Tag: Parkinson’s

  • ٹیٹنس کی دوا سے ایک اور مرض کا علاج؟ تحقیق میں انکشاف

    ٹیٹنس کی دوا سے ایک اور مرض کا علاج؟ تحقیق میں انکشاف

    اکثر اوقات چوٹ لگنے کے بعد یا خراش لگنے کی صورت میں ٹیٹنس کا انجکشن لازمی لگانے کی ہدایت کی جاتی ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ٹیٹنس اس کے علاوہ دوسرے مرض کیلئے بھی انتہائی کار آمد ہے۔

    ٹیٹنس ہوتا کیا ہے؟

    ٹیٹنس درحقیقت عضلات کے سخت تشنج کا مرض ہے جو کہ بہت کم لاحق ہوتا ہے تاہم اگر اس کا علاج نہ ہو تو یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

    Parkinson's

    اس کا بیکٹریا جلد پر کسی چوٹ یا خراش کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور عام طور پر یہ مٹی، زمین اور کھاد میں پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سڑک پر کسی چوٹ لگنے یا خراش آنے پر ٹیٹنس سے بچاؤ کا انجیکشن لگایا جاتا ہے۔

    بڑی عمر کے افراد کو ٹیٹنس کی ویکسین تب لگائی جاتی ہے جب فرش، سڑک یا ایسی جگہ سے زخم آئے جہاں پر کلوسٹریڈیم ٹیٹانی پائی جاسکتی ہو جو کہ ٹیٹنس کا سبب بنتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ ٹیٹنس کی ویکسین رعشے کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    Health

    حالیہ دنوں میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق عام طور پر دستیاب ٹیٹنس کی ویکسین رعشے کے مرض (پارکنسنز بیماری) کو روکنے کیلئے بھی مفید ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ٹیٹنس کے بیکٹیریا اس بیماری کے خلیوں پر کس طرح حملہ آور ہوتے ہیں اس بات کا تو علم نہیں لیکن محققین کا خیال ہے کہ یہ ناک میں موجود اعصابی خلیوں سے دماغ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ریکارڈ کا جائزہ لیا جس میں بڑی عمر کے افراد کو کسی بھی قسم کی دی گئی ویکسینز کے سبب رعشے کے خطرات میں اضافہ یا کمی دیکھی گئی۔

    Physiotherapy for Parkinson's Disease

    1500افراد پر تحقیق کی گئی جن لوگوں میں رعشے کی تشخیص ہوئی ان کی عمریں 45 سے 75 سال تھیں پھر ان کا موازنہ پانچ گُنا بڑے کنٹرول گروپ سے کیا گیا جو بیماری میں مبتلا تو نہیں تھے لیکن ان میں اس بیماری سے ملتی جلتی خصوصیات تھیں۔

    تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ رعشے کے مریضوں کی 1.6 فیصد تعداد کو بیماری کی تشخیص سے قبل ٹیٹنس کی ویکسین لگائی گئی تھی جبکہ صحت مند افراد میں یہ شرح 3.2 فیصد تھی۔

    وہ افراد جنہوں نے حال ہی میں یہ ویکسین لگوائی تھی ان میں اس بیماری کے خلاف حفاظتی اثر زیادہ تھا اور دو برسوں کے اندر کسی میں بھی پارکنسنز کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔

    اس حوالے سے ڈاکٹر ایریئل اسرائیل کا کہنا تھا کہ ویکسین لگے ہونے کو جتنا کم عرصہ گزرا ہوتا ہے بیماری کی تشخیص کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔

     

  • پارکنسنز کے مریض کیلئے ذیابیطس کی دوا کیوں مفید ہے؟

    پارکنسنز کے مریض کیلئے ذیابیطس کی دوا کیوں مفید ہے؟

    ذیابیطس کا مرض ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ پھیلتا چلا جارہا ہے، جس کے تدارک کیلئے طبی محققین اپنی ہر ممکن کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تحقیق کے مطابق سال 2030 تک تقریباً مزید 55لاکھ لوگ اس بیماری کا شکار ہوں گے۔

    اس مرض کے علاج کیلئے انسولین کے علاوہ بہت ادویات تجویز کی جاتی ہیں تاہم ذیابیطس میں استعمال ہونے والی ایک دوا رعشہ (پارکنسنز) کے لیے بھی مفید ہے۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے محققین نے انکشاف کیا ہے کہ ذیابیطس کی دوا لکسینیٹیڈے پارکنسنز (رعشہ) کی بیماری کو روکنے میں بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کی یہ دوا رعشہ کی بیماری کو بڑھنے سے روکتی ہے، ماہرین نے اس نئے تجربے کو رعشہ کی بیماری کی روک تھام کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔

    Diabetes

    فرانسیسی محققین کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذیابیطس کی دوا لکسینیٹیڈے دماغی تنزلی کی علامات کے بڑھنے کو سست کرسکتی ہے۔

    نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں رعشہ کی بیماری میں مبتلا ان 156 افراد کو تحقیقات کے لیے منتخب کیا گیا جو رعشہ کی دوائیں لے رہے تھے۔ ان سے آدھے افراد کو جی ایل پی ون دوا اور باقی نصف کو پلیسبو ایک سال کے لیے دی گئی۔

    Medications

    ایک سال کے بعد جن لوگوں کو ذیابیطس کی دوا نہیں ملی ان کی علامات میں تنزلی کی بیماری کی شدت کے پیمانے پر 3 پوائنٹس کی کمی ہوئی، جب کہ دوسرے گروپ میں علامات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ تاہم، محققین نے لکسینیٹیڈے کے ضمنی اثرات کو بھی نوٹ کیا۔

    یہ دوا لینے والے تقریباً 46 فیصد لوگوں کو متلی کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ تقریباً 13 فیصد میں الٹی کی علامات تھیں۔

    پارکنسنز یعنی رعشہ مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے اور بتانے والی علامات میں ایک ہاتھ میں تھرتھراہٹ، سست حرکت، جسم کے حصوں میں سختی اور توازن اور ہم آہنگی کے مسائل شامل ہیں۔ زیادہ متاثرہ افراد کی ٹانگیں اس حد تک اکڑ سکتی ہیں کہ وہیل چیئر کے استعمال کی ضرورت پڑنے پر کھڑے ہونے کے دوران چلنا اور توازن برقرار رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔