Tag: plastic

  • عمران ہاشمی نے ایشوریہ کو ایسا کیا کہہ دیا کہ تنقید کی زد میں آگئے؟

    عمران ہاشمی نے ایشوریہ کو ایسا کیا کہہ دیا کہ تنقید کی زد میں آگئے؟

    بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار عمران ہاشمی پر ان دنوں شدید تنقید کی زد میں آگئے ہیں۔

    عمران ہاشمی کرن جوہر کے شو میں مہیش بھٹ کے ساتھ شریک ہوئے تھے، جہاں انہوں نے ایک متنازعہ تبصرہ کیا تھا۔ جس کے بعد اداکار تنقید کی زد میں آگئے۔

    بھارتی اداکار عمران ہاشمی نے کرن جوہر کے شو کے دوران بھارتی اداکارہ اور بچن خاندان کی بہو ایشوریہ رائے کو ’پلاسٹک‘ کہہ دیا تھا۔

    عمران ہاشمی سے ایک ایونٹ میں اس متنازعہ تبصرے پر معافی کا مطالبہ کیا گیا، جس پر اداکار کا کہنا تھا کہ وہ اس پر معذرت نہیں کریں گے کیوں کہ وہ ایک مذاق تھا۔

    دوسری جانب اداکار عمران ہاشمی نے انکشاف کیا ہے کہ ان کی اہلیہ پروین شاہانی نے انہیں علیحدگی کی دھمکی دے دی ہے۔

    بالی وڈ اسٹار نے بتایا کہ وہ مسلسل مجھے دھمکیاں دے رہی ہیں لیکن ابھی تک چھوڑا نہیں ہے، جو کچھ میں کھاتا ہوں وہ پروین کو پسند نہیں ہے لیکن یہ ڈائٹ میں نے پچھلے دو سال سے جاری رکھی ہے۔

    عمران ہاشمی نے بتایا کہ میں ڈائٹ میں چکن قیمہ، سلاد اور شکرقندی لے رہا ہوں، میرے ڈائٹ پلان کی وجہ سے اہلیہ کافی ناراض ہیں کیونکہ میرے لیے اپنا کھانا تبدیل نہیں کرنا چاہتیں۔

    ثانیہ مرزا کا نیا اسٹائل مداحوں کو بھا گیا

    انہوں نے کہا کہ میرا ڈائٹ پلان بورنگ ہے لیکن اس میں چکن قیمہ شامل ہے جو آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے۔

  • پلاسٹک ہماری زندگی اور ماحول کیلئے کتنی خطرناک ہے ؟

    پلاسٹک ہماری زندگی اور ماحول کیلئے کتنی خطرناک ہے ؟

    پلاسٹک کی آلودگی ماحول کے لئے ایک زہر قاتل ہے کیونکہ پلاسٹک کو گلنے میں برسوں لگتے ہیں اور اسی طرح پلاسٹک کا زیادہ تر فضلہ یا تو جلا دیا جاتا ہے یا لینڈ فلز میں بھیجا جاتا ہے، جس سے ہماری ہوا، زمین اور سمندر آلودہ ہو جاتے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے باخبر سویرا میں ماہر ماحولیات ڈاکٹر پرویز امیر نے بتایا کہ پلاسٹک کے استعمال کیخلاف مہم شروع کی جاتی ہے جو کچھ ہی عرصے میں ختم ہوجاتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پلاسٹک سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی سے شہریوں کی آگاہی کیلئے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کینسر بہت عام ہوچکا ہے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر نے کہا کہ پلاسٹک ہماری زندگی سے مکمل تو ختم نہیہں ہوسکتا لیکن حتی الامکان یہی کوشش کرنی چاہیے اس کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔

    علاوہ ازیں پراوگرام میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں پلاسٹک کی تباہ کاریوں سے متعلق چشم کشا حقائق بیان کیے گئے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دور حاضر میں پلاسٹک ہر جگہ اور ہر شعبے میں استعمال ہورہا ہے اس کی وجہ پلاسٹک کی کم قیمت، استحکام اور استعداد ہے، دنیا بھر میں سالانہ تقریباً 500 بلین پلاسٹک کے تھیلے استعمال ہوتے ہیں، اور صرف پاکستان میں سالانہ 60 ارب پلاسٹک بیگز استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ عالمی سطح پر ہر منٹ میں دس لاکھ سے زیادہ پلاسٹک کے تھیلے استعمال ہوتے ہیں۔

    کراچی میں یومیہ 2ہزار ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا ہوتا ہے، بار بار حکومتی اعلانات اور اقدامات کے باوجود دن بہ دن پلاسٹک کا کچرا بڑھ رہا ہے، یہ آلودگی نہ صرف ہماری زراعت تباہ کررہی ہے بلکہ نکاسی آب کے مظام کو بھی بری طرح ممتاثر کررہی ہے۔

    عالمی ماحولیاتی اداروں کے مطابق اگر اس کے استعمال کو نہ روکا گیا تو سال 2050 تک زمین کی تباہی کے ساتھ ساتھ سمندر میں مچھلیوں سے زیادہ تعداد پلاسٹک کی ہوجائے گی۔

  • ہر قسم کے پلاسٹک پر پابندی زیر غور ہے: شیری رحمٰن

    ہر قسم کے پلاسٹک پر پابندی زیر غور ہے: شیری رحمٰن

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ پلاسٹک بوتلیں اور ہر قسم کے پلاسٹک پر پابندی کا سوچ رہے ہیں۔ اگر پلاسٹک کے اوپر مکمل پابندی آگئی ہمارے لیے بڑی کامیابی ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ حکومت پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، پلاسٹک سے آلودگی سے متعلق آگاہی مہم ناگزیر ہے۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ دنیا میں صرف 9 فیصد پلاسٹک کو ری سائیکل کیا جاتا ہے، پلاسٹک کو ری سائیکل کر کے بھی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے، متعدد مقامی اشیا پلاسٹک کے متبادل کے طور پر استعمال ہوسکتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ شہریوں کو انفرادی طورپر پلاسٹک کا استعمال کم کرنا ہوگا، ہم پلاسٹک کی بوتلیں بار بار استعمال کرتے ہیں جو خطرے سے خالی نہیں، پلاسٹک کو ری سائیکل کرنے کے لیے پلانٹس بنانے کی ضرورت ہے۔

    شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کو ختم کرنے کے لیے اپنے گھروں سے شروعات کرنا پڑے گی، پلاسٹک بوتلیں اور ہر قسم کے پلاسٹک پر پابندی کا سوچ رہے ہیں۔ اگر پلاسٹک کے اوپر مکمل پابندی آگئی ہمارے لیے بڑی کامیابی ہوگی۔

    انہوں نے کہا کہ 10 سے 20 سالوں میں پلاسٹک کا استعمال تیزی سے بڑھے گا، اس کو روکا نہ گیا تو کچھ سالوں میں پلاسٹک کا ایک پہاڑ بن جائے گا۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہماری منسٹری پلاسٹک پر کام کر رہی ہے، ہم نے مارکیٹس میں بھی پلاسٹک بنانے والوں سے رابطہ کیا۔ پلاسٹک بنانے والوں نے وعدہ کیا ہے کہ ہم عمل کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بہت جلد پلاسٹک بیگز پر پابندی لگا دی جائے گی، دودھ، دہی اور دوسری اشیا کے لیے گھر سے بیگز لانا پڑیں گے۔

  • پاکستان میں پلاسٹک کے بہترین نعم البدل کا استعمال

    پاکستان میں پلاسٹک کے بہترین نعم البدل کا استعمال

    دنیا بھر میں پلاسٹک کی آلودگی ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے کیونکہ پلاسٹک نہ ختم ہونے والی شے ہے، اب دنیا بھر میں اس کے متبادل ذرائع بنانے پر کام کیا جارہا ہے۔

    پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بھی پلاسٹک کے متبادل آرپیٹ بنانے پر کام کیا جارہا ہے۔

    پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل راجہ جہانگیر انور نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فوڈ اتھارٹی کی جانب سے مختلف کمپنیوں کو متبادل پلاسٹک تیار کرنے کا اجازت نامہ دیا گیا ہے۔

    راجہ جہانگیر نے کہا کہ کھانے کی اشیا میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کو جسے فوڈ گریڈ پلاسٹک کہا جاتا ہے، ری سائیکل کر کے پلاسٹک کی آلودگی کو کم کیا جارہا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں ہر ایک منٹ میں 12 لاکھ پلاسٹک کی پانی بوتلیں استعمال کی جارہی ہیں، سنہ 1950 سے اب تک 1.9 بلین میٹرک ٹن پلاسٹک بنایا گیا ہے جو سب کا سب ابھی تک موجود ہے۔

    راجہ جہانگیر نے کہا کہ پلاسٹک کسی طرح تلف نہیں ہوتا اور یہ ہمیشہ رہنے والی چیز ہے لہٰذا پھینک دیا جانے والا پلاسٹک زمین اور سمندروں کو آلودہ کر رہا ہے اور ہمارے کھانے تک میں شامل ہو کر ہمیں بیمار کر رہا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں ری سائیکل کیے جانے والے پلاسٹک کا لیبارٹری ٹیسٹ بھی کیا جائے گا کہ آیا صنعتی پلاسٹک تو فوڈ گریڈ پلاسٹک بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جارہا۔

  • پلاسٹک کے کچرے سے نمٹنے کے لیے ایک اور کامیاب تحقیق

    پلاسٹک کے کچرے سے نمٹنے کے لیے ایک اور کامیاب تحقیق

    پلاسٹک کی آلودگی ایک بڑا مسئلہ بنتی جارہی ہے اور ماہرین اس سے نمٹنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے اس بیکٹیریا کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا جو سمندر پر تیرتے پلاسٹک پر ہوتا ہے۔

    امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں قائم نیشنل یونیورسٹی کے ماہرین نے سمندر میں تیرتے پلاسٹک کے ٹکڑوں پر موجود اینٹی بائیوٹک بنانے والے 5 بیکٹیریا کو علیحدہ کیا اور ان کی متعدد بیکٹریل اہداف کے خلاف آزمائش کی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ یہ اینٹی بائیوٹکس عام بیکٹیریا کے ساتھ اینٹی بیکٹیریا کی مزاحمت کرنے والے سپر بگ کے خلاف بھی مؤثر تھے، سپر بگ بیماریاں پھیلانے والے ان بیکٹیریا کو کہتے ہیں جو بہت کم ادویہ سے ختم ہوتے ہیں اور ان کی ادویات سے مزاحمت بڑھ کر جان لیوا ہوچکی ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق ہر سال 50 سے 1 کروڑ 30 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک کا کچرا سمندر میں شامل ہوتا ہے جس میں پلاسٹک کے بڑے بڑے ٹکڑوں سے لے کر مائیکرو پلاسٹکس تک شامل ہوتے ہیں۔

    حیاتیات اس پلاسٹک کو استعمال کرتے ہوئے اپنے وجود کو بڑھا سکتے ہیں اور اپنے لیے پورا ماحول تشکیل دے سکتے ہیں۔

    جہاں اس بات کے تحفظات ہیں کہ پلاسٹک کے اوپر اینٹی بائیوٹک مزاحم بیکٹیریا بن سکتے ہیں وہیں کچھ بیکٹیریا ایسے بھی ہیں جو نئی اینٹی بائیوٹکس بنانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

    یہ اینٹی بائیوٹکس مستقبل میں سپر بگ جیسے اینٹی بائیوٹک مزاحم بیکٹیریا کے خلاف استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

  • پلاسٹک کھانے والا کیڑا دریافت

    پلاسٹک کھانے والا کیڑا دریافت

    پلاسٹک کی آلودگی اس وقت دنیا بھر میں ایک بڑا مسئلہ ہے، ہماری زمین اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے ایسا کیڑا دریافت کیا ہے جو پلاسٹک کو کھا سکتا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق سائنس جریدے مائیکرو بیال جینو مکس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق یونیورسٹی آف کوئنز لینڈ کے ماہرین نے کیڑے کے لاروا کی ایک ایسی نوع دریافت کی ہے جو پلاسٹک کو رغبت سے کھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    سائنس دانوں نے اس لاروے کو زوفو باس موریو کا نام دیا ہے، عموماً اسے سپر ورمز کے نام سے جانا جاتا ہے، سپر ورمز کی بابت ریسرچرز کا کہنا ہے کہ اس کی مدد سے پلاسٹک کی ری سائیکلنگ میں انقلابی مدد مل سکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بھونرے کے لاروے میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی آنتوں میں موجود انزائم کی مدد سے پلاسٹک کو ہضم کر سکتا ہے، اور اس کی یہی خاصیت پلاسٹک کی ری سائیکلنگ میں نمایاں پیش رفت ثابت ہوگی۔

    تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر کرس رنکی کا کہنا ہے کہ سپر ورمز ری سائیکلنگ کے مختصر پلانٹ کی طرح ہے جو اپنے منہ میں پولیسٹرین (پلاسٹک کے بنیادی جز) کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے آنتوں میں موجود بیکٹریا کی خوراک بنا دیتا ہے۔

    اس تحقیق میں ریسرچرز نے ان سپر ورمز کو 3 گروپوں میں تقسیم کیا اور انہیں 3 ہفتے تک مختلف غذائیں دی، حیرت انگیز طور پر صرف پولیسٹرین کھانے والے سپر ورمز کے وزن میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    مزید تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ سپر ورمز کی آنتوں میں پولیسٹرین اور اسٹائرین کو تحلیل کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور یہ دونوں کمیکل فوڈ کنٹینرز، انسولیشن اور کاروں کے اسپیئر پارٹس کی تیاری میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

    ریسرچرز کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر پلاسٹک کو ری سائیکل کرنے کے لیے سپر ورمز کے بڑے فارم بطور ری سائیکلنگ پلانٹ لگانے ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ہم اس سارے مرحلے میں سب سے زیادہ مؤثر خامرے کی شناخت کر کے اسے بڑے پیمانے پر ری سائیکلنگ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، اس انزائم کی مدد سے پلاسٹک کو میکانکی طریقہ کار سے ٹکٹروں میں تقسیم کیا جا سکے گا۔

  • ہم نے ملک کو K2 کے برابر پلاسٹک کی آلودگی دے دی ہے: ملک امین اسلم

    ہم نے ملک کو K2 کے برابر پلاسٹک کی آلودگی دے دی ہے: ملک امین اسلم

    اسلام آباد: معاون خصوصی برائے کلائمٹ چینج و ماحولیات ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ ہم نے پاکستان کو کے 2 کے برابر پلاسٹک کی آلودگی دے دی ہے۔ ہمارا فلسفہ ہے بچوں کو درختوں سے پیار کرنا سکھانا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے کلائمٹ چینج و ماحولیات ملک امین اسلم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان کو کے 2 کے برابر پلاسٹک کی آلودگی دے دی ہے۔

    ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ کتاب کے ذریعے ہی بچوں کو سکھایا جا سکتا ہے، ہمارا فلسفہ ہے بچوں کو درختوں سے پیار کرنا سکھانا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل وزیر اعظم نے شجر کاری مہم کی تقریب میں کہا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی اللہ کی نعمتوں کا صحیح استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ہے، اسپرنگ پلانٹیشن کے تحت 54 کروڑ پودے لگائے جائیں گے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے انگریز نے جو جنگلات لگائے ہم نے اسے بھی تباہ کردیا، شجر کاری مہم اپنے ملک اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کی حفاظت ہے۔

    وزیر اعظم نے مزید کہا تھا کہ پاکستان کی موحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کی کوشش کو دنیا نے سراہا، ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ مستقبل دینا ہے۔

  • اب پھلوں اور سبزیوں کی نئے طریقے سے پیکنگ کی جائے گی

    اب پھلوں اور سبزیوں کی نئے طریقے سے پیکنگ کی جائے گی

    پیرس : ماحول کو آلودگی اور کثافت سے پاک کرنے کیلیے فرانس کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ روز مرہ کے امور میں پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال ختم کیا جائے گا۔

    اس حوالے سے فرانس کی وزارت ماحولیات نے کہا ہے کہ فرانس پلاسٹک کے فضلے کو کم کرنے کے لیے جنوری 2022 سے تقریباً تمام پھلوں اور سبزیوں کے لیے پلاسٹک کی پیکیجنگ پر پابندی عائد کردے گا۔

    امریکی نیوز چینل سی این این کے مطابق وزارت ماحولیات نے پیر کو حکموت کے اس فیصلے سے آگاہ کیا ہے۔ فروری 2020 کے قانون کو نافذ کرتے ہوئے فرانس کی حکومت نے تقریباً 30 پھلوں اور سبزیوں کی فہرست شائع کی جنہیں یکم جنوری سے پلاسٹک کی پیکنگ کے بغیر فروخت کرنا تھا۔

    وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں ایک بار استعمال کے قابل پلاسٹک کی ایک بھاری مقدار استعمال کرتے ہیں۔

    ’سرکلر اکانومی قانون‘ کا مقصد ’تھرو اوے پلاسٹک‘ کے استعمال کو کم کرنا اور اس کے متبادل کو دیگر مواد یا دوبارہ استعمال کے قابل اور ری سائیکل پیکیجنگ کے ذریعے بڑھانا ہے۔

    اندازہ لگایا گیا ہے کہ فرانس میں37 فیصد پھل اور سبزیاں پیکیجنگ کے ساتھ فروخت ہوتی ہیں اور توقع ہے کہ حکومت کے اس اقدام سے ہر سال ایک ارب سے زائد بیکار پلاسٹک کی پیکیجنگ کو روکا جا سکے گا۔

    فرانس میں پھل بیچنے والی فیڈریشن کے صدر فرانکوئس روچ نے کہا کہ اتنے کم وقت میں گتے(کی پیکیجنگ) کی طرف منتقل ہونا مشکل ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ ’اس کے علاوہ اس نرم پیداوار کو بیچنا پیچیدہ عمل ہے کیونکہ بہت سے گاہک پھلوں کو چھونے لگتے ہیں اور لوگ نہیں چاہتے کہ ان کے پھل کو دوسرے گاہکوں کے ہاتھ لگیں۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک پیکیجنگ پر پابندی پلاسٹک کو ختم کرنے کے طویل المدتی حکومتی پروگرام کا حصہ ہے۔ 2021سے فرانس نے پلاسٹک کے سٹرا، کپ اور کٹلری کے ساتھ ساتھ اسٹائروفوم ٹیک وے باکس پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔

    دوسری جانب کٹے ہوئے پھل، محدود تعداد میں نازک پھل اور سبزیاں اب بھی پلاسٹک کی پیکیجنگ کے ساتھ فروخت کی جا سکتی ہیں لیکن جون 2026 کے آخر تک اسے مرحلہ وار ختم کر دیا جائے گا۔

    چیری ٹماٹر، ہری پھلیاں اور آڑو کے لیے جون 2023 کے آخر تک پلاسٹک کی پیکیجنگ پر پابندی عائد کی جائے گی اور 2024 کے آخر تک اینڈیوز، سفیرگس، مشروم، کچھ قسم کے سلاد اور جڑی بوٹیوں کے ساتھ ساتھ چیری کی پلاسٹک پیکجنگ پر بھی پابندی عائد کی جائے گی۔

    جون 2026 کے آخر میں رسبیری، سٹرابیری اور دیگر نازک بیریوں کو بغیر پلاسٹک کے فروخت کیا جائے گا۔ حکومت کے منصوبے کے مطابق 2022 سے عوامی مقامات پر پلاسٹک کی بوتلوں کے استعمال کو کم کرنے کے لیے پانی کے چشمے فراہم کرنا ہوں گے۔

    پریس اور تشہیر کی اشاعتوں کو پلاسٹک ریپنگ کے بغیر بھیجنا ہو گا جبکہ فاسٹ فوڈ ریستوران گاہکوں کو اب پلاسٹک کے مفت کھلونے پیش نہیں کر سکتے۔ جنوری 2023 سے فرانس فاسٹ فوڈ ریستوران میں ڈسپوزیبل کراکری پر بھی پابندی لگائے گا جو وہاں ایک بار استعمال کے لیے دی جاتی ہے۔

  • غذا کو خراب ہونے سے محفوظ رکھنے والا پلاسٹک تیار

    غذا کو خراب ہونے سے محفوظ رکھنے والا پلاسٹک تیار

    ماہرین نے ایسا پلاسٹک بنایا ہے جو طویل عرصے تک غذا کو جرثوموں سے بچا کر انہیں خراب ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، یہ پلاسٹک آم کے پتوں سے بنایا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق اسپین اور پرتگال کے سائنسدانوں نے آم کے پتے استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا پلاسٹک تیار کرلیا ہے جو غذا کو الٹرا وائلٹ شعاعوں اور جراثیم سے بچا کر لمبے عرصے تک محفوظ رکھتا ہے۔ یہ پلاسٹک 250 ڈگری سینٹی گریڈ جتنی گرمی بھی برداشت کرسکتا ہے۔

    آن لائن ریسرچ جرنل میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اس منفرد پلاسٹک میں آم کے پتوں سے حاصل شدہ اجزا کے علاوہ، کاغذ کی تیاری سے بچ رہنے والے مادے بھی شامل ہیں جنہیں نینو سیلولوز کہا جاتا ہے۔

    ان دونوں اجزا کے ملاپ سے تیار ہونے والا پلاسٹک بائیو ایکٹو ہے یعنی زندگی سے متعلق کچھ مخصوص کیمیکل ری ایکشنز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    جب کھانے پینے کی کسی چیز مثلاً پھل، سبزی، گوشت یا تیار کھانے کو اس پلاسٹک میں لپیٹا جاتا ہے تو اپنی ان ہی بائیو ایکٹو خصوصیات کی بدولت یہ غذا پر حملہ آور جرثوموں کو ناکارہ بنانے کے ساتھ ساتھ نقصان دہ الٹرا وائلٹ شعاعوں کو بھی اپنے اندر سے گزرنے نہیں دیتا۔

    ابتدائی تجربات میں اس پلاسٹک کو زہر خورانی (فوڈ پوائزننگ) کی وجہ بننے والے دو اہم جرثوموں سے غذائی تحفظ کے لیے کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے۔

    اسے تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پلاسٹک کے استعمال سے غذا کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے کیمیائی مادوں کی ضرورت بھی نہیں رہے گی جو انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

  • ختم ہوجانے والا پلاسٹک تیار

    ختم ہوجانے والا پلاسٹک تیار

    پلاسٹک ہماری زمین کو آلودہ کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے جس کا سبب اس کا تلف یا ضائع نہ ہونا ہے، اب ماہرین نے ایسی پلاسٹک تیار کرلی ہے جو چند روز میں گھل کر ختم ہوسکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے طویل تحقیق و تجربے کے بعد بالآخر ایسے پلاسٹک کی تیاری میں کامیابی حاصل کرلی ہے جو صرف گرمی اور پانی کی موجودگی میں چند ہفتوں کے دوران ختم ہو جاتا ہے۔

    سائنسدانوں کا تیار کردہ پلاسٹک اس لیے کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے ناکارہ اور خراب ہوجانے والے پلاسٹک کے اندر ہی وہ جراثیم داخل کیے ہیں جو استعمال کے بعد اسے کھا کر ختم کردیتے ہیں۔

    سائنسدانوں کے مطابق دنیا میں اب تک استعمال ہونے والے روایتی پلاسٹک کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا تھا کہ اس میں موجود مضبوط ریشوں کے باعث باہر سے جراثیم حملہ کر کے ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے جس کی وجہ سے ایک دفعہ بننے والا پلاسٹک ہمیشہ کے لیے اپنی جگہ برقرار رہتا تھا اور ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا سبب بنتا تھا۔

    سائنسدانوں کے مطابق جس طرح دیگر چیزوں کو مٹی میں ملنے کے بعد جراثیم کھا کر ختم کردیتے ہیں بالکل اسی طرح تیار کیے جانے والے پلاسٹک کو صرف گرمی اور پانی کی موجودگی چند ہفتوں کے اندر ختم کردے گی۔

    اس ضمن میں کیے جانے والے تجربے میں یہ بات ثابت ہوئی کہ تیار کردہ پلاسٹک کا ٹکڑا 40 ڈگری سینٹی گریڈ پر پانی میں دو دن کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔

    ماہرین نے تیار کردہ پلاسٹک کے متعلق دعویٰ کیا ہے کہ اس پلاسٹک کو جرثومے بالکل اسی طرح سے کھا جائیں گے جس طرح وہ کھاد میں پائے جانے والے جرثوموں کو کھا کر ختم کردیتے ہیں۔

    سائنسدانوں کی ساری محنت کا واحد مقصد استعمال شدہ پلاسٹک سے پیدا ہونے والے مسئلے کا مستقل اور صاف ستھرا حل ہے تاکہ ماحولیاتی آلودگی پیدا نہ ہو۔

    فی زمانہ استعمال ہونے والا پلاسٹک عام استعمال کے لیے اچھا ہے اور ان کو اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ وہ ٹوٹ نہ جائیں لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بعد از استعمال انہیں محفوظ طریقے سے ضائع کرنا ایک بہت بڑ ا مسئلہ ہوتا ہے جس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہوا ہے۔

    ماہرین نے اسی مسئلے کا حل یہ نکالا ہے کہ انہوں نے پلاسٹک کی تیاری کے دوران ہی جرثوموں کو اندر داخل کردیا ہے جبکہ روایتی طور پر تیار کیے جانے والے پلاسٹک میں ایسا ممکن نہیں تھا اور باہر سے جرثوموں کا اندر داخل ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔