Tag: parents

  • ہوم ورک آپ کے بچوں کا دوست یا دشمن؟

    ہوم ورک آپ کے بچوں کا دوست یا دشمن؟

    کیا آپ والدین ہیں اور چاہتے ہیں کہ روز رات کو سونے سے قبل آپ کا بچہ چپ چاپ اپنا ہوم ورک مکمل کر کے سوئے؟ تو جان لیں کہ آپ نے اپنے بچے کو ایک غیر ضروری سرگرمی میں مصروف کر رکھا ہے جس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں۔

    ایک طویل عرصے تک بے شمار تحقیقوں اور رد و کد کے بعد بالآخر ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا ہے کہ ہوم ورک یعنی اسکول سے گھر کے لیے ملنے والا کام ایک ایسی شے ہے جس کا بچے کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

    سنہ 1989 سے مختلف اسکولوں اور طالب علموں کا ڈیٹا کھنگالنے کے باوجود ماہرین کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ہوم ورک نے بچے کی کارکردگی یا شخصیت پر کوئی مثبت اثر مرتب کیا ہو۔

    ماہرین نے اس ضمن میں طالب علموں کو 3 گروہوں میں تقسیم کیا۔ ان کی طویل تحقیق کے مطابق ایلیمنٹری اسکول کے بچے یعنی 6 سال سے کم عمر بچوں کے لیے ہوم ورک بالکل غیر ضروری ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس عمر کے بچے تعلیم اور نصاب سے متعلق جو کچھ سیکھتے ہیں وہ اسکول میں ہی سیکھتے ہیں، ہوم ورک ان کے لیے صرف ایک اضافی مشقت ہے جو انہیں تھکا دیتا ہے۔

    یہی کلیہ مڈل اسکول کے بچوں کے لیے ہے۔ ہائی اسکول میں جا کر ہوم ورک کے کچھ فوائد دکھائی دیتے ہیں لیکن اس ہوم ورک کا وقت صرف 2 گھنٹے ہونا چاہیئے۔ 2 گھنٹے سے زیادہ ہوم ورک بچوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم دینے کا مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ ان میں تعلیم، پڑھنے، مطالعہ کرنے اور نیا سیکھنے سے محبت پیدا ہو۔ لیکن ہوم ورک الٹا اثر کرسکتا ہے اور بچوں میں ان تمام ضروری اشیا سے محبت کے بجائے چڑ پیدا ہونے لگتی ہے۔

    ان کے دل میں اسکول سے متعلق منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں جو بڑے ہونے تک برقرار رہ سکتے ہیں یعنی پڑھائی ان بچوں کے لیے بوجھ بن سکتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہوم ورک بچوں کے کھیلنے کا وقت بھی محدود کرتا ہے چنانچہ وہ کھلی فضا میں جانے اور جسمانی سرگرمی سے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوم ورک کسی خاندان کے رشتے کو بھی کمزور کرسکتا ہے۔ روز رات میں ہوم ورک کروانے کے لیے والدین کی آپس میں بحث، بچوں کا رونا، ضد کرنا اور والدین کی بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ ان کے تعلق کو خراب کرسکتی ہے۔

    دن کے اختتام کا وہ وقت جب پورا خاندان مل بیٹھ کر، گفتگو کر کے اور ہنسی مذاق کر کے اپنے رشتے کو بہتر اور مضبوط بنا سکتا ہے، اس جھنجھٹ کی نذر ہوجاتا ہے، ’کیا تم نے اپنا ہوم ورک کرلیا‘؟

    ماہرین نے ہوم ورک کے مزید مضر اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اکثر ہوم ورک کے لیے بچوں کو کسی بڑے کی مدد درکار ہوتی ہے، یہ مدد بچے کی خود سے کام کرنے کی صلاحیت میں کمی کرتی ہے اور وہ دوسروں پر انحصار کرنے لگتا ہے۔

    اسی طرح دن کے اختتام پر والدین کو بھی صرف یہی سننا ہے کہ ہوم ورک مکمل ہوگیا۔ اس ہوم ورک سے ان کے بچے نے کیا نیا سیکھا، اور اس پر کیا اثرات مرتب ہوئے، یہ جاننے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ بچوں کو ہوم ورک دینے کے بجائے گھر پر مطالعہ کرنے کا کہا جائے۔ یہ مطالعہ باآواز بلند ہو جس سے گھر کے دیگر افراد بھی اس سرگرمی میں شامل ہوجائیں گے۔

    یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہفتے میں کچھ دن بچے خود مطالعہ کریں، اور کچھ دن کسی اور سے مطالعہ کروائیں اور خود صرف سن کر آئیں۔ اس سرگرمی سے وہی مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں جو ہم اپنی دانست میں ہوم ورک سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

  • بچوں کی سالانہ 2لاکھ فیس ادا کرنے والے  والدین کی شامت آگئی

    بچوں کی سالانہ 2لاکھ فیس ادا کرنے والے والدین کی شامت آگئی

    لاہور : ایف بی آر نے بچوں کی سالانہ 2لاکھ فیس ادا کرنےوالے مزید 10ہزار والدین کو نوٹسز جاری کر دئیے ، نوٹسز میں آمدن کے ذرائع پوچھے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر ) نے بچوں کی سالانہ 2لاکھ فیس ادا کرنے والے مزید 10ہزار والدین کو نوٹسز جاری کر دئیے ، نوٹسز میں والدین سے تعلیمی اداروں کی سالانہ 2لاکھ روپے فیس کی ادائیگی کے حوالے سے آمدن کے ذرائع پوچھے گئے ہیں ۔

    ایف بی آر کی جانب سے اس سے قبل 16ہزار والدین کو آمدن کے ذرائع کے حوالے سے نوٹسز جاری کئے تھے اور 15 روز میں جواب طلب کیا تھا۔

    دوسری جانب نمائندہ پیرنٹس ایسوسی ایشن فیصل صدیقی نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سالانہ دولاکھ روپے فیس جمع کروانے والےوالدین کے لئے ضروری ہے کہ ریٹرن فائل کرتے ہوئے ایڈوانس ٹیکس ظاہر کریں۔

    فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اس قانون کو چیلنج کرنے کیلئےگزشتہ دس ماہ سےسندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن فائل کر رکھی ہے، ایڈوانس انکم ٹیکس کٹتا تو ہے لیکن اسکول جمع کرواتا ہے یا نہیں علم نہیں، حکومت والدین کےساتھ اداروں کوبھی کنٹرول کرے۔

    یاد رہے ایف بی آر نے 2 لاکھ روپے سالانہ فیس اداکرنے والے والدین کا ریکارڈ مرتب کیا تھا اور کہا تھا 2 لاکھ روپے سالانہ فیس دینے والے اپنے ذرائع آمدن بتائیں، ذرائع آمدن جائز نہ ہوئے تو سخت کارروائی کی جائےگی۔

  • دبئی میں بچوں سے بدسلوکی اور گھریلو تشدد کی اصل وجہ والدین ہیں، رپورٹ

    دبئی میں بچوں سے بدسلوکی اور گھریلو تشدد کی اصل وجہ والدین ہیں، رپورٹ

    دبئی : خواتین و بچوں کے حقوق کےلیے کام کرنے والی تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ 98 فیصد بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے ذمہ دار خود والدین ہوتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات میں بچوں و خواتین کےلیے حقوق کےلیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم دبئی فاؤنڈیشن (ڈی ایف ڈبلیو اے سی) نے بچوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ متاثرین کے ساتھ بدسلوکی میں اکثر ان کے والدین ملوث ہوتے ہیں۔

    دبئی فاؤنڈیشن نے سنہ 2018 میں موصول ہونے والے بدسلوکی کے کیسز کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی ایف ڈبلیو اے سی کو گزشتہ برس 52 بچوں سمیت 1027 افراد کے ساتھبدسلوکی کے کیسز موصول ہوئے تھے۔

    ڈی ایف ڈبلیو اے سی کی ڈائریکٹر گنیما حسن البحری کا کہنا تھا کہ ’ہم 33 بچوں کو شیلٹر فراہم کررہے ہیں جس میں 54 فیصد کا تعلق امارات سے ہے اور بدسلوکی کا شکار بننے والے بچوں میں 83 فیصد متاثرین کے ساتھ ان کے والد اور 15 فیصد بچوں کے ساتھ والدہ نے بدسلوکی کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی سب سے معمولی اقسام والدین کے ہاتھوں، جسمانی، زبانی اور احساساتی زیادتیاں بشمول مالیاتی اور جنسی بدسلوکی بھی شامل ہیں۔

    گنیما حسن البحری کا کہنا تھا کہ ہمیں والدین کی جانب سے بچوں کو بے عزتی، جسمانی تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے ذریعے بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    گنیما حسن البحری نے رپورٹ میں بتایا کہ گزشتہ برس فاؤنڈیشن کو آٹھ کیسز انسانی اسمگلنگ کے وصول ہوئے تھے جس میں پانچ لڑکیاں تھیں جن کی عمریں 13، 14، 15 برس تھی۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کے مطابق فاؤندیشن نے بتایا کہ 2017 میں 1200 بدسلوکی کے کیشز وصول ہوئے تھے جبکہ گزشتہ برس 133 کیسز کی کمی آئی تھی۔

  • برطانوی اسکولوں میں‌ ہم جنس پرستی کی تعلیم دینے پر مسلم والدین کا احتجاج

    برطانوی اسکولوں میں‌ ہم جنس پرستی کی تعلیم دینے پر مسلم والدین کا احتجاج

    لندن : برطانوی والدین نے پرائمری اسکول میں ہم جنسی پرستی سے متعلق تعلیم دینے پر ہفتہ وار مظاہروں کا آغاز کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے شہر برمنگھم کے ایک اسکول میں مسلمان بچوں کو مذہبی قوانین کی خلاف ورزی کے باوجود ہم جنس پرستی کی تعلیم دی جارہی ہے جس کے خلاف والدین نے اسکول انتظامیہ کے خلاف ہفتہ وار احتجاج شروع کا آغاز کردیا ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ برمنگھم میں پارک فلیڈ کمیونٹی اسکول میں ایک فیصد غیر مسلم بچے زیر تعلیم ہیں اس کے باوجود اسکول میں ’نو آؤٹ سائڈر‘ نامی پروگرام کے تحت بچوں اسکول میں زیر تعلیم بچوں کو کہانیوں پر مبنی کتابوں کے ذریعے ہم جنس پرستی کی تعلیم دی جارہی ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق اسکول انتظامیہ کی جانب سے ہفتہ وار احتجاج کرنے والے والدین پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ سلسلہ وار مظاہرے منعقد کرنے سے گریز کریں۔

    میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ پروگرام کے سربراہ اینڈریو موفت ہیں جنہیں ورکی گلوبل ٹیچر پرائز کی جانب سے بہترین ٹیچر ایوارڈز کےلیے منتخب کیے گئے پہلے دس اساتذہ میں شامل کیا گیا تھا۔

    غیر ملکی میڈیا کہنا ہے کہ اینڈریو موفت جو خود ایک ہم جنس پرست ہیں، جس کے باعث انہیں والدین کے شدید غم و غصے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، والدین کا کہنا ہےکہ مذکورہ نظریات اینڈریو ذاتی نظریات ہیں۔

    دوسری جانب برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ والدین نے احتجاج کے دوران اینڈریو موفت کے خلاف شدید نعرے بازی کیا اور اسکول انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ اینڈریو موفت کو اسکول سے بے دخل کیا جائے۔

  • اپنے بچوں کو یہ 10 عادات ضرور سکھائیں

    اپنے بچوں کو یہ 10 عادات ضرور سکھائیں

    جب آپ بچوں کے والدین بنتے ہیں تو آپ کے اوپر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ آپ کی تربیت ہی آپ کے بچے کو معاشرے کے لیے کار آمد یا تخریب کار بنا سکتی ہے۔

    ویسے تو تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ سچ بولے، ایمان دار ہو، بڑوں کی عزت کرے، اور بہادر بنے لیکن اس کے لیے آپ کو اس کی تربیت بھی انہی خطوط پر کرنی ضروری ہے۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    ایسا نہ ہو کہ آپ خود کچھ غلط کر رہے ہیں اور اس کے برعکس اپنے بچے کو وہی کام درست کرنے کا کہہ رہے ہوں تو اس کا سب سے پہلا سوال یہی ہوگا، ’آپ بھی تو یہ کرتے ہیں‘۔

    آج ہم آپ کو ایسی ہی 10 اہم عادات بتانے جارہے ہیں جو آپ کو اپنے بچوں کو ضرور سکھانی چاہئیں تاکہ وہ ایک ہمدرد اور اچھا انسان ثابت ہوسکے۔

    سب کی عزت کرو

    صرف بچیوں کو سب کی عزت کرنے یا بچوں کو لڑکیوں کی عزت کرنے کا سبق نہ دیں۔ دونوں کو سکھائیں کہ انہیں ہر ایک کی عزت کرنی چاہیئے۔

    غلطیوں کو درست کریں

    اگر آپ کے بچے نے ہوم ورک غلط کیا ہے تو اسے ڈانٹنے کے بجائے اس کے ساتھ بیٹھ کر اسے سمجھائیں کہ کون سا کام کس طرح کرنا چاہیئے۔

    گریڈز کو اہمیت نہ دیں

    اپنے بچے پر زور نہ ڈالیں کہ وہ اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن یا اچھے گریڈز لے کر آئے۔

    اس کے برعکس اگر وہ کم نمبرز لائے تو اس کی تعریف کریں کہ اس نے کچھ نیا سیکھا، اور اسے نرمی سے مزید سیکھنے اور پڑھنے پر اکسائیں۔

    دشمن مت بنیں

    بچوں کے ساتھ ہر وقت سختی کا رویہ اختیار نہ کریں کہ وہ اپنی غلطیوں کو آپ سے چھپانے لگیں۔

    ان سے دوستانہ تعلقات رکھیں تاکہ وہ اپنی زندگی کی ہر چیز آپ کو بتائے اور آپ کو علم ہوتا رہے کہ آپ کا بچہ صحیح سمت میں جارہا ہے یا غلط سمت میں۔

    اپنے لیے کھڑا ہونا سکھائیں

    اپنے بچوں کو خود اعتماد بنائیں اور انہیں اپنے حق کے لیے کھڑا ہونا اور بولنا سکھائیں۔ انہیں ایسا مت بنائیں کہ کوئی بھی ان کے ساتھ زیادتی یا نا انصافی کر جائے اور وہ چپ چاپ سہہ جائیں۔

    کسی کے کہنے پر غلط کام مت کرو

    اپنے بچوں کو سکھائیں کہ جس کام کو وہ ناپسند کرتا ہے اسے کسی کے کہنے پر بھی نہ کرے۔

    مثلاً کھیل کے دوران اگر بچوں میں لڑائی ہوجاتی ہے اور آپ کا بچہ جھگڑالو طبیعت کا نہیں، تو اسے سمجھائیں کہ اپنے دوستوں کے اکسانے پر بھی وہ لڑائی جھگڑا نہ کرے۔

    سوال پوچھنا سکھائیں

    اپنے بچوں کو بتائیں کہ سوال پوچھنا کم عقلی کی نہیں بلکہ ذہانت کی نشانی ہے۔ بعض بچے سوچتے ہیں کہ کلاس میں اگر انہوں نے استاد سے کچھ پوچھا تو سب سوچیں گے کہ وہ کم عقل ہے جسے سمجھ نہیں آیا۔

    اپنے بچے کے اندر سے اس خوف کو باہر نکال پھینکیں۔

    انہیں پس منظر میں رہنا نہ سکھائیں

    بعض بچے اسکول میں جا کر کسی مصیبت یا پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے استاد کو یہ بتایا تو سب کی توجہ اس کی طرف مرکوز ہوجائے گی۔

    اپنے بچے میں خود اعتمادی پیدا کریں اور اسے سمجھائیں کہ اگر وہ اسکول میں کسی پریشانی کا شکار ہے تو اپنے ٹیچرز سے اس بارے میں بات کرے۔

    ماحول کی حفاظت کرنا سکھائیں

    اپنے بچے کو ماحول اور قدرتی وسائل کی حفاظت کرنا سکھائیں۔ اسے پانی کا کم استعمال، پھولوں اور درختوں سے محبت اور اپنے آس پاس کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا سکھائیں۔

    نہ کہنا سکھائیں

    اپنے بچوں کو صحیح اور غلط میں تمیز کے ساتھ اسے ’نہ‘ کہنا بھی سکھائیں۔ اسے بتائیں کہ ضروری نہیں ہر وہ شخص جو اس سے بڑا ہو وہ درست ہی کہے۔

    اگر اسے لگتا ہے کہ اسے کوئی غلط کام کرنے کو کہا جارہا ہے تو اس میں اتنا حوصلہ پیدا کریں کہ وہ ’نہ‘ کہہ سکے۔

  • سعودی عرب: بچوں کو تعلیم سے روکنے والے والدین کو وارننگ جاری

    سعودی عرب: بچوں کو تعلیم سے روکنے والے والدین کو وارننگ جاری

    ریاض : سعودی عرب کے جنرل پراسیکیوشن نے وارننگ جاری کی ہے کہ بچوں کو تعلیم کے حصول سے روکنے یا تعلیم کے لیے مناسب ماحول فراہم نہ کرنے والے والدین کے خلاف چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے حکام کی جانب سے ریاست میں بسنے والے تمام شہریوں کو متبنہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے حصول کےلیے ہر ممکن معاونت فراہم کریں اگر بچوں کو علم حاصل کرنے سے روکا گیا تو والدین سزا کے مرتکب قرار پائیں گے۔

    سعودی عرب کے جنرل پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جو والدین اپنے بچوں کی تعلیمی راہ میں حائل ہوں گے انہیں علم حاصل کرنے سے روکنے پر چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کی شق نمبر 4 کے تحت سزائیں دی جائیں گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جنرل پراسیکیوشن نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹویٹر پر جاری بیان میں کہا ہے کہ تمام والدین کی قانوناً یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے بہتر ماحول اور حالات پیدا کریں۔

    سعودی جنرل پراسیکیوشن نے کا کہنا تھا کہ اپنے بچوں کی تعلیم منقطع کرنا ان کو تکلیف دینے کے مترادف ہے جو عدم توجہی کی صورت میں ہوتا ہے، جو ریاستی قوانین کی خلاف ورزی شمار کیا جائے گا۔

    سعودی عرب کے وزارت تعلیم نے کہا ہے کہ پرائمری اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی 30 فیصد سے زائد چھٹیوں کی صورت میں بھی والدین سے باز پرش کی جائے گی اور ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی۔

  • امریکی والدین بچوں کو اسکول بھیجنے سے خوف زدہ

    امریکی والدین بچوں کو اسکول بھیجنے سے خوف زدہ

    واشنگٹن: امریکا میں ایک سروے کے مطابق کہ 34 فیصد والدین اسکولوں میں اپنے بچوں کی حفاظت کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہیں اورانہیں اسکول بھیجنے سے خوفزدہ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں ہونے والے حالیہ سروے میں حیرت انگیز اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ بچوں کی اسکولوں میں حفاظت کے حوالے سے 34 فیصد والدین شدید تحفظات کا شکار ہیں اور یہ گزشتہ 20 کی بلند ترین سطح ہے۔

    سروے میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1998 کے بعد اب پہلی بار اتنی زیادہ تعداد میں والدین بچوں کی حفاظت کے معاملے پر تشویش کا شکار ہیں، ان میں سے کچھ کلاس روم میں ٹیچر کا مسلح ہونا ضروری سمجھتے ہیں لیکن کچھ کے خیال میں ایک مسلح ٹیچر بچوں کے اعصاب پر اثر انداز ہوگا۔ زیادہ تر ماں باپ کا ماننا ہے کہ اسکولوں کے بچوں کی ذہنی صحت کی اسکریننگ کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ ان کے بچے اپنے ساتھیوں سے محفوظ رہ سکیں۔

    امریکا میں ان دنوں اسکول شوٹنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کو لے کر شدید بحث جاری ہے اور ہر تین میں سے ایک والدین اسکولوں کی سیکیورٹی کے معیار سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ دوسری جانب اسکولوں کے طلبہ کی ذہنی صحت کی جانچ کا مطالبہ بھی عوام میں زور پکڑ رہا ہے تاہم ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ اس عمل کو نافذ کرنے اور اس پر آنے والی لاگت مقامی اسکولوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ، جسے مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

    حالیہ سروے کے نتیجے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار میں والدین نے کلاس روم میں ایک مسلح شخص کی موجودگی کے ساتھ طلبہ کی ذہنی صحت کی جانچ کو بھی ترجیح دی ہے، یہ صورتحال تعلیمی ماہرین اور قانون سازوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جو کہ اسکول سیفٹی پالیسی میں تبدیلی پر کام کررہے ہیں۔

    یاد رہے کہ 5 سال قبل امریکا میں بچوں کی اسکول سیفٹی سے متعلق خدشات رکھنے والے والدین کی تعداد محض 12 فیصد تھی تاہم اسکول شوٹنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر اس شرح میں پانچ سال کے قلیل عرصے میں 22 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے، اور یہ شرح 1998 کے بعد پہلی بار اتنی بلندی پر گئی ہے۔

    والدین میں سے 80 فیصد کا خیال ہے کہ کیمپس میں مسلح پولیس اہلکار سیکیورٹی انتظامات کی ضرورت ہے ، جبکہ 76 فیصد والدین بچوں کے تحفظ کے لیے طالب علموں کی ذہنی صحت کی لازمی جانچ کے عمل کی بھی تائید کرتے ہیں اور 74 فیصد اسکولوں کے داخلی راستوں پر میٹل ڈی ٹیکٹر کی تنصیب کے بھی قائل ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • آسٹریلیا: والدین سے ناراض بچے کا تنہا ہوائی سفر، جزیرہ بالی میں چار روز قیام

    آسٹریلیا: والدین سے ناراض بچے کا تنہا ہوائی سفر، جزیرہ بالی میں چار روز قیام

    سڈنی: والدین سے ناراض ہوکر آسٹریلوی بچہ تنہا سفر کرکے جزیرہ بالی میں 4 روز تک مقیم رہا، والدین کے کریڈٹ کارڈ استعمال کرکے ہوٹل میں قیام کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آسٹریلوی بچے کا اپنی والدہ سے جھگڑا ہوگیا تھا جس کے بعد وہ سڈنی میں اپنے والدین کے گھر سے بھاگ گیا، پہلے وہ آسٹریلیا کے شہر پرتھ گیا اور پھر وہاں سے جیٹ اسٹار فضائی کمپنی کی ایک سستے سفر والی پرواز کے ذریعے جزیرہ بالی پہنچ گیا۔

    بچے کا خاندان ماضی میں تعطیلات گزارنے جزیرہ بالی کا سفر کرچکا ہے جس کے بعد اس بچے نے کئی مرتبہ وہاں کے تنہا سفر کے لیے سیٹ بک کرانے کی کوشش کی تاہم فضائی کمپنیوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔

    بچے نے اپنے سفر کے دوران والدین کا کریڈٹ کارڈ استعمال کیا اور اکاؤنٹ سے 8 ہزار آسٹریلوی ڈالر (5 ہزار یورو) خرچ کر ڈالے، بچے کے ایک دوست نے سوشل میڈیا پر ویڈیو کلپ دیکھ کر اس کی والدہ کو اطلاع دی کہ وہ بالی پہنچ چکا ہے، جس کے بعد والدین بچے کی تلاش کے لیے انڈونیشیا روانہ ہوگئے۔

    آسٹریلیا قانون کے مطابق 5 برس سے کم عمر بچے تنہا سفر نہیں کرسکتے، تاہم 5 برس سے 11 برس کے درمیان کی عمر کے بچوں کے تنہا سفر کرنے کے لیے خصوصی ٹکٹس ہوتے ہیں۔ البتہ 12 سے 15 برس کے درمیان کے بچے تنہا سفر کرسکتے ہیں تاہم شرط یہ ہے کہ انہیں سرپرست کی اجازت حاصل ہو۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • والدین اوربھائی کے قتل کی ملزمہ اسماء نواب ساتھیوں سمیت20سال بعد رہا

    والدین اوربھائی کے قتل کی ملزمہ اسماء نواب ساتھیوں سمیت20سال بعد رہا

    کراچی : بیس سال قبل تہرے قتل کے مقدمے میں ملوث ملزمہ اسماء نواب اور اس کے دو ساتھیوں کو رہائی کا پروانہ مل گیا، اسماء نواب پر پسند کی شادی کیلئے والدین اور بھائی کے قتل کا الزام تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے پسند کی شادی میں رکاوٹ بننے پر ماں باپ اور بھائی کو قتل کرنے والی اسماء نواب سمیت دیگر ملزمان کی سزائے موت کالعدم قرار دے دی، ملزمان کو عدم ثبوتوں کی بنا پر  رہائی ملی، کیس کا فیصلہ بیس سال بعد سنا دیا گیا۔

    سپریم کورٹ نے ملزمان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزمان کے خلاف براہ راست کوئی ثبوت نہیں پیش کیے گئے شواہد میں جھول اور خامیاں ہیں۔

    ملزم فرحان کے فنگر پرنٹس گرفتاری کے دو دن کے بعد مجسٹریٹ کی عدم موجودگی میں لیے گئے، اس کیخلاف براہ راست کوئی ثبوت بھی موجود نہیں، پراسیکیوشن اپنے الزامات ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی۔

    یاد رہے کہ ملیر سعودآباد کراچی کی رہائشی ملزمہ اسماء نواب پرالزام تھا کہ اس نے تیس دسمبر انیس سو اٹھانوے میں پسند کی شادی کیلئے دوستوں کے ساتھ مل کر والدین اور بھائی کو قتل کیا تھا۔

    پولیس نے اسماء نواب اور اس کے دوستوں کو جنوری انیس سو ننانوے میں گرفتار کیا تھا۔ سیشن عدالت نے اسماء، فرحان اور جاوید کو سزائے موت اور وسیم کو دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔

    بعد ازاں سندھ ہائیکورٹ نے دو ہزار پندرہ میں سزا کے خلاف اپیلیں مسترد کر دی تھیں جس پرملزمان سپریم کورٹ گئے۔ عدالت عظمیٰ نے ملزمان کیخلاف ثبوت نہ ہونے پررہائی کا حکم دے دیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

     

  • شادی سے انکار، والدین نے بیٹی پر گرم تیل پھینک دیا

    شادی سے انکار، والدین نے بیٹی پر گرم تیل پھینک دیا

    ٹیکساس: والدین نے شادی سے انکار پر اپنی نوجوان بیٹی پر گرم تیل چھڑک کر مارنے کی کوشش کی، والدین کو گرفتار کرلیا گیا۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ٹیکساس کی رہائشی نوجوان لڑکی نے جب والدین کو شادی سے انکار کیا تو والدین نے غصے میں آکر اسے تیل چھڑک کر جلانے کی کوشش کی۔

    حکام کے مطابق 16 سالہ مارب الہشوامی اپنی پسند سے شادی کرنے کے لیے گھر سے بھاگ کر سین انٹونیو جاپہنچی تھی تاہم جب گھر واپس پہنچی تو والدین نے جب اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرنے کے لیے کہا تو مارب الہشوامی نے انکار کردیا جس پر والدین نے غصے میں آکر اس پر تیل چھڑک کر مارنے کی کوشش کی۔

    لڑکی کو جان سے مارنے کی کوشش میں پولیس نے 34 سالہ عبداللہ فہمی الہشوامی اور ان کی اہلیہ 33 سالہ صبا الہشوامی کو حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔

    امریکی پولیس کا کہنا ہے کہ جرم میں والد اور والدہ دونوں برابر کے شریک ہیں البتہ مارب کے بہن بھائیوں سے پوچھ گچھ کی جائے گی کہ مارب الہشوامی پر تیل کس نے پھینکا تھا۔

    پولیس کے مطابق نوجوان لڑکی مارب الہشوامی کی حالت خطرے سے باہر ہے اور اس کو پانچ بہن بھائیوں کے حوالے کردیا گیا ہے جن کی عمریں 5 سے 15 برس بتائی جاتی ہیں۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مارب الہشوامی سے شادی کے خواہش مند شخص سے بھی ایف بی آئی تفتیش کرے گی اور ہوسکتا ہے کہ اس کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا جائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔