Tag: Patients

  • شوگر کے مریض کب ورزش کریں؟ حیران کن تحقیق

    شوگر کے مریض کب ورزش کریں؟ حیران کن تحقیق

    باقاعدگی سے ورزش کرنا ہر مرض کے لیے فائدہ مند ہے اور حال ہی میں شوگر کے مریضوں کی ورزش کے حوالے سے ایک اہم تحقیق ہوئی ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ذیابیطس ٹائپ 2 یعنی شوگر کے مرض میں مبتلا افراد اگر صبح یا رات کے بجائے دوپہر کو ورزش کریں تو انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

    شوگر کو قابو میں رکھنے کے لیے ماضی میں بھی ورزش پر متعدد تحقیقات کی جا چکی ہیں، جن میں ورزش اور جسمانی حرکت کو مرض کو کم کرنے میں مددگار قرار دیا جا چکا ہے۔

    ماضی میں کی جانے والی بعض تحقیقات میں شوگر سے بچاؤ کے لیے صبح یا رات میں کی جانے والی ورزش کے ممکنہ دیگر خطرات بھی بتائے گئے تھے، جیسا کہ صبح کے وقت شوگر کے مریضوں کی ورزش بعض مرد حضرات میں امراض قلب کے امکانات بڑھا سکتی ہے۔

    تاہم حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دوپہر میں ورزش کرنا شوگر کے مریضوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہے اور اس سے شوگر واپس نارمل حالت پر آ سکتی ہے۔

    طبی جریدے ڈائبیٹک کیئر میں شائع تحقیق کے مطابق ماہرین نے ورزش کا شوگر کے مرض پر اثر جاننے کے لیے 2400 افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، جن پر 4 سال تک تحقیق کی گئی تھی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ مذکورہ تحقیق میں شامل تمام افراد زائد الوزن تھے اور ان میں ذیابطیس ٹائپ 2 کی تشخیص ہو چکی تھی۔

    ماہرین نے مذکورہ تمام افراد کو دن کے مختلف اوقات میں ورزش کرنے کا کہا تھا اور ان افراد کے جسم میں کچھ ڈیجیٹل ڈیوائسز لگائی گئی تھیں، جن کے ذریعے ان افراد کی جسمانی ورزش کے وقت اور انداز کو دیکھا گیا۔

    ماہرین کے مطابق تحقیق سے حیران کن نتائج سامنے آئے کہ دوپہر کے وقت ورزش کرنے والے افراد میں شوگر کی سطح نمایاں کم ہوگئی، یہاں تک کہ شوگر کے مریضوں نے ادویات کھانا بھی چھوڑ دیں۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد نے دوپہر کی ورزش کو ایک سال تک برقرار رکھا، ان میں خون میں شوگر کی سطح نمایاں طور پر کم ہوگئی اور انہوں نے ادویات لینا بھی چھوڑ دیں۔

    ماہرین نے دن اور رات کے دوسرے اوقات میں ورزش کرنے کے فوائد نہیں بتائے، تاہم بتایا کہ دوپہر کو ورزش کرنے کے حیران کن فوائد ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ دوپہر کے وقت ورزش کرنے سے شوگر کیوں قابو میں رہتی ہے، اس معاملے پر مزید تحقیق ہونی چاہیئے۔

    دوسری جانب بعض ماہرین نے مذکورہ تحقیق پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ماہرین نے دوپہر کو ورزش کرنے کے کوئی منفی اثرات نہیں بتائے جبکہ ماضی میں شوگر کے مریضوں کی ورزش پر کی جانے والی تحقیقات میں ورزش کے بعض منفی اثرات بھی بتائے جا چکے ہیں۔

  • نگران وزیر اعلیٰ کی خصوصی ہدایت، 52 مریضوں کے علاج کے لیے رقم جاری

    نگران وزیر اعلیٰ کی خصوصی ہدایت، 52 مریضوں کے علاج کے لیے رقم جاری

    لاہور: صوبہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی جانب سے امراض جگر اور بون میرو کے 52 مریضوں کے علاج کے لیے رقم جاری کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی خصوصی ہدایت پر چیف منسٹر فنڈ سے امراض جگر اور بون میرو کے 52 مریضوں کے علاج کے لیے رقم جاری کردی گئی۔

    52 مستحق مریضوں کے لیے 6 کروڑ روپے سے زائد کی رقم جاری کی گئی ہے۔

    نگراں وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ مریضوں کے علاج کے لیے وسائل مہیا کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، جگر اور بون میرو جیسے امراض میں مبتلا مریض بھرپور توجہ کے مستحق ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ امراض جگر اور بون میرو کا علاج عام آدمی کے بس کی بات نہیں، حکومت تعاون کر رہی ہے، صحت کی معیاری سہولتوں کی فراہمی کے لیے کوشاں ہوں اور رہوں گا۔

  • شوگر کے مریضوں کے لیے قدرتی میٹھا

    شوگر کے مریضوں کے لیے قدرتی میٹھا

    ذیابیطس یا شوگر کا مرض زندگی کو نہایت پھیکا کردیتا ہے، لیکن قدرت نے ایک ایسی شے بھی رکھی ہے جو نقصان دہ چینی کا بہترین متبادل ثابت ہوسکتی ہے۔

    اسٹیویا میں یا جسے کینڈی لیف بھی کہا جاتا ہے، قدرت نے مٹھاس رکھی ہے اور اسے چینی کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ صفر کیلوری والا میٹھا ہے۔

    مناسب مقدار میں اسٹیویا کا استعمال بالکل محفوظ ہے۔

    مختلف تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اسٹیویا بلڈ پریشر کو کم کر سکتا ہے۔

    اسٹیویا ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو بھی کم کرتا ہے اور اس سے دل کی بیماریوں سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    البتہ اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں لہٰذا طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر کے مریض، یا وہ افراد جو احتیاطاً شوگر سے بچنا چاہتے ہیں وہ اسٹیویا کے استعمال سے قبل ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں۔

  • ملک بھر میں کرونا وائرس کے 3 ہزار سے زائد مریض قرنطینہ میں

    ملک بھر میں کرونا وائرس کے 3 ہزار سے زائد مریض قرنطینہ میں

    اسلام آباد: ملک بھر میں اس وقت کرونا وائرس کے 63 مریض اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جبکہ 3 ہزار سے زائد قرنطینہ میں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں کرونا وائرس کے زیر علاج اور قرنطینہ مریضوں کی تفصیلات اے آر وائی نیوز نے حاصل کرلیں، ملک بھر میں کرونا وائرس کے 3 ہزار 333 مریض قرنطینہ میں ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں کرونا وائرس کے 18 سو 13، پنجاب میں 11 سو 55، پختونخواہ میں 107 اور بلوچستان میں 6 مریض قرنطینہ میں ہیں۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کرونا وائرس کے 240، آزاد کشمیر میں 10 اور گلگت بلتستان میں 2 مریض قرنطینہ میں ہیں۔

    ملک بھر میں کرونا وائرس کے 63 مریض اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، پختونخواہ میں 21، پنجاب میں 18، سندھ میں 16 اور اسلام آباد میں 8 مریض زیر علاج ہیں، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں کرونا وائرس کا کوئی مریض زیر علاج نہیں۔

    اس وقت صرف صوبہ سندھ میں کرونا وائرس کا ایک مریض وینٹی لیٹر پر ہے، ملک بھر میں 43 مریض ہائی فلو اور 14 لو فلو آکسیجن پر زیر علاج ہیں۔

  • کورونا نے ایک پھر انٹری دے دی، 1لاکھ 74 ہزار مریضوں کا انکشاف

    کورونا نے ایک پھر انٹری دے دی، 1لاکھ 74 ہزار مریضوں کا انکشاف

    پیانگ یانگ : کورونا وائرس کی عالمی وبا نے دنیا کے مختلف ممالک میں ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کردیا جس کے سبب معاشی پریشانی کے پیش نظر حکومتوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

    اس حوالے سے خبر ہے کہ شمالی کوریا نے ملک میں کورونا وائرس کی وبا پہلی بار پھیلنے کا اعتراف کرنے کے بعد جمعہ کے روز ملک میں اکیس نئی ہلاکتوں اور مزید ایک لاکھ 74 ہزار400 افراد میں وائرس کی علامات ظاہر ہونے کی تصدیق کی ہے۔

    حکمران ورکرز پارٹی کے اخبار رودونگ سنمن نے میڈیا کو بتایا ہے کہ رہنما کم جونگ اُن کو ہفتے کے روز اس متعدی مرض سے متعلق تفصیلات بتائی گئیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپریل کے اواخر سے جمعہ تک بخار کی علامات والے افراد کی تعداد پانچ لاکھ 24 ہزار چار سو ہوچکی ہے۔ شمالی کوریا کی آبادی، دو کروڑ ستاون لاکھ اسی ہزار کے قریب ہے۔

    اخبار کے مطابق دو لاکھ اسی ہزار سے زائد افراد زیرعلاج ہیں اور ستائیس کا انتقال ہو چکا ہے، جمعہ کو ملک میں بخار کی علامات والے کیسوں کی یومیہ تعداد جمعرات کی نسبت نو گنا سے تجاوز کر چکی تھی۔

    اجلاس میں جناب کم نے صورت حال کو ملک بننے کے بعد ایک عظیم بحران قرار دیتے ہوئے فوری نوعیت کی ہنگامی تشویش کا اظہار کیا۔

    انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں لاگو کردہ انسداد وائرس اقدامات کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے حکام کو چین کے مؤثر تر نتائج سے سیکھنے اور اقدامات میں تیزی لانے کی ہدایات دیں۔

    شمالی کوریا نے اپنے ملک میں کورونا وائرس کے پہلے متاثرین کی جمعرات کو باضابطہ تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ وہ انسداد وبا کے اپنے نظام کو انتہائی ہنگامی درجے تک بڑھا دے گا، جناب کم نے تمام شہروں اور کاؤنٹیوں کو لاک ڈاؤن کا حکم دیا ہے۔

  • کووڈ 19 سے متاثر ہونے والوں کو ویکسی نیشن کی ضرورت ہے یا نہیں؟

    کووڈ 19 سے متاثر ہونے والوں کو ویکسی نیشن کی ضرورت ہے یا نہیں؟

    اکثر افراد کی جانب سے خیال کیا جارہا ہے کہ کووڈ 19 کا شکار ہوجانے والوں کو ویکسی نیشن کی ضرورت نہیں ہے، تاہم اس حوالے سے اب ایک نئی تحقیق سامنے آگئی ہے۔

    امریکا کی پٹسبرگ یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اسے شکست دینے والے افراد میں بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح لوگوں میں نمایاں حد تک مختلف ہوسکتی ہے اور اکثر کیسز میں یہ اتنی زیادہ نہیں ہوتی جو لوگوں کو دوبارہ بیمار ہونے سے تحفظ فراہم کرسکے۔

    تحقیق میں کووڈ 19 کی معتدل شدت کا سامنا کرنے والے بالغ افراد میں صحت یابی کے بعد اینٹی باڈیز کی سطح کی جانچ پڑتال کی گئی، تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 30 سال سے کم عمر افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح زیادہ عمر کے مریضوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔

    نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہر ایک بالخصوص 30 سال سے کم عمر افراد کو بیماری کو شکست دینے کے بعد بھی ویکسینیشن کروا لینی چاہیئے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم ایسے متعدد افراد کو جانتے ہیں جو سوچتے ہیں کہ ہمیں کووڈ کا سامنا ہوچکا ہے تو اب ویکسین کی ضرورت نہیں، مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کچھ مریضوں بالخصوص جوان افراد میں بیماری کے بعد اینٹی باڈی یادداشت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔

    اس تحقیق میں 19 سے 79 سال کی عمر کے 173 افراد کے مدافعتی ردعمل کا تجزیہ کیا گیا تھا جن میں بیماری کی شدت معمولی یا معتدل تھی اور انہیں اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

    اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال خون کے نمونوں کے ذریعے کی گئی اور محققین نے دریافت کیا کہ کچھ افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ جبکہ کچھ میں بہت کم تھی۔

    زیادہ اینٹی باڈیز والے نمونے کرونا وائرس کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے جبکہ کم سطح والے نمونے ایسا نہیں کرسکے۔

    مگر تحقیق میں اس سطح کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی تھی جو کووڈ 19 سے دوبارہ بچانے کے لیے ضروری ہے بلکہ اس میں یہ دیکھا گیا کہ اینٹی باڈیز کی موجودگی میں بیماری کا امکان ہوتا ہے یا نہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے متعدد ایسے افراد کو دیکھا ہے جو ایک بار بیمار ہونے کے بعد احتیاطی تدابیر کو چھوڑ دیتے ہیں۔

    خیال رہے کہ کووڈ 19 اور قدرتی مدافعت کے حوالے سے ابھی بھی بہت کچھ معلوم نہیں جیسے کچھ افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ اور دیگر میں کم کیوں ہوتی ہے، ری انفیکشن سے بچانے کے لیے اینٹی باڈیز کی سطح کتنی ہونی چاہیئے یا قدرتی مدافعت کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے۔

  • لانگ کووڈ میں مبتلا رہنے کا فائدہ بھی سامنے آگیا

    لانگ کووڈ میں مبتلا رہنے کا فائدہ بھی سامنے آگیا

    کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے بعد طویل عرصے تک برقرار رہنے والی اس کی علامات یعنی لانگ کووڈ مریضوں کی زندگی مشکل بنائے رکھتی ہے، تاہم اب اس کا ایک فائدہ بھی سامنے آگیا۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ جن افراد کو کرونا وائرس کی سنگین شدت یا طویل المعیاد علامات (لانگ کووڈ) کا سامنا ہوتا ہے ان میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے جو مستقبل میں بیماری سے بچانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    اس تحقیق میں 548 ہیلتھ ورکرز اور 248 دیگر افراد کا جائزہ کرونا کی وبا کے آغاز سے اب تک لیا گیا۔

    مجموعی طور پر 837 میں سے 93 افراد یا 11 فیصد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی یا ان میں تحقیق کے آغاز سے 6 ماہ کے اندر اینٹی باڈیز بن گئیں۔ ان میں سے 24 میں علامات کی شدت سنگین تھی جبکہ 14 میں علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    ایک تہائی مریضوں میں تھکاوٹ، سانس لینے میں دشواری اور سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی جیسی علامات دیکھی گئیں جو کم ازکم ایک ماہ تک برقرار رہیں۔ 10 فیصد مریضوں میں علامات کا دورانیہ کم از کم 4 ماہ تک برقرار رہا۔

    کووڈ سے متاثر زیادہ تر افراد میں اینٹی باڈیز بن گئیں، اینٹی باڈیز کی سطح کا انحصار علامات کی شدت پر رہا۔

    سنگین علامات کا سامنا کرنے والے 96 فیصد مریضوں میں آئی جی جی اینٹی باڈیز دریافت ہوئیں جبکہ معمولی سے معتدل علامات کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح 89 فیصد اور بغیر علامات والے مریضوں میں 79 فیصد تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ دماغی تبدیلیاں بشمول دماغی دھند، یادداشت یا بینائی کے مسائل متاثرہ افراد میں مختلف تھے مگر یہ علامات کئی ماہ تک برقرار رہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جن افراد میں علامات کا تسلسل وقت کے ساتھ برقرار رہا ان میں اینٹی باڈیز کی سطح بھی وقت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ اینٹی باڈی کی سطح میں وقت کے ساتھ کمی معمول کا حصہ ہوتی ہے، مگر یہ اینٹی باڈیز جسم کو دوبارہ بیماری سے بچانے میں طویل المعیاد تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

  • کرونا وائرس مریضوں کے خون میں لوتھڑے کیوں بنتے ہیں؟

    کرونا وائرس مریضوں کے خون میں لوتھڑے کیوں بنتے ہیں؟

    کرونا وائرس کے مریضوں کو اکثر خون میں لوتھڑے بننے کی شکایت ہونے لگتی ہے تاہم ماہرین نے اب اس کی وجہ دریافت کرلی ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد میں ورم اور بلڈ کلاٹس کی ممکنہ وجہ وہ اینٹی باڈیز ہوتی ہیں جو جسم اس بیماری سے لڑنے کے لیے تیار کرتا ہے، مگر وہ پھیپھڑوں میں غیر ضروری پلیٹ لیٹس سرگرمیوں کو متحرک کردیتی ہیں۔

    طبی جریدے جرنل بلڈ میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کس طرح کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے بننے والی اینٹی باڈیز جان لیوا بلڈ کلاٹس کا باعث بن جاتی ہیں۔

    پلیٹ لیٹس خون کے وہ ننھے خلیات ہیں جو جریان خون کو روکنے یا اس کی روک تھام کے لیے کلاٹس بنانے کا کام کرتے ہیں، مگر جب ان خلیات کے افعال متاثر ہوتے ہیں، تو سنگین طبی اثرات جیسے فالج اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    تحقیق کے لیے کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد کے جسم میں کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین سے لڑنے کے لیے بننے والی اینٹی باڈیز کے نمونے حاصل کیے گئے اور لیبارٹری میں ان کے کلون تیار کیے گئے۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ ان اینٹی باڈیز کی سطح پر موجود مواد صحت مند افراد کی اینٹی باڈیز سے مختلف ہیں۔

    جب صحت مند افراد سے حاصل کی گئی اینٹی باڈیز کی لیبارٹری میں کووڈ کے مریضوں کے خلیات جیسی نقول تیار کی گئیں تو ماہرین نے پلیٹ لیٹس سرگرمیوں میں اضافے کا مشاہدہ کیا۔

    تحقیقی ٹیم نے یہ بھی دریافت کیا کہ مختلف ادویات کے متحرک اجزا کی مدد سے ایسا ممکن ہے کہ پلیٹ لیٹس کو ردعمل سے روک کر یا اس کی سطح میں کمی لائی جاسکے۔

    نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اس وقت مدافعتی نظام کے مسائل کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات سے خلیات کو بہت زیادہ متحرک پلیٹلیٹس ردعمل کو کم یا روکا جاسکے۔

    امپرئیل کالج لندن اور امپرئیل کالج ہیلتھ کیئر این ایچ ایس ٹرسٹ نے اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں پر ان ادویات کے کلینیکل ٹرائلز شروع کردیے ہیں تاکہ دیکھا جاسکے کہ ان سے کووڈ کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس کو کس حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

    اس نئی تحقیق سے برطانیہ میں جاری ٹرائلز کو سائنسی بنیادوں پر سپورٹ ملتی ہے، ابھی ٹرائل کے نتائج تو سامنے نہیں آئے مگر دونوں ٹیموں کی جانب سے اکٹھے مل کر کام کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ اب تک یہ صرف ہمارا خیال تھا کہ پلیٹ لیٹس ممکنہ طور پر کووڈ کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس کا باعث بنتے ہیں مگر اب اس حوالے سے شواہد سامنے آئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم لیبارٹری میں پلیٹ لیٹس پر اپنی تحقیق کے نتائج پر بہت پرجوش ہیں، کیونکہ اس سے اہم میکنزمز کی وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ کیسے اور کیوں کووڈ کے بہت زیادہ بیمار افراد کو خطرناک بلڈ کلاٹس کا سامنا ہوتا ہے اور سب سے اہم کہ کس طرح اس کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

    ماہرین نے مزید کہا کہ کرونا کی وبا کے آغاز میں ہی یہ واضح ہوگیا تھا کہ اس بیماری سے مدافعتی ردعمل بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے جس سے مختلف پیچیدگیوں بشمول بلڈ کلاٹس کا سامنا ہوتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خیال ہے کہ اس وقت آسانی سے دستیاب ادویات سے کووڈ کی اس پیچیدگی کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے، ہم ابھی تک اپنے ٹرائل کے نتائج کا انتظار کررہے ہیں، اس لیے ابھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان ادویات سے مریضوں کو کس حد تک مدد مل سکتی ہے، مگر ہمیں توقع ہے کہ ایسا ممکن ہوگا۔

    خیال رہے کہ بلڈ کلاٹس کا مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب خون گاڑھا ہوجاتا ہے اور شریانوں میں اس کا بہاؤ سست ہوجاتا ہے، ایسا عام طور پر ہاتھوں اور پیروں میں ہوتا ہے مگر پھیپھڑوں، دل یا دماغ کی شریانوں میں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔

    سنگین کیسز میں یہ مسئلہ جان لیوا ہوتا ہے کیونکہ اس سے فالج، ہارٹ اٹیک، پھیپھڑوں کی رگوں میں خون رک جانا اور دیگر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    کووڈ 19 سے متاثر ہونا ایک خوفناک تجربہ ہوسکتا ہے تاہم اس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو ماہرین نے اچھی خبر سنا دی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں کووڈ سے بیمار ہونے والے 97 فیصد افراد میں ایک سال بعد بھی وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔

    یوکوہاما سٹی یونیورسٹی کی تحقیق میں 250 ایسے افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جو فروری سے اپریل 2020 کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اوسطاً ان افراد میں 6 ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح 98 فیصد اور ایک سال بعد 97 فیصد تھی۔

    تحقیق کے مطابق جن افراد میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئیں ان میں 6 ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح 97 فیصد جبکہ ایک سال بعد 96 فیصد تھی، جبکہ سنگین شدت کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح 100 فیصد تھی۔

    تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کرونا وائرس کی مختلف اقسام سے متاثر ہونے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی شرح کیا تھی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ مختلف اقسام سے بیماری کی معتدل سے سنگین علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں 6 ماہ سے ایک سال بعد اینٹی باڈیز کی شرح 90 فیصد تک تھی۔ تاہم جن افراد میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں یا شدت معمولی تھی، ان میں اینٹی باڈیز کی شرح 6 بعد گھٹ کر 85 فیصد اور ایک سال بعد 79 فیصد ہوگئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں وقت کے ساتھ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح گھٹ سکتی ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ انہیں ہر سال بوسٹر شاٹ کی ضرورت ہو۔

    اس سے قبل مئی 2021 میں اٹلی کے سان ریفلی ہاسپٹل کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں اس بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کم از کم 8 ماہ تک موجود رہ سکتی ہیں۔

    اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مریض میں کووڈ 19 کی شدت جتنی بھی ہو اور اس کی عمر جو بھی ہو، یہ اینٹی باڈیز خون میں کم از کم 8 ماہ تک موجود رہتی ہیں۔

    اس تحقیق کے دوران 162 کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو اٹلی میں وبا کی پہلی لہر کے دوران ایمرجنسی روم میں داخل کرنا پڑا تھا، ان میں سے 29 مریض ہلاک ہوگئے جبکہ باقی افراد کے خون کے نمونے مارچ اور اپریل 2020 میں اکٹھے کیے گئے اور ایک بار پھر نومبر 2020 کے آخر میں ایسا کیا گیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں، اگرچہ ان کی شرح میں وقت کے ساتھ کمی آئی، مگر بیماری کی تشخیص کے 8 ماہ بعد بھی وہ موجود تھیں۔

    تحقیق میں صرف 3 مریض ایسے تھے جن میں اینٹی باڈی ٹیسٹ مثبت نہیں رہا تھا۔

  • جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کرونا وائرس سے متاثر مسافروں کی تعداد میں اضافہ

    جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کرونا وائرس سے متاثر مسافروں کی تعداد میں اضافہ

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مزید 5 مسافروں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوگئی، ایئرپورٹ پر بیرون ملک سے آنے والے کرونا مریضوں کی تعداد 30 ہوچکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مسافروں میں کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    غیر ملکی ایئر لائن کے ذریعے دبئی سے کراچی پہنچنے والے 5 مسافروں کے کرونا ٹیسٹ مثبت نکلے، 100 سے زائد مسافروں کے ریپڈ ٹیسٹ کیے گئے تھے جن میں سے 5 مسافر کرونا وائرس سے متاثر نکلے۔

    ایئرپورٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ مسافروں کو قرنطینہ میں منتقل کیا جائے گا۔

    ذرائع نے مزید بتایا کہ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مجموعی طور پر 30 مسافروں کے کووڈ 19 ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔

    دوسری جانب ملک بھر میں کرونا کیسز اور اموات میں اضافہ جاری ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 104 اموات ریکارڈ کی گئیں جبکہ 3 ہزار 200 سے زائد کیسز سامنے آئے۔

    این سی او سی کے مطابق کرونا وائرس سے اموات کی مجموعی تعداد 19 ہزار 856 تک پہنچ گئی ہے جبکہ مجموعی مریضوں کی تعداد 8 لاکھ 80 ہزار 362 ہوچکی ہے۔

    ملک بھر میں کرونا وائرس کے فعال کیسز کی تعداد 66 ہزار 377 ہے جبکہ اب تک 7 لاکھ 99 ہزار 951 افراد کرونا وائرس سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔