Tag: parkinson’s disease

  • پارکنسن : رعشے کی بیماری کیسے حملہ کرتی ہے؟ وجوہات اور احتیاط

    پارکنسن : رعشے کی بیماری کیسے حملہ کرتی ہے؟ وجوہات اور احتیاط

    پارکنسن کی بیماری ایک قسم کے اعصابی نظام کی خرابی کا نام ہے۔ اس کی وجہ ایک اعصابی کیمیکل ٹرانسمیٹر بنام "ڈوپامین” کی کمی ہے جو دماغ کے گہرے حصّے میں نمایاں ہوتی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ایم ڈی نیورولوجی پروفیسر ڈاکٹر عارف اور ماہر نفسیات ڈاکٹر انیل وادھوانی نے اس بیماری کی وجوہات اور اس کے علاج سے متعلق تفصیل سے بیان کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بیماری میں مریض کے ہاتھوں میں لرزہ ہوجاتا ہے جسے رعشے کا مرض بھی کہتے ہیں۔ پاکستان میں پارکنسن کے ساڑھے چار لاکھ سے زائد مریض ہیں جبکہ دنیا بھر میں ان کی تعداد دس ملین یعنی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ پارکنسن کا مرض زیادہ تر 60 سے 70 سال کے درمیان ہوتا ہے، اگر اس مرض کا فوری علاج شروع کردیا جائے تو اس پر کافی حد تک قاپو پایا جاسکتا ہے۔

    اس بیماری میں دماغ میں اعصابی خلیات (نیورون) آہستہ آہستہ ٹوٹ جاتے ہیں یا مرجاتے ہیں، دماغ میں کیمیکل میسنجر جو ڈوپامائن (ہیپی ہارمون) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    جب ڈوپامائن کی سطح میں کمی آتی ہے، تو یہ دماغ کی غیر معمولی سرگرمی کا باعث بنتی ہے جو پارکنسنز کی بیماری کی علامات کا باعث بنتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ پارکنسن کی بیماری کا فی الحال کوئی علاج نہیں ہے لیکن ان علامات کو کم کرنے اور معیار زندگی کو بہتر بناکر اس بیماری کو بڑھنے سے بچا سکتے ہیں۔

    اس مرض کی علامات میں ہاتھ، بازو، انگلیاں، ٹانگوں، پاؤں، جبڑے یا سر میں کپکپاہٹ،مریض کو عام طور پر جھٹکے محسوس ہوتے ہیں، یہ جھٹکے عام طور پر اس وقت لگتے ہیں جب وہ شخص تھکا ہوا، یا دباؤ کا شکار ہو۔ بعض جسمانی اعضاء اکڑ جاتے ہیں یہ سختی پٹھوں میں درد کا باعث بنتی ہے۔

  • کیا جو بائیڈن کو پارکنسن کی بیماری ہے؟ وائٹ ہاؤس ترجمان کا بیان جاری

    کیا جو بائیڈن کو پارکنسن کی بیماری ہے؟ وائٹ ہاؤس ترجمان کا بیان جاری

    واشنگٹن: مباحثے میں کمزور کارکردگی بائیڈن انتظامیہ کے لیے درد سر بن گئی ہے، ترجمان وائٹ ہاؤس کی طرف سے مختلف وضاحتیں شروع ہو گئیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ترجمان وائٹ ہاؤس نے صدارتی حریف امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابل جو بائیڈن کی کمزور کارکردگی پر ایک بیان میں وضاحت کی ہے کہ صدر جو بائیڈن کو پارکنسن کی بیماری نہیں ہے۔

    نیویارک ٹائمز نے سرکاری وزیٹرز لاگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ والٹر رِیڈ نیشنل ملٹری میڈیکل سینٹر کے ایک پارکنسنز ڈزیز کے ماہر نے گزشتہ 8 مہینوں میں 8 بار وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا ہے، ان میں سے کم از کم ایک ملاقات صدر بائیڈن کے معالج سے بھی ہوئی ہے۔

    یہ دورے ڈاکٹر کیون کینارڈ نے کیے جو ایک نیورولوجسٹ ہیں اور حرکت کے امراض میں مہارت رکھتے ہیں، حال ہی میں پارکنسنز پر ان کا ایک مقالہ شائع ہوا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ دستاویز کے مطابق یہ دورے جولائی 2023 سے رواں سال مارچ تک ہوئے۔

    امریکا کا 9 مئی سے متعلق مؤقف سامنے آگیا

    نیویارک ٹائمز کے مطابق اگرچہ یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ ڈاکٹر کینارڈ وائٹ ہاؤس میں صدر کے بارے میں خاص طور پر مشاورت کے لیے گئے تھے یا غیر متعلقہ ملاقاتوں کے لیے۔ تاہم ان کے لنکڈ اِن پروفائل پر لکھا گیا ہے کہ وہ گزشتہ 12 سال سے زیادہ عرصے سے ’’وائٹ ہاؤس میڈیکل یونٹ کے معاون‘‘ ہیں۔

    اگرچہ ڈاکٹر کینارڈ نے کئی بار رابطہ کیے جانے کے باوجود اس معاملے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم پیر کے روز وائٹ ہاؤس کے معالج ڈاکٹر کیون او کونر نے تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر کینارڈ نے بائیڈن کے دور صدارت کے دوران تین بار انھیں دیکھا۔ ڈاکٹر او کونر نے یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر کینارڈ کے زیادہ تر دورے وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والے دوسرے لوگوں کے علاج سے متعلق تھے۔

  • کیا آنکھوں کے مسائل سے پارکنسن بیماری کی نشان دہی ہوتی ہے؟

    کیا آنکھوں کے مسائل سے پارکنسن بیماری کی نشان دہی ہوتی ہے؟

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پارکنسن کی بیماری میں آنکھوں کے مسائل بھی لاحق ہوتے ہیں، آنکھوں میں خشکی اور دھندلا پن آجاتا ہے، یہاں تک کہ آنکھوں کی حرکت متاثر ہونے لگتی ہے۔

    پارکنسن کی بیماری دراصل دماغی مرض ہے، جو جسم کی حرکت کے نظام کو متاثر کرتا ہے، جس کی وجہ سے چلنے پھرنے، توازن اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں دشواری اور سختی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی علامات عام طور سے بتدریج شروع ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتی ہیں۔ مرض بہت زیادہ بڑھنے سے مریض کو چلنے اور باتیں کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

    ایک میڈیکل ویب سائٹ پارکنسنز نیٹ پر شایع شدہ ایک آرٹیکل کے مطابق پارکسن کی وجہ سے دماغ اور پٹھوں کے درمیان اشاروں کا عمل متاثر ہو جاتا ہے، اور متعدد معذوریاں سامنے آتی ہیں جو اکثر نقل و حرکت سے متعلق ہوتی ہیں۔

    طبی ماہرین نے کہا ہے کہ اس کی علامات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جاتا ہے اور یہ آنکھوں کو بھی متعدد طریقوں سے متاثر کرتی ہے، پارکنسن کی بیماری میں آنکھوں میں خشکی اور دھندلا پن آ جاتا ہے، یہاں تک کہ آنکھوں کی حرکت متاثر ہونے لگتی ہے۔

    اس بیماری کا اثر آنکھوں کی پلکوں پر بھی ہوتا ہے جس کے بعد پلکوں کے ہلنے میں دشواری ہوتی ہے، طبی ماہرین نے کہا کہ پارکنسنز کی بیماری آنکھوں یا پلکوں کے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اسی طرح اس کا علاج کرنے کے لیے استعمال ہونے والی دواؤں کے مضر اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔

    تاہم انھوں نے کہا ہے کہ آنکھوں میں اچانک تبدیلی آنے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اس لیے کہ پارکنسنز کی بیماری کی کئی علامات ایسی ہیں جن کی مکمل نشوونما میں وقت لگتا ہے، اور آنکھوں میں خشکی کے اسباب بھی مختلف ہوتے ہیں۔

    برطانوی ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اس بیماری میں کچھ لوگوں کو کچھ رنگوں جیسا نیلے اور سبز رنگ میں فرق کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے، تاہم یہ مسئلہ ادویات کے استعمال سے ختم ہو سکتا ہے۔

    یہ سوال کہ پارکنسنز ڈیزیز کیوں لاحق ہوتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جینیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی عوامل کا امتزاج اس بیماری کی وجہ بن سکتا ہے۔