Tag: Plastic Bags

  • وزارت کلائمٹ چینج کا پلاسٹک کی تھیلیوں پر ٹیکس لگانے پر غور

    وزارت کلائمٹ چینج کا پلاسٹک کی تھیلیوں پر ٹیکس لگانے پر غور

    اسلام آباد: وزیر مملکت برائے موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) زرتاج گل کا کہنا ہے کہ وزارت کلائمٹ چینج نے پلاسٹک کی تھیلیوں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے مختلف تجاویز پر غور کیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر مملکت زرتاج گل کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی تھیلیوں پر جلد ٹیکس عائد کردیا جائے گا اور اس سلسلے میں ایک تھیلی پر 1 سے 2 روپے کا ٹیکس زیر غور ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں صوبوں سے رابطہ کیا جارہا ہے اور مشاورت کے بعد ٹیکس کو ملک بھر میں لاگو کردیا جائے گا۔

    زرتاج گل کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کی تھیلیاں نہ صرف انسانی صحت کے لیے مضر ہیں بلکہ زمینی و آبی حیات کے لیے بھی خطرناک ہیں، ہم اس سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کی تھیلیوں کی جگہ تلف ہوجانے والے (بائیو ڈی گریڈ ایبل) یا کاغذ کے تھیلوں کو فروغ دیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ ملک میں پلاسٹک کی آلودگی کے مسئلے پر تشویش تو ظاہر کی جارہی ہے تاہم ابھی تک اس سے چھٹکارے کے لیے کوئی حتمی قانون نہیں بنایا جاسکا۔

    مختلف صوبوں میں پلاسٹک پر پابندی کی تجاویز پیش کی گئیں تاہم تاحال ان پر حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • پانی میں گُھل جانے والا ماحول دوست پلاسٹک کا تھیلا

    پانی میں گُھل جانے والا ماحول دوست پلاسٹک کا تھیلا

    بیجنگ: چین کے ماہرین نے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ایسا تھیلا تیار کرلیا جو پانی میں آسانی کے ساتھ گھل جاتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی کے باعث تیزی سے موسمیاتی تغیراتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جنہیں ماہرین کراہ ارض کے لیے انتہائی خطرناک قرار دے چکے ہیں۔

    ماہرین نے جہاں آلودگی کے اسباب کو تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعتوں کو قرار دیا وہی اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ ہمارے زیر استعمال پلاسٹک کے بیگز بھی معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔

    چین کی ایک کمپنی نے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے انسانی ضرورت کے لیے ایسا پلاسٹک کا ’بیگ‘ تیار کیا ہے جو استعمال کے بعد پانی میں حل ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ماحول دوست پلاسٹک بیگ تیار‘ آپ کھا بھی سکتے ہیں

    رابرٹو ایسٹی ٹی جو اس کمپنی کے مالک ہیں انہوں نے یہ خیال ماحولیاتی آلودگی پر نظر رکھنے والے ماہرین کے سامنے پیش کیا تھا جسے سب نے سراہا تھا مگر اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا انہیں مشکل نظر آرہا تھا۔

    رابرٹو نے ایک سال کی کاوش کے بعد ایک پلاسٹک کا چھوٹا بیگ تیار کیا جسے استعمال کر کے اگر پانی میں پھیلا جائے تو آسانی کے ساتھ اُسی میں گھل جائے گا۔

    واضح رہے کہ ہمارے زیراستعمال پلاسٹک کے بیگز سیکڑوں سال تک تلف نہیں ہوتے اور اگر یہ سمندر میں چلے جائیں تو آبی مخلوق کے لیے بھی موت کا باعث بنتے ہیں۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم نے جو تھیلے تیار کیے اُس کے لیے کسی بڑے سرمائے یا مشینری کی ضرورت نہیں، آسانی کے ساتھ ہم انہیں بنا کر آلودگی پر قابو پاسکتے ہیں‘۔

    یہ بھی پڑھیں:  پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ایک کھرب سے زائد پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں جو کروڑوں ٹن کچرے کی شکل میں ہماری زمین کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہیں۔

    پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

  • کینیا میں پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد

    کینیا میں پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد

    نیروبی: افریقی ملک کینیا میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا اور جرمانے کا سامنا کرنا ہوگا۔

    یہ فیصلہ اس عدالتی درخواست کے بعد سامنے آیا ہے جس میں پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ تاجروں نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی کہ پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے سے ان کے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے۔

    تاہم عدالت نے درخواست کو رد کرتے ہوئے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا اصولی فیصلہ جاری کردیا۔

    گو کہ اس سے قبل کئی ممالک پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کر چکے ہیں تاہم کینیا اس حوالے سے قابل تعریف ہے کہ یہاں خلاف ورزی کی صورت میں 32 ہزار یورو کا جرمانہ جبکہ 4 سال قید کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات کا کہنا ہے کہ کینیا کی سپر مارکیٹس میں سالانہ 10 کروڑ تھیلیاں استعمال ہوتی تھیں۔ اب اقوام متحدہ نے کینیا کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔

    یاد رہے کہ کینیا کی حکومت 6 ماہ قبل اس پابندی کا اعلان کر چکی تھی اور پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ افراد اور استعمال کندگان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ماحول دوست بیگز کا استعمال شروع کردیں۔

    اس قانون کے مکمل طور پر اطلاق کے روز متعدد مقامات پر اس وقت شدید افراتفری کی صورتحال سامنے آئی جب دکانداروں نے اپنے گاہکوں کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سامان دینے سے انکار کردیا اور ان سے کہا کہ وہ اپنا سامان ہاتھوں میں اٹھا کر لے جائیں۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔