلانے والے سماجی کارکن ایدھی صاحب کی انسان دوستی سے متاثر ہوکر عبدالستار ایدھی اور عوامی خدمت کے اس زبردست جذبے کو سراہنے کے لیے لندن کے ٹریفلگر اسکوائر پر ان کا فن پارا تیار کیا ہے۔
Daniel Swan
ایدھی نے یتیموں کی سرپرستی اور بے سہارا لوگوں کو مدد فراہم کی۔ دنیا انہیں انسان دوست شخصیت تسلیم کرتی ہے جس انسانیت کے لیے زندگی گزاری اور آخری سانس تک لوگوں کے خدمت کے لیے صرف کردی۔
سوان برطانیہ میں کام میں سماجی کام کرنے والی تنظیم’پیپلز آف پرسیپشن‘کے ساتھ کام کرتے ہیں جو بے گھر افراد کے لیے گھر کا بندوبست کرتی ہے۔
بے سہارا لوگوں کی مدد کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے دانیل سوان نے لکھا کہ’میں دنیاکے ایک بڑے ادارے میں کام کرتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ میں بہت پیسے کماتا ہوں لیکن میں اس سے انسانیت کی خدمت کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا‘۔
انہوں مزید لکھا کہ’لوگ جتنی تکالیف برداشت کررہے ہیں، اگر ہر فرد مجبور لوگوں کی مدد کرنا شروع کردے تو لوگوں کو اتنی مشکلات نہ اٹھانی پڑے،اور اگر ہم اپنے پیار کرنے والے لوگوں کے ساتھ اچھے انداز میں زندگی گزارنے لگے تو پوری دنیا کو تبدیل کرسکتے ہیں۔