Tag: Planet

  • نظام شمسی کا کون سا سیارہ پانی پر تیر سکتا ہے؟ زمین یا؟

    نظام شمسی کا کون سا سیارہ پانی پر تیر سکتا ہے؟ زمین یا؟

    ہمارے نظام شمسی میں 8 سیارے ہیں۔ سورج کی طرف سے شروع کے پہلے 4 یعنی عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ وہ سیارے ہیں جو چٹانوں، دھات یا سلیکیٹ سے بنے زمینی سیارے ہیں۔ اس کے بعد اگلے چار یعنی مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون وہ سیارے ہیں جو اندرونی نظام شمسی کی تشکیل کرتے ہیں، اور یہ بنیادی طور پر گیسی مرکب کے حامل ہیں۔

    چوں کہ گیس کی کثافت پانی سے کم ہوتی ہے، یعنی ہلکی ہوتی ہے، اس لیے اصولی طور پر تو نظام شمسی کے اندر ہمارے یہ چار بڑے گیسی پڑوسی پانی پر تیرنے کے قابل ہونے چاہیئں، لیکن ایسا نہیں ہے، اور صرف ایک ہی سیارہ اس قابل ہے۔

    تو اگر آپ نے گوگل کیا ہے تو یقیناً آپ جان گئے ہوں گے کہ کس سیارے کی باڈی کو یہ خاص امتیاز حاصل ہے؟ لیکن جو لوگ نہیں جانتے ان کے لیے اس کا جواب ہے: زحل (Saturn)۔

    اس کے گرد خوب صورت حلقے بنے ہوئے ہیں، اس لیے یہ چھلّوں والی دنیا کہلائی جاتی ہے، اور یہ سورج سے چھٹا، اور نظام شمسی کا دوسرا سب سے بڑا سیارہ ہے، یہی وہ واحد سیارہ ہے جو پانی پر تیر سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ زحل کی کثافت پانی سے کم ہے۔

    زحل کی اوسط کثافت 0.7 گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے، جب کہ پانی کی کثافت اسی حجم کے لیے 1 گرام ہے۔ سیارہ زحل تقریباً مکمل طور پر گیس سے بنا ہے، خاص طور پر ہائیڈروجن اور ہیلیم، یہ دونوں ہوا سے ہلکے ہیں۔

    اگر ایسا کرنا ممکن ہو، کہ نظام شمسی کے تمام ارکان کو ایک کائناتی باتھ ٹب میں ڈالا جائے، تو ان میں سے 7 تو پانی میں ڈوب جائیں گے، جب کہ زحل تیرتا ہوا دکھائی دے گا۔

    جہاں تک زحل کے گرد موجود حلقوں کی بات ہے تو یہ ملبے سے بنے ہیں، جس میں چٹانیں اور برفیلے ذرات شامل ہیں۔

  • برج خلیفہ کے سائز جتنا سیارچہ زمین کے پاس سے گزرے گا

    برج خلیفہ کے سائز جتنا سیارچہ زمین کے پاس سے گزرے گا

    ریاض : امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے کہا ہے کہ اس اتوار کے روز زمین کے مدار کے قریب سے ایک سیارچہ تیز رفتاری سے گزرے گا جس کا سائز برج خلیفہ جتنا ہوگا، سیارچے کو باآسانی دیکھا بھی جاسکے گا۔

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے مطابق رواں برس کے اختتام سے پہلے خلا سے 5 سیارچے زمین کے قریب سے گزریں گے۔
    سعودی خبررساں ادارے کے مطابق اتوار 29 نومبر کو برج خلیفہ کے حجم کے برابر ایک سیارچہ گرینچ کے وقت کے مطابق صبح10بج کر 9 منٹ پر زمین کے قریب سے گزرے گا۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اس سیارچے کی رفتار 25.07 کلومیٹر فی سیکنڈ ہوگی اور انتہائی تیز رفتاری سے کرہ ارض کے قریب سے گزرے گا، اسے دور بین کے بجائے آنکھ سے بھی دیکھا جاسکتا ہے اس کے علاوہ پیر اور منگل کو تین مزید سیارچے زمین کے قریب سے گزریں گے۔

    ناسا کے مطابق پہلے سیارچے کا قطر 9.5 میٹر، دوسرے کا 14 میٹر جبکہ تیسرے کا قطر 10 میٹر کے قریب ہوگا۔ بعد ازاں منگل کے روز کرہ ارضی کے قریب ایک چوتھے سیارچے کا گزر ہوگا جس کا قطر 47 میٹر ہوگا۔

    ناسا اور فلکی علوم سے دلچسپی رکھنے والے بین الاقوامی ادارے چٹانوں اور سیارچوں کا زمین کے قریب سے گزرنے کو غیر معمولی واقعہ قرار دے رہے ہیں۔ مذکورہ سیارچوں کا نظارہ کرنے کے لیے خصوصی اہتمام کیا جا رہا ہے۔

  • وہ علاقہ جہاں 20 لاکھ سال سے بارشیں نہیں ہوئیں

    وہ علاقہ جہاں 20 لاکھ سال سے بارشیں نہیں ہوئیں

    اگر آپ سے پوچھا جائے کہ زمین پر خشک ترین مقام کون سا ہے تو ہوسکتا ہے آپ جواب میں کسی صحرا کا نام لیں، ہوسکتا ہے آپ کا جواب ہو افریقہ کا صحرائے صحارا یا پھر چین کا صحرائے گوبی، لیکن آپ کا جواب غلط ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کا سب سے خشک علاقہ برفانی خطے انٹارکٹیکا میں موجود ہے جسے مک مورڈو ڈرائی ویلیز کہا جاتا ہے۔

    سلسلہ وار وادیوں پر مشتمل یہ علاقہ برف سے عاری ہے اور یہاں فضا میں نمی نہ ہونے کے برابر ہے، یہ پورا علاقہ پہاڑوں سے گھرا ہے، اور یہ پہاڑ بقیہ انٹارکٹیکا کی برف کو یہاں پھسلنے سے روک دیتے ہیں۔

    اس علاقے میں نمی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی جاندار یہاں پر زندہ نہیں رہ پاتا سوائے ایک بیکٹریا کے جو اس علاقے کے گرد موجود پہاڑوں میں پایا جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں گزشتہ 20 لاکھ سال سے کبھی بارشیں نہیں ہوئیں۔ ناسا کی جانب سے کیے گئے ایک ٹیسٹ کے مطابق اس علاقے کے جغرافیائی حالات اور ماحول مریخ سے ملتے جلتے ہیں۔

    کیا انٹارکٹیکا بھی ایک صحرا ہے؟

    صحرا عام طور پر ایک ایسے مقام کو سمجھا جاتا ہے جہاں میلوں دور تک ریت پھیلی ہو، تیز گرم دھوپ جسم کو جھلسا رہی ہو، چاروں طرف کیکر کے پودے ہوں، اونٹ ہوں اور دور کسی نظر کے دھوکے جیسا نخلستان ہو جہاں پانی اور کھجور کے درخت ہوتے ہیں۔

    تاہم ماہرین کے نزدیک صحرا کی تعریف کچھ اور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرا ایک ایسا علاقہ ہے جو خشک ہو، جہاں پانی، درخت، پھول پودے نہ ہوں اور وہاں بارشیں نہ ہوتی ہوں۔

    اس لحاظ سے زمین کا سب سے بڑا صحرا قطب شمالی یعنی انٹارکٹیکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق انٹارکٹیکا کے 98 فیصد حصے پر برف کی مستقل تہہ جمی ہوئی ہے، صرف 2 فیصد علاقہ اس برف سے عاری ہے اور یہیں تمام برفانی حیات موجود ہے.

    بقیہ 98 فیصد حصے پر کسی قسم کی زندگی موجود نہیں جبکہ یہاں بارشیں بھی بہت کم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ تمام جغرافیائی حالات اسے ایک صحرا بنا دیتے ہیں اور اگر اس کا رقبہ دیکھا جائے تو یہ زمین کا سب سے بڑا صحرا ہے۔

  • ایپل کا دفتر جو خطرناک قدرتی آفات میں بھی محفوظ رہے گا

    ایپل کا دفتر جو خطرناک قدرتی آفات میں بھی محفوظ رہے گا

    معروف ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کا نیا دفتر ایپل پارک کیمپس یوں تو جدید ٹیکنالوجی سے مزین فن تعمیر کا شاہکار ہے، تاہم اس کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ قدرتی آفات خاص طور پر زلزلے کے دوران مکمل محفوظ رہے گا۔

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں واقع ایپل کا یہ دفتر 5 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے، ایپل پارک کیمپس دراصل براہ راست زمین کی سطح پر تعمیر نہیں کیا گیا، یہ عظیم عمارت اسٹین لیس اسٹیل سے بنی 700 بڑی بڑی طشتریوں (گول سطح) پر قائم ہے۔

    زلزلہ آنے کی صورت میں یہ طشتریاں بلڈنگ کو 4 فٹ اوپر اٹھا دیں گی۔ ایپل کے چیف ڈیزائن افسر جان ایو کے مطابق زلزلے سے بچاؤ کے اقدامات اس عمارت کی تعمیر کا اہم حصے تھے۔

    جان ایو کے مطابق اس طرح کی عمارت بنانے کا خیال ایپل کے بانی اسٹیو جابز کے دل میں ہمشیہ سے موجود تھا۔ وہ جاپان میں تعمیرات میں استعمال کی جانے والی ’بیس آئسولیشن‘ کی تکنیک سے بے حد متاثر تھے جو اس وقت امریکا میں عام نہیں ہوئی تھی۔

    بیس آئسولیشن کی تکنیک میں عمارت اور اس کی بنیاد کے درمیان بھاری بھرکم سہارا فراہم کیا جاتا تھا جو زلزلے کے وقت عمارت کو عارضی طور پر اوپر کر کے زمین سے علیحدہ کردیتا تھا۔

    ایپل کی نئی عمارت میں بھی اس انداز تعمیر کی جدید شکل پیش کی گئی ہے۔

    اس دفتر کا رقبہ 175 ایکڑ ہے اور یہاں ایپل کے 12 ہزار ملازمین کام کرسکتے ہیں۔ گول دائرے کی شکل میں بنے اس دفتر میں متعدد عمارتیں اور پارک موجود ہیں۔

    دفتر میں تھیٹر بھی بنایا گیا ہے جو اسٹیو جابز کے نام سے منسوب ہے، تھیٹر کے ساتھ فٹنس سینٹر، پارک، اور ورزش کے لیے دوڑنے کے ٹریک بھی موجود ہیں۔

    عمارت کی چھت سولر پینلز سے ڈھکی ہوئی ہے جس سے عمارت اپنے استعمال کی بجلی پیدا کرنے میں خود کفیل ہے۔