Tag: Pakistani Driver

  • دبئی میں پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے ایمانداری کی مثال قائم کردی

    دبئی میں پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے ایمانداری کی مثال قائم کردی

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے ٹیکسی سے ملنے والے 1 لاکھ ایک ہزار درہم اصل مالک کو واپس کردیے۔

    اردو نیوز کے مطابق متحدہ عرب امارات دبئی میں ایک پاکستانی لیموزین ڈرائیور نے ٹیکسی سے ملنے والے ایک لاکھ ایک ہزار درہم واپس کر کے ایمانداری کی مثال قائم کی ہے۔

    پاکستانی ڈرائیور نے رقم البرشہ پولیس اسٹیشن کے حوالے کی جو ایک مسافر ٹیکسی میں بھول گیا تھا۔

    البرشا پولیس اسٹیشن کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر ماجد سلطان السویدی نے ایمانداری اور امانت داری کی ستائش کرتے ہوئے پاکستانی ڈرائیور سفیان محمد ریاض کو اعزاز سے نوازا ہے۔

    پاکستانی ڈرائیور نے دبئی پولیس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسے رقم ٹیکسی سے ملی تھی، پہلی فرصت میں اسے اصل مالک تک پہنچانے کے لیے پولیس کی مدد لی۔ پولیس نے فوری طور پر رقم اصل مالک تک پہنچا دی۔

  • برطانیہ: پاکستانی ڈرائیور نے اوبر کے خلاف مقدمہ جیت لیا

    برطانیہ: پاکستانی ڈرائیور نے اوبر کے خلاف مقدمہ جیت لیا

    لندن : برطانوی عدالت میں گذشتہ 3 برسوں سے جاری سیلف ایمپلائیڈ مقدمے میں پاکستانی نژاد ڈرائیور نے اوبر کے خلاف دائر مقدمہ جیت لیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی نژاد برطانوی ڈرائیور یٰسین اسلم نے برطانوی عدالت میں اوبر کے خلاف ملازمت کے حوالے لڑے جانے والے مقدمے میں فتح حاصل کرلی ہے۔

    اوبر انتظامیہ گذشتہ تین برس سے اپنے ڈرائیورز کو سیلف امپلائیڈ ثابت کرنے میں میں لگی ہوئی ہے لیکن کامیاب نہ ہوسکی یٰسین اسلم اوبر کے خلاف 19 ملازمین کی جانب سے برطانوی عدالت میں مقدمہ لڑ رہے تھے۔

    یٰسین اسلم نے برطانیہ کی اعلیٰ عدلیہ کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اوبر کا لمب بی ورکر ہے اور اوبر انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے سیلف ایمپلائیڈ کے دعوے کے مخالف ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں، میں نے ٹریڈ یونین کے تعاون سے اوبر کے خلاف درخواست دائر کی تھی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اربوں ڈالر مالیت کی ٹیکسی فرم اوبر کے پاس قابل وکلاء کی پوری ٹیم موجود ہے۔

    یٰسین اسلم کا کہنا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی فرم کے خلاف مقدمے میں دوسری مرتبہ کامیابی حاصل ملازمین کے لیے کسی سنگ میل سے کم نہیں، تاہم اوبر انتظامیہ نے مذکورہ فیصلے کے خلاف بھی اپیل دائر کررکھی ہے لیکن پوری امید ہے کہ سپریم کورٹ کے جج اوبر ڈرائیوروں کی حمایت میں ہی فیصلہ دینگے۔

    واضح رہے کہ یٰسین اسلم کے ہمراہ یونائیٹڈ پرائیویٹ اوبر ڈرائیورز کی بنیاد رکھنے والے جیمز فرار نے سنہ 2015 میں سب سے پہلے اوبر کے خلاف ایمپلایمنٹ ٹربیونل میں درخواست دائر کی تھی جس میں انہیں فتح حاصل ہوئی تھی۔

    ایمپلایمنٹ ٹربیونل میں جولائی سنہ 2016 میں مقدمے کی پہلی سماعت ہوئی تھی جبکہ اکتوبر 2016 میں فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے جج نے ریمارکس دیئے تھے کہ اوبر سے وابستہ تمام ڈرائیورز سیلف ایمپلائیڈ نہیں ہیں لہذا انہیں ملازمین کے بنیادی حقوق دینے ہوں گے، خیال رہےکہ ملازمت کے بنیادی کے بنیادی حقوق میں اجرمت اور تعطیل کی تنخواہ شامل ہے۔

    یاد رہے کہ سنہ 2017 ستمبر میں اوبر انتظامیہ نے فیصلے کے خلاف ای اے ٹی میں درخواست دائر کی تھی تاہم اس دفعہ بھی عدالت نے فیصلہ ڈرائیور کے حق میں دیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اوبر نے ملازمین کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد دسمبر میں برطانیہ کی سپریم کورٹ میں ٹربیونل کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔ جس کی سماعت اکتوبر سنہ 2018 میں کی جائے گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ یٰسین اسلم اور دیگر ڈرائیوروں کو امید ہے کہ سپریم کی جانب سے آئندہ برس کیس کا فیصلہ سنادیا جائے گا۔

    یٰسین اسلم کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لندن کے میئر، وزیر ٹرانسپورٹ اور حکومت کو چاہیئے کے اپنی ذمہ داری ادا کرے اور اوبر کے معاملے پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے ورکرز کے حقوق کا دفاع کرے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر اوبر کو کیس میں کامیابی ہوگئی تو دیگر انڈسٹریوں میں بھی یہ ہی رواج قائم ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ میں بھی مقدمہ لڑوں گا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ دو مرتبہ عدالت میں اوبر کے خلاف فیصلہ آنا اس بات کی تصدیق ہے کہ اوبر انتظامیہ ملازمین کے حقوق غیر قانونی طور پر سلب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    برطانیہ میں ملازمین کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنا بہت ضروری ہے کیوں ادارے ملازمین کو حقوق دینے سے بچنے کے لیے غلط طریقوں کا استعمال کرتے ہیں اور سیلف ایمپلائیڈ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت میں کامیابی میرے اکیلے کی نہیں ہے بلکہ میری یونین اور کارکنوں کی یکجہتی کی وجہ سے فتح ہوئی ہے، میں اور میرے ساتھی یونینسٹ کے طور پر اپنی ذمہ داری نبھاتے رہیں گے کیوں کہ دوسروں کا بھی ہم پر حق ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • دبئی:ملازمت پیشہ پاکستانی شخص سے والدین کی 6 سال بعد ملاقات

    دبئی:ملازمت پیشہ پاکستانی شخص سے والدین کی 6 سال بعد ملاقات

    دبئی : سرکاری حکام نے چھ سال قبل پاکستان سے ملازمت کے لیے متحدہ عرب امارات آنے والے شخص کی ایئر پورٹ پر بوڑھے والدین سے ملاقات کروادی۔

    تفصیلات کے مطابق دبئی کے ڈائریکٹر جنرل برائے امور خارجہ نے دبئی میں ماؤں کے دن کے موقع نوکری کے سلسلے میں دبئی آنے والے پاکستانی شخص کی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پروالدین سے ملاقات کروائی۔ پاکستانی شخص گذشتہ 6 برسوں سے دبئی کے سرکاری محکمے میں ڈرائیور کی نوکری کررہا ہے جبکہ اس کے والدین پاکستان میں مقیم ہیں۔

    دبئی میں مقیم پاکستانی شہری کے والدین عمرہ ادائیگی کے بعد پاکستان واپس لوٹ رہے تھے کہ انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر جہاز نے قیام کیا اس دوران بوڑھے والدین انتظار گاہ میں آکر بیھٹے تو حکومت کی جانب سے پاکستانی ڈرائیوراوراس کے والدین کے مابین ملاقات کروائی گئی۔عرب میڈیا کے مطابق ملازم نے اپنے ادارے سے درخواست کی تھی کہ اس کی والدین سے کچھ گھنٹے ملاقات کروائی جائے۔

    دبئی میں ملازت کی غرض سے مقیم پاکستانی شخص کی 6سال بعد والدین سے ملاقات

     

    سرکاری ادارے نے دفترخارجہ کو تحریری طور پر آگاہ کیاجس کے بعد افسران نے ہوائی اڈے کے ٹرمنل نمبر 3 پر ملاقات کا اہتمام کروایا۔ پاسپورٹ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے حکام کا کہنا ہے کہ والدین سے ملاقات کا یہ جذباتی منظر دیکھنے والے ہر فرد کی آنکھ اشکبار تھی۔

    اس موقع پر میجر جنرل محمد احمد المرّی کا کہنا تھا کہ کسی کو خوشی فراہم کرنا کامیابیوں کی کنجی ہے،اس لیے ہم دبئی میں بسنے والے خاندان کے دلوں کو خوشیوں سے بھرنا چاہتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں