Tag: Parental responsibility

  • بچے گرمیوں کی سالانہ چھٹیاں کیسے گزاریں؟

    بچے گرمیوں کی سالانہ چھٹیاں کیسے گزاریں؟

    گرمیوں کی سالانہ چھٹیاں شروع ہوچکی ہیں، ایسے میں بچوں کی خوشی دیدنی تو ہے ہی لیکن والدین کی اکثریت پریشان ہے کہ ان دو ماہ میں بچوں کو کون سی سرگرمیوں میں مشغول رکھا جائے۔

    کسی بھی انسان کی شخصت میں توازن لانے کے لیے آرام، گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنا، سماجی تعلقات، دیر تک سونا اور دیگر مشغولیات نہایت ضروری ہیں، ان دو ماہ کی چھٹیوں میں والدین بچوں کی تربیت کیلئے خصوصی وقت بھی متعین کرسکتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ایجوکیشنل کنسلٹنٹ سکینہ خانم  نے والدین کو مختلف مشوروں سے آگاہ کیا اور بچوں کی مصروفیات سے متعلق گفتگو کی۔

    انہوں نے بتایا کہ بہت سے والدین بچوں کو سمر کیمپ کی سہولت فراہم کرتے ہیں لیکن وہ سب کیلئے ممکن نہیں اس لیے بہتر ہے کہ بچوں کو گھر میں ہی اس قسم کی سرگرمیوں میں مشغول رکھا جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ والدین بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور بیٹا یا بیٹی کی تفریق کیے بغیر گھر کے تمام کاموں میں ان کو شامل کریں اور گھر کے سارے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔

    سکینہ خانم نے بتایا کہ بچے والدین کو دیکھ کر سیکھتے ہیں والدین کو چاہیے کہ بچوں کو پینٹنگ ڈرافٹنگ رائٹنگ اور آرکیٹیکچر جیسے کورسز بھی کروائیں۔

  • گرمیوں کی چھٹیاں! والدین کی کیا ذمہ داری ہے؟

    گرمیوں کی چھٹیاں! والدین کی کیا ذمہ داری ہے؟

    ہر سال کی طرح اس سال بھی اسکولوں میں گرمی کی جون جولائی کی چھٹیاں شروع ہوگئی ہیں، چھٹیوں کے یہ دن زیادہ تر طلبہ و طالبات یوں ہی بیکار کھیل کود کر گزار دیتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر تعلیم عباس حسین نے ان چھٹیوں کو کارآمد بنانے کیلیے طلباء و طالبات کو اپنے قیمتی اور معلوماتی مشوروں سے نوازا۔

    ان کا کہنا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہونے کے ساتھ ہی والدین کو ایک نیا چیلنج درپیش ہے کہ موسمِ گرما کی چھٹیوں کے دوران اپنے بچوں کو تفریح کے مواقع کیسے فراہم کیے جائیں؟

    انہوں نے بتایا کہ چھٹیوں کے کے ایام میں زیادہ تر بچوں کو یہ شکایت ہوتی ہے میں بور ہورہا ہوں، تو والدین کو چاہیے کہ انہیں موبائل فون نہ دیں بلکہ ایسے گیمز کھلائیں جس سے ان کی معلومات اور صلاحیت میں اضافہ ہو۔

    انہوں نے کہا کہ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو پہلے سے زیادہ ٹائم دیں اور خود بھی ان کے ساتھ وہی گیمز کھیلیں تاکہ ان کے اندر بھی دلچسپی پیدا ہو۔

    عمومی تاثر یہ ہے کہ موسم گرما کی تعطیلات محض آرام کرنے اور لطف اندوز ہونے کے لیے دی جاتی ہیں تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موسم گرما کی تعطیلات آرام اور ذہنی صحت کے ذرائع حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔

    یہ تعطیلات مجموعی طور پر والدین کی اپنے بچوں کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کرنے کا ایک موقع ہے ایک ایسی دوستی جس سے بچے اپنے مسائل، خوابوں اور خواہشات کے بارے میں والدین کے ساتھ آزادانہ گفتگو کرسکیں۔

  • بچوں کی عمر کے مطابق کھیلوں کا انتخاب کیسے کیا جائے؟

    بچوں کی عمر کے مطابق کھیلوں کا انتخاب کیسے کیا جائے؟

    والدین کیلئے بچوں کی پرورش کڑے امتحان سے کم نہیں ہوتی، تعلیم وتربیت کے علاوہ ان کو اپنے بچوں کیلئے ان کی عمر کے مطابق کھیلوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔

    کھیل اور جسمانی سرگرمیاں بچوں میں کئی مثبت صلاحیتیں اجاگر کرنے میں معاون ہوتی ہیں، والدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کیلئے ان کی عمر کے حساب سے ان کیلئے کھیلوں کا انتخاب کریں۔

    کھیل

    کھیلوں کی سرگرمیوں سے جسمانی طاقت ونشوونما بہتر ہوتی ہے، خود اعتمادی میں اضافہ، غلط و صحیح کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت اور خود کو منظم رکھنے کی طاقت اور قوت پیدا ہوتی ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں موٹویشنل اسپیکر ڈاکٹر جاوید اقبال نے والدین کی آگاہی کیلئے کچھ طریقے بیان کیے جو بہت کارآمد ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ کس طرح والدین اپنے بچوں کو ان کی عمر کی ضرورت کے مطابق ان کو غیر نصابی سرگرمیوں میں مشغول رکھ سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بہت سے بچے کم عمری میں ہی کسی نہ کسی کھیل پر عمل کرنا شروع کردیتے ہیں، کسی بھی حالات میں ایسا نہیں کیا جانا چاہئے کہ کسی بھی وقت بچوں کی رائے کو مدنظر رکھے بغیر کسی خاص کھیل کی مشق کرنے پر بچوں کو مجبور کریں۔

    اتنے سارے فوائد کے حصول کے لیے اہم نکتہ یہ ہوتا ہے کہ بچے کی عمر کے مطابق ایسے کھیلوں کا تعین کیسے کیا جاسکتا ہے؟

    بچے کی عمر کے مطابق مناسب کھیل

    دوبرس کی عمر تک :

    اس عمر میں سادہ کھیل جیسے سیڑھیاں چڑھنا ، گیند پھینکنا اور پکڑنا وغیرہ بہتر رہتے ہیں۔

    تین سے پانچ برس کی عمرتک :

    اس مرحلے میں بچہ کئی بڑے کھیلوں میں عبور حاصل کرنے لگتا ہے، اس عمر میں بے قاعدہ آزادانہ طریقے سے ورزش کرنا خاص طور پر دوڑنا ، تیراکی کرنا مفید ہوتا ہے۔

    چھ سے نو برس کی عمر تک :

    اس مرحلے میں بچے کو اپنی ذہنی اورعقلی صلاحیتوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ماہرین اس مرحلے میں ٹیم کی صورت میں کھیلنے کو بہتر قرار دیتے ہیں۔ خاص طور پر فٹ بال، جمناسٹک، گھڑ سواری، ٹینس، کراٹے، شکار کرنا سیکھنا، طاقت کی مشقیں وغیرہ۔

    دس سے بارہ برس کی عمر تک :

    اس مرحلے میں بچہ زیادہ پختہ اور کھیل کے قواعدو قوانین کو سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس عمر کو پہنچ کر بچہ باسکٹ بال، ہاکی اور والی بال سمیت مزید پیچیدہ کھیل اپنانے کا اہل ہوجاتا ہے۔

  • والدین بچوں کو ڈراؤنے خواب دیکھنے سے کیسے بچاسکتے ہیں؟

    والدین بچوں کو ڈراؤنے خواب دیکھنے سے کیسے بچاسکتے ہیں؟

    اکثر بچوں کو ان کے بچپن کے کسی خاص حصے میں ڈراؤنے خواب ضرور دکھائی دیتے ہیں، یہ خواب دس میں سے ایک بچے کو دکھائی دیتے ہیں جن کی عمر تین سے سات سال کے درمیان ہوتی ہے۔

    گہری اور پرسکون نیند بچوں کی بہتر نشونما میں اہم کرادار ادا کرتی ہے اس دوران جسم دن بھر میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتا ہے۔

    لیکن کچھ بچے دیگر بچوں کی طرح پرسکون اور گہری نہیں لے پاتے بلکہ وہ نیند میں کسی انجانے خوف اور ڈراؤنے خواب کے باعث گھبرا کر جاگ جاتے ہیں، اس طرح وہ خوف میں مبتلا رہتے ہیں جس کا اثر براہ راست ان کی صحت پر پڑتا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے بچوں کو سُلانے کے لئے کافی محنت کرنا پڑتی ہے کیونکہ وہ یہ سوچ کر خوف زدہ ہوسکتے ہیں کہ وہ کوئی ڈراؤنا خواب نہ دیکھ لیں۔

    מה גורם לבעיות התעוררות והירדמות אצל תינוקות ופעוטות? - איך גדלת

    ڈراؤنے خواب دیکھنا بہت عام بات ہے لیکن ابھی تک اس کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوسکی تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تناؤ اور تھکاوٹ کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔

    اس ضمن میں ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ بچوں کو اس مسئلے سے نجات کے لئے والدین کو چند آسان طریقوں پر عمل کرنا ہوگا۔

    سومنس تھراپی کے ماہر ڈاکٹر کیتھرین نے چار اہم عناصر کا ذکر کیا ہے جو خوف زدہ کرنے والے خوابوں سے نجات میں معاون ثابت ہوگا۔

    بچوں کو ڈراونے خواب کیوں آتے ہیں؟ ان سے چھٹکارا کیسے حاصل کریں؟ - Parenting  - Dawn News

    منفی خیالات
    اگر بچہ سونے سے قبل منفی خیالات کا شکار ہے تو دن بھر انہیں خوشگوار چیزوں کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دیں اور بچے کی خواہش کے مطابق اچھے خوابوں کی اقسام پر بات کریں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ مستقبل میں سیر و تفریح کی نیت سے کہیں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو بچے سے کہیں کہ وہ اس کا تصور کریں کہ وہ جگہ کیسی ہوگی اور اس دن وہ کس طرح کا لباس پہنے گے کس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔ اس طرح بچے کو خوشگوار خیالات کے بارے میں دن میں خواب دیکھنے کی ترغیب دیں۔

    اس طرح ان میں ڈراؤنے خواب دیکھنے کے امکانات کم ہوں گے بلکہ وہ ان دلچسپ خیالات پر توجہ مرکوز کر کے جلد نیند کی آغوش میں جاسکتے ہیں۔

    بچوں کے خوف پر بات کریں
    آپ جتنا خوف سے بچتے ہیں وہ اتنے ہی بڑے ہوتے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بچے جس شے سے خوف محسوس کرتے ہیں اس کے بارے میں بات کریں کیونکہ یہی خوف برے خواب کو جنم دیتے ہے۔

    مثال کے طور پر اگر بچہ کسی گڑیا، جوکر یا پڑوسی کے کتے سے ڈرتا ہے تو آپ انہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ اور ان مخصوص خوف پر دن میں دس سے پندرہ منٹ بات کریں۔

    آپ کا بچہ ان خیالات اور تصاویر سے جتنا مانوس ہوگا اس کا خوف کم ہوتا جائے گا، اور اس طرح پریشان کن خوابوں کا سلسلہ بھی رک جائے گا۔

    کھانے کا انتخاب سمجھداری سے کریں

    بہت سی غذائیں ایسی ہیں جنہیں ڈراؤنے خوابوں سے جوڑا گیا ہے جن میں پنیر، چینی، مٹھائیاں، چاکلیٹ اور فاسٹ فوڈ شامل ہیں، ساتھ ہی کیفین پر مشتمل مشروبات بھی ڈراؤنے خواب کا ایک بڑا محرک ہے۔ جن میں اسپورٹس ڈرنکس، سافٹ ڈرنکس، آئس ٹی اور مخصوص قسم کے جوس شامل ہیں۔

    اگر بچہ کبھی برے خواب دیکھنے پر جاگ جائے تو غور کریں اس نے پچھلی رات غذا میں کیا لیا تھا اور اوپر بتائی گئی غذاؤں کوصحت بخش غذاؤں یعنی کم چینی والی جیسے دہی، تازہ پھل، گرینولا یا ٹوسٹ کے ساتھ تبدیل کر دیں اس طرح ہلکی غذا پیٹ کی تکلیف جیسے گیس یا ایسڈ ریفلیکس کا باعث بھی نہیں بنے گی۔ کوشش کریں کہ سونے سے ایک گھنٹہ قبل کھانا کھلائیں تاکہ ہاضمے کے لئے وقت مل سکیں۔

    آرام کریں

    بڑوں کی طرح بچوں کے لئے بھی یہ بات یقینی بنائیں کہ وہ سونے سے ایک گھنٹے قبل ہی ٹی وی اور تمام ڈجیٹل آلات بند کر دیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان الیکٹراناک آلات سے نکلنے والی نیلی روشنی بچے کے دماغ میں نیند کے ہارمون میلاٹونن کے اخراج کو روکتی ہے جو آرام اور سکون پیدا کرتا ہے۔ اس طرح بچہ اسکرین پر کسی خوفناک تصویریا خیال سے محفوظ رہے گا۔

    سونے سے قبل بچوں کو سانس یا ذہن سازی کی مشقیں کرانا بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے اس مقصد کے لئے یوگا اور مراقبہ اضطراب اور تناؤ کو کم کرنے اور مثبت سوچ کو فروغ دینے میں مدد فراہم کرے گا۔

  • بچوں کی اچھی پرورش : والدین کیلئے رہنما اصول کیا ہیں؟

    بچوں کی اچھی پرورش : والدین کیلئے رہنما اصول کیا ہیں؟

     والدین اگر  یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگیوں میں کس قدر کامیاب ہیں تو اس کا اندازہ وہ اپنے بچوں کو دیکھ کر ہی لگاسکتے ہیں، اگر بچے اخلاقی طور پر اچھے ہیں تو یہی والدین کی کامیابی ہے۔

    اپنے بچوں کی پرورش کے دوران ہم اپنے ماں باپ کے انداز سے متاثر ہوتے ہیں، اس کا مطلب ہے ہم اپنے بچوں کی پرورش اپنے ماں باپ کی طرح کرتے ہیں، بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں  اور بڑی احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

    والدین اپنے بچوں کی پرورش کے دوران انہیں ہر طرح کے آرام و آرائش دینے کی فکر کرتے ہیں لیکن ان سب سے زیادہ بچوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ والدین ان کی باتوں کو سنیں اور جذباتی طور پر ان کے لیے موجود رہیں۔

    بچے، والدین، پرورش

    والدین بننا جہاں ایک طرف زندگی کا سب سے خوبصورت ترین تجربہ ہے، وہیں یہ چیلنجنگ بھرا بھی ثابت ہوتا ہے۔ والدین بننے کا مطلب ہے بچے کو ایک اچھا انسان بننے میں مدد کرنا ہے۔

    والدین ہمیشہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ بچہ والدین سے ہوئی غلطیوں کو نہ دہرائیں، ان پر کسی قسم کا جذباتی بوجھ نہ پڑے۔ لیکن بہت سے والدین کی زندگی میں ایسے مسائل ہوتے ہیں، جو ان کی پرورش پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    اس لیے بچوں کے لیے ایک محفوظ ماحول قائم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے والدین سے رابطہ قائم کرسکیں۔ یہ بچے کو جذباتی طور پر مضبوط بننے میں مدد کرے گا۔

    والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے جذباتی طور پر موجود رہیں کیونکہ جب وہ بڑے ہوں گے تو یہی وہ چیز ہے جس پر وہ زیادہ انحصار کرنے والے ہیں۔

    بچوں کی پرورش: اچھے والدین بننے کے لیے یہ پانچ باتیں یاد رکھیں - BBC News اردو

    اس آرٹیکل کے ذریعہ اسکرام کڈز ویئر کے ڈائریکٹر منوج جین بچوں کے لیے بہتر ماحول تیار کرنے کے چند طریقوں کے بارے میں بتائیں گے جو بچے کو فطری طور پر اپنے والدین کے ساتھ جوڑنے میں مدد کرے گا۔

    اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنائیں

    یہ طریقہ بچوں اور والدین کو ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرنے کاموقع دیتا ہے جو بعد میں انہیں زندگی کے سفر میں آنے والی مشکلات کو بہتر طریقے سے نمٹنے میں ایک محفوظ ماحول فراہم کرے گا۔

    جب بچے اپنے والدین سے ہر طرح کی باتیں کرنے میں خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں تب وہ اپنے مسائل کو حل بھی کرپاتے ہیں اور اچھی زندگی گزار پاتے ہیں۔

    بچوں کی تعلیمی تربیت والدین اسے نظر انداز نہ کریں

    یہ رشتہ انہیں ایمانداری تو سکھاتا ہی ہے ساتھ میں ان میں تکلیف سے نمٹنے کی ہمت اور کسی بھی بات کو پوشیدہ نہ رکھنے کی عادت ہوتی ہے۔

    والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو بتائیں کہ وہ ہمیشہ ان کے ساتھ ہیں اور والدین کی یہ انس و محبت بچوں میں یہ اعتماد پیدا کرے گی کہ وہ ہر خظرناک حالات سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔

    اپنے بچوں کے جذبات کو سمجھیں

    اگر آپ اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ اپنی پریشانیوں کو خود حل کرو تو آئندہ کوئی بڑی مصیبت آنے پر بھی وہ اپنے والدین سے بات شیئر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

    اس سے بچوں میں دوسروں پر اعتماد کرنے میں مشکل پیش آتی ہے جو بعد میں اضطراب کی وجہ بن سکتا ہے اور جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو اپنے مشکلات سے نمٹنے کے لیے غلط راستے اختیار کرسکتے ہیں۔

    ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں بچوں کی تربیت

    اگر بچہ کسی ذہنی مشکلات سے گزر رہا ہے تو والدین کو ان سے بات کرکے ان کے مسائل کو حل کرنے میں مددکرنی چاہیے۔

    جب آپ بچوں کی بات نہیں سنتے تو وہ انہیں اندر سے توڑ دیتی ہے۔شاید یہ مسئلے آپ کی نظر میں چھوٹے ہوں لیکن بچوں کے لیے یہ ایک بڑی بات ہوتی ہے۔اگر آپ ان کے ساتھ ہیں تو آئندہ وقت میں وہ اس طرح کے مصائب سے بہتر انداز میں نمٹنا سیکھ جاتے ہیں۔

    بچوں کے مسائل کو اطمینان سے سنیں

    والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کے مسائل کو سننے کے بعد کوئی رائے نہ بنائیں اور ان پر کوئی سخت ردعمل ظاہر نہ کریں، یہ دونوں عوامل والدین اور بچے کے تعلقات کو زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    والدین کا دوستانہ رویہ بچوں کی پرورش کا اہم حصہ

    بچے بعض اوقات حالات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور چیزوں سے جلدی خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں والدین کو اپنے بچے کو لے کر کوئی رائے قائم نہیں کرنا چاہیے اور انہیں اطمینان سے سننا چاہیے۔

    آسان طریقے سے انہیں سمجھائیں جس سے بچے خود کو محفوظ محسوس کریں۔ یہ بچوں کے لیے زندگی کا سبق ہو سکتا ہے۔

    ہمدردی سے پیش آئیں

    جب والدین بچے کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں اور ان سے ہمدردی و شفت سے پیش آتے ہیں تب بچوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کا رشتہ محفوط ہے اور وہ بغیر خوف کے اپنی باتوں کو شیئر کرسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بچوں کے ہر بات سے متفق ہوں۔

    Bachon Ki Tarbiyat Main Tafreek Na Kareen - Child Care & Baby Care Articles

    اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ ان کی صورتحال کو سمجھتے ہیں۔ ایسا کرنے سے والدین کو اپنا نظریہ شیئر کرنے کا موقع تو ملتا ہی ہے، ساتھ میں بچے ان کے مشورے کو سنتے بھی ہیں۔ اگر آپ ان کے مسائل سے متعلق اپنے تجربات بیان کرتے ہیں تو وہ ان تجربات کی روشنی میں اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں۔

    اس طرح کی چیزیں طویل عرصے تک بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔بچوں کو ہر قسم کا مزاج رکھنے کی اجازت دیں تاکہ وہ ایک انسان کے طور پر ابھر کر سامنے آسکیں، جو اپنے اصولوں اور انفرادیت سے سمجھوتہ کیے بغیر اپنے لیے بہتر راستہ تلاش کرسکیں۔

    انہیں ناکامی کے بارے میں سکھائیں

    بچوں کو منفی سوچ سے بچانے کی کوشش کرنا عام ہےلیکن بچوں کو ناکامی کے بارے میں سمجھنا چاہیے۔ والدین کو اپنے بچوں کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ناکامی کے بعد بھی آپ بہتر چیز حاصل کرسکتے ہیں۔

    اس سے بچے اپنی خامیوں کو جانیں گے اور اس پر محنت کرنی کی کوشش کریں گے۔ ناکامیوں کو سمجھنے کے بعد ہی وہ لگن، محنت اور کامیابی کو مزید بہتر انداز سے سمجھ سکتے ہیں۔

  • والدین بچوں کیلئے کس نوعیت کے کھیلوں کا انتخاب کریں؟

    والدین بچوں کیلئے کس نوعیت کے کھیلوں کا انتخاب کریں؟

    کھیل اور جسمانی سرگرمیاں بچوں میں کئی مثبت صلاحیتیں اجاگر کرنے میں معاون ہوتی ہیں، والدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کیلئے ان کی عمر کے حساب سے ان کیلئے کھیلوں کا انتخاب کریں۔

    الرجل میگزین کے مطابق کھیلوں کی سرگرمیوں سے جسمانی طاقت ونشوونما بہتر ہوتی ہے، خود اعتمادی میں اضافہ، غلط و صحیح کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت، خود کو منظم رکھنا اور اس کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں سے شخصیت کو بھی بہتر کیا جاسکتا ہے۔

    اتنے سارے فوائد کے حصول کے لیے اہم نکتہ یہ ہوتا ہے کہ بچے کی عمر کے مطابق ایسے کھیلوں کا تعین کیسے کیا جاسکتا ہے؟

    بچے کی عمر کے مطابق مناسب کھیل

    دوبرس کی عمر تک :
    اس عمر میں سادہ کھیل جیسے سیڑھیاں چڑھنا ، گیند پھینکنا اور پکڑنا وغیرہ بہتر رہتے ہیں۔

    تین سے پانچ برس کی عمرتک :
      اس مرحلے میں بچہ کئی بڑے کھیلوں میں عبور حاصل کرنے لگتا ہے، اس عمر میں بے قاعدہ آزادانہ طریقے سے ورزش کرنا خاص طور پر دوڑنا ، تیراکی کرنا مفید ہوتا ہے۔

    چھ سے نو برس کی عمر تک :
      اس مرحلے میں بچے کو اپنی ذہنی اورعقلی صلاحیتوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ماہرین اس مرحلے میں ٹیم کی صورت میں کھیلنے کو بہتر قرار دیتے ہیں۔ خاص طور پر فٹ بال، جمناسٹک، گھڑ سواری، ٹینس، کراٹے، شکار کرنا سیکھنا، طاقت کی مشقیں وغیرہ۔

    دس سے بارہ برس کی عمر تک :
      اس مرحلے میں بچہ زیادہ پختہ اور کھیل کے قواعدو قوانین کو سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس عمر کو پہنچ کر بچہ باسکٹ بال، ہاکی اور والی بال سمیت مزید پیچیدہ کھیل اپنانے کا اہل ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں : بچپن کی جسمانی سرگرمیاں اور ورزش کتنی کار آمد ہیں؟