Tag: Pandemics

  • آنے والے وقت میں وباؤں میں اضافہ ہوسکتا ہے

    آنے والے وقت میں وباؤں میں اضافہ ہوسکتا ہے

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے وقتوں میں کئی وباؤں کا سامنا ہوسکتا ہے، کرونا وائرس کی طرح مزید وبائیں آسکتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے برسوں میں کرونا وائرس کی طرح کے بہت زیادہ متعدی امراض کی وبائیں عام ہو سکتی ہیں۔

    طبی جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ اس وقت کسی فرد کی زندگی میں کووڈ 19 جیسی وبا کا امکان 38 فیصد ہے مگر یہ خطرہ آنے والے برسوں میں دگنا بڑھ جائے گا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ آنے والے برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ایک اور وبا پھیلنے کا امکان بڑھ رہا ہے۔

    ماہرین نے گزشتہ 400 برسوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کر کے کسی وبائی مرض کے پھیلنے کے امکانات کا تخمینہ لگایا۔

    انہوں نے بتایا کہ کسی وبا کے پھیلنے کی شرح ماضی میں مختلف تھی مگر اس شرح کو مدنظر رکھ کر آنے والے برسوں میں کسی شدید وبا کے امکان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حالیہ تخمینے سے ثابت ہوتا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے امراض موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عام ہوتے جارہے ہیں۔

    ماہرین نے مزید کہا کہ جانوروں میں اکثر وبائی بیکٹریا اور وائرس کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے جو انسانوں میں پھیل سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے قدرتی دنیا گھٹ رہی ہے، اس طرح کی چیزوں کا سامنا ہونے کا امکان بھی بڑھ رہا ہے، موسم سے وائرسز کی زیادہ آسانی سے بیمار کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ رہی ہے۔

    اس وقت نئے پھیلنے والے 75 فیصد امراض جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔

    ماہرین نے کہا کہ دنیا کو متاثر کرنے والی کسی نئی وبا کی روک تھام کے لیے سرویلنس سسٹمز پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جبکہ ممکنہ وائرل انفیکشنز کے ابتدائی آثار کے بارے میں معلومات شیئر کرنا ہوگی۔

    محققین کے مطابق اس وقت دنیا کے متعدد مقامات میں بیماری کی جانچ پڑتال کی بنیادی صلاحیت بھی موجود نہیں اور اسی وجہ سے معاملات کو جاننے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔

  • انسان کی ماحول دشمنی اسے خطرناک بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے

    انسان کی ماحول دشمنی اسے خطرناک بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے

    کرونا وائرس کی وبا دنیا کے لیے ایک یاد دہانی ہے جس میں فطرت نے ہمیں بھرپور طریقے سے احساس دلایا کہ ترقی کی دوڑ میں ہم اس قدر تیز بھاگ رہے ہیں کہ نفع نقصان کا فرق بھی بھول چکے ہیں۔

    ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہماری دہائیوں اور صدیوں کی ترقی اور معیشت کا پہیہ فطرت کے صرف ایک وار سے جھٹکے سے رک گیا اور پوری دنیا کا نظام اتھل پتھل ہوگیا۔

    ماہرین کے مطابق جس بے دردی سے ہم زمین کے پائیدار وسائل کو ضائع کر رہے تھے اور صرف یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ زمین صرف انسانوں کے لیے ہے، اس کے ردعمل میں یہ جھٹکا نہایت معمولی ہے، اور اگر ہم اب بھی نہ سنبھلے تو آئندہ جھٹکے اس قدر خطرناک ہوسکتے ہیں کہ پوری نسل انسانیت کو بقا کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اب بھی اس وبا سے کچھ سیکھا ہے یا ہم اپنی پرانی روش پر قائم رہیں گے؟

    ایک تحقیق کے مطابق اکثر قدرتی آفات اور وباؤں کو دعوت دینے والا خود انسان ہی ہے جو دنیا بھر میں اپنی سرگرمیوں سے فطرت اور ماحول کے سسٹم میں خلل ڈال رہا ہے اور ان میں خرابی پیدا کر رہا ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ کرونا وائرس بھی ان وباؤں میں سے ایک ہے جو انسان کی اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں متاثر کر رہی ہے، یعنی اگر ہم اپنی حدود میں رہتے ہوئے فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرتے تو یہ وبا شاید انسانوں تک نہ پہنچتی۔

    یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری وہ کون سی سرگرمیاں ہیں جو ہمارے ہی لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں، اور ہم خود کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟

    انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آن بائیو ڈائیورسٹی اینڈ ایکو سسٹم سروس (IPBES) کی سنہ 2020 میں جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق انسانوں میں پھیلنے والے تقریباً ایک تہائی متعدی امراض ایسے ہیں جو جانوروں سے منتقل ہوئے، اس وقت 17 لاکھ وائرسز ایسے ہیں جو ابھی تک دریافت نہیں ہوسکے اور یہ ممالیہ جانداروں اور پرندوں میں موجود ہیں، ان میں سے نصف ایسے ہیں جو انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    وجہ؟ انسانوں کا جانوروں سے غیر ضروری رابطہ۔ اس کے خطرناک نقصانات کو ماہر ماحولیات سنیتا چوہدری نے نہایت تفصیل سے بتایا، سنیتا چوہدری مختلف ممالک میں ماہر جنگلات کے طور پر کام کرچکی ہیں جبکہ آج کل وہ نیپال کے تحفظ ماحولیات کے ادارے آئی سی موڈ سے بطور ایکو سسٹم سروس اسپیشلسٹ وابستہ ہیں۔

    سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ انسانوں کا غیر قانونی شکار اور جانوروں کی تجارت کا جنون انہیں سخت نقصان پہنچا رہا ہے، اس تجارت کے لیے وہ جنگلات میں جانوروں کے مساکن (Habitat) میں مداخلت کرتے ہیں اور یہیں سے وہ متعدد وائرسز اور جراثیموں کا شکار بن سکتے ہیں۔

    سنیتا چوہدری کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں بطور غذا یا ادویات کی تیاری میں مختلف جانوروں کا استعمال کیا جارہا ہے، ایک اور وجہ گھروں میں جنگلی جانور پالنے کا انسان کا غیر معمولی شوق ہے جس کے دوران تمام خطرات اور احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق جنگلات کی کٹائی بھی انسانوں میں مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہے، کیونکہ جنگلات میں رہنے والے جانور جنگل کٹنے کے بعد انسانی آبادیوں کے ارد گرد رہنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات ہم خود ہی جنگلات یا پہاڑوں کو کاٹ کر وہاں رہائشی آبادیاں بنا کر انسانوں کو بسا دیتے ہیں۔

    ان تمام عوامل کے نتیجے میں ہم جانوروں کے جسم میں پلنے والے ان وائرسز، جرثوموں اور بیماریوں کے حصے دار بن جاتے ہیں جو جانوروں میں تو اتنے فعال نہیں ہوتے، لیکن انسانوں پر کاری وار کرسکتے ہیں۔

    کیا کلائمٹ چینج بھی وباؤں کو جنم دے سکتا ہے؟

    سنہ 2011 میں رشین اکیڈمی آف سائنس سے منسلک ماہرین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت بڑھنے کا عمل (جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے) جہاں ایک طرف تو زمینی حیات کے لیے کئی خطرات کو جنم دے رہا ہے، وہاں وہ ان جراثیم اور وائرسز کو پھر سے زندہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے جنہوں نے کئی صدیوں قبل لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    یہ تحقیق برفانی خطے آرکٹک میں کی گئی تھی جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ٹنوں برف پگھل رہی تھی، ایسے میں برف کے نیچے دبے صدیوں پرانے وائرس اور جراثیم جلد یا بدیر ظاہر ہونے کے قریب تھے۔

    اس کی ایک مثال اگست 2016 میں دیکھنے میں آئی جب سائبریا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک 12 سالہ لڑکا جانوروں کو ہونے والی ایک بیماری انتھراکس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا جبکہ 20 کے قریب افراد اس مرض کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔

    ماہرین نے جب اس وبا کے اچانک پھیلاؤ کے عوامل پر تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ تقریباً 75 سال قبل اس مرض سے متاثر ایک بارہ سنگھا اسی مقام پر ہلاک ہوگیا تھا۔

    سال گزرتے گئے اور بارہ سنگھے کے مردہ جسم پر منوں برف کی تہہ جمتی گئی، لیکن سنہ 2016 میں جب گرمی کی شدید لہر یعنی ہیٹ ویو نے سائبیریا کے برفانی خطے کو متاثر کیا اور برف پگھلنا شروع ہوئی تو برف میں دبے ہوئے اس بارہ سنگھے کی باقیات ظاہر ہوگئیں اور اس میں تاحال موجود بیماری کا وائرس پھر سے فعال ہوگیا۔

    اس وائرس نے قریب موجود فراہمی آب کے ذرائع اور گھاس پر اپنا ڈیرا جمایا جس سے وہاں چرنے کے لیے آنے والے 2 ہزار کے قریب بارہ سنگھے بھی اس بیماری کا شکار ہوگئے۔

    بعد ازاں اس وائرس نے محدود طور پر انسانوں کو بھی متاثر کیا جن میں سے ایک 12 سالہ لڑکا اس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا۔

    یہ صرف ایک مثال تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے باعث جیسے جیسے زمین کے مختلف مقامات کی برف پگھلتی جائے گی، ویسے ویسے مزید مہلک اور خطرناک بیماریاں پیدا کرنے والے وائرسز پھر سے نمودار ہو جائیں گے۔

    یہاں یہ یاد رہے کہ برف میں جم جانے سے کوئی جسم بغیر کسی نقصان کے صدیوں تک اسی حالت میں موجود رہ سکتا ہے، جبکہ اس طرح جم جانا کسی وائرس یا بیکٹیریا کے لیے بہترین صورتحال ہے کیونکہ وہاں آکسیجن نہیں ہوتی اور ماحول سرد اور اندھیرا ہوتا ہے چنانچہ اس طرح وہ لاکھوں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ لاکھوں سال پرانے وائرس اور جراثیم، جن کے نام بھی ہم نہ جانتے ہوں گے، ہم پر پھر سے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔

    گزشتہ برس یورپی یونین کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق بھی یہ بتاتی ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ اکثر متعدی امراض میں اضافے کا سبب ہے جیسے ملیریا اور زیکا وغیرہ، اور یہ بات اب طے ہوچکی ہے کہ زمین پر کلائمٹ چینج کی وجہ انسان کی بے پناہ صنعتی ترقی اور اس سے خارج ہونے والی مضر گیسز ہیں۔

    سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ برف پگھلنے کی صورت میں سامنے آنے والے وائرسز کی تعداد اور خطرناکی لامحدود ہوگی، گلوبل وارمنگ ان وائرسز کو مزید فعال اور طاقتور کردے گی، یوں ہمارے سامنے ان گنت خطرات موجود ہیں۔

    کیا ہم بچاؤ کے اقدامات کرسکتے ہیں؟

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہم ان عوامل کو روکنے یا ان کی رفتار دھیمی کرنے کے قابل ہیں؟ اور ایسا کر کے کیا ہم اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں؟

    اس حوالے سے سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ کووڈ 19 ہمارے لیے ایک وارننگ ہے کہ انسانوں کا فطرت سے تعلق نہایت ہی غیر صحت مندانہ ہے، ہم فطرت کو ایک پروڈکٹ کی طرح استعمال کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں ہمیں اس سے بہتر تعلق قائم کر کے فطرت کو اپنے لیے، اور خود کو فطرت کے لیے فائدہ مند بنانا چاہیئے۔

    سنیتا کے مطابق اگر ہم قدرتی ماحول اور فطرت کو احسن اور پائیدار طریقے سے استعمال کریں تو یہ انسانوں اور مختلف وبائی امراض کے درمیان ایک ڈھال کا کردار ادا کر سکتی ہے، ہمیں فطرت کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے اور ضروری ہے کہ انسانوں اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کا رشتہ ہو۔

    سنیتا کے مطابق مندرجہ ذیل اقدامات کی صورت میں ہم نہ صرف ماحول کا بلکہ مختلف خطرات سے اپنا بھی بچاؤ کر سکتے ہیں۔

    دنیا بھر میں ایکو سسٹم کی بحالی، فطری حسن اور وہاں کی مقامی جنگلی حیات کا تحفظ

    زراعت میں رائج پرانے طریقوں کو چھوڑ کر جدید طریقے اپنانا جو بدلتے موسموں سے مطابقت رکھتے ہوں

    جانوروں کے لیے محفوظ علاقوں کا قیام

    آبی ذخائر کی بحالی اور ان کا تحفظ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فطرت کا تحفظ اب ہمارے لیے ایسی ضرورت بن گئی ہے جو ہماری اپنی بقا کے لیے ضروری ہے، ورنہ ہماری اپنی ترقی ہی ہمارے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔

  • کرونا وائرس کے بعد مزید وبائیں آنے کو تیار؟

    کرونا وائرس کے بعد مزید وبائیں آنے کو تیار؟

    وباؤں کی روک تھام کے لیے قائم ادارے کا کہنا ہے کہ اگلی آنے والی وبائیں کرونا وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک اور بدتر ہوسکتی ہیں، عالمی سطح پر صحت کی حفاظت کے لیے ہنگامی بنیادوں پر سرمایہ کاری کرنی چاہیئے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق وبائی امراض کے ادارے کولیشن فار ایپی ڈیمک پریپیئرڈنس انوویشن کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی میں انقلاب کی مدد سے سائنس دانوں نے کرونا وائرس کی ویکسین تیار کی، اس عمل کو مزید تیز کرنا چاہیئے تاکہ اگلی وبا کے آنے تک ہم 100 روز میں ویکسین تیار کرنے کے قابل ہوں۔

    مستقبل میں وباؤں سے نمٹنے کے لیے اس ادارے نے 3 ارب 50 کروڑ ڈالر کی پانچ سالہ حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے بین الاقوامی ڈونرز سے تعاون کی اپیل کی ہے۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ اگلی وبا کرونا وائرس کی وبا سے بھی بدتر ہو سکتی ہے۔

    ادارے کے چیف ایگزیکٹو رچرڈ ہیچٹ کا کہنا ہے کہ اب تک کرونا وائرس سے 25 لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں، لیکن اگلی مرتبہ ہم اتنے خوش قسمت نہیں ہوسکتے۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا 21 ویں صدی کی پہلی وبا نہیں، اگر ہم نے ابھی عمل نہیں کیا تو ہمیں اس بات کا یقین کر لینا چاہیئے کہ یہ آخری وبا نہیں ہوگی۔

    رچرڈ کا کہنا تھا کہ حکومتوں، بین الاقوامی صحت کے اداروں اور دیگر شراکت داروں کو عالمی سطح پر صحت کی حفاظت کے لیے ہنگامی بنیادوں پر سرمایہ کاری کرنی چاہیئے، اگر ایک پلیٹ فارم کے تحت 10 دنوں کے اندر ویکسین تیار ہوگی تو یہ ایک بہت بڑا کام ہوگا۔

  • عالمی ادارہ صحت نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    عالمی ادارہ صحت نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل میں کرونا وائرس سے کہیں بدترین وبائیں ہمیں اپنا نشانہ بنا سکتی ہیں، ہم ان وباؤں کے لیے تیار نہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ بدترین وبا ابھی آنا باقی ہے اور ہمیں عالمی سطح پر اس کی تیاری کے لیے سنجیدہ ہونا چاہیئے۔

    عالمی ادارہ صحت کے شعبہ ایمرجنسیز کے سربراہ مائیکل ریان نے 28 دسمبر کو پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ کرونا وائرس کی وبا خواب غفلت سے جگانے کی کال ہے۔

    یہ بریفنگ عالمی ادارے کی جانب سے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا ایک سال مکمل ہونے پر کی گئی تھی۔ ایک سال کے عرصے میں دنیا بھر میں کرونا وائرس سے 18 لاکھ کے قریب اموات ہوچکی ہیں جبکہ 8 کروڑ سے زائد کیسز کی تصدیق ہوئی ہے۔

    مائیک ریان کا کہنا تھا کہ یہ وبا بہت سنگین تھی، یہ دنیا بھر میں برق رفتاری سے پھیل گئی اور ہماری زمین کا ہر حصہ اس سے متاثر ہوا، مگر ضروری نہیں کہ یہ بڑی وبا ہو۔

    انہوں نے زور دیا کہ اگرچہ یہ وائرس بہت متعدی ہے اور لوگوں کو ہلاک کر رہا ہے، مگر اس سے ہلاکتوں کی موجودہ شرح دیگر ابھرتے امراض کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ ہمیں مستقبل میں اس سے بھی زیادہ سنگین وبا کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے سینیئر مشیر بروس ایلورڈ نے بھی خبردار کیا کہ اگرچہ دنیا میں کرونا وائرس کے بحران کے لیے سائنسی طور پر بڑی پیشرفت ہوئی ہے، مگر اس سے یاد دہانی ہوتی ہے کہ ہم مستقبل کے وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت وائرس کی دوسری اور تیسری لہر کا سامنا کر رہے ہیں اور اب بھی ہم اس سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ادہانم نے توقع ظاہر کی کہ کووڈ 19 کی وبا سے دنیا کو مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے میں مدد ملے گی۔

  • کرونا وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک وائرس ہم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں!

    کرونا وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک وائرس ہم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں!

    برلن: ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے فطرت کی حفاظت نہ کی تو دنیا میں مزید وائرسز سر اٹھائیں گے جو زیادہ تیزی سے پھیلیں گے، زیادہ خطرناک ہوں گے اور زیادہ افراد کو اپنا نشانہ بنائیں گے۔

    جرمنی میں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر جنگلات اور جنگلی حیات کے دیگر مساکن (ان کے گھروں) کا، پرندوں، جانوروں اور پودوں کی مختلف اقسام کا خیال رکھا جائے تو ہماری دنیا مختلف وباؤں سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

    یہ تحقیق جرمن حکومت کے زیر سرپرست ادارے انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آن بائیو ڈائیورسٹی ایند ایکو سسٹم سروسز کی جانب سے کی گئی ہے۔

    تحقیق میں ماہرین نے انکشاف کیا کہ اس وقت ہماری زمین پر 17 لاکھ کے قریب ایسے غیر دریافت شدہ وائرسز موجود ہوسکتے ہیں جو انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہم جانوروں سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں جیسے کہ غیر قانونی تجارت کے لیے ان کا شکار کرنا، ان کی پناہ گاہوں کے قریب جانا، یا پھر جنگلات کو کاٹ کر وہاں نئی تعمیرات بنانا تو ایسے میں ہم ان وائرسز سے قریب آجاتے ہیں نتیجتاً مختلف وباؤں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔

    اس کی ایک مثال یہی کوویڈ 19 کا کرونا وائرس ہے جو چین کی مچھلی مارکیٹ سے پھیلنا شروع ہوا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ان وباؤں سے بچاؤ کے اقدامات، کسی وبا کے پھیل جانے کے بعد اس کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے 100 گنا سستے ہوں گے، تاہم اس کی طرف دنیا کی توجہ کم ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے صرف جولائی کے مہینے تک عالمی معیشت کو 8.16 ٹریلین (ٹریلین = دس کھرب) کا نقصان ہوچکا ہے، صرف امریکا میں ہونے والے معاشی نقصان کا تخمینہ 16 سو کھرب لگایا گیا ہے۔

    مذکورہ تحقیق نے تحفظ ماحولیات کی اہمیت کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے اور اس سلسلے میں ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔