Tag: pakpattan

  • سابق ڈی پی او پاکپتن تبدیلی کیس: خاورمانیکا اورجمیل گجر پیر کو طلب

    سابق ڈی پی او پاکپتن تبدیلی کیس: خاورمانیکا اورجمیل گجر پیر کو طلب

    اسلام آباد :  سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پرازخود نوٹس کی سماعت میں  چیف جسٹس نے خاور مانیکا اور جمیل گجر کو پیرکو طلب کرلیا اور کہا حاضرنہ ہوئے تو پھر اگلا لائحہ عمل دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی ، آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی ، آرپی اوساہیوال اور رضوان گوندل عدالت میں پیش ہوئے ۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پرچیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے جھوٹ بولیں گے تواس کے نتائج بھتگنا ہوں گے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ بھی گریڈ 21 کے افسراور22 پرکا م کررہے ہیں، کیوں نہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کوبلا کرآپ کو بھی تبدیل کردیا جائے۔

    انہوں نے استفسار کیا کہ رات کو ایک بجے تبادلے کا حکم دیا، کیا صبح نہیں ہوتی؟ کیا اگلے دن کا سورج نہیں چڑھنا تھا؟۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اے ڈی خواجہ معاملے میں بھی ہم نے پولیس کوبا اختیار کیا، آپ خود سیاسی اثرکے نیچے جا رہے ہیں۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے عدالت میں کہا کہ میں نے واقعے کا پوچھا تورضوان گوندل نے درست بات نہ بتائی، میں نے دیگرذرائع سے اصل معاملہ پتہ کیا۔

    سید امام کلیم نے کہا کہ ایک خاتون کو روکا گیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کتنے بجے روکا گیا جس پر آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ رات کوایک یا 2 بجے روکا گیا۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ آپ خود معاملے کے حقائق پوچھ سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں عدالت کوکہنے والے ہم معلوم کریں۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت سے بات کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے جس پر سید امام کلیم نے کہا کہ میں اپنےالفاظ واپس لیتا ہوں۔

    آئی پنجاب پولیس نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے جوڈی پی اوکوبلایا انہیں نہیں بلانا چاہیے تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ڈی پی اوکووزیراعلٰی کے پاس جانے کی اجازت کیوں دی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نےکیا وزیراعلیٰ سے ڈی پی اوکوملنےسے روکا؟ خاتون پیدل چل رہی تھی پولیس نے پوچھا تواس میں کیاغلط ہے؟ آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ لڑکی کا ہاتھ پکڑا گیا۔

    سابق ڈی پی اور پاکپتن رضوان گوندل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 23،24 اگست والے واقعے کا قائم مقام آرپی او کو بتایا، مجھ سے متعلق وزیراعلیٰ نے آئی جی کوحکم دیا، حکم آیا کہ رضوان گوندل کوڈی پی اوکے طورپر نہیں دیکھنا تھا۔

    رضوان گوندل نے کہا کہ اتوارکی رات سی ایس اواور پی ایس او کی کال موصول ہوئی، مجھے بتایا گیا 9 بجے وزیراعلیٰ کے دفترآئیں۔

    سابق ڈی پی او پاکپتن نے کہا کہ پی ایس اوصاحب نے بتایا وزیراعلیٰ نے آئی جی کو حکم دیا ہے، میں نے آرپی او سے بات کی، آرپی اونے کہا انکوائری مکمل نہیں ہوئی توایسا حکم نہیں آنا چاہیے تھا۔

    سپریم کورٹ نے خاورمانیکا اور جمیل گجرکو فوری طلب کرلیا، چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو حکم دیا کہ 3 بجے کراچی جانا ہے اس سے قبل پیش کیا جائے۔

    وفقے کے بعد سابق ڈی پی اوپاکپتن رضوان گوندل ازخود نوٹس کیس کی شروع ہوئی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ احسن جمیل گجر کے گھر ایس ایچ او کھڑے ہیں، ایس ایچ او سے رابطہ نہیں ہورہا، خاور مانیکا نے کہا بیٹی کو اسکول سے پک کرنا ہے،3 بجے سے پہلے لاہورنہیں چھوڑسکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آرپی اوساہیوال اوررضوان گوندل کل تک بیان حلفی جمع کرائیں اور احسن جمیل گجراوردیگر پیرکوعدالت میں حاضر ہو، احسن جمیل گجرکی حاضری کوآئی جی نےیقینی بنانا ہے۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا 62 ون ایف پر فیصلوں کوایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پڑھ کرآئیں کہ اختیارات کے غلط استعمال پر عدالتی فیصلوں کا اسکوپ کتنا ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا احسن جمیل گجرکو پیار سے لائیے گا، احسن جمیل گجر پیر کو حاضر نہ ہوئے تو پھر اگلالائحہ عمل دیں گے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پرازخود نوٹس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا

    یاد رہے گذشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی پنجاب، آرپی او ساہیوال اورمتعلقہ ڈی پی او کو کل ساڑھے نو بجے طلب کیا تھا اور ساتھ ہی پنجاب پولیس کے حکام سے انکوائری رپورٹ بھی طلب کی تھی۔

    اس سے قبل اپوزیشن پارٹیوں‌ نے الزام لگایا تھا کہ 23 اگست کو خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا گیا، واقعے کے بعد آر پی او اور ڈی پی او پر مبینہ طور پر معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور ان کے انکار کرنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا گیا۔

    حکومت پنجاب کا موقف تھا کہ آر پی او اور ڈی پی او کو طلب کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، اس معاملے پر غفلت میں تبادلہ کیا گیا۔

    ماریہ محمودکوڈی پی اوپاکپتن تعینات

    دوسری جانب ماریہ محمود کو ڈی پی اوپاکپتن تعینات کرکے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔

    خاور مانیکا اور رضوان گوندل کے موقف

    واقعے کے بعد سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں غیرمتعلقہ شخص سوالات پوچھتا رہا، باربار کہا گیا ڈیرے پر جاکرمعافی مانگو۔

    خاور مانیکا فیملی نے بھی اپنا جواب ای میل کے ذریعے کمیٹی کو ارسال کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اہلکاروں نے خاور مانیکا اور بیٹی سے بدتمیزی کی تھی۔

  • پاکپتن: وزیراعلیٰ‌ پنجاب کے پروٹوکول کی وجہ سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا

    پاکپتن: وزیراعلیٰ‌ پنجاب کے پروٹوکول کی وجہ سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا

    پاکپتن: وزیراعلیٰ‌ پنجاب عثمان بزدار کے پروٹوکول کی وجہ سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، پولیس گردی نامنظور کے نعرہ لگے گئے.

    تفصیلات کے مطابق آج وزیراعلیٰ پنجاب پاکپتن کے دورے پر آئے، تو ان کا قافلہ سائرن بجاتی سترہ گاڑیوں پر مشتمل تھا، . وزیراعلیٰ پنجاب نے بابا فرید گنج شکرکے مزار پرحاضری دی.

    پروٹوکول کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، واپسی پر پولیس گردی مردہ باد کے نعرے لگ گئے، عثمان بزدار میڈیا سے بات کیے بغیر ہی چلے گئے.

    عوام کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ وہ تبدیلی نہیں، جس کا انتظار تھا.


    مزید پڑھیں: میاں چنوں: اسپتال میں وزیرِ اعلیٰ پروٹوکول کے باعث بچی جاں بحق

    یاد رہے کہ آج وزیراطلاعات پنجاب فیاض چوہان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے دورہ پاکپتن پر کوئی سڑک بند نہیں کی گئی، زائرین کی وجہ سے ٹریفک جام ہوا.

    یاد رہے کہ وزیرِ اعلٰی پنجاب عثمان بزدار کی  آمد پر ٹی ایچ کیو اسپتال، میاں چنوں میں خصوصی پروٹوکول کے باعث ایک سال کی بچی ڈاکٹرز کی توجہ نہ ملنے کے سبب جاں بحق ہو گئی۔

  • پاکپتن میں انسانی جانوں سے کھلواڑ: غلط خون چڑھانے سے بچی جاں بحق، اتائی ڈاکٹر گرفتار

    پاکپتن میں انسانی جانوں سے کھلواڑ: غلط خون چڑھانے سے بچی جاں بحق، اتائی ڈاکٹر گرفتار

    پاکپتن: پنجاب کے ضلع پاکپتن میں انسانی جانوں سے کھلواڑ کا سلسلہ جاری ہے، آج ایک اتائی ڈاکٹر نے غلط خون چڑھا کر 8 سالہ بچی کو جان سے مار دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکپتن میں نجی اسپتال میں غلط خون چڑھائے جانے سے ایک بچی کی جان ضائع ہو گئی، اے آر وائی کی خبر پر اتائی ڈاکٹر عمران کو گرفتار کرلیا گیا۔

    پاکپتن میں دو دن میں صحت کے اداروں کی غفلت کا یہ دوسرا واقعہ ہے، گزشتہ روز بھی دل کی مریضہ علاج نہ ہونے کے باعث دم توڑ گئی تھی۔

    آج ایک نجی اسپتال میں آٹھ سال کی آرزو فاطمہ کو غلط خون چڑھا دیا گیا جس کے باعث وہ اپنی جان سے گئی، اے آر وائی نیوز کی خبر پر وزیرِ اعلی پنجاب عثمان بزدار نے نوٹس لے لیا۔

    نجی اسپتال کے اتائی ڈاکٹر عمران کو پولیس نے گرفتار کر لیا، پولیس نے بچی کی ہلاکت کا مقدمہ تھانہ چک بیدی میں درج کرلیا۔

    شناختی کارڈ کا تقاضا:  لڑکی نے ویل چیئر پر دم توڑا


    واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی اٹھارہ سالہ لڑکی ویل چئیر پر تڑپتی رہی، جب کہ اسپتال انتظامیہ پرچی اور شناختی کارڈ کا تقاضا کرتی رہی، دل کی مریضہ کا علاج ایک گھنٹے بعد شروع کیا گیا جس کے باعث وہ دم توڑ گئی۔

    دوسری طرف انتظامیہ ورثا پر مصالحت کے لیے دباؤ ڈالتی رہی، موت کے بعد علاج کے کاغذات پر زبردستی انگوٹھے لگوائے، اے آر وائی نیوز کی رپورٹ پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا۔

    تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے اس واقعے کی وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو رپورٹ بھجوا دی ہے، ڈی سی کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج، عملے اور ورثا کے بیانات بھیجوائے گئے ہیں۔

    ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں کسی کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا، انتظامیہ نےاسپتال عملے کو بچانے کے لیے گول مول رپورٹ بھجوائی، اسٹریچر یا ایمبولینس نہ دینے پر کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں کسی اہل کار کے خلا ف کارروائی کی سفارش بھی نہیں کی گئی۔

  • چیف جسٹس پاکستان کی دربار بابا فرید آمد، ملک کے لئے خصوصی دعا

    چیف جسٹس پاکستان کی دربار بابا فرید آمد، ملک کے لئے خصوصی دعا

    پاکپتن: چیف جسٹس پاکستان نے دربار حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر پر حاضری دی ، پھول چڑھائے اور ملک کیلئے خصوصی دعا کی جبکہ قدیمی مسجد اولیا میں نوافل ادا کئے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاکپتن میں اپنی فیملی کے ہمراہ دربار حضرت بابا فرید پر حاضری دی، مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور قدیمی مسجد اولیاء میں نوافل بھی ادا کیے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ ڈیم بنانے نکلے ہیں، دعا کیجئے گا میں ڈیم بنانے میں کامیاب ہوجاؤں۔

    چیف جسٹس اور ان کی فیملی کو محکمہ اوقاف کی طرف سے تبرکات بھی پیش کیے گئے۔

    ان کی پاکپتن میں آمد کی خبر سن پر شہری دربار کے باہر جمع ہو گئے، اس موقع پر صدر مرکزی انجمن تاجران چوہدری اظہر محمود نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ شدید احتجاج کرتے ہوئے دربار بابا فرید کے شرقی گیٹ کی بندش کے متعلق چیف جسٹس کو آگاہ کیا کہ اس گیٹ کے بند ہونے کے باعث تاجر مالی خسارے سے دوچار ہیں، انہوں نے گیٹ کھولنے کا مطالبہ کیا۔

    دوسری جانب دیوان فیملی اور محکمہ اوقاف کی 72 مربع اراضی کے متاثرین نے اویس عابد کی قیادت میں احتجاج کیا، ان کا کہنا تھا کہ دیوان فیملی سے یہ 72 مربع زمین خریدی گئی جس کو سپریم کورٹ نے غیر فعال قرار دیا ہے ، جس سے آدھے شہر کی آبادی مالکانہ حقوق سے محروم ہو گئی۔

    چیف جسٹس نے ہمدردانہ غور کی یقین دہانی کروائی اور متاثرین سے فائل بھی موصول کی۔

    گوجرانوالہ سے آئی خاتون اختر سلطانہ نے روتے ہوئے درخواست کی کہ گوجرانوالہ پولیس نے اس کے بھائی کو جھوٹے قتل کے مقدمہ میں ملوث کیا، جس پر چیف جسٹس نے خاتون کا فون نمبر لے لیا۔

    بعد ازاں چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار ملتان روانہ ہوگئے۔

  • پاکپتن میں گھر کی بوسیدہ دیوارگر گئی‘ دوبچیاں جاں بحق

    پاکپتن میں گھر کی بوسیدہ دیوارگر گئی‘ دوبچیاں جاں بحق

    پاکپتن : صوبہ پنجاب کے شہر پاکپتن میں گھرکی بوسیدہ دیوار گرنے کے نتیجے میں دو بچیاں جاں بحق ہوگئیں۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب میں پاکپتن کے نواحی گائوں ٹبہ سہیل میں نو سالہ آمنہ اور دس سالہ جمیلہ گلی میں کھیل رہی تھیں کہ ساتھ کھڑی بوسیدہ دیوار اچانک گر گئی۔

    حادثے کے نتیجے میں دیوار کے ملبے تلے آکر آمنہ بی بی اور جمیلہ بی بی جان کی بازی ہار گئیں۔

    واقعے کی اطلاع پر ریسکیو 1122 کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے جنہوں نے بچیوں کی نعشوں کو ملبے سے باہر نکال کر ورثاء کے حوالے کر دیا۔

    لاہور: کاسمو کلب کی چھت گرنےسے3 افراد جاں بحق

    خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 28 اپریل کو صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں جناع باغ کاسمو کلب کی چھت گرنے سے 3 افراد جاں بحق جبکہ دو افراد زخمی ہوگئے تھے۔

    مکان کی چھت گرنے سے دو بچوں سمیت چھ افراد جاں بحق

    یاد رہے کہ رواں سال 6 جنوری کو لاہور کے علاقے دہلی گیٹ میں بوسیدہ مکان کی چھت گرنے سے دو بچوں سمیت چھ افراد ملبے تلے دب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔

    ننکانہ صاحب میں گھرکی چھت گرنےسے4 بچےجاں بحق

    واضح رہے کہ 12 دسمبر2017 کو ننکانہ صاحب میں مکان کی چھت گرنے سے تین بھائی اور ایک بہن سمیت 4 بچے جاں بحق جبکہ ماں اوربیٹی زخمی ہوگئیں تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

    ‘’

  • بہشتی دروازہ آخر ہے کیا؟ یہ نام کیوں‌ دیا گیا؟

    بہشتی دروازہ آخر ہے کیا؟ یہ نام کیوں‌ دیا گیا؟

    سرزمین پنجاب جو اپنے پانچ دریاﺅں کی روانی اور زرخیزی کی وجہ سے کل خطہ اراضی میں ایک امتیازی و انفرادی شان رکھتی ہے وہیں اس سرزمین کے چپے چپے سے ہدایت و روحانیت کے دریا بھی رواں رہے ہیں۔

    اس خطے میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں سے رشد و ہدایت، فیض و شفا اور روحانیت کے ایسے دریا رواں فرمائے ہیں کہ جن سے دلوں کی بنجر زمین آباد ہوئی، حقائق و معرفت کی کھیتی اُگی اور تلاشِ حق میں سرگرداں سیراب ہوئے۔

    انہی روحانی دریاﺅں میں ایک اہم دریائے حکمت و معرفت، منبع سرچشمہ ہدایت، مرکز ولایت حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کا مزارِ پُرانوار ہے۔

    حضرت بابا صاحبؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپؒ کا مزار اقدس پاک پتن شریف میں مرجع خلائق ہے، پاک پتن،  پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع ساہیوال کا مشہور قصبہ اور تحصیل ہے جو دریائے ستلج کے دائیں کنارے سے 8 میل دور واقع ہے۔

    پاک پتن کا پرانا نام ” اجودھن “ ہے اس قصبے کو زمانہ قدیم سے تاریخی حیثیت حاصل رہی ہے اور یہ قدیم راجاﺅں کا دارالحکومت رہا ہے لیکن اب اس بستی اور قصبے کو صرف اور صرف حضرت بابا فرید مسعود گنج شکرؒ کی نسبت سے شہرت حاصل ہے اب اس کی پہچان کے لیے بس یہی حوالہ کافی ہے۔

    جس طرح حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ ولایت میں، روحانیت میں، دنیائے علم و دانش میں، ریاضات و مجاہدات میں، ظہور کرامات میں اور حلقہ اولیاء کرام میں اپنے نام نامی ” فرید الدین “ کی طرح فرید یعنی انفرادی اور امتیازی مقام و رتبے اور شان کے حامل ہیں اسی طرح آپ کا مزار اقدس بھی ” فرید “ یعنی منفرد ہے۔

    حضرت بابا صاحبؒ کے مزار اقدس کی وجہ شہرت آپؒ کا آج تک جاری و ساری فیض روحانی تو ہے ہی جس سے خلق خدا اپنے اپنے ظرف و مشرب کے مطابق اکتساب کر رہی ہے وہیں ایک وجہ شہرت وہ لطف دوام وہ باب کرم ہے جسے ” باب جنت“ کہاجاتا ہے اور عوام الناس اپنے اپنے طور پر اسے بہشتی دروازہ اور جنتی دروازہ کہتے ہیں۔

    حضرت بابا صاحبؒ کے روضہ اقدس کے دو دروازے ہیں، ایک شرق کی جانب ” شرقی دروازہ “ جسے  ” نوری دروازہ “ کہا جاتا ہے، روضہ مبارک کی زیارت کے لیے آنے والے زائرین اسی دروازے سے روضہ مبارک میں داخل ہوتے ہیں۔

    دوسرا دروازہ جنوب کی جانب جنوبی دروازہ ہے یہی ” بہشتی دروازہ “ ہے عام دنوں میں یہ بند رہتا ہے اور صرف عرس کے ایام میں پانچ راتوں کے لیے پانچ تا 10محرم الحرام کھولا جاتا ہے۔

    کتب معتبرہ کی روایت کے مطابق شیخ الشیوخ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے روضہ مبارک کی تعمیر آپؒ کے مرید و خلیفہ سلطان المشائخ حضرت خواجہ سید محمد نظام الدین اولیاؒ نے کرائی تھی، حضرت نظام الدین اولیاؒ نے اشارہ غیبی سے روضہ مبارک کی بنیاد ایسی پاک اینٹوں پر رکھی تھی جن پر قرآن پاک ختم کیے گئے تھے۔ ( ایک روایت کے مطابق ایک ایک اینٹ پر گیارہ قرآن مجید کی تلاوت کی گئی تھی)

    جب خواجہ نظام الدین اولیاؒ الہامِ غیبی کے مطابق روضہ مبارک تعمیر کرواچکے تو آپؒ نے بچشم باطن مشاہدہ کیا کہ ارواح مقدسہ کے جھرمٹ میں حضور سرور دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جلوہ افروز ہیں اور آپؒ کو ارشاد فرماتے ہیں:

    ’’اے نظام الدین! جناب رب العزت سے ہمیں فرمان ہوا ہے کہ جو کوئی اس دروازے سے گزرے گا ان شاءاﷲ اس کی بخشش ہوجائے گی “ اور تم اعلان کردو ” مَن دَخَلَ ھٰذِہِ البَابَ اٰمِن “ ”جو اس دروازے سے داخل ہو ‘ اس نے امان پائی “ ۔

    حسب حکم حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے اس بات کا اعلان فرمایا اور آپ کا یہ اعلان شرق سے غرب تک پہنچا اسی لیے اس دروازے کو بہشتی دروازہ کہتے ہیں اور آج تک دور دراز سے عشاق و عقیدت مند پروانہ وار چلے آتے ہیں، بزرگوں کے نزدیک یہ بہشتی دروازہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ پر اﷲ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم اور بخشش و عطا ہے۔

    بہشتی دروازے کا افتتاح 6 محرم الحرام یعنی 5 محرم کا دن گزار کرغروب آفتاب کے بعد ہوتا ہے، یہ حضرت بابا فریدؒ کے عرس کی تقاریب کا بہت ہی خاص مرحلہ ہوتا ہے جس میں لاکھوں زائرین و عقیدت مند شرکت کرتے ہیں۔

    عشاء کی نماز کے بعد حضرت دیوان صاحب سجادہ نشین دربار بابا صاحبؒ انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ جلوس کی صورت میں تشریف لاتے ہیں اور بہشتی دروازے کے افتتاح سے پہلے محفل سماع میں شرکت فرماتے ہیں۔

    یہ محفل دالان میں کھڑے کھڑے قائم رہتی ہے، قوال حضرات مولانا جامیؒ اور حضرت امیر خسروؒ کے کلام سے اس روح پرور تقریب کو مزید جلابخشتے ہیں جس سے حاضرین کی روحانی بالیدگی نقطہ عروج پر پہنچ جاتی ہے بعد ازاں دیوان صاحب بہشتی دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر عالم اسلام اور بالخصوص حاضرین کے لیے خصوصی دعا فرماتے ہیں اور پھر اﷲ محمد چار یار، حاجی خواجہ قطب فرید، کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں اور تین بار دستک دے کر بہشتی دروازے کا افتتاح فرماتے ہیں۔

    حاضرین بھی دیوان صاحب کی اتباع میں اﷲ محمد چار یار حاجی خواجہ قطب فرید کا نعرہ بلند کرتے ہیں جس سے فضا حق فرید کے نعروں سے گونج اُٹھتی ہے۔

    بہشتی دروازے کے افتتاح کے بعد حضرت دیوان صاحب داخل ہوتے ہیں پھر دیگر سجادہ نشین صاحبان اور معززین بہشتی دروازے سے گزر کر نوری دروازے سے باہر چلے جاتے ہیں، اس کے بعد عوام کا داخلہ شروع ہوجاتا ہے بابا فرید کے لاکھوں پروانے حق فرید بابا فرید کا نعرہ لگاتے ہوئے جنتی دروازے میں داخل ہوتے ہیں اور یہ سماں رات بھر جاری رہتا ہے۔

    ہر زمانے میں اکابر، مشائخ عظام اور اولیاء کرام حضرت بابا صاحبؒ کے مزار اقدس پر حاضر ہوکر اپنے اعلیٰ ظرف کے مطابق اکتساب فرماتے رہے ہیں اور بہشتی دروازے سے گزرنے کو اپنی سعادت جانتے رہے ہیں۔

    (تحریر: حافظ فیضان نظامی، کیو ٹی وی)

    آفتاب ولایت حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کی زندگی پر اک نظر

    آفتاب ولایت حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ کا شمار چشتیہ سلاسل کے معروف ترین بزرگان دین میں ہوتا ہے، سلسلہ چشتیہ میں سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے بعد سب سے زیادہ شہرت آپ ہی کے حصے میں آئی، آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں اور خلفا کی تعداد 700 ہے، چھ سو خلفا انسانوں میں اور سو خلفا جنات میں سے تھے، آپ مجذوب السالک تھے یعنی آپ کی روحانیت کے تین حصے جذب کے اور ایک حصہ سلوک پر مشتمل تھا۔

    نام اور شجرہ نسب:

    آپ کا نام مسعود اور والدین کا نام سلیمان تھا اسی نسبت سے مسعود بن سلیمان کہلائے، آپ فاروقی ہیں، آپ کا شجرہ نسب عمر بن الخطابؒ سے جاملتا ہے۔

    القابات:

    گنج شکر ، شکر گنج، بابا فرید، شہباز لامکاں، باباصاحب کے القابات سے آپ کو یاد کیا جاتا ہے۔

    پیر طریقت:

    آپ نے قطب الاقطاب حضرت قطب الدین بختیار کاکی اوشیؒ کے دست حق پر بیعت کی جو خواجہ معین الدین چشتیؒ کے جانشین تھے۔

    آپ کویہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ کو بیک وقت آپ کے پیرو مرشد خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سمیت سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی المعروف خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ نے بیک وقت روحانی قوت عطا کی اس موقع پر سلطان الہند نے تاریخی الفاظ ادا کیے کہ قطب الدین تم ایک شہباز کو زیر دام لائے ہو جس کے بعد آپ کو شہباز لامکاں کا لقب عطا ہوا کہ جس کا ٹھکانہ کہیں نہیں صرف سدرۃ المنتہیٰ پر ہے۔

    مریدین خاص:

    قطب عالم شیخ جمال الدین ہانسویؒ(محبوب ترین مرید)

    حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءمحبوب الٰہیؒ(نظامی سلسلے کے بانی)

    حضرت مخدوم علاء الدین احمد صابر کلیریؒ(صابری سلسلے کے بانی)

    حضرت خواجہ بدرالدین اسحاقؒ (داماد)

    بابا منگھوپیرؒ(کراچی میں مدفون ہوئے)

    حضرت شمس الدین ترک پانی پتیؒ(جنہیں آپ نے صابر کلیری ؒ کے ساتھ کردیا تھا)

    شیخ نجیب الدین متوکلؒ(بھائی)

    چار ہم عصر اولیائے کرام:

    حضرت شیخ بہا الدین زکریا ملتانیؒ: آپ سہروردی سلسلے کے بزگ ہیں، ملتان میں مدفون ہوئے۔

    بابا فرید الدین مسعود گنج شکرصاحب عرس، آپ سے فریدی سلسلہ جاری ہوا، پاک پتن میں مدفون ہوئے۔

    حضرت جلال الدین سرخ بخاریؒ:  نام سے ہی ظاہر ہے، آپ جلالی کیفیت کے حامل تھے

    حضرت عثمان بن مروندی المعروف حضرت لعل شہباز قلندرؒ : آپ چاروں دوستوں میں سب سے کم عمر تھے، سیہون میں آپ کا مزار مرجع الخلائق ہے۔

    درگاہ خاص حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے صاحب شجرہ خواجہ امین الدین نظامی کے مطابق آپ چاروں دوست تھے، سب سے کم عمر لعل شہباز قلندر ؒ تھے، آپ چاروں سہروردی سلسلے کے بانی پیر طریقت شیخ شہاب الدین سہرودری کی خدمت میں حاضری کے لیے بغداد روانہ ہوئے، نصف شب کو پہنچے، شیخ شہابؒ نے حضرت عثمانؒ کو بلایا، ان سے خدمت لی، سینے سے  لگا کر علم منتقل کیا اور انہیں لعل شہباز قلندرؒبنادیا، بعدازاں باری باری تینوں بزرگوں کو بلایا اور اپنی تصنیف عوارف المعارف(تصوف کی شہرہ آفاق کتاب) کا درس دیا اور مراتب سے نوازا۔

    بابا فریدؒ نے اپنے چھ خلفا کبیر کو چھ علاقہ ولایت عطا کیے، قطب عالم شیخ جمال الدین ہانسویؒ کو ہانسی، خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کو غیاث پور(دلی)، مخدوم صابر کلیریؒ کو کلیر شریف، منگھوپیر بابا کو کراچی کا علاقہ عطا کیا جبکہ اپنے داماد شیخ بدر الدین اسحاقؒ کو اپنے ساتھ رکھا جب کہ لعل شہباز قلندرؒ کو سیہون شریف بھیجا، ہر خلفا کبیر کے ماتحت سوسو خلفا رکھے جو کہ چھ سو ہوئے جب کہ سو خلفا جنات میں سے تھے یوں 700 کی تعداد پوری ہوتی ہے۔

    حضرت لعل شہباز قلندرؒ بابا فریدؒ  کا بہت احترام کرتے تھے، آپ کے حکم پر لعل شہباز قلندرؒ بابا منگھوپیر بابا سے ملنے کراچی تشریف لائے اس وقت یہ جگہ غیر آباد تھی، آپ کا مسکن ندی کنارے تھے، لعل شہاز قلندر ندی سے آپ کے گھر تک مگرمچھ پر سفر کرکے گئے، بعدازاں آپ کے چند خلفا منگھوپیر بابا کی خدمت میں آئے تو آپ بھی اپنے پیرو مرشد شیخ لعل شہبازؒ کی تقلید مگر مچھ پر سواری کرکے گئے بعدازاں وہ سارے مگر مچھ منگھوپیربابا کے مزار پررہ گئے اور انہیں وہاں کے مجاوروں نے باقاعدہ خوراک دی، ان ہی مگرمچھوں کی نسل کے مگر مچھ آج تک مزار کے احاطے میں موجود ہیں۔

    اولادیں

    آپ نے دو شادیاں کی، چھ اولاد نرینہ اور تین اولاد زرینہ پائیں

    شیخ بدرالدین سلیمان

    شیخ شہاب الدین گنج علم

    شیخ نظام الدین شہید

    شیخ یعقوب

    شیخ عبداللہ

    شیخ نصراللہ

    بی بی فاطمہ

    بی بی شریفہ

    بی بی مستورہ

    کرامتیں:

    پتھر سونا بن گیا

    آپ سے بہت سی کرامتیں پیش آئیں، ایک بار ایک عورت بیٹیوں کی شادی کی درخواست کے لیے آئی اور رونے لگی، آپ نے پتھر پر قل ھو اللہ احد پڑھ کر دم کیا تو وہ سونا بن گیا بعدازاں عورت بھی اپنے گھر میں یہ کرنے لگی لیکن پتھر پتھر ہی رہا اس نے آکر آپ سے کہا تو آپ نے تاریخی جملہ ادا کیا کہ اٹھارہ برس تک فرید نے وہ کیا جو خدا نے کہا اب فرید جو چاہتا ہے خدا اسے پورا کردیتا ہے۔

    والدہ کو کچھ مشکوک غذا کھانے نہ دی

    ایک بار دوران حمل آپ کی والدہ نے کچھ بیر توڑ کر کھائے تو طبیعت ایک خراب ہوئی، قے ہوئی اور سارا کھایا باہر آگیا،جب آپ بڑے ہوئے تو والدہ نے کہا کہ میں نےدوران حمل کبھی مشکوک شے معدے میں داخل نہ کی تب ہی تمہیں اتنی عظمت نصیب ہوئی تو بابا فرید نے کہا آپ کھا بھی لیتی تو میں کھانے کہاں دیتا تھا، آپ نے والدہ کو بیروں کا واقعہ یاد دلایا تو والدہ حیرت زدہ رہ گئیں۔

    جادوگروں کے ٹولے کو شکست دی

    آپ اجودھن میں تشریف فرما تھے کہ ایک گوالن دودھ لے کر گزری، آپ نے خریدنے کی پیشکش کی تو بولی کہ ایک جادوگر ہمارے جانوروں کا دودھ خریدتا ہے اسے نہ بیچیں تو جانورو مرجاتے ہیں، دودھ کی جگہ خون آتا ہے، آپ نے اسے روک لیا اور تسلی دی، اسے ڈھونڈتے ہوئے جادوگر کاایک چیلا آیا تو آپ نے اسے کہا بیٹھ جائو وہ بیٹھ گیا اور چاہنے کے باوجود اٹھ نہ سکا، دوسرا آیا تو آپ نے اسے بھی بٹھالیا اس طرح پورا گروہ آیا اور آپ فرماتے گئے بیٹھ جائو اور کوئی نہ اٹھ سکا، آکر میں جادوگر خود آیا اور وہاں بیٹھنے پر مجبور ہوگیا، جب اٹھ نہ سکا تو سر زمین پر رکھ کر معافی چاہی، آپ نے مشروط رہائی دی اور جادوگر تمام چیلوں سمیت وہ علاقہ فوری طور پر چھوڑ گیا۔

    آپ کی کرامات بے شمار ہیں جنہیں مختصر وقت میں احاطہ تحریر میں لانا مشکل تھا اس لیے اختصار کے ساتھ صرف یہ تین کرامتیں تحریر کی گئی ہیں۔

    گنج شکر کی وجہ تسمیہ:

    اس ضمن میں کتب تصوف میں چار روایتیں ہمیں ملتی ہیں۔

    اول روایت یہ ہے کہ بچپن میں آپ کی نماز کی عادت کوبرقرار کھنے کے لیے آپ کی والدہ قرسم خاتون آپ کے مصلے کے نیچے چپکے سے شکر رکھ دیا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ جو بچہ نماز پڑھتا ہے اسےاللہ تعالیٰ شکر عطا کرتا ہے ایک دن شکر رکھنا بھول گئیں لیکن غیب سے مصلے کےنیچے سے پھر بھی شکر نکل آئی جس پر قرسم خاتون کی آنکھیں بھر آئیں اور انہوں نے لاج رکھنے کا خدا کا شکر ادا کیا۔

    دوسری روایت یہ ہے کہ آپ درخت کےنیچے آرام فرما تھا کچھ تاجر چینی لے کر گزرے آپ کے استفسار کہہ دیا کہ یہ تو نمک ہے تو آپ نے فرمایا کہ نمک ہی ہوگا، بعد ازاں تاجر وں نے بازار پہنچ کر بوریاں کھولیں تو نمک ملا، واپس آکر معافی کے طلب گار ہوئے تو آپ نے فرمایا بوریوں میں چینی ہے تو چینی ہی ہوگی، بوریاں کھولی گئیں تو چینی نکلی۔

    تیسری روایت یہ ہے کہ آپ ضعف کے سبب رات کے اندھیرے میں ذکر الٰہی کرتے ہوئے گزرے اور گرپڑے ، منہ میں جو مٹی آئی وہ شکر بن گئی تو آپ کے پیرو مرشد نے آپ کو شکر گنج قرار دیا

    چوتھی روایت ہے کہ آپ نے پیرومرشد کے کہنے پر طے کے روزے رکھے، آپ پانچ سے چھ دن سے روزے سے تھے محض پانی سے روزہ رکھ رہے تھے، ضعف اور مدہوشی میں آپ نے مٹی اٹھا کر منہ میں ڈال لی جو چینی بن گئی۔

    وصال:

    سلسلہ چشتیہ کے یہ آفتاب ولایت 95 سال کی عمر میں 5محرم الحرام 690ہجری کو علالت کے سبب دنیا سے پردہ فرما گئے، آپ کے وصال کے وقت آپ کے عزیز ترین محبوب خواجہ نظام الدین اولیاؒ آپ کے پاس نہ تھے جس طرح آپ اپنے پیرومرشد قطب الدین بختیار کاکی کے وصال کےوقت موجود نہ تھے۔

    آپ کا مزار مبارک ملتان کے قریب پاک پتن شریف میں واقع ہے جہاں عرس نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

    مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے مدد لی گئی

    سیرالاولیاء: مولف حضرت امیر خورد کرمانیؒ

    فوائدالفواد: مولف حضرت امیر العلا سنجریؒ

    خیر المجالس: ملفوظات خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی ؒ

    کتاب سیرالاقطاب، مولف شیخ اللہ دیا چشتی ،مترجم محمد علی جویا مراد آبادی

    اللہ کے سفیر: تصنیف خان آصف

  • حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کا 774 واں عرس شروع

    حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کا 774 واں عرس شروع

    پاک پتن : حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کا سات سو چوہتر واں عرس آج سے پاک پتن میں شروع ہوگیا ہے۔

    حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کا سات سو چوہتر واں عرس آج سے پاک پتن میں شروع ہوگیا ہے، دیوان احمد مسعود مودود چشتی نے چادر چڑھاکر عرس کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے۔

    urs-post

    عرس کے موقع پرسیکیورٹی کو بہتر بنانے کیلئے پولیس اہلکاروں کو تعنیات کردیا گیا، دربار کے داخلی و خارجی راستوں پر واک تھر گیٹ نصب کردیئے اور سی سی ٹی وی کمیروں کے ذریعے مانیٹرنگ بھی کی جارہی ہے۔

    عرس کے موقع پر خواجہ غریب نواز انٹرنیشنل ویلفیئر ٹرسٹ اور احساس انٹرنیشنل ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے لنگر کا اہتمام کیا گیا ہے جو دس محرم تک جاری رہیگا۔

    urs-post-2

    عرس میں شرکت کیلئے دنیا بھر سے زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، عرس کے موقع پر عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد مزار پر حاضری دے رہی ہے جبکہ قرآن خوانی ، مزار پر پھول اور چادریں چڑھا کر عقیدت کا اظہار کیاجارہا ہے ۔

  • پاکپتن: حضرت بابا فریدالدین گنج شکرکےعرس کی تقریبات جاری

    پاکپتن: حضرت بابا فریدالدین گنج شکرکےعرس کی تقریبات جاری

    پاکپتن:حضرت بابا فریدالدین گنج شکرکے سات سوبہترویں عرس کی تقریبات جاری ہیں، آج رات نمازعشاء کے بعد بہشتی دروازہ کھولا جائے گا۔

    پاکپتن میں حضرت بابا فرید الدین گنج شکرکے سات سو بہترویں عرس کی تقریبات عقیدت و احترام سے جاری ہیں،  آج نمازِعشاء کے بعد بہشتی دروازہ کھولا جائے گا، بہشتی دروازہ دسویں محرم تک مسلسل پانچ راتیں کھلا رہے گا اور پانچ دن بعد نماز فجر کے وقت ایک سال کے لئے دوبارہ بند کردیا جائے گا۔

    عرس میں شرکت کیلئے بھارت سے درگاہ اجمیرشریف کے سجادگان بھی پہنچ گئے ہیں جبکہ پندرہ لاکھ سے زائد زائرین عرس میں شرکت کے لئے پاکپتن آئَے ہیں، ان میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو ، سکھ اور دیگر مذاہب کے زائرین بھی شامل ہیں۔

    عرس کے موقع پرمزار کے ارد گرد کے علاقے کو ریڈ زون قرار دے دیا گیا ہے، انتظامیہ نے سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کئے ہیں۔