اسلام آباد : الیکشن کمیشن انتخابات 2018 کے نتائج نادرا سے منسلک موبائل سے وصول کرے گا، نادرا نے سسٹم منسلک کرنے کے لئے اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق الیکشن نتائج کے ترسیلی نظام کو نادرا سے منسلک کرنے پر اہم پیش رفت سامنے آئی ، الیکشن کمیشن عام انتخابات 2018 کے نتائج کی ترسیل کیلئے نادرا کا جدید نظام کرے گا۔
الیکشن کمیشن حکام کے مطابق اس سلسلے میں نادرا ٹیمیں ملک بھر کے اضلاع میں پہنچ گئی، نادرا ٹیمیں ریٹرننگ افسران سے ملاقاتیں کریں گی اور اٹھارہ سے اکیس جولائی تک ٹیمیں نظام کومنسلک کریں گی جبکہ پریذائیڈنگ افسران کوطلب کرکے نظام منسلک کیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن حکام کا کہنا ہے کہ اینڈرائیڈ فون نہ ہونے پراسسٹنٹ پی او کا موبائل منسلک کیا جائے گا، نادرا تمام ریکارڈ اکیس جولائی کے بعد الیکشن کمیشن کو مہیاکرے گا۔
الیکشن کمیشن نادرا سے منسلک موبائل سے ہی نتائج وصول کرے گی۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں 25 جولائی کو عام انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے ، جس کی تیاریوں کو حتمی شکل دی جارہی ہے اور اس روز عام تعطیل کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
نارووال : پولیس نے پولنگ ڈے کے لئے خواجہ سراؤں کی مدد مانگ لی، خواجہ سراوں کا کہنا تھا کہ ہماری ڈیوٹی لگائی گئی تو ذمہ داری سے ڈیوٹی دے گے۔
تفصیلات کے مطابق نارووال میں الیکشن ڈے پر ڈیوٹی کے لئے خواتین پولیس اہلکار کم پر گئیں ، پولیس نے پولنگ ڈے کے لئے خواجہ سراؤں کی مدد مانگ لی، خواجہ سرا ڈیوٹی دینے کے لئے پر جوش ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق خواجہ سراؤں کی الیکشن ڈے ڈیوٹی کے لئے مشاورت ہو رہی ہے، مختلف تھانوں میں پولیس کی طرف سے خواجہ سراؤں کے انٹرویو کئے گئے۔
خواجہ سراوں کا کہنا تھا کہ آخر ہم بھی الیکشن کے لئے کام آگئے، ہماری ڈیوٹی لگائی گئی تو ذمہ داری سے ڈیوٹی دے گے۔
ڈسٹرکٹ نارووال میں رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کی تعداد 95 ہے جبکہ پولیس کے پاس ڈسٹرکٹ نارووال میں صرف 23 خواتین پولیس اہلکار ہیں ، پولنگ ڈے پر پولیس کی طرف سے 117 خواتین پولیس اہلکار کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں 25 جولائی کو عام انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے ، جس کی تیاریوں کو حتمی شکل دی جارہی ہے اور اس روز عام تعطیل کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
چترال:حلقہ پی کے 1 چترال سے پیپلزپارٹی کے امیدوار(سابق ایم پی اے) غلام محمد اور ان کے حامیوں نے غنڈہ کردی ، کارکردگی کا سوال پوچھنے والے پی ٹی آئی کے کارکن کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔
تفصیلات کے مطابق ایک خطاب کے دوران پیپلز پارٹی کے امیدوار برائے قومی اسمبلی سلیم خان تحریک انصاف حکومت کو تنقید کا نشانہ بنارہے تھے، اس موقع پر موجود تحریک انصاف کے مقامی کارکن نے ان سے یہ سوال پوچھا کہ ’’پیپلز پارٹی چترال میں 10 سال اقتدار میں رہی ہے، آپ اپنی کارکردگی بتائیں‘‘۔ یہ سوال پوچھنا تھا کہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار حاجی غلام محمد اٹھ کھڑے ہوئے اور سوال پوچھنے والے کو مغلظات بکنا شروع کردیں۔اس کے ساتھ ہی ان کے ہمراہ آئے ہوئے حامیوں نے غنڈہ گردی کی انتہا کردی۔ مقامی شخص کو مار مار کر ہاتھ پاؤں اور دونوں ٹانگیں زخمی کرڈالا ۔ متاثرہ شخص مقامی تھانے ایف آئی آر درج کرانے گیا تو پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پولیس نے بجائے ایف آئی آر درج کرنے کے زخمی حالت میں بغیر کوئی ابتدائی طبعی امداد دئیے متاثرہ شخص کو 4 گھنٹے تک حوالات میں بند کئے رکھا۔
پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی اس غنڈہ گردی کی ویڈیو اور متاثرہ شخص کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد چترال کے عوام حکومت اور الیکشن کمیشن سے فوری ایکشن لینے اور امیدواروں کو تا حیات نا اہل قرار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔
دوسری جانب لودھراں میں بزرگ سپورٹر ظفر اقبال عرف مٹھو کو بھی پی ٹی آئی کے پوسٹرز لگانے پر مسلم لیگ ن کے کارکنان نے تشدد کا نشانہ بنایا، تشدد کا نشانہ بننے والے کارکن کو زخمی حالت میں ڈی ایچ کیو اسپتال منتقل کردیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بزرگ کارکن کی حالت بحال ہونے پر قانونی کارروائی کا آغاز ہوگا۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں
ٹیکسلا: سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو 25 جولائی کے بعد گھمبیر حالات کا سامنا ہوگا، سیاست دان ملک کا بھلا چاہتے ہیں تو دست وگریباں ہونا چھوڑ دیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ٹیکسلا کے سی بی گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا، چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کے بعد ملک کو گھمبیر حالات سے گزرتا ہوا دیکھ رہا ہوں، سیاست دان آپس میں لڑنا چھوڑ دیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے مخالف امیدوار سے کہو وہ اپنی کارکردگی بتائے، اس علاقے میں ن لیگ کی اینٹ اینٹ میں نے رکھی، جو کونسلر کا الیکشن نہیں لڑسکتے وہ بھی ن لیگ کے ساتھ ہیں۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ الیکشن کردار اور کارکردگی کی بنیاد پر ہوتا ہے، اس حلقے سے ہارنے کے باوجود ترقیاتی کام کرائے، میرے متعلق یہاں کے عوام جانتے ہیں۔
خیال رہے کہ انہوں نے گذشتہ روز بھی ٹیکسلا میں عوامی جلسے سے خطاب کیا تھا، اس موقع پر چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ عوام امیدوار کی کارکردگی دیکھ کر ووٹ دینے کا فیصلہ کریں کہ آپ کے ووٹ کی پرچی کا اصل کون حقدار ہے، اللہ کا بھی حکم ہے کہ امانتیں ایماندار لوگوں کے سپرد کرو۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ عمران خان اور میں اسکول کے زمانے سے دوست ہیں، عمران خان نے کیا کہا اس میں نہیں جانا چاہتا، عمران خان نے مجھے کہا جتنے چاہیں ٹکٹ لے لو۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی مہم کے وقت سے متعلق ضابطۂ اخلاق جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ امیدوار پولنگ ختم ہونے کے وقت تک 48 گھنٹوں کے دوران انتخابی مہم روکنے کے پابند ہوں گے۔
تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کو پابند بنایا ہے کہ جس رات پولنگ ختم ہو رہی ہو، اس وقت تک اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کوئی عوامی جلسہ منعقد نہ کیا جائے۔
الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 182 کے مطابق کوئی بھی شخص ووٹنگ کے خاتمے تک اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کوئی عوامی جلسہ منعقد کرے گا نہ ہی ایسے کسی جلسے میں شرکت کرے گا۔
ضابطۂ اخلاق کے مطابق بتائے گئے وقت میں کوئی بھی شخص انتخابی حلقے میں نہ کسی جلوس کو پروموٹ کرے گا نہ ہی اس میں شامل ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے خبر دار کیا ہے کہ اگر کسی بھی شخص نے قانون کے ان ضابطوں کی خلاف ورزی کی تو اسے دو سال قید کی سزا ہو سکتی ہے یا ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے یا پھر دونوں سزائیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے میڈیا پر انتخابی مہم کے لیے بھی ضابطۂ اخلاق جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ امیدواروں کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک اور پریس میڈیا بھی انتخابی وقت کے ضابطے کی پابندی کریں گے۔
ضابطے کے مطابق انتخابات 2018 کے لیے میڈیا ملک بھر میں انتخابی مہم 23 اور 24 جولائی کی درمیانی رات کو روک دے گا۔
مذکورہ وقت کے دوران الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ایسا کوئی اشتہار اور تحریری مواد شائع نہیں کرے گا جس کا مقصد سیاسی مہم ہو، یا وہ کسی پارٹی یا امیدوار کے حق میں ہو۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
جمہوریت ایک جدید طرزِ حکومت ہے جس میں عوام کی حکومت ، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے چلائی جاتی ہے، پاکستان میں چند دن بعد عام انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے جس میں پاکستان کے عوام اپنے لیے حکمرانوں کا تعین کریں گے۔
آج کی دنیا میں جب کے وسیع و عریض مملکتیں قائم ہیں، ایسے میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور اظہار رائے کرنا طبعاً ناممکنات میں سے ہے۔ پھر قانون کا کام اتنا طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ معمول کے مطابق تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کے جھگڑے میں پڑ کر جاری نہیں رہ سکتی ہے۔
اس لیے جدید جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی جہاں ہر شخص کے مجلسِ قانون ساز میں حاضر ہونے کی بجائے رائے دہندگی کے ذریعے چند نمائندے منتخب کر لیے جاتے ہیں۔ جو ووٹروں کی جانب سے ریاست کا کام کرتے ہیں۔
جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں نظام ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کارفرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور اراکینِ مملکت کا انتخاب صحیح ہو۔
پاکستانی جمہوریت کے کچھ کمزور پہلو
پاکستان میں 1970 کے انتخابات میں پہلی بار عام آدمی کو براہ راست ووٹ دے کر اپنے نمائندے چننے کا اختیار ملا ، 1973 میں یہ طریقہ کار آئین کا حصہ بن گیا تاہم ابھی بھی اس نظام میں کچھ کمزوریاں ہیں ، جن کے سبب پاکستان کا عوام شہری آج بھی جمہوری ثمرات سے اس طرح بہرہ مند نہیں ہوپارہا ہے، جیسا کہ دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں کے شہری ہوتے ہیں۔
ووٹ کس کو دیں؟
پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ آج تک یہ بات نہیں سمجھ پایا کہ انہیں ووٹ منشور اور کاکردگی کی بنیاد پر دینا ہے اور ناقص کاکردگی دکھانے والے کو آئندہ انتخابات میں رد کرنا ہے، آج بھی یہاں ذات برادری ، قبیلہ ، فرقہ اور زبان کے نام پر لوگ ووٹ مانگتے ہیں اور عوام میں سے بہت سے ان کھوکھلے نعروں پر ووٹ دے کر ایسے لوگوں کو پارلیمنٹ میں پہنچادیتے ہیں جو کہ کارکردگی کی بنا پر کسی صورت کامیاب نہیں ہوسکتے۔
پارٹیوں کی اجارہ داری
پاکستان کیونکہ ایک بڑا ملک ہے اس لیے یہاں ناممکن ہے کہ کوئی آزاد امید وار، از خود وزیراعظم بن سکے ، یہاں سیاسی جماعتیں کثیر تعداد میں نشستیں حاصل کرتی ہیں اور اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لیے ایسے آزاد امیدوار جو الیکشن میں فاتح رہے ہوں ،ا نہیں اپنی جماعت میں شمولیت کی ترغیب دیتی ہیں۔ ایسے حالات میں آزاد امیدوار پارٹی منشور کےبجائے آفر کو ترجیح دیتا ہے اور بالخصوص حکمران جماعت کی جانب قدم بڑھاتا ہے۔
ہارنے والے کے ووٹ
پاکستانی جمہوری نظام میں زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت ہی عموماً حکومت تشکیل کرتی ہے ، انتخابی معرکے میں اکثر اوقات فاتح امید وار چند سو یا چند ہزار ووڑ کے مارجن سے جیت جاتا ہےاور وہ تمام افراد جنہوں نے ہارنے والے امید واروں کو ووٹ دیے تھے ان کی آواز پارلیمنٹ تک نہیں پہنچ پاتی، اس کا ایک حل یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ نشستوں کی تقسیم فاتح امیدواروں کےبجائےپورے ملک سے حاصل کردہ کل ووٹوں کی بنیاد پر کی جائے، تاہم اس کے لیے آئین سازی اور پورے ملک سے اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔
ممبران کے فنڈ
کسی بھی ملک میں پارلیمان کے ممبران کا بنیادی کام قانون سازی ہے ، یہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کاروبارِ مملکت چلانے کے لیے قانون بنائےا ور انہیں نافذ کرائے ۔ پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے لیے ترقیاتی فنڈ مختص ہیں ، جو کہ حلقے کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ فنڈز جہاں ایک جانب ممبران کی توجہ پارلیمانی امور سے ہٹاتے ہیں ، وہیں اس پیسے کے سبب بہت سے ایسے افراد بھی انتخابی عمل کا حصہ بن جاتے ہیں جن کا مقصد محض فنڈزا ور عہدوں کا حصول اور ان میں کرپشن کرنا ہے ، ان عوامل کے نتیجے میں ملکی معیشت اور معاشرت دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
جدید تکنیک سے دوری
ہمارے پڑوسی ملک بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ کے لیے مشین یا ای پیپر کا استعمال ہورہا ہے، تاہم پاکستان آج کے جدید دور میں بھی قدیم پولنگ کے طریقے استعمال کررہا ہے ، جن میں دھاندلی کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور ان پر بے پناہ لاگت بھی ہے، دوسری جانب ووٹر کو بھی طویل قطاروں میں لگ کر ووٹ ڈالنے کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے جس کے سبب رجسٹرڈ ووٹر ز کی کثیر تعداد الیکشن والے دن گھر سے نہیں نکلتی اور ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہتا ہے۔ اسی سبب بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی اپنے حقِ رائے دہی سے محروم رہتے ہیں۔
بہرحال پاکستان میں جمہوریت کو تسلسل کے ساتھ کام کرتے ہوئے دس سال ہوچکے ہیں اور اس عرصےمیں دو سیاسی حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرکے عوام میں جاچکی ہیں۔ سنہ 2018 کے انتخابات کے لیے یہ سیاسی جماعتیں ایک بار پھر میدان میں ہیں۔
گزشتہ دس سالوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل کے سبب عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا ہے، پہلے وہ علاقے جو کہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کا گھر سمجھے جاتے تھے ، انہی علاقوں میں اب سیاسی جماعتوں سے عوام سوال کررہے ہیں کہ ان کے حقوق کہاں ہیں۔ جمہوریت اسی طرح اپنا سفر آگے بڑھاتی رہی تو امید ہے کہ یہی کرپشن زدہ امید وار ایک نہ ایک دن عوامی دباؤ سے خوف زدہ ہوکر از خود ملک کی بہتری کے لیے اقدامات کرنا شروع کردیں گے اور اس کی کئی مثالیں ہمیں گزشتہ دس سال میں نظر بھی آئی ہیں، جن میں اٹھارویں آئینی ترمیم ، سول حکومت میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات کا انعقاد، اور عہدے پر موجود وزرائے اعظم کی کرپشن پر اسی مدت میں ان کا احتساب اور سزا کا عمل شامل ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں
اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پرانتخابی عملے کو سزا کی وارننگ جاری کردی اور کہا کہ عملے کو چھ ماہ قید اور ایک لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن میں انتخابات میں ڈیوٹی کے دوران جلعسازی اور غفلت پر انتخابی عملے کو سزا کی وارننگ دے دی اور کہا کہ انتخابی عملے کی جانب سے کاغذات میں تبدیلی، بیلٹ پیپر پر سرکاری مہر خراب کرنا جرم ہوگا جبکہ بیلٹ پیپر اٹھانا، دوسرا پیپر ڈالنا، سیل توڑنا، مہر سے جعلسازی بھی جرم ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عملے کو چھ ماہ قید اور ایک لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ووٹر کو مجبورکرنا، ووٹ اور انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونا غیر قانونی ہوگا، جرائم پر عملے کو دو سال قید ،ایک لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ووٹ افشا کرنا،بیلٹ پیپر پر مہر کی کسی کو اطلاع دیناغیر قانونی ہے جبکہ کسی امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اطلاع دینے پر چھ ماہ قید یا ایک لاکھ جرمانہ ہوگا۔
یاد رہے کہ ملک بھر میں 25 جولائی کو عام انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے ، جس کی تیاریوں کو حتمی شکل دی جارہی ہے اور اس روز عام تعطیل کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
اسلام آباد: الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ 22 کروڑ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا ہدف 16 دنوں میں مکمل کرلیا گیا ہے۔ بیلٹ پپیرز کی چھپائی پر 2 ارب سے زائد لاگت آئی۔
تفصیلات کے مطابق ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ 22 کروڑ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا ہدف 16 دنوں میں مکمل کرلیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف اضلاع میں ترسیل کا عمل فوج کی نگرانی میں جاری ہے۔ کچھ حلقوں کے بیلٹ پیپر، کیس زیر سماعت ہونے کے باعث نہ چھپ سکے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق چاروں صوبوں کے بیلٹ پپیرز کی چھپائی 3 پرنٹنگ پریسز میں کی گئی ہے۔ یکم جولائی سے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا کام شروع کیا گیا جو آج مکمل کرلیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بیلٹ پیپرز کے لیے کاغذ فرانس اور برطانیہ سے منگوایا گیا۔ مہنگا واٹر مارک کاغذ بیلٹ پپیرز کی چھپائی میں استعمال کیا گیا۔ بیلٹ پپیرز کی چھپائی پر 2 ارب سے زائد لاگت آئی۔
خیال رہے کہ ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہونے جارہا ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
کہا جاتا ہے کہ کسی مقام پر زندگی کا دار ومدار پانی پر ہوتا ہے، جہاں پانی ہوگا وہیں زندگی ہوگی۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو کسی صحرا میں زندگی کا وجود ناممکن نظر آتا ہے۔
تاہم ایسا ہے نہیں، دنیا بھر کے صحراؤں میں لوگ آباد ہیں جو اپنی مختلف ثقافت اور رسوم و رواج کے باعث منفرد تصور کیے جاتے ہیں۔
گو کہ صحراؤں میں ان کی ضرورت کے حساب سے بہت کم پانی میسر ہوتا ہے، لیکن یہ جیسے تیسے اپنی زندگی اور روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔
انہی صحراؤں میں سے ایک سندھ کا صحرائے تھر بھی ہے جو برصغیر کا سب سے بڑا صحرا اور دنیا بھر کے بڑے صحراؤں میں سے ایک ہے۔
تقریباً 16 لاکھ سے زائد افراد کو اپنی وسعت میں سمیٹے صحرائے تھر ایک عرصے سے اپنے مسیحا کا منتظر ہے جو آ کر اس صحرا کو گلشن میں تو تبدیل نہ کرے، البتہ یہاں رہنے والوں کے لیے زندگی ضرور آسان بنا دے۔
مختلف ادوار میں مختلف پارٹیوں کی حکومت کے دوران کوئی ایک بھی حکومت ایسی نہ تھی جو صحرائے تھر کے باشندوں کی زندگی بدل سکتی اور انہیں بنیادی سہولیات فراہم کرسکتی۔
چنانچہ اب تھر کے لوگ اپنی قسمت بدلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے ان بھاری بھرکم سیاسی جماعتوں کے مقابلے کا اعلان کردیا ہے۔
کہتے ہیں کہ جب کوئی عورت اپنے خاندان کو بچانے کے لیے کسی مشکل کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہوجائے تو وہ عزم وحوصلے کی چٹان بن جاتی ہے اور اس میں اتنی ہمت آجاتی ہے کہ وہ فرعون وقت کو بھی چیلنج کرسکتی ہے۔
تھر کی عورتوں نے بھی ان سیاسی جماعتوں کے مدمقابل آنے کی ہمت کرلی ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو ایک عرصے سے اپنے خاندانوں اور لوگوں کو ترستی ہوئی زندگی گزارتا دیکھ رہی ہیں۔
یہ خواتین اب آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اور ان پارٹیوں سے نجات چاہتی ہیں جو صرف ووٹ کے حصول کی حد تک تھر والوں سے مخلص ہیں۔
صحرائے تھر قومی اسمبلی کی 2 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 4 نشستوں پر مشتمل ہے جن میں این اے 221 ڈاہلی نگر پارکر، این اے 222 ڈیپلو اسلام کوٹ، پی ایس 54 ڈاہلی، پی ایس 55 نگر پارکر، پی ایس 56 اسلام کوٹ، اور پی ایس 57 ڈیپلو شامل ہیں۔
قومی اسمبلی کی نشست این اے 222 سے تلسی بالانی، پی ایس 55 سے نازیہ سہراب کھوسو اور پی ایس 56 سے سنیتا پرمار انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
ان خواتین کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے امیدواروں سے ہے۔
نازیہ سہراب کھوسو
نازیہ سہراب کھوسو
نازیہ سہراب کھوسو تھر کے علاقے نگر پارکر حلقہ پی ایس 55 سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تھر میں زندگی گزارنا ایسا ہے جیسے آپ اس دنیا میں لاوارث ہیں۔ ’لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، اور کوئی پوچھنے تک نہیں آتا‘۔
نازیہ نے بتایا کہ تھر میں موجود اسکولوں میں کئی استاد ایسے ہیں جنہیں وڈیروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ استاد اپنے فرائض تو نہیں نبھا رہے البتہ ہر ماہ تنخواہ ضرور لیتے ہیں۔ ’وڈیروں کی وجہ سے کوئی ان کے خلاف ایکشن نہیں لیتا‘۔
انہوں نے کہا کہ یہاں نہ خواتین کے لیے صحت کے مراکز ہیں، نہ پینے کا پانی، نہ سڑکیں نہ اسکول، ’امیر کے بچے کے لیے سب کچھ ہے، وہ شہر کے اسکول جا کر بھی پڑھ سکتا ہے، غریب کا بچہ کیا کرے‘؟
ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟
اس بارے میں نازیہ نے بتایا کہ گھر سے باہر نکلنے اور الیکشن لڑنے پر انہیں باتیں سننے کو ملیں، ’جب آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو یہ سب سننا ہی پڑتا ہے، ان باتوں پر اگر کان دھرا جائے تو کوئی عورت کچھ نہ کرسکے‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے الیکشن میں حصہ لینے سے دیگر خواتین میں بھی حوصلہ پیدا ہوا ہے، ہوسکتا ہے کل مزید کئی خواتین اپنے علاقے کی قسمت بدلنے کے لیے میدان میں اتر آئیں۔
ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے کیا انہیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے کسی قسم کے دباؤ کا بھی سامنا ہے؟
اس بارے میں نازیہ نے بتایا کہ انہیں پارٹیوں کی جانب سے پیغام وصول ہوا کہ ہم بڑی بڑی مضبوط جماعتیں ہیں، ہمارے مقابلے میں آپ کیا کرلیں گی؟ بہتر ہے کہ الیکشن لڑنے کا خیال دل سے نکال دیں۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی افراد پر بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ پارٹی کو ووٹ دیں اور اس کے لیے انہیں دھمکیوں اور لالچ دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
مستقبل میں نازیہ کے الیکشن جیتنے کی صورت میں کیا اس بات کا امکان ہے کہ وہ کسی پارٹی میں شامل ہوجائیں؟ اس بات کی نازیہ سختی سے نفی کرتی ہیں۔
’بڑی اور پرانی سیاسی جماعتیں جو طویل عرصے سے تھر کے لوگوں کو بے وقوف بنا رہی ہیں ان میں شامل ہونے کا قطعی ارادہ نہیں۔ یہ غریب لوگوں کے حقوق کی جنگ ہے جو یہ لوگ لڑ ہی نہیں سکتے، عام لوگوں کی جنگ عام لوگ ہی لڑیں گے‘۔
سنیتا پرمار
سنیتا پرمار
تھر کے حلقہ پی ایس 56 اسلام کوٹ سے الیکشن میں حصہ لینے والی سنیتا پرمار وہ پہلی ہندو خاتون ہیں جو عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
ان کا تعلق میگھواڑ برادری سے ہے جسے ہندو مذہب میں نچلی ذات سمجھا جاتا ہے۔
سنیتا تھر کی حالت زار کی ذمہ دار پیپلز پارٹی سمیت دیگر حکمران جماعتوں کو قرار دیتی ہیں جو تھر والوں کو صحت اور پانی جیسی بنیادی سہولیات تک فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی گزشتہ 10 سال سے حکومت میں رہی اور اس عرصے کے دوران کبھی گندم کی بوریوں، سلائی مشین اور کبھی بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ کے نام پر تھری خواتین کی بے عزتی کی جاتی رہی۔
سنیتا بھی انتخاب جیت کر تھر کے بنیادی مسائل حل کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر وہ فتحیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچیں تو سب سے پہلے تھر کی خواتین کی صحت اور یہاں کی تعلیم کے حوالے سے بل پیش کریں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے تھر سے کسی خاتون کو الیکشن لڑنے کے لیے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین دیانت دار ہوتی ہیں اور وہ ان پارٹیوں کی کرپشن میں ان کا ساتھ نہیں دیں گی۔
سنیتا کی انتخابی مہم میں ان کے گھر والوں اور ہندو برادری نے ان کا ساتھ دیا اور پیسے جمع کر کے کاغذات نامزدگی کے اخراجات کو پورا کیا۔
تلسی بالانی
تلسی بالانی
تھر کے علاقے ڈیپلو کے حلقہ این اے 222 سے انتخابات میں حصہ لینے والی تلسی بالانی بھی میگھواڑ ذات سے تعلق رکھتی ہیں۔
تلسی کا کہنا ہے کہ تھر میں کئی سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں، لیکن ان کی دلچسپی صرف اس حد تک ہے کہ وہ تھر کے باسیوں سے ووٹ لیں اور اس کے بعد اسمبلی میں جا کر بیٹھ جائیں، کوئی بھی تھر اور اس کے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام نہیں کرتا۔
انہوں نے بتایا کہ بعض پارٹیاں یہاں سے الیکشن میں ایسے افراد کو ٹکٹ دے دیتی ہیں جو تھر سے باہر کے ہیں، انہیں علم ہی نہیں کہ تھر کے کیا مسائل ہیں اور انہیں کیسے حل کرنا چاہیئے۔
تھر کے لوگوں کی بے بس زندگی کو دیکھتے ہوئے ہی تلسی نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ چاہتی ہیں کہ الیکشن جیت کر یہاں کے لوگوں کو کم از کم بنیادی ضروریات فراہم کرسکیں۔
’یہاں نہ ڈاکٹر ہے نہ اسکول ہے، جو چند ایک اسکول موجود ہیں وہاں پر استاد نہیں، اگر ہے بھی تو وہ صرف تنخواہ لیتا ہے، کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ کئی دیہاتوں میں سرے سے اسکول ہی نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ تھر کے لوگ جاگیں اور اپنے حالات کو بدلیں‘۔
تلسی نے بتایا کہ ان کے خاندان میں عورتیں ہر وقت گھونگھٹ اوڑھے رکھتی ہیں اور کسی مرد کے سامنے نہیں آتیں۔
’میں نے باہر نکل کر لوگوں کے پاس جانا اور ان کے مسائل سننا شروع کیا تو ظاہر ہے مجھے پردہ اور گھونگھٹ چھوڑنا پڑا۔ لوگوں نے باتیں بنائیں کہ تم عورت ہو، کیا کرلو گی؟ لیکن کچھ لوگوں نے حوصلہ افزائی بھی کی‘۔
تلسی کا ماننا ہے کہ اگر نیت صاف اور مخلص ہو تو تمام مشکلات کا سامنا کیا جاسکتا ہے، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مشکلات آہستہ آہستہ آسانیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
بنوں: متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اکرم درانی کے قافلے پر بم حملہ کیا گیا ، جس کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور 35 زخمی ہوئے جبکہ اکرم درانی محفوظ رہے۔
تفصیلات کے مطابق بنوں کے مضافاتی علاقے حوید میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اکرم درانی کے قافلے پر نامعلوم افراد کی جانب سے بم حملہ کیا گیا، حملے کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور 35 زخمی ہیں جبکہ اکرم درانی کے محفوظ ہونے کی اطلاعات ہیں۔
ڈی پی او خرم رشید کا کہنا ہے کہ اکرم درانی جلسے کے بعد قافلے کی صورت میں واپس آرہے تھے کہ خود کش حملہ آور نے قافلے کو نشانہ بنایا گیا، حملے میں اکرم درانی کے اسکواڈکی گاڑی کونقصان پہنچا۔
پولیس اور امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر کارروائی کا آغاز کر دیاہے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیر ے میں لے لیا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق خودکش حملہ آور موٹرسائیکل پر سوار تھا۔
ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ زخمیوں کوقریبی اسپتال منتقل کیاجارہاہے، زخمیوں میں پولیس اہلکاربھی شامل ہیں۔
آرپی اوبنوں کریم خان نے کہا کہ حملہ خودکش نہیں تھا، جائے وقوعہ سے ایک ریموٹ بھی ملاہے، فول پروف سیکیورٹی کے باعث دھماکا جلسہ گاہ میں نہیں ہوا۔
خیال رہے کہ اکرم درانی این اے35سےایم ایم اے امیدوار ہے، جہاں ان کا مقابلہ عمران خان سے ہیں جبکہ وہ کے پی کے کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔
اکرم درانی کے قافلے پر بم حملہ، سیاسی رہنماؤں کی مذمتیں
نگراں وزیر اعظم جسٹس(ر)ناصرالملک نے بنوں دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کےضیاع پر گہرے دکھ کا اظہار اور لواحقین سے اظہار ہمدردی کیا جبکہ زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی۔
پی ٹی آئی رہنما اسدعمرنے اکرم درانی کےقافلے پر حملےکی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دعاہے زخمی جلدصحت یاب ہوں اور جانی نقصان نہ ہو،ا سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر دہشت گردی کے خلاف متحدہوناچاہیے۔
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے اکرم درانی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت کو قانون کی رٹ بحال کرنا ہوگی اور تمام امیدواروں کو تحفظ فراہم کرے، کے پی میں دہشت گردی کے واقعات باعث تشویش ہیں، واقعے کے منصوبہ سازوں کو گرفتار کر کے بے نقاب کیا جائے۔
نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا دوست محمد خان نے اکرم درانی کے قافلے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ذمہ دار عناصر کو ہر صورت کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، بزدلانہ حملے ہماری قوم کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔
نگراں وزیراعلیٰ نے دھماکے کے بعد ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے ، اجلاس میں نگراں وزرا اور سیکیورٹی سے متعلق حکام شرکت کریں گے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اکرم درانی پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی امیدواروں کےتحفظ کویقینی بنایاجائے، دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے قوم، اداروں کو متحد ہوناپڑے گا۔
امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے اکرام درانی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کا ناسور ایک بار پھر پھوٹ پڑا ہے، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے قوم پرعزم ہے۔
واضح رہے کہ 10 جولائی کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور کے علاقہ یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران ہونے والے خودکش دھماکے ہوا، جس کے نتیجے میں اے این پی کے امیدوار ہارون بلور سمیت 21 افراد شہید اور 75 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
ہارون بلور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 78 سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے، ان کی شہادت کے باعث پی کے 78 پر الیکشن ملتوی کردیے گئے ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔