Tag: Pakistan Hockey federadion

  • اولمپکس کی تیاریاں : سال بدل گیا لیکن قومی کھیل ہاکی کا برا حال برقرار ہے

    اولمپکس کی تیاریاں : سال بدل گیا لیکن قومی کھیل ہاکی کا برا حال برقرار ہے

    پرولیگ۔۔ یعنی اولمپکس2020کے کوالیفائنگ راؤنڈ کی تیاریوں کیلئے پاکستان ہاکی فیڈریشن نے ممکنہ گول کیپرز کا تربیتی کیمپ کراچی کے عبدالستار ایدھی ہاکی اسٹیڈیم میں لگایا ہے۔

    کیمپ کے پہلے روز گیارہ کھلاڑیوں نے رپورٹ کیا، مظہر عباس غیر ملکی دورے سے واپسی پر جلد کیمپ جوائن کرلیں گے۔ بدقسمتی سے قومی کھیل ہاکی کے حالات نئے سال میں بھی بدل نہ سکے، فنڈز کہاں خرچ کیے گئے اس کا اندازہ عبدالستار ایدھی ہاکی اسٹیڈیم کی حالت زار دیکھ کر ہوجاتا ہے۔

    گول کیپرز جس انداز سے ٹریننگ کررہے ہیں وہ بھی حیران کن ہے، گول پوسٹ کے پولز زنگ آلود ہوچکے ہیں جگہ جگہ سے لکڑی کے پٹرے جھڑنے لگے جس کی وجہ سے باریک ٹکڑے کھلاڑیوں کی آنکھوں میں جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے، ٹرف پر بھی کائی جمنے لگی ہے، گول پوسٹ کا نیٹ خستہ حال جبکہ کپڑے کے ٹکڑوں سے نیٹ کسا گیا ہے۔

    اس نازک صورتحال پر جب کیمپ کمانڈنٹ اولمپیئن شاہد علی خان سے گفتگو ہوئی تو ان کا یہی کہنا تھا کہ پہلے تو وہ اس بات پر حیران ہیں کہ پرو لیگ کیلئے گول کیپرز کا انتخاب کون سے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے کیا گیا ہے؟

    دوسری بات یہ کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن جب بھاری اخراجات کرسکتی ہے تو مہنگے گول پوسٹ کیوں نہیں خرید سکتی؟ اس کے علاوہ گیند پھینکنے والی مشین جو کہ لاہور سے منگوائی گئی وہ بھی ناکارہ نکلی، کھلاڑیوں کو کوچ گیند پھینک کر ٹریننگ کروا رہے ہیں۔

    اس کے علاوہ ایک اور اہم مناظر یہ دیکھنے کو ملے کہ گول کیپرز کو ٹریننگ دینے والوں میں ایک ایسا آفیشل بھی شامل ہے جو خود بھاری جسامت کا مالک ہے، کیا اب بھی اپنے لوگوں کو نوازنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے یا پھر اور وجوہات ہیں۔

    واضح رہے کہ پروہاکی لیگ میں پاکستان نے کوالیفائنگ راؤنڈز یورپین سرکٹ میں کھیلنا ہے اگر کھلاڑیوں کی ٹریننگ اسی انداز کی ہوگی تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟

  • پاکستان ہاکی فیڈریشن کھلاڑیوں کی مقروض

    پاکستان ہاکی فیڈریشن کھلاڑیوں کی مقروض

    قومی کھیل ہاکی افق کو چھو کر اب تنزلی کی جانب بڑھتاجارہا ہے۔ کیا اسکی وجہ ٹیلنٹ کی کمی ہے ؟، سہولیات کا فقدان؟ یا پھر کچھ اور۔ اصل مسئلہ کھلاڑیوں کو معاوضوں کی عدم ادائیگی ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی موجودہ انتظامیہ ہو یا ماضی کے عہدیداران ، شاہ خرچیوں کے لیے فنڈز کی کمی دیکھنے میں نہ آئی۔ لیکن جب بات کھلاڑیوں کے حقوق پرآکر رکی تو جیبیں خالی ہونے کا راگ الاپ دیا جاتا ہے۔

    ایسی صورتحال میں کھلاڑی کیا دل و جان سے ملک کی کے لیے کھیل سکیں گے۔ ۔ ۔ بالکل نہیں؟ ذہنی اذیت کے شکار ہونا ایک فطری عمل بن جاتا ہے۔ کھلاڑی کو یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ گھریلو اخرجات کیسے برداشت کیے جائیں۔ گھر کا چولہا بجھنے کی نوبت آجاتی ہے ملک کے لیے فتح حاصل کرنے کا حوصلہ پست اور جذبہ بھی ٹھنڈا پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔

    Pakistan Hockey Federationموجودہ پی ایچ ایف انتظامیہ کھلاڑیوں کی مقروض دکھائی دیتی ہے۔ عہدیداروں کے چہرے اور نام بدل گئے لیکن ریت وہی برقرار ہے۔ خود کھاؤ اور دوسروں کو ٹھینگا دکھاؤ۔ چیمپیئنز ٹرافی دوہزار اٹھارہ کی تیاریوں کے لیے پاکستان ٹیم کا تربیتی کیمپ مرحلہ وار ایبٹ آباد سے ہوکر کراچی اور پھر ہالینڈ تک جاری رہا۔ روزانہ کی بنیاد پر فی کھلاڑی ایک ہزارروپے ڈیلی الاؤنس ملنا تھے جو نہ مل سکے۔ حتی کہ میگا ایونٹ کے لیے منتخب اسکواڈ بھی پندرہ ہزار روپے کے ڈیلی الاونس سے محروم ہے۔ تخمینہ لگایا جائے تو تربیتی کیمپ سے لے کر چیمپیئنز ٹرافی کے اختتام تک فی کھلاڑی تقریبا تین لاکھ روپے تک کی رقم بن جاتی ہے، جس کا کھلاڑیوں کو بے صبری سے انتظار ہے۔

    فنڈزکی کمی؟


    ناقص کارکردگی پر حکومت کی جانب سے گرانٹ روک دینا ایک نیا بہانا سامنے آیا ہے۔ پیسوں کی کمی کے باعث انٹرنیشنل معیار کا عبدالستارایدھی ہاکی اسٹیڈیم اس مرتبہ ایشین گیمز کی تیاری کے لیے ممکنہ کھلاڑیوں کا میزبان نہیں ہے بلکہ چیف سلیکٹر اصلاح الدین کی زیر نگرانی چلنے والی اصلاح الدین اکیڈمی اب رہائش سمیت تربیتی کیمپ کے لیے منتخب کی گئی ہے۔

    مالی مشکلات سے دوچار کھلاڑیوں کی جانب سے اب ایشین گیمز کے بائیکاٹ کا امکان بڑھ گیا ہے۔ سینئر اور جونیئر کھلاڑی مستقبل کی حکمت عملی بنارہے ہیں۔ آئندہ ماہ اگست میں ایشین گیمز انڈونیشیا میں شیڈول ہیں۔ کھلاڑی اسی سوچ میں مبتلا ہیں کہ اس مرتبہ بھی ڈیلی الاؤنس ملے گا یا پھر سے جھوٹے وعدوں اور دلاسوں پر انتظامیہ کے سامنے سرتسلیم خم کرکے کسمپرسی کے عالم میں ملک کی نمائندگی کرنا پڑے گی۔

    سنہ 2012میں جب سیکریٹری پی ایچ ایف کی کرسی آصف باجوہ کے پاس تھی ، اس وقت کھلاڑیوں کے لیے سینٹرل کنٹریکٹ جاری کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اے کیٹیگری میں شامل کھلاڑیوں کو پچاس ہزار روپے، بی کیٹیگری کے لیے چالیس ہزار روپے اور سی کیٹیگری کے لیے تیس ہزار روپے کا اعلان ہوا تھا۔ جونیئر کھلاڑیوں کو پندرہ ہزار روپے کا وظیفہ ملنا تھے۔ آصف باجوہ کا دور گزر گیا، پھر رانا مجاہد آئے۔۔ وعدوں اور دلاسوں کا سلسلہ چلتا رہا، پاکستان کی عزت کا نعرہ لگتا رہا، لیکن کھلاڑیوں کو سینٹرل کنٹریکٹ مل نہ سکا۔ شہباز سینئر کے دور میں بھی ایسے دعوؤں کی صدائیں گونجتی رہیں۔ چھ سال بیت گئے لیکن ہر حال میں ملک کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑی آج بھی اپنے حقوق کے منتظر ہیں۔

    اس دوران پاکستان ہاکی فیڈریشن کے پیٹرن ان چیف کی جانب سے فنڈز کا اجرا بھی ہوا مگر انتظامیہ فنڈز کی کمی کا آنسو بہاتی رہی ہے۔ اگر واقعی مالی مشکلات کا سامنا ہے تو غیر ملکی کوچز کے اخراجات کیسے برداشت کیے جارہے ہیں۔ ٹیم مینجمنٹ کس بنیاد پر کھلاڑیوں کے فنڈز کو شاہ خرچیاں بنا کر اڑا رہی ہے۔ اس کا جواب کون دے گا۔ ۔ چھ سال کے لحاظ سے سینٹرل کنٹریکٹ کی رقم کا تخمینہ لگایا جائے تو فی کھلاڑی تقریبا پچیس سے تیس لاکھ روپے بن جاتے ہیں اور پاکستان ہاکی فیڈریشن ، روکھی سوکھی کھا کر وطن کی نمائندگی کرنے والے ان محبِ وطن کھلاڑیوں کی مقروض ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں