Tag: panama case

  • پاناماکیس میں دفاع کے لئے شریف فیملی نے اہم دستاویزات منگوالیں

    پاناماکیس میں دفاع کے لئے شریف فیملی نے اہم دستاویزات منگوالیں

    اسلام آباد: پاناما کیس میں دفاع کے لئے شریف فیملی نے اہم دستاویزات منگوالیں، وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل نے انکشاف کیا ہے کہ دبئی، سعودی عرب اور دیگر ملکوں سے اہم ریکارڈ منگوالیا، آج یا کل سپریم کورٹ میں جمع کرادیا جائےگا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ مین پاناما جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت میں خواجہ حارث نے دلائل سمیٹے تو اسحاق ڈارکے وکیل دلائل دینے کے لئے اٹھے لیکن سپریم کورٹ نے انھیں روکتے ہوئے کہا پہلے حسن اورحسین نواز کے وکیل کو سُننا چاہتے ہیں۔

    جس پر وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ بعد میں دلائل دیں گے، کچھ اہم ریکارڈ گزشتہ رات موصول ہوا ہے جو وہ عدالت میں جمع کرانا ہے ۔

    جسٹس اعجازافضل نے مکالمے میں کہا اس کا مطلب ہے آپ کوشش کریں تو ریکارڈ مل سکتاہے، ریکارڈ جےآئی ٹی کو کیوں نہیں پیش کیا، جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ حسین نواز کے بینیفشل مالک ہونے کی دستاویزات پیش کی تھیں۔

    وکیل صفائی نے کہا کہ اہم ریکارڈ دبئی، سعودی عرب اور دیگر ملکوں سے منگوایا ہے، مزید ملکوں کے نام بتا کر میڈیا اسٹوری نہیں بنانا چاہتے۔

    عدالت نے کہا کہ شریف خاندان کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں، دستاویزات دیکھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں،جب بھی وقت مانگتے ہیں قطری خط آجاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاناما کیس، حسن اور حسین نواز کے وکیل نے آج دلائل دینے سے معذرت کرلی

    پاناما کیس، حسن اور حسین نواز کے وکیل نے آج دلائل دینے سے معذرت کرلی

    اسلام آباد : پاناما لیکس کیس میں سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت کل ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی ، وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نےدلائل مکمل جبکہ حسن اور حسین نواز کے وکیل نے سپریم کورٹ میں دلائل دینے سے معذرت کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں3 رکنی بینچ پاناما عملدرآمد کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد تیسری سماعت کررہا ہے، وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے خواجہ حارث ایڈووکیٹ جے آئی ٹی کے اعتراضات پر دلائل دے رہے ہیں۔

    خواجہ حارث کا اپنے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم نے گوشواروں میں آمدن اوراثاثوں کی تفصیلات دیں، وزیراعظم سے کسی اثاثے کے بارے میں سوال نہیں کیا گیا، جے آئی ٹی میں پیشی تک کوئی اور اثاثہ تھا ہی نہیں، جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا تو سوال ضرور کرتی، رشتے داروں نے جائیداد چھپائی نہ وزیراعظم کی بے نامی جائیداد ہے.

    دوران سماعت خواجہ حارث نے وزیراعظم کا جےآئی ٹی کو دیا گیا بیان پڑھ کر سنایا، دلائل کے دوران خواجہ حارث نے نیب آرڈیننس5اے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی اثاثے سے فائدہ اٹھانے والا کسی صورت ملزم نہیں ہوسکتا، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ قانون میں اثاثوں اور آمدن کے ذرائع کا تذکرہ ہے، قانون میں اسے ملزم بنانے کا ذکر ہے جس کے قبضے میں اثاثے ہوں۔

     نوازشریف پر نیب کے سیکشن5اے کا اطلاق نہیں ہوتا، خواجہ حارث 

    جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اثاثے جس کے زیراستعمال ہوں وہ بھی بے نامی دار ہوسکتا ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جس نیب قانون کا حوالہ دیا وہ کیس سے مطابقت نہیں رکھتا، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف پر نیب کے سیکشن5اے کا اطلاق نہیں ہوتا، کسی کے گھر میں جاکر اس کے گھر سے متعلق نہیں پوچھا جاسکتا۔

    سماعت میں جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آمدنی ایک کروڑاورجائیداد 5کروڑکی بنائی ہو تو کیا کہیں گے، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ قبضے والی جائیداد آمدن سے زائد ہو تو اس پر جواب دینا ہوتا ہے، جےآئی ٹی نے وزیر اعظم پر جائیداد بچوں کے نام رکھنے کا الزام لگایا، بچوں کی جائیدادیں بے نامی دار کیسے ہوسکتی ہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نے استفسار کیا کہ کسی جائیداد کا قبضہ اور اس کا فائدہ اٹھانا2الگ چیزیں ہیں، وکیل وزیراعظم نے کہا کہ قانون کی روسے دونوں الگ چیزیں ہیں، احتساب کا قانون جائیداد پر رہنے والے پر لاگو نہیں ہوتا، جس پر جسٹس شیخ عظمت نے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں دوسرے گھر میں رہنے والا ملزم نہیں بن سکتا؟ زیر استعمال ہونا اور بات ہے، اثاثہ سے فائدہ اٹھانا الگ بات ہے، آپ کے مطابق کسی کے گھر رہنے والے پر نیب قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔

    پاناما کیس کی سماعت میں جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ مہینوں سےسن رہےہیں،فلیٹ ملکیت کےعلاوہ سب واضح ہیں، کیس میں سوال 1993سے اثاثے زیر استعمال ہونے کا ہے، قانون میں زیراستعمال پوزیشن کالفظ استعمال ہوا ہے، گزشتہ روزآپ نےحدیبیہ پیپرملز سےمتعلق سوال اٹھایا حدیبیہ پیپرملز کیس کھولنے سے متعلق آپ کا نکتہ نوٹ کرلیا، آپ کے زیادہ تر دلائل بار بار ہوئے تھے، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ کیس کی نوعیت مختلف ہے، اثاثے وزیراعظم کے نام نہیں، آج عدالت کازیادہ وقت نہیں لوں گا۔

    وکیل وزیراعظم نے دلائل میں مزید کہا کہ مزید ایسی دستاویزات نہیں نوازشریف لندن فلیٹ کےمالک ہیں، کوئی اوردستاویزاورگواہ بھی موجود نہیں، ثابت نہیں ہوانوازشریف کےفلیٹس بےنامی دارکے زیر استعمال رہے، جس پر جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لگتا ہے بےنامی دارکی تعریف لکھتے وقت نیب قانون میں غلطی ہوئی، اس کیس کے تمام پہلوہم پر واضح ہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت کا کہنا تھا کہ بے نامی دار کی تعریف ہم سب جانتے ہیں اور مانتے بھی ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نےکہا فلیٹس خاندان کےہیں نوازشریف کے نہیں، التوفیق کیس کا حوالہ دے کر فلیٹس شریف خاندان کے ظاہر کیے گئے، میاں شریف ہی اپنی زندگی میں تمام معاملات دیکھتے تھے، جےآئی ٹی نے کہا کس کو کتنا شیئر ملا فیصلہ میاں شریف کا تھا، وزیراعظم کے2 بچے حدیبیہ ملز میں حصہ دار تھے۔

    لندن فلیٹس کب اور کیسے خریدے گئے، لندن فلیٹس کاپیسہ کہاں سےآیا اور کس نےدیا؟ جسٹس اعجازالاحسن

    دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ بنیادی سوال تھا لندن فلیٹس کب اور کیسے خریدے گئے، لندن فلیٹس کاپیسہ کہاں سےآیا اور کس نےدیا؟ پیسہ قطر میں یا سعودی عرب میں تھا، مختلف مؤقف آئے، بنیادی سوال منی ٹریل کاہےوہ کہاں پر ہے؟ بنیادی سوال کا جواب مل جائے تو بات ختم ہوجائے گی، میاں شریف نے فنڈز کہاں سے اور کیسےمنتقل کیے، وزیراعظم کوعلم تھا وہ اسمبلی میں کیا کہہ رہے ہیں؟ وزیراعظم نے خود کہا تھا میں بتاؤں گا کہاں سے فلیٹس لیے۔

    وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کا کسی ٹرانزیکشن سےکوئی تعلق نہیں، جےآئی ٹی نے لندن فلیٹس سے متعلق غلط نتائج مرتب کیےہیں، کیا وزیراعظم ان اثاثوں کیلئے جواب دہ ہیں جوان کے نہیں؟ وزیراعظم کی تقریر سے انکار نہیں کررہا، وزیراعظم کا ذاتی طور پر ان معاملات سے تعلق نہیں، خاندان کے دوسرے افراد کی طرح جو معلومات تھیں وہ شیئر کیں، جب 1993-95 تک بچے وزیراعظم کے زیر کفالت تھے۔

    رپورٹ کے والیم10میں خطرناک دستاویزات موجود ہیں، جسٹس اعجازالاحسن

    جسٹس اعجازالاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ رپورٹ کے والیم10میں خطرناک دستاویزات موجود ہیں، میرا اشارہ ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق ہے، جس پر خواجی آصف نے کہا کہ وزیراعظم سے جےآئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق پوچھا تھا، وزیراعظم نے کہا تھا تفصیلات کاعلم نہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق نتائج مرتب کیے ہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے قیاس آرائیوں پر مبنی نتائج مرتب کیے ہیں، والیم4پرکچھ بات کرونگا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ والیم4سے محتاط رہیں،اس میں بھی خطرناک دستاویزہیں، والیم4میں ٹرسٹ ڈیڈ پر بات ہوئی کچھ نتائج اخذ کیے گئے، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا سیٹلمنٹ ہوئی تھی، تفصیلات کاعلم نہیں، لندن فلیٹ سے وزیر اعظم کوجوڑنےکی بات قیاس آرائی ہے، لندن فلیٹ سے وزیراعظم کو جوڑنے کے کوئی شواہد دستاویز نہیں، جے آئی ٹی نےفلیٹس وزیراعظم نہیں فریق سے منسلک کیے ہیں، دوسرے فریق سے منسوب کرنا نتیجہ بھی قابل اعتراض ہے۔

    جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نواز شریف کافلیٹس سے تعلق نہیں ایسے کوئی کاغذات ہیں، ایسے کاغذات حسن اور حسین نواز کے پاس ریکارڈ پر ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ وزیر اعظم لندن فلیٹس کےمالک نہیں ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حسین نواز کہتے ہیں وہ بینیفشل اونر ہیں ایسا ہے تو ثبوت دیں، ہمارے پاس جو کاغذات آئے ، ان میں مریم بینیفشل اونر ہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے واضح طور پر کہا فلیٹس شریف خاندان کے ہیں، یہ دیکھنا ہوگا اگر رائے بھی ہے تو کن دستاویزات کی بنیاد پر ہے، حسن حسین نےفلیٹس والد کی طرف سے زیراستعمال رکھے، اگرایسا ہے تو کیا کوئی دستاویزات ہیں؟ کسی اور کی طرف سےفلیٹس رکھے تھے تو وہ کون ہیں؟ آپ سےٹھوس اور واضح جواب مانگ رہے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ یہ سوال توعدالت نے جےآئی ٹی سے پوچھاتھ، آپ دستاویزات نہیں دینگے تو جےآئی ٹی کہاں سےلائی گی۔

     دستاویزات کے مطابق مریم نوازبینیفشل اونرہیں، جسٹس اعجازالاحسن

    جسٹس اعجازالاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حسین نواز نے اپنے بینفیشل اونر ہونے کا ثبوت نہیں دیا، دستاویزات کے مطابق مریم نوازبینیفشل اونرہیں، فلیٹس میاں شریف کے تھے تو کچھ تو نوازشریف کو ملا ہوگا، فلیٹس کی ملکیت چھپانے کیلئے متعددآف شورکمپنیاں بنائی گئیں، وزیراعظم نے کیوں کہا تھا تمام دستاویزات موجود ہیں۔

    وکیل وزیراعظم نے دلائل میں کہا کہ جو دستاویزات موجود تھے فراہم کردئیےہیں، جن معاملات سے وزیراعظم کا تعلق نہیں وہ کیوں اور کہاں سے دیتے، جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آف شورکمپنیاں دوسری کمپنیوں سے سروسزلے رہی ہیں، یہ سروسزکس کودی جا رہی ہیں معلوم نہیں، کس کے نام ہیں اور پیسے کس نے دیئے کوئی نہیں بتارہا، ہمیں کوئی کاغذات نہیں دکھا رہا، یہ تو ہے کہ88فیصد منافع وزیراعظم کو دیا گیا، جسٹس اعجازالاحسن نے مزید کہا کہ ایک بلین17کروڑروپے دیئےگئے۔

     حسین نواز نے اپنے والد کو پیسے بھیجے، سب چیزیں موجود ہیں آنکھیں بند نہیں کریں گے، جسٹس شیخ عظمت سعید 

    خواجہ حارث نے کہا کہ ہل میٹل حسین نواز کی کمپنی ہے جو کہ خودمختارہے، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ حسین نواز نے اپنے والد کو پیسے بھیجے، سب چیزیں موجود ہیں آنکھیں بند نہیں کریں گے، خواجہ حارث نے مزید کہا کہ وزیراعظم قطری سرمایہ کاری سے بھی فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں، وزیراعظم کا لندن فلیٹس سے تعلق ثابت نہیں ہوتا، کوئی دستاویزات یا زبانی بیان نوازشریف کو مالک ظاہرنہیں کرتا۔

    جسٹس شیخ عظمت نے سوال کیا وزیراعظم کے علاوہ کوئی مالک ہے یہ دستاویزات موجودنہیں؟ باربارکہہ چکے منروا کیساتھ سروس دینے کا معاہدہ سامنے نہیں آیا، امید ہے آپ ہمارا سوال سمجھ رہے ہیں، بےنامی دارمیں جائیداد خریداری اور فائدہ اٹھانے والےکو دیکھا جاتا ہے، پوچھ پوچھ کرتھک گئے ہیں مالک کون ہے کوئی نہیں بتارہا۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ بتایا تو ہے لیکن کوئی ماننے کو تیارنہیں، جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ ہل میٹل سے نوازشریف کو88فیصدمنافع ملا، ہل میٹل کا پیسہ کہاں سے آیا، حسن حسین نواز کے وکیل بتائیں گے، خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نوازہل میٹل کے مالک اور خود مختارشہری ہیں تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا اسی بات پرآنکھیں بندنہیں کریں گے، خواجہ حارث نے کہا ہل میٹل نوازشریف کی کمپنی نہیں ہے، حسین نوازبے نامی دار ہے نہ وزیراعظم کے زیرکفالت ہیں۔

    خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں، کرپشن کے شواہد کے بغیر نیب کو بھی معاملہ نہیں ارسال کیا جاسکتا، عدالت کو کافی محتاط ہونا ہوگا، جس پر جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ دیکھنا ہے بادی النظر میں وزیراعظم کے خلاف کیس بنتا ہے، شواہدغیرمتنازع ہوں توعدالت ماضی میں بھی فیصلہ دے چکی ہے، دیکھناہوگا فیصلہ خود کرنا ہے یا معاملہ ٹرائل کورٹ بھیجنا کرنا ہے، آپ کو اپنے تمام پتے دکھاناچاہیئیں تھے۔

    سپریم کورٹ نے اسحاق ڈارکے وکیل کو دلائل دینے سے روک دیا ہے اور کہا کہ پہلے حسن اور حسین نواز کے وکیل کو سننا چاہتے ہیں۔

      وزیراعظم کے صاحبزادوں حسن اور حسین کے وکیل کی دلائل دینے معذرت

    وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کر لئے، اس کے بعد سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے صاحبزادوں حسن اور حسین کے وکیل کو دلائل دینے کیلئے کہا تو سلمان اکرم راجہ نے آج دلائل دینے سے معذرت کرتے ہوئے کہاکہ میں اپنے دلائل کل دوں گا۔

    سلمان اکرم راجہ نے کہا بینی فشل مالک سے متعلق دستاویزات پیش کروں گا، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا ہم ان دستاویزات کودیکھنا اور پڑھناچاہتے ہیں، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا دستاویزات آج شام تک آپ کے چیمبر میں پیش کردوں گا ابھی ریکارڈ دے کرمیڈیا میں خبرنہیں بنانا چاہتا، حسین نواز پر جے آئی ٹی نے سنگین الزامات لگائے سنگین الزامات پر ریکارڈ حاصل کرنا پڑا۔

    اسحاق ڈار کے وکیل کے دلائل

    اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کوشش کروں گا اپنے دلائل جلد از جلد مکمل کروں، جے آئی ٹی رپورٹ کواسحاق ڈارکے وکیل نے میڈیا فرینڈلی قرار دے دیا، رپورٹ کی خاصیت یہ ہے کہ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے، تمام صفحات کو جے آئی ٹی نے بطور شواہد پیش کرنے کی کوشش کی، اسحاق ڈار سے متعلق فائنڈنگ حقائق کےخلاف ہیں، اسحاق ڈار کو بلاوجہ کیس میں گھسیٹاگیا، اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی کو تمام تفصیلات فراہم کیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جے آئی ٹی نے جو کیا ٹرائل کے مرحلے سے گزرےگا، آپ چاہیں تو جے آئی ٹی رپورٹ کو غلط ثابت کر سکتے ہیں، اگر ٹرائل ہوا تو آپ کو دفاع کا پورا موقع ملےگا، لازمی نہیں جے آئی ٹی کی فائنڈنگ درست ہوں، جے آئی ٹی کوعدالتی اختیارات نہیں دیئے تھے، جے آئی ٹی نے صرف ڈیٹا اکٹھا کیاہے ، اسحاق ڈار کو صفائی کا موقع ملے گا، سپریم کورٹ صفائی کا موقع دینے کا فورم نہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی نے نہیں عدالت نےحتمی فیصلہ کرنا ہے، جے آئی ٹی نے کچھ نہ کچھ تونتائج دینےہی تھے، ڈیٹا اکٹھا کرکے جے آئی ٹی خاموش تونہیں بیٹھ سکتی، جس پر وکیل اسحاق ڈار طارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نےمینڈیٹ سے تجاوز کیا، جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کے پاس تیاری کیلئے بہت وقت تھا، امید ہےآپ زیادہ وقت نہیں لیں گے، آپ وہی معلومات دیناچاہتےہیں جتنی ماضی میں دی تھیں۔

    وکیل طارق حسن نے کہا کہ میں یہ آبزرویشن واپس نہیں کرنا چاہتا، جسٹس شیخ عظمت کا کہنا تھا کہ واپس کربھی دیں تو یہ واپس آپ کے پاس ہی آئیں گی، کیا اسحاق ڈار پر ٹیکس گوشوارے نہ دینے کا الزام تھا، جس پر طارق حسن نے کہا کہ جےآئی ٹی نے فائنڈنگز میں گوشوارے نہ دینے کا الزام لگایا۔

    جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ عمران خان کی درخواست میں اسحاق ڈار کےخلاف کیا الزام تھا، جس پر طارق حسن نے کہا کہ اسحاق ڈارکے خلاف براہ راست کوئی الزام نہیں تھا، جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ اسحاق ڈار پر سنجیدہ نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے تھے، اسحاق ڈار کے وکیل نے مزید کہا کہ اسحاق ڈار پر جےآئی ٹی نےٹیکس چوری اور اثاثےچھپانےکا الزام لگایا، جے آئی ٹی نے02-2001کے گوشوارے نہ دینے کا الزام لگایا، اسحاق ڈار پر اپنی ٹرسٹ کو خیرات دینے کا بھی الزام لگایا گیا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا جےآئی ٹی نے اسحاق ڈارکےخلاف سفارش کی ہے، جسٹس شیخ عظمت نے بھی سوال کیا کہ کیا ایف بی آر نے ٹیکس گوشوارے جے آئی ٹی کو فراہم نہیں کیے، ایف بی آر نے جے آئی ٹی کو پہلے ریکارڈ کیوں نہیں دیا، ایف بی آر کے پاس بعد میں ریکارڈ کہاں سےآیا؟ ایف بی آر اسحاق ڈارکی وزارت کے بھی ماتحت ہے، ریکارڈ نیب نے واپس کیا تو ریکوری میمو ضرور بنایا ہوگا، نیب نے اصل ریکاڈ دیا ہے یا فوٹو کاپی دی ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نے مزید ریمارکس میں کہا کہ چیئرمین ایف بی آر نے کہا تھا 95فیصد ریکارڈ فراہم کردیا، کیا2 افراد95فیصد شادی شدہ ہوسکتے ہیں؟ کیا نیب نے تسلیم کیا دستاویزات انہوں نے دئیےہیں، کوئی خط وکتابت ہے تو سامنےلائیں، ایف بی آر نے پہلے کہا ریکارڈ نہیں مل رہا، اچانک ریکارڈ ملا اور نیب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا،جسٹس شیخ عظمت

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ گوشوارے ٹریس نہ ہونے کا مطلب گم ہونا یا فائل نہ ہونا ہے، کیا آپ نے ریکارڈ اپنے اعتراضات کے ساتھ جمع کرایا،عدالت کو صرف آڈٹ رپورٹس دی گئی ہیں، جسٹس اعجاز افضل نے مزید کہا کہ عدالت کوکم از کم ریکارڈ فراہم کرنا چاہیے تھا۔

    طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ جےآئی ٹی نے اسحاق ڈار کو کیس میں گھسیٹنے کی کوشش کی، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اسحاق ڈار کا کنکشن آپ کو میں بتا دیتا ہوں، گلف اسٹیل ملز میں اسحاق ڈاراور بیٹے کا نام درج ہے، ہل میٹل سے بھی اسحاق ڈار کا کنکشن موجود ہے، اسحاق ڈار نے بیان حلفی کے ذریعے معافی مانگی، بیان حلفی کے ذریعے کئی ٹرانزیکشنز کاعلم ہوا، معاملہ ٹرائل کی طرف گیا تو آپ کو پورا موقع ملےگا، ٹرائل میں آپ اپنا مؤقف درست ثابت کرسکتے ہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار ملزم تھے اور مبینہ طور پر اعترافی بیان دیا، مبینہ اعترافی بیان پر اسحاق ڈارکو معافی ملی،اسحاق ڈار بعدازاں اعترافی بیان سے منحرف ہوگئے، جب ریفرنس خارج ہوا اسحاق ڈار فریق تھے نہ ملزم، جس پر اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ اعترافی بیان دوران حراست لیاگیا تھا، وہ معاملہ ختم ہوچکا دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا، اس نکتے پر میری تیاری بھی نہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کو وسیع مینڈیٹ دیا گیا تھا، جے آئی ٹی نیب ایف آئی اے کے ریکارڈ کا جائزہ لے سکتی تھی، جےآئی ٹی کی فائنڈنگز کوئی انہونی بات نہیں تھی، جسٹس اعجازافضل نے مزید کہا کہ اعترافی بیان واپس لینےکےبعدمعافی بھی ختم ہوگئی،دوبارہ ملزم بننے پر کیا اسحاق ڈارکے خلاف کارروائی ہوئی؟

    جسٹس شیخ عظمت کا کہنا ہے کہ حدیبیہ ملز کا جےآئی ٹی نے جائزہ تو لینا ہی تھا، قانون کےمطابق حدیبہ ملزکاجائزہ کسی حد تک لیاجاسکتا تھا،جےآئی ٹی کا حکم عبوری تھا،حتمی آپ کوسن کردیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 1993-94 میں 9ملین تھےاور پھراچانک854ملین ہوگئے، جےآئی ٹی کی آنکھیں کھولنے کیلئے یہ ریکارڈ کافی تھا، اسحاق ڈار اور بیٹے کے درمیان بھاری تحائف کا تبادلہ ہوا۔

    جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اسحاق ڈار کا ٹرائل ہوا نہ عدالت سے بری ہوئے، اسحاق ڈار حدیبیہ ملز میں شریک ملزم سے وعدہ معاف گواہ بنے، اعترافی بیان سے منحرف ہوکر معافی بھی ختم ہوجاتی ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ درخواستگزاروں نےاسحاق ڈار کو نااہل کرنے کا کہا تھا، 3اپریل کے فیصلے کے وقت نااہلی کیلئے ٹھوس مؤقف نہیں تھا، تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کو معاملہ بجھوایا تھا، جےآئی ٹی کے مواد پر عدالت اپنا فیصلہ سنائےگی۔

    اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے مؤقف اپنایا کہ نیب نے فائل بند کردی ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا چیئرمین نیب کو اپیل کرنےکی ہدایت نہیں کی تھی، ہل میٹل سےاسحاق ڈار کے بیٹے کو رقم منتقل ہوئی، آپ کو سارا تعلق اور کنکشن واضح طور پر بتا دیا ہے، اسحاق ڈار شارٹ کٹ ڈھونڈ رہے ہیں تو نہیں ملےگا، سپریم کورٹ کوئی شارٹ کٹ نہیں دے سکتی، معاملے پر شواہد پر مبنی سماعت کی ضرورت ہے، سماعت ہوئی تو آپ کو پورا موقع ملے گا۔

    وکیل طارق حسن نے کہا کہ اسحاق ڈارکا سارے کیس سے تعلق نہیں، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا سارے معاملے پرآنکھیں بند کرلیں۔

    اسحاق ڈارکی جانب سے ٹیکس ماہراشفاق تولہ عدالت میں پیش کیا گیا، جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ آپ کوتمام ریکارڈعدالت میں جمع کرانا چاہیے تھا، دلائل کی سمری سے لگتا ہے آپ نےنہیں لکھی، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دلائل کیساتھ متعلقہ دستاویزات بھی ضروری ہے، متعلقہ حکام کے سامنے ریکارڈ پیش کرنا ضروری تھا، جس پر اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ کل تمام ریکارڈ جمع کرادیں گے۔

    جسٹس شیخ عظمت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ریکارڈرکھنےاوردینےوالے گواہ کو بھی سننا پڑے گا، ممکن ہے آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن ثابت تو کریں، آرٹیکل 10اے کے تحت پورا موقع دینا چاہتےہیں، وکیل طارق حسن نے کہا کہ جےآئی ٹی نے بدنیتی کامظاہرہ کیا، جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ کوئی نئی بات تو کریں، آپ کے خلاف درخواست مسترد کی تھی اور نہ ہی منظور کی، حقائق اور قانون کو مدنظر رکھ کر چلنا ہے، تفتیشی رپورٹ پر ٹرائل کورٹ میں کبھی اعتراض ہوا ہے؟ آپ کو پھر بھی ہم نے صفائی کا موقع دیا ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اسحاق ڈار کے پاس جےآئی ٹی کیلئے بہت معلومات تھیں، اسحاق ڈار نے بیرون ملک کمائی ظاہر کرنے سے انکار کیا، آپ سے ذرائع آمدن پوچھے تو استحقاق مانگ لیا، تحائف کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرکے کہا گیاوائٹ منی ہے، استحقاق کے پیچھے چھپنےکی کوشش کیوں کی گئی؟ جس پر طارق حسن نے کہا کہ تمام تفصیلات جواب میں فراہم کردی ہیں، جے آئی ٹی میں اپنے مؤکل کے بیان کو چیلنج کر رہا ہوں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں جےآئی ٹی کو بیان آپ نےنہیں دیا،طارق حسن کا کہنا تھا کہ اعجازالاحسن میرےکہنے کا مطلب یہ نہیں تھا۔

    جسٹس اعجازافضل کا کہنا تھا کہ ریکارڈنگ موجود ہے، عدالت تصدیق بھی کرسکتی ہے ، اثاثے ظاہر نہیں کرنے تو اسحاق ڈارکے پاس راستہ ہے؟ جےآئی ٹی کی طرح عدالت کے رویے پر بھی اعتراض ہے؟ اسحاق ڈارکےوکیل طارق حسن نے کہا کہ عدالت کے رویے پر کوئی اعتراض نہیں، جےآئی ٹی نے اسحاق ڈار کو مجرم کیوں تصور کیا؟ جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ اسحاق ڈارکسی عدالت سے بری نہیں ہوئے تھے، یہ تو ہوگیا کوئی اور دلیل ہے تو پیش کریں۔

    طارق حسن نے کہا کہ نیب نے اسحاق ڈار کو کلیئر قراردیا تھا، یہ کیس دوبارہ ٹرائل کی طرف جارہا ہے، جو نہیں ہوسکتا، خود کو عدالت میں معذورمحسوس کر رہا ہوں،جسٹس اعجازافضل نے سوال کیا کہ اسحاق ڈار کا ہل میٹل کےقیام میں کوئی کردار نہیں تھا؟ ہل میٹل کیس کا اہم ترین حصہ ہے، اسحاق ڈار نے کچھ نہیں کیا تو آپ پریشان کیوں ہیں؟ نعیم بخاری کہتے ہیں کیس وکیل نہیں موکل ہراتا ہے، طارق حسن آپ دستاویزات جمع کرادیں ہم دیکھ لیں گے، طارق حسن کا کہنا تھا کہ خیرات کے نام پر کوئی ٹیکس چوری نہیں کی۔

    سپریم کورٹ میں جےآئی ٹی رپورٹ پرسماعت کل صبح ساڑھے9بجے تک ملتوی کردی۔


    مزید پڑھیں :  رپورٹ اورشواہد کےبعد فیصلہ کریں گے معاملہ نیب کوبھیجیں یانااہلی کافیصلہ کریں‘ سپریم کورٹ


    گذشتہ روز سماعت میں خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتراضات اٹھائے تھے، وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا جے آئی ٹی کی رپورٹ پر کارروائی ٹرائل کورٹ میں ہوسکتی ہے، سپریم کورٹ اس کا فیصلہ براہ راست نہیں کرسکتی۔

    عدالت نے ریمارکس دیئے تھے کہ مزید کارروائی ٹرائل کورٹ میں یا سپریم کورٹ میں اس کا فیصلہ رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ گذشتہ سماعتوں میں تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کی جانب سے دلائل مکمل ہو چکے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاناما کیس: حکومتی وزراء نے مجھے خریدنے کی کوشش کی، حامد میر

    پاناما کیس: حکومتی وزراء نے مجھے خریدنے کی کوشش کی، حامد میر

    اسلام آباد : سینئیرصحافی اوراینکر پرسن حامد میر نےدعویٰ کیا ہے کہ پانامہ کیس میں سوال اٹھانے پر حکومتی وزیروں نے انہیں خریدنے کی کوشش کی۔

    اس بات کا انکشاف انہوں نے مقامی اخبار میں لکھے گئے ایک کالم میں کیا، حامد میر نےاپنے کالم میں مزید لکھا ہے کہ پانامہ کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ آنے سے پہلے کچھ سوالات اٹھائے تو جواب دینے کی بجائے انہیں خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔

    اس کے بعد مزید سوالات اٹھانا شروع کئے تو پھر جو ہوا وہ ایک لمبی کہانی ہے، غیروں سے شکوہ نہیں لیکن اپنوں نے بھی ستم ڈھائے۔

    حامد میر نے مزید لکھا کہ خرید و فروخت کی یہ منڈی ان لوگوں نے سجائی جنہیں درباری کہا جاتا ہے اورجنہیں چوہدری نثار خوشامدی مشیر قرار دیتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایک صحافی کا منہ بند کرنے کے لئے اتنے حربے آزمائے جاسکتے ہیں تو سوچئے جے آئی ٹی ا رکان کو قابو کرنے کے لئے کیا کچھ نہ ہوا ہوگا؟

    حامد میر نے یہ بھی لکھا ہے کہ جے آئی ٹی ارکان نے بساط سے بڑھ کر کام کیا اور توقع سے زیادہ ہمت دکھائی۔ اور ہاں! انہیں غیبی مدد بھی ملی۔ یہ غیبی مدد شریف خاندان کے اندر سے ملی۔

    جے آئی ٹی کو شریف خاندان کے اندر سے ایسی دستاویزات اور اطلاعات مل گئیں جن کے طشت ازبام ہونے کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، حامد میر نےآج کے کالم میں دو شعر بھی لکھے کہ۔۔۔۔۔

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
    لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

    اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
    اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

  • شریف خاندان کے خلاف مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا جائے،شیخ رشید

    شریف خاندان کے خلاف مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا جائے،شیخ رشید

    اسلام آبا د: عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں جعلی دستاویزات پیش کیےگئے، شریف خاندان کے خلاف مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پاناماعملدرآمد کیس کی سماعت میں عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید کے دھواں دھار دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں جعلی دستاویزات پیش کیے گئے، مریم نوازبنیفیشل مالک ثابت ہوگئیں ہیں، شریف خاندان کے خلاف مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا جائے۔

    شیخ رشید نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ثابت کیا ملک میں ایماندار لوگوں کی کمی نہیں، رپورٹ میں مزید آف شور کمپنیاں نکل آئیں، وزیراعظم کے بیرون ملک نوکری کرنے کے انکشاف سے قوم کی ناک کٹ گئی ہے، بے نامیوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے، ساراخاندان ہی بےنامیوں کا ٹبر ہے، ایک بچے کو سعودی عرب، ایک کولندن میں بے نامی رکھا گیا ہے۔

    انھوں نے مزید دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد اب کیس میں کیا رہ گیاہے، جےآئی ٹی کو عدالت نے نیب اور ایف آئی اے کے اختیارات بھی دئیے، بہت سےلوگوں نےجےآئی ٹی کوجن قراردیا، 60دن میں تھانے سے چالان بھی نہیں آتا، نوازشریف نےلندن فلیٹ کےباہرکھڑے ہوکر پریس کانفرنس کی، مریم نواز بینفشل اونر ثابت ہوگئی ہیں، جس عمر میں ہمارا شناختی کارڈ نہیں بنتا انکے بچے 800کروڑ بنا لیتےہیں۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ شیخ سعید اور سیف الرحمان نواز شریف کے فرنٹ مین ہیں، شیخ سعید نوازشریف کےساتھ ہرعرب ملک کی میٹنگ میں ہوتے تھے، میٹنگزمیں پاکستانی سفیروں کوبھی اجازت نہیں ہوتی تھی، نوازشریف کا تنخواہ لینا یا نہ لینا معنی نہیں رکھتا، معاملہ عزت کاہے۔

    شیخ رشید نے دلائل میں کہا کہ پہلےآنسوختم نہیں ہوئے تھے کہ نیاجنازہ آگیا، راولپنڈی میں لوگ فیصلے کے انتظارمیں سو نہیں رہے، عدالت نے 20افراد کو اثاثے چھپانے پر نااہل قرار دیا، پی ٹی وی کاخاکروب18ہزار، وزیراعظم 5ہزار انکم ٹیکس دیتا ہے،شیخ رشید
    1500ریال لینے والے کیپٹن(ر)صفدر کے بھی12مربع نکل آئے۔

    انکا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ اقتدارمیں آکرہی سارا کاروبار شروع کیاگیا، حسن اورحسین نوازکا2000 تک کوئی کاروبار نہیں تھا، صدرنیشنل بینک نےتسلیم کیاوہ جعل سازی کرتےہوئےپکڑے گئے تھے۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اڑھائی گھنٹے بعد خالو کو پہچاننے سے انکارکرے اس پر کیا بھروسہ کیاجاسکتاہے، شریف خاندان کی ہائی جیکنگ کے علاوہ کسی چیز کا ٹرائل نہیں ہوا، ہیلی کاپٹر کیس میں قطری شہزادہ آگیا تھا، لگتا ہے ہیلی کاپٹر بھی اتفاق فاؤنڈری میں ڈال دیا گیا تھا۔

    انھوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ووٹ نہیں لینے نہ وہ سیاسی جماعت ہے، تمام ججز کو سلیوٹ کرتا ہوں، نااہلی کا اس سے بہترکوئی کیس نہیں، عدالت نے نااہل نہیں کرنا تو باقی نااہل کو بھی بحال کردے، قوم عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے، مثالی سزا دیں۔

    شیخ رشید نے عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی پر اعتراضات کا جواب دینے کا موقع ملنا چاہیے، شریف خاندان دبئی اور دیگرممالک کےچکرلگارہےہیں اگر کیس نیب کو بھیجا گیا تو وہاں بھی جے آئی ٹی بنائی جائے، جےآئی ٹی کے سپرسکس اور ججز کو قوم کی خدمت کا اجرملےگا، انشااللہ انصاف جیتے گا اور پاکستان کامیاب ہوگا۔

    دوران سماعت شیخ رشید جذباتی ہو گئے معزز جج کو جناب اسپکر کہہ گئے۔ لیکن فوراً تصیح کرلی اور کہا کہ معذرت کرتا ہوں مجھے اسمبلی میں بولنے نہیں دیتے ۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جماعت اسلامی کے وکیل کی نوازشریف کونااہل قراردے کر معاملہ ٹرائل کے لئے بھجوانے کی درخواست

    جماعت اسلامی کے وکیل کی نوازشریف کونااہل قراردے کر معاملہ ٹرائل کے لئے بھجوانے کی درخواست

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے نوازشریف کونااہل قراردے کر معاملہ ٹرائل کے لئے بھجوانے کی استدعا کردی۔

    تفصیلات کے مطابق پاناما کیس کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل میں کہا کہ نعیم بخاری رپورٹ کی سمری سےآگاہ کرچکے ہیں، نوازشریف نے جے آئی ٹی سے کہا قطری سرمایہ کاری کا علم ہے لیکن یاد نہیں، نوازشریف نے قطری خطوط پڑھے بغیر درست قرار دئیے۔

    توفیق آصف کا کہنا تھا نوازشریف نے اسمبلی اورقوم سے خطابات میں سچ نہیں بولا، میری درخواست نوازشریف کی تقاریرکے گرد گھومتی ہے، جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق نوازشریف نے تعاون نہیں کیا، بادی النظرمیں نوازشریف صادق اورامین نہیں رہے ، جےآئی ٹی کے مطابق نوازشریف نےاپنے خالو کو پہچاننے سے انکار کیا۔

    جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ رپورٹ ہم نے بھی پڑھی ہے، آپ سے رپورٹ پردلائل مانگے ہیں ، جس پر توفیق آصف کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی کی رپورٹ کی مکمل حمایت کرتےہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگ سارا پاکستان جان چکا ہے، جے آئی ٹی فائنڈنگ کے پابند نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ پرعمل کیوں کریں آپ کو بتانا ہے، جسٹس شیخ عظمت نے اپنے ریمارکس میں کہا اپنے اختیارات کا کس حد تک استعمال کرسکتے ہیں، یہ بتائیں، جے آئی ٹی سفارشات پر کس حد تک عمل کرسکتے ہیں، یہ بتائیں؟

    توفیق آصف نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ دے کرمعاملہ ٹرائل کیلئے بجھوائے، بادی النظرمیں وزیراعظم صادق اورامین نہیں رہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بادی النظرکامطلب صادق اورامین پرسوالات اٹھ سکتےہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاناما عمل درآمد کیس ، پی ٹی آئی کے وکیل کی عدالت سے نوازشریف کو طلب کرنے کی استدعا

    پاناما عمل درآمد کیس ، پی ٹی آئی کے وکیل کی عدالت سے نوازشریف کو طلب کرنے کی استدعا

    اسلام آباد : پاناما عمل درآمد کیس میں پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت سے نوازشریف کو طلب کرنےکی استدعا کردی جبکہ شریف خاندان اور اسحاق ڈار نےجے آئی ٹی رپورٹ پراعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرادیئے، عدالتی وقت ختم ہونے پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر پہلی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جاری ہے ،شریف خاندان نےجے آئی ٹی رپورٹ پراعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرادیئے، شریف فیملی کی جانب سے وکیل خواجہ حارث نےدرخواست سپریم کورٹ میں جمع کرائی، جو 10 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔

    شریف خاندان نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم پر مینڈیٹ سے تجاوزکا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے دوران تفتیش ٹیم کارویہ جانبدارنہ اور غیرمنصفانہ رہا، شریف فیملی جےآئی ٹی رپورٹ کو مسترد کرتی ہے۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تحقیقات اور رپورٹ مرتب کرتے ہوئے قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے، جے آئی ٹی سے متعلق ہمارے تحفظات سنے جائیں، جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے فراہم کردہ 13 سوالات سے زیادہ سوالات پر تفتیش کی ، اس لیے جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کیا جائے۔

    وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات پر مبنی جواب جمع


    دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی اپنا جواب سپریم کورٹ میں داخل کردیا گیا ہے، جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات پر مبنی جواب رجسٹرار آفس میں جمع کرایا گیا۔

    وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا جواب اعتراضات پر مبنی ہے جس میں جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کیا گیا ہے، جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کی فائڈنگز عدالت کی جانب سے دیئے گئے مینڈیٹ سے متجاوز ہیں۔ آئینی پٹیشن اور عدالتی حکم میں ان کی دولت یا آمدن کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا، صرف یہی نکتہ جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کرنے کیلئے کافی ہے۔

    اسحاق ڈار نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ان کے اور ان کی اہلیہ سے متعلق ٹیکس کی تفتیش نیب کر چکا ہے ، خیرات کو ٹیکس چوری قرار دینا افسوس ناک ہے، اسحاق ڈار کا کہنا ہے آمدنی اور دولت کے حوالے سے سوال نہیں کیا گیا، اس طرح انہیں جے آئی ٹی کے تحفظات دور کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

    پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل کا آغاز


    بعد ازاں پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر عدالت نے فیصلہ کرنا ہے، دعویٰ کیا گیا تھا گلف اسٹیل 33ملین درہم میں فروخت ہوئی، جےآئی ٹی نے طارق شفیع کے بیان حلفی کو گمراہ کن، جھوٹا قرار دیا ، 14 اپریل 1990کے معاہدے کو جے ائی ٹی نے خود ساختہ قرار دیا۔

    نعیم بخاری نے مزید کہا کہ معاہدے میں طارق شفیع کی نمائندگی شہبازشریف نے کی تھی، جے آئی ٹی نے یواےای میں قانونی معاونت حاصل کی، طارق شفیع اور حسین نواز کے بیانات میں تضاد پایا گیا، شہباز شریف نے خود کو معاملے سے ہی الگ کرلیا، جے آئی ٹی نے 12 ملین درہم کی قطری سرمایہ کاری کو افسانہ قرار دیا ہے۔

    کمرہ عدالت میں شور کے باعث ججز کوسماعت میں مشکلات پر جسٹس اعجاز افضل برہم ہوگئے اور کہا کہ ایس پی صاحب عدالت میں شور کیوں ہورہاہے، کمرہ عدالت میں کیا ہورہا ہے ، خاموشی اختیار کی جائے۔

    وکیل نعیم بخاری کہا کہ جے آئی ٹی نے لندن فلیٹ کو مریم نواز کی ملکیت قرار دیا، جے آئی ٹی رپورٹ میں وراثتی تقسیم میں لندن فلیٹ کا کوئی ذکر نہیں، قطری سرمایہ کاری کا ذکر وزیراعظم نے قوم ،اسمبلی سے خطاب میں نہیں کیا۔

    جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ شہباز شریف بطورگواہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے، شہباز شریف کا بیان صرف تضاد کی نشاہدہی کیلئے استعمال ہوسکتا ہے، بیان کا جائزہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت لیا جاسکتا ہے، قانونی حدود کو مدنظر رکھ کا فیصلہ کرنا ہے، جس پر پی ٹی آئی وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ نااہل کرنیوالے ججز سے اتفاق کرنا ہے یا نہیں، یہ فیصلہ عدالت کریگی، قطری ورک شیٹ پرتاریخ تھی نہ ریئل اسٹیٹ بزنس سے تعلق تھا۔

    جسٹس شیخ عظمت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حدیبیہ پیپر ملزکی اصل دستاویزات سربمہرہیں، نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حدیبیہ پیپر ملزکیس کے فیصلےمیں قطری خاندان کا ذکر نہیں، جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ قطری کا ذکرہونا ضروری نہیں تھا

    وکیل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان یکارڈ کرانے کیلئے 4خطوط لکھے، جےآئی ٹی نے کہا قطری شہزادہ پاکستانی قانون ماننے کیلئے تیارنہیں، قطری شہزادے نےعدالتی دائرہ اختیار پر بھی سوال اٹھائے، ہل میٹل کا معاملہ ہم نے نہیں اٹھایاتھا، 20اپریل کےعدالتی فیصلے سے ہل میٹل کا معاملہ سامنے آیا تھا۔

    تحریک انصاف کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ سعودی حکومت نے قانونی معاونت کیلئے لکھے خط کاجواب نہیں دیا، جے آئی ٹی نے قانونی فرم کے ذریعےکچھ دستاویزات حاصل کیں، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیاوہ دستاویزات تصدیق شدہ ہیں؟

    جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ دستاویزات تصدیق شدہ نہیں لیکن جےآئی ٹی نے درست مانا، نوازشریف نےعزیزیہ اسٹیل ملز کی فروخت کی دستاویزات نہیں دی، جے آئی ٹی نے قراردیا ہل میٹل عزیزیہ ملزکی فروخت سے نہیں بنی، جے آئی ٹی نےقراردیا عزیزیہ ملز42ملین ریال میں فروخت ہوئی۔

    پاناماعملدرآمدکیس، وزیراعظم نوازشریف ایف زیڈای کمپنی پرسوالات زیربحث


    سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت نے سوال کیا کہ ایف زیڈای کی دستاویزات ذرائع سے ملیں یاقانونی معاونت کے تحت؟ جس کے جواب میں نعیم بخاری نے کہا کہ ایف زیڈای کی دستاویزات قانونی معاونت کے تحت آئیں، کمپنی نے نوازشریف کا اقامہ بھی فراہم کیا۔

    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ ایف زیڈ ای کی دستاویزات جےآئی ٹی خط کےجواب میں ملیں، جس پر وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ایف زیڈای کمپنی حسن نوازکے مطابق 2014 میں ختم کردی گئی، نوازشریف ایف زیڈ ای کمپنی کےبورڈآف ڈائریکٹرز کے چیئرمین تھے۔

    سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا نوازشریف نےکبھی تنخواہ وصول کی ؟ ریکارڈ کے مطابق کچھ نہ کچھ تنخواہ ملتی رہی، ریکارڈ سے یہ بھی واضح ہے ہر ماہ تنخواہ نہیں ملتی تھی، نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی تنخواہ10 ہزار ریال تھی، دستاویزات پر نوازشریف کے دستخط بھی موجودہیں۔

    بینچ میں شامل جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کیا دستاویزات قانون کےمطابق پاکستان لائے گئے ہیں، نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ دستاویزات سےمتعلق جواب جےآئی ٹی ہی دے سکتی ہے، جس پرجسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ دستاویزات جےآئی ٹی کےخط کے جواب میں آئیں توٹھیک ہے۔

    نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی نے یو اے ای حکومت کو 7بارخطوط لکھے، یو اےای کی وزارت قانون نے 4خطوط کاجواب دیا، یو اےای حکومت کولکھے گئے خطوط والیم10میں ہوں گے، جس پر جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ضرورت پڑنے پر والیم10کوبھی کھول کردیکھیں گے۔

    سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع


    جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قطری خط بوگس اور اس حوالے سے بنائی گئی کہانی خود ساختہ ہے۔

    وکیل نعیم بخاری نے دلائل میں کہا حسن اور حسین نواز کے بیان میں تضاد ہے، حسن نوازنے کہا 2006سےپہلے برطانیہ رقوم کی منتقلی کا علم نہیں تھا، قطری خط اورورک شیٹ خودساختہ اوربوگس ہے، جس پر جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ قطری خطوط بوگس ہیں یاان کے حوالے سے کہانی بنائی گئی۔

    نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ میرے حساب سے دونوں ہی بوگس ہیں، جے آئی ٹی کے مطابق برطانیہ کی تمام کمپنیاں خسارے میں چل رہی ہیں، کمپنیوں کا خسارہ 10ملین پاؤنڈ سے بھی زیادہ ہے، جے آئی ٹی نے کہا حسن نواز فنڈز کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے، جے آئی ٹی نے کمپنیوں کے درمیان فنڈز ٹرانسفر کا بھی جائزہ لیا جس پر جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس میں کہا نااہلی کا فیصلہ اقلیت کا تھا ، جے آئی ٹی اکثریت نے بنائی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا جے آئی ٹی نے بتایا کہ فنڈز کہاں سے آئے؟ نعیم بخاری کا جواب میں کہنا تھا کہ جےآئی ٹی نے کہا حسن نواز کے پاس کاروبار کیلئے پیسےنہیں تھے، جےآئی ٹی نے کہا حسن نواز کے اثاثے آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، شریف خاندان کےخلاف مقدمات1991سےزیرالتواہیں، 9 مقدمات میں لکھا ہے تحقیقات ابھی تک جاری ہیں۔

    نعیم بخاری نے مزید کہا کہ تحقیقات کہاں جاری ہیں یہ نہیں بتایاگیا، جےآئی ٹی نےتمام مقدمات سےمتعلق سفارشات بھی کی ہیں، جےآئی ٹی نے شریف خاندان کےتمام ارکان کےاثاثوں کاجائزہ لیا، اسحاق ڈار اور کیپٹن(ر)صفدر کے اثاثوں کا بھی جائزہ لیاگیا، اسحاق ڈارکے اثاثے بھی آمدن سے زائد قرار دئیےگئے، لندن فلیٹ کی مالک مریم نواز ثابت ہوگئی ہیں، قطری خطوط کو بھی افسانہ قراردیا گیا، عدالت نے قطری خطوط کے حقیقی یاافسانہ ہونے کا پوچھا تھا۔

    وکیل پی ٹی آئی نے شریف خاندان نےجعلی دستاویزات پیش کیں، جعلی دستاویزات پیش کرنے پر فوجداری مقدمہ بنتا ہے، جس پر جسٹس اعجازافضل نے استفسار کیا کہ بینفشرمالک ہونے کا فرق نوازشریف کو پڑسکتا ہے؟ فرق تب پڑے گا جب مریم والد کے زیر کفالت ثابت ہوں گی، جے آئی ٹی دستاویزات کےذرائع کیاہیں؟ ذرائع جانے بغیر کیا دستاویزات کو درست قرار دیا جاسکتا ہے، دیکھنا ہوگا دستاویزات قانون کے مطابق پاکستان منتقل ہوئیں۔

    نعیم بخاری نے عدالت سے نوازشریف کو طلب کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ شریف خاندان کاتمام دفاع ناکام ہوگیا۔

    جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل


    پاناما کیس کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل میں کہا کہ نعیم بخاری رپورٹ کی سمری سےآگاہ کرچکے ہیں، نوازشریف نے جے آئی ٹی سے کہا قطری سرمایہ کاری کا علم ہے لیکن یاد نہیں، نوازشریف نے قطری خطوط پڑھے بغیر درست قرار دئیے۔

    توفیق آصف کا کہنا تھا نوازشریف نے اسمبلی اورقوم سے خطابات میں سچ نہیں بولا، میری درخواست نوازشریف کی تقاریرکے گرد گھومتی ہے، جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق نوازشریف نے تعاون نہیں کیا، بادی النظرمیں نوازشریف صادق اورامین نہیں رہے ، جےآئی ٹی کے مطابق نوازشریف نےاپنے خالو کو پہچاننے سے انکار کیا۔

    جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ رپورٹ ہم نے بھی پڑھی ہے، آپ سے رپورٹ پردلائل مانگے ہیں ، جس پر توفیق آصف کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی کی رپورٹ کی مکمل حمایت کرتےہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگ سارا پاکستان جان چکا ہے، جے آئی ٹی فائنڈنگ کے پابند نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ پرعمل کیوں کریں آپ کو بتانا ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نے اپنے ریمارکس میں کہا اپنے اختیارات کا کس حد تک استعمال کرسکتے ہیں، یہ بتائیں، جے آئی ٹی سفارشات پر کس حد تک عمل کرسکتے ہیں، یہ بتائیں؟

    توفیق آصف نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ دے کرمعاملہ ٹرائل کیلئے بجھوائے، بادی النظرمیں وزیراعظم صادق اورامین نہیں رہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بادی النظرکامطلب صادق اورامین پرسوالات اٹھ سکتے ہیں۔

    شیخ رشید کے دھواں دھار دلائل


    سپریم کورٹ میں پاناماعملدرآمد کیس کی سماعت میں عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید کے دھواں دھار دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں جعلی دستاویزات پیش کیے گئے، مریم نوازبنیفیشل مالک ثابت ہوگئیں ہیں، شریف خاندان کے خلاف مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا جائے۔

    شیخ رشید نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ثابت کیا ملک میں ایماندار لوگوں کی کمی نہیں، رپورٹ میں مزید آف شور کمپنیاں نکل آئیں، وزیراعظم کے بیرون ملک نوکری کرنے کے انکشاف سے قوم کی ناک کٹ گئی ہے، بے نامیوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے، ساراخاندان ہی بےنامیوں کا ٹبر ہے، ایک بچے کو سعودی عرب، ایک کولندن میں بے نامی رکھا گیا ہے

    وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل


    شیخ رشید کے بعد وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  جےآئی ٹی سےمتعلق2 درخواستیں دائرکی ہیں، ایک درخواست رپورٹ کی جلد10کی فراہمی کیلئےہے، دوسری درخواست میں جےآئی ٹی پراعتراضات درج ہیں، عدالت کے سامنے اپنی گزارشات پیش کروں گا،خواجہ حارث

    خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ  دستاویزات اکھٹی کرنے میں جےآئی ٹی نےقانون کی خلاف ورزی کی، جےآئی ٹی نےاپنےاختیارات سےتجاوزکیا، جےآئی ٹی کی دستاویزات کو ثبوت تسلیم نہیں کیا جاسکتا، عدالت جےآئی ٹی رپورٹ اوردرخواستیں خارج کرے۔

    جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس میں کہا اپنے دلائل کوایشوزتک محدود رکھیں آسانی ہوگی، چاہتے ہیں عدالت اور قوم کاوقت ضائع نہ ہو۔

    وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ  جےآئی ٹی رپورٹ ٹھوس شواہدکی بنیادپرنہیں، رپورٹ قانون اورحقائق کےخلاف ہے رپورٹ کی بنیاد پر ریفرنس دائر نہیں کیا جاسکتا، جوکام عدالت نے کرنا ہے وہ جےآئی ٹی نے کیا ہے، جس پر جسٹس اعجازافضل کا کہنا تھا کہ  الزامات اس نوعیت کے تھے کہ تحقیقات کرانا پڑیں، جے آئی ٹی ٹرائل نہیں کر رہی تھی، اپنے الفاظ کا استعمال احتیاط سے کریں۔

    جماعت اسلامی کے وکیل ، شیخ رشید اور وزیراعظم کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالتی وقت ختم ہونے پر سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔

    واضح رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقت کیلئے بنائی گئی جے آئی ٹی نے تحقیقات مکمل  کرکے  10جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی، جس پر عدالت عظمیٰ نے سماعت کے لیے 17 جولائی کی تاریخ مقرر کی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ پرسماعت آج ہوگی

    پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ پرسماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آج پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت ہوگی، درخواست گزار اور فریقین اپنے دلائل پیش کریں گے، سپریم کورٹ کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پانامہ جےآئی ٹی کی رپورٹ کے بعد دوسرا راؤنڈ شروع ہونے کو ہے۔ سپریم کورٹ میں آج بڑے کیس کی سماعت ہوگی، جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں پانامہ عملدر آمد بینچ آج جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت کرے گا۔

    بینچ کی جانب سے درخواست گزاروں اور فریقین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اپنے دلائل دیں گے۔ کیس سے متعلق پہلے سے دیئے گئے دلائل قابل قبول نہیں ہونگے۔

    یاد رہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ پیش ہونے کے بعد ساٹھ روز تک پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کو تحلیل کردیا گیا تھا۔

    علاوہ ازیں عدالت نے لیگی رہنماؤں کے جے آئی ٹی مخالف بیانات کا ریکارڈ بھی طلب کیا تھا، وزیراعظم نوازشریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کی جانب سے جے آئی ٹی اور عدلیہ کی توہین سے متعلق درخواستوں کی سماعت بھی یہی تین رکنی بنچ کرے گا۔

    سپریم کورٹ کے اطراف سخت حفاظتی انتظامات کر لیے گئے

    پولیس حکام کے مطابق سپریم کورٹ اور ریڈ زون کو علی الصبح سیل کردیاجائے گا، عمارت کے اطراف اضافی خاردار تاریں بھی لگا دی گئیں ہیں، سپریم کورٹ،ریڈ زون میں دو ہزاراہلکارسیکورٹی پرمامور ہونگے۔

    اس موقع پر پولیس کے ساتھ رینجرز کےاہلکار بھی تعینات ہونگے جبکہ اضافی نفری تھانہ سیکریٹریٹ اور تھانہ آبپارہ میں اسٹینڈ بائی رہے گی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ غیرمتعلقہ افراد کا ریڈ زون اور سپریم کورٹ میں داخلہ بند ہوگا جبکہ وکلاءاور میڈیا کے نمائندے عمارت میں داخل ہو سکیں گے۔


    مزید پڑھیں: ن لیگ کی جے آئی ٹی رپورٹ چیلنج کرنے کیلئے درخواست تیار


    واضح رہے کہ  پاناما جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد تحریک انصاف سمیت اپوزیشن جماعتوں نے نوازشریف سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کررکھا ہے ۔

    دوسری جانب مسلم لیگ ن نے جے آئی ٹی رپورٹ کو مضحکہ خیز اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ نوازشریف نے بھی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے مستعفیٰ نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

  • وزیراعظم استعفیٰ نہ دیں حالات کا ڈٹ کرمقابلہ کریں، میرحاصل بزنجو

    وزیراعظم استعفیٰ نہ دیں حالات کا ڈٹ کرمقابلہ کریں، میرحاصل بزنجو

    کراچی: نیشنل پارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ میرحاصل بزنجو نے کہا ہے کہ پانامہ کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ بد دیانتی پر مبنی ہے، وزیر اعظم نوازشریف استعفیٰ نہ دیں اورحالات کا ڈٹ کرمقابلہ کریں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی میں مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما شاہ محمد شاہ کی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    حاصل بزنجو نے کہا کہ کچھ قوتیں اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور یہ وہی قوتیں ہیں جو وزیر اعظم نواز شریف کیخلاف سازشیں کر رہی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ18ویں ترمیم کو رول بیک نہیں ہونے دینگے اس وقت پاکستان کیخلاف نئی پالیسیاں بن رہی ہیں، ملک کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار کھرے انسان ہیں وہ نواز شریف کا ہمیشہ ساتھ دیں گے، سب نواز شریف کو چھوڑ سکتے ہیں لیکن چودھری نثار نہیں۔

     انہوں نے کہا کہ پاناما کرپشن کا نہیں سیاسی کیس ہے اس لیے جے آئی ٹی رپورٹ بد نیتی پر مبنی ہے جو نواز شریف پر کرپشن کا ایک دھیلا بھی ثابت نہیں کر سکی، ایسی جے آئی ٹی سے تو نااہل ہی ہونا ہے، اب صادق اور امین کے مطلب ہی بدل چکے ہیں اگر مطلب سمجھ آجائے تو سب نااہل ہوجائیں گے۔

    ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے یقین دلایا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کریں گے، ملک میں جمہوریت کو خطرہ ہوا تو بہت بڑا نقصان ہوگا۔

    میر حاصل بزنجو نے کہا کہ چند پارٹیوں کے علاوہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں نواز شریف کے ساتھ ہیں وزیر اعظم پارلیمنٹ کی بالا دستی کیلئے ڈٹے ہوئے ہیں۔

  • عدالتی فیصلے سے سی پیک یا جمہوریت پرکوئی اثر نہیں پڑے گا، خورشید شاہ

    عدالتی فیصلے سے سی پیک یا جمہوریت پرکوئی اثر نہیں پڑے گا، خورشید شاہ

    سکھر : قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ قبل از وقت الیکشن کےحامی نہیں، چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرے، پاناما کیس کے حکومت مخالف فیصلے سے سی پیک منصوبے یا جمہوریت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے سکھر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، خورشید شاہ نے کہا کہ کل حکومت پانامہ کیس میں عدالت سے مزید وقت مانگے گی، میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ وزیر اعظم کو عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس کو ایک ہفتے کے اندر اندر ختم ہوتے دیکھ رہا ہوں، کیس پر حتمی فیصلے کیلئے زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ یا دس دن چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سب جماعتوں کو ماننا ہوگا۔

    حکومت مخالف فیصلے سے سی پیک منصوبے یا جمہوریت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، ہم نے پہلے بھی جمہوریت اور پارلیمنٹ کوبچانے کی کوشش کی اور آج بھی کررہے ہیں۔

    اپوزیشن لیڈر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جے آئی ٹی میں نواز شریف اپنا دفاع نہیں کر سکے، شریف خاندان منی ٹریل سامنے نہیں لا سکا اور اب جے آئی ٹی رپورٹ کو متنازع بنایاجارہاہے۔

    جے یو آئی ف کے سربراہ کےحوالے سے ان کا کہنا تھا کہ فضل الرحمان کے آصف زرداری سے متعلق بیان پر حیران ہوں، فضل الرحمان آصف زرداری کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھا چکے ہیں۔

    خورشید شاہ نے کہا کہ اب پی ٹی آئی کی وکٹیں بھی گر رہی ہیں، آخری میچ ہے دیکھتے ہیں کون جیتتا ہے، البتہ مجھے پانامہ لیکس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردارنظرنہیں آ رہا۔

  • پاناماجے آئی ٹی پیشیوں پر خرچے اور پروٹوکول، پی ٹی آئی نے وزیراعظم سے جواب مانگ لیا

    پاناماجے آئی ٹی پیشیوں پر خرچے اور پروٹوکول، پی ٹی آئی نے وزیراعظم سے جواب مانگ لیا

    اسلام آباد : تحریک انصاف نے وزیراعظم نوازشریف سے پاناما جے آئی ٹی پیشیوں پر خرچے اور پروٹوکول سے متعلق جواب مانگ لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے وزیراعظم نوازشریف سے جے آئی ٹی میں پیشی اور پروٹوکول پر اخراجات کی تفصیلات مانگ لیں، پی ٹی آئی کی جانب سے وزیر اعظم کو خط لکھا، جس میں پوچھا گیا کہ الزامات کی تفتیش کیلئے پیشیاں تھیں یا سرکاری دورے؟کس مد میں لاکھوں خرچ کئے؟

    خط میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شریف خاندان کے تمام افراد جے آئی ٹی میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے؟مریم نواز کے پروٹوکول پر لاکھوں روپےخرچ ہوئے، کیا آئین پاکستان قومی دولت کے ایسے ذاتی استعمال کی اجازت دیتا ہے؟

    خط میں مزید انکشاف کیا گیا ہے وزیراعظم نوازشریف نے تین سال میں باراک اوباما سے زیادہ بیرون مل کے دورے کئے، بیرون ملک دوروں پرقومی خزانے سےتقریباً 137.8ملین خرچ ہوئے، کیا آپ یہ پیسہ واپس قومی خزانے میں جمع کرایا؟

    پی ٹی آئی نے اکیس دن میں سوالات کا جواب مانگتے ہوئے معاملے پر سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔