Tag: panama case hiring in supreme court

  • پانامہ کیس، وزیراعظم کےبیٹے قطری شہزادے کا ایک اور خط لے آئے

    پانامہ کیس، وزیراعظم کےبیٹے قطری شہزادے کا ایک اور خط لے آئے

    اسلام آباد:سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت جاری ہے، حسن اور حسین نواز نے قطری شہزادے کا ایک اور خط سپریم کورٹ میں جمع کرادیا جبکہ جماعت اسلامی کی درخواست پر وزیراعظم نے بھی جواب عدالت میں جمع کرادیا۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ پاناماکیس کی سماعت کررہا ہے، مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ مریم نوازکے زیرِ کفالت نہ ہونے پردلائل دوں گا۔

    حسن اور حسین نواز نے اپنا جواب اور قطری شہزادے کا ایک اور خط سپریم کورٹ میں جمع کرادیا

    وزیراعظم نواز شریف کے بیٹوں حسن اور حسین نواز کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا،  وزیر اعظم کے صاحبزادوں نے جواب میں دبئی اسٹیل مل اور قطری شہزادے کے کاروبار کی تفصیل بھی بتائی ہے اور کہا گیا ہے کہ حماد بن جاسم کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔

    letter

    جواب کےمطابق دبئی اسٹیل مل، بینکوں اور دبئی حکومت کے تعاون سے بنائی گئی۔

    حسن اور حسین نوازنےقطری شہزادے کا ایک اور خط سپریم کورٹ میں جمع کرادیا، یہ خط 22 دسمبر کا ہے دوسرا خط پہلے خط کے سوالات کے تنا ظر میں لکھاگیا ہے، قطری خط میں بتا یا گیا ہے قطر میں کی گئی سرمایہ کاری کیش کی صورت میں کی گئی، سرمایہ کاری کے وقت قطر میں کاروبار کیش کی صورت میں ہی کیا جاتا تھا۔

    قطری خط کے مطابق دو ہزار پانچ میں کارروبار کے زمرے میں اسی لاکھ ڈالر بقایا تھے۔ اسی لاکھ ڈالر کے بقایا جات نیلسن اور نیسکول کے شیئر کی صورت میں ادا کیے گئے۔

    سپریم کورٹ میں  حسن اور حسین نواز نے عزیزیہ اسٹیل مل، سعودی عرب اور دبئی فیکٹری کے خریدو فروخت کی دستاویزات بھی پیش کر دیں، جبکہ طارق شفیع کا بیان حلفی بھی انکے جواب میں شامل ہیں۔

    جماعت اسلامی کی درخواست پر وزیراعظم کی جانب سے جواب عدالت میں جمع

    جماعت اسلامی کی درخواست پر وزیراعظم کی جانب سے جواب عدالت میں جمع کرادیا گیا، جواب میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے اسمبلی میں خطاب کے دوران غلط بیانی نہیں کی، بطور رکن اسمبلی اور وزیر اعظم حلف کی خلاف ورزی نہیں کی، لندن فلیٹس وزیر اعظم کی ملکیت نہیں ۔

    جواب میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم ان چاروں فلیٹس میں سے کسی کے بینیفشل آنر  نہیں۔

     مریم نواز کے وکیل کے دلائل

    وکیل نے دلائل میں کہنا ہے کہ مریم نواز کے انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ عدالت کو فراہم کیا جائیگا، مریم نواز نے انٹرویو میں الزامات کا جواب دیا، شادی شدہ خاتون زیرکفالت کی تعریف میں نہیں آتی۔

    جسٹس آصف نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ زیر کفالت میں 2 کا ذکر ہونے کا مطلب کیا ہے، جس کے جواب میں وکیل شاہد حامد نے کہا کہ اس کا مطلب ایک وہ خود اور دوسرا ان کی اہلیہ ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 2011کے ٹیکس فارم میں مریم کو زیرِ کفالت دکھایا گیا ہے۔

    وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل میں کہا کہ شادی شدہ خاتون والدین کے ساتھ رہے تو زیر کفالت کے دائرے میں آئے گی، زیرکفالت کی خاص تعریف نہیں
    زیرکفالت میں بزرگ، بیروزگار افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے ، زیر کفالت کے معاملے پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے، زیرکفالت کی تعریف میں بیوی، نابالغ بچے بھی آتےہیں، مریم نواز کے انٹرویو کا متن تیار ہوکر آگیا ہے، جمع کرا رہا ہوں۔

    شاہد حامد نے کہا کہ غیر شادی شدہ بیٹی کی ذرائع آمدن نہ ہو تو وہ زیر کفالت ہوگی۔

    جسٹس گلزار نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون میں دیگر کا خانہ زیر کفالت کی کیٹیگری ہے، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس قانون میں مخصوص کیٹیگری2015میں شامل کی گئی۔

    جسٹس شیخ عظمت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم آپ کی معاونت سے قانون کی تشریح کرسکتےہیں، اپنی اہلیہ بچوں کے نام پر جائیداد رکھیں تو کیا وہ بے نامی ہوگی۔

    جسٹس کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مشترکہ خاندانی کاروبار ہو، بچے بڑے ہوچکے تو کیا صورتحال ہوگی؟

    جسٹس آصف سعید نے سوال کیا کہ مشترکہ کاروبار میں کیا تمام بچے زیر کفالت تصور ہوں گے؟ شاہد حامد کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے واضح تعریف نہیں کی جا سکتی،کیس ٹوکیس معاملہ ہوتا ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کوئی شخص خاندان کا سربراہ ہو تو بچے اور انکے بچے زیرکفالت ہونگے؟

    جسٹس آصف سعید نے کہا کہ کاروباری خاندان میں مضبوط آدمی ایک ہوتا ہے ، وہ مضبوط شخص پورےخاندان کو چلاتا ہے، کیا ہم پورے خاندان کو بلاسکتے ہیں، جو مضبوط شخص کے زیرکفالت ہیں، بالغ بچے کاروبار کے باوجود خاندان کے بڑے سے خرچہ لیتےہیں،  کیا وہ بھی زیرکفالت تصور ہوں گے۔

    وکیل شاہد حامد نے کہا کہ جذباتی اور ثقافتی  طور پر زیر کفالت ہوتے ہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ نیب قانون میں بھی زیرکفالت کی تعریف نہیں کی گئی، ڈکشنری کے مطابق دوسرے پر انحصار زیرکفالت ہوتا ہے، قانون واضح نہ ہو توعام ڈکشنری کے معنی ہی استعمال ہوں گے۔

    وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پر وکیل شاہد حامد کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو بچوں سےملنے والےتحائف کا گوشوارہ کل جمع کرادوں گا۔

    جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ بی ایم ڈبلیوگاڑی کی فروخت پر اتنا منافع کیسے ہوا؟ وکیل شاہد حامد کا جواب میں کہنا تھا کہ 2006  میں حسن نے لندن میں بی ایم ڈبلیو خرید کر دبئی بھجوادی، 2سال بعد گاڑی مریم نواز کو تحفے میں دے دی، مریم نے 37لاکھ روپے ڈیوٹی ادا کرکے گاڑی حاصل کرلی۔

    شاہد حامد نے مزید کہا کہ  ایک کمپنی نے پرانی بی ایم ڈبلیو کی قیمت 2کروڑ 80لاکھ لگائی، جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ  آپ کہہ رہے ہیں نئی گاڑی کی خریداری کیلئے پرانی گاڑی مجوزہ قیمت پربیچ دی ، اس لئے منافع کی رقم میری موکلہ کے پاس نہیں آئی۔

    وکیل نے دلائل میں کہا کہ عدالت مختلف مقدمات میں  معاون مقرر کرتی رہی ہے، مجھے اعتراض نہیں  عدالت اس کیس میں کسی کو  معاون مقرر کر دے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کی عدالتی معاون مقرر کرنے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے، مقدمے میں ہر فریق کا وکیل بہتر انداز میں دلائل دے رہا ہے،  ہمارے سامنے شیخ رشید نے بھی مقدمہ بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہنسیں نہیں یہ بات جج صاحب نے سنجیدہ انداز میں کی ہے۔

    مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے ظفر علی شاہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے  پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کو خوش آمدید کہا تھا، جس پر قاضی حسین احمد نے بھی تو اس فوجی آمریت کو خوش آمدید کہا تھا۔

    جسٹس عظمت سعید  نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ باتیں بیت گئیں ان باتوں کو جانے دیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ وکلا اپنے دفاع کو تبدیل کر رہے ہیں۔

    مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ عوامی مفاد کے تحت دائر درخواستیں نیک نیتی پر مبنی ہوتی ہیں، اس کیس کو سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ اس میں درخواست گزار کی بد نیتی کیا ہے۔

    جسٹس کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے سامنے 3مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی درخواستیں ہیں، آپ یہ نہیں کہہ سکتے  کوئی ایک سیاسی مخالف عدالت آیا ہے۔

    شاہد حامد نے ذاتی عناد پر مخالف فریق کے خلاف کیسوں کے عدالتی حوالہ جات پیش کیے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ  یہ عوامی مفاد کی درخواستیں ہیں اور پاکستانی شہری سچ جاننا چاہتے ہیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اسی لیے ہم تمام وکلا کو بولنے کا پورا موقع دے کر صبر سے سن رہے ہیں۔

    جسٹس کھوسہ نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ سماعت مکمل ہونے پر عدالت کے ذمہ بہت بڑا کام ہے، تمام آپشنز کھلی رکھی ہی
    کیا کل گیارہ بجے تک آپ دلائل مکمل کر لیں گے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ شاہد حامد نے جواب میں کہا کہ اس سے بھی جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ   آپ کے بعد سلمان اکرم راجا دلائل کا آغاز کریں گے۔

    بڑالیڈربنا پھرتا ہے نوازشریف کی بیٹی سے ڈرتا ہے، طارق فضل چوہدری

    سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت میں وقفے کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری کا کہنا تھا کہ ماضی میں سیاستدانوں پربڑے بڑے الزامات لگتے رہے ہیں، کسی نے سامنے آکر کبھی الزامات کا جواب نہیں دیا ہے،  مخالفین نے الزامات کا کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا ہے۔

    طارق فضل چوہدری نے کہا کہ  بڑا لیڈر بنا پھرتا ہے نوازشریف کی بیٹی سے ڈرتا ہے، تحریک انصاف جھوٹا پروپیگنڈا کر رہی ہے،ثبوت کوئی نہیں دیا، پٹیشن میں مریم نوازشریف کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے،  کسی کوشک نہیں مریم نواز وزیراعظم کی زیرکفالت نہیں ہے، تحریک انصاف والے ثبوت دیتے نہیں روز الزام نیا لگا دیتے ہیں۔

    انکا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کے دائیں بائیں کھڑے لوگ اربوں کے تحائف دیتے رہے۔

    جرمنی اخبار کی دستاویزات میں سوئس بینکوں سے قرضہ لینے کے ثبوت ہیں، فواد چوہدری

    پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا جرمنی کے اخبار نے کچھ نئی دستاویز شائع کی ہیں، دستاویزات میں سوئس بینکوں سے قرضہ لینے کے ثبوت ہیں، جرمن اخبار نے دستاویزات گزشتہ رات شائع کی ہیں۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ ثابت ہوتا ہے کہ تینوں بچوں نے7ملین پاؤنڈ قرضہ لیا ، نیا ثبوت سامنے آیا ہے اب معاملہ لندن تک نہیں رکے گا، مریم نواز کے ان تمام معاملات میں دستخط سامنے آئے ہیں۔

    شریف خاندان جعلی دستخط کرتا ہے، شیخ رشید

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا شیخ رشید کا سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ جب تک معاشرہ کرپشن سے پاک نہیں ہوگا ، عوام کی ترقی نہیں ہوگی، شریف خاندان جعلی دستخط کرتا ہے، قطری خط سمیت تمام دستاویزات کی بنیاد ہی جعلی ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ مکمل طور پر با اختیار ہے جسے چاہے ریلیف دے سکتی ہے۔

    پاناماکیس میں ایک فریق عوام اوردوسراحکومتی ٹولہ ہے، امید ہے عوام جیت جائیں گے، سراج الحق

    امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاناماکیس میں ایک فریق عوام اوردوسراحکومتی ٹولہ ہے، امید ہے عوام جیت جائیں گے، حکومتی وکلاکے دلائل کے ساتھ الفاظ بھی ختم ہوگئے ہیں، ایک کے بعد ایک وکیل آرہا ہے لیکن بات نہیں بن رہی۔

    سراج الحق نے کہا کہ حکومت کے پاس دولت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اب بھی کرپشن کیخلاف کوئی فیصلہ نہیں ہوا تو پھر کبھی نہیں ہوگا، کرپشن کے خاتمے کیلئے 5ہزار افراد جیل جائینگے تو یہ بڑی بات نہیں، پاکستان کیلئے کرپشن بھارت سے بھی بڑا خطرہ ہے، کیس کےبعدان تمام لوگوں کااحتساب ہوناچاہئے، جن کے نام پاناما میں ہیں۔

    انھوں نے مزید کہا کہ ان لوگوں نے قوم کو چاروں طرف سے محاصرےمیں لیا ہوا ہے، کرپشن کےخلاف ہم نے فیصلہ کن لڑائی شروع کردی ہے۔

  • پانامہ کیس، وزیر اعظم نوازشریف نے عدالت سے آرٹیکل  248 کے تحت استثنیٰ مانگ لیا

    پانامہ کیس، وزیر اعظم نوازشریف نے عدالت سے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ مانگ لیا

    اسلام آباد: پاناما لیکس سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ، وزیر اعظم نوازشریف نے عدالت سے آرٹیکل  248 کے تحت استثنیٰ مانگ لیا جبکہ مریم نواز نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجربینچ نے کیس کی سماعت کی، پاناما لیکس سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ، وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

    سماعت کے دوران جسٹس کھوسہ کا کہنا ہے گزشتہ روز  پارلیمانی کارروائی عدالت میں چیلنج نہ ہونے کا ذکر کیا تھا، نیوزی لینڈ کے ارکان اسمبلی نے فلور پر تقریر اور میڈیا پر کہا اپنی بات پر قائم ہیں،  عدالت قرار دے چکی پارلیمنٹ میں تقریر بطور ثبوت استعمال کی جاسکتی ہے۔

    جسٹس کھوسہ نے مزید کہا کہ برطانوی عدالت ایک فیصلے میں کہہ چکی ہے ، کرپشن کو پارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیں، آئین کے آرٹیکل 68کے تحت ججز کا کنڈکٹ بھی پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں آتا۔

    وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسمبلی میں ججز  کنڈکٹ کی بات ہو تو پارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا،  آرٹیکل 68 اور204 ججز کنڈکٹ پر بات کرنے سے روکتے ہیں،  صدر، وزیر اعظم اور گورنرز کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے، وزیر اعظم کو استثنیٰ امور مملکت چلانے پر ہوتا ہے۔

    مخدوم علی خان کی جانب سے چوہدری ظہور الٰہی کیس کا حوالہ دیا گیا تو جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ ظہور الٰہی کیس میں وزیراعظم نے تقریر اسمبلی میں نہیں کی تھی،  ظہور الہی کیس کا حوالہ دینے سے متفق نہیں۔

    وزیراعظم نوازشریف نے عدالت سے آرٹیکل  248 کے تحت استثنیٰ مانگ لیا

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم نے آرٹیکل 66 کے بجائے 248 کے تحت استثنیٰ مانگا ہے، آرٹیکل 19کے تحت ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔

    جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ آپ کا کیس آرٹیکل 19 کے زمرے میں نہیں آتا،اپنے دلائل کو اپنے کیس تک  محدود رکھیں، آرٹیکل 19اظہار رائے کا حق دیتا ہے، آپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ بھارت میں سپریم جوڈیشل کونسل نہیں ہوتی ، بھارت میں کسی کو ہٹانے کیلئے دونوں ایوانوں سے قرارداد کی منظوری ضروری ہے۔

    جسٹس کھوسہ نے کہا کہ بھارت میں بحث جاری ہے کہ احتساب کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل بنائی جائے۔

    مخدوم علی خان نے دلائل میں وضاحت کی کہ  وزیر اعظم نے آرٹیکل 248کے تحت استثنیٰ نہیں مانگا ہے، آرٹیکل 248کے تحت وزیر اعظم آفس کو استثنیٰ ہے، انکی ذات کو نہیں، ذوالفقار علی بھٹو بھی  چوہدری ظہور الہٰی کیس میں استثنیٰ مانگ چکے ہیں۔

    وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ  دنیا بھر کی پارلیمان میں ارکان کے آپس میں جھگڑے ہوتے ہیں، کیا ان جھگڑوں کو بھی عدالت میں لایا جا سکتا ہے، ایسے حوالے ہیں جس کے تحت عدالت پارلیمانی کارروائی کا جائزہ لے سکتی ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تقریر کو بطور شہادت پیش نہیں کیا جا سکتا، تقریر کو بطور شہادت پیش نہ کرنے کے عدالتی فیصلوں کے حوالے موجود ہیں، اگر وزیر اعظم پارلیمنٹ سے باہر تقریر کریں تو 248 کا استثنیٰ مانگیں گے، دونوں تقاریر پر تضاد ہے، اگر اسمبلی تقریر پرآرٹیکل 66 کا اطلاق ہوگا تو تضاد ختم ہوجائے گا۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ قانون کی تشریح کرتے ہیں تو اراکین پارلیمنٹ کی تقاریر  رکھی جاتی ہیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ پارلیمانی  تقریر کا بطور شواہد جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

    سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل نے وزیراعظم کی تقریر کا اقتباس پڑھ کر سنایا، اقتباس میں بچوں کے بیرون ملک  کاروبار کی تفصیل بتائی گئی، تقریر میں کوئی ایسی بات نہیں جس کی بنیاد پر وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جاسکے۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر یا بچوں کے بیان پر تضاد پر بھی وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا، وزیر اعظم کی نااہلی کے لئے ان کے صادق  اور امین  ہونے کا تعین ہونا چاہیے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس میں کہا کہ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے اور عدالت اس کی تشریح کرتی ہے، اگر تشریح کی غرض سے تقریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ خلاف ورزی نہیں ہوگی۔
    جسٹس عظمت نے کہا کہ کیا آرٹیکل 66 صرف پارلیمنٹ میں تقریر پر استثنیٰ دینے سے متعلق ہے ، صرف پارلیمنٹ ہی نہیں بلکہ قوم سے کئے گئے خطاب کا بھی سوال ہے۔

    جسٹس کھوسہ نے وکیل سے سوال کیا کہ مخدوم علی خان صاحب کیا بچے سچ بول رہے ہیں یا والد؟ جس پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پارلیمانی تقاریر کو استثنیٰ حاصل ہے، کئی مواقع پر عدالت نے قانون کی تشریح کے لئے بھی تقاریر کا جائزہ نہیں لیا، عدالت کے سامنے وزیر اعظم  نہیں  رکن اسمبلی  کو نااہل ہونے کا سوال ہے، اس مقصد کے لئے عدالت کو قانون کا سہارا لینا ہوگا۔

    جسٹس عظمت نے مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 66 کا استحقاق انفرادی نہیں اجتماعی ہے، بار بار یہ کیوں کہہ رہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کے روبرو استحقاق کا سوال نہیں ہے ، عدالت ایک معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔

    مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں کوئی غلط بیانی نہیں کی۔

    سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی ، وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

    سماعت سے قبل وکلا کے نہ ہونے کی وجہ سے سماعت تاخیر سے شروع ہوئی، جس پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ مخدوم علی خان کیا ماجرہ ہے،وکلا آج کیوں پیش نہیں ہوئے۔ مخدوم علی خان کا کہنا ہے کہ جناب وکلا نے ہمیں روکا اور اٹارنی جنرل آفس لے گئے، اٹارنی جنرل نے بتایا ڈی جی اور سیکریٹری ہاؤسنگ کوبلایا ہے تاکہ مسئلہ حل ہو۔،

    پاناماکیس ، مریم نواز نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا

    دوسری جانب پاناماکیس میں مریم نواز نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا، مریم نواز نے جواب میں گزشتہ 5 سال کے زرعی ، غیر زرعی آمدنی کے ٹیکس کا بھی حوالہ دیا ہے، مریم نواز کا کہنا ہے کہ 1992میں شادی کے بعد والد نوازشریف کی زیر کفالت نہیں، شادی کے بعد اپنے شوہر کیساتھ رہتی ہوں، جلاوطنی کے دوران بھی اپنی شوہر کے ساتھ ہی رہی۔

    مریم نواز نے جواب میں کہا ہے کہ شمیم زرعی فارم کے مکان میں  مشترکہ طورپر  اخراجات ادا کئے جاتے ہیں ، 2013  میں مسمات شمیم اختر کے ٹیکس میں میرا حصہ 50لاکھ روپے تھا،   2014کے ٹیکس میں میرا حصہ 60 لاکھ روپے تھا اور اس طرح 2015 کے ٹیکس میں میرا حصہ 60 لاکھ روپے تھا۔

    عمران خان!بچو،آپ کا وقت قریب آرہا ہے، دانیال عزیز

    مسلم لیگ ن کے رہنما  دانیال عزیز نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عمران خان 8ماہ بتاتے ہیں ہمارے پاس ثبوت ہیں، عمران خان آج ثبوت عدالت میں کیوں جمع نہیں کراتے، اب وہ پرانی فلمیں نکال کر کیوں نہیں چلائی جاتی ہیں، عمران خان عدالت میں کہتے ہیں ثبوت دینا ہمارا کام نہیں، قلاں بازی خان اس کا نام کسی وجہ سے رکھا گیا ہے،  35پنکچر کا الزام لگایا گیا، پھر معافی مانگ لی گئی۔

    دانیال عزیز نے مزید کہا کہ عمران خان مسلسل جھوٹ بولنے کے عادی ہیں، عمران خان کے خلاف انکی جماعت لوگ پٹیشن کررہے ہیں، اتنے جھوٹ بولے  کہ عمران خان کوغیرمشروط معافی مانگنا پڑی، آراو کے معاملے پر عمران خان نے سپریم کورٹ سے معافی مانگی، افضل خان کے معاملے پراسلام آباد کی عدالت میں معافی مانگی گئی، عمران خان سینہ تان کرکہتے تھے اب بھاگنا نہیں تلاشی لینی ہے، جہانگیرترین نے جعلسازی سے منافع حاصل کیا، عمران خان!بچو،آپ کا وقت قریب آرہا ہے۔

    انکا مزید کہنا تھا کہ وکیل نے بتایا وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں کوئی جھوٹ نہیں بولا، نئی جماعت تھی لوگوں کو ان کاپتہ نہیں تھا،  عمران خان اور انکی جماعت کا چہرہ عوام کے سامنے آرہا ہے، کے پی کے میں اینٹی کرپشن جیسے ادارے کو تباہ کردیا گیا،  لاہورہائیکورٹ سے عمران خان کو44مرتبہ نوٹس دیا گیا، پارٹی فنڈز کیس میں بھی عمران خان کوکئی بار نوٹس ہوا، جگہ جگہ معافیاں مانگنا عمران خان کا وطیرہ بن گیا ہے ہم پر حکم امتناع کے پیچھے چھپنے کاالزام لگانیوالے خود چھپ رہے ہیں۔

    دانیال عزیز نے کہا کہ عمران خان ہمت ہے تو سامنے آکر جواب دو،  عمران خان کی عمر نکل رہی ہے، انوکھا لاڈلا کھیلنے کو چاند مانگ رہا ہے، عمران خان اس طرح وزیراعظم نہیں بن سکتے،کارکردگی دکھانا ہوگی، عمران خان کے خلاف بغاوت ہورہی ہے، یہ اپنے ہی کونسلر نکال رہا ہے، عمران خان آنکھیں کھولو، سوچو آپ کیا کررہے ہو۔

    انھوں نے کہا کہ امید ہےعمران خان سپریم کورٹ میں بھی جلدمعافی مانگ لیں گے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے تسلیم کرلیا پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا گیا، فواد چوہدری

    پی ٹی آئی کے رہنما کا سماعت کے وقفے کے دوران میڈیا سے کفتگو میں کہنا تھا کہ  وزیراعظم کے وکیل کی تمام کارروائی استثنیٰ پررہی ہے، استثنیٰ تب مانگا جاتا ہے جب آپ جھوٹے ہوتے ہیں، وزیراعظم کے وکیل نے تسلیم کرلیا پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا گیا، مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر پر کارروائی نہیں ہوسکتی۔

    فوادچوہدری نے مزید کہا کہ ہماری حسرت ہے مریم نوازکا سچ پر مبنی کوئی بیان آجائے، اللہ شریف خاندان کو سچ بولنے کی توفیق عطا کرے، مخدوم علی خان مہربانی  فرما کر اب آگے چلیں۔

    وکلانےتحریک انصاف کےشفقت محمود کو گیٹ پرروک لیا

    وکلانےتحریک انصاف کےشفقت محمود کو گیٹ پرروک لیا جس کے بعد وکلا اور شفقت محمود کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، وکلا کا کہنا ہے کہ ہم کسی سیاسی رہنما اور حکومتی ٹیم کو نہیں جانے دیں گے۔

    شفقت محمود کا کہنا ہے کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے

    آج کل نیند کی گولیاں نہیں لینی پڑ رہیں، پاناما کیس کی سماعت کے بعد نیند اچھی آرہی، عمران خان

    عمران خان نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار سے وعدہ کیاگیا،اس لئے ان کیساتھ ہوں، ہمارا فریضہ ہے کہ ہم وکلا کے ساتھ کھڑے ہوں، آج کل سونے کے لئے نیند کی گولیاں نہیں لینی پڑ رہیں، پاناما کیس کی سماعت کے بعد نیند اچھی آرہی ہے۔

    نواز شریف نے جب سچ بولاوہ ان کی سیاست کا آخری دن ہوگا، شیخ رشید

    شیخ رشید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ بارکےوکلاکے ساتھ دھرنادینےکیلئےتیارہوں، چوروں کی حکومت ہے،عوامی مسلم لیگ وکلا کے ساتھ ہے، کل بھی وکلا کی حمایت  کی تھی،آج بھی کررہےہیں، اگر یہ منی ٹریل بتادیں تو میں اپنا کیس واپس لے لوں گا، منی ٹریل نہیں بتا پائے تو قبرتک پاناما پاناما کرتا رہوں گا۔

    شیخ رشید نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی میں کہا جاتا ہے، تلاشی لے لو،  نواز شریف نے جب سچ بولاوہ ان کی سیاست کا آخری دن ہوگا۔