Tag: physical-punishment

  • اسکول میں بچوں کو جسمانی سزا اور خوف جیسے رویوں سے نہیں سکھایا جا سکتا: ماہرین

    اسکول میں بچوں کو جسمانی سزا اور خوف جیسے رویوں سے نہیں سکھایا جا سکتا: ماہرین

    کراچی: ماہرین تعلیم کی متفقہ رائے ہے کہ اسکول میں بچوں کو جسمانی سزا اور خوف جیسے رویوں سے نہیں سکھایا جا سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق تعلیمی ماہرین، انسانی حقوق کے کارکنان، بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسکول میں بچوں کو جسمانی سزا اور خوف جیسے رویوں سے نہیں سکھایا جا سکتا، ضروری ہے کہ استاد بچوں کے ساتھ دوستی کا رویہ اپنا کر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کریں۔

    ان خیالات کا اظہار ماہرین نے ریفارم سپورٹ یونٹ محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ اور یونیسیف کے زیر اہتمام کراچی کے نجی ہوٹل میں منعقدہ تقریب کے دوران کیا۔

    سندھ رولز فار پروہبیشن آف کارپورل پنشمنٹ ایکٹ کے ٹیکنیکل ایکسپرٹ عامر ممتاز نے کہا کہ صوبہ سندھ میں جسمانی سزا کی روک تھام کا ایکٹ 2016 کے تحت منظور ہوا، پاکستان میں اسکولوں میں جسمانی سزا کے حوالے سے روک تھام مؤثر قانون سازی کرنے والا سندھ واحد صوبہ ہے، یہ قانون بچوں کی حفاظت خاص طور پر ذہنی و نفسیاتی تحفظ کو یقینی بناتا ہے، اhہوں نے اس بات پر زور دیا کہ والدین بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں شکایاt کی صورت میں اس قانون کی مدد لیں تا کہ بچوں کو منفی رجحانات سے بچایا جا سکے۔

    ڈپٹی سیکریٹری اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمینٹ غلام علی برہامانی نے کہا کہ تدریسی عمل کے دوران طالب علموں کو جسمانی سزا دینا تضحیک کرنے سے بھی زیادہ کا رویہ ہے، جسے اب بدلنا ہوگا۔

    یونیسیف کے چیف فیلڈ آفیسر پریم بہادر چن نے کہا کہ خوف کے ماحول میں سیکھنا ممکن ہی نہیں، بچوں کو شفقت کے ساتھ ہی پڑھایا اور سکھایا جا سکتا ہے، ہیومن رائٹس کمیشن کراچی کے چیئرمین اقبال احمد ڈیتھو نے کہا کہ اسکول کے بچوں کو جسمانی سزا سے حفاظت دینے کے لیے سندھ میں ہونے والی قانون سازی ایک مثبت تبدیلی ہے، لیکن ضروری ہے کہ اس پر عمل درآمد بھی لازمی ہو۔

    یونیسیف کی کنسلٹنٹ سدرہ محمود نے کہا کہ جسمانی تشدت سے ساتھ ہمیں بچوں کو تشدد کی وجہ سے بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی اثرات پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے، جو کہ ایک اچھا استاد ایک ہمدردانہ رویے سے ممکن کر سکتا ہے۔

    ڈائریکٹر چائیلڈ پروٹیکشن اتھارٹی اصغر علی گھانگرو نے کہا کہ سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی بچوں کے تحفظ کے لیے مؤثر ادارہ ہے، والدین بچوں کو اسکول میں جسمانی سزا ملنے کی صورت میں ہیلپ لائن پر رابطہ کر سکتے ہیں، جہاں پر قانونی تحفظ اور شکایات کے ازالے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں۔

    تقریب میں محکمہ اسکول ایجوکیشن کے ڈپٹی سیکریٹری غلام علی برہامانی، چیف پروگرام مینجر ڈاکٹر جنید سموں، یونیسیف کے چیف فیلڈ آفیسر پریم بہادر چن، ڈائریکٹر چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی اصغر علی گھانگرو، چیف ایڈوائزر کریکیولم ڈاکٹر فوزیہ خان، کنسلٹنٹ یونیسیف سدرہ محمود سدوزئی، تعلیمی ماہرین، اساتذہ، طالب علموں اور دیگر افراد نے شرکت کی۔

  • تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد ، حکومت سے 2 ہفتے میں جواب طلب

    تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد ، حکومت سے 2 ہفتے میں جواب طلب

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کی درخواست پر سیکرٹریز داخلہ، قانون، تعلیم، انسانی حقوق اورآئی جی پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے زندگی ٹرسٹ کے صدر معروف گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر سماعت ہوئی ، سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔

    شہزاد رائے اپنے وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے ، وکیل نے کہا تعلیمی اداروں میں بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے، پڑھائی میں بہتری کے لئے بچوں کو سزا کو ضروری تصور کیا جاتا ہے، بچوں پر تشدد اور سزا کی خبریں آئے روز میڈیا میں آرہی ہیں۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان 182 ممالک میں سے 154 پوزیشن پر ہے، عدالت یو این کنونشن کے تحت بچوں کے تحفظ کے قوانین پر عمل درآمد کا حکم دے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شہزاد رائے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ویلکم کیا، جس پر شہزاد رائے نے کہا آپ کا شکر گزار ہوں، جج صاحب آپ نے مجھے ویلکم کیا۔

    وکیل نے کہا بچوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری حکم امتناع جاری کیا جائے اور اسلام آباد کی حد تک بچوں پرتشدد پر پابندی عائد کردیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا قومی اسمبلی نے بل بھی پاس کیا ہے، یہ درخواست عوامی دلچسپی کی ہے، نوٹس جاری کررہاہوں اس کے بعد معاملے کو دیکھتے ہیں۔

    عدالت نے سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری قانون، سیکرٹری تعلیم، سیکرٹری انسانی حقوق اور آئی جی پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔

    بعد ازاں عدالت نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے درخواست پر سماعت 5 مارچ تک کے لئے ملتوی کر دی۔