Tag: Palestinian

  • اردن بدستور اسرائیل، فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کا حامی

    اردن بدستور اسرائیل، فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کا حامی

    عمان : شاہ عبداللہ دوم نے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت اور اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اردن نے اسرائیلی ،فلسطینی تنازع کے دوریاستی حل کی حمایت کا ا عادہ کیا ہے اور اس طرح اس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حل سے ماورا کسی امن منصوبے کی حمایت نہ کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔

    ٹرمپ انتظامیہ بحرین کے دارالحکومت منامہ میں آئندہ ماہ ہونے والی مجوزہ فلسطین کانفرنس کے لیے خطے کے ممالک کی حمایت کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔

    صدر ٹرمپ کے مشیر اور داماد جیرڈ کوشنر اور مشرقِ اوسط کے لیے خصوصی ایلچی جیسن گرین بلاٹ نے عمان میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کی ہے۔

    اردن کی سرکاری خبررساں ایجنسی بطرا کے مطابق دونوں فریقوں نے خطے میں ہونے والی پیش رفت اور بالخصوص فلسطینی ، اسرائیلی تنازع کے حل کے لیے کوششوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

    شاہ عبداللہ دوم نے تنازع کے دوریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا ہے اور اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

    ان کا یہ موقف صدر ٹرمپ کی اب تک صیغہ راز میں ” صدی کی ڈیل“ سے متصادم نظر آتا ہے، اردن امریکا کا خطے میں اہم اتحادی ملک خیال کیا جاتا ہے لیکن اس نے ابھی تک 25 اور 26 جون کو منامہ میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت یا عدم شرکت کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

    فلسطینی حکومت نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس سے اس ضمن میں کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔وہ ٹرمپ انتظامیہ کے مجوزہ مشرقِ اوسط امن منصوبے کو بھی مسترد کرچکی ہے، جیرڈ کوشنر مراکش سے عمان پہنچے تھے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے قیام کے لیے معاشی اساس پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور اس میں فلسطینی ریاست ایسے بنیادی سیاسی امور پر غور نہیں کیا جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق گرین بلاٹ اور کوشنر نے رباط میں مراکش کے شاہ محمد ششم سے ملاقات کی تھی اور ان سے مراکش کی منامہ میں ہونے والی مجوزہ امن کانفرنس کے لیے حمایت پر تبادلہ خیال کیا تھا تاہم مراکشی حکام نے مسٹر کوشنر کے دورے کے حوالے سے کسی تبصرے سے انکار کیا ہے۔

    واضح رہے کہ اردن کا امریکا سے ملنے والی سیاسی اور فوجی امداد پر انحصار ہے، اس لیے اس کے لیے منامہ کانفرنس کے دعوت نامے کو مسترد کرنا مشکل ہوگا لیکن فلسطین نژاد کثیر آبادی کی مخالفت کے پیش نظر اس کے لیے ایسے کسی امن منصوبے کو قبول کرنا مشکل ہوگا جس میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضمانت ہی نہ دی گئی ہو۔

  • جعلی فیس بک اکاﺅنٹس کی آڑ میں فلسطینیوں کے سینکڑوں اکاﺅنٹس بند

    جعلی فیس بک اکاﺅنٹس کی آڑ میں فلسطینیوں کے سینکڑوں اکاﺅنٹس بند

    غزہ/نیویارک : فیس بُک انتظامیہ کی جانب سے جعلی اکاؤنٹس کی آڑ میں فلسطینیوں کے اکاؤنٹ بند کردئیے گئے، اکاﺅنٹس بلاک کر کے صہیونی ریاست کے فلسطینیوں پر مظالم کی حمایت کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کے بین الاقوامی ویب سائیٹ فیس بک جعلی اکاﺅنٹ بلاک کرنے کی آڑ میں اسرائیل کے خلاف مواد پر مشتمل فلسطینی کارکنوں کے سیکڑوں اکائنٹس بھی بلاک کر دیئے۔

    مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطین میڈیا سوسائٹی کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ فیس بک کی انتظامیہ نے جعلی اکاﺅنٹس کی بندش کی مہم کی آڑ میں فلسطینی شہریوں کے سیکڑوں اصلی صفحات اور اسرائیلی مظالم پر مشتمل مواد نشر کرنے والے اکاﺅنٹس بلاک کیے ہیں۔

    بیان میں فیس بک کی طرف سے فلسطینی سماجی کارکنوں کے سیکڑں صفحات کو بلاک کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بلا جواز قرار دیا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ فیس بک نے فلسطینی کارکنوں کے صفحات بلاک کر کے صہیونی ریاست کی طرف داری اور فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی حمایت کا ثبوت پیش کیا ہے۔

    مزید پڑھیں : فیس بک کا رواں سال دو ارب 19 کروڑ جعلی اکاﺅنٹ حذف کرنے کا دعویٰ

    یاد رہے کہ سماجی رابطے کی مقبول عام ویب سائٹ فیس بک نے رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران 2 ارب 19 کروڑ جعلی اکاﺅنٹ ڈیلیٹ کرنے کا دعوی کیا تھا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق فیس بک نے اپنی تازہ ترین نافذ العمل رپورٹ شائع کر دی ہے جس میں اکتوبر 2018 سے مارچ 2019 کے دوران مختلف اکاؤنٹس اور پوسٹس کے خلاف کی جانے والی کارروائی کی تفصیلات شامل ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق ان چھ ماہ کے دوران فیس بک نے پہلی مرتبہ تین ارب جعلی اکاؤنٹس کو بند کیا ہے۔

  • فلسطینیوں کی میزائل ٹیکنالوجی کا معیار بہتر ہو چکا ہے، اسرائیلی اخبار

    فلسطینیوں کی میزائل ٹیکنالوجی کا معیار بہتر ہو چکا ہے، اسرائیلی اخبار

    تل ابیب : اسرائیلی حکام کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی دفاعی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی کے معیار میں بہتری آئی ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسرائیل کے ایک کثیرالاشاعت عبرانی اخبارنے بتایا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے مقامی سطح پر تیار کردہ میزائلوں کی رینج، ہدف کو نشانہ بنانے اور اسے تباہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ اور معیار میں بہت حد تک بہتری آئی ہے۔

    اسرائیلی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی دفاعی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی کے معیاری میں بہتری خطرناک ہے اور اس نے اسرائیلیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق فلسطینی مزاحمت کاروں کے میزائلوں نے صہیونی ریاست کے سامنے طاقت کا نیا توازن قائم کیا ہے۔ اگرچہ اسرائیلی فوج دفاعی اعتبار سے فلسطینی مزاحمت کاروںسے آگے ہے مگر فلسطینیوں نے اس بار اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا ہے۔

    اخبار کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ آیا فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹوں اور میزائل کا کیا حل نکالا جا سکتا ہے۔ حکومت اور سیکیورٹی ادارے فلسطینی میزائلوں کو تباہ کرنے کے لیے تیار کردہ آئرن ڈون کی تعریف کرنے سے نہیں کتراتے مگر اس کی صلاحیت پر مسلسل سوال اٹھ رہے ہیں۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق آئرن ڈوم کی خراب کار کردگی ایک بار پھر ارباب اختیار کو گہرائی کےساتھ اس مسئلے کے حل پر غور کا موقع فرہم کرتی ہے۔

  • اونرا کا فلسطینی پناہ گزینوں میں اسٹڈی سپورٹ پروگرام ختم کر نے کا اعلان

    اونرا کا فلسطینی پناہ گزینوں میں اسٹڈی سپورٹ پروگرام ختم کر نے کا اعلان

    یروشلم : فلسطینی پناہ گزینوں کے امور کی ذمہ دار اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی اونروا کی طرف سے اسکولوں میں اسٹڈی سپورٹ پروگرام ختم کیے جانے کے خلاف فلسطینیوں نے احتجاج کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اونروا کی طرف سے اسکولوں میں اسٹڈی سپورٹ پروگرام ختم کرنے پر فلسطین کے بعد لبنان میں بھی موجود فلسطینی پناہ گزینوں نے احتجاج کیا اور اونروا کے خلاف دھرنا دیا۔

    اونروا نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ وہ مالی بحران کے باعث فلسطینی پناہ گزینوں میں اسٹڈی سپورٹ پروگرام ختم کر دیں گے۔اونروا کے اس اعلان کے بعد لبنان میں سول سوسائٹی، ملازمین یونین، عوامی کمیٹیوں اور این جی اوز کے ساتھ ساتھ اقوامتحدہ میں فلسطینی ملازمین نے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا۔

    مظاہرین کا کہنا تھا کہ اونروا کی طرف سے اسٹڈی سپورٹ پروگرام ختم کرنے سے 3000 فلسطینی طلباءکا مستقبل داﺅ پر لگ جائے گا جب کہ 10 ہزار طلباءکے موسم سرما کے تعلیمی پروگرام متاثر ہوں گے اور 250 فلسطینی ملازمین کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

    فلسطینی پناہ گزینوں کے دفاع کی ذمہ دار کمیٹی کے ڈائریکٹر جنرل علی ھویدی نے بیروت میں منعقدہ مظاہرے سے ٹیلیونک خطاب میں کہا کہ انہیں اس ریلی میں براہ راست شرکت نہ کرنے کا افسوس ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اونروا کے اسٹڈی سپورٹ پروگرام کے ذریعے فلسطینی پناہ گزین طلباءکے 70 فی صد تعلیمی اخراجات ادا کیے جاتے ہیں۔

  • اسرائیلی جارحیت، درجنوں فلسطینی صہیونی زندانوں میں زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا

    اسرائیلی جارحیت، درجنوں فلسطینی صہیونی زندانوں میں زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا

    غزہ: فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ تھم نہ سکا، درجنوں فلسطینی صہیونی زندانوں میں زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فلسطین میں اسیران کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ صہیونی زندانوں میں قید فلسطینیوں میں 16 فی صد قیدی جان لیوا امراض میں مبتلا ہیں، جن میں 23 فی صد فلسطینی کینسر کے مریض ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسیران اسٹڈی سینٹر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید فلسطینی ہر لمحہ موت کا سامنا کرتے ہیں۔

    کینسر سمیت دیگر امراض میں مبتلا فلسطینیوں کے اور دیگر مریضوں کے معاملے میں صہیونی حکام دانستہ اور مجرمانہ غفلت پر مبنی سلوک کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ صہیونی زندانوں میں 23 فلسطینی اسیران کینسر میں مبتلا ہیں، انہیں نہ تو اسپتالوں میں لے جاتا ہے اور نہ ہی جیلوں میں انہیں طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

    فلسطینی بچوں سے دورانِ حراست غیر انسانی سلوک، امریکا سے اسرائیلی امداد بند کرنے کا مطالبہ

    بیان میں کہا گیا کہ اسیر سامی ابو دیاک، بسام السائض، یسری المصری اور معتصم رداد کینسر کے مرض کا شکار ہیں اور مرض اپنے آخری مراحل میں ہے، صہیونی حکام دانستہ طور پر سرطان کے مریض فلسطینیوں کے معاملے میں غفلت برت رہے ہیں جس کے باعث وہ سسک سسک کر زندگی موت کی بازی ہار رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ اسرائیلی زندانوں میں قید 6500 فلسطینیوں میں 1800 کے قریب فلسطینی مریض ہیں، اسیران میں تین سو کے قریب بچے اور پچاس سے زاید خواتین ہیں۔

  • مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل ہماری اولین ترجیح میں شامل ہے، سعودی سفیر المعلمی

    مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل ہماری اولین ترجیح میں شامل ہے، سعودی سفیر المعلمی

    نیویارک : اقوام متحدہ میں تعینات سعودی سفیر نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں فلسطینی قوم کے دیرینہ اور اصولی مطالبات کا پوری جرات کےساتھ مقدمہ لڑتے ہوئے کہاہے کہ تنازع فلسطین کا منصفانہ اور دیر پاحل سعودی عرب کی اولین ترجیح ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیویارک میں سلامتی کونسل کے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے خصوصی اجلاس سے خطاب میں سعودی سفیر سفیر عبداللہ بن یحییٰ المعلمی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک ایسا کوئی امن فارمولہ قبول نہیں کرے گا جس میں چار جون 1967ءکی جنگ کے بعد اسرائیلی تسلط میں آنے والے علاقوں پر مشتمل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنائے جانے کی نفی کی گئی ہو۔

    سعودی سفیر نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی شہداء اور اسیران کے لواحقین کو ملنے والی رقوم بند کرنے اور فلسطینی اراضی میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی شدید مذمت کی۔

    المعلمی کا کہنا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر اور مقدس مقامات کی بے حرمتی بین الاقوامی قوانین اور عالمی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

    سعودی سفیر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب مسئلہ فلسطین کو عالمی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہوتا دیکھنا چاتا ہے، ہم القدس شریف کے عرب، اسلامی اور مسیحی تشخص پر آنچ نہیں آنےدیں گے، اسرائیل کو تمام مقبوضہ عرب علاقوں سے اپنا تسلط ختم کرنا ہوگا۔

    اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مستقل مندوب نے اسرائیل کی طرف سے شام کے وادی گولان کے علاقے پر قبضہ مضبوط کرنے کی کوششوں کی بھی مذمت کی۔

    عبداللہ بن یحییٰ کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد 242مجریہ 1967 اور قرارداد 497 مجریہ 1981ءمیں وادی گولان پر اسرائیلی قبضہ باطل اورناجائز قراردیا گیا ہے۔ امریکا کی طرف سے وادی گولان پراسرائیلی عمل داری تسلیم کرنے سے تاریخی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ سعودی عرب وادی گولان کو شام کی سرزمین کا حصہ سمجھتا ہے۔

  • یورپ میں فلسطینیوں کی 17 ویں کانفرنس ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں شروع

    یورپ میں فلسطینیوں کی 17 ویں کانفرنس ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں شروع

    کوپن ہیگن : فلسطین کانفرنس کے چیئرمین کا خطاب میں کہنا ہے کہ ہم پہلے فلسطینی ہیں اور بعد میں یورپی شہری،اپنی زمین پر واپسی کے حق کے لیے ڈٹے رہیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق یورپ میں فلسطینیوں کی 17 ویں کانفرنس اتحاد اور ثابت قدمی کے ساتھ” ہم واپس آئیں گے کے نعرے کے ساتھ “ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں شروع ہو گئی، ہزاروں فلسطینیوں اور مہمانوں نے کانفرنس میں شرکت کے لیے ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں موجود ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پہلی کانفرنس 2003 میں لندن میں منعقد ہوئی تھی جس میں معروف فلسطینی شخصیات اس کے ساتھ ساتھ عرب اور غیر ملکی کارکنوں اور اعلی شخصیات نے شرکت کی تھی۔

    غیر ملکی خبر ادارے کا کہنا تھا کہ استقبالیہ تقریب میں کانفرنس کے چئیرمین ماجد الزیر نے کہا کہ یورپ میں سالانہ منعقد یونے والی کانفرنس کا مقصد دنیا کے رہنماوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ فلسطینی سوائے اپنے وطن اور اپنے گھروں میں واپسی کے حقوق کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتے۔

    الزیر نے کانفرنس کو قابض اسرائیل اور اسکے حامیوں کی جانب سے فلسطین کےحصے بخرے کرنے کی کوششوں کا جواب دینے کے لیے ایک اہم تقریب قرار دیا۔

    انہوں نے کہا کہ جب تک فلسطین کے لوگ متحد ہیں اور اپنی زمین کے حق کے لیے کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں دنیا میں کوئی بھی طاقت فلسطین کی تاریخ اور جغرافیے کو نہیں بدل سکتی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم پہلے فلسطینی ہیں اور بعد میں یورپی شہری اور ہم اپنی زمین پر واپسی کے حق کے لیے ڈٹے رہیں گے اور اسکا کوئی متبادل قبول نہیں کریں گے۔

  • امریکا کی ڈیل آف دی سنچری میں خودمختار فلسطینی ریاست شامل نہ ہونے کا انکشاف

    امریکا کی ڈیل آف دی سنچری میں خودمختار فلسطینی ریاست شامل نہ ہونے کا انکشاف

    واشنگٹن : امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے لیے ’صدی کا معاہدہ ‘سے تعبیر کیے گئے امریکی معاہدے میں ایک خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام شامل نہیں ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق فلسطین کے امن سے متعلق معاہدے کے مرکزی عناصر سے واقف ذرائع نے بتایا کہ معاہدے میں فلسطینیوں کی زندگی میں عملی بہتری لانے کی تجاویز شامل ہیں لیکن اس میں محفوظ فلسطینی ریاست کا قیام شامل نہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ رواں برس کے آخر میں وائٹ ہاوس کی جانب سے طویل انتطار کے بعد یہ امن معاہدے جاری کیے جانے کا امکان ہے جس کی صدارت امریکی صدر کے داماد جیرڈ کشنر کر رہے ہیں ۔

    رپورٹ کے مطابق حکام اس منصوبے کو خفیہ رکھ رہے ہیں، جیرڈ کشنر اور دیگر حکام کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن کی ابتدائی کوششوں کے آغاز کے تحت اس میں ریاست کے قیام کا عنصر شامل نہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے میں اسرائیل کے سیکیورٹی خدشات پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ہے، یہ امن معاہدہ خصوصا غزہ کی پٹی پر بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر اور صنعتی تعمیرات کی تجاویز پر مبنی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو کامیاب کرنے یا اس کے آغاز کے اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک کا تعاون بھی ضروری ہوگا۔

    جیرڈ کشنر کے معاہدے سے واقف عرب حکام کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی خاص پیش کش نہیں کی گئی بلکہ اس منصوبے میں فلسطینی شہریوں کے لیے معاشی مواقع پیدا کیے جائیں گے اور متنازع علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کیا جائے گا۔

    جیرڈ کشنر اور دیگر امریکی حکام نے امن اور اقتصادی ترقی کو عرب میں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور حاکمیت کے بجائے فلسطین کی خودمختاری سے متعلق ورڑن کی قبولیت سے جوڑا ہے۔

    اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتے انتخابات سے قبل کہا تھا کہ وہ مغربی کنارے میں قائم یہودی آبادکاروں کو اسرائیل میں ضم کردیں گے۔

    نیتن یاہو کے اس بیان نے سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کے اس خیال کو تقویت پہنچائی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ فلسطین کی مقبوضہ زمین پر اسرائیل کے تسلط کو وسیع کرے گی۔

  • مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینی گورنرعدنان غیث ضمانت پر رہا

    مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینی گورنرعدنان غیث ضمانت پر رہا

    یروشلم : قابض اسرائیلی فورسز نے مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینی گورنر عدنان غیث کو اتوار کے روز گرفتار کرنے کے کچھ دیر بعد ضمانت پر رہا کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق عدنان غیث کو اسرائیلی پولیس نے نومبر 2018 کو ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لینے کے بعد ان کے خلاف فوجی احکامات کے تحت عدالتی کارروائی شروع کی تھی۔

    عدنان غیث کی یہ پہلی گرفتاری اور رہائی نہیں بلکہ حالیہ عرصے میں وہ متعدد بار اراضی کی فروخت کے الزامات میں گرفتار کیے جاتے رہے ہیں، انہیں تین مرتبہ تو صرف گزشتہ برس نومبر میں گرفتار کیا گیا تھا۔

    ان کے وکیل محمد محمود نے بتایا کہ صہیونی حکام نے ان کے موکل کو مشروط طور پر رہا کیا ہے، وکیل نے بتایا کہ انہوں نے ایک تنظیم کے ساتھ ملکر کانفرنس منعقد کی تھی جسے ناجائز اسرائیل نے اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کیا تھا ۔

    اسرائیلی پولیس کے ترجمان میکی روزنلفیڈ نے عدنان غیث کی گرفتاری ان سے تفتیش کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ برس نومبر میں انہیں اسرائیلی پولیس کی طرف سے انہیں چھ ماہ تک غرب اردن داخل نہ ہونے اور مخصوص افراد کے ساتھ رابطے کے علاوہ کسی سے رابطہ نہ کرنے کا حکم دیا تھا تاہم انہوں احکامات کی خلاف ورزی کی۔

    فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق عدنان غیث یو 1000 شیکل ضمانت پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

  • سال 2018: اسرائیل نے ارضِ مقدس مظلوم فلسطینیوں کے خون سے رنگ دی

    سال 2018: اسرائیل نے ارضِ مقدس مظلوم فلسطینیوں کے خون سے رنگ دی

    دنیا بھر کی طرح فلسطین میں بھی نئے سال کا سورج طلوع ہوچکا ہے ، گزشتہ رات غروب ہونے والا سال 2018 کا آخری سورج نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے خوں ریز مظالم کا چشم دید گواہ تھا۔

    سال 2018 میں فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانے میں اسرائیل کسی طور پیچھے نہیں رہا۔ گزشتہ سال اسرائیلی فورسز نے تین سو ب تیرہ فلسطینوں کی جان لے لی۔شہید ہونے والوں میں آٹھ ماہ کے بچے سے لے کر 74 سالہ بزرگ شامل ہیں۔

    گزشتہ برس میں شکست کو نوشتہ دیوار جان کر اسرائیلی فورسز جھلاہٹ کا شکار رہیں۔ کبھی اسٹریٹ فائر کیا تو کبھی رہائشی آبادیوں پر بمباری کی ، الغرض نہتےفلسطینیوں پر تشدد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

    [bs-quote quote=”پاکستان نے فلسطینیوں کی امداد بڑھادی ہے” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    فلسطینی علاقوں پراسرائیلی تسلط کے خلاف نہتے فلسطینیوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تو قابض فورسز سے وہ بھی برداشت نہ ہوا۔سال بھر جاری رہنے والےاحتجاج کے دوران ہونے والے اسرائیلی حملوں میں 271 فلسطینی شہید ہوئے۔

    دوسری جانب غزہ کے مغربی کنارے پر اسرائیلی فورسز کی وحشیانہ کارروائیوں کے دوران42 فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا، مجموعی طور پر فلسطین میں اسرائیلی مظالم سے شہید ہونے والے افراد میں 18 سال سسے کم عمر 57 بچے بھی شامل ہیں، جن میں سب سے کم عمر بچے کی عمر آٹھ ماہ بتائی گئی ہے۔

    ایک جانب تو اسرائیلی مظالم کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب عالمی ادارہ خوراک نے بھی فلسطینیوں کی امداد بند کرتے ہوئے دو لاکھ سے زائد افراد کو بھوکا مرنے کے لیے چھوڑدیا ہے۔ یہ خوراک غزہ کی پٹی اور فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد افراد کو دی جاتی تھی۔

    امداد بند کرنے کا سبب یہ ہے کہ امریکا نے اس ادارے کو دی جانے والی مالی امداد بند کردی تھی جس کے نتیجے میں ایجنسی کو غیرمعمولی مالی مشکلات درپیش ہیں اور یہ ادارہ اپنی کئی سروسز بند کرنے اور ملازمین کونکالنے پر مجبور ہے۔ یاد رہے کہ غزہ اور مغربی کنارے اسرائیلی ناکہ بندی کا شکار ہیں اور بیرونی دنیا سے کسی بھی قسم کے روابط رکھنے سے قاصر ہیں۔

    اس معاملے میں پاکستان کا شمار ان گنے چنے ممالک میں ہوتا ہے جو آج بھی نہ صرف یہ کہ فلسطین کی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ

    [bs-quote quote=” رواں سال مارے جانے والوں میں آٹھ ماہ کے بچے سے 74 سال کے بزرگ بھی شامل ہیں” style=”style-7″ align=”right”][/bs-quote]

    اقوام متحدہ سمیت دیگر پلیٹ فارمز پر بھی فلسطین میں ہونے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔

    گزشتہ ماہ ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اقوامِ عالم کو باور کرایا کہ مسئلہ فلسطین حل نہ ہونا اقوام عالم اور اس عالمی ادارے کی مشترکہ ناکامی ہے۔

    ملیحہ لودھی نے مطالبہ کیا تھاکہ آزاد فلسطینی ریاست 1967 کی جغرافیائی حد بندی پرقائم کی جائے، مشرقی یروشلم آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونا چاہیے۔ اسرائیل کو گولان، لبنان اوردیگر مقبوضہ علاقے خالی کرنا ہوں گے تاکہ آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر ہوسکے۔

    باخبر حلقوں میں یہ بھی اطلاع ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت نے فلسطینیوں کے لیے امداد اور حمایت میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے اور فلسطین کی اسرائیلی تسلط سےآزادی تک پاکستان کی جانب سے اپنے فلسطینی بھائیوں کی ہر ممکن مدد جاری رہے گی۔