پاکستان میں پولیو کے مزید تین کیسز سامنے آنے کے بعد پولیو کیسز کی تعداد 55 ہوگئی ہے۔
قومی ادارہ صحت کی ریجنل لیبارٹری نے 3 پولیو کیسز کی تصدیق کر دی جس کے مطابق پولیو کیسز ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب اور جعفر آباد سے رپورٹ ہوئے۔
خیبر پختوںخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے بچی پولیو کا شکار ہوئی اور بلوچستان کے ضلع ژوپ میں بھی ایک لڑکی پولیو سے معذور ہوگئی جبکہ ضلع جعفر آباد میں ایک لڑکے میں پولیو کی تصدیق ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیو کا یہ چھٹا کیس سامنے آیا ہے، بلوچستان میں رواں سال پولیو کیسز کی تعداد 26 ہوگئی اور خیبر پختونخوا میں 14 ہوگئی۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا اعلامیہ جاری کر دیا۔
اعلامیے کے مطابق پاکستان سے 12 تا 15 نومبر مشن چیف نیتھن پورٹر کی سربراہی میں مذاکرات ہوئے، مذاکرات میں وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں سے بھی بات چیت ہوئی، مذاکرات میں نجی شعبہ کے نمایندوں بھی تبادلہ خیال ہوا، حالیہ بات چیت آئی ایم ایف کی ششماہی جائزہ کے لیے کی گئی۔
مشن چیف آئی ایم ایف نیتھن پورٹر نے کہا کہ پاکستان سے مذاکرات مجوعی طور پر مثبت رہے، حکومت ایسے شعبہ سے ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے پر عزم ہے جو ٹیکس نہیں دے رہا۔
آئی ایم ایف مشن چیف کا کہنا تھا کہ سماجی تحفظ اور ترقی میں صوبوں کے کردار کو بڑھانے پر بھی بات چیت ہوئی، پاکستان میں توانائی کی اصلاحات اور توانائی کے چیلنجز پر خصوصی بات چیت کی گئی، کئی شعبہ جات میں نجی شعبہ کا حصہ بڑھا کر حکومت پاکستان کا حصہ محدود کرنے کی ضرورت ہے۔
نیتھن پورٹر نے کہا کہ پاکستان کو موجودہ قرض پروگرام کے اہداف پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے، موجودہ قرض پروگرام کے اہداف پر سختی سے عمل درآمد عوام کا معیار زندگی بہتر کرسکتا ہے، مذاکرات کے لیے پاکستانی حکام کا رویہ بڑا حوصلہ افزا اور معاون تھا۔
پاکستان حکام سے مذاکرات پر آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کو آگاہ کیا جائے گا، نیتھن پورٹر کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد آئندہ سال 2025 کی پہلی سہ ماہی میں پھر پاکستان آئے گا۔
واضح رہے کہ مشن چیف کی سربراہی میں آئی ایم ایف کے وفد نے 5 روز تک پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے آئی ایم ایف مشن نے الوداعی ملاقات بھی کرلی ہے۔
پاکستان میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آگئے جس سے رواں سال ملک بھر سے کیسز کی تعداد 49 ہوگئی ہے۔
محکمہ صحت بلوچستان کے حکام کا کہنا ہے کہ پولیو کا نیا کیس ضلع جعفرآباد سے رپورٹ ہوا ہے جہاں ضلع پشین کے ماحولیاتی نمونوں پایا جانے والے وائرس کی ایک بچے میں تصدیق ہوئی ہے۔
محکمہ صحت بلوچستان کا کہنا ہے کہ ضلع جعفرآباد سے پولیو کا یہ پہلا کیس ہے، جھل مگسی اور نصیر آباد سے ملحقہ ضلع سے پولیو کیس سامنے آنے پر ماہرین نے تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔
یاد رہے رواں سال رپورٹ ملک بھر میں پولیو کیسز کی تعداد49 ہوگئی، تاہم سب سے زیادہ بلوچستان سے 24 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
سندھ میں رواں برس اب تک 13، کے پی کے میں 10 اور پنجاب و اسلام آباد میں ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں گزشتہ کئی سالوں سے عدم برداشت اور تشدد کے رجحان میں خوف ناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
گزشتہ تین سالوں کے دوران صرف خواتین پر تشدد کے 63 ہزار سے زائد واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں گھریلو تشدد، جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات شامل ہیں۔
پاکستان کے پرتشدد معاشرے سے متعلق ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی کہتے ہیں ’’پاکستان میں عدم برداشت اور تشدد نے معاشرے کو درندہ صفت بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے خونی رشتے بھی محفوظ نہیں رہے ہیں۔‘‘
کراچی میں رواں برس جولائی میں تنخواہ نہ ملنے پر ملازم نے سافٹ ویئر کمپنی کے سی ای او کو قتل کر دیا تھا، دو مختلف جگہوں پر سیکیورٹی گارڈز نے دو نوجوانوں کو معمولی بات پر گولی مار کر قتل کیا، اسی طرح ملک بھر میں معمولی تنازع پر لاتعداد لوگ قتل ہو رہے ہیں۔
تعلیم انسان کو باشعور بناتی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں تعلیم یافتہ اور ان پڑھ دونوں عدم برداشت کا شکار ہیں۔ رواداری ختم ہونے کے اس بڑھتے ہوئے خوف ناک رجحان کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں تشدد اور قتل کے ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات پیش آ رہے ہیں جن سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
ماہرین نفسیات کے خیال میں عدم برداشت معاشرے میں افراد کے اندر چھپی ہوئی مایوسی سے جنم لیتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہا ’’ملک میں امن و امان کی صورت حال ٹھیک نہیں ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معامل ہے، لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ہر چیز کو تشدد، دھونس اور غصے سے حل کریں۔‘‘
ایک شہری کا اس سلسلے میں دینی حوالہ دے کر کہنا تھا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، کتنا بھی غصہ کیوں نہ ہو خود کو کنٹرول کرنا چاہیے، آدمی کی جان نہیں جانی چاہیے۔ ایک اور شہری کا کہنا تھا ’’میری پریشانی میری ہے، اس کا غصہ میں ماں باپ یا بیوی بچوں پر اتاروں تو یہ غلط ہے۔‘‘
بھارتی ریپر ہنی سنگھ، جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے بڑے مداحوں کی وجہ سے مشہور ہیں، انہیں حال ہی میں دبئی میں منعقدہ آئیفا ایوارڈز میں دیکھا گیا۔
بھارتی گلوکار یو یو ہنی سنگھ کی فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر حال ہی میں آئیفا ایوارڈز 2024 کی تقریب کی ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں انہوں نے پاکستانی مداحوں کو خوشخبری سنائی ہے۔
ویڈیو میں بھارتی گلوکار ہنی سنگھ جلد پاکستان میں اپنے کانسرٹ کے حوالے سے بات کرتے نظر آرہے ہیں۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آئیفا ایوارڈز کی ریڈ کارپٹ پر یو یو سے سوال کیا گیا کہ ’آپ پاکستان کب آئیں گے؟ وہاں بھی آپ کے مداح موجود ہیں جو آپ کا بے صبری سے انتظار کررہے ہیں‘؟
ہنی سنگھ نے جواب میں کہا کہ میں 12 سال سے دبئی میں اپنے کانسرٹ کررہا ہوں جہاں بھارتی مداحوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی پرستاروں کی بھی ایک کثیر تعداد آتی ہے۔
ہنی سنگھ کا کہنا تھا کہ ’مجھے کانسرٹس کے بعد کئی پاکستانی مداح کہتے ہیں کہ ہمارے پاس پیسہ ہے تو ہم آپ کو سننے دبئی آجاتے ہیں لیکن پاکستان میں بہت سے ایسے مداح ہیں جو آپ کو سننا تو چاہتے ہیں آپ پاکستان میں بھی شو کریں‘۔
بھارتی ریپر و گلوکار ہنی سنگھ نے اس دوران پاکستان ٹوور کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اگلے سال میرا انگلینڈ کا ٹوور ہے جہاں میں پہلی بار پرفارم کررہا ہوں، انگلینڈ کے بعد پاکستان بھی ضرور آؤں گا، آپ سب دعا کریں۔
واضح رہے کہ حال ہی میں بھارتی گلوکار ہنی سنگھ نے ایک انٹوریو میں کہا تھا کہ وہ پاکستانی گلوکار فارس شفیع کی اپکمنگ ایلبم کو پروڈیوس کررہے ہیں۔
آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق 256 روپے کی کمی کے بعد 10 گرام سونا 2 لاکھ 37 ہزار 226 روپے کا ہو گیا ہے۔
ایسوسی ایشن کے مطابق عالمی بازار میں سونے کا بھاؤ 2 ڈالر کم ہو کر 2663 ڈالرز فی اونس ہو گیا جبکہ چاندی کی فی تولہ قیمت 2 ہزار 950 روپے پر مستحکم رہی۔
واضح رہے کہ سونا خریدنا روایتی طور پر محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے جس کی قیمت افراط زر، سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے اوقات میں بڑھ جاتی ہے۔
اسے صدیوں سے کرنسی اور دولت کی شکل کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، جب سرمایہ کار دوسرے اثاثوں کے بارے میں غیر یقینی محسوس کرتے ہیں، تو وہ اکثر سونا خریدتے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ برس سونے کی قیمت کے تعین کے طریقہ کار میں تبدیلی کردی گئی تھی، جس کے تحت سونے کی قیمت انٹرنیشنل مارکیٹ ریٹ سے 20 ڈالر فی اونس زیادہ مقرر کی گئی۔
کراچی: پاکستان میں سونے کی قیمت کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے اور فی تولہ سونا تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔
تفصیلات کے مطابق عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کے صرافہ بازاروں میں بھی سونے کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان میں سونا تاریخ کی بلند ترین سطح پر ٹریڈ کر رہا ہے، ملک میں فی تولہ سونا 1500 روپےکا بڑا اضافہ ہوا، جس کے ساتھ سونا 2 لاکھ 77 ہزار روپے ہوگیا۔
دس گرام سونے 1285 روپے اضافے کے ساتھ 2 لاکھ 37 ہزار 482 روپے کا ہو گیا جبکہ چاندی کی فی تولہ قیمت 2 ہزار 950 روپے پر مستحکم رہی۔
عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتوں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، قیمت میں 12 ڈالر فی اونس کا اضافہ ہوا، جس کے بعد بین الاقوامی مارکیٹ میں سونا 2665 ڈالر پر پہنچ گیا۔
واضح رہے کہ سونا خریدنا روایتی طور پر محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے جس کی قیمت افراط زر، سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے اوقات میں بڑھ جاتی ہے۔
اسے صدیوں سے کرنسی اور دولت کی شکل کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، جب سرمایہ کار دوسرے اثاثوں کے بارے میں غیر یقینی محسوس کرتے ہیں، تو وہ اکثر سونا خریدتے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ برس سونے کی قیمت کے تعین کے طریقہ کار میں تبدیلی کردی گئی تھی، جس کے تحت سونے کی قیمت انٹرنیشنل مارکیٹ ریٹ سے 20 ڈالر فی اونس زیادہ مقرر کی گئی۔
کراچی/لاہور: ملک بھر کے میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے آج ایم ڈی کیٹ کا انعقاد ہو رہا ہے، ملک بھر کے ایک لاکھ 67 ہزار سے زائد امیدوار ٹیسٹ میں شرکت کر رہے ہیں۔
ایم ڈی کیٹ امتحان بہ یک وقت سندھ کے 5 شہروں میں لیا جا رہا ہے، پنجاب کے 12 شہروں، خیبرپختون خوا کے 8 شہروں میں امتحانی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔
پنجاب میں تمام امتحانی مراکز کے پانچ سو میٹر کی حدود میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز معطل رہیں گی۔ پنجاب کے 12 شہروں میں 26 امتحانی مراکز قائم کیے گئے ہیں، جن میں مجموعی طور پر 58 ہزر 380 امیدوار ٹیسٹ دیں گے، ان میں 40364 طالبات اور 18016 طلبہ شامل ہیں۔
لاہورمیں 8 امتحانی مراکز قائم کیے گئے ہیں، 6 امتحانی مراکز لڑکیوں اور 2 لڑکوں کے لیے بنائے گئے ہیں، سب سے بڑا امتحانی مرکز پنجاب یونیورسٹی ایگزامینیشن ہالز وحدت روڈ پر قائم ہے، جس میں 3779 طالبات ٹیسٹ دیں گی۔ ایم ڈی کیٹ میں 4 ہزار اساتذہ فرائض انجام دیں گے، جب کہ لاہور میں ایک ہزار نگران عملہ تعینات کیا گیا ہے۔
کراچیمیں بھی ایم ڈی کیٹ کا امتحان ہونے جا رہا ہے، کراچی میں دو امتحانی مراکز قائم کیے گئے ہیں، لاہور میں بھی ایم ڈی کیٹ کے امتحانات کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں، امتحانی مراکز پر انتہائی سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔
ملتانمیں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام میڈیکل انٹری ٹیسٹ کا انعقاد ہو رہا ہے، ضلعی انتظامیہ کی جانب سے 4 مرکزی تعلیمی اداروں میں سینٹرز قائم کیے گئے ہیں، جن میں انسٹیٹیوٹ آف سدرن پنجاب، یونیورٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ویمن یونیورسٹی کچہری روڈ اور نواز شریف ایگریکلچر یونیورسٹی شامل ہیں۔
فیصل آباد میں میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں داخلہ ٹیسٹ کے لیے 2 سینٹرز قائم کیے گئے ہیں، جی سی یونیورسٹی مین کیمپس میں طالبات اور ڈی پی ایس میں طلبہ کے لیے امتحانی مرکز قائم ہے، داخلہ ٹیسٹ کے لیے 4600 طالبات اور 2800 طلبہ امیدوار ہیں ، دونوں امتحانی مراکز کی حدود میں دفعہ 144 نافذ ہے اور سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔
پشاورمیں ٹیسٹ میں 42 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات حصہ لے رہے ہیں، ٹیسٹ کے لیے 8 اضلاع میں 13 امتحانی مراکز قائم کیے گئے ہیں، ہر امتحانی مرکز کی نگرانی ایس پی رینک پولیس افسر اور اسسٹنٹ کمشنر کر رہے ہیں، امتحانی مراکز کے گرد و نواح میں دفعہ 144 نافذ ہے۔
بلوچستانکے چاروں میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے ٹیسٹ بیوٹمز یونیورسٹی میں ہو رہے ہیں، جس میں صوبے بھر سے 5806 امیدوار حصہ لے رہے ہیں، حکام بولان میڈیکل یونیورسٹی کے مطابق امیدواروں میں 2591 طلبہ اور 3215 طالبات شامل ہیں۔
پاکستان میں گٹروں اور غلاظت کی صفائی کا کام کرنے والے محنت کشوں کو تحقیر اور ذلت آمیز رویوں کا سامنا رہتا ہے، صرف یہی نہیں، ان کو روزگار کا کوئی اور ذریعہ حاصل کرنے میں مختلف طرح کے امتیازی سلوک کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سینیٹیشن کے شعبے سے وابستہ مسیحی اور ہندو محنت کشوں کو بہ ظاہر بھائیوں کا درجہ دیا جا تا ہے، مگر ان کے ساتھ برتاؤ حقیروں جیسا رہتا ہے، جب کہ وہ اپنی جان کی بازی لگا کر گندگی صاف کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔
گٹر میں اترنے کے بعد موت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے!
2019 سے اب تک گٹر کی صفائی کرنے والے متعدد ورکر ہلاک ہو چکے ہیں۔ گٹر کی زہریلی گیس سے بچ جانے والے ایک ورکر شہباز مسیح کا کہنا ہے کہ جب اُن جیسا کوئی ورکر گھر سے گٹر کی صفائی کے لیے نکلتا ہے تو اسے زندہ واپسی کا یقین نہیں ہوتا۔
2017 میں عرفان مسیح نامی شخص سندھ کے شہر عمر کوٹ میں بند گٹر کو صاف کرتے ہوئے بے ہوش ہو گیا تھا مگر مسلمان ڈاکٹروں نے رمضان کے مہینے میں اس گٹر کی صفائی کرنے والے ایک ورکر کا علاج کرنے سے اس وجہ سے انکار کر دیا تھا کہ رمضان میں انھیں پاک صاف رہنے کی ضرورت ہے اور سیوریج کے ورکر کا بدن غلاظت سے بھرا ہوا تھا۔ علاج نہ ہونے کی بنا پر عرفان مسیح اپنی زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔
استحصالی برتاؤ کا ساما
سندھ میں حالیہ سالوں میں ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ چھوٹے اور درمیانے شہروں میں سینیٹیشن ورکرز کی اوسطاً نصف تعداد مسلمانوں کی ہوتی ہے، مگر سب کے سب خاکروب مذہبی تفریق کے بغیر بھی لوگوں کی تضحیک کا شکار بنتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)اور عالمی ادارہ لیبر( آئی ایل او) کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک میں ہاتھ سے صفائی کا کام کرنے والے محنت کشوں کو ان کے مخصوص سماجی ڈھانچے اور مخصوص طبقے سے تعلق کی بنا پر استحصالی برتاؤ کا سامنا رہتا ہے۔
ایشیا میں مجموعی محنت کشوں میں صفائی کا کام کرنے والے محنت کشوں کی شرح فی صد
جنوبی ایشیا میں صفائی کے پیشے کو بُرا سمجھنے جانے کے پیچھے ہندوؤں میں ذات پات کا مذہبی عنصر موجود ہے۔ پاکستان اگرچہ ایک مسلم ملک ہے مگر سماجی اور روایتی طور پر یہ تفریق بھارت اور دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی موجود ہے۔ اس کی مثال ان اشتہارت سے لی جا سکتی ہے، مخصوص ملازمتوں کا جب اشتہار دیا جاتا ہے تو غیر مسلم کی شرط رکھی جاتی ہے۔
صفائی کے کام سے وابستہ افراد کے اعداد و شمار
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر طرح کے سینیٹری ورکرز، سوئپرز، کلینرز، سیور مینز اور گھروں میں صفائی و ستھرائی کا کام کرنے والے ورکرز کی تعداد 15 لاکھ تک ہے۔
پاکستان بھر میں گٹروں اور سڑکوں کی صفائی سمیت انڈسٹریز اور دفاتر میں واش رومز کی صفائی پر مامور افراد میں سے 80 فی صد لوگ غیر مسلم ہیں اور ایسا کام کرنے والوں میں مسیحی اور ہندوؤں کی اکثریت ہے۔
پاکستان میں اقلیتی برادری پر کام کرنے والی محقق سارہ سنگھا کی ’’دلت کرسچینز اینڈ کاسٹ کانشیئس نیس‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صفائی کا کام کرنے والوں میں 80 فی صد مسیحی اور ہندو برادری سے تعلق رکھتے تھے، اور حیران کن طور پر دونوں برادریوں کی نچلی ذات کے افراد مذکورہ کام سر انجام دے رہے تھے۔ سندھ میں پچھلے کچھ سالوں سے خاکروبوں میں کافی بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی شامل کی گئی ہے، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ مسلمان خاکروب بھی امتیازی سلوک کا شکار بنتے ہیں۔
سماجی تضحیک ہی نہیں، سوشل سیکیورٹی کا المیہ بھی
پاکستان میں صفائی کے پیشے سے وابستہ افراد سماجی تضحیک کا شکار ہوتے ہیں، اس پر مبنی رپورٹ (اسٹیگما ان سینیٹیشن) کے مطابق خاکروبوں کو معاشرے میں تضیحک آمیز ریوں کے ساتھ ساتھ ہیلتھ اور سوشل سیکیورٹی کی سہولیات جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔
انتہائی کم اُجرت کے باوجود حفاظتی لباس اور آلات کے بغیر لوگوں کی غلاظت اور گندگی کو صاف کرنے والے خاکروب عام طور پر سانس اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور انھیں کوئی ہیلتھ انشورنس بھی نہیں دی جاتی۔
ترقی پذیر ممالک میں صفائی کے کام سے وابسہ افراد سب سے زیادہ امتیازی اور استحصالی برتاؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ کئی بین لاقوامی تنظیمیں اس پیشے سے وابستہ افراد کی فلاح بہبود کے لیے سرگرم عمل بھی ہیں۔
جنوبی افریقی ویمنز ٹیم نے تیسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان ویمنز ٹیم کو 8 وکٹ سے ہرا دیا اور 3 میچز کی سیریز دو ایک سے اپنے نام کرلی۔
تفصیلات کے مطابق ملتان میں کھیلے گئے میچ میں پاکستان ویمنز نے پہلے کھیلتے ہوئے 5 وکٹ پر 153 رنز بنائے تھے، قومی ٹیم کی جانب سے سدرہ امین 37، منیبہ علی 33 اور فاطمہ ثنا 27 رنز کے ساتھ نمایاں رہی تھیں۔
جواب میں جنوبی افریقی ویمنز ٹیم نے 154 رنز کا ہدف 19ویں اوور میں دو وکٹ پر پورا کیا، جنوبی افریقہ کی جانب سے کپتان وولورڈٹ نے 45، انیکے نے 46، انیری ڈرکسین نے 44 رنز بنائے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور جنوبی افریقہ کی ویمنز ٹیمیں آج خصوصی طیارے سے لاہور پہنچیں گی جس کے بعد جنوبی افریقی ویمنز کرکٹ ٹیم کل دبئی روانہ ہوگی۔
جبکہ آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے پاکستان ویمنز ٹیم پیر کو دبئی روانہ ہوگی۔