Tag: panama case

  • لندن کے فلیٹس شریف خاندان کیلئے درد سر بن گئے

    لندن کے فلیٹس شریف خاندان کیلئے درد سر بن گئے

    اسلام آباد : پاناما کیس میں لندن کے پوش علاقے میں موجود فلیٹس کی ملکیت مرکزی نکتہ ہے۔ شریف خاندان کے مطابق یہ فلیٹس دوہزار چھ میں خریدے گئے جبکہ پاناماکیس اوربی بی سی کی رپورٹس کے مطابق یہ فلیٹس نوے کی دہائی سے شریف خاندان کے پاس ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق شریف خاندان کے فلیٹس لندن کے پوش علاقے پارک لین میں مہنگی ترین جائیداد کا مرکزہیں۔ یہ فلیٹس نوے کی دہائی سے ہی شریف خاندان کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے نوے کی دہائی میں سب سے پہلے ان فلیٹس پر ڈاکو مینٹری فلم دکھائی۔ شروع دن سے ہی شریف خاندان ان فلیٹس سے انکار کرتا رہا اوراس کے بعد دوہزار سات میں شریف برادران وطن واپسی کے بعد اس حوالے سے متضاد بیانات بھی دیتے رہے۔

    کبھی مریم نواز نے کہا کہ میری کوئی جائیداد نہیں، پھر حسن نواز نے اس جائیداد پر اس سے بالکل مختلف بیان دیا اور حسین نواز نے بھی کچھ ایسا ہی کہا، وزیراعظم نے اسمبلی میں فلیٹس کی ملکیت کی مکمل تفصیلات بھی بتائیں۔

    بعد ازاں وزیراعظم کا بیان ان کے بچوں کے بیانات سے مختلف نکلا۔ ذارئع کے مطابق لندن کے یہ فلیٹس شریف خاندان کے استعمال میں ایک عرصے سے ہیں۔ صدیق الفاروق نے تو یہ تک کہا کہ وہ نوے کی دہائی میں وہاں رہتے رہے ہیں۔

    پاناما پیپرز سامنے آئے تو یہ ثابت ہوگیا کہ یہ فلیٹس نہ صرف شریف فیملی کی ملکیت ہیں بلکہ اُس وقت بھی ملکیت ہی تھے جب کہ شریف خاندان ان سے انکار کررہا تھا۔

    لندن فلیٹس پر اصل سوال اس کی خریداری نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ اس خریداری کا پیسہ بیرون ملک کیسے گیا ؟ کیا یہ پیسہ قانونی طور پر گیا تھا یا منی لانڈرنگ کے ذریعے غیر قانونی طور پر پیسہ باہر منتقل ہوا۔ شریف خاندان کے لیے سیاسی درد سر کیا گل کھلائے گا اس کا فیصلہ ہونے والا ہے۔

  • پاناما کیس پر فوج بھی عوام کی طرح فیصلے کی منتظر ہے، آئی ایس پی آر

    پاناما کیس پر فوج بھی عوام کی طرح فیصلے کی منتظر ہے، آئی ایس پی آر

    راولپنڈی : ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ لندن میں پاناما کیس پر میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، پاناما کیس کے معاملے پر فوج بھی ہر پاکستانی کی طرح فیصلے کی منتظر ہے۔

    یہ بات انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کیا۔

    میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاناما کیس کے معاملے پر فوج بھی عوام کی طرح میرٹ اور انصاف پر مبنی فیصلےکی منتظر ہے۔

    یاد رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے گزشتہ دنوں لندن میں ایک پریس کانفرنس تھی اور پانامہ کیس کے حوالے سے صحافیوں کو مفصل جواب دیا تھا کہ پاک فوج بھی ہر پاکستانی کی طرح پانامہ کیس کے محفوظ کیے جانے والے فیصلے کی منتظر ہے، جس پر وہاں کے بعض اخبارات نے ان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کیا۔

    انہوں نے اس لئے آج پھر اس بات کو واضح کیا ہے، کہ پاک فوج بھی فوج ہر پاکستانی کی طرح پاناما کیس پر میرٹ اور انصاف پر مبنی فیصلے کی منتظر ہے۔ اور سات اس بات کا بھی یقین ہے کہ جو بھی فیصلہ آئے گا سپریم کورٹ اسے میرٹ اور انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے کرے گی۔

    اس حوالے سے تجزیہ کا بریگیڈیئر (ر ) حارث نواز نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کا بھی ہر پاکستانی کی طرح حق ہے کہ ملک میں ہونے والے معاملات کو دیکھیں اور پاک فوج کے انفارمیشن سیل میں ٹیلی وژن دیکھا جاتا ہے اور ملکی صورتحال پر بھی گہری نگاہ ہوتی ہے۔

  • پانامہ لیکس کو ایک سال کاعرصہ بیت گیا

    پانامہ لیکس کو ایک سال کاعرصہ بیت گیا

    پانامہ لیکس کے تہلکہ خیز انکشافات کو ایک سال کا عرصہ بیت گیا، پانامہ لیکس میں دنیا کے 12 سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ 143 سیاست دانوں اور نامور شخصیات کا نام شامل تھے جنہوں نے ٹیکسوں سے بچنے اور کالے دھن کو  بیرونِ ملک قائم  بے نام کمپنیوں میں منتقل کیا۔

    پانامہ لیکس میں پاکستانی سیاست دانوں کی بھی بیرونی ملک آف شور کمپنیوں اور فلیٹس کا انکشاف ہوا تھا جن میں وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا خاندان بھی شامل ہے۔

    ان انکشافات کے بعد پاکستانی سیاست میں کھلبلی مچ گئی اور ہرطرف حکمران خاندان کی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیاجانے لگا۔

    پانامہ لیکس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کے صاحبزادوں حسین نواز اور حسن نواز کے علاوہ صاحبزادی مریم صفدرکا نام بھی شامل تھا،  دستاویزات کے مطابق مریم صفدر نے سال 2011ء میں ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ میری لندن میں جائیداد تو دور کی بات پاکستان میں بھی میری کوئی پراپرٹی نہیں اور میں اب بھی اپنے والد کے ساتھ رہتی ہوں۔

    panama

    پانامہ لیکس انکشافات کے اگلے روز 5 اپریل 2016ء کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’ کرپشن اور ناجائز طریقے سے دولت جمع کرنے والے نہ تو اپنے نام کی کمپنیاں رکھتے ہیں اور نہ ہی اثاثے اپنے نام پر رکھتے ہیں‘۔  بعد ازاں 22 اپریل 2016ء کو پھر قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ’ میرا اپنے آپ سے یہ عہد ہے کہ کمیشن کی رپورٹ کے نتیجے میں مجھ پر کوئی الزام ثابت ہوا تو میں ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا گھر چلاجاﺅں گا“۔

    بعد ازاں ٹی وی ٹاک شوز ، پریس کانفرنسز اور پارلیمنٹ میں حکومتی اہلکار میاں نواز شریف اورا ن کے خاندان کا دفاع کرتے رہے ہیں جس میں یہ بات دہرائی جاتی رہی کہ پانامہ لیکس میں وزیر اعظم کا نام شامل نہیں پھر ان کی تحقیقا ت کا مطالبہ کیوں کیا جارہا ہے؟

    میاں نواز شریف نے اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ وہ 1997ء سے ہی اپنے خاندانی کاروبار سے الگ ہوچکے ہیں۔ آج بھی ان کے اثاثہ جات پر نظر ڈالی جائے توپتا چلتا ہے کہ وہ کبھی کاروبارسے الگ نہیں ہوئے بلکہ کاروبار سے تنخواہ وصول کرتے رہے اور ان کے حصص کی مقدار اقتدار میں آنے کے بعد بڑھتی چلی گئی نہ صرف یہ بلکہ ہر دور اقتدار میں شریف خاندان کے کاروبار نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔

    Panama-leaks

    مئی کی 16 تاریخ 2016 کو پارلیمان میں اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ’’ ہمارے والد محترم نے جلاوطنی میں پھر کمر باندھی اور جدہ میں ایک اسٹیل میل لگائی اس کی بنیادی سرمایہ کاری کے لیے دبئی فیکٹری کے فروخت سے حاصل ہونے والے سرمایے نے بھی مدد کی‘‘۔

    ’’جدہ کی یہ فیکٹری جون 2005ء میں اپنی مشینری، وسیع قطع اراضی اور دیگر اثاثوں سمیت تقریبا 64 ملین ریال یعنی 17 ملین ڈالر میں فروخت ہوگئی، دبئی اور جدہ کی ان فیکٹریوں کے تمام ریکارڈ اور دستاویزات موجود ہیں، یہ ہیں وہ ذرائع اور وسائل جن سے لندن کے فلیٹس خریدے گئے “۔

    اس وقت تک یہ کیس پارلیمان اور میڈیا میں لڑا جارہا تھا۔ پانامہ کیس کے عدالت پہنچتے ہی حیران کن طورپر پارلیمان میں پیش کردہ سارے ذرائع بدل گئے۔ 5نومبر 2016ء کو قطری شہزادے کے خط کو بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس دوران وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پارلیمان کے سامنے جو بیان دیا تھا عدالت میں اس سے انکاری ہوگئے اور کہا کہ پارلیمانی میں کی جانے والی بات سیاسی بیان تھا۔

    پانچ نومبر کو ایک سادہ کاغذ میں لکھے ہوئے خط میں قطری شہزادے حمد بن جاسم کا خط منظر عام پر آیا جس میں قطری شہزادے نے تحریر کیا کہ ’’مجھے یہ بتایاگیا کہ میاں شریف نے ہمارے کاروبار میں سرمایہ کاری کی تھی اور یہ بھی کہا گیا کہ لندن فلیٹس کے سارے سرٹیفیکیٹ تو قطر میں موجود تھے‘‘۔

    panama

    خط میں قطری شہزادے نے کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں لکھا کہ فلیٹس ان کے تھے یا انہوں نے خریدے تھے بلکہ اس کے بجائے یہ کہا کہ فلیٹس کے کاغذات قطر میں موجود تھے اور فلیٹس اسی رقم سے لیے گئے تھے جو میاں شریف نے دی تھی۔

    وزیر اعظم اور اُن کے فرزند کے بیانات سامنے آئے کہ دبئی کی فیکٹری بیچ کر پیسہ جدہ گیا پھرسپریم کورٹ میں قطری خط آنے کے بعد یہ بیان بھی غلط ثابت ہواکیونکہ قطری خط کے مطابق پیسہ دبئی سے جدہ گیا مگر کوئی ایک بینک ٹرانزیکشن پیش نہیں کی گئی کہ پیسہ دبئی سے قطر کس طرح منتقل ہوا۔

    سپریم کورٹ میں جج صاحبان نے میاں خاندان کے وکیل سے اس بابت استفسار بھی کیا کہ کیا رقم اونٹوں پر لاد کر منتقل کردی گئی تھی ؟

    پارلیمان میں اپنے خطاب میں میاں نواز شریف نے بھی انکشاف کیا تھا کہ دبئی اسٹیل مل 33 ملین درہم میں فروخت ہوئی تھی مگر جب دستاویزات جمع کیے گئے تو مل کے مالک کا نام طارق شفیع نکلا اور عدالت کو بتایا گیا کہ وہ میاں شریف کے بے نام دار تھے اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی کہ دبئی اسٹیل مل کی فروخت سے 12ملین درہم حاصل ہوئے کیونکہ مل نقصان میں چل رہی تھی اور یہ درہم بھی اقساط کی صورت میں ادا ہوئے۔

    وزیر اعظم کی ایوان میں کی گئی تقریر اور عدالت میں پیش کیے جانے والی کاغذات میں 21ملین درہم کافرق نکلا ۔ شریف خاندان یہ بتانے سے بھی قاصر رہا کہ دبئی اسٹیل مل کس سرمایے سے لگائی گئی؟ اگر پیسہ دبئی سے جدہ گیا اور فیکٹری لگی تو 12 ملین درہم قطر کیسے پہنچے؟ اور اگر پیسہ قطر گیا تو جدہ میں مل کیسے لگی؟ فلیٹس کی خرید قطری سرمائے سے کی گئی تو پھر دبئی اور جدہ کی فیکٹریاں کیا خاندانی پیسے سے لگائی گئیں ؟

    وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم کا کاروبار اور رقم سے کوئی تعلق نہیں یہ دادا اور حسین نواز کے آپس کا معاملہ ہے ۔ اگر ایسا ہی تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیوں میاں نواز شریف نے دو مرتبہ پانامہ کے حوالے سے قوم سے خطاب کیا تھا اور اپنی خاندانی تاریخ پارلیمان میں پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

    دیکھا جائے تو حکمران خاندان کے وکلاء نے روز اول سے اپنے دفاع کو بہتر بنانے کی کوشش کی اس دوران بیانات اور دستاویزات میں تضادات بھی سامنے آئے، یہی وجہ ہے کہ عدالت کے سامنے موثر انداز سے حکمران خاندان کا کیس نہ لڑ سکے۔

    عدالت میں مقدمہ اس کے دو حصوں میں چلایا گیا، ایک یہ کہ لند ن میں موجود فلیٹس چھپائے گئے دوسرا یہ کہ فلیٹس کیسے خریدے گئے؟ اس کے علاوہ تیسرا رخ منی لانڈرنگ کا کیس بھی تھا۔

    ویڈیو دیکھیں

     نوے کی دہائی میں ایف آئی اے کی تحقیقات اور اسحاق ڈار کے بیان حلفی کا جائزہ لینے سے منی لانڈرنگ کے الزامات میں بھی کافی وزن نظر آیا، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے 2011ء میں میاں خاندان کے شوگر مل اور حسین نواز کے درمیان ہونے والی منی ٹرانزیکشن کی تحقیقات شروع کی تھی ، جس میں بھی منی لانڈرنگ کا خدشہ ظاہر کیا جارہاتھا۔

    اسی طرح اگر میاں نواز شریف کے اثاثہ جات پر نظر دوڑائی جائے تو حسین نواز بڑی بڑی رقوم وزیر اعظم کو بھجواتے رہے اور وزیر اعظم نے وہ رقم آگے مریم صفدر کو منتقل کی جس سے انہوں نے زمین خریدی اور رقم والد کو واپس کردی۔

    پاناما دستاویزات کے مطابق حسین نواز نے میاں نواز شریف کو 52 کروڑ روپے کی رقم تحفے میں دی سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی رقم حسین نواز کے پاس کہاں سے آئی ؟ اس رقم کا ماخذ کیاتھا ؟ یہ ابھی تک عدالت کو بھی نہیں بتایا گیا۔

    پانامہ کیس سے متعلق عدالت میں جواب دائر کرتے ہوئے مریم صفدر نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ نہیں بلکہ دادی کے ساتھ رہتی تھیں ۔کیا ایک اور غلط بیانی ؟ اس سارے قصے کی سب سے اہم دستاویز 2000ءمیں اسحاق ڈار کا وہ بیان حلفی ہے جس کو اگرمنی ٹریل کا سب سے اہم ذریعہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

    اس بیان حلفی کی بنیاد پرحدیبیہ مل کیس بنایاگیا تھا اور لاہو ر ہائی کورٹ نے تکنیکی بنیاد پر اس ریفرنس کو مسترد کردیا تھا لیکن کبھی بھی اس کی تحقیقات نہیں ہوئی اور عدلیہ کے اس فیصلے کے خلاف نیب نے کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا۔

    عوامی پیسوں سے چلنے والے اداروں میں سے کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ عوام کے پیسوں کولوٹنے والوں کی تحقیقات کی جاتی ۔ صرف سپریم کورٹ ہی آخر ی آپشن رہا جس نے اس کیس کی سماعت شروع کی سپریم کورٹ نے ملکی تاریخ کے اس اہم ترین کیس کا فیصلہ 23فروری 2017ءکو محفوظ کرلیااور کسی بھی وقت اس کا فیصلہ آئے گاجس سے ملک کا مستقبل روشن ہوجائے گا۔

  • قطری خط شہادت اور گواہی کے زمرے میں نہیں آتا، سلمان اکرم راجہ

    قطری خط شہادت اور گواہی کے زمرے میں نہیں آتا، سلمان اکرم راجہ

    اسلام آباد : حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ قطری خط شہادت اور گواہی کے زمرے میں نہیں آتا، مریم نواز نے درست کہا تھا کہ سینٹرل لندن میں ان کی کوئی جائیداد نہیں، حسین نواز کو جو ملا وہ وراثت میں ملنے والی جائیداد نہیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اےآروائی نیوزکے پروگرام آف دی ریکارڈ میں میزبان کاشف عباسی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جاری پانامہ کیس مین ہمارا کیس صرف اتنا ہے کہ بغیرٹرائل کے الزام پر فیصلہ نہیں ہوسکتا۔

    وزیراعظم کی تقریر میں دوستوں کا ذکرتھا، قطری خط کے خلاف جب تک ثبوت نہ آئے درست ہیں، آج بھی کہتا ہوں صرف قطری خط گواہی نہیں ہوسکتی، قطری خط شہادت اور گواہی کے زمرے میں نہیں آتا، جب تک خط لکھنے والا گواہی نہ دے یہ خط ثبوت نہیں، عدالت میں کیس وزیراعظم کا اس معاملے میں شامل ہونا ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حسین نواز کو جائیداد وراثت میں نہیں ملی، دادا نے اپنی زندگی میں جائیداد سے حصہ دیا۔

    مریم نواز سے متعلق سوال پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ مریم نوازکی سینٹرل لندن میں کوئی جائیداد نہیں ہے، انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں درست کہا تھا کہ سینٹرل لندن میں ان کی کوئی جائیداد نہیں، مریم نوازنے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان میں بھی ان کی کوئی جائیدادنہیں ہے، قانون کے مطابق ٹرسٹی جائیداد کا مالک نہیں ہوتا،۔

    مریم نواز کے انٹرویو سے متعلق ان کے وکیل نے عدالت کو بتادیا، انہوں نے کہا کہ عدالت میں بہت کچھ کہا گیا وہ سب میڈیا پر نہیں آیا۔

    حسین نواز کے وکیل کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہماراکیس اتنا ہے کہ بغیرٹرائل کےالزام پر فیصلہ نہیں ہوسکتا، ہم دیکھیں گے کہ ٹرائل ہوگا یا گواہی کے بغیر فیصلہ سنایا جاتا ہے۔

  • پچھلے دروازے سے سیاست میں آنے کا وقت گیا، دانیال عزیز

    پچھلے دروازے سے سیاست میں آنے کا وقت گیا، دانیال عزیز

    اسلام آباد : مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز نے کہا کہ پچھلے دروازے سے سیاست میں داخل ہونے کا وقت چلا گیا،عمران خان اب بھاگنا نہیں بہادری کا مظاہرہ کرنا، قوم کو ان کی اصلی شکل پتہ چلنی چاہئے۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین احتساب کمیشن نے چوری کے ثبوت نکال لئے تھے، چوری اورکرپشن میں تحریک انصاف کے لوگ ملوث تھے، پی ٹی آئی کوپتہ چلا تو راتوں رات قانون ہی تبدیل کردیا گیا، بدعنوانی کے انکشافات پر احتساب کمیشن کاچیئرمین فارغ کردیا گیا، وہ کونسے مقدمات تھے جس پر احتساب کمیشن کو تالا لگا دیا گیا، جس چیز کو یہ ثبوت کہتے ہیں وہ ثبوت نہیں ہے۔

    دانیال عزیز نے کہا کہ حامد خان نے لسی بنانے کی ترکیب والا پورا والیم واپس لے لیا، عدالت نے کمیشن بنانے کی بات کی تو ان لوگوں نے انکار کردیا۔

    انھوں نے مزید کہا کہ آخری کمیشن بنانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے، پچھلے دروازے سے سیاست میں داخل ہونے کاوقت چلا گیا، عمران خان اب بھاگنا نہیں بہادری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا، قوم کو ان کی اصلی شکل پتہ چلنی چاہئے۔

    رہنما مسلم لیگ(ن) کا کہنا تھا کہ عمران خان اور جہانگیرترین اپنے جرم کا اعتراف کرچکے ہیں، دونوں نے کالا دھن سفید کرایا، بڑے پاک صاف بن رہے ہیں، جو پیسے جمائمہ کو دیئے گئے اس کی منی ٹریل کہاں ہے۔

    انکا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ سنا ہے اپوزیشن کہہ رہی ہے حکومتی رکن کو وزیر بنائیں، ان کو سمجھ نہیں آرہی ہے کرنا اور کہنا کیا ہے۔

  • نیب کے جواب کے بعد وزیراعظم سے تفتیش کا پہلو زمین کے چھ فٹ نیچے دفن ہو گیا، سپریم کورٹ

    نیب کے جواب کے بعد وزیراعظم سے تفتیش کا پہلو زمین کے چھ فٹ نیچے دفن ہو گیا، سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی ہوگئی ،وکیل تحریک انصاف نعیم بخاری اپنے دلائل جاری رکھیں گے، نعیم بخاری کو کل 11 بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں5رکنی بینچ پاناما کیس کی سماعت کررہا ہے، عدالت نے اٹارنی جنرل کو آج 11بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

    اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے گزشتہ روز اپیل دائر کرنے کے حوالے سے سوال پوچھا تھا، کیس کے ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے، فارن کرنسی اکاؤنٹس پر قرض لیا گیا تھا۔

    جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر کوئی اسٹوری بنائی بھی ہے تو اس پر قائم رہیں ، ہر وکیل الگ بات کر کے کنفیوژ کر دیتا ہے، بتایا گیا قطری کے پاس انوسٹمنٹ کی گئی تھی، قرض ادائیگی میں کسی فارن کرنسی اکاؤنٹ کا ذکر نہیں آیا، اٹارنی جنرل اور تمام وکلا عدالت پر رحم کریں، آپ بطور اٹارنی جنرل دلائل دیں، پارٹی نہ بنیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، اس کیس میں پارٹی نہیں ہوں، حدیبیہ پیپرز ملز کیس کو پاناما لیکس کے معاملے سے منسلک نہ کیا جائے، حدیبیہ پیپر ملز اور پاناما کیس کی نوعیت میں فرق ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نے سوال کیا کہ اگر حدیبیہ پیپرز کیس میں الزامات غلط تھے تو کیس سے کیوں کترا رہے ہیں، اگر کیس میں الزامات درست ہیں تو اس کیس کو دفن کیوں کیا گیا؟ نیب گزشتہ روز ہمارے سامنے وفات پا گیا، الزامات اگر سچ تھے تو انہیں دفنایا کیوں گیا؟ اگر الزامات غلط تھے تو ان پر انحصار کیوں کر رہے ہیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا کام عدالت کے سامنے حقائق لانا ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ جانتے ہیں کہ آپ مشکلات کا شکار ہیں، آپ اعلی پائے کے وکیل ہیں، آپ سے ویسی ہی معاونت کی توقع ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حدیبیہ کیس میں ریاست مدعی تھی،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق کی وکالت نہیں، عدالت کی معاونت کر رہا ہوں۔

    جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ ایسے معاونت کریں کہ عدالت کس حد تک جا سکتی ہے۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت نا اہلی کیلئے ریفرنس اسپیکر کو بھیجا جا سکتا ہے، اسپیکر سے فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں ہی کسی اور فورم پر جا سکتا ہے۔

    جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ متعدد مقدمات میں کہہ چکے ادارے کام نہ کر یں تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔

    پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے یوسف رضاگیلانی کیس میں نا صرف یہ کہا بلکہ انکو گھر بھی بھیجا، اگرچہ اس کیس میں 65 ملین ڈالرز واپس نہیں آئے لیکن وزیراعظم گھر چلے گئے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 63 ڈکلیریشن دینے کی اجازت نہیں دیتا۔

    جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ لگائے گئے الزام کو لیکر عدالت کہاں جائے، آپ بطور اٹارنی جنرل جواب دیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کچھ الزامات کو تسلیم کیا گیا اور دستاویزات بھی دی گئیں۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ ہمارے اداروں کا وقار بیرون ملک مجروح کیا گیا، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ادارے کام نہیں کریں گے تو ایسا تو ہوگا، آپ اداروں میں ہی سوالوں کا جواب دے دیں۔

    اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ عدالت نے اداروں کو بہت مضبوط کیا۔

    جسٹس عظمت نے کہا کہ ہم جانتے ہیں آپ ہمارے سوالوں کا جواب دیں، ہم سیدھی طرح پوچھ رہے ہیں ان الزامات کو لیکر کہاں جائیں،بڑے دنوں سے سب کے دلائل سنے صرف اس سوال کا جواب مانگ رہے ہیں، الزامات کے حوالے سے وقفے کے بعد ہی جواب دے دیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت آئین کو مد نظر رکھے آرٹیکل 62 میں عوامی عہدے کا نہیں لکھا، عدالت نے متعلقہ فورم سے متعلق سوال کیا تھا، ہر منتخب نمائندہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کا پابند ہوتا ہے، اگر اثاثے چھپائے ہوں یا غلط بیانی کی ہو تو سیشن کورٹ میں مقدمہ ہوتا ہے، مقدمے میں تین سال قید اور پانچ ہزار جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں درخواست گزار وزیراعظم کے خلاف فوجداری مقدمہ کریں، جس پر اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ میرے کہنے کا یہی مطلب ہے، وزیر اعظم کو آئین کے تحت فوجداری مقدمے میں استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا، سیشن کورٹ میں ٹرائل کرنا پڑے گا اور اس کے لیے شہادت ریکارڈ کرنا ہو گی۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نیب کے جواب کے بعد وزیراعظم سے تفتیش کا پہلو زمین میں دفن ہو گیا۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر ڈیکلریشن دے دیا گیا تو پھر تفتیش کے لیے کیا رہ جائے گا۔

    اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ کسی نے حدیبیہ پیپر ملز میں اپیل کی تو متاثرہ فریق نہ ہونے کا نقطہ نہیں اٹھاؤں گا، اپیل سے متعلق بات بطور اٹارنی جنرل آف پاکستان کر رہا ہوں‌۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ نا اہلی تو پاناما کیس کا ایک پہلو ہے، نیب نے گزشتہ روز تحقیقات کا کہا تھا، وزیر اعظم کے لیے نیب انشورنس پالیسی تھی، وزیر اعظم کا وہ دفاع کل دفن ہوگیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اصغر خان کیس میں عدالت نے ڈکلیریشن دیا تھا، کیس کا فوجداری حصہ تحقیقات کے لیے متعلقہ فورم پر بھجوایا گیا، جعلی ڈگری مقدمات بھی ڈکلیریشن کے بعد ٹرائل کے لیے بھجوائے گئے، اصغر خان کیس میں عدالت نے قرار دیا الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔

    اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ عدالت نے پوچھا ہے کہاں رجوع کیا جاسکتا ہے، کچھ حقائق غلط بیانی سے پیش کیے گئے ہیں، پہلے معاملے پر سیشن جج سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

    جسٹس عظمت نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں غلط بیانی پر فوجداری مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں وزیر اعظم کو فوجداری مقدمے سے استثنیٰ نہیں۔

    جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز عدالت نے نیب کو دیکھ لیا، تحفظ دیا جا رہا تھا، انشورنس پالیسی ہے کہ نیب دیکھے گی، چیئرمین نیب نے کہا میں نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے کر لو، مخدوم علی خان کے موکل کے پاس چیئرمین نیب کی مصدقہ انشورنس پالیسی ہے۔

    جسٹس کھوسہ نے کہا کہ فوجداری معاملے پر عدالت بغیر تحقیقات کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی۔

    جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ موجودہ چیئرمین نیب کے جواب کے بعد یہ شعر کہہ سکتے ہیں، وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے والا نکلا، چیئرمین نیب اور ایف بی آر نے جو کیا ہمارے سامنے ہے وہ کچھ کرنے کوتیار نہیں۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اصغر خان کیس میں نہ مقدمہ درج ہوا نہ کوئی تفتیش ہوئی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ سے کوئی تعاون نہیں کر رہا، معلومات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب، کیا سیشن جج ٹرائل میں یہ معاملہ حل کر لے گا؟ کون استغاثہ کرے گا اور کون شہادتیں لائے گا؟ چیئرمین نیب کے بیان کے بعد کیا یہ شخص کسی کا ٹریفک چالان بھی پکڑ سکتا ہے؟ ج

    جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ افتخار چیمہ کیس میں اس لیے نا اہل قرار دیا جائیداد ظاہر نہیں کی تھی، بےشک جائیداد حلال ذرائع سے بنائی ہو۔

    اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کی معاونت میں دلائل مکمل کر لیے۔

    چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جوابی دلائل کا آغاز کیا تو کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی ، وکیل تحریک انصاف نعیم بخاری اپنے دلائل جاری رکھیں گے جبکہ نعیم بخاری کو کل 11 بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی ہے، نعیم بخاری کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل دلائل دیں گے۔

  • عمران خان نے سب کچھ کرنا ہے تو اداروں پراخراجات کیوں کررہے ہیں،فواد چوہدری

    عمران خان نے سب کچھ کرنا ہے تو اداروں پراخراجات کیوں کررہے ہیں،فواد چوہدری

    اسلام آباد : پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ عمران خان نے سب کچھ کرنا ہے تو اداروں پراخراجات کیوں کررہے ہیں۔

    سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کیس کی سماعت کے وقفے کے دوران پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کے دلائل نوازشریف کے وکیل کی حیثیت سے تھے، بتایا گیا حدیبیہ پیپرملز کے اکاؤنٹس قرضے اتارنے کیلئے استعمال ہوئے، جج صاحب نے کہا ہم نے تو سنا تھا قطری نے سارے قرضے اتارے تھے۔

    فواد چوہدری نے کہا عمران خان نے سب کچھ کرنا ہے تو اداروں پراخراجات کیوں کررہے ہیں، پھرانوسٹی گیشن ونگ تحریک انصاف کو بنا لینے دیں، وہ کہتے ہیں عدالت کسی ایم این اے کوڈس کوالیفائی نہیں کرسکتی، وہ کہتے ہیں نااہلی کے لئے اسپیکرقومی اسمبلی کے پاس ریفرنس بھیجیں،فواد چوہدری

    انھوں نے کہا کہ اسپیکر نے ریفرنس کا کیا حال کیا تھا وہ سب نے دیکھا ہے، سرکاری اداروں میں انجمن غلامان موجود ہے، سپریم کورٹ سے کہاجارہا ہے آپ فیصلہ نہیں کرسکتے، تمام اداروں کو ایک ایک کرکے گرایا گیا ہے اور ان اداروں پردانیال عزیز اوران کی ٹیم ناچ رہی ہے۔

    رہنما تحریک انصاف کا مزید کہنا تھا کہ الزامات ہم نے نہیں بین الاقوامی ادارے نے لگائے ہیں، حکومت کہتی ہے سب کورگڑ دیں وزیراعظم کو کچھ نہ کہیں۔

    معاملہ وہیں کا وہیں ہے،سپریم کورٹ کو ہی فیصلہ کرنا پڑے گا،عارف علوی

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی نے کہا کہ اشتراوصاف نوازشریف کے وکیل کے طور پر پیش ہوئےہیں، عدالت نے اشتراوصاف سے کہا آپ ہمیں کنفیوژ نہ کریں، نوازشریف کو بچانے کیلئے 62کا آئین پیش کردیا، عدالت نے کہا ادارے تحقیقات کو تیارنہیں ،عارف علوی

    عارف علوی نے کہا نوازشریف اورانکی فیملی بہت سے ثبوت مان چکی ہے، عدالت نے کہا ہم نہیں تو کون فیصلہ کرےگا، چیئرمین نیب نے نوازشریف سے وفاداری نبھائی، معاملہ وہیں کا وہیں ہے،سپریم کورٹ کو ہی فیصلہ کرنا پڑے گا۔

  • خان صاحب چاہتے ہیں رسی اور تختہ بھی ہم لائیں اور خود لٹک جائیں،  دانیال عزیز

    خان صاحب چاہتے ہیں رسی اور تختہ بھی ہم لائیں اور خود لٹک جائیں، دانیال عزیز

    اسلام آباد : رہنمامسلم لیگ(ن)دانیال عزیز کا کہنا ہے کہ روزانہ نئے سوالات کی بھرمار ہمارے وکلا کی طرف کی جاتی ہے، خان صاحب چاہتے ہیں رسی اور تختہ بھی ہم لائیں اور خود لٹک جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت میں وقفے کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ نئے سوالات کی بھرمار ہمارے وکلا کی طرف کی جاتی ہے، روز ہمارے وکلا ہر سوال کا ایک ایک کرکے جواب دیتے ہیں، عدالت نے کہا ہے پی ٹی آئی کے دستاویزات قابل سماعت نہیں ہیں، اگر یہ دستاویزات قابل سماعت نہیں تو کن ثبوتوں پر سماعت ہورہی ہے۔

    دانیال عزیز نے کہا کہ عدالت میں جتنے کاغذات جمع کرائے گئے سب مسلم لیگ(ن) نے جمع کرائے، خان صاحب چاہتے ہیں رسی اور تختہ بھی ہم اپنا لیکر آئیں، اور خود لٹک جائیں دانیال عزیز حسین اور حسن نواز ملک سے باہر اپنا کاروبار کرتے ہیں، الیکشن کمیشن نے 2012کی منی ٹریل مانگی تو نہیں دی جارہی ہے، کبھی اسلام آباد ہائیکورٹ بھاگتے ہیں، کبھی کہیں اور بھاگتے ہیں، ہم سے 70کی دہائی کا ریکارڈ مانگتے ہیں، خود 2012کا نہیں دے رہے۔

    مسلم لیگ(ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ عمران خان پر ٹیکس چوری، کالادھن سفید کرنے کا الزام ہے، بنی گالہ جائیداد کا منروا کی ای میل سے کوئی تعلق نہیں ہے، روزلال دائرے لگا کر خوفناک میوزک چلا کر تصویر چلائی جاتی ہیں، جیسی بھی جمہوریت ہے یہ چل نکلی ہے، یہ ایک خاندان نہیں مسلم لیگ(ن)کے ہر کارکنان کے خلاف کارروائی ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ عزت اور ذلت عمران خان کے ہاتھ میں نہیں ہے، وقت نے ثابت کیا آپ قلابازی اور یوٹرن ماسٹر ہی، عمران خان نے 35پنکچر کے الزام کو ایک سیاسی بیان کہا۔

    دانیال عزیز نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان تیاری کرو، غیر ملکی فنڈنگ کا آپ کوجواب دینا ہے،عمران خان نے کالادھن سفید کرنے کی درخواست دی تو کیا یہ ٹیکس چوری کا اعتراف نہیں، مسلم لیگ(ن)کے کارکنان ایسی کارروائیوں کے درمیان سیسہ پلائی دیوار ہیں۔

    مسلم لیگ(ن) کے رہنما دانیال عزیز نے عمران خان اور جہانگیر ترین کو مباحثے کا چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ دونوں رہنما آئیں آج شام مجھ سے مباحثہ کریں، شریف خاندان کا گراف بلند اور عمران خان کا گراف گررہا ہے۔

  • معاملہ گول گول گھوم رہا ہے، جب تک نوازشریف وزیراعظم ہیں معاملے کی تحقیقات نہیں ہوسکتی، عمران خان

    معاملہ گول گول گھوم رہا ہے، جب تک نوازشریف وزیراعظم ہیں معاملے کی تحقیقات نہیں ہوسکتی، عمران خان

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ معاملہ گول گول گھوم رہا ہے، سلیم اللہ ،کلیم اللہ چل رہا ہے، شریف خاندان اب تک کوئی منی ٹریل پیش نہیں کرسکا،جب تک نوازشریف وزیراعظم ہیں معاملے کی تحقیقات نہیں ہوسکتی۔

    تفصیلات کے مطابق پاناما کیس کی سماعت ملتوی ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام ادارے نوازشریف کو بچارہے ہیں، ایف بی آر کاغذات تیارکررہا ہے، جب تک نوازشریف وزیراعظم ہیں معاملے کی تحقیقات نہیں ہوسکتی۔

    عمران خان کا کہنا تھا کہ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے ہمارے پاس کوئی دستاویز نہیں ہے، ن لیگ کے وزرا نے کہا جائیداد90کی دہائی میں خریدی گئی، قطری خط سے پتہ چلتا ہے کہانی کچھ اور ہی ہے، اب پتہ چل رہا ہے قطری نے سیٹلمنٹ کے نتیجے میں فلیٹس دیئے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا کہ نو ماہ سے کسی طرح کا ثبوت پیش نہیں کیا جارہا ہے، پاکستان میں جو دستاویزات تیار ہوسکتے ہیں وہ دیئے جارہے ہیں، باہر کی کمپنیوں میں تیار نہیں ہوسکتے تو وہ نہیں آرہے ہیں۔

    انکا مزید کہنا تھا کہ میں نے جائیداد کب، کیسے خریدی، سب منی ٹریل موجود ہے، یہ لوگ 2006کے دستاویزات بھی جمع نہیں کراسکتے ہیں، دستاویزات سے ثابت ہورہا ہے مریم نوازبینیفشل اونر ہیں، مریم کے پاس تو فلیٹس خریدنے کے لئے پیسہ نہیں تھا، اس کامطلب ہے مریم نے نوازشریف کے پیسے سے فلیٹس خریدے۔

    پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ معاملہ گول گول گھوم رہا ہے، سلیم اللہ ،کلیم اللہ چل رہا ہے، شریف خاندان اب تک کوئی منی ٹریل پیش نہیں کرسکا ہے، اصل منی ٹریل اسحاق ڈار کا اعترافی بیان ہے، پیسہ کس طرح منی لانڈرنگ کرکے بھیجا گیا،بی بی سی کی رپورٹ موجود ہے۔

    عمران خان وکیل نے کہا یہ بادشاہ ہیں اور بادشاہوں کے بادشاہوں سے تعلقات ہوتے ہیں، حسین نواز کے لئے تین فلیٹس مے فیئرز میں خریدے گئے، جب چھوٹا بھائی گیا تو شریف خاندان کے فلیٹس کی تعداد4ہوگئی۔

    انکا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے پوچھا شریف خاندان نے تحفوں کے جواب میں کیا دیا تو وکیل نے بتایا کہ یہ لوگ بزنس پارٹنرز ہیں۔ حکومت پانامامیں پھنسی ہوئی ہے، سب کرپشن بچانے میں لگے ہیں، سپریم کورٹ نے کہا ہے پاکستان کے ادارے ناکام ہوچکے ہیں، اداروں کو جو کام کرنا چاہئے تھا وہ نہیں کررہے ہیں،

    رانا ثناء اللہ کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ وزیرقانون پنجاب نے ہڑتال سے متعلق شرمناک بیان دیا ہے، راناثنا اللہ کا بیان احمقانہ ہے اس کی مذمت کرتا ہوں۔

  • سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی

    سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد:سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، جسٹس اعجاز افضل کا سوال کیا کہ مصدقہ دستاویزات آخر کون فراہم کرے گا؟

    تفصیلات کے مطابق چودہ دن بعد سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت آج پھر ہوگی، جسٹس عظمت سعید شیخ کی علالت کے باعث سماعت ملتوی ہوئی تھی، جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

    جسٹس آصف سعید کا کہنا ہے کہ جسٹس شیخ عظمت کو شفا عطا کرنے پر اللہ کے شکر گزار ہیں۔

    مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ جسٹس شیخ عظمت کو صحتیابی پر مبارکباد اور خوش آمدید کہتا ہوں۔

    سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت نے میرے سامنے کل آٹھ سوال رکھے ہیں، نہ یہ ٹرائل ہے اور نہ میرے موکل گواہ ہیں، جتنا ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق جواب دوں گا، چالیس 45 سال کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، 1999 کے مارشل لا کی وجہ سے خاندانی دستاویزات ضائع ہوگئے۔

    سلمان اکرم راجہ نے سوال کیا کہ عدالت انکوائری کے بغیر کسی نتیجے پر پہنچ سکتی۔

    سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میری رائے کے مطابق بغیر انکوائری کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکتا، وزیر اعظم کے خلاف کوئی چارج نہیں، اس لئے وزیراعظم کے بچوں کے خلاف بھی کارروائی ممکن نہیں، میرے قانونی جواب تین بنیادوں پر ہیں، اگر بچوں کو نیب کے قانون کے تحت ملزم مانا جائے تو بار ثبوت میرے موکل پر نہیں، یہ فوجداری مقدمہ نہیں اس لئے اگر حسن، حسین ملزم بھی ہیں تو انکے خلاف ثبوت نہیں۔

    ارسلان افتخار کیس کا حوالہ دیتے ہوئے سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ارسلان افتخار کیس میں عدالت کہہ چکی ہے ٹرائل متعلقہ فورم پر ہو سکتا ہے ، معاملہ تحقیقات کے لئے اداروں کو بھجوایا جاسکتا ہے، عدالت نے کبھی فوجداری مقدمات کی تحقیقات نہیں کی، آرٹیکل 10 ہر شخص کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے۔

    جسٹس کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ راجہ صاحب آپ دلائل مکمل کرنے کے بعد سوالات کے جواب دیں، جس پر عدالت میں میاں شریف اور الثانی خاندان کے تعلق کے بارے میں پوچھا گیا، نیلسن اور نیسکول کے شیئرز اور مالی فائدے کے بارے میں پوچھا گیا، ٹرسٹ ڈیڈ پر بھی سوال اٹھائے گئے اس سمیت تمام سوالات کا جواب دونگا۔

    وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ حقائق جاننے کے بعد عدالت معاملہ کسی مناسب فورم پر بھیج سکتی ہے، این آئی سی ایل اور حج کرپشن کیس میں عدالت نے دوسرے فورم سے تحقیقات کرائیں، عدالت کے پاس کمیشن بنانے کا بھی اختیار ہے، کیا عدالت 184/3 کے تحت کسی دوسری عدالت کے اختیار لے سکتی ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم کی ہے، ملکیت پر کوئی تنازع نہیں، کیا یہ وضاحت مانگی جا سکتی ہے یہ فلیٹس بچوں نے کیسے خریدے۔

    جواب میں سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ یہ فلیٹس حسین نواز نے اپنے دادا کے کاروبار سے خریدے، درخواست گزار کا موقف ہے کہ فلیٹس وزیراعظم نے غلط طریقے سے خریدے، ریکارڈ پر ایسی کسی بھی بدعنوانی کا ریکارڈ سامنے نہیں آیا، یہ نہیں کہا جاسکتا عہدے کے استعمال سے لندن فلیٹس خریدے گئے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ یہ بھی کہا گیا رحمان ملک نے اپنی رپورٹ تیار نہیں کی تھی۔

    سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ذاتی تشہیر کے لئے رحمان ملک نے رپورٹ صدر کو بھجوائی اور جاری کی، رحمان ملک نے معطلی کے دوران لندن فلیٹس کے بارے میں رپورٹ تیار کی، رحمان ملک کو سرکاری سطح پر کوئی تحقیقات نہیں سونپی گئی۔

    جسٹس اعجاز االاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ رحمان ملک نے رپورٹ میں جن اکاؤنٹس کا ذکر کیا اس سے انکار کرسکتے ہیں۔

    حسن اور حسین نواز کے وکیل نے رحمان ملک کی رپورٹ کو یکسر مسترد کر دیا، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ رپورٹ مسترد کرکے ملزمان کو بری کر چکی ہے، قانون کی نظر میں رحمان ملک کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلوں میں انٹرویو میں کہی گئی باتوں کا معاملہ ہوچکا ہے، سپریم کورٹ قرار دے چکی عوامی مفاد کے مقدمے میں کسی کو ملزم قرار نہیں دیا جاسکتا، قانون کے مطابق بنائے گئے اداروں کو ان کا کام کرنے دیا جائے۔

    سلمان اکرم نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل اور دیگر مقدمات میں دیگر اداروں سے کام لیا، سپریم کورٹ خود انکوائری نہیں کر سکتی صرف کمیشن بنائے گئے، سوال یہ ہے کیا کمیشن فوجداری مقدمے کے طرح ٹرائل کر سکتا ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا پہلے اپنے دلائل مکمل کریں ، دلائل کے اختتام پر ایسے قانونی سوالوں کے جواب دیں۔

    وکیل حسن نواز کا کہنا تھا کہ شیزی نقوی کا لندن میں بیان حلفی رحمان ملک کی رپورٹ کی بنیاد پر تھا، یہ ثابت ہے 1999 میں فلیٹس وزیر اعظم تو کیا شریف خاندان کے بھی نہیں تھے، 93 سے 96 کے دوران الثانی خاندان نے یہ فلیٹس خریدے، جنوری 2006 میں الثانی خاندان نے فلیٹ حسین نواز کے حوالے کئے، جولائی 2006 میں یہ بیریئر سرٹیفکیٹ کرکے شیئرز منروا کمپنی کو ملے۔

    جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ اس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ کب پیش کرینگے راجہ صاحب؟ آپ ادھر ادھر کی چھلانگیں لگا رہے ہیں، دستاویز ہیں تو دکھائیں، الزام یہ ہے کہ مریم نے منروا سے رابطہ کیا۔

    سلمان اکرم راجہ کا سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ منروا سروسز فلیٹس کی دیکھ بھال کرتی ہے، حقائق کے ساتھ جوا نہیں کھیلوں گا۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں معاملہ ایمانداری کا ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ قطری خاندان سے سیٹلمنٹ کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ ملے، جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے سوال کیا کہ کیا سیٹلمنٹ حماد بن جاسم سے ہوئی یا الثانی خاندان سے؟

    سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ سیٹلمنٹ محمد بن جاسم سے ہوئی، محمد بن جاسم کے بڑے بھائی 1991 اور والد جاسم 1999 میں وفات پا گئے تھے۔

    جسٹس کھوسہ نے کہا کہ محمد بن جاسم سے کمپنیوں کے سرٹیفکیٹس حسین نواز کو کیسے ملے؟ دوسرے قطری خط میں لکھا ہے یہ سرٹیفکیٹ ڈیلیورز کیے گئے، قطری خط میں نہیں لکھا سرٹیفکیٹ حسین نواز کو دئیے، اب تو ہمیں خطوط زبانی یاد ہو گئے ہیں۔

    وکیل نے بتایا کہ سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے نمائندے نے حسین نواز کے نمائندے کے حوالے کیے۔

    جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ درست ہے یا غلط ریکارڈ میں سرٹیفکیٹ حوالگی کا بتایا گیا ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ دبئی فیکٹری کے 12 ملین درہم الاثانی خاندان کے پاس پڑے رہے؟ 26 سال تک یہ پیسہ بڑھتا رہا؟ کیا اس سرمایہ کاری کا دستاویزی ثبوت موجود ہے۔

    وقفے کے بعد سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوگئی، وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل جاری ہے، سلمان اکرم راجہ کا اپنے دلائل میں کہنا ہے کہ منروا کی خدمات جنوری دو ہزار چھ کے بعد حاصل کی گئیں، جولائی دو ہزار چھ میں شیئرز منسوخ کر کے منروا کے نام پر جاری ہوئے، دو ہزار چودہ میں شیئرز ٹرسٹی سروسز کو منتقل ہو گئے، شیئرز کی منتقلی حسین نواز کی ہدایت پر کی گئی، سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ہی مالکان کا پتہ ہوتا ہے۔،

    جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ منروا سے پہلے کون سروسز فراہم کرتا تھا، جس پر  سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ  رحمان ملک رپورٹ کے مطابق کوئی دوسری کمپنی یہ سروسز فراہم کرتی تھی۔

    جسٹس گلزار نے کہا کہ اگر شیئرز سرٹیفکیٹ گم ہو جائیں تو مالک کس سے رابطہ کرے گا؟ رابطہ کرنے پرشیئر ہولڈر ہونے کا ثبوت بھی دینا ہو گا، کمپنیوں اور شیئرز کا ریکارڈ کہیں نہ کہیں تو موجود ہوتا ہی ہوگا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ لگتا ہے معاملہ ریکارڈ پر نہیں، یادداشت پر چلتا ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ منروا کمپنی کا خط بھی یادداشت پر مبنی ہے، آخر منروا سے متعلق ریکارڈ دینے میں کیا مسئلہ ہے؟

    سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ دو ہزار چودہ میں منروا کی سروسز ختم کر دی گئی تھیں، اب یہ منروا کی صوابدید ہے کہ وہ کیا ریکارڈ دیتی ہے اور کیا نہیں، کوشش کروں گا زیادہ سے زیادہ ریکارڈ دے سکوں۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ نہ تو کرمینل ٹرائل ہے نہ ہی کرمینل ٹرائل کر سکتے ہیں، سوال جواب ہوا تو پیاز کی ایک پرت کے بعد ایک سامنے آتی جائے گی، سوال یہ ہے ایسی صورت میں ہم سوالات کا سلسلہ کہاں جا کر روکیں گے، اگر سوالات کا سلسلہ جاری رہا تو یہ معاملہ کیسے نمٹے گا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ ارینا کمپنی کو منروا سے رابطے کی ہدایت کس نے کی؟ جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ حسین نواز نے ارینا کمپنی کو رابطے کی ہدایت کی ہو گی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ منروا کے جواب میں کہیں نہیں لکھا مریم نواز کے دستخط جعلی ہیں، تو سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ منروا کمپنی نے 2005کے دستاویز سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ لندن فلیٹس کو بینک کے پاس گروی رکھوایا گیا تھا، گروی رکھوانے کے دستاویزات پر کس کے دستخط تھے؟ 2008میں فلیٹس کو گروی رکھوایا گیا تھا۔

    جسٹس کھوسہ نے کہا کہ حسین نواز نے انٹرویو میں کہا تھا مورگیج کی رقم آج تک ادا کر رہے ہیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نے وکیل سلمان اکرم سے پوچھا کہ مصدقہ دستاویزات آخر کون فراہم کرے گا؟ صورتحال عجیب ہے، اصل معلومات تک رسائی کیسے ممکن ہو گی؟ درخواست گزار نے دستاویزات دینے سے معذوری ظاہر کر دی ہے، آپ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ ہم اس معاملے کو کیسے سمیٹیں؟ سلمان اکرم نے کہا کہ ٹرائل ہو رہا ہے نہ تحقیقات کہ تفتیشی افسر دستاویزات کی تصدیق کرا لائے، جو ریکارڈ دستیاب ہے عدالت کو فراہم کر دیا ہے، مزید بھی جو کچھ ممکن ہوا فراہم کریں گے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تمام دستاویزات حسین نواز ہی فراہم کر سکتے ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قطری سرمایہ کاری 26 سال الثانی خاندان کے پاس رہی، میاں شریف کی ہدایت پر الثانی خاندان بوقت ضرورت رقم بھی دیتاتھا، قطری سرمایہ کاری اور معاملات طے ہونے کا کوئی تو ریکارڈ ہوگا۔

    سلمان اکرم نے اپنے دلائل میں کہا کہ میاں شریف کی زندگی میں حسن نواز کو بزنس کے لیے قطری فنڈ دئیے گئے، جدہ مل کے لیے بھی فنڈز کا بندوبست میاں شریف نے کیا، جدہ مل 63 ملین ریال میں 2005 میں فروخت ہوئی، اتفاقی طور پر جدہ مل خریدنے والی کمپنی کا نام اتفاق تھا۔

    وکیل نے مزید کہا کہ شریف فیملی کے ساتھ صرف ایک شاہی خاندان کے تعلقات نہیں تھے، بعض وجوہات کی بنا پر دیگر شاہی خاندانوں کے نام نہیں دے سکتا، شاہی خاندان شریف فیملی کو تحائف بھی دیتے رہتے ہیں۔

    جسٹس کھوسہ نے سوال کیا کہ کیا یہ تحائف یکطرفہ ہیں یا شریف فیملی بھی تحائف دیتی ہے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا اس حوالے سے زیادہ تفصیلات کا علم نہیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شریف خاندان کا ایک بچہ لندن میں تھا، بچے کی رہائش کے لیے 4 فلیٹس کیوں لیے گئے۔

    وکیل نے بتایا کہ ممکن ہے شریف خاندان کو کوئی اوربچہ بھی لندن میں ہو، اس حوالے سے تفصیلات لے کر عدالت کو بتاؤں گا، شریف خاندان 1993 سے لندن میں مقیم ہے، صرف رہائش رکھنا ملکیت ظاہر نہیں کرتا، حسن نواز کو عزیزیہ مل کی فروخت سے بھی رقم ملی۔

    سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس عظمت سعید شیخ دل کی تکلیف کے باعث اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں کے پینل نے ان کا مکمل طبی معائنہ کیا، اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس عظمت سعید شیخ کی وین میں بلڈ کلاٹ تھا جو ختم کردیا گیا اور ان کی انجیو گرافی مکمل کرلی گئی تھی۔