Tag: Peshawar High Court

  • سول نافرمانی شروع کرنے کیلئے بانی کے حکم کا انتظار ہے، علی امین گنڈا پور

    سول نافرمانی شروع کرنے کیلئے بانی کے حکم کا انتظار ہے، علی امین گنڈا پور

    پشاور: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ میں پورے صوبے کا نمائندہ ہوں، مجھے کسی سے کلیئرنس کی ضرورت نہیں۔

    پشاور ہائیکورٹ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ جو اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں کیا انکی کلیئرنس ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سول نافرمانی شروع کرنے کیلئے بانی پی ٹی آئی کے حکم کا انتظار ہے، بانی پی ٹی آئی جب بتائیں گے تب سول نافرمانی تحریک شروع ہوگی

    وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا مزید کہنا تھا کہ مجھے کل بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی۔

    دوسری جانب گزشتہ روز وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ مذاکرات کرنا ہیں تو پہل بانی پی ٹی آئی کو کرنا ہوگی۔

    نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ لوگوں نے شور مچایا ہوا ہے مجھے کسی مذاکرات کا نہیں پتا، پارٹی میں مذاکرات کرنے والے وزیر بھی لاعلم ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اگر مذاکرات کرنا ہوں تو چپ رہتے ہیں زبان نرم کرتے ہیں۔

    ’فیض حمید تنہا نہیں تھا قمر باجوہ بھی ساتھ تھا، ٹرائل ہونا چاہیے‘

    وزیر دفاع نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کو بتائے کہ ہم مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، اسپیکر کے ذریعے مذاکرات کا عمل شروع ہونا چاہیے، پی ٹی آئی پہلے رابطہ کرے گی اس کے بعد ہم کوئی جواب دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

  • جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس تعینات

    جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس تعینات

    پشاور: جسٹس مسرت ہلالی یکم اپریل سے پشاور ہائیکورٹ کی قائمقام چیف جسٹس تعینات ہوں گی۔

    تفصیلات کے مطابق 30 مارچ کو چیف جسٹس قیصر رشید خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد پشاور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس روح الامین ایک دن کے لیے قائمقام چیف جسٹس تعینات کر دیے گئے ہیں۔

    31 مارچ کو جسٹس روح الامین کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس مسرت ہلالی قائمقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گی۔ جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی تاریخ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس ہوں گی۔

    صدر مملکت نے جسٹس روح الامین کی ایک دن اور جسٹس مسرت ہلالی کو مستقل چیف جسٹس کی تعیناتی تک قائمقام چیف جسٹس تعینات کیا ہے۔

    وزارت قانون کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق جوڈیشل کمیشن جب تک مستقل چیف جسٹس کی تقرری نہیں کرتا اس وقت تک جسٹس مسرت ہلالی قائمقام چیف جسٹس کے فرائض انجام دیں گی۔

    جسٹس مسرت ہلالی 2013 کو پشاور ہائیکورٹ کی ایڈیشنل جج تعینات ہوئیں اور پھر 2014 میں ہائیکورٹ کی مستقل جج بن گئیں۔

    جسٹس مسرت ہلالی کون ہیں؟

    8 اگست 1961 کو ملاکنڈ دویژن کے گاؤں بٹ خیلہ میں پیدا ہونے والی جسٹس مسرت ہلالی نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے پشاور منتقل ہوئیں۔

    پشاور یونیورسٹی خیبر لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انھوں نے وکالت کا شعبہ اختیار کیا اور 1983 میں ڈسٹرکٹ کورٹس کا لائسنس حاصل کر لیا۔

    1988 میں ہائیکورٹ اور پھر 2006 میں سپریم کورٹ کی وکالت کا لائسنس حاصل کیا، 2013 میں وہ پشاور ہائیکورٹ کی ایڈیشنل جج مقرر ہوئیں اور 2014 میں ان کو مستقل جج تعینات کر دیا گیا۔

  • پشاور ہائیکورٹ بار نے حکومت سے اقتصادی ایمرجنسی کے نفاذ کا مطالبہ کر دیا

    پشاور ہائیکورٹ بار نے حکومت سے اقتصادی ایمرجنسی کے نفاذ کا مطالبہ کر دیا

    پشاور: ملک میں شہباز شریف کی حکومت کے بعد مہنگائی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، ایسے میں پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے حکومت سے اقتصادی ایمرجنسی کے نفاذ کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے حالیہ مہنگائی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، وکلا نے مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکامی پر حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کا عندیہ دے دیا۔

    پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مسترد کر دیا، صدر ایسوسی ایشن نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت نے عالمی اداروں کے دباؤ میں مہنگائی کا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے، حکومت فوری طور پر اقتصادی ایمرجنسی نافذ کرے۔

    رحمان اللہ نے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹرینز اور سرکاری ملازمین کا مختص پٹرول، بجلی، گیس اور وی آئی پی پروٹوکول کا کوٹہ فوری ختم کیا جائے، ملک کی موجودہ معاشی صورت حال کی وجہ سے دفاعی بجٹ کو بھی کم کرنے پر غور کیا جائے۔

    صدر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ حکومت معاشی بہتری کے لیے اقتصادی ماہرین پر مشتمل بورڈ تشکیل دیں، اور مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے۔

    انھوں نے کہا کہ حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئی تو وکلا کے پاس حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا۔

  • خیبر پختونخوا اسمبلی اراکین کے ترقیاتی فنڈز کا معاملہ عدالت پہنچ گیا

    خیبر پختونخوا اسمبلی اراکین کے ترقیاتی فنڈز کا معاملہ عدالت پہنچ گیا

    پشاور: خیبر پختون خوا اسمبلی اراکین کے ترقیاتی فنڈز کا معاملہ عدالت پہنچ گیا، آج پشاور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ ن کے ایم پی اے کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر اہم سماعت ہوئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جمعرات کو پشاور ہائی کورٹ میں پی کے 55 مردان سے پاکستان مسلم لیگ ن کے منتخب رکن صوبائی اسمبلی جمشید مہمند کی جانب سے، حلقے کا ترقیاتی فنڈ منصوبے کی منظوری کے باوجود روکے جانے کے خلاف دائر درخواست پر جسٹس روح الامین اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔

    درخواست گزار کے وکیل اور رکن صوبائی اسمبلی خوشدل خان ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار پی کے 55 مردان سے رکن صوبائی اسمبلی ہیں، اپوزیشن سے تعلق ہونے کی وجہ سے حکومت نے ان کے حلقے کے ترقیاتی فنڈ کو روک دیا ہے۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے اگر اپوزیشن ارکان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا ہے، تو اپوزیشن ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کر لیتے، حکومت نے اگر اپوزیشن ارکان کو ہر معاملے میں نظر انداز کرنا ہے تو سادہ الفاظ میں کہہ دے کہ آپ کے پاس اکثریت نہیں ہے باہر بیٹھ جائیں۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ بدقسمتی سے ہر دور میں ایسا ہوتا ہے جب کوئی وزیر اعلیٰ بنتا ہے تو مجموعی سوچ کی بجائے صرف اپنے حلقے کے لوگوں کے لیے سوچتا ہے۔

    جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ ایک منصوبے کی انتظامی سطح پر منظوری کے بعد بھی اسے کس طرح واپس لیا گیا، کیا صرف ایک حلقہ ایسا ہے جس کے لیے فنڈز نہیں ہیں، اگر فنڈز نہیں ہیں تو پھر تمام حلقوں کے لیے نہیں ہوں گے، صرف اپوزیشن ارکان کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔

    جسٹس روح الامین نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے فنڈز کی تقسیم کے لیے میکنزم بنانے کا حکم دیا ہے، کیا آپ کو پتا ہے؟ متعلقہ لوگوں نے صرف اپنے حکام بالا کو خوش کرنے کے لیے اس حلقے کا فنڈ روکا، اور منصوبے کو نکال دیا، اس اقدام سے صرف اس حلقے کے عوام ہی متاثر ہوں گے۔

    ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فنڈز کی کمی ہے، جیسے ہی فنڈز کا مسئلہ حل ہوگا تو اس ٹینڈر کو دوبارہ کھولا جائے گا، اس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ جب اس منصوبے کی منظوری دی جا رہی تھی تو اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ فنڈ نہیں ہے، اس سے لگتا ہے کہ متعلقہ حکام نے دباؤ میں یا کسی کو خوش کرنے کے لیے اپوزیشن ارکان کے فنڈز کو روکا، لیکن ہم کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرنے دیں گے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جب فنڈ منظور ہو جائے اور ایڈمنسٹریٹیو منظوری دی جائے، تو وہ واپس نہیں ہو سکتا، یہ واحد حکومت ہے جس میں فنڈز نہ ملنے پر ارکان اسمبلی نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاج کیا تھا، حکومت کے ایسے اقدامات سے لوگوں میں بے چینی پھیلتی ہے۔

    عدالت نے ایم پی اے جمشید مہمند کی درخواست باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو اس حلقے کے ڈرافٹ شدہ منصوبوں کو واپس ای بڈنگ میں شامل کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے قرار دیا کہ فریقین اگر کوئی جواب جمع کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنا جواب جمع کروا سکتے ہیں۔

  • بھیک مانگنے والے بچوں کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے انتظامات کیے جائیں: عدالت کا حکم

    بھیک مانگنے والے بچوں کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے انتظامات کیے جائیں: عدالت کا حکم

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور کی ہائیکورٹ نے سڑکوں پر رہنے اور بھیک مانگنے والے بچوں کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے اقدامات کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں اسٹریٹ چلڈرن کی فلاح و بہبود کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، عدالت نے سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کو ٹیکنیکل ایجوکیشن کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دے دیا۔

    سیکریٹری سوشل ویلفیئر نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے ویلفیئر ہوم شروع کیے جہاں غریب بچوں کو کھانا بھی دیا جاتا ہے، ہم بچوں کو سینٹرز لاتے ہیں اور ان کی بحالی پر کام کرتے ہیں لیکن جب وہ واپس جاتے ہیں تو پھر سے بھیک مانگنے لگتے ہیں۔

    جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ایک وقت کا کھانا دینے سے کچھ نہیں ہوتا، ان بچوں کا فیملی بیک گراؤنڈ بھی دیکھنا ہوگا، لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔ ان کی فیملی کو جب تک سپورٹ نہیں کریں گے یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

    انہوں نے کہا کہ ایک وقت کا کھانا یا فوڈ پیکٹ دینے سے بہتر ہے ان بچوں کو ٹیکنیکل ایجوکشن دیں، بچے ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کریں گے تو پھر اپنا روزگار کریں گے۔ سینٹرز پر بچوں کو ٹیکنیکل ایجوکیشن دینے کے اقدامات کریں۔

    چیف جسٹس قیصر رشید خان نے دریافت کیا کہ نشئی افراد کی بحالی کے لیے کیا اقدامات ہو رہے ہیں؟ جس پر اے اے جی سکندر حیات نے بتایا کہ فقیر آباد میں اسٹریٹ چلڈرن کے لیے جو سینٹر تھا وہاں سے بچوں کو زمونگ کور منتقل کیا ہے اور وہاں نشئی افراد کی بحالی کے لیے کام کیا جارہا ہے۔

    سیکریٹری ویلفیئر نے بتایا کہ 112 نشئی افراد کی بحالی کا کام کر رہے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ویلفیئر سینٹرز کے حوالے سے الگ رپورٹ پیش کریں، انہوں نے 2 ماہ میں اقدامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی۔

  • پاکستانی صارفین کیلیے ٹک ٹاک کے حوالے سے بڑی خبر

    پاکستانی صارفین کیلیے ٹک ٹاک کے حوالے سے بڑی خبر

    پشاور : ہائی کورٹ نے ٹک ٹاک کھولنے کی اجازت دیتے ہوئے حکم دیا کہ غیر اخلاقی مواد اپلوڈ نہیں ہونا چاہیئے، پی ٹی اے غیر اخلاق مواد روکنے کے لئے مزید اقدامات کرے۔

    تفصیلات کے مطابق : پشاور ہائی کورٹ میں ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد اپلوڈ کرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی ، ڈی جی پی ڈی اے، ڈائریکٹر لیگل پی ٹی اے، پی ٹی اے کے وکیل جہانزیب محسود اور درخواست گزار وکیل سارہ علی خان عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس قیصر رشید خان نے ڈی جی سے استفسار کیا ڈی جی صاحب اب تک کیا ایکشن لیا ہے ، جس پر ڈی جی پی ٹی اے نے بتایا کہ  ہم  نے  ٹک ٹاک انتظامیہ کے ساتھ دوبارہ اس مسئلے کو اٹھایا ہے، ٹک ٹاک نے فوکل پرسن بھی ہائیر کیا ہے، جتنے بھی غیر اخلاقی اور غیر قانونی چیزیں اپلوڈ ہوگی ان کو  دیکھے گے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا آپ لوگوں کے ساتھ ایسا سسٹم ہونا چاہیئے جو اچھے اور برے میں تفریق کریں، پی ٹی اے ایکشن لے گی تو لوگوں پھر ایسے  ویڈیوز اپلوڈ نہیں کریں گے۔

    چیف جسٹس قیصر رشید خان کا مزید کہنا تھا کہ جب لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ پی ٹی اے ہمارے خلاف ایکشن لے رہی ہے تو پھر وہ ایسی چیزیں اپلوڈ نہیں کریں گے۔

    ڈی جی پی ٹی اے نے بتایا کہ ہم نے ٹک ٹاک انتظامیہ کے ساتھ بات کی ہے کہ جو بار بار ایسا غلطی کرتے ہیں ان کو بلاک کریں، جس پر چیف جسٹس قیصر رشید نے کہا یہ ون ٹائم نہیں ہونا چاہیئے آپ ٹک ٹک پر غیر اخلاقی مواد روکنے کے اقدامات مزید اقدامات کریں۔

    وکیل پی ٹی اے جہانزیب محسود نے کہا کہ کچھ سائٹس ایسی ہے، جس میں مخصوص چیزوں کو بلاک نہیں کر سکتے، پورے سائٹ کو بند کرنا ہوتا ہے۔

    جس کے بعد عدالت نے ٹک ٹاک دوبارہ کھولنے اجازت دیتے ہوئے پی ٹی اے کو غیر اخلاق مواد روکنے کے لئے مزید اقدامات کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے ڈی جی پی ٹی اے کو آئندہ سماعت پر تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیتے سماعت 25 مئی تک ملتوی کردی۔

  • جسٹس قیصر رشید قائمقام چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ تعینات

    جسٹس قیصر رشید قائمقام چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ تعینات

    پشاور: جسٹس قیصر رشید کو قائم مقام چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ تعینات کردیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صدر مملکت عارف علوی نے معزز جج کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کیا، جسٹس قیصر رشید پشاور ہائیکورٹ کے سب سےسینئر جج ہیں۔

    گذشتہ روز پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس وقار سیٹھ کرونا کے باعث اسلام آباد میں انتقال کرگئے تھے، جسٹس وقار کی وفات کے باعث چیف جسٹس پشاورہائیکورٹ کا عہدہ خالی ہو گیا تھا۔

    دوسری جانب چیف جسٹس وقار احمدسیٹھ کی تدفین کوہاٹی گیٹ قبرستان میں کردی گئی ہے، مرحو م کو والدہ کی قبر کے پہلو میں سپردخاک کیا گیا۔واضح رہے کہ گذشتہ روز چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ علالت کے باعث انتقال کرگئے تھے، ترجمان پشاور ہائیکورٹ نےجسٹس وقار احمد سیٹھ کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ چیف جسٹس کورونا کے مرض میں مبتلا تھے، چیف جسٹس پشاورہائیکورٹ کی طبیعت کچھ دنوں سےخراب تھی اور وہ کلثوم انٹرنیشنل اسپتال اسلام آباد میں زیرعلاج تھے۔

    چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ وقار احمد سیٹھ کا شمار خیبرپختونخوا کے ان ججوں میں ہوتا تھا جنہوں نے انتہائی اہم معاملات میں فیصلے دیے اور وکلا ان فیصلوں کو ‘بولڈ’ سمجھتے تھے۔

    چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک متوسط کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی تعلیم پشاور کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی ہے۔ اسلامیہ کالج سے گریجویشن کی اور لا کالج پشاور یونیورسٹی سے پہلے قانون کی ڈگری حاصل کی اور پھر پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے 1985 میں عملی وکالت کا آغاز کیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  چیف جسٹس پشاورہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ انتقال کرگئے

    جسٹس وقار احمد سیٹھ 1990 میں ہائی کورٹ اور پھر 2008 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ انھیں 2011 میں ایڈیشنل سیشن جج تعینات کیا گیا اور اس کے بعد وہ بینکنگ کورٹس سمیت مختلف عدالتوں میں تعینات رہے۔وقار احمد سیٹھ نے 2018 میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے عہدے کا حلف لیا۔

    آئین شکنی کیس میں انہوں نے سابق صدر پرویزمشرف کو سزائے موت سنائی تھی جب کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کی عمر 63سال کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، کے پی حکومت نے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر60 سے بڑھا کر63سال کی تھی۔

  • امیر مقام کی درخواست منظور، عدالت نے نیب کو گرفتار ی سے روک دیا

    امیر مقام کی درخواست منظور، عدالت نے نیب کو گرفتار ی سے روک دیا

    پشاور: پشاور ہائی کورٹ نے نیب کو مسلم لیگ ن کے رہنما امیر مقام کی گرفتاری سے روک کر تحقیقات کا حکم جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں امیر مقام کی جانب سے دائر ضمانت قبل ازگرفتار درخواست پر سماعت ہوئی جس کے دوران مسلم لیگ رہنما کے وکیل نے دلائل دیے۔

    وکیل نے معزز جج کو آگاہ کیا کہ میرے مؤکل امیر مقام کے خلاف اثاثہ جات کی انکوائری نیب میں چل رہی ہے، قومی احتساب بیورو تفتیش کے لیے بلا کر گرفتار کرلیتا ہے لہذا نیب کو گرفتاری سے روکا جائے۔

    مزید پڑھیں: کے پی کے: جماعت اسلامی کے اہم رہنما مسلم لیگ ن میں شامل، امیر مقام کی مخالفین پر کڑی تنقید

    پشاور ہائی کورٹ نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ:نیب پہلے تحقیقات مکمل کرے اور اگر گرفتار کرنا ہے تو پہلے وارنٹ جاری کرے، بغیروارنٹ کےگرفتاری کا قانونی جواز نہیں ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت پر نیب سے جواب طلب کرلیا۔

    بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر مقام کا کہنا تھا کہ نیب نے جب بلایا حاضر ہوئے اور آئندہ بھی قانون کی پاسداری کرتے رہیں گے، مجھ پر کرپشن ثابت ہوئی تو سزا کے لیے تیار ہوں۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف نے پورے ملک میں ترقیاتی کام کیے، ملکی تاریخ میں اس طرح کی انتقامی کارروائی کبھی نہیں دیکھی، سابق وزیراعظم کا کیا قصور ہے یہ ابھی تک سمجھ سے بالاتر ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر امیر مقام عدالت میں طلب

    امیر مقام کا کہنا تھا کہ احتساب سب کاہونا چاہیے،  بی آر ٹی منصوبے کا بھی احتساب ہو ۔ مسلم لیگ ن کے رہنما نے نیب قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ قومی احتساب بیورو کو جو اختیار ملا کو کسی کو بھی اندر رکھ سکتا ہے، ایسے قانون میں ترامیم کی ضرورت ہے۔

  • پشاور ہائی کورٹ نے نیب کو پشاور بس منصوبے کی تحقیقات کا حکم دے دیا

    پشاور ہائی کورٹ نے نیب کو پشاور بس منصوبے کی تحقیقات کا حکم دے دیا

    پشاور : پشاور ہائی کورٹ نے نیب خیبر پختون خوا کو پشاور میٹرو بس منصوبے کی انکوائری کا حکم دے دیا، عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ایسی فرم کو  ٹھیکا دیا گیا جو دیگر صوبوں میں بلیک لسٹ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے میں کرپشن تحقیقات کیس کا محفوظ تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

    تفصیلی فیصلے میں نیب خیبر پختون خوا کو بی آرٹی پراجیکٹ کی انکوائری کاحکم دے دیا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ منصوبے کی لاگت 49 بلین سے بڑھ کر 67 بلین تک کیسے جاپہنچی تحقیقات کی جائیں کہ منصوبے کا ٹھیکہ ایک ایسی فرم کو کیوں دیا گیا جو دیگر صوبوں میں بلیک لسٹ ہے۔

    عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ دیگرعوامی منصوبوں کےفنڈبی آرٹی پرکیوں لگائےگئے، منصوبہ مقررتاریخ چوبیس جون تک مکمل کیوں نہیں ہوا، نیب واقعے کی شفاف تحقیقات کرکے رپورٹ 5 ستمبر کو پیش کرے۔

    یاد رہے کہ بی آر ٹی میں مبینہ کرپشن کے خلاف جے یو آئی کے رہنما مولانا امان اللہ حقانی نے رٹ دائر کی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • میں اکیلانظام ٹھیک نہیں کرسکتا،  ججز سمجھ لیں تمام ذمہ داری ہم نے لینی ہے، چیف جسٹس

    میں اکیلانظام ٹھیک نہیں کرسکتا، ججز سمجھ لیں تمام ذمہ داری ہم نے لینی ہے، چیف جسٹس

    پشاور : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ میں اکیلانظام ٹھیک نہیں کرسکتا،حکومت کی ترجیح عدلیہ نہیں توذمہ دار نہیں ، تمام جج سمجھ لیں تمام ذمہ داری ہم نے لینی ہے، ججزکاکام سچ اورجھوٹ کا قانون کے مطابق فیصلہ کرناہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار ججز اور وکلا سے ملاقات کیلئے پشاورہائیکورٹ پہنچے، جسٹس ثاقب نثار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انصاف انصاف ہے، تول کر دیا جانا چاہیے، سپریم کورٹ اورہائیکورٹس میں نیک نیت والےلوگ بیٹھےہیں، انصاف کرنا ججز کی ذمہ داری ہے۔

    [bs-quote quote=”میں اکیلے نظام ٹھیک نہیں کرسکتا نہ ہی کبھی نظام ٹھیک کرنے کا دعویٰ کیا ” style=”default” align=”left” author_name=”جسٹس ثاقب نثار” author_job=”چیف جسٹس آف پاکستان ” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/04/nisarr.jpg”][/bs-quote]

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جسٹس دوست محمدکی ہرخواہش بطورچیف جسٹس پوری کی، میں نے پوچھا کس دن آپ فل کورٹ ریفرنس لیناچاہیں گے، جسٹس دوست محمد کیلئےہماری پوری ٹیم تحفہ خرید کرلائی، تحفے پر پوری ٹیم کے نام لکھے گئے ہیں، جسٹس دوست محمد سے پوچھ کر ان کی اہلیہ کیلئے شال لی، میں وضاحت نہیں دےرہا،صرف بار کو متنبہ کررہاہوں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جسٹس دوست محمد کی ریٹائرمنٹ سے قبل انہیں بار اور کورٹ کی طرف سےریفرنس دینے کا منصوبہ بنایاتھا لیکن عین وقت پرجسٹس دوست محمد نے ذاتی وجوہ کی بنا پرریفرنس لینے سے انکار کردیا، آج بھی جسٹس دوست محمد کو ریفرنس دینے کیلئے تیارہوں۔

    تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ جسٹس دوست محمد نے کہا بیٹی کی منگنی ہے، ریفرنس کیلئے تقریرنہیں لکھ سکتا، میں نے جسٹس دوست محمد کو تقریر تیار کرنے کی پیش کش کی تھی، جسٹس دوست محمد نے کہا مجبوری ہے، فل کورٹ ریفرنس نہیں لے سکتا۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ میں نےاپناکام ذمہ داری کےساتھ شروع کیا، صدق دل سےمعافی مانگنے پرمعاف کرناچاہیے، میں بار کو مطمئن کرنا چاہتا ہوں ایک ہی جسم کے دو حصےہیں، علم نہیں کہ دوست محمد نے ریفرنس کیوں قبول نہیں کیا۔

    چیف جسٹس نے جسٹس دوست محمد کو ریفرنس نہ دینے کے معاملے پر کہا کہ اگر بارز سمجھتی ہے کہ غلطی ہوئی تو اس کے ازالےکیلئےتیارہوں، کبھی ایسانہیں ہوا کہ فل ریفرنس کیلئے تقریر پہلے دکھانا کا کہا ہو۔

     

    [bs-quote quote=”ججزکاکام سچ اورجھوٹ کاقانون کے مطابق فیصلہ کرناہے” style=”default” align=”left” author_name=”جسٹس ثاقب نثار” author_job=”چیف جسٹس آف پاکستان ” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/04/nisarr.jpg”][/bs-quote]

    ان کا کہنا تھا کہ پشتون میرےبھائی ہیں،میری جان ہیں، 225 پٹیشن تھیں،10،10روز لگاکر نمٹائیں،کبھی یہ نہیں کیاکہ بات سنی نہیں اور فیصلہ دےدیا، ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے، بہت سےفیصلے قانون کےمطابق نہیں ہورہے، ہائیکورٹ کے ججز پر اپنی اور ڈسٹرکٹ ججزکی ذمہ داری ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ 1861 اور1906کا قانون نہیں بدلا تو ذمہ دارسپریم کورٹ نہیں، اگرحکومت کی کم ترجیح عدلیہ ہے تو اس کا ذمہ دار میں نہیں، تمام جج سمجھ لیں تمام ذمہ داری ہم نے لینی ہے، ہمارےجہادمیں بارزکوبھی برابر کا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کررہے،ایک ٹیم بن کرکام کرناہوگا، عدلیہ سے وابستہ تمام لوگ ایک ہیں،مل کرکام کرناہوگا، اسپتال میں لواحقین اور مریضوں کوتکلیف میں دیکھ کردکھ ہوا۔

    جسٹس ثاقب نثار  نے کہا کہ میں اکیلے نظام ٹھیک نہیں کرسکتا نہ ہی کبھی نظام ٹھیک کرنے کا دعویٰ کیا،  نظام ٹھیک کرنے کیلئے قانون میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ہونگی اور میں قانون بنانے والا نہیں بلکہ عملدرآمد کرانے والا ہوں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نظام میں تبدیلی قانون کےساتھ آتی ہے،میں قانون بنانےوالانہیں، قانون کےنفاذ کیلئےجوچیزیں دی گئی ہیں انہیں پر انحصار کرنا ہوگا، کسی نے آج تک سوچاکہ قوانین میں تبدیلی کرنی چاہیے؟ کیسے زندگی، جمع پونجی کا انحصار 2افراد کی گواہی پر کیا جاسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس ججزکاکام سچ اورجھوٹ کاقانون کے مطابق فیصلہ کرناہے، تجویزدیں اسی نظام کےتحت مقدمات کو جلد کیسے نمٹایا جاسکتاہے؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔