Tag: pakistan

  • سونے کی فی تولہ قیمت میں آج کتنا اضافہ ہوا؟

    سونے کی فی تولہ قیمت میں آج کتنا اضافہ ہوا؟

    ملک میں سونے کی فی تولہ قیمت میں آج بھی 950 روپے کا مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

    آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق 950 روپے اضافے کے بعد ملک میں سونے کی فی تولہ قیمت 2 لاکھ 17 ہزار 450 روپے کا ہوگیا۔

    اس کے علاوہ 10 گرام سونے کی قیمت میں 814 روپے کا اضافہ ہوا جس کے بعد 10 گرام سونا 1 لاکھ 86 ہزار 428 روپے پرپہنچ گیا۔

    گزشتہ روز سونے کی قیمت میں 200 روپے اضافے کے بعد ملک میں فی تولہ سونے کی قیمت 2 لاکھ 16 ہزار 500 روپے تھی۔

    آج عالمی بازار میں سونے کا بھاؤ 12 ڈالر اضافے سے 2068 ڈالر فی اونس ہے جبکہ چاندی کی فی تولہ قیمت 2 ہزار 650 روپے پر مستحکم ہے۔

  • سونے کی فی تولہ قیمت میں مزید اضافہ ہوگیا

    سونے کی فی تولہ قیمت میں مزید اضافہ ہوگیا

    ملک میں سونے کی فی تولہ قیمت میں آج 200 روپے کا مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

    آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق 200 روپے اضافے کے بعد ملک میں سونے کی فی تولہ قیمت 2 لاکھ 16 ہزار 500 روپے کا ہوگیا۔

    اس کے علاوہ 10 گرام سونے کی قیمت میں 172 روپے کا اضافہ ہوا جس کے بعد 10 گرام سونا 1 لاکھ 85 ہزار 614 روپے پرپہنچ گیا۔

    گزشتہ روز سونے کی قیمت میں 200 روپے اضافے کے بعد ملک میں فی تولہ سونے کی قیمت 2 لاکھ 16 ہزار 300 روپے تھی۔

    آج عالمی بازار میں سونے کا بھاؤ 4 ڈالر اضافے سے 2056 ڈالر فی اونس ہے جبکہ چاندی کی فی تولہ قیمت 2 ہزار 650 روپے پر مستحکم ہے۔

  • پاکستان میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کیوں سست ہے؟ عالمی بینک کی رپورٹ میں وجہ سامنے آ گئی

    پاکستان میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کیوں سست ہے؟ عالمی بینک کی رپورٹ میں وجہ سامنے آ گئی

    اسلام آباد: عالمی بینک نے عالمی اقتصادی رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں الیکشن کی غیر یقینی صورت حال نے نجی شعبے کی سرگرمیوں کو نقصان پہنچایا ہے اور اس کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی ترقی کی شرح سست رہی، انتخابات سے پہلے اخراجات میں اضافہ معیشت کو کمزور کرتا ہے، پاکستان میں سیاسی عدم استحکام سے نجی شعبے کی سرمایہ کاری سست ہے۔

    رپورٹ کے مطابق دسمبر میں پاکستان میں روپے کی قدر میں استحکام آنے کی کئی وجوہ ہیں، پاکستان کی موجودہ حکومت جاری اخراجات میں سختی برت رہی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں معاشی شرح 1.7 فی صد بڑھنے کی پیش گوئی ہے۔

    پاکستان میں مانیٹری پالیسی کی وجہ سے مہنگائی کم ہونا شروع ہوئی ہے، آئندہ مالی سال پاکستان کی معاشی شرح 2.4 فی صد رہنے کا امکان ہے، طویل عالمی اقتصادی چیلنجز کے درمیان پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ کم رہے گی۔

    غیر ملکی ریٹنگ ایجنسی نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج سے متعلق اہم رپورٹ جاری کر دی

    رپورٹ کے مطابق عالمی معیشت مسائل کا شکار رہے گی، اور رواں سال افسوس ناک ریکارڈ بننے کا امکان ہے، 2020 کی دہائی کے بعد دنیا بھر میں معیشتی چیلنجز بڑھ گئے ہیں، مختلف ممالک کو اپنی معاشی صورت حال میں بہتری کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا ہوگا، قرض کے مسائل کا سامنا کرنے والے ممالک کو معاشی پالیسیوں کا دوبارہ جائزہ لینا ہوگا، اور معیشت کی بہتری کے لیے اصلاحات اور اقدامات ناگزیر ہیں۔

  • پاکستان میں مہنگائی کا 47 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، ہوش رُبا رپورٹ

    پاکستان میں مہنگائی کا 47 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، ہوش رُبا رپورٹ

    پاکستان میں مہنگائی کا 47 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے، وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں پچھلے دو ماہ میں مہنگائی 31 فی صد رہی جو اگست میں 27 فی صد تھی، جب کہ مہنگائی سالانہ بنیاد پر 38.4 فی صد ہو گئی۔

    ادارہ شماریات کے مطابق کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں 50 سے 70 فی صد اضافہ سالانہ بنیاد پر ہو رہا ہے، اور غضب یہ ہے کہ یہ اضافہ ماہانہ بنیاد پر ہو رہا ہے، ماہرین نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس میں آنے والے مہینوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے، اور آئی ایم ایف کے مطالبے پر ٹیکسز میں اضافے سے مزید مہنگائی کا طوفان آئے گا۔

    پاکستان میں مسلسل بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے افراد خاندانوں سمیت خودکشیاں کر رہے ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق دنیا بھر میں اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اربوں غریب افراد کو مزید غریبی کی گہرائیوں میں دھکیل دیں گی۔ پاکستان میں بھی اس مہنگائی، غذائی بحران، حکومتی نا اہلی، کرپشن اور اشرافیہ کی عیاشیوں نے کتنے افراد کے دلوں سے خوشیاں اور ہونٹوں سے مسکراہٹیں چھین کر بھوک اور افلاس کا شکار بنا دیا ہے، جس کی بنا پر عوام میں بد دلی، مایوسی، انتشار اور خود کشی جیسے عوامل پیدا ہو رہے ہیں۔

    برطانیہ کے جریدے فنانشنل ٹائمز نے اپنے اداریے میں پاکستان کو دیوالیہ ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے، اگر مثبت اقدامات نہ کیے گئے تو سری لنکا سے بدتر صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان مجموعی طور پر 600 کھرب روپے کا مقروض ہے، اور ان قرضوں کی ری شیڈولنگ میں شامل شرائط مہنگائی میں روز مرہ کی بنیاد پر اضافہ کر رہی ہے۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ایک فی صد اشرافیہ نے 2018-19 میں 9 فی صد معیشت کا 314 بلین ڈالرز حاصل کیا تھا، اس کے مقابلے میں ایک فی صد غریب نے صرف صفر اعشاریہ پندرہ فی صد حصہ حاصل کیا، پاکستان کا ایک فی صد طبقہ اشرافیہ ملک کی 50 فی صد معیشت کا مالک ہے۔

    2018 میں پاکستان کی 31.3 فی صد آبادی (تقریباً 7 کروڑ افراد) غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور تھے، 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 40 فی صد کے قریب پہنچ گئی، اور 2021 میں کرونا وبا اور 2022 میں سیلاب، بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے یہ تعداد 50 فی صد تک ہونے کا خدشہ ہے۔

    پاکستان میں ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کے حوالے سے اہم خبر

    عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی سے صرف ایک سال ہی میں 20 لاکھ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آ گئے ہیں، اور 40 فی صد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو چکی ہے۔ پاکستانی وزارت خزانہ نے 2022 کے سیلاب کی تباہ کاریوں سے معاشی شرح نمو کا 3.5 فی صد سے ہدف کم کر کے 2.3 فی صد کر دیا، موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر شرح نمو میں مزید کمی کا امکان ہے۔

    پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے پیش نظر جرمن گلوبل کلائمیٹ انڈیکس میں پاکستان میں شدید غذائی قلت کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ 2010 کے سیلاب سے 9 سے 10 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا تھا۔ موجودہ سیلاب کے نقصان کا ابتدائی تخمینہ 40 ارب ڈالر سے زائد بتایا جا رہا ہے۔

  • عام انتخابات 2024، الیکشن مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم

    عام انتخابات 2024، الیکشن مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم

    ملک میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم کر دیا گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ملک میں شیڈول 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے لیے الیکشن مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سسٹم (ای ایم سی سی) قائم کر دیا گیا ہے جہاں رابطہ اور شکایات درج کرانے کی سہولت ہو گی۔

    الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ ای ایم سی سی عوام الناس کی سہولت کے لیے قائم کیا گیا ہے جہاں وہ الیکشن سے متعلق رابطہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے شکایات بھی درج کرا سکیں گے جن کے بروقت ازالے کے لیے فوری کارروائی کی جائے گی۔

    یہ مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سسٹم الیکشن کمیشن سیکرٹیریٹ اسلام آباد کے علاوہ صوبائی، ڈویژنل اور ضلع سطح پر قائم کیے گئے ہیں جہاں ابتدائی طور پر صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک کام کریں گے۔

    ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق وسط جنوری سے 8 فروری پولنگ کے دن اور  نتائج موصول ہونے تک یہ مراکز 24 گھنٹے کام کرتے رہیں گے۔

    ترجمان کا کہنا ہے کہ کنٹرول سینٹر میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کی سہولت موجود ہے جب کہ عوام الناس [email protected] پر جا کر اپنی شکایات کا اندراج کرا سکتے ہیں۔

  • برطانوی اخبار میں سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا چرچا

    برطانوی اخبار میں سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا چرچا

    معروف برطانوی فنانشل اور بزنس اخبار ’سٹی اے ایم‘ میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا ذکر کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی اخبار سٹی اے ایم میں سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے پر خصوصی اشاعت سامنے آئی ہے، سٹی اے ایم لندن میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اقتصادی اخبار ہے۔

    برطانوی اخبار نے اشاعت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے خصوصی مواقع پر روشنی ڈالی، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کی پانچویں بڑی آبادی ہونے کے ساتھ ایک منفرد جیو اسٹریٹجک محل وقوع رکھتا ہے، اور پاکستان کی 4.8 کھرب پاؤنڈ مالیت کی معدنی دولت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تیزی سے راغب کر رہی ہے۔

    سٹی اے ایم کے مطابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سرمایہ کاری کا فعال طور پر خیرمقدم کر رہے ہیں، اور خصوصی سرمایہ کاری کی کونسل (SIFC) کا آئندہ پانچ سالوں میں 48 ارب پاؤنڈ سرمایہ کاری ملک میں لانے کا ہدف ہے، بلوچستان میں ریکوڈک کے مقام پر سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر سعودی عرب اور کینیڈا سمیت کئی ملکوں کی سرمایہ کاری کے لیے موزوں ہیں۔

    سٹی اے ایم نے لکھا ہے کہ پاکستان کے وافر معدنی وسائل میں کوئلہ، نمک، لتھیئم، ریئر ارتھ، نکل، یاقوت، کرومائیٹ اور زمرد شامل ہیں، حکومت پاکستان 2031 تک قابل تجدید توانائی کو دوگنا کرنے کے لیے بھی پرعزم ہے، اور پاکستان کا اسٹریٹجک محل وقوع اسے بین الاقوامی گیس کوریڈور کے طور پر بھی ایک مثالی حیثیت مہیا کرتا ہے۔

    سٹی اے ایم کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کار زراعت میں جدت لاتے ہوئے کارپوریٹ فارمنگ انٹرپرائزز کے 100 فی صد مالک ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ نوجوانوں کی 57 فی صد آبادی اور سالانہ 25,000 آئی ٹی گریجویٹ پاکستان کو عالمی سرمایہ کاری کے لیے انتہائی موزوں بنا رہے ہیں۔

  • الیکشن کمیشن نے انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کر دیا

    الیکشن کمیشن نے انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کر دیا

    اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعتوں، انتخابی امیدواروں اور پولنگ ایجنٹوں کا ضابطہ اخلاق جاری  کر دیا۔

    ضابطہ اخلاق میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتیں دستور میں عوام کے حقوق اور آزادی کو سر بلند رکھیں گی، انتخابی امیدوار قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے، نظریہ پاکستان، خود مختاری، سالمیت اور سلامتی کے خلاف کوئی اظہار نہیں کریں گے۔

    اس میں کہا گیا کہ ایسا عمل نہ کریں جس سے عدلیہ آزادی اور افواج کی شہرت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، الیکشن کمیشن کے احکامات، ہدایات اور ضابطہ اخلاق کی پیروی کریں گے، بطور امیدوار حصہ لینے یا دستبردار ہونے کی ترغیب دینے کیلیے رشوت سے گریز کریں۔

    ضابطہ اخلاق کے مطابق سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی عمل میں  شرکت کیلیے مساوی مواقع فراہم کریں گی، امیدواروں کا انتخاب کرتے ہوئے خواتین کی 5 فیصد نمائندگی کو یقینی بنائیں، جماعتیں میڈیا کے خلاف ہر قسم کے تشدد سے کارکنوں کو روکیں گی۔

    مزید کہا گیا کہ جلسوں اور پولنگ والے دن ہتھیار کے استعمال یا ان کی نمائش پر پابندی ہوگی، سیاسی جماعتیں اور امیدوار مقامی انتظامیہ کی مشاورت سے جلسوں کے معاملات طے کریں گے، جماعتیں اور حمایتی ایسی تقاریر سے اجتناب کریں جو علاقائی اور فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دیں۔

  • کراچی شہر کا پھیلاؤ ایک المیہ، کروڑوں لوگ اصلاحات کے منتظر

    کراچی شہر کا پھیلاؤ ایک المیہ، کروڑوں لوگ اصلاحات کے منتظر

    پاکستان میں اربنائزیشن کا عمل عمومی طور پر غیر منظم طور پر، بغیر منصوبہ بندی جاری ہے۔ اسلام آباد پاکستان کا نیا آباد کیا جانے والا منصوبہ بند شہر بھی بے ہنگم طور پر اپنے اطراف میں پھیلتا چلا جارہا ہے۔ شہر اپنی بے ہنگم ترقی کے بوجھ تلے دبے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک عبرت ناک مثال ڈھائی کروڑ سے زائد انسانوں کا شہر کراچی ہے، جہاں چاروں سمت سے انسانوں کی بھیڑ چلتی چلی آ رہی ہے اور شہر کنکریٹ کا جنگل بنتا جا رہا ہے۔

    کراچی کی آبادی، آمدن اور ضروریات

    یوں تو پاکستان اور بالخصوص سندھ کے تقریباً تمام اربن سینٹرز مسائل کا شکار ہیں، لیکن کراچی میں شہری سہولیات کا خطرناک حد تک فقدان شہریوں کے غصے اور افسردگی کو اس لیے بھی شدید کر دیتا ہے کہ یہ شہر ملک کے دیگر شہروں کی نسبت ٹیکسوں اور آمدن کی مد میں اتنا کچھ دیتا ہے، کہ اس کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ شہر اپنے محل وقوع کی بنا پر ہمیشہ ہی جاذب نظر رہا ہے، تاہم اس کی زمین اور دولت ہی اس کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔

    کراچی شہر میں واقع دو سمندری بندرگاہیں، ایک بین الاقوامی ایئرپورٹ، 95 فی صد غیر ملکی تجارت اور نصف سے زائد فی صد ملکی و غیر ملکی صنعت، اور کاروباری اور مالیاتی اداروں کا مرکزہ ہونے کے باوجود یہاں نہایت ہی بنیادی نوعیت کی انسانی ضروریات شرم ناک حد تک ناپید ہیں۔ یہ دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے جس کی سالانہ جی ڈی پی 164 ارب ڈالرز یعنی 27 ہزار 650 ارب روپے ہے، جو کہ ملکی جی ڈی پی کا 20 سے 25 فی صد اور سندھ کی جی ڈی پی کا 95 فی صد ہے۔ یہ شہر ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 980 ارب روپے سے زائد ٹیکس کی مدد میں دیتا ہے، جو جمع ہونے والے مجموعی ٹیکس کا 41 فی صد ہے لیکن اس کے جواب میں شہر سالانہ 30 ارب سے بھی کم اپنی ضروریات کے لیے حاصل کر پاتا ہے۔

    شہری ووٹ

    پاکستان میں جمہوری قدروں کی پامالی ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے۔ عددی طور پر دیہات میں ووٹوں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے مگر اس ملک میں شہری ووٹ سیاسی عمل میں ایک اہم عنصر کے طور پر اپنا کام کرتا رہا ہے۔ شہری سیاست کا رخ ہمشیہ ہی بے تابی کا سا رہا ہے، دارالحکومت کی حیثیت چھننے، صنعتی اور تعلیمی مرکز ہونے نے جہاں اسے ایوب آمریت کے خلاف مشترکہ اپوزیشن کا مضبوط مورچہ بنا دیا تھا، وہیں انقلابی تحریکوں کا گڑھ بھی بنا دیا۔ لیکن یہی شہر آگے چل کر مذہبی جماعتوں کو اس وقت پارلیمنٹ میں پہنچانے کا باعث بنا، جب پورا ملک ترقی پسند اور قومی حقوق کی علم بردار سیاسی قوتوں کی آواز بنا ہوا تھا۔ اور ایک وقت میں نسلی اور لسانی ابھار نے شہر کی ہر اس اعلیٰ روایت کو بندوق اور خوف کے زور پر مسخ کر ڈالا جسے اس نے صدیوں کے سماجی سفر میں پال کر توانا کیا تھا۔

    شہر کے تمام دعوہ گیروں نے وہ تباہی مچائی ہے جو شاید حملہ آور بھی نہیں کرتے۔ انھوں نے نہ صرف اس کی ہر خوب صورتی کو بگاڑا بلکہ شہر کی تاریخ کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی۔ اپنی شان دار تاریخ رکھنے والا یہ شہر ایک تاریخی کُل یعنی سندھ کا جُز ہے اور نہایت اہمیت کا حامل جُز لیکن یہ کُل نہیں ہے اور نہ ہی اسے تاریخی کُل سے جدا کیا جا سکتا ہے۔ اسی تاریخ حقیقت پر ہر بار ضرب لگانے کی لاحاصل کوشش کی جاتی رہی ہے اور نفرت کے انگارے بھڑکا کر ہاتھ تاپنے کی کوشش میں نہ صرف ہاتھ جلے بلکہ اس الاؤ میں شہر کی ہمہ رنگ خوب صورتی بھی جھلس گئی۔

    تاریخ اور میئر شپ

    سندھ پر 1847 میں میانی کی جنگ کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے کا آغاز ہوا، اور 1840 سے اسے سندھ کا کیپیٹل قرار دیا گیا۔ سندھ کے اس ساحلی شہر کو میونسپلٹی بننے کا اعزاز 1910 میں ملا اور اس کے پہلے صدر سر چارلس مول اور ان کے بعد غلام علی چھاگلہ اس عہدے پر فائز ہوئے، جن کے بیٹے نے پاکستان کا سرکاری ترانہ کمپوز کیا تھا۔ کراچی کے نامور شہری جمشید نسروانجی مہتا بھی 20 برس اس عہدے پر رہے۔ 1933 میں کراچی سٹی میونسپل کمیٹی ایکٹ پاس ہوا اور اس کا سربراہ میئر قرار پایا۔ پاکستان وجود میں آنے سے کچھ ماہ پہلے حکیم محمد احسن کراچی کے میئر بنے تھے۔ اب تک 24 میئر شہر کے انتظامات چلاتے آئے ہیں، یہ برصغیر کی اولین میونسپلٹی تھی جس نے رہائشی/ پراپرٹی ٹیکس عائد کیا۔

    سندھ کو ممبئی پریذیڈنسی کے ماتحت کر دیے جانے کے خلاف ایک طویل اور مسلسل جدوجہد کے بعد جب یکم اپریل 1936 کو سندھ بمبئی سے علیحدہ ہوا، تو کراچی ایک بار پھر اس کا دارالحکومت بنا۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی ملک کا کیپٹل قرار پایا اور اسے سندھ سے 1948 میں الگ کر دیا گیا، جس کے نہایت برے اثرات مرتب ہوئے۔ اکتوبر 1955 میں ون یونٹ کے نام پر سندھ کی صوبائی حیثیت ختم کر دی گئی، جو ون یونٹ مخالف تاریخی تحریک کے نتیجے میں یکم جولائی 1970 میں دوبارہ بحال ہوئی اور کراچی ایک بار پھر سندھ کا کیپٹل قرار پایا۔

    ایک بڑا شہر ایک بڑی پناہ گاہ

    سندھ اور اس کے اکثر شہروں اور خصوصاً کراچی کی ڈیموگرافی میں غیر متناسب طور پر تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں۔ ملک کے قیام کے بعد ہجرت کر کے ہندوستان سے آنے والوں کی اکثریت سندھ اور خصوصاً اس کے شہروں میں رہائش پذیر ہوئے۔ کراچی کے کیپٹل بننے کے نتیجے میں ملک کے دیگر علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد میں سندھ اور خصوصاً کراچی کی جانب نقل مکانی ہوئی، ون یونٹ کے پندرہ سالوں میں ملک کے دیگر علاقوں سے اس شہر کی جانب آنے کا سلسلہ جاری رہا، صنعتی شہر اور واحد سمندری بندرگاہ ہونے کی بنا پر روزگار کے متلاشیوں کے لیے بھی یہ شہر ہمیشہ توجہ کا مرکز رہا۔ بنگلادیش کے قیام کے بعد وہاں سے آنے والوں کے لیے بھی کراچی ہی وہ شہر تھا جہاں وہ رہائش اختیار کرنا چاہتے تھے۔ اسی عرصے میں برما سے بھی بہت سی برادریوں نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔

    80 کی دہائی کے آخری سالوں میں ایران میں شاہ مخالف انقلاب اور افغانستان پر تھوپے جانے والے جہاد کے نتیجے میں لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بھی اسی شہر کی جانب ہی تھا۔ اس کے بعد حالیہ برسوں میں قبائلی اور دیگر علاقوں میں جاری آرمی آپریشن کے نتیجے میں بھی متاثرین کی ایک بڑی تعداد نے اس شہر کا رخ کیا۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں روزگار کے سکڑتے امکانات نے بھی لوگوں کو کراچی کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔ یہی صورت حال پنجاب کے جنوبی علاقوں کی ہے جہاں سے کراچی کی جانب مائیگریشن کا سلسلہ جاری ہے۔ 2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب اور غیر معمولی بارشوں نے بھی سندھ کے دیہی علاقوں سے سیلاب متاثرین کی ایک بڑی تعداد کو کراچی میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔

    مگر ترقی کے مدارج

    یوں کہا جا سکتا ہے کہ کراچی میں آبادی کا دباؤ عام شرح کے برعکس بہت تیزی سے بڑھا ہے، لیکن اسی تناسب سے ترقی کے مدارج طے نہ ہو سکے۔ شہر کو اس کی آبادی کے تناسب سے وسائل کی فراہمی کبھی بھی ممکن بنانے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اور اس سلسلے میں اگر جان بوجھ کر شہر کی آبادی ہی اصل سے 30 سے 40 فی صد کم دکھائی جائے، تو پھر شہر کا بحرانوں کے گرداب میں پھنسنا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے۔

    پانی

    شہر کی نمائندگی کے دعوے داروں کے نزدیک اس کے شہریوں کی ترقی کبھی بھی مقصود نہیں رہی، بلکہ شہر کی دولت اور قیمتی زمینیں ہی ان کا مطمح نظر رہا۔ پارک، باغ، میدان، ندی نالے تو ہمیشہ سے ہی قبضہ گیروں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئے لیکن انھوں نے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو بھی جاگیر تصور کر لیا۔ بجلی اور پانی کی ترسیل کے مناسب نظام کو تہہ و بالا کر دیا گیا۔ بجلی کے 100 سالہ طریقہ کار کو غیر ملکی کمپنی کے ناتجربہ کار گروہ کے حوالے کر دیا، جس نے شہریوں کو تاریکیوں میں ڈوبی الم ناک داستان کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پانی جیسی انسانی ضرورت تک شہریوں کی رسائی ناممکن بنا دی گئی، شہریوں کو ان کا اپنا پانی مافیا نے بیچنا شروع کر دیا اور شہر کے 40 فی صد سے زائد علاقے آج بھی پانی کی پائپ لائنوں سے یکسر محروم ہیں۔

    نکاسئ آب

    حالیہ بارشوں نے نکاسئ آب کے نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ شہر کا تمام سیوریج اور کچرا قدرتی آبی گزر گاہوں میں پھینک کر قدرتی ماحول پر مجرمانہ حملہ کیا گیا۔ شہر کے دو دریا لیاری اور ملیر کے علاوہ 60 سے زائد چھوٹے بڑے ندی نالے جو سمندر میں برساتی پانی گرانے کا قدرتی ذریعہ تھے، انھیں گندے نالوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ان ندی نالوں میں صنعتی ادارے خطرناک کیمیائی فضلہ پھینک رہے ہیں، جس کے نتیجے میں پورے شہر میں خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ جب کہ سمندر کی جانب پانی کی نکاسی کے چار بڑے مقامات پر غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے پانی کے راستے کو بلاک کر دیا گیا ہے۔

    پبلک ٹرانسپورٹ

    شہر پر قابض مافیا نے پبلک ٹرانسپورٹ کے مؤثر ترین ذریعے کو ترقی دینے کی بجائے بیچ کھا لیا۔ آج کراچی شاید دنیا کا واحد میگا سٹی ہے جو پچھلی نصف صدی سے بغیر کسی پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کے ڈھائی کروڑ سے زائد شہریوں کو پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم کرم پر چھوڑے ہوئے ہے۔ یہی صورت حال تعلیم اور صحت کے شعبے کی بھی ہے۔ کراچی کا جثہ اور اور آبادی جس تیزی سے بڑھی ہے صحت اور تعلیم کے مواقع اتنی ہی تیزی سے مفقود ہوئے ہیں۔

    خصوصی پیکجز اور انتظامی معاملات

    وزیر اعظم کراچی کا چھٹی بار دورہ کر رہے ہیں، اور دوسری بار پیکج کا اعلان کر رہے ہیں۔ پچھلے اعلان شدہ 126 ارب کے پیکج کا آج بھی شہری انتظار کر رہے ہیں۔ شہریوں کو معلوم ہے کہ یہ پیکج بھی دیگر پیکجز کی طرح جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوگا۔ گزشتہ وفاقی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ سو دن میں کراچی کا مسئلہ حل کر دے گی، لیکن دو سال کے بعد بھی کراچی کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ کراچی کے شہری یہ سمجھتے ہیں کہ اگر صوبے با اختیار اور جمہوری شہری حکومتوں کا میسر نظام رائج ہو، تو کراچی جیسے شہروں کو کسی پیکج یا امداد کی ضرورت نہیں رہے گی۔

    شہر کے انتظامی اور سیاسی معاملات چلانے کے لیے ضروری شہری بلدیاتی نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ شہر کے 40 فی صد حصے پر کنٹونمنٹ بورڈز، ڈی ایچ ایز اور وفاقی اداروں کی ملکیت قائم ہے اور رہی سہی کسر صوبائی حکومت نے کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جیسے شہری ترقی کے اہم اداروں پر قبضہ کر کے پوری کر دی ہے، جس سے شہری حکومت مفلوج ہو گئی ہے۔ شہر کی اضلاع میں تقسیم در تقسیم، شہر کے انتظامی معاملات پر وفاق اور صوبائی حکومتوں کی بے جا مداخلت، سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بر خلاف شہر پر کنٹونمنٹ بورڈز اور دیگر مصنوعی اداروں کا تسلط شہر کے جسم کو وحشی درندوں کے بھنبھوڑنے کے مترادف ہے۔

    مسئلے کا حل

    شہر کے مسئلے کا دائمی حل ایک حقیقی نمائندہ جمہوری، بااختیار شہری حکومت ہی میں مضمر ہے، باقی تمام راستے مزید تباہی اور بربادی کا سامان لیے ہوئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کے تعصبات سے ہٹ کر عوامی مفاد کا ایک چارٹرمرتب کیا جائے جس میں یہ بنیادی مطالبات شامل ہوں:

    عوام کی مشاورت سے ایک با اختیار بدلیاتی نظام کا اجرا کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق شہر میں قائم کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈی ایچ ایز ختم کیے جائِیں اور شہر کا کنٹرول منتخب بدلیاتی اداروں ک سپرد کیا جائے۔ کے الیکٹرک اور کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو منتخب بلدیاتی اداروں کے زیر انتظام دیا جائے۔ تمام شہریوں کو آئین کے مطابق رہائش فراہم کی جائے، اور جن خاندانوں کو بے دخل کیا گیا ہے انھیں متبادل رہائش فراہم کی جائے۔

    آئین میں درج بدلیاتی اداروں کے اختیارات جن میں تعلیم، صحت، سڑکیں، ٹرانسپورٹ، فراہمی و نکاسئ آب اور پولیسنگ جیسے شعبے شامل ہیں، حقیقی معنوں میں بحال کیے جائیں۔ شہری مسائل کو لسانی و نسلی تفرق کے لیے استعمال کرنے سے سختی سے گریز کیا جائے۔ بلدیاتی انتخابات متناسب نمائندگی کے تحت کرائے جائیں، اور مزدوروں، عورتوں اور اقلیتی نمائندوں کا انتخاب براہ راست انتخابات کے ذریعے کیا جائے۔ حلقہ بندیاں آبادی اور رقبے پر مبنی ہونی چاہئیں اور کسی بھی قسم کے امتیازی طریقہ کار سے اجتناب کیا جائے۔ شہر کی تمام آبی گزر گاہوں کو صاف کیا جائے اور سمندر پر کی جانے والی تمام ناجائز تجاوزات ختم کی جائیں۔ اور شہر کو پہلے مرحلے میں کم از 5 ہزار بسیں فراہم کی جائیں اور پانی کی سپلائی کا ٹھوس انتظام کیا جائے۔

  • پاکستان بلاک پالیٹکس پر یقین نہیں رکھتا، غزہ میں مصائب کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے: آرمی چیف

    پاکستان بلاک پالیٹکس پر یقین نہیں رکھتا، غزہ میں مصائب کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے: آرمی چیف

    واشنگٹن: آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان بلاک پالیٹکس پر یقین نہیں رکھتا، غزہ میں مصائب کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے، یک طرفہ اقدام کشمیریوں کی خواہشات کے خلاف تنازعے کی نوعیت تبدیل نہیں کر سکتا۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ممتاز امریکی تھنک ٹینکس اور میڈیا ارکان کے ساتھ خصوصی گفتگو کی، آرمی چیف نے بات چیت کے دوران علاقائی سلامتی، بین الاقوامی دہشت گردی اور جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک استحکام کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر پاکستان کا نقطہ نظر اُجاگر کیا۔

    آرمی چیف نے مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی اُمنگوں اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا، آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ”کشمیر ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور کوئی بھی یک طرفہ اقدام کشمیری عوام کی خواہشات کے خلاف اس تنازعہ کی نوعیت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔‘‘

    آرمی چیف نے غزہ میں مصائب کے فوری خاتمے، انسانی ہمدردی اور خطے میں پائیدار امن کے لیے دو ریاستی حل کے نفاذ کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا، جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان علاقائی استحکام اور عالمی امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کئی دہائیوں سے بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال خدمات اور قربانیاں دی ہیں اور پاکستانی عوام کی بھرپور حمایت سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔

    آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامک دونوں نقطہ نظر سے اہم ترین ممالک میں سے ہے، پاکستان وسطی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے، انھوں نے واضح کیا کہ پاکستان بلاک پالیٹکس پر یقین نہیں رکھتا اور تمام دوست ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھنے پر یقین رکھتا ہے۔ آرمی چیف نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان طویل مدتی دوطرفہ تعلقات کے ذریعے امریکا کے ساتھ مضبوط روابط کو وسیع کرنے کا خواہاں ہے۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق دورہ امریکا کے دوران سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ آرمی چیف کی بات چیت بہت مثبت رہی، آرمی چیف کی آمد پر پاکستان کے سفیر نے اُن کا استقبال کیا۔

  • پاکستان کی ایران میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت

    پاکستان کی ایران میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت

    اسلام آباد: پاکستان نے ایران میں راسک پولیس ہیڈ کوارٹر پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان ایران میں راسک پولیس اسٹیشن پر دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے، جس میں 11 ایرانی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔

    ترجمان نے کہا ہم متاثرین کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں، اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں، پاکستان ایران کی حکومت اور برادر عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے۔

    ایران میں پولیس اسٹیشن پر دہشت گرد حملہ، 11 سیکیورٹی اہلکار ہلاک

    ترجمان کے مطابق دہشت گردی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے، دہشت گردی کا دو طرفہ اور علاقائی تعاون سمیت ہر طرح سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔