Tag: pass away

  • ماضی کی فلموں کے مقبول ہیرو اعجاز درانی انتقال کرگئے

    ماضی کی فلموں کے مقبول ہیرو اعجاز درانی انتقال کرگئے

    لاہور : پاکستان فلم انڈسٹری کے سینئر اداکار اعجاز درانی انتقال کر گئے، معروف اداکار اعجاز درانی طویل عرصے سے بیمار تھے۔

    ماضی کے مقبول فلمی اداکاراعجاز درانی ملکہ ترنم نورجہاں کے شوہر بھی تھے انہوں نے بہت سی لازوال فلموں میں کام کیا اور بحثیت ہیرو بہت سی کامیاب فلمیں کیں جن میں زرقا ، لاکھوں میں ایک اور ہیر رانجھا قابلِ ذکر ہیں، فلم "ہیر رانجھا” میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

    فلم ساز داؤد چاند کی اردو فلم ’مرزا صاحباں‘ میں بھی وہ سائیڈ ہیرو تھے۔ تاہم 1957 کی ریلیز فلم ’بڑا آدمی‘ میں بطور ہیرو ان کی پہلی فلم تھی جسے ہمایوں مرزا نے ڈائریکٹ کیا۔

    اداکار اعجاز درانی 1935 میں گجرات جلال پور جٹاں کے علاقے میں پیدا ہوئے، ان کی عمر 88 برس تھی، انہوں نے 150 سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، مولا بخش ان کی آخری فلم تھی، بطور اداکار، پروڈیوسر، ڈائریکٹر، اور ڈسٹری بیوٹر فلم انڈسٹری میں ان کی اہم خدمات رہیں۔

    اداکار اعجازدرانی نے معروف گلوکارہ نور جہاں کے ساتھ پہلی شادی کی تھی، جس سے ان کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں، دوسری شادی اداکارہ فردوس سے کی لیکن دونوں شادیاں طلاق پر ختم ہوئیں، مرحوم پاکستان فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے وائس پریذیڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔

  • ماضی کی معروف فلمی اداکارہ نیلو بیگم انتقال کرگئیں

    ماضی کی معروف فلمی اداکارہ نیلو بیگم انتقال کرگئیں

    لاہور : پاکستانی فلموں کی معروف اداکارہ نیلو بیگم لاہور میں انتقال کرگئیں، وہ گزشتہ کافی عرصہ سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں۔

    اداکارہ نیلو بیگم اداکارشان کی والدہ تھیں، نیلو بیگم کے انتقال کی اطلاع ان کے صاحبزادے اور پاکستانی فلموں کے نامور اداکار شان شاہد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پیغام میں دی۔

    اداکار شان شاہد نے بتایا کہ نہایت افسوس سے بیان کررہا ہوں کہ میری والدہ (نیلو بیگم) کا انتقال ہو گیا ہے وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

    یاد رہے کہ اداکارہ نیلو بیگم پاکستان کی فلم انڈسٹری میں نمایاں مقام رکھتی تھیں، انہوں نے 16سال کی عمر سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور جلد ہی بڑے پردے کی نامور ہیروئنوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔

    نیلو بیگم نے اپنے فلمی دور میں سینکڑوں فلموں میں کام کیا۔ ان کی فلم "سات لاکھ” کے گانے  ’آئے موسم رنگیلے سہانے‘ میں شائقین کی جانب سے ان کی اداکاری کو خوب سراہا گیا اور یہی گانا ان کی وجہ شہرت بنا۔

    نیلو بیگم نے اپنے فنی کیریئر میں دوشیزہ، عذرا، زرقا، بیٹی، ڈاچی، جی دار جیسی یادگار فلموں میں کام کیا۔ نیلو نے معروف ہدایت کار ریاض شاہد سے شادی کی اور اپنا نام عابدہ رکھا۔

    نیلو بیگم30 جون 1940ء کو سرگودھا کی تحصیل بھیرہ میں پیدا ہوئیں اور 80سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔

  • ممتاز شیعہ عالم دین مولانا کلب صادق خالق حقیقی سے جاملے

    ممتاز شیعہ عالم دین مولانا کلب صادق خالق حقیقی سے جاملے

    لکھنئو : بین الاقوامی شہرت یافتہ خطیب اور ماہر تعلیم مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق صاحب لکھنئو میں انتقال کرگئے، علامہ کلب صادق معروف عالم دین علامہ حسن ظفر نقوی کے ماموں بھی تھے۔

    آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر اور مشہور شیعہ عالم دین مولانا کلب صادق اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے، مولانا کلب صادق طویل عرصے سے اترپردیش کی راجدھانی لکھنئو کے ایرا میڈیکل کالج میں زیرعلاج تھے۔

    حکیم امت کے خطاب سے یاد کئے جانے والے مولانا کلب صادق کے انتقال کی خبر سے تعلیمی، سماجی، سیاسی اور مذہبی حلقوں میں غم کی لہر دوڑ گئی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر ایک افواہ وائرل ہوگئی تھی کہ مولانا کلب صادق کا طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا ہے۔

    اطلاعات کے مطابق ان کی صحت میں مسلسل گراوٹ آرہی تھی اور جسمانی طور پر بے حد کمزوری ہوگئی تھی۔ اسپتال کے ذریعہ جاری میڈیکل بلیٹن کے مطابق منگل کو ان کی حالت اور بھی بگڑ گئی تھی اور دیر رات ان کا انتقال ہوگیا۔

    83سالہ ڈاکٹر کلب صادق نے ایک میڈیکل کالج کی بنیاد بھی رکھی، انہوں نے یونیٹی اسکولز اور یونیٹی کالجز کے نام سے پڑوسی ملک کے متعدد شہروں میں تعلیمی اداروں کو قائم کیا

    مولانا کلب صادق اپنی ہر تقریر میں مسلمانوں پر خاص زور دیتے تھے کہ وہ بھوک برداشت کریں مگر اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں کیونکہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جو قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں کھڑا کر سکتی ہے

    مولانا مرحوم کے فرزند کلب سبطین نوری نے منگل کو رات تقریباً 10 بجے ایک آڈیو پیغام جاری کر کے مولانا کلب صادق کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ قوم یتیم ہو گئی۔

    انہوں نے کہا کہ قوم کا سرپرست اس دنیا سے چلا گیا۔ مسلمانوں سے ہمیشہ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے پر زور دینے والے مولانا کلب صادق ایک فرشتہ کی طرح اس دنیا میں آئے تھے، جو اب اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں لوٹ گئے ہیں۔

  • معروف نعت خواں محبوب احمد ہمدانی خالق حقیقی سے جاملے

    معروف نعت خواں محبوب احمد ہمدانی خالق حقیقی سے جاملے

    لاہور : ملک کے معروف نعت خواں محبوب احمد ہمدانی طویل علالت کے بعد دنیائے فانے کوچ کرگئے، ان کا انتقال لاہور کے ایک نجی اسپتال میں ہوا، وزیر اعلیٰ پنجاب اور دیگر شخصیات نے ان کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

    محبوب احمد ہمدانی طویل عرصے سے کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے ، انہیں کچھ روز قبل طبیعت زیادہ خراب ہونے پر نجی ہسپتال لاہور منتقل کیا گیا تھا جہاں دوران علاج وہ خالق حقیقی سے جاملے۔

    ملک بھر کے سیاسی و سماجی حلقے ان کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے، اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے محبوب احمد ہمدانی کے انتقال پر اپنے گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ محبوب احمد ہمدانی نے نعت خوانی کو منفرد انداز سے آگے بڑھایا، وزیراعلیٰ نے سوگوارخاندان سے ہمدردی اور اظہارتعزیت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی مرحوم کی روح کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین

    واضح رہے کہ محبوب احمد ہمدانی نہ صرف خود معروف نعت خواں تھے بلکہ ان کے بھائی مرغوب احمد ہمدانی بھی حضور کی ثنا خوانی میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں انہوں نے اپنے نعت خواں بھائی مرغوب ہمدانی کے ہمراہ کئی دہائیوں تک نعت خوانی کی۔

  • بی جے پی سے نکالے جانے والے بھارتی رہنما جسونت سنگھ انتقال کرگئے

    بی جے پی سے نکالے جانے والے بھارتی رہنما جسونت سنگھ انتقال کرگئے

    قائد اعظم محمد علی جناح کی تعريف کرنے پر بی جے پی سے نکال ديے جانے والے رہنما جسونت سنگھ انتقال کر گئے، انہیں بانی پاکستان پر کتاب لکھنے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان دونوں ہی ملکوں ميں جانا جاتا ہے۔

    سابق بھارتی سياست دان جسونت سنگھ بياسی برس کی عمر ميں انتقال کر گئے ہيں، وہ دارالحکومت نئی دہلی کے ايک فوجی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔

    اسدپتال انتظامیہ نے بھی ان کی موت کی تصديق کر دی ہے، جسونت سنگھ مختلف عارضوں کے باعث پچيس جون سے ہسپتال ميں زیر علاج تھے۔ اتوار ستائيس ستمبر کی صبح انہيں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

    نئی دہلی کے آرمی اسپتال کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ جسونت سنگھ 25 جون سے اسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ جہاں اُنہیں عارضہ قلب اور سر میں لگنے والی چوٹ کے باعث داخل کیا گیا تھا۔

    وزير اعظم نريندر مودی نے مختلف ٹويٹس ميں جسونت سنگھ کے انتقال پر اظہار افسوس کيا اور انہيں خراج تحسين بھی پيش کيا۔ مودی کے مطابق سنگھ کو سياسی اور معاشرتی امور پر اپنے منفرد نقطہ نظر کی وجہ سے ياد رکھا جائے گا۔

    نریندر مودی نے ايک ٹويٹ ميں لکھا کہ جسونت سنگھ نے بڑی لگن کے ساتھ ہماری قوم کے ليے خدمات سر انجام ديں، پہلے ايک فوجی کے طور پر اور پھر سياست ميں۔

    واضح رہے کہ بھارتی سیستدان جسونت سنگھ کو سال 2009 ميں بھارتيہ جنتا پارٹی سے نکال ديا گيا تھا اس کی وجہ روايتی حريف ملک پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی تعريف بنی تھی۔

    جسونت سنگھ نے "جناح، انڈيا، پارٹيشن اور انڈيپينڈنس” نامی اپنی کتاب ميں محمد علی جناح کی تعريف کی تھی، جو ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے قدامت پسند حلقوں کو پسند نہیں آئی۔

    بعد ازاں کچھ وقفے کے بعد سنگھ کو پارٹی ميں واپس لے ليا گيا تھا مگر پھر انہوں نے 2014ء ميں بی جے پی سے خود ہی عليحدگی اختيار کر لی تھی، اس کے بعد وہ انتخابات ميں ايک آزاد اميدوار کے طور پر کھڑے ہوئے اور کامياب بھی رہے۔

  • ہالی ووڈ فلم "بلیک پینتھر” کے ہیرو چاڈ وِک بوس مین چل بسے

    ہالی ووڈ فلم "بلیک پینتھر” کے ہیرو چاڈ وِک بوس مین چل بسے

    لاس اینجلس : ہالی ووڈ کی مشہور فلم بلیک پینتھر کےاداکار چیڈوک بوسمین 43 سال کی عمر میں انتقال کرگئے، جس کی تصدیق ان کے اہل خانہ کی جانب سے کردی گئی۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں بتایا گیا ہے کہ بوس مین کا لاس اینجلس میں اپنے گھر پر انتقال ہوا جہاں ان کی اہلیہ اور دیگر خاندان والے ان کے ساتھ موجود تھے،

    مارول اسٹوڈیو کی فلم ’بلیک پینتھر‘میں مرکزی کردار ادا کرنے والے 43سالہ اداکار چاڈ وک بوس مین بڑی آنت (کولون ) کے کینسر میں مبتلا تھے، میڈیا رپورٹ کے مطابق بوس مین نے کبھی بھی عوامی طور پر اپنی بیماری کے بارے میں بات نہیں کی تھی۔

    اہل خانہ کی جانب سے ٹوئٹر پر دیے جانے والے پیغام میں کہا گیا کہ بے حد دکھ کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے کہ چاڈ وک بوسمین اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

    2016میں ان کے آنت کے کینسر کی تشخیص کی گئی تھی اور اس وقت وہ اس کے تیسرے مراحل میں تھے، تبھی سے ان کا علاج چل رہا تھا اس کے باوجود وہ کینسر کے چوتھے مراحل میں داخل ہو گئے۔‘‘انہوں نے پچھلے چار برسوں میں اپنی سرجری اور کیمیوتھراپی کے درمیان کئی فلموں کی شوٹنگ بھی کی۔

    الی ووڈ اداکار چیڈوک بوسمین کی شہرت کو دوام 2016 میں بلیک پینتھر میں اداکاری کے جوہر دکھانے پر حاصل ہوا۔ انہوں نے ایوینجرز انفینٹیٹی وار اور ایونجرز: اینڈگیم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، ان کی حال ہی میں بننے والی فلم ڈا 5 بلڈز تھی، جو رواں سال کے شروع میں نیٹ فلکس پر ریلیز ہوئی۔ٓ

    واضح رہے کہ چاڈوک بوس مین نے شرعات میں حقیقی کرداروں کی کہانیوں پر مبنی فلموں سے شہرت حاصل کی۔ انہوں نے 2013 کی فلم 42 میں بیس بال کے معروف کھلاڑی جیکی رابنسن کا کردار ادا کیا اور اس کے بعد 2014 کی فلم ‘گین آن اپ’ میں موسیقار جیمز براؤن کا کردار نبھایا۔ لیکن ان کی فلموں میں سب سے یادگار فلم بلیک پینتھر تھی جو 2018 میں ریلیز ہوئی تھی۔

    بی بی سی اردو کے مطابق یہ پہلی سپر ہیرو فلم تھی جسے بہترین فلم کے آسکر اعزاز کے لیے نامزد کیا گیا تھا اور اسی تقریب میں اسے چھ اور اعزازت کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔

  • سعودی شہزادے کا انتقال، تدفین آج ہوگی

    سعودی شہزادے کا انتقال، تدفین آج ہوگی

    ریاض: سعودی شہزادہ عبد العزیز بن عبداللہ بن عبد العزیز بن ترکی السعود انتقال کر گئے، شہزادے کی نماز جنازہ اور تدفین آج بروز ہفتہ دارالحکومت ریاض میں ہوگی۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی شہزادہ عبد العزیز بن عبداللہ بن عبد العزیز بن ترکی السعود انتقال کر گئے، سعودی شاہی عدالت نے شہزادے کے انتقال کی تصدیق کر دی۔

    مرحوم شہزادے کی نماز جنازہ اور تدفین آج بروز ہفتہ دارالحکومت ریاض میں ہوگی۔

    شہزادہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن عبد العزیز بن ترکی السعود کے انتقال پر شاہی خاندان کے افراد کی جانب سے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ ماہ سعودی شہزادی مداوی بنت عبداللہ مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئی تھیں۔

    قبل ازیں 7 جولائی کے روز سعودی شہزادہ خالد بن سعود بن عبدالعزیز رضائے الٰہی سے انتقال کر گئے تھے، شہزادے کی نماز جنازہ اور آخری رسومات سعودی درالحکومت ریاض میں ادا کی گئی تھیں۔

  • راحت اندوری "دو گز زمیں” کے مالک بن گئے

    راحت اندوری "دو گز زمیں” کے مالک بن گئے

    افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
    لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کردیا
    دو گز سہی مگر یہ مِری ملکیت تو ہے
    اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کردیا

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبول بھارت میں اردو زبان کے شاعر راحت اندوری اپنے لاکھوں مداحوں کو روتا چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سوئے۔

    ڈاکٹر راحت اندوری بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور کے اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں ان کا کوررونا ٹیسٹ مثبت آنے کے ایک دن بعد انتقال ہوگیا تھا، ان کی عمر 70سال تھی۔

    راحت اندوری کو کورونا وائرس کے سبب سانس لینے میں دشواری کے پیش نظر اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا اور وہیں حرکتِ قلب بند ہو جانے کے سبب وہ خالق حقیقی سے جاملے، ان کے علاج پر مامور ڈاکٹر ونود بھنڈاری نے میڈیا کو بتایا کہ منگل کے روز انہیں دوسری بار دل کا دورہ پڑا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

    یکم جنوری 1950 کو بھارت میں پیدا ہونے والے راحت اندوری پیشے کے اعتبار سے اردو ادب کے پروفیسر رہ چکے ہیں بعد ازاں آپ نے کئی بھارتی ٹی وی شوز میں بھی حصہ لیا۔

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں پسند کیے جانے والے بھارت کے مشہور شاعر نے غزلوں کے علاوہ بالی ووڈ کی فلموں کے لیے متعددگیت بھی لکھے بلکہ گلوکاری کے کئی شوز میں بطور جج حصہ بھی لیا۔ بالی وڈ کی مشہور فلم ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘اور دیگر فلموں کے گیت راحت اندوری نے ہی قلم بند کیے تھے۔

    راحت اندوری کے کلام میں یہ خاص بات ہے کہ وہ ہر خاص وعام میں یکساں مقبول ہے وہ ہر اہم موضوع کو اپنے شعروں میں ڈھال کر بہت سلیقے، خوبصورتی اور منفرد انداز کے ساتھ سامعین کے سامنے پیش کرتے تھے۔

    انہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی تھی کہ پانچ سو سال بعد کا ادب انہیں کس طرح یاد رکھے گا، وہ لمحہ موجود میں جیتے تھے اور اپنی شاعری کے موضوعات آس پاس کے واقعات سے اٹھاتے تھے۔

    اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
    یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے

    لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
    یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

    میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
    ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

    ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
    ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

    جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
    کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

    سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
    کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

    ایک سنجیدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ نوجوان نسل کی نبض تھامنا خوب جانتے تھے۔ اس کی ایک مثال ہے ان کی نظم ” بلاتی ہے مگر جانے کا نہیں "جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔

    بلاتی ہے مگر جانے کا نئیں
    یہ دنیا ہے ادھر جانے کا نئیں

    میرے بیٹے کسی سے عشق کر
    مگر حد سے گزر جانے کا نئیں

    ستارے نوچ کر لے جاوں گا
    میں خالی ہاتھ گھر جانے کا نئیں

    وہ گردن ناپتا ہے ناپ لے
    مگر ظالم سے ڈر جانے کا نئیں

    حالات حاضرہ پہ کہنا ہو یا مزاحیہ شاعری کے ذریعے لوگوں کو محظوظ کرنا ہو، ان کے الفاظ پر پورا مجمع ایک دم واہ واہ کی صداؤں سے گونج اٹھتا تھا۔

    بھارت میں گائے کے ذبیحہ پر عدالتی پابندی کے بعد راحت اندوری کا کہنا تھا کہ

    کوئی کیا سوچتا رہتا ہے میرے بارے میں
    یہ خیال آتے ہی ہمسائے سے ڈر لگتا ہے

    نئے خوف کا جنگل ہیں میرے چاروں طرف
    اب مجھے شیر نہیں گائے سے ڈر لگتا ہے

    ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

    گھروں کے دھنستے ہوئے منظروں میں رکھے ہیں
    بہُت سے لوگ یہاں مقبروں میں رکھے ہیں
    ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
    ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں۔

    عام طور پر راحت اندوری کو نئی پوت بطور شاعر ہی پہچانتی ہے، انہوں نے نئی نسل کو کئی رہنمایانہ باتیں بتائیں جو اُن کے فنی سفر ، تلفظ اور گلوکاری میں معاون ثابت ہوئی۔

  • اردو کے ممتاز شاعر ڈاکٹر راحت اندوری انتقال کر گئے

    اردو کے ممتاز شاعر ڈاکٹر راحت اندوری انتقال کر گئے

    نئی دہلی : اردو کے معروف شاعر راحت اندوری اس دنیا کو الودع کہہ گئے، انہوں نے آج صبح ہی کورونا پازیٹو ہونے کی اطلاع خود اپنے ٹوئٹر پیغام کے ذریعہ دی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق عصر حاضر کے مشہور شاعر ڈاکٹر راحت اندوری زندگی کی 70 بہاریں دیکھنے کے بعد اس جہان فانی سے کوچ کرگئے، وہ گزشتہ روز کورونا وائرس میں مبتلا ہوئے تھے۔

    انہوں نے ٹوئٹر پیغام لکھا تھا کہ کوویڈ کی ابتدائی علامتیں نظر آنے کے بعد کل میرا کورونا ٹیسٹ کیا گیا جس کی رپورٹ پازیٹو آئی ہے۔ آربندو اسپتال میں ایڈمنٹ ہوں، دعا کیجیے جلد سے جلد اس بیماری کو شکست دے دوں۔

    لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہ دی اور وہ 70 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے،

    یکم جنوری 1950 کو بھارت میں پیدا ہونے والے راحت اندوری پیشے کے اعتبار سے اردو ادب کے پروفیسر رہ چکے بعد ازاں آپ نے کئی بھارتی ٹی وی شوز میں بھی حصہ لیا۔

    ڈاکٹر راحت اندوری نے نہ صرف بالی ووڈ فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی بلکہ گلوکاری کے کئی شوز میں بہ طور جج حصہ بھی لیا۔

    عام طور پر راحت اندوری کو نئی پوت بطور شاعر ہی پہچانتی ہے، انہوں نے نئی نسل کو کئی رہنمایانہ باتیں بتائیں جو اُن کے فنی سفر ، تلفظ اور گلوکاری میں معاون ثابت ہوئی۔

    آپ کے والد رفعت اللہ قریشی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ملازم تھے، راحت اندوری بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہیں، آپ نے ابتدائی تعلیم نوتن (مقامی) اسکول سے حاصل کی بعد ازاں اسلامیہ کریمیہ کالج اندور سے 1973 میں گریجویشن مکمل کیا۔

    سن 1975 میں آپ نے بھوپال میں واقع برکت اللہ یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا، تعلیمی سفر جاری رکھنے کے لیے آپ نے 1985 میں بھوج اوپن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    آپ کی تصانیف میں دھوپ دھوپ، میرے بعد، پانچواں درویش، رت بدل گئی، ناراض، موجود و غیرہ شامل ہیں۔ آپ نے اپنے منفرد انداز بیان، مختصر اور آسان الفاظ میں شعر کہہ کر اردو ادب اور سامعین کے دل جیتے۔

    مزید پڑھیں : مشہور شاعر راحت اندوری بھی کورونا وائرس کا شکار

    راحت اندوری کے چند منتخب اشعار

    زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر

    راستے کے پتھروں سے خیریت معلوم کر

    بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر

    جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

    دوستی جب کسی سے کی جائے

    دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

    میرے ہجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
    آسمان لائے ہو ، لے آؤ، زمین پر رکھ دو

    اب کہا ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
    اب تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو

  • عرب ممالک کی ہر دلعزیز شخصیت ڈاکٹر محمد المشالی خالق حقیقی سے جاملے

    عرب ممالک کی ہر دلعزیز شخصیت ڈاکٹر محمد المشالی خالق حقیقی سے جاملے

    قاہرہ : مصر کے معروف مسیحا اور ہر دلعزیز شخصیت ڈاکٹر محمد المشالی خالق حقیقی سے جاملے، انہوں نے زندگی بھر غریبوں اور ناداروں کے بے لوث خدمت کی۔

    تفصیلات کے مطابق مصر میں غریبوں کے مسیحا ڈاکٹر محمد المشالی چل بسے، وہ اپنے پیچھے بے شمار غریب مصریوں کے یہاں انمول یادوں کا اثاثہ چھوڑ گئے ہیں۔ مصری ذرائع ابلاغ کے مطابق مشالی کی موت کی اطلاع مصر اور سعودی عرب ہی نہیں بلکہ کئی عرب ملکوں میں ٹرینڈ بن گئی۔

    محمد مشالی نے زندگی بھر غریبوں اور ناداروں کے بے لوث خدمت کی۔ ان کا ایک جملہ ناداروں کے حلقوں میں بڑا مشہور ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’مجھے لاکھوں پاونڈ سے کوئی سروکار نہیں نہ مجھے دس ہزار پاونڈ مطلوب ہیں۔ ایک سینڈوچ سے گزارا ہوجاتا ہے بس اتنا کافی ہے۔

    محمد مشالی غریبوں میں بہت مقبول تھے۔ اہل مصر انہیں طبیب الغلابہ یعنی (لاچاروں کے ڈاکٹر) کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔
    محمد مشالی کا معمول تھا کہ وہ اول تو بغیر فیس لیے مریضوں کا طبی معائنہ کیا کرتے تھے۔ اگر کسی سے فیس لیتے تو وہ بھی علامتی ہوتی تھی۔
    دنیا سے محمد مشالی کی بے رغبتی کا محرک کیا تھا؟

    بتایا جاتا ہے کہ محمد مشالی کے والد نے انہیں وصیت کی تھی کہ غریبوں کی مدد کرتے رہنا۔ انہوں نے اپنے بیٹے محمد مشالی کے نام وصیت نامہ بھی چھوڑا تھا۔

    محمد مشالی عربی ادب کے بابا ’طہ حسین‘ کی شہرہ آفاق تصنیف المعذبون فی الارض (دنیا کے ستائے ہوئے) سے متاثر تھے، طہ حسین کی اس کتاب میں غریبوں خاص طور پر بیمار اور ناداروں کی دیکھ بھال کا ذکر ہے۔ محمد المشالی نے زندگی بھر طحہ حسین کی اس بات کی پابندی کی۔

    محمد مشالی کی زندگی پر ذیابیطس میں مبتلا اس بچے کا بھی بڑا اثر تھا جب مشالی نے اس کی ماں سے بچے کے لیے دوا خریدنے کی بات کہی تو ماں نے جواب دیا کہ میرے پاس انجکشن خریدنے کی سکت نہیں ہے۔ اگر میں نے اس کے لیے انجکشن خریدا تو میرے دوسرے بچے بھوک سے مر جائیں گے۔

    محمد مشالی کہتے تھے کہ بیمار بچے نے جب اپنی ماں کے منہ سے یہ جملہ سنا تو اس نے اپنی ماں کو علاج کی تکلیف سے بچانے کے لیے خود سوزی کر لی۔

    محمد مشالی کہتے تھے کہ اس واقعہ نے مجھ پر بڑا اثر ڈالا۔ اسی وجہ سے میں غریبوں کا مفت علاج کرکے خوشی محسوس کرتا ہوں۔