Tag: Peshawar HC

  • پشاور ہائیکورٹ نے علی امین گنڈاپور کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی

    پشاور ہائیکورٹ نے علی امین گنڈاپور کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی

    پشاور: پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے، وکیل کے مطابق وفاق اور پنجاب حکومت علی امین کو گرفتار کرنا چاہتی ہے، یہ خدشات درست ہیں۔

    عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے عدالت کے سامنے خود ک وسرنڈر کر لیا ہے، اس لیے درخواست کو جزوی طور پر منظور کیا جاتا ہے اور حفاظتی ضمانت دی جاتی ہے۔

    عدالت نے حکم دیا کہ درخواست گزار کو کوئی بھی پولیس یا ادارہ گرفتار نہ کرے، اور درخواست گزار 5 نومبر تک متعلقہ عدالتوں میں پیش ہوں۔

    علی امین گنڈ اپور معاملہ: بھائی نے کی گرفتاری کی تصدیق، سرکاری ذرائع کی تردید

    واضح رہے کہ آج ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے غیر قانونی اسلحہ و شراب برآمدگی کیس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈا پور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔

    جوڈیشل مجسٹریٹ مبشر حسین زیدی نے تھانہ بہارہ کہو میں درج مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ متعدد مرتبہ عدالتی طلبی کے باوجود وزیر اعلیٰ کے پی پیش نہ ہوئے، ان کو گرفتار کر کے آئندہ سماعت پر عدالت پیش کیا جائے، عدالت نے گرفتاری کا حکم دینے کے بعد کیس کی سماعت 12 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

    علی امین گنڈ اپور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

    ادھر اسلام آباد میں گنڈاپور کی گرفتاری کا ہنگامہ مچ گیا ہے، ان کے بھائی کے علاوہ پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب کا بھی کہنا تھا کہ علی امین گنڈاپور کو خیبر پختونخوا ہاؤس سے حراست میں لے لیا گیا ہے، بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ پولیس نے خیبر پختونخوا ہاؤس کو سیل کر دیا ہے، اور وزیر اعلیٰ سے رابطہ نہیں ہو رہا۔

    تاہم حکومتی ذرائع نے ان کی گرفتاری کی تردید کی، مگر اس سے قبل یہ بتایا گیا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے پی کے خلاف ریاست پر حملہ آور ہونے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال پر کارروائی کی جا رہی ہے۔

  • عدالت نے پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی پر شوہر کو سزا سنا دی

    عدالت نے پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی پر شوہر کو سزا سنا دی

    پشاور: شوہر کو اجازت کے بغیر دوسری شادی مہنگی پڑ گئی، عدالت نے شہری کو جیل بھیج دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور کے فیملی کورٹ نے پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنے پر شہری سجاد خان کو 3 ماہ قید کی سزا سنا دی۔

    عدالت نے سجاد خان پر 5 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا، جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں مزید 15 روز قید کاٹنی ہوگی، یہ فیصلہ فیملی کورٹ کے جج غلام حامد نے سنایا۔

    عدالتی فیصلے کے بعد مجرم کو گرفتار کر کے سینٹرل جیل پشاور منتقل کر دیا گیا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی مسلم فیملی لا آرڈیننس 1961 کے سیکشن 6(5) کی خلاف ورزی ہے۔

    بغیر اجازت دوسری شادی پر سجاد خان کی پہلی بیوی نے ان کے خلاف 2022 میں کیس دائر کیا تھا، عدالت نے فیصلے میں کہا کہ شوہر نے مان لیا ہے کہ انھوں نے دوسری شادی کر لی ہے، اور پہلی بیوی سے اس کو چھپایا۔

  • مزید پڑھنے نہیں دیا جا رہا، ایل ایل بی ڈگری والے قیدی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا

    مزید پڑھنے نہیں دیا جا رہا، ایل ایل بی ڈگری والے قیدی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا

    پشاور: خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے شہری طفیل ضیا نے پشاور ہائی کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ ایل ایل بی کر چکے ہیں لیکن مزید پڑھنا چاہتے ہیں اور انھیں اجازت نہیں دی جا رہی، عدالت مزید پڑھنے کی اجازت دے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور سنٹرل جیل میں قید ملزم طفیل ضیا نے پشاور ہائیکورٹ میں نعمان محب کاکاخیل ایڈووکیٹ کی وساطت سے درخواست دائر کی ہے، جس میں صوبائی حکومت، آئی جی جیل خانہ جات اور جیل انتظامیہ کو فریق بنایا گیا ہے، اور مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ دوران قید تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے، اور ایم فل پولیٹیکل سائنس میں داخلہ لینا چاہا لیکن اجازت نہیں دی گئی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ طفیل ضیا نے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ہے اور وہ وکیل ہے اور مزید تعلیم کا خواہش مند ہے، اسلامیہ کالج یونیورسٹی نے ایم فل پولیٹکل سائنس میں داخلے کا اشتہار دیا ہے، درخواست گزار نے جیل سے پولیٹکل سائنس میں ایم فل داخلے کے لیے اپلائی کیا، اسکریننگ ٹیسٹ بھی دیا جس میں ٹاپ 10 میں ان کا نام آیا۔

    درخواست گزار نے کہا کہ اس نے انٹرویو بھی دیا ہے، لیکن جیل میں ہونے کی وجہ سے اس کو داخلہ نہیں دیا گیا، تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا آئینی اور قانونی حق ہے، جیل میں قید ملزم کو بھی تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے، اس لیے درخواست گزار کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے اور ویڈیو لنک کے ذریعے ٹیوٹر بھی فراہم کیا جائے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ملزم انڈر ٹرائل ہے اور ایف آئی آر میں ڈائریکٹ چارج بھی نہیں ہے۔

    نعمان محب کاکاخیل ایڈووکیٹ کے مطابق درخواست گزار طفیل ضیا نے ایل ایل بی کیا ہوا ہے اور وہ وکیل ہیں، اس وقت پشاور جیل میں قید ہیں اور وہ مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ایم فل پولیٹکل سائنس میں داخلہ لینے کا خواہش مند ہیں، لیکن یونیورسٹی کی جانب سے داخلہ لینے سے معذرت کی گئی ہے۔

    نعمان محب کاکاخیل کے مطابق قانون میں جیل میں قید انڈر ٹرائل ملزم کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، کوئی بھی ملزم جو انڈر ٹرائل ہو اور تعلیم حاصل کرنے کا خواہش مند ہو وہ داخلے کے لیے اپلائی کر سکتا ہے۔ وکیل نے بتایا کہ ملزم طفیل کو جس کیس میں گرفتار کیا گیا ہے اس ایف آئی آر میں وہ براہ راست نامزد نہیں ہیں، انھیں سہولت کاری کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ ملزم طفیل ضیا کو جوڈیشل کمپلیکس پشاور کے کمرہ عدالت کے اندر ایک شخص کو قتل کرنے کے واقعے میں مرکزی ملزم کی سہولت کاری کا الزام ہے۔

  • پشاور ہائیکورٹ کا افغان خواجہ سراؤں کو ہراساں نہ کرنے کا حکم

    پشاور ہائیکورٹ کا افغان خواجہ سراؤں کو ہراساں نہ کرنے کا حکم

    پشاور: پشاور ہائیکورٹ نے افغان خواجہ سراؤں کو ہراساں نہ کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق 16 افغان خواجہ سراؤں کو وطن واپس بھیجنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس شکیل احمد اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل بینچ نے رجسٹرڈ افغان مہاجرین خواجہ سراؤں کو تنگ نہ کرنے کی ہدایت کر دی۔

    وکیل درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست گزاروں کو جبری طور پر ملک بدر نہ کیا جائے، حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام غیر ملکیوں کو وطن واپس بھیجا جائے گا، تاہم افغانستان میں خواجہ سراؤں کی جان کو خطرہ ہے اس لیے واپس نہ بھیجا جائے۔

    وکیل نے عدالت کو بتایا کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے، جس سے ملک کی بدنامی ہوری ہے، پی او آر کارڈ اور دیگر دستاویز کے باوجود بھی درخواست گزاروں کو تنگ کیا جا رہا ہے۔

    وکیل ممتاز خان نے بتایا کہ طالبان کی حکومت جب سے آئی ہے خواجہ سراؤں کو وہاں پر جان کا خطرہ ہے، اس لیے ان کو زبردستی واپس افغانستان نہ بھیجا جائے، پناہ گزینوں کو بھی حقوق حاصل ہوتے ہیں، اس وقت افغانستان میں گلوکاروں کے ساتھ خواجہ سراؤں کو بھی روزگار کی اجازت نہیں ہے، اس لیے ان کے لیے وہاں پر زندگی گزارنا مشکل ہے۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یہ غیر ملکی نادرا کے پاس رجسٹرڈ ہیں؟ جج نے ریمارکس میں کہا غیر ملکیوں کو وہ حقوق حاصل نہیں ہوتے جو ملک کے شہریوں کوحاصل ہوتے ہیں، اگر غیر ملکیوں کے پاس ویزہ ہے اور وہ ایکسپائر نہیں تو پھر تو پاکستان میں رہ سکتے ہیں۔

    عدالت نے افغان خواجہ سراؤں کی رٹ پٹیشن افغان گلوکارہ کیس کے ساتھ کلب کر دی۔

  • سپریم کورٹ نہ جاتے تو ہماری رٹ ہی ختم ہو جاتی: ذرائع الیکشن کمیشن

    سپریم کورٹ نہ جاتے تو ہماری رٹ ہی ختم ہو جاتی: ذرائع الیکشن کمیشن

    اسلام آباد: الیکشن کمیشن کے ذرائع نے کہا ہے کہ اگر وہ سپریم کورٹ نہ جاتے تو ان کی رٹ ہی ختم ہو جاتی۔

    تفصیلات کے مطابق بلے کے نشان پر پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کے فریق بننے کے معاملے پر ذرائع الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تھا، اگر ہم سپریم کورٹ نہ جاتے تو ہماری رٹ ہی ختم ہو جاتی۔

    ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے قانونی طور پر صحیح فیصلہ دیا تھا، اب اس فیصلے کے کیا سیاسی اثرات ہوتے ہیں الیکشن کمیشن کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    پاکستان میں الیکشن 8 فروری کوہی ہوں گے، نگراں وزیراعظم

    ذرائع نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے کی روشنی میں اب ہر جماعت انٹرا پارٹی انتخابات صحیح طریقے سے کروائے گی، الیکشن کمیشن اختیارات، آئین اور الیکشن ایکٹ کے مطابق میرٹ پر فیصلے کرتا ہے۔

  • پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس مسرت ہلالی کون ہیں؟

    پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس مسرت ہلالی کون ہیں؟

    پشاور: جسٹس مسرت ہلالی نے پشاور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا، دو دن میں پشاور ہائیکورٹ کے دو چیف جسٹس کی عہدوں سے سبکدوشی کے بعد، جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی تاریخ میں پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔

    جوڈیشل کمیشن کی جانب سے جب تک پشاور ہائیکورٹ کے مستقل چیف جسٹس کی تقرری نہیں کی جاتی، تب تک جسٹس مسرت ہلالی قائمقام چیف جسٹس کے فرائض انجام دیں گی۔

    جسٹس مسرت ہلالی 2013 کو پشاور ہائیکورٹ کی ایڈیشنل جج تعینات ہوئیں، پھر 2014 میں ہائیکورٹ کی مستقل جج بن گئیں۔ اس وقت جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی سینئر ترین جج ہیں، قائمقام چیف جسٹس روح الامین کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس مسرت ہلالی کو قائمقام چیف جسٹس ہائیکورٹ تعینات کیا گیا۔

    جسٹس مسرت ہلالی

    مسرت ہلالی 8 اگست 1961 کو پشاور میں پیدا ہوئیں، ان کا آبائی گاؤں ملاکنڈ ڈویژن میں ہے، انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خیبر لا کالج پشاور یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد انھوں نے وکالت کا شعبہ اختیار کیا اور 1983 میں ڈسٹرکٹ کورٹس کا لائسنس حاصل کر لیا۔ 1988 میں ہائیکورٹ اور پھر 2006 میں سپریم کورٹ کی وکالت کا لائسنس حاصل کیا۔

    مختلف عہدوں پر تعیناتی

    جسٹس مسرت ہلالی خیبر پختون خوا کی پہلی بار وکیل تھیں جو 2001 سے 2004 تک ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز رہیں۔ انوائرنمینٹل پروٹیکشن ٹربیونل کی پہلی خاتون چیئر پرسن اور پہلی صوبائی محتسب کا اعزاز بھی جسٹس مسرت ہلالی کو حاصل ہے۔

    جسٹس مسرت ہلالی وکالت کے ساتھ بار ایسوسی ایشن کی سیاست میں بھی سرگرم رہی ہیں، 1992 سے 1994 تک وہ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون نائب صدر کے عہدے پر تعینات رہیں۔ 1997 سے 1998 تک وہ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون جنرل سیکریٹری بھی رہی ہیں، اور 2007 سے 2009 تک سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون ایگزیکٹو ممبر بھی رہیں۔

    وکلا تحریک کے دوران ٹانگ کی ہڈی ٹوٹی

    2007 کی وکلا تحریک میں جسٹس مسرت ہلالی بھی دیگر وکلا کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہیں، وکلا احتجاج کے باعث پولیس وکلا کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی تھی، پولیس نے جسٹس مسرت ہلالی کے گھر پر بھی چھاپا مارا تو اس دوران ان کی ایک ٹانگ فریکچر ہو گئی تھی۔

    وکلا کیا کہتے ہیں؟

    پلوشہ رانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کی تاریخ کا انتہائی اہم دن ہے، ہائیکورٹ کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون جج نے آج قائمقام چیف جسٹس کا حلف اٹھایا ہے، وکالت کے شعبے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کو اتنے مواقع نہیں ملتے لیکن جسٹس مسرت ہلالی نے خود کو منوایا، امید ہے جوڈیشل کمیشن جلد ان کی مستقل چیف جسٹس تقرری کی منظوری بھی دے گا۔

    پشاور ہائیکورٹ کی وکیل ندا خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی کا چیف جسٹس بننا پورے پاکستان کے لیے باعث فخر ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی جدوجہد کا نام ہے، یہ مقام انھوں نے اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کیا ہے۔ ندا خان نے بتایا کہ نوجوان خواتین وکلا کے لیے جسٹس مسرت ہلالی مشعل راہ ہیں۔

    علی گوہر درانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی نہ صرف ایک وکیل بلکہ سماجی کارکن بھی رہی ہیں، اور بار ایسوسی ایشن کی سیاست میں بھی فعال کردار ادا کیا ہے۔ وکلا تحریک میں وہ صف اول میں کھڑی رہیں، ان کی قابلیت ہی تھی جس کی وجہ سے ان کو ہائیکورٹ جج تعینات کیا گیا، جسٹس مسرت ہلالی اپنے کورٹ روم کو بھی بڑے بیلنس انداز میں چلاتی رہی ہیں، جس کی وجہ سے تمام وکلا ان کی عدالت میں کیس آرگو کرنا پسند کرتے ہیں۔

    جسٹس ہلالی نے پشاور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھالیا

    علی گوہر درانی نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی کی چیف جسٹس بننے سے خواتین نوجوان وکلا کو بہت حوصلہ ملا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین وکلا وکالت کا شعبہ اختیار کرتی ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد وہ غائب ہو جاتی ہیں، شائد خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ یہاں ان کے لیے مواقع کم ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے اور اس کی مثال جسٹس مسرت ہلالی ہیں۔

    پشاور ہائیکورٹ کی وکیل نازش مظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ جج جج ہوتا ہے، چاہے وہ مرد ہو یا خاتون، جسٹس مسرت ہلالی بھی ہائیکورٹ کی ایک قابل جج ہیں اور اسی وجہ سے قائمقام چیف جسٹس تعینات ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ سب خواتین کے لیے فخریہ فخریہ ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے محنت کی اور آج پورے پاکستان کی خواتین کو ان پر ناز ہے۔

  • ایشیاء کا سوئٹزرلینڈ ’’سوات‘‘تباہ کردیا گیا، پشاور ہائی کورٹ

    ایشیاء کا سوئٹزرلینڈ ’’سوات‘‘تباہ کردیا گیا، پشاور ہائی کورٹ

    حالیہ مون سون کے موسم میں سیلابی صورتحال کے بعد ایشاء کا سوئٹزرلینڈ سوات تباہ ہوکر رہ گیا ہے, کسی نے دریا میں کرشنگ پلانٹ لگا لیا تو کوئی پرتعیش ہوٹل تعمیر کر بیٹھا۔

    اس حوالے سے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں اسی بات کا پہلے سے خدشہ تھا اسی لئے دریاؤں کے کنارے غیرقانونی مائننگ کے خلاف ایکشن پر زور دے رہے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ 2010سیلاب کی تباہی سب کے سامنے تھی لیکن سب نے آنکھیں بند رکھیں, دریاؤں کے بدلے ڈیم بنانا کہا کا انصاف ہے۔

    ماحولیاتی آلودگی اور دریاؤں کی تحفظ سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیئے کہ حالیہ سیلاب نے مالاکنڈ ڈویژن اور صوبے کے دیگر اضلاع میں تباہی مچادی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں اسی بات کا خدشہ تھا کیونکہ کسی نے دریا میں ہوٹل بنالیا تو کسںی نے کرشنگ پلاٹ لگایا ہوا ہے، ایشیاء کے سوئٹزرلینڈ سوات تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔

    سوات میں سیلاب سے تباہی کے مناظر - Videos - Dawn News

    چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ محکمہ آبپاشی، محکمہ معدنیات اور ٹی ایم اوز نے بیڑہ غرق کردیا ہے, سب نے آنکھیں بند کر رکھی تھی، نشاندہی کے باوجود اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟?

    چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا شہزاد بنگش سے استفسار کیا ہم نے متعدد مواقع پر آپ لوگوں کو ہدایت جاری کی کہ دریاؤں کی بحالی کے لئے اقدامات اٹھائیں دریا غیرقانونی کھدائیوں کی وجہ سے تباہ ہوگئے ہیں۔

    چیف سیکریٹری شہزاد بنگش نے عدالت کو بتایا کہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے، عدالت نے ہماری رہنمائی کی ہے اور ہم اس پر کام کررہے ہیں۔

    دریاؤں کی اسسٹمنٹ کے لئے دو بلین روپے پراجیکٹ کی اسٹڈی بھی دی گئی ہے حالیہ بارشوں سے اسٹڈی کا عمل متاثر ہوا ہے انہوں نے چار ماہ کا مزید وقت مانگا ہے، سیلاب کے دوران دریا پھیل گئے ہیں بیلٹس بھی بھرگئے ہیں, ریور پروٹیکشن اتھارٹی پر کام ہورہا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب کچھ کمیشن مافیاز کی وجہ سے ہورہا ہے 2010 سیلاب سے اس صوبے میں جو تباہی ہوئی وہ سب کے سامنے تھی لیکن پھر بھی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

    شدید بارشوں کے بعد سیلاب کی وارننگ، سوات اور چارسدہ میں ایمرجنسی نافذ،کالام  کا معروف کثیر المنزلہ ہوٹل بھی سیلاب میں بہہ گیا، ویڈیو وائرل | Al Fajr News

    چیف جسٹس نے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب آپ کے ساتھ جو افسران موجود ہیں ان کو یقین دہانی کرائیں سیاسی دباؤ کے تحت کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوگا تب یہ افسران بہتر طریقے سے کام کریں گے۔

    چیف سیکرٹری نے جواب دیا کہ گزشتہ 10 ماہ میں بہترین افسر کو فیلڈ میں لگایا ہے تاکہ وہ ڈلیور کرسکے جبکہ ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شمائل بٹ نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے کسی افسر پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ دریاؤں کے کنارے ہوٹلز کاروبار کی وجہ سے دریا گندگی کا ڈھیر بن گئے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، ایریگیشن کے محکمے نے جو کچھ کیا ہے وہ قابل افسوس ہے۔

    چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ ریور پروٹیکشن اتھارٹی کا پی سی ون تیار ہے اور نسپاک کی اسٹڈی کا انتظار ہے۔

    ایڈوکیٹ جنرل شمائل بٹ نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے چار مقامات کی نشاندہی کی تھی، جس میں سوکی کناری ڈیم, آبپاشی اور دیگر امور شامل تھے اس پر کام ہورہا ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دریاؤں کے بدلے ڈیم بنانا کہاں کا انصاف ہے روزانہ ہزاروں ٹن بجری دریاؤں سے نکالی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے سیکرٹری ایری گیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری ایری گیشن بھی اس میں برابر کا ذمہ دار ہے جو آپ کے محکمے نے کیا وہ قابل افسوس ہے آپ یہ نہ سمجھیں کہ صرف پہلے والے افسران ذمہ دار ہیں آپ بھی اس حوالے سے اپنا کردار ارا کریں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم اس حوالے سے تفصیلی حکم جاری کریں گے, عدالت نے دریاؤں کی تحفظ کے لئے اقدامات کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے اگلی سماعت 27 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

  • پشاور : عدالت نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کردیا

    پشاور : عدالت نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کردیا

    پشاور: 25ستمبرکو کے پی میں ہونے والا ضمنی الیکشن ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن فیصلے کیخلاف درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے نوٹس جاری کردیا۔

    پشاور ہائی کورٹ میں ضمنی الیکشن ملتوی کرنے کیخلاف قومی اسمبلی کی درخواست کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کردیا۔

    دوران سماعت پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن سے 16ستمبر تک جواب طلب کرلیا اور درخواست گزار سے مزید تفصیلات دریافت کیں۔

    وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے حالیہ سیلاب کی وجہ سے 25ستمبرکو ہونے والا ضمنی الیکشن ملتوی کیا ہے۔

    وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آئین کے مطابق قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست خالی ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن کو 60دن کے اندر لازمی انتخاب کرانا ہوتا ہے۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرنے کی کیا وجوہات بتائی ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے سیلاب کا بتایا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر ہوئی ہے۔

    وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ چارسدہ میں سیلاب کے بعد اب صورتحال تیزی سے معمول پر آرہی ہے اور سیلاب متاثرہ لوگ بھی اپنے گھروں کو واپس جاچکے ہیں۔

    واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 24چارسدہ سے منتخب رکن ایمل ولی خان نے الیکشن کمیشن کے ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کےفیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے، ایمل ولی خان پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوارہیں۔

  • پشاور : مہنگائی کیخلاف چیف جسٹس کا بڑا ایکشن

    پشاور : مہنگائی کیخلاف چیف جسٹس کا بڑا ایکشن

    پشاور : چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ قیصر رشید خان نے ماہ رمضان میں مہنگائی کا نوٹس لیتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق ماہ رمضان میں اشیائے خوردونوش کی مہنگے داموں فروخت پر چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے کمشنر پشاور سمیت دیگر ذمہ داران کو احکامات جاری کردیے۔

    چیف جسٹس قیصر رشید خان کے طلب کرنے پر ایڈووکیٹ جنرل، کمشنر پشاور، سیکریٹری فوڈ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر پشاور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ماہ رمضان میں اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، غریب آدمی اپنےبچوں کیلئے افطاری تک خرید نہیں سکتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے یہاں پر ماہ رمضان میں ذخیرہ اندوزی شروع ہوجاتی ہے جس سے ہر چیزمہنگی ہوجاتی ہے، مہنگائی عروج پر ہے لیکن حکومت نام کی کوئی چیز نظرنہیں آرہی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ گوشت 500 سے 800 روپے کلو تک پہنچ گیا ہے، انتظامیہ کی کوئی کارروائی نظرنہیں آرہی، انتظامیہ کی کارگردگی صرف رپورٹس کی حد تک ہوتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اشیاء کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور غریب شہری کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا،
    جس کے جواب میں کمشنر پشاور نے بتایا کہ مہنگی چیزیں بیچنے والے دکانداروں کیخلاف کارروائی کررہےہیں۔

    اس کے علاوہ کارروائی کے دوران گراں فروشون کیخلاف 329ایف آئی آر درج اور 20لاکھ سے زائد جرمانہ بھی وصول کیا گیا جبکہ7ہزار دکانوں کو سربمہر کیا،3ہزار سے زائد افراد کو وارننگ دی گئی۔

    چھوٹے موٹے جرمانوں سے کچھ فرق نہیں پڑتا، جومہنگے داموں چیزیں بیچتے ہیں ان کیخلاف سخت ایکشن لیا جائے، اسمگلنگ ہورہی ہے تواس کو روکیں، پہلے اپنے لوگوں کو چیزیں مہیا کریں۔

  • عدالت نے نیب سے مالم جبہ اسکینڈل کیس انکوائری بند کرنے کے منٹس طلب کر لیے

    عدالت نے نیب سے مالم جبہ اسکینڈل کیس انکوائری بند کرنے کے منٹس طلب کر لیے

    پشاور: ہائیکورٹ نے نیب سے مالم جبہ اسکینڈل کیس انکوائری بند کرنے کے منٹس طلب کر لیے۔

    تفصیلات کے مطابق مالم جبہ، بلین ٹری سونامی، بینک آف خیبر انکوائری کیس پر پشاور ہائیکورٹ نے 4 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کر دیا۔

    عدالت نے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب عظیم داد کو مالم جبہ کیس انکوائری بند کرنے کی نیب ایکزیگٹو بورڈ میٹنگ کے منٹس طلب کر لیے ہیں، عدالت نے ڈی پی جی نیب کو آئندہ سماعت پر مالم جبہ کیس انکوائری بند کرنے کے ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ کے منٹس پیش کرنے کا حکم دیا ہے، حکم نامے میں عدالت نے لکھا ہے کہ کس کے حکم پر اور کیسے یہ انکوائری بند کی گئی ہے؟

    ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب کے مطابق نیب آرڈیننس 199 کے سیشن 9 (c) کے تحت نیب نے انکوائری بند کرنے کے لیے پشاور کی احتساب عدالت میں 10 ستمبر 2021 کو درخواست جمع کی تھی، جس میں انکوائری بند کرنے کی استدعا کی گئی تھی، احتساب عدالت نے 2 نومبر 2021 کو نیب کی درخواست منظور کرتے ہوئے مالم جبہ اسکینڈل انکوائری بند کرنے کا حکم دیا۔

    اس پر ہائیکورٹ نے نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سے ایگزیگٹو بورڈ میٹنگ کے کمنٹس طلب کر لیے تو ڈی پی جی نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ نیب ایگزیگٹو بورڈ میٹنگ ڈیپارٹمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے، اس کے منٹس زاردارانہ ہوتے ہیں، اس لیے اس کو عدالت میں پیش نہیں کر سکتے۔

    تاہم عدالت نے کہا کہ کہیں پر یہ نہیں لکھا ہے کہ یہ رازدارانہ ہیں، اس میٹنگ میں پبلک میٹر کے اور بھی فیصلے ہوئے ہیں ان کو رازدارانہ نہیں رکھ سکتے، عدالت کا حکم ہے آپ میٹنگ کے منٹس آئندہ سماعت پر پیش کریں۔

    عدالت نے نیب حکام کو بلین ٹری سونامی انکوائری کا عمل مزید تیز کرنے کا بھی حکم دیا۔

    مالم جبہ، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر کیس میں درخواست گزار کے وکیل علی گوہر درانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ جب نیب منٹس عدالت میں پیش کرے گا تو پھر پتا چلے گا کہ انکوائری کیوں بند کی گئی۔

    بینک آف خیبر سے متعلق انکوائری کیس میں بیرسٹر مدثر امیر نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت میں ہمارا اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے اس لیے عدالت بینک آف خیبر کیس میں کوئی حکم جاری نہ کرے، کیوں کہ اس کا ہمارے کیس پر اثر ہوگا، کیس 28 اپریل کو سماعت کے لیےمقرر ہے اس کیس کو بھی ان کے ساتھ کلب کیا جائے۔

    خیبر پختون خوا حکومت کے سب سے بڑے پراجیکٹ بی آر ٹی سے متعلق نیب نے رپورٹ عدالت میں پیش کی، نیب رپورٹ کے مطابق ہائیکورٹ نے بی آر ٹی پراجیکٹ کے خلاف درخواستوں پر 17 جولائی 2018 کو نیب کو انکوائری کا حکم دیا تھا، 20 جولائی 2018 کو نیب خیبر پختون خوا نے بی آر ٹی پراجیکٹ کے خلاف انکوائری کی منظودی دی اور متعلقہ محکموں سے ریکارڈ قبضے میں لے کر تحقیقات کی۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب کے مطابق نیب نے انکوائری کر کے رپورٹ ہائیکورٹ میں جمع کرائی، لیکن اس کے خلاف صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کر لیا اور سپریم کورٹ نے 31 اگست 2018 کو بی آر ٹی انکوائری کی پشاور ہائیکورٹ کا حکم معطل کر دیا، جو اب سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اس میں مزید کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔