Tag: pakpattan

  • پاکپتن میں 21 ماہ قبل لاپتا ہونے والی 5 سالہ عدن فاطمہ کا معمہ حل

    پاکپتن میں 21 ماہ قبل لاپتا ہونے والی 5 سالہ عدن فاطمہ کا معمہ حل

    پاکپتن: پنجاب کے شہر پاکپتن میں گھر سے 21 ماہ قبل لاپتا ہونے والی 5 سالہ عدن فاطمہ کا معمہ حل ہو گیا، پڑوسی نے قتل کر اس کی لاش نہر میں پھینک دی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکپتن میں گھر سے لاپتا ہونے والی پانچ سالہ عدن فاطمہ کے بارے میں پولیس نے بتایا ہے کہ کمسن بچی کو تلخ کلامی کی رنجش پر پڑوسی نے قتل کر کے اس کی لاش نہر میں پھینک دی تھی۔

    ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ طارق ولایت نے بتایا کہ گاؤں ڈھپئی کی رہائشی پانچ سالہ بچی کے اغوا کا مقدمہ 21 ماہ قبل تھانہ ملکہ ہانس میں درج ہوا تھا، پولیس نے پڑوسی مزمل کو حراست میں لیا تو ملزم نے اعتراف جرم کر لیا۔

    ملزم مزمل کے مطابق اس کی ماں سے ہونے والی تلخ کلامی کی رنجش پر انھیں دکھ پہنچانے کے لیے کمسن بچی کو گاؤں سے لے جا کر قتل کر دیا تھا۔

    سفاک ملزم نے کمسن بچی کو بسکٹ دینے کا لالچ دے کر موٹر سائیکل پر لے جا کر قتل کیا اور اس کی لاش پاکپتن کینال میں پھینک دی تھی۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے مزید کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔

  • خاتون کا قاتل 12 سال بعد دبئی سے واپسی پر ایئرپورٹ پر گرفتار

    خاتون کا قاتل 12 سال بعد دبئی سے واپسی پر ایئرپورٹ پر گرفتار

    پاکپتن: پنجاب کے شہر پاکپتن شریف میں ایک خاتون کے قاتل کو 12 سال بعد دبئی سے واپسی پر ایئرپورٹ پر گرفتار کر لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکپتن میں شادی شدہ خاتون کو قتل کر کے بیرون ملک بھاگنے والا اشتہاری ملزم بارہ سال بعد پکڑا گیا، ملزم دبئی سے واپس آیا تو ایئر پورٹ پر ہی پکڑا گیا۔

    ڈی پی او پاکپتن کیپٹن ریٹائرڈ طارق ولایت کے مطابق مفرور ملزم نے گاؤں اٹھاون ڈی میں بارہ سال قبل دیرینہ رنجش پر ایک خاتون کو قتل کیا تھا، واردات کے بعد وہ دبئی فرار ہو گیا تھا۔

    تاہم بارہ سال بعد جب وہ یہ سوچ کر واپس لوٹا کہ کسی کو اس کی آمد کی خبر نہیں ہوگی، تو تھانہ چکبیدی کے ایس ایچ او عاشق عابد نے ایئر پورٹ سے ہی ملزم کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا۔

  • لین دین کے تنازعے پر گھر پہ فائرنگ، خاتون جاں بحق

    لین دین کے تنازعے پر گھر پہ فائرنگ، خاتون جاں بحق

    لاہور: صوبہ پنجاب کے شہر پاکپتن میں لین دین کے تنازعہ پر فائرنگ کی گئی جس سے خاتون جاں بحق ہوگئیں، پولیس ملزمان کو تلاش کر رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکپتن کے علاقے ٹبہ شیر کوٹ میں لین دین کے تنازعہ پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے، فائرنگ سے خاتون جاں بحق ہوگئیں جبکہ 2 افراد زخمی ہوگئے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ رقم کے تنازعے پر احمد اور جاوید نامی ملزمان نے فائرنگ کی۔

    پولیس نے لاش اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیا جبکہ ملزمان کی تلاش کے لیے کارروائی جاری ہے۔

  • جائیداد کا لالچ: بھائی نے فائرنگ کر کے ماں، بھائیوں اور بھابھی کو قتل کردیا

    جائیداد کا لالچ: بھائی نے فائرنگ کر کے ماں، بھائیوں اور بھابھی کو قتل کردیا

    لاہور: صوبہ پنجاب کے شہر پاکپتن میں جائیداد کے لالچ نے بھائی کا خون سفید کردیا، ملزم نے سحری کے وقت گھر میں گھس کر فائرنگ کی اور اپنی ہی ماں، 2 بھائیوں، بھابھی اور بھتیجوں کو قتل کر ڈالا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کے شہر پاکپتن کے نواحی گاؤں بڑی راکھ میں جائیداد کے تنازعہ پر 7 افراد کو قتل کر دیا گیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ بھائی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بھائیوں اور بھابھی سمیت 7 افراد کو قتل کیا۔

    پولیس کے مطابق ملزمان نے سحری کے وقت بھائی کے گھر میں گھس کر فائرنگ کی، فائرنگ سے ملزم کی ماں، بھابھی اور 3 بچوں کو قتل کردیا جبکہ 7 سالہ بچی شدید زخمی ہوگئی۔

    بعد ازاں ملزمان نے 2 بھائیوں کو کھیت میں نماز کے لیے بنائی گئی جگہ پر فائرنگ کر کے قتل کیا۔

    قتل ہونے والوں میں قاتل و مقتولین کی ماں، 2 بھائی شیر باز اور افتخار، افتخار کی اہلیہ اور ان کے 2 بیٹے اور 1 بیٹی شامل ہیں، اندوہناک واقعے میں زخمی 7 سالہ بچی کو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

    پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے کر ملزمان کی تلاش شروع کردی ہے۔

  • زیادتی کیس میں گرفتار ملزم کی رہا ہوتے ہی شرمناک حرکت

    زیادتی کیس میں گرفتار ملزم کی رہا ہوتے ہی شرمناک حرکت

    پاکپتن: ناقص تفتیش کے باعث زیادتی کیس میں رہائی پانے والے ملزم نے رہا ہوتے ہوئے ایک بار پھر قبیح کرتے ہوئے قانون کی دھجیاں اڑا ڈالی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق دو سال ملزم ذوالفقار ماچھی کو زیادتی کیس میں گرفتار کیا گیا، یہی نہیں ملزم کے خلاف زیادتی سمیت چار مقدمات درج تھے، عدالت کی جانب سے ملزم کو دو سال رہائی کا پروانہ ملا۔

    رہائی پاتے ہی ملزم میں ایک بار شیطانی صفت جاگی اور اس نے دوسری جماعت کے طالب علم کو اغوا کیا اور زیادتی کا نشانہ بناڈالا۔

    واقعہ میڈیا پر نشر ہوا تو ڈی پی او پاکپتن ملک جمیل ظفر نے نوٹس لیا اور پولیس کو فوری طور پر بچے کو بازیاب کرانے کا حکم دیا، ڈی پی او کے حکم پر پولیس حرکت میں آئی اور مبینہ زیادتی کے شکار بچے کو بازیاب کراتے ہوئے ملزم کو ایک بار پھر جیل کی سلاخوں کو پیچھے ڈال دیا۔

    دوسری جانب اے آر وائی نیوز نے ملزم کے ہاتھوں بچےکے اغوا کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرلی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پنجاب میں ایک اور بچہ مبینہ زیادتی کا شکار

    واضح رہے کہ چند روز قبل راولپنڈی کے علاقے جھنڈا چیچی میں نو سالہ زینب کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

    صوبہ پنجاب میں کم عمر بچیوں اور بچوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتی کے واقعات نے صاحب اولاد افراد کو ایک انجانے خوف میں مبتلا کردیا ہے، تواتر کے ساتھ ہونے والے واقعات کے باعث بچے اور بچیاں ذہنی دباؤ کا شکار ہونے لگے ہیں۔

  • خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں پاکپتن کی پہلی خاتون ایس ایچ او

    خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں پاکپتن کی پہلی خاتون ایس ایچ او

    لاہور: صوبہ پنجاب کے شہر پاکپتن میں تعینات پہلی خاتون اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) شہر میں ہونے والے زیادتی کے واقعات کے خلاف سرگرم ہیں اور صرف 2 ماہ میں انہوں نے زیادتی کے 200 کیسز حل کرلیے ہیں۔

    پاکپتن کی پہلی خاتون ایس ایچ او کلثوم فاطمہ نے سنہ 2016 میں پنجاب پولیس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان کے شوہر بھی پنجاب پولیس کے اہلکار ہیں۔

    چارج سنبھالتے ہی کلثوم فاطمہ نے زیادتی کے واقعات کے خلاف کام شروع کیا، 2 ماہ میں وہ 200 سے زائد زیادتی، زیادتی کی کوشش، جنسی حملوں اور ہراسمنٹ کے کیسز حل کرچکی ہیں۔

    روز شام میں جب وہ اہل علاقہ کے ساتھ بیٹھ کر ان کے مسائل سنتی ہیں تو ان کے پاس زیادہ تر شکایت کنندگان خواتین ہوتی ہیں۔ ’خواتین کو لگتا ہے کہ ایس ایچ او بھی ان کی طرح خاتون ہے تو وہ اسے اپنا مسئلہ سمجھا سکتی ہیں، اس سے قبل وہ مرد ایس ایچ او کے پاس اکیلے اپنی شکایات لانے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں‘۔

    کلثوم کا کہنا ہے کہ ایک خاتون کو اس عہدے پر تعینات کرنا پنجاب پولیس کا ایک بہترین قدم ہے اور اس سے خواتین سے متعلق کیسز حل کرنے میں خاصی آسانی ہوگی۔

    پاکپتن کی یہ پہلی خاتون ایس ایچ او ایک گھریلو خاتون بھی ہیں۔ ایس ایچ او بننے کے بعد کلثوم پاکپتن شہر سے 25 کلو میٹر دور ڈل وریام کے علاقے میں رہائش پذیر ہیں جہاں سے ان کا تھانہ ایک گھنٹہ کی مسافت پر ہے۔ وہ اپنے پاس موجود چھوٹی سی گاڑی چلا کر تھانے جاتی ہیں، ان کی ایک 9 ماہ کی بچی بھی ہے جس کی وجہ سے انہیں دن میں کئی چکر گھر کے لگانے پڑتے ہیں۔

    ان کی بچی کی نگہداشت کے لیے ان کی والدہ اور ایک ملازم گھر پر موجود ہوتے ہیں تاہم اس کے ساتھ ساتھ فاطمہ خود بھی گھر کے دیگر امور اور بچی کی دیکھ بھال سرانجام دیتی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں کہ پیشہ وارانہ امور میں انہیں اپنے سینیئر افسران کی بھرپور معاونت حاصل ہے، ’اب تک حل کیے جانے والے کیسز میں اگر کوئی دباؤ آیا بھی ہے تو میں نے اسے نظر انداز کردیا کیونکہ مجھے اپنے افسران و محکمے کی بھرپور حمایت حاصل ہے‘۔

    فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں خصوصاً زیادتی کے مرتکب افراد کے لیے ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں۔

  • پاکپتن: 4 سالہ بچی زیادتی کے بعد قتل، ملزم گرفتار

    پاکپتن: 4 سالہ بچی زیادتی کے بعد قتل، ملزم گرفتار

    پاکپتن: صوبہ پنجاب کے شہر پاکپتن میں درندہ صفت ماموں نے بھانجی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکپتن کے گاؤں مگھر میں 4 سالہ بچی کے اغوا اور قتل میں ملوث ملزم کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔

    ڈی پی او پاکپتن کے مطابق درندہ صفت ماموں نے بھانجی کو زیادتی کے بعد قتل کیا، ملزم کی نشاندہی پر کھیتوں سے بچی کی لاش مل گئی۔

    انہوں نے کہا کہ شک کی بنیاد پر زیرحراست ملزم نے دوران تفتیش جرم کا اعتراف کرلیا، ورثا نے اپنے مخالفین کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔

    ڈی پی او پاکپتن کے مطابق ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے فرانزک لیب بھجوا دیے۔

    فیصل آباد: ایک دن کی دلہن سے شوہر سمیت چار افراد کی مبینہ زیادتی

    یاد رہے کہ 12 جون کو فیصل آباد کے علاقے نلکا کوہالہ میں آٹھ جون کی رات شادی کے دوسرے دن25 سالہ دلہن نورین کو مبینہ طور پر اس کے شوہر شہباز اور جیٹھ عرفان سمیت چار افراد نے شراب پی کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

  • سپریم کورٹ میں پاکپتن اوقاف اراضی الاٹمنٹ کیس کی سماعت آج ہوگی

    سپریم کورٹ میں پاکپتن اوقاف اراضی الاٹمنٹ کیس کی سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف پاکپتن درباراراضی کیس کی سماعت آج ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 بینچ پاکپتن دربار اراضی کیس کی سماعت کرے گا۔

    سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں گزشتہ ماہ 27 دسمبر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پاکپتن دربار اراضی کیس کی سماعت کی تھی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران جے آئی ٹی کے سربراہ ڈی جی نیکٹا خالق دارلک نے ذاتی وجوہات کی بنا پرتحقیقاتی ٹیم کی سربراہی سے معذرت کی تھی۔

    نوازشریف کے خلاف پاکپتن درباراراضی کیس: جےآئی ٹی کےسربراہ تبدیل

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ خالق دار لک کی معذرت کی وجوہات حقائق پرمبنی ہیں، دباؤ نہیں ڈال سکتے، سپریم کورٹ کا بینچ نمبر1 ان پراطمینان کا اظہار کرتا ہے۔

    خالق دار لک کی معذرت کے بعد چیف جسٹس نے ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب ڈاکٹر حسین اصغر کو جے آئی ٹی کا نیا سربراہ مقرر کیا تھا۔

    سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے نئے سربراہ کو 10 دن میں ٹی او آر دینے کی ہدایت بھی کی تھی۔

    پاکپتن اوقاف اراضی الاٹمنٹ کیس ، سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی تشکیل دے دی

    واضح رہے کہ نوازشریف کوبطورسابق وزیراعلیٰ پنجاب سمری منظور کرنے پرذاتی حیثیت میں وضاحت کے لیے سپریم کورٹ میں طلب کیا گیا تھا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے 13 دسمبر کو کیس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے پر آمادگی ظاہر کی تھی

  • نوازشریف کے خلاف پاکپتن درباراراضی کیس: جےآئی ٹی کےسربراہ تبدیل

    نوازشریف کے خلاف پاکپتن درباراراضی کیس: جےآئی ٹی کےسربراہ تبدیل

    لاہور: سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف پاکپتن درباراراضی کیس میں تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کے سربراہ کو تبدیل کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پاکپتن دربار اراضی کیس کی سماعت کی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران جے آئی ٹی کے سربراہ ڈی جی نیکٹا خالق دارلک نے ذاتی وجوہات کی بنا پرتحقیقاتی ٹیم کی سربراہی سے معذرت کرلی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دہے کہ خالق دار لک کی معذرت کی وجوہات حقائق پرمبنی ہیں، دباؤ نہیں ڈال سکتے، سپریم کورٹ کا بینچ نمبر1 ان پراطمینان کا اظہار کرتا ہے۔

    خالق دار لک کی معذرت کے بعد چیف جسٹس نے ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب ڈاکٹر حسین اصغر کو جے آئی ٹی کا نیا سربراہ مقرر کردیا۔

    سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے نئے سربراہ کو 10 دن میں ٹی او آر دینے کی ہدایت کی ہے۔

    پاکپتن اوقاف اراضی الاٹمنٹ کیس ، سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی تشکیل دے دی

    واضح رہے کہ نوازشریف کوبطورسابق وزیراعلیٰ پنجاب سمری منظور کرنے پرذاتی حیثیت میں وضاحت کے لیے سپریم کورٹ میں طلب کیا گیا تھا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے 13 دسمبر کو کیس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔

  • ڈی پی او تبادلہ کیس: سپریم کورٹ کا پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم

    ڈی پی او تبادلہ کیس: سپریم کورٹ کا پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سابق ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پرازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں آئی جی پنجاب پولیس، رضوان گوندل، احسن جمیل گجر، خاور مانیکا اور ان کی صاحبزادی سمیت دیگرافراد پیش ہوئے۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ آئی جی پنجاب پولیس سید کلیم امام، سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل اور پی آر او نے بیان حلفی جمع کرا دیے ہیں۔

    آئی جی پنجاب نے عدالت میں کہا کہ افسران کوآئندہ بغیراجازت وزیراعلیٰ ہاؤس جانے سے روکا جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے واقعے کے وقت ہی افسران کوکیوں نہیں روکا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ توکہتے ہیں 24 گھنٹے کام کرتے ہیں، ڈی پی او کے تبادلے کی فائل بھی دکھائیں۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ تبادلے کا زبانی حکم دیا گیا تھا جس پرچیف جسٹس نے استفسارکیا کہ رات ایک بجے کہاں سے تبادلے کا حکم دیا۔

    انہوں نے آئی جی پنجاب پولیس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے حاکم کے حکم کی تعمیل کر دی، کیا آپ نے رضوان گوندل اورآرپی او سے ملاقات کا پوچھا؟۔

    آئی جی سید کلیم امام نے کہا کہ خاتون سے بد تمیزی پررضوان گوندل نے کوئی کارروائی نہیں کی، انہوں نے افسران سے واقعات سے متعلق معلومات چھپائیں، تبادلہ انتظامی فیصلہ تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تبادلہ رات ایک بجے زبانی کرنے کی کیا ضرورت تھی، بتائیں کس انکوائری کی روشنی میں تبادلے کا حکم دیا۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ تبادلےکا فائل ورک زبانی احکامات کے بعد ہوا، کرائم ڈائری دیکھ کربہت سے فیصلے رات کو کرتا ہوں۔

    سید کلیم امام نے کہا کہ ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرکورات ایک بجے احکامات دیے تھے، بطورایس ایس پی اسلام آباد میرا تبادلہ رات 2 بجے ہوا تھا۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ احسن جمیل گجرکے خلاف کیا کارروائی کی، آپ کون ہوتے ہیں پولیس کوحکم دینے والے جس پر احسن جمیل گجر نے جواب دیا کہ خاورمانیکا کے بچوں کا ان آفیشل گارڈین ہوں۔

    احسن جمیل گجر نے بتایا کہ میں نےکسی تبادلے کا نہیں کہا جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب کوچیمبرمیں کہا تھا سچ بولیں۔

    انہوں نے کہا کہ مشترکہ دوست کے ذریعے ڈی پی او کو یغام بھیجا تھا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چھوٹا ساواقعہ تھا وزیراعلیٰ ملوث ہوگئے۔

    چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ایک اجلاس میں آئی جیزکوکہا تھا سیاست دانوں کی محتاجی چھوڑدیں، پولیس سیاسی دباؤاورحاکموں کے کہنے پر کام نہ کرے۔

    آئی پنجاب نے کہا کہ ڈی پی اونے خاتون کے ساتھ بدتمیزی کے واقعے کا نوٹس نہیں لیا، چیف جسٹس نے آئی جی سے مکالمہ کرےتے ہوئے کہا کہ کیا بطورکمانڈرآپ نے دیانتداری کا مظاہرہ کیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زبانی ٹرانسفرکے احکامات کیوں دیےتھے؟ ہمیں فائل دکھائیں، آئی جی نے جواب دیا کہ میں خود کوعدالت کے رحم وکرم پرچھوڑتا ہوں۔

    سید کلیم امام نے کہا کہ میں نے تبادلہ پوسٹ ڈیٹڈ کرنا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پوسٹ ڈیٹڈ فائل ہی دکھا دیں، آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ ابھی فائل میرے پاس نہیں ہے۔

    احسن گجر نے کہا کہ بچے دباؤمیں تھے، افریقا میں مشترکہ دوست کوفون آیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ افریقا سے یاد آئی ایس آئی کے کرنل کدھرہیں؟۔

    چیف جسٹس نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ اتنا بڑا واقعہ پیش نہیں آیا تھا کہ کرنل بھی درمیان میں آگئے۔

    چیف جسٹس نے احسن گجر سے استفسار کیا کہ آپ کا وزیراعلیٰ پنجاب سے کیا تعلق ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ایک شہری ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں کھڑے ہوکرجھوٹ مت بولیں۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ جس کا دل چاہے پولیس کو بلا کرذلیل کردے، آپ بچوں کے ماما ہیں یا چاچا؟ ہم ایف آئی آردرج کرائیں گے۔

    سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندان نے عدالت میں کہا کہ احسن گجرنے کہا تھا پیغام بھیجا تھا آپ نےعمل کیوں نہیں کیا؟ کہا انگریزدورمیں اس خاندان کی جائیدادیں ڈپٹی کمشنردیکھتا تھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے تیسرے آدمی کی بات کیوں سنی؟ آرپی او ساہیوال نے عدالت میں کہا کہ میں رضوان گوندل کے بیان کی تصدیق کرتا ہوں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم کیوں نہ وزیراعلیٰ پر62 ون ایف کا اطلاق کریں، وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ نے کہا میں نے اچھی نیت سے پولیس کوبلوایا۔

    پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے آئندہ ایسا نہیں ہوگا جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پاکستان قبائلی معاشرہ نہیں ہے۔

    عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ خاورمانیکا آپ حیات ہیں احسن گجرآپ کے بچوں کے کسٹوڈین کیسے؟ جس پر خاور مانیکا نے جواب دیا کہ احسن گجرفیملی کا ہمارے ساتھ 1970 سے روحانی تعلق ہے۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میری بیٹی سے پولیس نے بدتمیزی کی وہ کانپ رہی تھی، میری بیٹی نے مجھے کہا پولیس نے شراب پی رکھی ہے۔

    خاور مانیکا نے کہا کہ میں نے پولیس کوڈانٹا پولیس نے معافی مانگی، میرے پاؤں پکڑے گئے میں نے کہا آپ بابا فرید سے معافی مانگو۔

    انہوں نے عدالت میں کہا کہ بدتمیری کی گئی میری بیٹی کوبلوا کرپوچھ لیں، کمرہ عدالت میں خاور مانیکا آبدیدہ ہوگئے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم بچی کے والدین ہیں، بچی کے ساتھ جس اہلکارنے بدتمیزی کی ایکشن ہوگا، سمجھ سےبالاترہے وزیراعلیٰ پنجاب نے کیوں مداخلت کی۔

    پی ایس او وزیراعلیٰ پنجاب حیدر نے عدالت کو بتایا کہ رضوان گوندل اورآر پی او کو وزیراعلیٰ نے چائے پر بلانے کا کہا، ڈی پی اوکے تبادلے کا صبح پتہ چلا۔

    ایڈیشنل آئی جی نے عدالت میں کہا کہ آئی جی سید کلیم امام کے کہنے پرڈی پی او کے ٹرانسفر پر دستخط کیے۔

    رضوان گوندل نے عدالت کو بتایا کہ سی ایس او حیدر نے کہا وزیراعلیٰ نے کہا ڈی پی اوکی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے سی ایس او حیدر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ایسا کہا؟ جس پرسی ایس او نے جواب دیا کہ میں نے ایسا نہیں کہا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کیوں جھوٹ بول رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جےآئی ٹی سے تحقیقات کرا لیتے ہیں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم وزیراعلیٰ کو62 ون ایف کے تحت نوٹس جاری کرتے ہیں، کیوں نہ وزیراعلیٰ پنجاب کوطلب کرکے پوچھا جائے۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ دائیں بائیں اوردرمیان سے جھوٹ بولاجا رہا ہے، آپ نے پولیس فورس کی عزت بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارا صرف ایک مقصد ہے پولیس خود مختارہو، وزیراعظم نے بھی اس طرح کی بات کی۔

    انہوں نے سوال کیا کہ احسن گجرکون ہے اس کا وزیراعلیٰ سے کیا تعلق ہے، وہ کیسے وزیراعلیٰ کے پاس پہنچ گیا، معاملے کی تحقیقات کرائیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں قبائلی روایت نہیں جمہوریت ہے، انہوں نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کیوں فون کرکے مداخلت کی؟۔

    کرنل طارق نے عدالت کو بتایا کہ میں اوررضوان گوندل اکٹھے ٹریننگ کرتے رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کے حوالے سے ادارے سے تحقیقات کراؤں گا۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگراختیار حاصل ہے توذاتی مداخلت والے آپ کون ہوتے ہیں، کرنل طارق نے کہا کہ رضوان گوندل سے کہا کسی ڈیرے پرجانے کی ضرورت نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کے معاملات میں ایک غیرمتعلقہ شخص نے مداخلت کی۔

    عدالت عظمیٰ نے آئی جی پنجاب پولیس سید کلیم امام کو حکم دیا کہ ایک ہفتے میں انکوائری کر کے رپورٹ پیش کریں، ملزمان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

    سپریم کورٹ نے معاملے میں مداخلت کے پہلو پر انکوائری اور وزیراعلیٰ کے چیف سیکیورٹی افسر عمر کو احسن جمیل کی مداخلت کو دیکھنے کی ہدایت کردی۔

    عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ انکوائری میں رضوان گوندل اورآرپی او ساہیوال کے بیانات کو مدنظر رکھیں، وزیراعلیٰ کی مداخلت سمیت تمام پہلوؤں پررپورٹ پیش کی جائے۔

    بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کیس کی سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کردی۔

    اس سے قبل آج سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر خاور مانیکا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاملہ عدالت میں ہے، عدالت میں ہی بات کروں گا، عدالت سے قبل میڈیا سے بات کرنا مناسب نہیں ہے۔

    عدالت عظمیٰ میں گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت سے جھوٹ بولیں گے تواس کے نتائج بھتگنا ہوں گے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ آپ بھی گریڈ 21 کے افسراور22 پرکا م کررہے ہیں، کیوں نہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کوبلا کرآپ کو بھی تبدیل کردیا جائے۔

    انہوں نے استفسار کیا تھا کہ رات کو ایک بجے تبادلے کا حکم دیا، کیا صبح نہیں ہوتی؟ کیا اگلے دن کا سورج نہیں چڑھنا تھا؟۔

    آئی جی پنجاب پولیس کا کہنا تھا آپ خود معاملے کے حقائق پوچھ سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں عدالت کوکہنے والے ہم معلوم کریں۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت سے بات کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے جس پر سید امام کلیم نے کہا تھا کہ میں اپنےالفاظ واپس لیتا ہوں۔

    چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا

    یاد رہے 30 اگست کو چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔