Tag: Parveen Shakir

  • خوشبوکی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 24 برس بیت گئے

    خوشبوکی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 24 برس بیت گئے

    کراچی : محبت کی خوشبو شعروں میں سمونے والی شاعرہ پروین شاکر جن کا ساحرانہ ترنم اور لطیف جذبات کو لفظوں کا پیرہن دینے کا ہنر انہیں امر کرتا ہے، بلند خیالات کو انوکھے انداز میں بیان کرنے والی اس عظیم شاعرہ کی آج 24ویں برسی ہے۔

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر 14 نومبر1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔

    دوران تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ وہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔ 1986 میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی بی آر اسلام آباد میں سیکریٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔

    سن 1990 میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991 میں ہاورڈ یونیوسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، انتہائی کم عمری میں ہی انہوں نے شعر گوئی شروع کردی تھی۔

    پروین شاکر کی شادی ڈاکٹر نصیرعلی سے ہوئی ، جس سے بعد میں طلاق لے لی۔ انہوں نے جذبات کو اپنی تصانیف میں نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا۔ محبت، درد، تنہائی اور فراق و وصال سے لبریز پروین شاکر کی منفرد کتاب خوشبو منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

    خوشبو ان کے کلام کی پہلی کتاب تھی جس نے پھرسے کتابوں کے تحفوں کا رواج ڈالا بے، بے باک اندازمیں دل کی بات کہہ دینا آسان نہیں لیکن پروین شاکرکی شاعری میں اس کی جا بہ جا مثالیں ملتی ہیں۔

    مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

    اپنی منفرد شاعری کی کتاب ’’خوشبو‘‘ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا۔

    پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکاراور کف آئینہ، ماہ تمام، بارش کی کن من بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔

    عظیم شاعرہ پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو ایک ٹریفک حادثے میں 42 برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں، پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • محبت کی خوشبو شعروں میں سمونے والی شاعرہ پروین شاکر کا66واں یومِ پیدائش

    محبت کی خوشبو شعروں میں سمونے والی شاعرہ پروین شاکر کا66واں یومِ پیدائش

    کراچی : محبت کی خوشبو شعروں میں سمونے والی پروین شاکر جنہوں نے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر انسانی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا، رنگ و خوشبو کی اس شاعرہ کے مداح آج ان کی چھیاسٹویں سالگرہ منا رہےہیں۔

    کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں، دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں، وہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔

    منفرد لہجہ اور ندرت خیال کے باعث جلد ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں، الفاظ و جذبات کو انوکھے اندازمیں سمو کر سادہ الفاظ بیان کا ہنر انکا خاصہ تھا ، انہوں نے روایات سے انکار اور بغاوت کرتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی تصویریں بنائیں اوردکھوں اور کرب کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر اشعار کہے۔

    انہوں نے سچ ہی کہا تھا کہ

    مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

    پروین شاکر کی منفرد کتاب خوشبو منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔

    اپنی منفرد شاعری کی کتاب ’’خوشبو‘‘ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا۔

    پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکاراور کف آئینہ، ماہ تمام، بارش کی کن من کو بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔

    پروین شاکر کو اگر اردو کے صاحب اسلوب شاعروں میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا لب و لہجہ دیا اور شاعری کو نسائی احساسات سے مالا مال کیا۔ ان کا یہی اسلوب ان کی پہچان بن گیا۔ آج بھی وہ اردو کی مقبول ترین شاعرہ تسلیم کی جاتی ہیں۔

    ابھی فن وادب کے متوالے پو ری طرح سیراب بھی نہ ہو پائے تھے کہ انیس سو چورانوے میں خوشبو بکھیرنے والی پروین شاکر ٹریفک حادثے میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

    وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
    عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

  • خوشبوؤں کی شاعرہ کا آج 65واں یومِ ولادت ہے

    خوشبوؤں کی شاعرہ کا آج 65واں یومِ ولادت ہے

    محبت کی خوشبو بکھیرتی پروین شاکر کا65 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے‘ آپ نے روایات سے انکار کرتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی تصاویر بنائیں اوردکھوں اور کرب کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر اشعار کہے۔

    کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

    p2

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر چو بیس نومبر انیس سو باون کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں، وہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔

    p4

    منفرد لہجہ اور ندرت خیال کے باعث جلد ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں، الفاظ و جذبات کو انوکھے اندازمیں سمو کر سادہ الفاظ بیان کا ہنر انکا خاصہ تھا ، انہوں نے روایات سے انکار اور بغاوت کرتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی تصویریں بنائیں اوردکھوں اور کرب کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر اشعار کہے۔

    انہوں نے سچ ہی کہا تھا کہ

    مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

    پروین شاکر کی منفرد کتاب خوشبو منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔

    اپنی منفرد شاعری کی کتاب ’’خوشبو‘‘ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا۔

    p3

    پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکاراور کف آئینہ، ماہ تمام، بارش کی کن من بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔

    پروین شاکر کو اگر اردو کے صاحب اسلوب شاعروں میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا لب و لہجہ دیا اور شاعری کو نسائی احساسات سے مالا مال کیا۔ ان کا یہی اسلوب ان کی پہچان بن گیا۔ آج بھی وہ اردو کی مقبول ترین شاعرہ تسلیم کی جاتی ہیں۔

    p1

    ابھی فن وادب کے متوالے پو ری طرح سیراب بھی نہ ہو پائے تھے کہ خوشبو بکھیرنے والی پروین شاکر سنہ 1994 کو ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

    وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
    عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

     

  • خوشبوؤں کی شاعرہ پروین شاکر کا 22 واں یوم وفات آج منایا جارہا ہے

    خوشبوؤں کی شاعرہ پروین شاکر کا 22 واں یوم وفات آج منایا جارہا ہے

    کراچی : پھولوں اور خوشبوؤں کی شاعرہ، لطیف جذبات کو لفظوں کا پیرہن دینے والی پروین شاکر کا 22 واں یوم وفات آ ج منایا جارہا ہے۔ اردو شاعری میں اُن کا کلام ایک خاص انفرادیت کا حامل ہے۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں ان کے والد کا نام شاکر حسین تھا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور زبانی دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔


    Parveen Shakir – Bakht se koi shikayat hai na… by DreamDosti

    سال انیس سو ستتر میں ان کا پہلا مجموعہ کلام خوشبو شائع ہوا، اس مجموعہ کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی اور پروین شاکر کا شمار اردو کے صف اول کے شعراء کرام میں ہونے لگا، اپنی اولین کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی پروین کی شاعری ادبی رسالوں کے ذریعے اپنے مداح پیدا کر چکی تھیں۔ خوشبو کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پہلی اشاعت کے چھ ماہ بعد ہی اس کا دوسرا ایڈیشن چھاپنا پڑا۔

    پروین سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنے خوبصورت اور بے باک انداز سے قلمبند نہیں کیا تھا۔
    خوشبو کے بعد پروین شاکر کے کلام کے کئی اور مجموعے صد برگ، خود کلامی، اور انکار شائع ہوئے، ان کے کلام کی کلیات ماہ تمام بھی شائع ہو چکی ہے، جبکہ ان کا آخری مجموعہ کلام کف آئینہ ان کی وفات کے بعد اشاعت پذیر ہوا۔

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

    بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعد نسائی شاعری ایک نئی شناخت کے ساتھ اُردو کے ادبی منظر نامے پر جلوہ افروز ہوئی۔ پروین شاکر ہمیں اس منظر نامے پر ماہِ تمام کی طرح چمکتی دکھائی دیتی ہیں۔ پروین شاکر کو اگر اردو کے صاحب اسلوب شاعروں میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

    وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
    عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے


    انہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا لب و لہجہ دیا اور شاعریکو نسائی احساسات سے مالا مال کیا، ان کا یہی اسلوب ان کی پہچان بن گیا، آج بھی اردو کی مقبول ترین شاعرہ سمجھی جاتی ہیں۔

    حسن کو سمجھنے کو عمر چاہئے جاناں
    دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

    پروین شاکر نے کئی اعزازات حاصل کیے تھے جن میں ان کے مجموعہ کلام خوشبو پر دیا جانے والاآدم جی ادبی انعام، خود کلامی پر دیا جانے والا اکادمی ادبیات کا ہجرہ انعام اور حکومت پاکستان کا صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سر فہرست تھے

    چھبیس دسمبر 1994کو اس خبر نے ملک بھر کے ادبی حلقوں ہی نہیں بلکہ عوام الناس کو بھی افسردہ اور ملول کردیا کہ ملک کی ممتاز شاعرہ پروین شاکر اسلام آباد میں ایک ٹریفک کے اندوہناک حادثے میں وفات پاگئی ہیں

    مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

    پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہٗ خاک ہیں اور ان کی لوح مزار پر ان ہی کے یہ اشعار کندہ ہیں۔

    ﯾﺎﺭﺏ ﻣﺮﮮ ﺳﮑﻮﺕ ﮐﻮ ﻧﻐﻤﮧ ﺳﺮﺍﺋﯽ ﺩﮮ
    ﺯﺧﻢ ﮨﻨﺮ ﮐﻮ ﺣﻮﺻﻠﮧٔ ﻟﺐ ﮐﺸﺎﺋﯽ ﺩﮮ
    ﺷﮩﺮ ﺳﺨﻦ ﺳﮯ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺁﺷﻨﺎﺋﯽ ﺩﮮ
    ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺪ ﺭﮐﮭﻮﮞ ﺗﻮ ﺭﺳﺘﺎ ﺳﺠﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ