Tag: panama JIT report

  • رپورٹ اورشواہد کےبعد فیصلہ کریں گے معاملہ نیب کوبھیجیں یانااہلی کافیصلہ کریں‘ سپریم کورٹ

    رپورٹ اورشواہد کےبعد فیصلہ کریں گے معاملہ نیب کوبھیجیں یانااہلی کافیصلہ کریں‘ سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ پرسماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کےمطابق جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اورجسٹس اعجازالاحسن پرمشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی عمل درآمد بینچ نے پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ پرسماعت کی۔

    پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت کےآغازپروزیراعظم میاں محمدنوازشریف کےوکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل دیے۔

    وزیراعظم کےوکیل خواجہ حارث نے20اپریل کاسپریم کورٹ کا حکم پڑھ کرسنایا کہ عدالت نےجےآئی ٹی کو کیامینڈیٹ دیاتھا۔انہوں نےکہاکہ بتاؤں گاعدالت نےکس قسم کی تحقیقات جےآئی ٹی کوسونپی تھیں۔

    انہوں نےکہاکہ جےآئی ٹی نےسرمایہ بیرون ملک جانے کی تحقیقات کیں جبکہ 20 اپریل کےفیصلےمیں تحقیقات کی سمت کا تعین کیا گیا تھا۔

    وزیراعظم کے وکیل نےدلائل کےدوران کہاکہ عدالت کےفیصلےمیں 13سوالات کیےگئے تھے،سوالات گلف اسٹیل، جدہ اسٹیل،لندن فلیٹس اورقطری خط سےمتعلق تھے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ قطری خط کے درست یاغلط ہونے پرسوال کیاگیاتھا،بیئریرسرٹیفکیٹ کےبارےمیں پوچھا گیا۔انہوں نےکہاکہ فلیٹ کی خریداری کےطریقےکارکےبارےمیں پوچھاگیاتھا۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ بیٹوں نےوزیراعظم کوتحائف کیسے دیےیہ سوالات کیےگئےتھے۔ انہوں نےکہاکہ نیب اورایف آئی اے میں مختلف نوعیت کےمقدمات زیرالتواء تھے۔

    انہوں نےکہاکہ جے آئی ٹی نے13 سوالات کےبجائے 15کردیے،جےآئی ٹی نےآمدن سےزائد اثاثوں کابھی سوال بنا دیا۔ جس پرجسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ مزیدجائیداد کی نشاندہی کرناکیاجےآئی ٹی کامینڈیٹ نہیں تھا؟ ۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ جومقدمات ختم ہوچکےتھےان کی جانچ پڑتال بھی کی گئی،انہوں نےکہاکہ ایک کیس جس کا فیصلہ ہوچکا، اس کودوبارہ کھولنےکا نہیں کیا گیا۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ حدیبہ پیپرملزکی اپیل دائر کرنے کی کیا استدعا کی گئی تھی، جس پروزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ 13سوالات کی روشنی حدیبیہ پیپرملزدوبارہ نہیں کھولاجاسکتا۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ میری یادداشت کےمطابق لندن فلیٹ پہلےبھی مقدمات کا حصہ رہےجس پرخواجہ حارث نےکہاکہ ختم مقدمات کو دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ تمام مقدمات کا ایک دوسرے سے تعلق تھا،انہوں نےکہاکہ ان معاملا ت کاتعلق لندن فلیٹ سےہوتوکیا کیا جائے۔جس پرخواجہ حارث نےکہاکہ جائزہ لیناالگ بات اورازسرنوتفتیش کرنا الگ بات ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ التوفیق کیس پر عدالت کا فیصلہ موجود ہے،انہوں نےکہاکہ اسحاق ڈار کا بیان التوفیق کمپنی سےمنسلک ہے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ جےآئی ٹی اپنی تجاویز اورسفارشات دے سکتی تھی،انہوں نےکہاکہ جےآئی ٹی نےجو بہترسمجھا اس کی سفارش کردی۔

    انہوں نےکہاکہ سفارش پرعمل کرنا ہےیانہیں، فیصلہ عدالت نےکرناہے،عدالت نےاپنےمرتب سوالوں کےجواب دیکھنا ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ تمام مواد کا جائزہ لیے بغیرتحقیقات آگےنہیں بڑھ سکتی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ منی ٹریل آج تک ایک راز ہے،لندن فلیٹ کی منی ٹریل کا جائزہ لینا ہوگا،جس پروزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ رپورٹ پرفیصلہ ٹرائل کورٹ کرسکتی ہے سپریم کورٹ نہیں۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ سپریم کورٹ تب فیصلہ کرےگی جن ٹرائل کورٹ کےفیصلےپراعتراض ہو۔ جسٹس عظمت نےکہاکہ 17سال پہلےکیس کاجائزہ لیاجاتاتوچیئرمین نیب یہاں نہ ہوتے۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ کیا چیئرمین نیب ٹی وی نہیں دیکھتے؟اخبار نہیں پڑھتے۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی نےکسی قسم کا فیصلہ جاری نہیں کیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی نےسفارشات دیں فیصلہ عدالت کرےگی ،جس پرخواجہ حارث نےکہاکہ جےآئی ٹی کا مینڈیٹ یہ نہیں تھا کہ وہ سفارشات دے۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ یک طرفہ طورپرنہیں ہوسکتیں،تحقیقات خفیہ طورپرنہیں ہوسکتیں،انہوں نےکہاکہ تحقیقات قانون اورعدالت کےحکم کےمطابق ہی ہوسکتی ہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ رپورٹ کےکسی ایک حصےکو درست یا غلط کیسےقرار دے دیں،جس پرخواجہ حارث نےکہاکہ جےآئی ٹی کوحدیبیہ پیپرملز کھولنے کی سفارش کا اختیار نہیں تھا۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ آپ کی بات ہم نےسن لی اورنوٹ بھی کرلی،جس پروزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ شریف خاندان کےخلاف مقدمات کی تمام تفصیلات طلب کی گئیں۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ چیئرمین نیب کوکہاگیامقدمات پراپنی رائے دیں، جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ جے آئی ٹی نےسفارش کردی تو کیا برا کیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن جےآئی ٹی نےصرف سفارش کی ہےحکم نہیں دیا،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ جےآئی ٹی سفارش سے زیادہ عدالت کا حکم اہم ہوگا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ آپ کہتے ہیں ہم کو پوچھا نہیں گیا ،سوالات کےجوابات میں کہا گیا کہ میں نہیں جانتا۔ انہوں نےکہاکہ تمام افراد کوجواب، دستاویز،منی ٹریل کےلیےواضح موقع دیاگیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی سےحقائق چھپائے گئے،انہوں نےکہاکہ جےآئی ٹی سوالات کےجواب میں کہا گیا ہمیں معلوم نہیں ہے۔ جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ آپ نےاپنےجواب میں دستاویزات کی تردید نہیں کی۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ ہماری درخواست قانونی نکات پرہے،جے آئی ٹی کی رائےکی قانون میں کوئی نظیرنہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ ہم نے جے آئی ٹی کی رائے نہیں میٹیریل دیکھنا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ وزیراعظم سے لندن فلیٹ سےمتعلق پوچھا گیا،انہوں نےکہاکہ لندن فلیٹ شاید حسین نواز کا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ ہم آپ کو وہ بتارہےجووزیراعظم اوربچوں نےجےآئی ٹی میں کہا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جب ہربات کی تردید ہوتوجےآئی ٹی کوکیاکرناچاہیےتھا،وزیراعظم سے پوچھا توکہا یاد نہیں شاید ریکارڈ اسپیکرکو دیا ہو۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وزیراعظم نےخط قطری نہ دیکھنے کا موقف اپنایا،جس پروزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ ہمیں کوئی دستایزات نہیں دکھائی گئیں۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ وزیراعظم توکہتے رہےہمیں معلوم ہی کچھ نہیں،جس پر خواجہ حارث نےکہاکہ 1995سے وزیراعظم کاروبار سے لاتعلق ہوگئےتھے۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ وزیراعظم کی تنخواہ والےمعاملے پرابھی بات نہیں کروں گا،انہوں نے کہا میرے ذرائع آمدن گوشواروں میں موجود ہیں۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ وزیراعظم نےکہا ان کےاوراثاثے ہیں توسامنےلائیں،وزیراعظم سے ایف زیڈکمپنی سے متعلق سوال نہیں کیاگیا۔جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ کہا جاتا ہے کہ گھر میں ہر بات ہوتی ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ صرف کہا گیا لندن فلیٹس کس کی ملکیت ہےعلم نہیں،وزیراعظم نےکہا فلیٹس حسن یاحسین کی ملکیت ہیں۔ خواجہ حارث نےکہاکہ جے آئی ٹی کی تحقیقات شفاف نہیں،وزیراعظم سے دستاویزات پر موقف نہیں لیا گیا۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ عدالت ایسی رپورٹ پر حکم ہی نہیں جاری کرسکتی،انہوں نےکہاکہ جے آئی ٹی نے کہا 27 ملین وزیراعظم کو پارٹی سے واپس ملے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ وزیراعظم سے یہ سوال پوچھا ہی نہیں گیا، انہوں نےکہاکہ ریکارڈ کے مطابق 100 ملین نہیں،145ملین پارٹی کودیاگیا۔

    وزیراعظم کے وکیل نےکہاکہ 45ملین روپےقرضہ تھا،100 ملین چندہ دیا گیا،انہوں نےکہاکہ عدالت جب چاہےتمام دستاویزات کاجائزہ لےسکتی ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ ہیل میٹل سے پیسے پاکستان کیسے آئے،انہوں نےکہاکہ یہ بات آپ نےخود عدالت میں بتائی تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ وزیراعظم نےآمدن سیاسی مقاصد کےلیےاستعمال کرنےکی تردید کی۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ حسن نواز کا وزیراعظم سے کیا تعلق ہے؟ انہوں نےکہاکہ کیا وزیراعظم حسن کےوالد اورایف زیڈ ای کےچیئرمین نہیں؟۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ کیا وزیراعظم نے اقامہ نہیں لیا تھا؟جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ اقامہ ان دستاویزات پرلیا گیا جس میں املاکی بھی غلطی تھی۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ جو باتیں جےآئی ٹی نے نہیں پوچھی تھیں آج ہم نے پوچھ لیں،انہوں نےکہاکہ کیاوزیراعظم کا ال راجھی بینک میں اکاؤنٹ تھا۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ جی وزیراعظم کاال راجھی بینک میں اکاؤنٹ تھا،جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ والیم 10میں لکھاہےکتنی قانونی معاونت آتی ہےکتنی نہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ والیم 10خفیہ کیوں ہے معلوم نہیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ والیم 10میں شواہد نہیں ہیں شاید اسی لیےبندہے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ والیم10کاہمیں نہیں معلوم سربمہر کیوں ہے،انہوں نےکہاکہ اصرار کریں تو والیم 10بھی کھولا جا سکتا ہے۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ وزیراعظم نےایف زیڈای کی بنیاد پراقامہ2012میں لیاتھا،انہوں نےکہاکہ وزیراعظم ایف زیڈای سے تنخواہ نہیں لیتے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ اثاثےآمدن سےزائدہوں توبھی صفائی کاموقع ملتاہے،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ یہی بات توہم ایک سال سےکررہےہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ ہمیں تومنی ٹریل اورآمدنی کےذرائع کاپہلےدن سےانتظارہے،جس پرخواجہ حارث نےکہاکہ جےآئی ٹی نےکسی فریق سےدستاویزات پروضاحت ہی نہیں مانگی۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ آپ اپنا جواب ہمارےپاس دےدیں،انہوں نےکہاکہ آپ نےاپنےجواب میں کسی دستاویزکی تردیدنہیں کی۔

    انہوں نےکہاکہ آپ چاہیں تومتفرق درخواست میں دستاویزات چیلنج کرسکتےہیں،جس پر خواجہ حارث نےکہاکہ وزیراعظم نہ توکسی آف شورکمپنی کےمالک ہیں نہ تنخواہ وصول کی۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ جوباتیں جےآئی ٹی نےنہیں پوچھی وہ ہم نےپوچھ لیں بات ختم،وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ عدالت ایسی رپورٹ پرحکم جاری نہیں کرسکتی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وزیراعظم نےجےآئی ٹی کوکہاقطری خطوط نہیں دیکھے،انہوں نےکہاکہ کوئی چیزخفیہ نہیں ضرورت پڑنےپروالیم10کھول دیں گے۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ کہہ چکےہیں کچھ بھی رازمیں نہیں رکھاجائےگا،جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ والیم10کوخفیہ جےآئی ٹی نےکیا ہم نےنہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ جےآئی ٹی کی تحقیقات جاری نہیں دفترخالی کرنےکاکہہ دیاہے،انہوں نے کہاکہ بیرون ملک جواب تاخیرسےآیاتویقیناً اس کوآپ سےشیئرکیاجائےگا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی نےسوئٹزرلینڈسےجواب مانگاہےجونہیں آیا،انہوں نےکہاکہ آپ کےحق میں بعدمیں کوئی چیزآتی ہےتوکیاہم چھپالیں گے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ عدالت نےطےکرناتھاگلف اسٹیل مل کیسےبنی اورکیسےفروخت ہوئی،انہوں نےکہاکہ عدالت نےطےکرناتھا پیسہ جدہ،لندن اورقطرکیسےگیا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جب تک مکمل تحقیقات نہ ہوں معاملےکودیکھناہوگا،انہوں نےکہاکہ دیکھناتھاکہ رقم کہاں سےآئی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ اصل چیزمنی ٹریل کا سراغ لگانا تھا۔ عدالت عظمیٰ نےکہاکہ آپ کہناچاہ رہےہیں جے آئی ٹی کاکسی جائیدادکی تحقیقات کرنامینڈیٹ نہیں تھا۔

    عدالت عظمیٰ نےکہاکہ فیصلےمیں لکھاہےایف آئی اےکےپاس ثبوت ہوں تواس کاجائزہ لیاجاسکتاہے،جس پرخواجہ حارث نےکہاکہ جے آئی ٹی نےآمدن سےزائداثاثوں کوبھی سوال بنالیا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ بہت سارےمعاملات کیس میں 13سوالوں سےمطابقت رکھتے ہیں،انہوں نےکہاکہ 13سوالوں کےبغیرتفتیش مکمل نہیں ہو سکتی۔

    جسٹس اعجازالااحسن نےکہاکہ وزیراعظم فلیٹس میں جاتے رہے اورملکیت کاعلم نہیں، انہوں نےکہاکہ یہی بات توہم ایک سال سےکررہےہیں۔جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ آپ اپناجواب دےدیں۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ آپ چاہیں تومتفرق درخواست میں دستاویزات چیلنج کرسکتےہیں،انہوں نےکہاکہ آپ کےلیےدروازےبندنہیں کررہے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ آپ نےاپنےجواب میں کسی دستاویزکی تردیدنہیں کی،انہوں نےکہاکہ کیا آپ کہتےہیں شریف خاندان پرالزامات غلط ہیں۔

    وزیراعظم کےوکیل خواجہ حارث نےکہاکہ جی ہاں الزامات غلط ہیں کاغذات بھی یہی کہتےہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ قانونی معاونت کےمعاہدےکاجائزہ لیاجاسکتاہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ دستاویزات اصل ہوں توسفارت خانے کی تصدیق ضروری نہیں،جس پروزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ سفارت خانےکی تصدیق کےبغیردستاویزات کودرست نہیں ماناجاتا۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ سری لنکاکےایک ریسٹورنٹ کانام منسٹری آف کریب ہے۔ انہوں نےکہاکہ کیکڑوں کی وزارت کےخطوط کاجواب یہاں کونسی وزارت دےسکتی ہے؟۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ نجی فرم سےحاصل دستاویزات مصدقہ نہیں،انہوں نےکہاکہ برطانیہ کےتحقیقاتی ادارےکی خدمات جےآئی ٹی نےحاصل کیں۔

    عدالت کی جانب سے کہاگیاکہ کیاآپ کامطلب ہےدستاویزباہمی قانونی تعاون سےحاصل نہیں کی گئیں،جس پروزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ قانون سورس دستاویزکی اجازت نہیں دیتا۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ کیاصرف ذرائع سےحاصل دستاویزپرشک کرسکتےہیں،جس پر خواجہ حارث نےکہاکہ دستاویزوزارت خارجہ کےذریعےآتی تومصدقہ ہوتیں۔

    جسٹس عظمت سعید نے خواجہ حارث سےاستفسارکیاکہ دستاویزات کےلیےملکہ برطانیہ کوتوخط نہیں لکھیں گےنا۔ عدالت نےکہاکہ نجی فرم ملکی قانون کےمطابق دستاویزبھجوائےتب بھی مستردکی جاسکتی ہے۔

    خواجہ حارث نےجواب دیاکہ دستاویزات کامتعلقہ حکومت کےذریعےہی ارسال کیاجاناضروری ہے،انہوں نےکہاکہ متعلقہ حکومت نجی فرم سےدستاویزات لےتوتسلیم ہوسکتی ہیں۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ جےآئی ٹی نےکسی غیرملکی حکومت سےبراہ راست قانونی مددنہیں لی۔

    جسٹس اعجاز نےکہاکہ اثاثوں کوتسلیم کیاگیااب2ہی معاملات ہیں،ہم دیکھیں یااحتساب انہوں نےکہاکہ جےآئی ٹی کامقصد تھاوزیراعظم اورفریقین کوصفائی کاموقع دیاجائے۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ جےآئی ٹی کا مقصدتھا فریقین مؤقف پیش کریں اورثبوت دےسکیں۔ انہوں نےکہاکہ اثاثےتسلیم،رپورٹ کےکسی حصےکی تردیدنہیں کی گئی۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ اثاثوں کوتسلیم ہی نہیں کیاگیا،دستاویزات کےہونےکابھی کہاگیا،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وزیراعظم،مریم،حسن اورحسین نےملکیت تسلیم کی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ آپ نےخودشواہدکابوجھ اپنےسراٹھایا،انہوں نےکہاکہ آپ کومزیدایک موقع دیاگیاتاکہ دستاویزات جمع کرا سکیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ اپنی حدتک کہہ رہاہوں تاکہ سب دفاع کاموقع حاصل کریں،انہوں نےکہاکہ خیال یہی تھاکہ سب اپنےمؤقف کھل کرپیش کریں گے۔

    جسٹس اعجاز نےکہاکہ وزیراعظم نےخطاب میں دعویٰ کیاجائیدادآمدن کاریکارڈموجودہے،انہوں نےکہاکہ اسپیکرکودستاویزات دی گئیں توپھرہمیں اورجےآئی ٹی کوکیوں نہیں دی گئیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ کہاگیامنی ٹریل موجودہےپھروہ کیوں نہیں دی گئی، عدالت نےکہاکہ کیاآپ امیدکرتےہیں وزیراعظم خطاب میں کچھ کہےاورثبوت نہ ہوں۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ کیاکوئی دستاویزاس لئےردکی جائےکہ اسےایک فردلےکرآیا،جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ 17سال سےنیب بیٹھاہواہےاس کوکچھ پتہ نہیں؟۔

    جسٹس عظمت سعیدشیخ نےکہاکہ بتائیں کیاکریں ہمیں بھی کچھ نہیں بتایا گیا،انہوں نےکہاکہ فلیٹس کامعاہدہ پیش کردیاجاتاتوبات ختم ہوجاتی۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ فلیٹس خریدنےکےذرائع ہمیں اورجےآئی ٹی کونہیں دیےگئے،جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ وزیراعظم مریم اورحسن نےکہادستاویزات پیش کریں گے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ بارثبوت خودشریف خاندان نےاپنےسرلیاتھا،انہوں نےکہاکہ شریف خاندان نےمنی ٹریل اورذرائع آمدن بتانےکاذمہ لیا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی کامقصدشریف خاندان کوموقع دیناتھا،انہوں نےکہاکہ تمام دستاویزات دینےکاموقع فراہم کیاگیا۔ جس پر خواجہ حارث نےکہاکہ جےآئی ٹی نےایساموقع نہیں دیاکسی دستاویزکی وضاحت نہیں مانگی۔

    جسٹس عظمت سعیدشیخ نےکہاکہ اصل معاملہ4فلیٹس کےگردگھومتاہے،انہوں نےکہاکہ سروسزفراہم کرنےکامعاہدہ پیش نہیں ہوا۔

    جسٹس عظمت سعید سےکہاکہ یہاں سےہی مسائل شروع ہوئے،انہوں نےکہاکہ حسین نوازکےمالک ہونےکی ایک بھی دستاویزنہیں دی گئی۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ عدالت میں صرف ٹرسٹ ڈیڈپیش کی گئی،انہوں نےکہاکہ ملکیت کےبغیرٹرسٹ ڈیڈکی کوئی اہمیت نہیں۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ نیب کیس پرسےہلنےکابھی نام نہیں لےرہا،جس پر خواجہ حارث نےکہاکہ یہ جائیدادیں اورملزوزیراعظم کی ملکیت نہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ ثبوت عدالت کونہیں توجےآئی ٹی کوہی فراہم کردیتے،انہوں نےکہاکہ وزیراعظم نےتمام دستاویزات دینےسےانکارکیا۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ عدالت تقریر میں تضاد پرکوئی حکم جاری نہیں کرسکتی،انہوں نےکہاکہ عدالت اپنےہی حکم پرنظر ثانی نہیں کرسکتی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ مزیداطمینان کےلیےآپ کوموقع فراہم کیاتھا،انہوں نےکہاکہ آپ دستاویزات نہیں دیں گےتوکوئی نکال لےگا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وزیراعظم نےپہلےکہا دستاویزات ہیں اورپھرکہانہیں ہیں،جس پر خواجہ حارث نےکہاکہ عدالت کاحکم وزیراعظم کی تقریرکی بنیادپرنہیں تھا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وزیراعظم کی تقریرریکارڈکاحصہ ہے،انہوں نےکہاکہ ملک کےوزیراعظم نےقومی اسمبلی میں واضح بیان دیاتھا۔

    عدالت عظمیٰ نےکہاکہ رپورٹ اورشواہد کےبعد فیصلہ کریں معاملہ نیب کوبھیجیں یانااہلی کافیصلہ کریں۔ جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ عدالت مطمئن نہیں تھی اس لیےدرخواستوں کوخارج نہیں کیا۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ دستاویزات وزیراعظم کوکیوں نہیں دکھائی گئے،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وزیراعظم دستاویزات دینےکےبیان سےبری الذمہ نہیں ہوسکتے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ عدالتی احکامات میں ایسا کچھ نہیں تھا،انہوں نےکہاکہ وزیراعظم کےاثاثےآمدن سےزیادہ تھےتوجے آئی ٹی بتاتی۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ ویزاعظم کاکام تھالندن فلیٹس کی خریداری کےذرائع بتاتے،انہوں نےکہاکہ گلف اسٹیل ملزکےمالک کےسوال پرکہاگیاکہ شاید حسن ہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ لندن فلیٹس کی خریداری کےوقت بچوں کی آمدنی نہیں تھی، انہوں نےکہاکہ وزیراعظم نےتقریرمیں کہا تھاذرائع اوروسائل کاریکارڈ موجودہے۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ سوال یہ ہےمعاملہ احتساب عدالت بھیجناہےیاخودفیصلہ کرناہے،انہوں نےکہاکہ آپ یہاں پردستاویزات سےثابت کریں یاٹرائل کورٹ میں کریں گے۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ جےآئی ٹی فائنڈنگزنہیں سامنےآنےوالامواداہمیت کاحامل ہے، انہوں نےکہاکہ شریف خاندان کےوکلاکےدلائل بھی جےآئی ٹی کی وجہ بنے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ دستاویزات پرجےآئی ٹی نےجرح نہیں کی،انہوں نےکہاکہ جرح کےبغیرتمام رپورٹ یکطرفہ ہے۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ رپورٹ کی بنیادپرٹرائل شفاف نہیں ہوسکتا،جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ لندن فلیٹس کی خریداری کےوقت بچوں کی آمدنی نہیں تھی۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ ایک جواب سےسب مسئلہ حل ہوسکتاہے،بتادیں یہ اثاثےہیں اوریہ وسائل ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ سارےثبوت شریف خاندان پرہی ہیں۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ جےآئی ٹی نےنوازشریف سےیہ نہیں پوچھا،جس پرجسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ سپریم کورٹ ایک سال سےپوچھ رہی ہےاب بتادیں۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ عدالت موقع دےگی توضروربتاؤں گا،انہوں نےکہاکہ حکم جاری کرنےسےپہلےکسی فورم نےتوہمیں سنناہے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ جرح کےبغیردستاویزات تسلیم ہوسکتےہیں نہ حکم جاری ہوسکتاہے،جس پر جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ آپ کےمطابق جےآئی ٹی نےمینڈیٹ سےتجاوزکیا؟۔

    خیال رہےکہ گزشتہ روز جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ پرسپریم کورٹ میں پہلی سماعت ہوئی تھی،سماعت سے قبل وزیراعظم اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جےآئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کروائےتھے۔


    وزیراعظم کے اعتراضات


    سماعت سے قبل وزیراعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کروائے، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھاکہ جے آئی ٹی کو عدالت نے 13 سوالات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن ٹیم نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا اور باہمی قانونی معاونت کے لیے برطانیہ میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کے کزن کی خدمات لی گئیں۔


    اسحٰاق ڈار کے اعتراضات


    دوسری جانب وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے تحریری اعتراض میں موقف اختیار کیاتھا کہ جے آئی ٹی نے حقائق کو جھٹلا کر غلط بیانی سے کام لیا کہ میں نے ریٹرن فائل نہیں کیے۔

    ان کا مزید کہناتھاکہ جے آئی ٹی کے الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں، میرے اور میری اہلیہ سے متعلق ٹیکس ریکارڈ کی تفتیش نیب کرچکا ہے، میرے تمام اثاثے جائز اور ریٹرن میں ظاہر ہیں۔


    پاناما عمل درآمد کیس : پی ٹی آئی کے وکیل کی عدالت سے نوازشریف کو طلب کرنے کی استدعا


    واضح رہےکہ گزشتہ سماعت پرجسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی عمل درآمد بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی تھی۔

    سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری، جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے دلائل دیےتھے۔

    اپنے دلائل کے دوران پی ٹی آئی وکیل نعیم بخاری نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وزیراعظم نواز شریف کو عدالت طلب کیا جائے تاکہ ان سے جرح کی جاسکے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جماعت اسلامی کے وکیل کی نوازشریف کونااہل قراردے کر معاملہ ٹرائل کے لئے بھجوانے کی درخواست

    جماعت اسلامی کے وکیل کی نوازشریف کونااہل قراردے کر معاملہ ٹرائل کے لئے بھجوانے کی درخواست

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے نوازشریف کونااہل قراردے کر معاملہ ٹرائل کے لئے بھجوانے کی استدعا کردی۔

    تفصیلات کے مطابق پاناما کیس کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل میں کہا کہ نعیم بخاری رپورٹ کی سمری سےآگاہ کرچکے ہیں، نوازشریف نے جے آئی ٹی سے کہا قطری سرمایہ کاری کا علم ہے لیکن یاد نہیں، نوازشریف نے قطری خطوط پڑھے بغیر درست قرار دئیے۔

    توفیق آصف کا کہنا تھا نوازشریف نے اسمبلی اورقوم سے خطابات میں سچ نہیں بولا، میری درخواست نوازشریف کی تقاریرکے گرد گھومتی ہے، جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق نوازشریف نے تعاون نہیں کیا، بادی النظرمیں نوازشریف صادق اورامین نہیں رہے ، جےآئی ٹی کے مطابق نوازشریف نےاپنے خالو کو پہچاننے سے انکار کیا۔

    جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ رپورٹ ہم نے بھی پڑھی ہے، آپ سے رپورٹ پردلائل مانگے ہیں ، جس پر توفیق آصف کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی کی رپورٹ کی مکمل حمایت کرتےہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگ سارا پاکستان جان چکا ہے، جے آئی ٹی فائنڈنگ کے پابند نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ پرعمل کیوں کریں آپ کو بتانا ہے، جسٹس شیخ عظمت نے اپنے ریمارکس میں کہا اپنے اختیارات کا کس حد تک استعمال کرسکتے ہیں، یہ بتائیں، جے آئی ٹی سفارشات پر کس حد تک عمل کرسکتے ہیں، یہ بتائیں؟

    توفیق آصف نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ دے کرمعاملہ ٹرائل کیلئے بجھوائے، بادی النظرمیں وزیراعظم صادق اورامین نہیں رہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بادی النظرکامطلب صادق اورامین پرسوالات اٹھ سکتےہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ن لیگ کی جے آئی ٹی کی رپورٹ چیلنج کرنے کیلئے درخواست تیار

    ن لیگ کی جے آئی ٹی کی رپورٹ چیلنج کرنے کیلئے درخواست تیار

    اسلام آباد : ن لیگ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ چیلنج کرنے کیلئے درخواست تیار کرلی ہے، درخواست آج سپریم کورٹ میں جمع کرائے جانے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ چیلنج کرنے کیلئے ن لیگ نے تیاری مکمل کرلی، شریف خاندان کی جانب سے درخواست تیار کی گئی ہے، درخواست آج سپریم کورٹ میں جمع کرائے جانے کا امکان ہے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں،ر پورٹ کا بڑا حصہ سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہے ، ایک دستاویز کئی مرتبہ استعمال کی گئی ، رپورٹ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر تیار نہیں کی گئی لہذا جے آئی ٹی کی رپورٹ مستر د کی جائے۔


    مزید پڑھیں : وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس، جے آئی ٹی رپورٹ چیلنج کرنے کا فیصلہ


    یاد رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت اعلیٰ سطح اجلاس میں جے آئی ٹی رپورٹ چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور مستعفی نہ ہونےکا دو ٹوک اعلان کیا تھا۔

    وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ ہمارا ضمیر اور دامن صاف ہے، 4سال میں ہم نے تعمیر و ترقی کا اتنا کام کیا، جتنا 2دہائیوں میں نہیں ہوا،  اندھیروں کوبستیوں،اپنےکارخانوں کارخ نہیں کرنےدیں گے۔

    واضح رہے کہ پاناما کیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے سپریم کورٹ میں حتمی رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں شریف فیملی کے اثاثے آمدن سے زیادہ قرار دیے گئے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نوازشریف کے جانے سے بھارت پریشان، کشمیرہاتھ سے نکلنے جانے کا خوف

    نوازشریف کے جانے سے بھارت پریشان، کشمیرہاتھ سے نکلنے جانے کا خوف

     نئی دہلی : جے آئی ٹی کی رپورٹ میں دیئے جانے والے ناقابل تردید ثبوتوں کے بعد بھارت میں بھی نواز شریف کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے، اور مودی سرکار کو نوازشریف کے جانے سے پاکستانی فوج مزید مضبوط ہونے اور کشمیر ہاتھ سے نکلنے جانے کا خوف ہے۔

    پانامہ کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ میں موجود ناقابل تردید ثبوتوں کے بعد جہاں ملک میں موجود نواز شریف خاندان کےحامی میڈیاگروپس پاکستان میں مہم چلارہے ہیں، وہیں بھارتی حکمرانوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

    بھارتی اخبار لکھتا ہے کہ سپریم کو رٹ میں پیش کردہ ثبوتوں کی موجودگی میں نواز شریف کا بچنا مشکل نہیں ناممکن ہے،شریف خاندان زیادہ ترسوالات کااطمینان بخش جواب نہ دے سکا۔

    ٹائمز آف انڈیا کا کہنا ہے کہ نوازشریف مسند اقتدار سے الگ ہوئے تو کشمیر کی جدوجہدآزادی کو اور تقویت ملے گی اور کشمیریوں کی آزادی کو روکنا ناممکن ہوجائے گا، نوازشریف کے جانے سے بھارت کو کشمیر ہاتھ سے نکلنے کا خوف ہے۔

    جریدے کا کہنا ہے کہ پاک بھارت سرد تعلقات کے باوجود نواز، مودی تعلقات بہترین رہے لیکن نواز کے مسند اقتدار سے الگ ہونے کی صورت میں پاکستانی فوج مضبوط ہوگی، بھارت تو بخوبی جانتا ہے کہ پاکستانی افواج مضبوط و نا قابل تسخیر ہے اور اپنا کام بطریق احسن انجام دے رہی ہے۔

    دوسری جانب نوازحکومت نے اس مشکل صورتحال سےنکلنے کیلئے بیرونی مدد کی کوششیں شروع کردیں، اس ضمن میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، امریکہ، برطانیہ اور بھارت سے بھی رابطہ کیا تاکہ دباؤ بڑھایا جاسکے۔

    یہ کیس سپریم کو رٹ میں ہے اور عدلیہ کے حکم پر جے آئی ٹی بنی اور آزاد عدلیہ ہی اس کیس کا فیصلہ سنائے گی، سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف کشمیری حریت پسندوں کی جدوجہد میں رکاوٹ ہیں؟دہلی انکے اقتدار سے ہٹنے کی صورت میں پریشان کیوں ہے؟؟ کیا نوازشریف اور مودی کی دوستی کشمیریوں کی جدوجہد میں حائل ہے؟ کیا نوازشریف فیملی کے بھارت سے مبینہ کاروباری تعلقات کی بنا پر بھارت پریشان ہے ؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • جے آئی ٹی رپورٹ میں اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 91 گنا اضافے کا انکشاف

    جے آئی ٹی رپورٹ میں اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 91 گنا اضافے کا انکشاف

    اسلام آباد : جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اثاثوں میں ہوشربا اضافے کا انکشاف کیا گیا ہے ، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پندرہ برس میں اسحاق ڈار کے اثاثوں میں اکیانوے گنا اضافہ ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اعداد وشمار میں تو خوب ماہر ہیں مگر ان کے اپنے اعداد شمار ان کو پھنسوا گئے، وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیشتر برسوں کے ٹیکس ریٹرن موجود نہیں ہیں۔

    جے آئی ٹی پورٹ کے مطابق انیس سو اکیاسی بیاسی سے پچیاسی چھیاسی تک کے ٹیکس ریٹرنز کا کوئی نام و نشان نہیں، چورانوے پچانوے سے 2002 تک کی ویلتھ اسٹیمنٹس بھی موجود نہیں۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال تیرانوے چورانوے سے 2009 کے درمیان اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 91 گنا اضافہ ہوا، ان پندرہ برسوں میں اسحاق ڈار کے اثاثے 91 لاکھ روپے سے بڑھ کر83 کروڑ 17 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔

    اسحاق ڈار کی آمدنی 2009 میں سات لاکھ سے بڑھ کر2015 میں چارکروڑ ساٹھ لاکھ روپے ہوگئی، ان اثاثوں کے حصول اور آمدنی میں اضافے کا بنیادی زریعہ ان کے بیٹے کی جانب سے دیئے گئے تحائف ہیں۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئر کریں۔

  • جے آئی ٹی رپورٹ ، دنیا بھر کے اخبارات اور جرائد میں ٹاپ اسٹوری کے طور پر شائع

    جے آئی ٹی رپورٹ ، دنیا بھر کے اخبارات اور جرائد میں ٹاپ اسٹوری کے طور پر شائع

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پیش کردہ حتمی جے آئی ٹی رپورٹ کی خبر کو دنیا بھر کے اخبارات اور جرائد نے ٹاپ اسٹوری کے طور پر شائع کیا۔

    عالمی منظر نامے میں بھی شریف خاندان کے خلاف جاری پانامہ لیکس جے آئی ٹی رپورٹ کی خبر کو نمایاں جگہ دی گئی، صف اول کے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے سرخی لگائی کے الزامات ثابت ہونے کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف نے استفیٰ دینے سے انکار کر دیا۔

    قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق انیس سو نوے سے اقتدار میں موجود شریف خاندان کے خلاف کرپشن کیس ایک بار پھر کھل گیا ہے۔

    معاشی خبروں کےحوالے سے مستند نام بلوم برگ نے سرخی لگائی کہ نامعلوم زرائع سے حاصل دولت پر وزیراعظم کا عدالتی کاروائی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

    ایسی ہی ہیڈلائن سنگاپور کے اخبار اسٹریٹس ٹائمز کی بھی تھی۔

    جے آئی ٹی حتمی رپورٹ کی گونج بھارت میں بھی سنائی دی، ہندوستان ٹائمز نے لکھا کہ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی تحقیقاتی رپورٹ نواز شریف کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گی۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئر کریں

  • کیس حکومت نہیں بلکہ شریف خاندان کیخلاف ہے، تابوت اور ثبوت یہیں سے نکلے گا، شیخ رشید

    کیس حکومت نہیں بلکہ شریف خاندان کیخلاف ہے، تابوت اور ثبوت یہیں سے نکلے گا، شیخ رشید

    اسلام آباد : عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ پاناما کیس حکومت نہیں بلکہ شریف خاندان کیخلاف ہے، کیس کا تابوت اور ثبوت یہیں سے نکلے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے باہر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قطری شہزادہ کہتا ہے وہ پاکستانی قانون کے دائرے میں نہیں آتا اور پاکستان کے قانون کا پابند نہیں تو اس کا بیان ریکارڈ کرنے کیلئے جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے، قطری شہزادہ نواز شریف کا نہیں حسین نواز کا گواہ ہے۔

    شیخ رشید نے کہا کہ کیس حکومت نہیں بلکہ شریف خاندان کیخلاف ہے، ثبوت بھی یہیں سے نکلے گا اور تابوت بھی ، میڈیا رپورٹس
    آرہی ہیں کہ مریم نواز بینفشری ثابت ہو چکی ہیں، جس کے بعد ان کی کوشش ہے قانون اور آئینی طور پر نہ نکالا جائے، یہ پاکستان کے آئین اورقانون کی زندگی کا سوال ہے۔

    انھوں نے کہا کہ لگتا ہے شریف خاندان آج جے آئی ٹی کے خلاف اپیل دائر کریگا، رپورٹ پر سپریم کورٹ آج یا کل تک فیصلہ دےگی، میرا خیال ہے 10دن میں سپریم کورٹ کا بینچ بیٹھ جائے گا، غالب امکان ہے کیس کو پہلے سننے والے 5ججز دوبارہ سنیں گے۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے لوگوں کو دبئی کے ذریعے خریدنے کی کوشش کی گئی، جے آئی ٹی ممبران کے بچوں کو دھمکیاں دی گئیں، ایس ای سی پی کا کیا کردار تھا سب کے سامنے ہے، جے آئی ٹی کو متنازع کرنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے، چوہدری نثار سے شکوہ ہے کہ وہ جے آئی ٹی میں اسحاق ڈار کو چھوڑنے آئے۔

    انہوں نے کہا کہ میری چیف جسٹس سے استدعا ہے کہ یہ لوگ جس طرح کی زبان استعمال کر رہے ہیں اس کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔