Tag: Palestine

  • بیلجیئم کا اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان

    بیلجیئم کا اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان

    برسلز (02 ستمبر 2025): بیلجیئم نے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فرانس، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کے بعد بیلجیئم نے بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    بیلجیئم کے وزیر خارجہ میکسم پریوٹ نے اعلان کیا ہے کہ بیلجیئم اس ماہ کے آخر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (UNGA) میں ریاست فلسطین کو تسلیم کر لے گا۔

    انھوں نے اسرائیل پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا بھی اعلان کیا، وزیر خارجہ نے منگل کو سوشل میڈیا پر لکھا کہ اسرائیل کے خلاف 12 سخت پابندیاں نافذ کی جا رہی ہیں، ان میں غیر قانونی اسرائیلی آبادکاریوں سے مصنوعات کی درآمد پر پابندی، اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ سرکاری معاہدوں کا دوبارہ جائزہ اور اسرائیلی پروازوں اور ٹرانزٹ پر پابندی سمیت دیگر شامل ہیں۔

    یہ اقدامات فلسطین خصوصاً غزہ میں جاری انسانی المیے اور اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے جواب میں اٹھائے گئے ہیں۔

    امریکا کا فلسطینی پاسپورٹ کے حامل تمام افراد کو ویزا دینے سے انکار

    تاہم، بیلجیئم کے وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ غزہ سے آخری یرغمالی کی رہائی کے بعد ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جائے گا اور یہ طے ہونے کے بعد کہ اب حماس کا فلسطین کے انتظام میں کوئی کردار نہیں رہا ہے۔ یاد رہے کہ بیلجیئم کے وزیر اعظم بارٹ ڈی ویور نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا تعلق سخت شرائط سے ہونا چاہیے۔

    جولائی کے آخر میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا تھا کہ جب عالمی رہنما اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے تو فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ فرانس اور سعودی عرب 22 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران فلسطین کو تسلیم کرنے سے متعلق اجلاس کی مشترکہ میزبانی بھی کریں گے۔ آسٹریلیا، کینیڈا اور برطانیہ نے بھی کہا ہے کہ وہ اس ماہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن بھی شرائط کے ساتھ۔

    اس سال اپریل تک تقریباً 147 ممالک، جو اقوام متحدہ کے 75 فی صد ارکان کی نمائندگی کرتے ہیں، پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔

  • فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے اصولی طور پر تیار ہیں، ایک اور اہم ملک کا اعلان

    فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے اصولی طور پر تیار ہیں، ایک اور اہم ملک کا اعلان

    سنگاپور (31 جولائی 2025): جنوب مشرقی ایشیا کے ملک سنگاپور نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایسا کرنے کے لیے اصولی طور پر تیار ہے۔

    منگل کے روز نیویارک میں فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطح کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سنگاپور کی وزارت خارجہ کے نائب سیکریٹری کیون چیوک نے کہا فلسطین کو تسلیم کرنے کے اقدام کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ دو ریاستی حل کی طرف پیش قدمی کو فروغ ملے۔

    انھوں نے کہا سنگاپور نے ہمیشہ اپنے وطن کے بارے میں فلسطینیوں کے حق کی حمایت کی ہے، جو کہ سلامتی کونسل کے متعلقہ قراردادوں کے عین مطابق ہے، فلسطین کے پرانے مسئلے کا یہی واحد پائیدار حل ہے اور ہم اس مقصد کے لیے اصولی طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔


    کیا فلسطین اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کر سکتا ہے؟


    نائب سیکریٹری کیون چیوک نے کہا ہم غزہ میں مستقل جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں، اور غزہ کی تعمیر نو کی کوششوں میں تعاون کے لیے بھی آمادہ ہیں، غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اور ہمارا اسرائیلی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ فوری طور پر ضروری انسانی امداد کی فراہمی پر عائد تمام پابندیاں ختم کرے۔

    سنگاپوری عہدے دار کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ غزہ کے مریضوں کے علاج میں مدد کے لیے خطے میں ایک طبی ٹیم کی تعیناتی پر بھی غور کر رہے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ مستقل جنگ بندی کے بعد غزہ کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کریں۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل فرانس کے ایمانوئل میکرون، برطانیہ کے کیر اسٹارمر اور کینیڈا کے مارک کارنی نے اعلان کیا ہے کہ ان کے ممالک ستمبر میں فلسطین کو تسلیم کر لیں گے۔

  • کیا فلسطین اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کر سکتا ہے؟

    کیا فلسطین اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کر سکتا ہے؟

    برطانیہ اور فرانس کی جانب سے حمایت کے بعد فلسطینی ریاست کو عالمی سطح پر مزید تسلیم کیے جانے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جب فرانس نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا کہ وہ ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا، اس کے بعد اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کے امکانات نے نیا زور پکڑ لیا ہے۔

    برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے منگل کے روز کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے غزہ کی صورت حال نہ بدلی تو برطانیہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو ریاست تسلیم کر لے گا، انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ اسرائیل غزہ میں بحران کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔


    برطانوی وزیراعظم کا ستمبر میں فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان


    اب یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے، فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر مشروط طور پر رضامند ہو گیا ہے، وزیر اعظم مارک کارنی نے اعلان کیا کہ کینیڈا ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

    سنگاپور نے بھی کہا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے اصولی طور پر تیار ہے اور اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کے اقدام سے امن اور دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت کو فروغ دینے میں مدد ملنی چاہیے۔

    فی الحال اقوام متحدہ میں فلسطینی اتھارٹی، جو فلسطینی عوام کی نمائندگی کرتی ہے، مکمل رکن نہیں بلکہ ایک ’’غیر رکن مبصر ریاست‘‘ کے طور پر موجود ہے۔ اس کے وفد کو رسمی طور پر ’’ریاستِ فلسطین‘‘ کہا جاتا ہے لیکن اسے جنرل اسمبلی میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔

    نومبر 2012 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو ’’مبصر‘‘ سے بڑھا کر ’’غیر رکن ریاست‘‘ کا درجہ دیا تھا، جس کے حق میں 138 ممالک نے ووٹ دیا، صرف 9 نے مخالفت کی تھی، جب کہ 41 نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا۔ مئی 2024 میں جنرل اسمبلی نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے اہل قرار دے کر ایک بڑی پیش رفت کی اور سلامتی کونسل سے اس پر مثبت غور کی سفارش کی۔

    واضح رہے کہ نئی رکنیت کی خواہش مند ریاست پہلے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو درخواست دیتی ہے، جو یہ معاملہ سلامتی کونسل کو بھیجتے ہیں۔ پھر ایک کمیٹی اس درخواست کا جائزہ لیتی ہے۔ اگر کم از کم 9 ممالک درخواست کی حمایت کریں اور مستقل اراکین (امریکا، روس، چین، فرانس، برطانیہ) میں سے کوئی ویٹو نہ کرے، تو معاملہ جنرل اسمبلی میں جاتا ہے، جہاں 2 تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ میں شمولیت کے لیے سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی دونوں کی منظوری لازمی ہے۔

  • اسرائیل نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا برطانیہ کا فیصلہ مسترد کر دیا

    اسرائیل نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا برطانیہ کا فیصلہ مسترد کر دیا

    تل ابیب (30 جولائی 2025): اسرائیل نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا برطانیہ کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔

    دی ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق تل ابیب نے ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے برطانوی حکومت کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے، اور اس اقدام کو امریکی پیروی میں ’حماس کے لیے انعام‘ قرار دیا۔

    اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ فرانس کے اقدام اور اسرائیل کے اندر سیاسی دباؤ کے بعد عین اس وقت برطانوی حکومت کے مؤقف میں تبدیلی حماس کے لیے ایک انعام ہے، جو غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک فریم ورک کے حصول کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔

    برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ کی خوف ناک صورت حال کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے، جنگ بندی پر رضامندی اور طویل مدتی پائیدار امن کے لیے عزم اور دو ریاستی حل کے امکانات کو بحال کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو اُن کی حکومت ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے پیش قدمی کرے گی۔


    غزہ میں فلسطینیوں کی اموات 60 ہزار سے تجاوز کر گئیں، بوبی ٹریپ روبوٹس کے استعمال کا انکشاف


    گزشتہ ہفتے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے تصدیق کی تھی کہ پیرس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ اب تک اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 149 نے فلسطین کو تسلیم کیا ہے – یہ تعداد اس وقت سے مسلسل بڑھ رہی ہے جب اکتوبر 2023 میں اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کی تھی۔

  • غزہ میں فلسطینیوں کی اموات 60 ہزار سے تجاوز کر گئیں، بوبی ٹریپ روبوٹس کے استعمال کا انکشاف

    غزہ میں فلسطینیوں کی اموات 60 ہزار سے تجاوز کر گئیں، بوبی ٹریپ روبوٹس کے استعمال کا انکشاف

    غزہ: 7 اکتوبر 2023 سے غزہ کے خلاف جنگ شروع کرنے والی اسرائیلی افواج نے اب تک کم از کم 60،034 فلسطینیوں کو قتل کر دیا ہے، جسے عالمی سطح پر نسل کشی قرار دیا جا رہا ہے۔

    الجزیرہ کے مطابق فلسطین کے محصور علاقے غزہ پر قابض صہیونی فورسز کی دہشت گردی ختم نہ ہوئی، اسرائیلی فورسز دیر البلح میں رات بھر ڈرونز، روبوٹ اور ٹینکوں سے حملے کرتی رہی۔

    طبی ذرائع نے الجزیرہ کو بتایا کہ ضروری انسانی امداد کی فراہمی کے لیے ’’وقفے‘‘ کے دوران کم از کم 83 فلسطینیوں کو صبح سے شہید کر دیا گیا ہے اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں، جان سے مارے جانے والوں میں خوراک اور امداد کے متلاشی 33 فلسطینی بھی شامل ہیں، مغربی کنارے میں فائرنگ سے بھی 2 فلسطینی جانوں سے محروم کر دیے گئے۔


    برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کا اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کا اعلان


    7 اکتوبر دوہزار تیئس سے جاری اسرائیلی حملوں میں 662 دنوں میں مارے جانے والوں کی تعداد ساٹھ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، یعنی غزہ کے ہر 36 افراد میں سے ایک کو مار دیا گیا ہے، یعنی روزانہ 90 سے زائد فلسطینی مارے گئے۔

    147 فلسطینی بھوک سے ہلاک ہوئے کیوں کہ اسرائیل نے خوراک کی سپلائی بند کر رکھی ہے، ان مرنے والوں میں 88 بچے شامل ہیں۔ غزہ میں شدید غذائی قلت پر بین الاقوامی اداروں نے وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو بڑی تعداد میں اموات ہو سکتی ہیں۔

    الجزیرہ کے نمائندے نے مقامی لوگوں کے بیانات کے حوالے سے یہ انکشاف بھی کیا کہ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو مارنے کے لیے ٹینکوں اور ڈرونز کے ساتھ ساتھ بوبی ٹریپ روبوٹس بھی استعمال کر رہی ہے۔ الجزیرہ نے اندازہ لگایا کہ مارے گئے 60 ہزار انسان کیسے نظر آتے ہوں گے اگر انھیں ایک جگہ جمع کیا جائے، ایک تصویر کے ذریعے اس نے بتایا کہ دبئی کے برج خلیفہ میں 10 ہزار انسانوں کی گنجائش ہے، چناں چہ ان ساٹھ ہزار فلسطینیوں کے لیے 6 عدد برج خلیفہ درکار ہوں گے۔

  • امریکا کی اقوام متحدہ کی فلسطین کے حوالے سے کانفرنس پر تنقید

    امریکا کی اقوام متحدہ کی فلسطین کے حوالے سے کانفرنس پر تنقید

    واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے اقوام متحدہ کی فلسطین کے حوالے سے کانفرنس پر تنقید کی ہے، اور کہا ہے کہ امریکا اس میں شرکت نہیں کرے گا۔

    ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے پریس کانفرنس میں فلسطین کانفرنس پر تنقید کرتے ہوئے کہا امریکا اس میں شرکت نہیں کرے گا، دو ریاستی حل پر اقوام متحدہ کی کانفرنس اکتوبر 7 کے متاثرین پر طمانچہ ہے۔

    ٹیمی بروس نے کہا غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں جاری ہیں، صدر ٹرمپ غزہ کے لوگوں کی تکلیف کو دور کرنا چاہتے ہیں، اور انھیں محصور علاقے میں انسانی جانوں کے ضیاع اور بحران پر تشویش ہے۔

    ترجمان محکمہ خارجہ نے کہا کہ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہونا شروع ہو گئے ہیں، ہماری توجہ غزہ میں پُرتشدد ماحول کو ختم کرنا ہے، لیکن اقوام متحدہ کی کانفرنس اور فرانس کا فیصلہ حماس کی حمایت کرنے کے مترادف ہے، یہی وجوہ ہیں کہ جنگ بندی کے لیے حماس تعاون نہیں کر رہا۔


    ’فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا حماس کو انعام دینے کے مترادف ہوگا‘


    واضح رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا حماس کو انعام دینے کے مترادف ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ حماس کو انعام دینا چاہیے۔ انھوں نے کہا امریکا اس کیمپ میں نہیں جس نے فلسطینی ریاست تسلیم کی، ہو ہم نے اسرائیل سے براہِ راست بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

  • صدر میکرون جو کہتے ہیں اس سے فرق نہیں پڑتا، فلسطین سے متعلق بیان پر امریکی صدر کا رد عمل

    صدر میکرون جو کہتے ہیں اس سے فرق نہیں پڑتا، فلسطین سے متعلق بیان پر امریکی صدر کا رد عمل

    واشنگٹن: امریکی صدر نے فسلطین کو تسلیم کرنے سے متعلق بیان پر رد عمل میں کہا ہے کہ صدر ایمانوئل میکرون جو کہتے ہیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔

    روئٹرز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبے کو مسترد کر دیا۔

    صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر میکرون جو کہتے ہیں اس سے فرق نہیں پڑتا، وہ بہت اچھے آدمی ہیں، میں انھیں پسند کرتا ہوں لیکن ان کے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے بیان میں کوئی وزن نہیں ہے۔

    ٹرمپ نے کہا ’’دیکھو، وہ ایک مختلف قسم کا آدمی ہے، ایک اچھا آدمی ہے، ایک بہت اچھا ٹیم پلیئر ہے، لیکن یہاں اچھی خبر یہ ہے کہ وہ جو کہتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سے کچھ نہیں بدلے گا۔‘‘


    امریکا نے فرانسیسی صدر کا فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کے اعلان کو سختی سے مسترد کر دیا


    واضح رہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا تھا کہ فرانس ستمبر میں فلسطین کو تسلیم کر لے گا، وہ جنرل اسمبلی میں فسلطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کریں گے۔

    ادھر برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مشروط اعلان کیا ہے، برطانوی اور اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق کیئر اسٹارمر نے جمعہ کو کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی دیرپا سلامتی کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم نے اصرار کیا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے بارے میں ’’غیر متزلزل‘‘ ہیں، تاہم انھوں نے کہا کہ وہ تب تسلیم کریں گے جب اس سے ’’مصیبت کے شکار لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ افادیت یقینی ہو۔‘‘

  • چرچ رہنماؤں اور سفارتکاروں کا اسرائیلی آباد کاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

    چرچ رہنماؤں اور سفارتکاروں کا اسرائیلی آباد کاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

    رام اللہ: فسلطین میں چرچ رہنماؤں اور سفارتکاروں نے اسرائیلی آباد کاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فلسطین میں اعلیٰ چرچ رہنماؤں اور دنیا کے مختلف ممالک کے سفارتکاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیلی آباد کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

    حالیہ ہفتوں میں آباد کاروں کے حملوں میں شدت آنے کے بعد چرچ کے سرکردہ رہنماؤں اور سفارت کاروں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے مسیحی اکثریتی قصبے طیبہ کا دورہ کیا۔ برطانیہ، روس، چین، جاپان، اردن اور یورپی یونین سمیت 20 سے زائد ممالک کے نمائندے پیر کو مغربی کنارے کے گاؤں کا دورہ کرنے والے مندوبین میں شامل تھے۔

    رپورٹس کے مطابق صہیونی آباد کاروں کی طرف سے طیبہ میں ایک چرچ کے قریب آگ لگانے کے واقعے کے بعد جب فلسطینی کمیونٹی نے مدد کے لیے اسرائیلی حکام کو فون کیے تو ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔


    مدرسے کے طلبہ کی فوج میں بھرتی پر یہودی مذہبی جماعت نے نیتن یاہو حکومت چھوڑ دی


    مقبوضہ بیت المقدس میں چرچ رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور ان آبادکاروں کو جواب دہ ٹھہرایا جائے جنھیں اسرائیلی حکام کی طرف سے سہولت اور تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔

    آبادکاروں نے نہ صرف فلسطینی زمینوں پر مویشی چرائے بلکہ کئی گھروں کو آگ لگا دی اور علاقے میں ایک اشتعال انگیز بورڈ بھی لگایا جس پر لکھا تھا کہ تمھارا یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے۔

    الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق چرچ رہنما صہیونی آباد کاروں کے ان حملوں کو منظم اور نشانہ بنا کر کیے گئے حملے قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آباد کار اپنے مویشیوں کو اس علاقے میں فلسطینی اراضی پر چرانے کے لیے لائے اور کئی گھروں کو آگ لگا دی۔

  • نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کی توثیق سے انکار کر دیا

    نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کی توثیق سے انکار کر دیا

    واشنگٹن: اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کی توثیق سے انکار کر دیا۔

    وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر کے ساتھ عشائیے کے موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں، تاہم انھوں نے فلسطینی ریاست کی توثیق سے انکار کیا۔

    انھوں نے کہا کہ وہ معاہدہ ابراہیم کو وسعت دینا چاہتے ہیں، لیکن انھوں نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے سے قبل سعودی مطالبے کی توثیق کرنے سے انکار کیا۔

    اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا میرے خیال میں فلسطینیوں کو خود پر حکومت کرنے کے تمام اختیارات ہونے چاہئیں، لیکن کسی بھی طاقت سے ہمیں خطرہ نہیں ہونا چاہیے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ طاقتیں، جیسے مجموعی سیکیورٹی ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں رہے گی۔


    امریکی صدر نے ایران پر ایک اور حملے کا امکان مسترد کر دیا


    نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ غزہ والوں کو غزہ میں رہنے یا چھوڑنے کا ’’آزاد انتخاب‘‘ ہونا چاہیے۔ جو لوگ رہنا چاہتے ہیں، وہ رہ سکتے ہیں، لیکن اگر وہ جانا چاہتے ہیں تو وہ وہاں سے نکل سکتے ہیں، اسے جیل نہیں ہونا چاہیے۔

    نیتن یاہو نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل ایسے کئی ممالک تلاش کرنے ہی والے ہیں جو فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کر لیں گے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا ہے۔

  • برطانیہ فلسطین ایکشن گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار نہ دے، یو این ماہرین نے متنبہ کر دیا

    برطانیہ فلسطین ایکشن گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار نہ دے، یو این ماہرین نے متنبہ کر دیا

    جنیوا: اقوام متحدہ کے ماہرین نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ احتجاجی گروپ فلسطین ایکشن کے خلاف دہشت گردی کے قوانین کا غلط استعمال نہ کرے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ منگل کو اقوام متحدہ کے ماہرین نے برطانیہ پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی ایکٹ 2000 کے تحت فلسطینی گروپ ’’ڈائریکٹ ایکشن‘‘ پر دہشت گرد تنظیم کے طور پر پابندی نہ لگائے۔

    اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی فرانسسکا البانیز نے برطانیہ کو تنبیہ کی کہ سیاسی احتجاج کو دہشت گردی کہنا آزادی اظہار کے لیے خطرہ ہے، فلسطین ایکشن گروپ کی سرگرمیاں انسانی جانوں کے لیے خطرناک نہیں ہیں، پرامن سیاسی احتجاج کو دہشت گردی کے زمرے میں نہ لایا جائے۔

    دوسری طرف یو این ماہرین نے کہا ’’ہمیں سیاسی احتجاجی تحریک کو بلا جواز ’دہشت گرد‘ کے طور پر پیش کرنے پر تشویش ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق احتجاج کی ایسی کارروائیاں جن میں املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، لیکن ان کا مقصد لوگوں کو مارنا یا زخمی کرنا نہیں ہے، دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتیں۔‘‘


    اسرائیلی فوج کا خان یونس فوری خالی کرنے کا حکم


    برطانوی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ گروپ ’’دہشت گرد‘‘ ہے کیوں کہ اس کے کچھ ارکان نے مبینہ طور پر اپنے سیاسی مقصد کو آگے بڑھانے اور حکومت پر اثر انداز ہونے کے لیے فوجی اڈوں اور اسلحہ ساز کمپنیوں سمیت دیگر املاک کو مجرمانہ طور پر نقصان پہنچایا۔

    یو این ماہرین نے واضح کیا کہ ’’بین الاقوامی قانون میں دہشت گردی کی کوئی پابند تعریف نہیں ہے، بین الاقوامی معیار دہشت گردی کو مجرمانہ کارروائیوں تک محدود کرتے ہیں جن کا مقصد موت، سنگین ذاتی چوٹ یا یرغمال بنانا، کسی آبادی کو ڈرانے یا حکومت یا کسی بین الاقوامی تنظیم کو مجبور کرنا یا کسی عمل سے باز رکھنا ہو۔‘‘

    انھوں نے کہا ’’برطانیہ نے 2004 میں سلامتی کونسل کی قرارداد 1566 کے لیے ووٹنگ میں اس نقطہ نظر کی حمایت کی تھی، زندگی کو خطرے میں ڈالے بغیر محض املاک کو نقصان پہنچانا، دہشت گردی کہلوانے کے لیے سنگین اقدام نہیں ہے۔‘‘

    انھوں نے خبردار کیا کہ فلسطین گروپ پر دہشت گرد کے طور پر پابندی عائد کی جائے گی تو گروپ سے متعلق تمام کارروائیاں بشمول رکنیت، حمایت میں مدعو کرنا، حمایت میں میٹنگ کا اہتمام کرنا اور پبلک میں اس سے متعلق مخصوص لباس پہننا یا اس گروپ سے وابستہ مضامین لے کر جانا مجرمانہ اقدام بن جائیں گے، ماہرین نے متنبہ کیا کہ 14 سال تک قید کی غیر متناسب سزائیں لاگو ہو سکتی ہیں۔

    واضح رہے کہ ویلز کی پارلیمنٹ کے باہر فلسطین کے حق میں مظاہرہ کیا گیا، کارڈف بے میں سیکڑوں افراد نے انسانی زنجیر بنا کر پارلیمنٹ کا گھیراؤ کیا، مظاہرے کا انعقاد امن تنظیموں، مزدور یونینز اور ماحولیاتی گروپوں نے کیا، ان کا کہنا تھا کہ وہ نسل کشی میں شریک نہیں ہو سکتے، قانون ساز بھی بولیں، برطانیہ اسرائیل کو اسلحہ دینا فوری بند کرے۔