Tag: PERVEEN SHAKIR

  • کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی

    کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی

    کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا اُس نے
    بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

    وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا
    بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی

    تیرا پہلو، ترے دل کی طرح آباد رہے
    تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی

    اُس نے جلتی ہوئی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
    رُوح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

    اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
    جاگ اُٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

    **********

  • تازہ محبتوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے

    تازہ محبتوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے
    پھر موسمِ بہار مرے گلستاں میں ہے

    اِک خواب ہے کہ بارِ دگر دیکھتے ہیں ہم
    اِک آشنا سی روشنی سارے مکاں میں ہے

    تابِش میں اپنی مہر و مہ و نجم سے سوا
    جگنو سی یہ زمیں جو کفِ آسماں میں ہے

    اِک شاخِ یاسمین تھی کل تک خزاں اَثر
    اور آج سارا باغ اُسی کی امں میں ہے

    خوشبو کو ترک کر کے نہ لائے چمن میں رنگ
    اتنی تو سوجھ بوجھ مرے باغباں میں ہے

    لشکر کی آنکھ مالِ غنیمت پہ ہے لگی
    سالارِ فوج اور کسی امتحاں میں ہے

    ہر جاں نثار یاد دہانی میں منہمک
    نیکی کا ہر حساب دِل دوستاں میں ہے

    حیرت سے دیکھتا ہے سمندر مری طرف
    کشتی میں کوئی بات ہے یا بادباں میں ہے

    اُس کا بھی دھیا ن جشن کی شب اے سپاہِ دوست
    باقی ابھی جو تیر، عُدو کی کمال میں ہے

    بیٹھے رہیں گے، شام تلک تیرے شیشہ گر
    یہ جانتے ہوئے کہ خسارہ دکاں میں ہے

    مسند کے اتنے پاس نہ جائیں کہ پھر کَھلے
    وہ بے تعلقی جو مزاجِ شہاں میں ہے

    ورنہ یہ تیز دھوپ تو چبھتی ہمیں بھی ہے
    ہم چپ کھڑے ہوئے ہیں کہ تُو سائباں میں ہے

    **********

  • وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

    وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
    مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

    ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
    کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا

    وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
    ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا

    وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
    موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا

    آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی
    تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا

    مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
    جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا

    **********

  • میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا

    میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا
    ساتھ میرے روشنی بن کر سفر اس نے کیا

    اس طرح کھینچی ہے میرے گرد دیوار خبر
    سارے دشمن روزنوں کو بے نظر اس نے کیا

    مجھ میں بستے سارے سناٹوں کی لے اس سے بنی
    پتھروں کے درمیاں تھی نغمہ گر اس نے کیا

    بے سر و ساماں پہ دل داری کی چادر ڈال دی
    بے در و دیوار تھی میں مجھ کو گھر اس نے کیا

    پانیوں میں یہ بھی پانی ایک دن تحلیل تھا
    قطرۂ بے صرفہ کو لیکن گہر اس نے کیا

    ایک معمولی سی اچھائی تراشی ہے بہت
    اور فکر خام سے صرف نظر اس نے کیا

    پھر تو امکانات پھولوں کی طرح کھلتے گئے
    ایک ننھے سے شگوفے کو شجر اس نے کیا

    طاق میں رکھے دیے کو پیار سے روشن کیا
    اس دیے کو پھر چراغ رہ گزر اس نے کیا

    *********

  • دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا

    ن

    دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا
    وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا

    قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا
    کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا

    جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
    بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

    انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
    وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا

    سکوت شہر سخن میں وہ پھول سا لہجہ
    سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا

    اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم
    سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا

    مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی
    تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا

    **********

  • چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

    چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
    عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

    اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
    اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا

    ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
    اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا

    اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
    بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا

    ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
    ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا

    میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
    شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا

    چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
    وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا

    مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
    منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا

    **********

  • اک ہنر تھا کمال تھا، کیا تھا

    اک ہنر تھا کمال تھا، کیا تھا
    مجھ میں تیرا جمال تھا، کیا تھا

    تیرے جانے پہ اب کے کچھ نہ کہا
    دل میں ڈر تھا ملال تھا، کیا تھا

    برق نے مجھ کو کر دیا روشن
    تیرا عکس جلال تھا، کیا تھا

    ہم تک آیا تو بہر لطف و کرم
    تیرا وقت زوال تھا کیا تھا

    جس نے تہہ سے مجھے اچھال دیا
    ڈوبنے کا خیال تھا، کیا تھا

    جس پہ دل سارے عہد بھول گیا
    بھولنے کا سوال تھا ،کیا تھا

    تتلیاں تھے ہم اور قضا کے پاس
    سرخ پھولوں کا جال تھا، کیا تھا

    *********

  • آج اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کا یومِ وفات ہے

    آج اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کا یومِ وفات ہے

    آج 26 دسمبر اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کا یومِ وفات ہے۔

    مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

    پروین شاکر 24 نومبر 1954 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے انہوں بچپن میں پروین کو کئی شعراء کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور زبانی دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔

    سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں، اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990 میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے بعد میں طلاق لے لی۔

    ممکنہ فیٖصلوں میں اک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
    ہم نے تو اک بات کی اس نے کمال کردیا

    شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالے فنون میں شائع ہوتا رہا۔ 1977ء میں آپ کا پہلا مجموعہ کلام خوشبو شائع ہوا۔ اس مجموعہ کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی اور پروین شاکر کا شمار اردو کے صف اول کے شعرامیں ہونے لگا۔ خوشبو کے بعد پروین شاکر کے کلام کے کئی اور مجموعے صد برگ، خود کلامی اور انکار شائع ہوئے۔ آپ کی زندگی میں ہی آپ کے کلام کی کلیات ’’ماہ تمام‘‘ بھی شائع ہوچکی تھی جبکہ آپ کا آخری مجموعہ کلام کف آئینہ ان کی وفات کے بعد اشاعت پذیر ہوا۔

    26 دسمبر 1994ء کو اس خبر نے ملک بھر کے ادبی حلقوں ہی نہیں عوام الناس کو بھی افسردہ اور ملول کردیا کہ ملک کی ممتاز شاعرہ پروین شاکر اسلام آباد میں ٹریفک کے ایک اندوہناک حادثے میں وفات پاگئی ہیں۔

    پروین شاکر کو اگر اردو کے صاحب اسلوب شاعروں میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا لب و لہجہ دیا اور شاعری کو نسائی احساسات سے مالا مال کیا۔ ان کا یہی اسلوب ان کی پہچان بن گیا۔ آج بھی وہ اردو کی مقبول ترین شاعرہ تسلیم کی جاتی ہیں۔

    پروین شاکر نے کئی اعزازات حاصل کئے تھے جن میں ان کے مجموعہ کلام خوشبو پر دیا جانے والا آدم جی ادبی انعام، خود کلامی پر دیا جانے والا اکادمی ادبیات کا ہجرہ انعام اور حکومت پاکستان کاصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سرفہرست تھے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
    عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

  • بیٹھے رہیں گے شام تلک تیرے شیشہ گر،یہ جانتے ہوئے کہ خسارہ دکاں میں ہے

    بیٹھے رہیں گے شام تلک تیرے شیشہ گر،یہ جانتے ہوئے کہ خسارہ دکاں میں ہے

    آج 24 نومبر اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کا یومِ پیدائش ہے۔

    یہ دُکھ نہیں کہ اندھیروں سے صلح کی ہم نے
    ملال یہ ہے کہ اب صبح کی طلب بھی نہیں

    پروین شاکر 24 نومبر 1954 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے انہوں بچپن میں پروین کو کئی شعراء کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور زبانی دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔

    سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں، اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990 میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے بعد میں طلاق لے لی۔

    ممکنہ فیٖصلوں میں اک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
    ہم نے تو اک بات کی اس نے کمال کردیا

    شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالے فنون میں شائع ہوتا رہا۔ 1977ء میں آپ کا پہلا مجموعہ کلام خوشبو شائع ہوا۔ اس مجموعہ کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی اور پروین شاکر کا شمار اردو کے صف اول کے شعرامیں ہونے لگا۔ خوشبو کے بعد پروین شاکر کے کلام کے کئی اور مجموعے صد برگ، خود کلامی اور انکار شائع ہوئے۔ آپ کی زندگی میں ہی آپ کے کلام کی کلیات ’’ماہ تمام‘‘ بھی شائع ہوچکی تھی جبکہ آپ کا آخری مجموعہ کلام کف آئینہ ان کی وفات کے بعد اشاعت پذیر ہوا۔

    26 دسمبر 1994ء کو اس خبر نے ملک بھر کے ادبی حلقوں ہی نہیں عوام الناس کو بھی افسردہ اور ملول کردیا کہ ملک کی ممتاز شاعرہ پروین شاکر اسلام آباد میں ٹریفک کے ایک اندوہناک حادثے میں وفات پاگئی ہیں۔

    پروین شاکر کو اگر اردو کے صاحب اسلوب شاعروں میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا لب و لہجہ دیا اور شاعری کو نسائی احساسات سے مالا مال کیا۔ ان کا یہی اسلوب ان کی پہچان بن گیا۔ آج بھی وہ اردو کی مقبول ترین شاعرہ تسلیم کی جاتی ہیں۔

    پروین شاکر نے کئی اعزازات حاصل کئے تھے جن میں ان کے مجموعہ کلام خوشبو پر دیا جانے والا آدم جی ادبی انعام، خود کلامی پر دیا جانے والا اکادمی ادبیات کا ہجرہ انعام اور حکومت پاکستان کاصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سرفہرست تھے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے