Tag: Pandemic

  • کرونا کی وبا کا خاتمہ قریب آ گیا: سربراہ عالمی ادارہ صحت

    کرونا کی وبا کا خاتمہ قریب آ گیا: سربراہ عالمی ادارہ صحت

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ نے کہا ہے کہ کرونا کی وبا کا خاتمہ قریب آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ ٹیڈروس ایڈھانم نے بدھ کے روز کہا کہ دنیا کبھی بھی COVID-19 کے وبائی مرض کو ختم کرنے کے لیے اس سے بہتر پوزیشن میں نہیں رہی۔

    انھوں نے ورچوئل پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ ابھی کرونا وبا ختم نہیں ہوئی لیکن اب اس کا خاتمہ جلد نظر آ رہا ہے۔

    یہ اقوام متحدہ کے اس ادارے کی طرف سے سب سے زیادہ حوصلہ افزا بیان ہے، ڈبلیو ایچ او نے جنوری 2020 میں بین الاقوامی ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا اور تین ماہ بعد کووِڈ نائنٹین کو عالمگیر وبا (پینڈیمک) کے طور پر بیان کرنا شروع کیا، جس سے اب تک دنیا بھر میں 65 لاکھ سے زائد انسان مر چکے ہیں۔

    دنیا بھر میں کووِڈ سے ہونے والی ہفتہ وار اموات کی تعداد مارچ 2020 کے بعد سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہے، ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی اس کا ذکر کیا، اور کہا ہمیں اختتام نظر آ رہا ہے اور ہم اچھی پوزیشن میں بھی ہیں، مگر ابھی رک نہیں سکتے اور اپنے کام کو جاری رکھنا ہوگا۔

    انھوں نے کہا اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا تو ہمیں وائرس کی مزید اقسام، مز ید اموات اور مزید غیر یقینی صورت حال کے خطرے کا سامنا ہو سکتا ہے، تو ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہی ہوگا۔

    واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او نے کرونا وائرس کے حوالے سے 6 پالیسی پیپر بھی جاری کیے ہیں، ڈاکٹر ٹیڈروس کے مطابق یہ پالیسی پیپرز دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے ہیں تاکہ وہ اپنی پالیسیوں کا جائزہ لے کر انھیں مضبوط بنا سکیں۔

  • کون ہیں وہ خوش قسمت لوگ جو کورونا کا شکار نہیں ہوئے؟

    کون ہیں وہ خوش قسمت لوگ جو کورونا کا شکار نہیں ہوئے؟

    کورونا وائرس کے آنے بعد سے اب تک کروڑو افراد اس وبا کا شکار ہوچکے ہیں اور یہ وبا لاکھوں افراد کی جان بھی لے چکی ہے مگر دنیا میں ایسے خوش قسمت لوگ بھی ہیں جو اس وبا سے مکمل محفوظ رہے۔

    یہ لوگ کون ہیں اس بات کا اندازہ لگانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی بھی شعبے میں پی ایچ ڈی کرنا، اس طرح کے اعدا وشمار ترتیب دینا بھی بہت پیچیدہ عمل ہے۔

    زیادہ تراقسام کے وائرس کا شکار لوگ وہ ہیں جن میں معتدل نوعیت کی علامات ہوتی ہیں، عام طور پر ڈاکٹروں سے رجوع نہیں کرتے اور اس طرح وہ کسی گنتی میں ہی نہیں آتے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے اپنی تمام تر توجہ ان افراد پر مرکوز کردی ہے جو تاحال کورونا وائرس کے حملے سے محفوظ رہے ہیں تاکہ ان کی صحت اور قوت مدافعت کا مطالعہ کیا جاسکے۔

    اس حوالے سے دوماہ کی حاملہ 40سالہ خاتون مشیل گرین کا کیس بھی سائنسدانوں کیلئے اچھنبا بنا ہوا ہے، جوایک ٹیکنالوجی کمپنی میں بحیثیت ڈسٹرکٹ پراجیکٹ مینیجر اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔

    خاتون کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ نہ صرف ان کے شوہر کورونا وائرس کا شکار تھے بلکہ ان کے کچھ قریبی لوگ بھی اسی وبا سے متاثر تھے جس پر خاتون کو خدشہ تھا کہ وہ بھی اس کا شکار ہوجائیں گی۔

    ان تمام ترحالات کے باوجود مشیل گرین کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا جو خود ان کیلئے انتہائی حیران کن تھا، مشیل گرین کو خدشہ تھا کہ وہ بھی وائرس میں مبتلا ہوکر بیمار ہوجائیں گی۔

    ایک اور واقعے میں ایک 49 سالہ بیون سٹرک لینڈ ہے جو ایک نرس ہے، خاتون نے اپریل 2020 کے آغاز سے مسلسل چھ ہفتوں تک کوئنز کے ایک ہسپتال کے کورونا وارڈ میں رضاکا رانہ خدمات انجام دیں۔

    اسٹرک لینڈ نے بتایا کہ ڈیوٹی کے دوران میں نے کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ مجھے بھی کورونا ہوجائے گا مریضوں کا بہتر طریقے سے علاج کرنے کیلئے اکثر بغیر ماسک کے بھی کام کیا۔

    اسٹرک لینڈ کا کہنا تھا کہ ان کا ہفتہ وار کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیا جاتا تھا، لیکن کبھی میرا ٹیسٹ مثبت نہیں آیا۔ جب میری ڈیوٹی ختم ہوئی تو میرا ایک اینٹی باڈی ٹیسٹ بھی لیا گیا جس میں پہلے سے انفیکشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

    دنیا بھر کے سائنس دان اب اس بات کی تحقیقات کررہے ہیں کہ گرین اور اسٹرک جیسے کئی لوگ دو سال سے زیادہ عرصے تک شدت سے رہنے والے کورونا وائرس سے کس طرح بچنے میں کامیاب رہے؟،

    ماہرین کو امید ہے کہ ان لوگوں کا مطالعہ کرنے سے جو اس انفیکشن سے بچ چکے ہیں کافی حد تک کامیابی ملے گی، شاید ایسے لوگ دوسروں کو متاثر ہونے سے روک سکتے ہیں یا وائرس سے متاثر ہونے والوں کا زیادہ مؤثر طریقے سے علاج میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔

  • کورونا سے محفوظ رہنے والے لوگوں میں کیا خصوصیات ہیں؟

    کورونا سے محفوظ رہنے والے لوگوں میں کیا خصوصیات ہیں؟

    دنیا میں کورونا وبا کو آئے ہوئے تقریباً تین سال ہوچکے ہیں جس نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا لیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو اس وبا سے مکمل طور محفوظ رہی۔

    دنیا بھر کے ماہرین ایک ایسی منفرد تحقیق میں مصروف ہیں جس کے ذریعے وہ یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ بعض لوگ تاحال کورونا کا شکار نہیں بنے؟

    امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق نیویارک اور واشنگٹن کی امریکی یونیورسٹی کے ماہرین متعدد ممالک کے ماہرین کے ہمراہ ایک ایسی عالمی تحقیق کر رہے ہیں، جس کے ذریعے وہ انسانوں میں ایک خصوصی طرح کی جین دریافت کرنا چاہتے ہیں۔

    ماہرین اس بات کا سراغ لگانے میں مصروف ہیں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے تاحال دنیا بھر کے بعض لوگ کورونا جیسی وبا سے محفوظ ہیں؟

    مذکورہ تحقیق کے لیے دنیا بھر سے 700 افراد نے خود کو رجسٹر کروالیا ہے جب کہ ماہرین مزید 5 ہزار افراد کی اسکریننگ اور تفتیش کرنے میں مصروف ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اب تک سامنے آنے والی معلومات سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر کورونا سے تاحال محفوظ رہنے والے خوش قسمت لوگ احتیاط کرنے سمیت بر وقت حفاظتی اقدامات کرتے ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جنہوں نے کورونا کے آغاز سے اب تک فیس ماسک کا استعمال کیا اور انہوں نے بھیڑ میں جانے سے گریز کرنے سمیت خود کو محدود رکھا اور ساتھ ہی انہوں نے کورونا ویکسینز اور بوسٹر ڈوز لگوائے وہ تاحال کورونا سے بچے ہوئے ہیں۔

    ساتھ ہی ماہرین نے بتایا کہ تاہم بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے مکمل اہتمام کے ساتھ فیس ماسک بھی استعمال نہیں کیا لیکن اس باوجود وہ کورونا سے محفوظ رہے۔

    ماہرین کے مطابق اب تک کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ گزشتہ دو سال سے کورونا سے بچے ہوئے ہیں، ان کا مدافعتی نظام بھی مضبوط ہوگا اور ان میں اینٹی باڈیز کی سطح پرعام افراد کے مقابلے زیادہ ہوگی۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ تاحال کورونا سے محفوظ رہنے والے خوش قسمت افراد کی ناک، پھیپھڑوں اور گلے میں وہ خلیات انتہائی کم ہوں گے جو کسی بھی وائرس یا انفیکشن سے متاثر ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ممکنہ طور پر اب تک کورونا سے محفوظ رہنے والے افراد میں خصوصی طرح کی جین ہوگی جو انہیں وائرس اور انفیکشنز سے محفوظ رکھتی ہوگی اور اس بات کا علم لگانا سب سے اہم ہے کیوں کہ اس سے مستقبل میں بیماریوں کو روکنے میں مدد ملے گی۔

    ماہرین نے خصوصی طور پر امریکا میں تاحال کورونا کا شکار نہ ہونے والے افراد پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو خوش قسمت قرار دیا کیوں کہ متعدد تحقیقات کے مطابق وہاں کی 60 فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہوچکی ہے۔

  • بل گیٹس نے ایک اور وبا کے خطرے سے خبردار کردیا

    بل گیٹس نے ایک اور وبا کے خطرے سے خبردار کردیا

    مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے ایک اور وبا آنے کے خطرے سے خبردار کردیا، ان کا کہنا ہے کہ طبی ٹیکنالوجی میں پیشرفت دنیا کو اس سے لڑنے کے لیے مزید مدد دے گی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بل گیٹس نے خبردار کیا ہے کہ کووڈ 19 جیسی ایک اور وبا جلد دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

    بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے شریک چیئرمین بل گیٹس نے تسلیم کیا کہ کووِڈ 19 سے شدید بیماری کے خطرات ڈرامائی طور پر کم ہو گئے کیونکہ لوگ وائرس سے مدافعت حاصل کر رہے ہیں۔

    سی این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بل گیٹس کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر کرونا وائرس فیملی سے تعلق رکھنے والے مختلف پیتھوجن سے نئی وبا پھیل سکتی ہے تاہم، انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر ابھی سے سرمایہ کاری کی جائے تو طبی ٹیکنالوجی میں پیشرفت دنیا کو اس سے لڑنے کے لیے مزید مدد دے گی۔

    بل گیٹس نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کو تقریباً 2 سال ہوچکے ہیں اور عالمی آبادی کے ایک بڑے حصے میں کسی حد تک قوت مدافعت پیدا ہونے کے باعث وبائی مرض کے بدترین اثرات کم ہو رہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اومیکرون کی تازہ ترین قسم سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی شدت بھی کم ہو گئی ہے۔

    وبائی مرض پر قابو پانے کی عالمی کوششوں کو کریڈٹ دینے کے بجائے بل گیٹس کا کہنا تھا کہ وائرس پھیلنے کے ساتھ ہی اپنی قوت مدافعت بھی پیدا کرتا رہا اور ویکسین سے زیادہ وائرس کے اس رجحان نے اس کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔

    انہوں نے کہا کہ شدید بیماری کا امکان، جو زیادہ تر بڑھاپے اور موٹاپے یا ذیابیطس کے ساتھ منسلک ہوتا ہے، اب اس انفیکشن کے خلاف قوت مدافعت کے باعث خطرات ڈرامائی طور پر کم ہو گئے ہیں۔

    بل گیٹس نے کہا کہ سنہ 2022 کے وسط تک عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے 70 فیصد عالمی آبادی کو ویکسین لگانے کے ہدف تک پہنچنے میں بہت دیر ہو چکی ہے، اس وقت دنیا کی 61.9 فیصد آبادی کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک ملی ہے۔

    انہوں نے صحت کے پیشہ ور افراد اور حکام پر زور دیا کہ جب اگلی وبائی بیماری دنیا میں آئے تو وہ ویکسین تیار کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے مزید تیزی سے آگے بڑھیں گی۔

    بل گیٹس نے مزید کہا کہ اگلی بار ہمیں کوشش کرنی چاہیئے اور اسے دو سال کے بجائے، ہمیں اسے چھ ماہ کے اندر اندر ختم کرنا چاہیئے۔ اگلی وبا کے لیے تیار رہنے کی قیمت بہت زیادہ نہیں ہے، یہ موسمیاتی تبدیلی کی طرح نہیں ہے، اگر ہم عقلی انداز سے سوچیں تو اگلی بار ہم وبا پر جلد قابو پالیں گے۔

  • کرونا وائرس کا خاتمہ: عالمی ادارہ صحت نے خوشخبری سنا دی

    کرونا وائرس کا خاتمہ: عالمی ادارہ صحت نے خوشخبری سنا دی

    کرونا وائرس کی وبا کو 2 سال گزر چکے ہیں اور اب عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے خوشخبری سنائی ہے کہ 2022 کرونا وائرس کی وبا کا کے خاتمے کا سال ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرسکے بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود عالمی ادارہ صحت نے امید ظاہر کی ہے کہ 2022 میں کرونا وائرس کی وبا کا اختتام ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا کے پاس اب اس سے نمٹنے کے لیے آلات موجود ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈ روس ایڈہانم نے جمعرات کو لنکڈ ان پر اپنی پوسٹ میں خبردار کیا کہ عدم مساوات جتنے طویل عرصے تک برقرار رہے گا، یہ وبا اتنی ہی طویل عرصے تک جاری رہے گی۔

    ٹیڈ روس نے افریقہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وبا کو آئے 2 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے درکار چیزیں اور آلات مناسب طریقے سے برابری کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیے گئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ افریقہ میں محکمہ صحت کے عملے کی اب بھی ہر چار میں سے تین کی مکمل ویکسی نیشن نہیں ہوئی جبکہ یورپ میں لوگوں کو ویکسین کے تیسری خوراک بطور بوسٹر لگ رہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس خلا کی وجہ سے نئے ویریئنٹ کے پھیلنے کے مواقع مزید بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہم دوبارہ سے جانی نقصان، پابندیوں اور مشکلات کے سائیکل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    ٹیڈ روس نے کہا کہ اگر ہم عدم مساوات ختم کرتے ہیں تو اس وبا کو بھی ختم کردیں گے اور اس عالمی ڈراؤنے خواب کا بھی خاتمہ کردیں گے جس میں ہم جی رہے ہیں اور یہ یقیناً ممکن ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے نئے سال کی آمد کے موقع پر عہد کیا کہ ہم حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ عالمی اقدامات کے تحت ویکسین کی ترجیحی بنیادوں پر فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومتیں اس حوالے سے مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کریں تو ہم 50 لاکھ سے زائد جانیں لینے والی اس وبا کو ختم کر سکتے ہیں جبکہ اس کے لیے لوگوں کو بھی انفرادی سطح پر ویکسینیشن کے ساتھ ساتھ حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ 2022 کے وسط تک دنیا کی 70فیصد آبادی کو ویکسین لگا دیں۔

    ٹیڈ روس نے ویکسین کی وافر سپلائی یقینی بنانے کے لیے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظور شدہ ویکسین بنانے والی کمپنیوں سے درخواست کی کہ وہ انسانی بنیادوں پر ٹیکنالوجی اور ویکسین بنانے کا طریقہ بڑی کمپنیوں سے شیئر کریں تاکہ ویکسین زیادہ تیزی سے بنائی جا سکیں۔

    انہوں نے نئے سال کے لیے اپنے عہد کے ساتھ ساتھ تمام حکومتوں سے بھی درخواست کی کہ وہ اپنے صحت کے شعبے میں بھرپور سرمایہ کاری کریں۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا کہ اگر ہم یہ اہداف حاصل کرتے ہیں تو ہم 2022 کے اختتام پر دوبارہ وبا سے قبل والی اپنی معمول کی زندگی کی طرف واپسی کا جشن منا رہے ہوں گے اور اس وقت ہم اپنے پیاروں کے ساتھ مل کر اپنی خوشیاں کھل کر منا سکیں گے۔

  • کرونا وبا: بحران کے بعد سعودی عرب کی اقتصادی حالت میں بہتری

    کرونا وبا: بحران کے بعد سعودی عرب کی اقتصادی حالت میں بہتری

    ریاض: کرونا وائرس نے دنیا بھر کی معیشتوں کو نقصان پہنچایا تاہم کچھ معیشتیں اس بحران میں بھی مستحکم رہیں اور ان کی اقتصادی حالت میں بہتری آئی، سعودی عرب بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    امریکی خبر رساں ادارے بلومبرگ کے مطابق سعودی عرب کرونا وائرس کے بحران سے اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے زیادہ طاقتور ہو کر عالمی سطح پر ابھر کر سامنے آیا ہے، تیل کے نرخوں میں بہتری نے سعودی عرب کو زیادہ خوشحال اور سیاسی اعتبار سے زیادہ طاقتور بنایا۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ سعودی عرب سال 2020 کے اوائل میں کرونا بحران سے متاثر ہوا، اگرچہ وبا نے تیل کے نرخوں پر منفی اثر ڈالا تھا، تاہم گزشتہ دنوں تیل مہنگا ہونے اور سعودی تیل کی پیداوار بڑھ جانے کے باعث مملکت کی اقتصادی حیثیت بحال ہوگئی۔

    رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اگر تیل کے موجودہ نرخ برقرار رہے یعنی 80 ڈالر فی بیرل، اور سعودی عرب کی یومیہ تیل پیداوار 10 ملین بیرل جاری رہی تو اس صورت میں 2022 کے دوران مملکت کو پیٹرول سے ہونے والی مجموعی آمدنی 3 سو ارب ڈالر سے زیادہ ہوگی۔

    رپورٹ میں توجہ دلائی گئی ہے کہ مذکورہ آمدنی کی بدولت سعودی عرب حالیہ برسوں کے دوران بہت اچھی پوزیشن میں آجائے گا، تیل کی اوسط پیداوار 10.7 ملین بیرل 2022 میں ہوگی، یہ اب تک مملکت کی سالانہ اوسط تیل پیداوار میں سب سے زیادہ ہوگی۔

    بلومبرگ کا کہنا ہے کہ مغربی اور عرب دنیا کے موجودہ اور سابق عہدیدار، سفارتکار، مشیران، بینکار اور تیل کے ایگزیکٹیو ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ریاض کرونا بحران سے سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے زیادہ طاقتور ہو کر نکلا ہے۔

    توانائی کے سابق ذمہ داران کا کہنا ہے کہ سعودی عرب تیل کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث زیادہ طاقتور پوزیشن میں ہے، دنیا کو مستقبل قریب میں سعودی پیٹرول کی زیادہ ضرورت پڑے گی۔

  • سال 2020: کرونا وبا کے باوجود چین نے تجارت میں امریکا کو پیچھے چھوڑ دیا

    سال 2020: کرونا وبا کے باوجود چین نے تجارت میں امریکا کو پیچھے چھوڑ دیا

    بیجنگ: سال 2020 کے دوران کرونا وائرس کی وبا کے باوجود چین یورپی یونین کا اہم تجارتی شراکت دار رہا اور امریکا کو پیچھے چھوڑ دیا۔

    یورپی یونین کے بیورو آف شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2020 میں کووڈ 19 وبا کے باوجود یورپی یونین کے 27 ممالک اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

    اس دوران چین پہلی بار امریکا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یورپی یونین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا۔

    سنہ 2020 میں یورپی یونین نے چین سے 3 کھرب 83 ارب 50 کروڑ یورو مالیت کا سامان درآمد کیا، جو پچھلے برس کے مقابلے میں 5.6 فیصد زیادہ ہے۔

    یورپی یونین نے چین کو 2 کھرب 2 ارب 50 کروڑ یورو مالیت کی اشیا برآمد کیں جو پچھلے سال کے مقابلے میں 2۔2 فیصد زیادہ ہے۔

    دوسری طرف یورپی یونین اور امریکا کے مابین دو طرفہ تجارت میں کمی واقع ہوئی۔

    سنہ 2020 میں یورپی یونین نے امریکا سے 2 کھرب 2 ارب یورو سامان درآمد کیا جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 13.2 فیصد کم ہے۔

    یورپی یونین نے امریکا کو 3 کھرب 53 ارب یورو مالیت کا سامان برآمد کیا جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 8.2 فیصد کم ہے۔

  • کرونا وائرس: وہ دوا جو ویکسین کا کام بھی کر سکتی ہے

    کرونا وائرس: وہ دوا جو ویکسین کا کام بھی کر سکتی ہے

    بیجنگ: چین میں کرونا وائرس کے خلاف ایسی دوا کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے جو نہ صرف مریضوں کو صحتیاب کرے گی بلکہ ویکسین کی طرح کام کر کے انہیں وائرس کے آئندہ حملے سے بھی تحفظ دے گی۔

    چین کی پیکنگ یونیورسٹی میں ٹیسٹ کی جانے والی اس دوا کے بارے میں ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک طرف تو متاثرہ شخص کی بیماری کے عرصے کو کم کر کے اسے جلد صحتیاب ہونے میں مدد دے گی تو دوسری طرف مریض کو اس مرض سے کچھ عرصے کے لیے محفوظ بھی کردے گی۔

    یونیورسٹی کے ایڈوانسڈ انوویشن سینٹر فار جینومکس کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ مذکورہ دوا کی جانوروں پر آزمائش کا مرحلہ کامیاب ہوگیا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جب ایک متاثرہ چوہے میں مخصوص اینٹی باڈیز داخل کی گئیں تو وائرس کے افعال میں بے حد کمی آئی۔ یہ اینٹی باڈیز انسانی جسم کے مدافعتی نظام کی پیدا کردہ ہوتی ہیں اور یہ وائرس کو، خلیات کو متاثر کرنے سے روکتی ہیں۔

    ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ہماری مہارت ایک خلیے پر کام کرنے کی ہے اور ہم مدافعتی نظام یا وائرولوجی پر کام نہیں کر رہے، جب ہمیں علم ہوا کہ صرف ایک خلیہ بھی اینٹی باڈیز کے ساتھ مل کر اس وائرس کے خلاف کام کرسکتا ہے تو ہمیں بے حد خوشی ہوئی۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ دوا رواں برس کے آخر تک تیار ہوجائے گی اور موسم سرما میں اس وائرس کے ایک اور ممکنہ حملے میں کام آئے گی، دوا کے کلینکل ٹیسٹ آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک میں ہوں گے۔

    دوسری جانب چین میں کرونا وائرس کے خلاف اب تک 5 ویکسینز تیار کی جاچکی ہیں جو انسانی آزمائش کے مرحلے میں ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین کی دستیابی میں 12 سے 18 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

  • امپیریئل کالج کی رپورٹ نے برطانیہ کے ناقص طبی نظام کا بھانڈا پھوڑ دیا

    امپیریئل کالج کی رپورٹ نے برطانیہ کے ناقص طبی نظام کا بھانڈا پھوڑ دیا

    لندن: برطانوی دارالحکومت لندن کے امپیریئل کالج کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ 4 سال قبل طبی نظام کو جانچنے کے لیے کی جانے والی مشق کے دوران علم ہوگیا تھا کہ برطانیہ کسی خوفناک وبا کے پھیلاؤ سے نہیں نمٹ سکے گا۔

    لندن کے امپیریئل کالج کی حال ہی میں شائع کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2016 میں برطانیہ کے طبی نظام کو جانچنے کے لیے ایک مشق کی گئی تھی جس کے نتائج نہایت حوصلہ شکن اور سنگین برآمد ہوئے تھے۔

    مذکورہ مشق کے دوران اس بات کی جانچ کی گئی کہ اگر سارس یا میرس جیسا کوئی وائرس برطانیہ کو اپنا شکار بناتا ہے تو آیا برطانیہ اس سے نمٹ سکے گا یا نہیں۔

    رپورٹ کے مطابق 7 ہفتے تک جاری رہنے والی اس مشق سے پتہ چلا کہ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے پاس ساز و سامان کی بے حد قلت ہے۔ ایسے کسی وائرس کے پھیلاؤ کی صورت میں این ایچ ایس طبی عملے کو ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای) فراہم نہیں کرسکے گی۔

    مشق کے نتائج سے علم ہوا این ایچ کے پاس وینٹی لیٹرز کی بھی کمی ہے جبکہ اس قسم کی خوفناک وبا کے دوران ملک بھر کے مردہ خانے بھی بھر جائیں گے۔

    اس مشق کے نتائج کبھی بھی منظر عام پر نہیں لائے گئے اور حکام کے مطابق یہ ایسے تھے بھی نہیں کہ انہیں سب کے سامنے لایا جاتا، تاہم اب اس رپورٹ کے بعد حکومت کی مجرمانہ خاموشی پر سوال اٹھ گئے ہیں کہ اس وقت کے سیکریٹری ہیلتھ جرمی ہنٹ اور ان کی انتظامیہ نے ان نتائج پر ایکشن کیوں نہیں لیا۔

    مذکورہ مشق میں فرض کیا گیا کہ ایک خطرناک وائرس سیاحوں کے ایک گروپ کے ساتھ برطانیہ پہنچا اور اس کے بعد یہ دیکھا گیا کہ اسٹاف کی کمی اور مریضوں کی بڑھتی تعداد کے ساتھ این ایچ ایس کا ردعمل کیا ہوگا۔

    رپورٹ کے مطابق مشق میں وائرس کو ابتدائی مرحلے میں فرض کیا گیا اس کے باوجود این ایچ ایس کا نظام بیٹھتا دکھائی دیا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ رپورٹ کو سامنے لائے بغیر حکومتی ارکان خاموشی سے طبی نظام کو بہتر کرنے پر کام کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔