Tag: plastic

  • ‘پلاسٹک’ کی برف باری…….دیکھنے والے حیران!

    ‘پلاسٹک’ کی برف باری…….دیکھنے والے حیران!

    ماسکو: روس کے برفانی خطے سائبیریا میں ہونے والی برفباری نے ماہرین کو پہلے حیران اور پھر پریشان کردیا، ماہرین نے برف میں پلاسٹک کے ننھے ذرات دریافت کیے۔

    روسی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سائبیریا میں ہونے والی برفباری پلاسٹک کے ذرات سے آلودہ ہے، ذرات برف کے ساتھ زمین پر گرے اور برف پگھلنے کے بعد زمین پر پھیل گئے۔

    ٹمسک اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے سائبیریا کے 20 مختلف علاقوں سے برف کے نمونے لیے اور ان نمونوں کے جائزے و تحقیق کے بعد تصدیق ہوئی کہ ہوا میں موجود پلاسٹک کے ذرات برف میں شامل ہو کر زمین پر گرے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پلاسٹک صرف دریاؤں اور سمندروں میں ہی نہیں بلکہ مٹی حتیٰ کہ فضا میں بھی پھیل چکا ہے۔

    مائیکرو پلاسٹک دراصل پلاسٹک کے نہایت ننھے منے ذرات ہوتے ہیں۔ یہ پلاسٹک کی مختلف اشیا ٹوٹنے کے بعد وجود میں آتے ہیں اور مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔

    چونکہ پلاسٹک کا تلف ہونا یا زمین میں گھل جانا ناممکن ہے اور ان ذرات کو دیکھ پانا مشکل بھی ہے تو یہ ہر شے میں شامل ہو کر ہماری صحت اور ماحول کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    'پلاسٹک' کی برف باری.......دیکھنے والے حیران!

    یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔

    زراعتی مٹی میں شامل پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ سمندروں میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے۔

    بعد ازاں جب یہ مچھلیاں پک کر ہماری پلیٹ تک پہنچتی ہیں تو ان میں پلاسٹک کے بے شمار اجزا موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    سائبیریا میں پلاسٹک سے اٹی برفباری پر مزید تحقیق کا کام کیا جارہا ہے اور اس کے عوامل اور ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

  • پلاسٹک کے برتن میں کھانا کھانے کے خطرناک نقصانات

    پلاسٹک کے برتن میں کھانا کھانے کے خطرناک نقصانات

    کراچی: پلاسٹک کرہ ارض کے لیے خطرناک ترین شے ہے اور اس کے برتن انسانی جسم کے لیے سخت نقصان دہ ہیں، پلاسٹک کے برتنوں میں کھانا کھانے مطلب ہے کہ پلاسٹک کے ذرات کھانے میں شامل ہوجاتے ہیں جو ہمارے جسم میں پہنچ جاتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کنزیومر سولیڈیرٹی سسٹم کے صدر محسن بھٹی نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں شرکت کی اور پلاسٹک کے برتنوں کی تباہ کاریوں میں بتایا۔

    محسن بھٹی کا کہنا تھا کہ اسپتال کا فضلہ جو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے، ری سائیکل کیا جاتا ہے اور یہ انتہائی خوفناک بات ہے۔ اسپتال میں استعمال ہونے والی ڈرپس، یورین بیگز، بلڈ بیگز اور دیگر سامان جسے جلا کر راکھ کردینا چاہیئے دوبارہ استعمال کے قابل بنائے جاتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہی صورتحال فصلوں میں استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات کی بوتلوں کے ساتھ بھی ہے۔

    محسن بھٹی کے مطابق پلاسٹک کے برتنوں کا استعمال نہایت خطرناک ہے کیونکہ ہمیں نہیں علم کہ وہ کس پلاسٹک سے بنایا گیا ہے۔ ان برتنوں کو چیک کرنے کے لیے نہ تو کوئی ادارہ ہے، نہ ہی ان کے بنانے کے لیے کوئی اسٹینڈرڈز مقرر کیے گئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے گھروں میں پلاسٹک کی بوتلوں، ڈبوں اور کنٹینرز کا استعمال عام بات ہے۔ ان برتنوں میں نہ صرف گرم کھانا ڈالا جاتا ہے بلکہ اسے مائیکرو ویو اوون میں بھی گرم کیا جاتا ہے۔

    گرم کرنے سے پلاسٹک کے اجزا کھانے میں شامل ہوجاتے ہیں جو ہمارے جسم میں چلے جاتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی سلو پوائزننگ ہے جو کینسر سمیت دیگر بیماریوں کی شکل میں اپنا اثر دکھا سکتی ہے۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ہر بالغ شخص سالانہ پلاسٹک کے 50 ہزار ذرات نگل رہا ہے، پلاسٹک کرہ ارض کو کچرے کے ڈھیر میں بدلنے کے بعد اب ہمارے جسم تک راستہ بھی بنا چکا ہے۔

  • 1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    اٹلی کے ایک برینڈ نے دنیا کے مہنگے ترین ہینڈ بیگ کی رونمائی کردی، اس ہینڈ بیگ کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی 1 ارب پاکستانی روپے سے زائد ہے۔

    اطالوی برینڈ بورینی میلانیز نے دنیا کے مہنگے ترین پرس کی رونمائی کی ہے، قیمتی ہیرے جواہرات جڑے یہ ہینڈ بیگز صرف 3 بنائے گئے ہیں اور ہر بیگ کی تیاری میں 1 ہزار گھنٹے صرف ہوئے ہیں۔

    اس بیش قیمت ہینڈ بیگ کو بنانے کا ایک مقصد ہے، سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اس بیگ کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے بورینی میلانیز نے لکھا کہ یہ دنیا کا مہنگا ترین بیگ ہے اور اسے بنانے کا مقصد سمندروں کی حفاظت کی طرف توجہ دلانا ہے جو پلاسٹک کے کچرے کی وجہ سے سخت خطرات کا شکار ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by BOARINI MILANESI (@boarinimilanesi)

    میلانیز کی جانب سے لکھا گیا کہ ان بیگز کی آمدنی کا ایک حصہ سمندروں کی صفائی کے لیے عطیہ کیا جائے گا۔

    یہ بیش قیمت پرس مگر مچھ کی کھال سے بنایا گیا ہے اور اس کا رنگ سمندر سے ملتا جلتا چمکدار نیلگوں ہے، اس پر موجود تتلیاں وائٹ گولڈ سے بنائی گئی ہیں جبکہ اس کا کلپ ہیرے سے بنایا گیا ہے۔

    تتلیوں کے اندر بھی ہیرے اور قیمتی نیلم جڑے ہیں۔

    بیگ کی ڈیزائنر کیرولینا بورینی کہتی ہیں کہ اس کا سبز، نیلا اور سفید رنگ ان سمندروں کی طرف اشارہ ہے جو آلودگی سے قبل صاف شفاف تھے۔

    اس مہنگے ترین پرس کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی پاکستانی 1 ارب 14 کروڑ 45 لاکھ 71 ہزار 962 روپے ہے۔

    یاد رہے کہ ہمارے سمندر اس وقت پلاسٹک کے کچرے کا گڑھ بنتے جارہے ہیں، نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں مچھلیوں اور دیگر آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

  • سمندروں کی صفائی کرنے والا منفرد آلہ تیار

    سمندروں کی صفائی کرنے والا منفرد آلہ تیار

    آٹو موبائل کمپنی سوزوکی نے سمندری آلودگی میں کمی کے لیے ایک ایسا آلہ تیار کیا ہے جو سمندر سے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے صاف کرسکے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان کی سوزوکی موٹرز نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ایک آلہ تیار کیا ہے جو کشتیوں کے باہر نصب موٹر کو مائیکرو پلاسٹک جمع کرنے کے قابل بناتا ہے۔

    مائیکرو پلاسٹک، پلاسٹک کے ننھے ننھے ٹکڑے ہوتے ہیں، چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں اور دریاؤں میں شامل ہو جاتے ہیں جہاں سے یہ سمندری حیات کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔

    سوزوکی کمپنی پلاسٹک کے کوڑے سے ہونے والی آبی آلودگی کے مسئلے کے حل کے لیے کئی سال سے تحقیق کر رہی تھی۔

    موٹر گاڑیاں بنانے والی اس کمپنی کے مطابق اس نے کشتیوں اور بحری جہازوں کے باہر لگی ہوئی ان موٹروں پر توجہ مرکوز کی جو انجن کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ٹنوں کے حساب سے پانی پمپ کرتی ہیں۔

    سوزوکی کا بنایا جانے والا یہ نیا آلہ ان پمپس سے خارج ہونے والے پانی کو فلٹر کرے گا اور پانی میں موجود کچرے کو جمع کرے گا۔ کمپنی کے مطابق، محض کشتی چلانے سے ارد گرد پانی کی سطح پر موجود مائیکرو پلاسٹک جمع کیا جا سکے گا۔

    منگل کے روز سوزوکی کے عملے نے شزواوکا پریفیکچر میں واقع جھیل ہامانا میں نئے آلے کی آزمائش کی۔ آلے نے مائیکرو پلاسٹک باور کیے جانے والے اجزا کے علاوہ کائی اور ریت بھی جمع کی۔

    سوزوکی کمپنی، اس نئے آلے کو اگلے سال کے اندر اندر فروخت کے لیے پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

  • سعودی عرب: پلاسٹک بیگز کے استعمال سے متعلق اہم ہدایات جاری

    سعودی عرب: پلاسٹک بیگز کے استعمال سے متعلق اہم ہدایات جاری

    ریاض: سعودی عرب میں دکانداروں کو پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم کر کے ماحول دوست بیگز استعمال کرنے کا پابند بنا دیا گیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی مجلس شوریٰ نے دکانداروں کو ماحول دوست بیگز استعمال کرنے کا پابند بنا دیا ہے، وزارت بلدیات و دیہی امور سے کہا گیا ہے کہ وہ متعلقہ اداروں سے رابطہ کر کے اس فیصلے پر عمل درآمد کروائے۔

    اجلاس میں ماحول دوست شاپنگ بیگز استعمال کرنے کی سفارش شوریٰ کی خواتین ارکان نے پیش کی تھی، شوریٰ نے یہ سفارش 88 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کرلی۔

    رکن شوریٰ معینا نے ماحول دوست بیگز کے استعمال کی پابندی کے حق میں کہا کہ وزارت بلدیات و دیہی امور نے اس سے قبل یہ پابندی لگائی تھی کہ گرم مشروبات اور گرم کھانوں کے لیے پلاسٹک استعمال نہ کیا جائے۔ کھانے پینے کی اشیا عام تھیلیوں میں فراہم کرنے کی ممانعت کردی گئی تھی۔

    وزارت نے اس مسئلے کے دیگر پہلوؤں کو پابندی میں شامل نہیں کیا تھا جس سے مشکلات پیش آرہی ہیں۔

    مثال کے طور پر دکانداروں کے یہاں پلاسٹک کی تھیلیوں کا بڑا ذخیرہ جمع تھا، اسے ختم نہیں کروایا گیا۔ دکاندار مختلف اشیا عام پلاسٹک بیگز میں صارفین کو فراہم کردیتے ہیں اور یہ سڑکوں پر پڑے نظر آتے ہیں۔

    ارکان کا کہنا تھا کہ سمندر اور صحرا میں یہ پلاسٹک بیگز پرندوں، مچھلیوں اور جانوروں کی غذا بن رہے ہیں۔ بالآخر انسان ان بیگز کو کسی اور شکل میں غذا کے طور پر استعمال کرلیتے ہیں۔

    اجلاس میں کہا گیا کہ ایک تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں 50 سے 500 مائیکرو میٹر تک پلاسٹک کے عناصر پائے جاتے ہیں، اس کا نوٹس لینا ہوگا۔ مجلس شوریٰ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے نگرانی کرے۔

  • لاہور ہائیکورٹ: پلاسٹک بیگز استعمال کرنے والے اسٹورز بند کرنے کا حکم

    لاہور ہائیکورٹ: پلاسٹک بیگز استعمال کرنے والے اسٹورز بند کرنے کا حکم

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہائیکورٹ نے پلاسٹک بیگز استعمال کرنے والے اسٹورز کو سیل کرنے کا حکم دے دیا، پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی کی فروخت پر کمپنیوں کو بھی نوٹس جاری کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں ڈیپارٹمنٹل اسٹورز پر پلاسٹک بیگز کے استعمال کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس شاہد کریم نے ابوذر سلمان خان نیازی کی درخواست پر سماعت کی۔

    سماعت میں پلاسٹک بیگز پر پابندی کے حوالے سے پنجاب حکومت کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔

    درخواست گزار نے کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز شاپنگ بیگز استعمال کر رہے ہیں، صارفین واویلا کرتے ہیں کہ شاپنگ بیگ کے بغیر چیزیں کیسے لے کر جائیں۔

    عدالت نے پلاسٹک بیگز استعمال کرنے والے اسٹورز کو سیل کرنے کا حکم دے دیا، پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی کی فروخت پر کمپنیوں کو بھی نوٹس جاری کردیا گیا۔

    عدالت نے مشہور بیکریوں اور اسٹورز کو بھی سیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بیکری مالکان اگر پلاسٹک بیگز پر بیان حلفی دیں تو انہیں 7 روز کا وقت دیا جائے۔

    جسٹس شاہد کریم کا کہنا تھا کہ ماحول کا خیال نہ رکھنے والوں کو کاروبار سے نکال دیا جائے، دنیا بھر میں پلاسٹک بوتل میں پانی بیچنا ترک کیا جا چکا ہے۔ پوری دنیا میں اب پانی شیشے کی بوتلوں میں بیچا جا رہا ہے، پلاسٹک بوتلوں میں پانی بیچنے والے یونٹس بڑے مجرم ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اگلے مرحلے میں ریسٹورنٹس اور بیکریوں کو بھی قانون کے دائر میں لایا جائے گا، عدالت نے ماحول دشمن اشیا کا خاتمہ کروانا ہے، جب تک ہم خود اپنا رویہ تبدیل نہیں کریں گے تب تک کچھ نہیں ہوگا۔

    عدالت نے کیس کی مزید سماعت 6 مارچ تک ملتوی کر دی۔

  • ہم اپنی زندگی میں کتنا پلاسٹک کھاتے ہیں؟

    ہم اپنی زندگی میں کتنا پلاسٹک کھاتے ہیں؟

    پلاسٹک ہماری کرہ ارض کا بہت بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور یوں لگتا ہے بہت جلد ہماری زمین پلاسٹک کی ایک دبیز تہہ سے ڈھک جائے گی۔

    پلاسٹک کی موجودگی سمندر کی گہری تہوں سے لے کر برفانی علاقوں میں برف کی موٹی تہہ تک کے نیچے پائی گئی اور یہ وہ مقامات تھے جہاں بہت کم انسان پہنچ پائے ہیں۔

    چونکہ پلاسٹک زمین میں تلف نہیں ہوتا چنانچہ غیر ضروری سمجھ کر پھینکا جانے والا پلاسٹک ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے اور اس کے بعد یہ دریاؤں، ندی نالوں حتی کہ زمین کی مٹی میں بھی شامل ہوجاتا ہے۔

    پلاسٹک کے ان ننھے ٹکڑوں کو مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے جن کا اوسط وزن 5 ملی میٹر سے کم ہوتا ہے۔ یہ پلاسٹک ہمارے جسم کے اندر بھی جارہا ہے۔

    جی ہاں، ہم سانس لینے، کھانے اور پینے کے ساتھ پلاسٹک کے ان ننھے ٹکڑوں کو بھی اپنے جسم کے اندر لے کر جارہے ہیں اور اگر جانچ پڑتال کی جائے تو ہمارے جسم کے اندر اچھا خاصا پلاسٹک مل سکتا ہے۔

    عالمی ادارہ ماحولیات ڈبلیو ڈبلیو ایف نے کچھ عرصہ قبل ایک تحقیق میں لوگوں کو آگاہ کیا تھا کہ ان کی غذا میں پلاسٹک کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے اور وہ تقریباً ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ جتنا پلاسٹک کھا رہے ہیں۔

    آئیں دیکھتے ہیں ہم اپنی پوری زندگی میں کتنا پلاسٹک کھاتے ہیں؟

    ایک ہفتہ = 5 گرام

    ہم ہر ہفتے 5 گرام پلاسٹک کو اپنے جسم کا حصہ بناتے ہیں۔ یہ مقدار ایک کریڈٹ کارڈ جتنی ہے گویا ایک ہفتے میں ہم ایک سوپ کا چمچ بھر کر پلاسٹک کے ٹکڑے کھاتے ہیں۔

    ایک مہینہ = 21 گرام

    ایک بڑا پلاسٹک سے نصف بھرا ہوا پیالہ

    6 ماہ = 125 گرام

    پلاسٹک سے بھرا ایک بڑا پیالہ

    ایک سال = 250 گرام

    پلاسٹک سے بھری ایک پلیٹ

    10 سال = ڈھائی کلو گرام

    یہ پلاسٹک کی اتنی مقدار ہے گویا ہم پانی میں ڈوبنے سے بچانے والی ٹیوب اپنے جسم میں اتار رہے ہیں۔

    پوری زندگی = 20 کلو گرام

    ایک 79 سالہ شخص اپنی زندگی میں اوسطاً اتنا پلاسٹک کھاتا ہے جومندرجہ بالا 2 پلاسٹک بنز کے برابر ہوتا ہے۔

    یہ پلاسٹک کہاں سے آرہا ہے؟

    ایک تحقیق کے مطابق اس وقت ہماری زمین پر استعمال ہونے والے پلاسٹک میں سے 80 لاکھ ٹن پلاسٹک سمندروں میں جارہا ہے۔

    ان میں پلاسٹک کے نہایت ننھے منے ذرات یعنی مائیکرو پلاسٹک بھی ہوتے ہیں۔ یہ مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔

    زراعتی مٹی میں شامل پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ سمندروں میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے۔

    بعد ازاں جب یہ مچھلیاں پک کر ہماری پلیٹ تک پہنچتی ہیں تو ان میں پلاسٹک کے بے شمار اجزا موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

  • پلاسٹک بیگز پر پابندی کے لیے سندھ حکومت پر امید ہے: مرتضیٰ وہاب

    پلاسٹک بیگز پر پابندی کے لیے سندھ حکومت پر امید ہے: مرتضیٰ وہاب

    کراچی: مشیر سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ پلاسٹک بیگز پر پابندی کے لیے سندھ حکومت پر امید ہے، امید ہے دکاندار پابندی پر عملدر آمد کے لیے کردار ادا کرتے رہیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق مشیر سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ 9 اگست سے پلاسٹک بیگز پر پابندی کے لیے بات چیت جاری تھی، کل سے پلاسٹک بیگز پر باضابطہ طور پر پابندی لگائی تھی۔ پلاسٹک بیگز پر پابندی کے لیے سندھ حکومت پر امید ہے۔

    مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ پلاسٹک بیگز بند کرنے پر دکانداروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، امید ہے دکاندار پابندی پر عملدر آمد کے لیے کردار ادا کرتے رہیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ایف بی آر ٹیکس کلیکشن میں ناکام ہوگئی ہے، جب اوگرا قیمتیں بڑھانے کا کہتی ہے تو بڑھا دیتے ہیں، جب اوگرا قیمتیں کم کرنے کی سفارش کر رہی ہے تو کیوں نہیں کی، مطالبہ ہے اوگرا کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے۔

    مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے بجٹ کا 85 سے 90 فیصد حصہ وفاق سے آتا ہے، وفاقی حکومت این ایف سی ایوارڈ کی مد میں رقم سندھ کو نہیں دے رہا۔ 86 بلین کا ریکارڈ شارٹ فال ہے جو وفاق سندھ حکومت کو نہیں دے رہی۔ این ایف سی کی مد میں جو پیسے طے کیے گئے ہیں وہ ادا کیے جائیں۔

    اس سے قبل ایک موقع پر مشیر سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ لوگوں کے تعاون سے کچرے کو صاف کر سکتے ہیں۔ ایک بار صفائی ہوجائے پھر روزمرہ کی صفائی کا خیال رکھا جائے گا۔

    انہوں نے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کراچی سے 162 ارب کا وعدہ کیا تھا، وعدہ وفا کیا ہوتا تو کراچی کے مسائل نہ ہوتے۔ کراچی کے 3 اسپتال وفاقی حکومت کو منتقل کیے گئے۔

  • فلپائنی خاتون کا پلاسٹک کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے انوکھا اقدام

    فلپائنی خاتون کا پلاسٹک کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے انوکھا اقدام

    منیلا: فلپائن کے دارالحکومت کے مضافات میں واقع ایک گاؤں نے پلاسٹک سے جنم لینے والے کچرے کا انوکھا حل نکال لیا.

    تفصیلات کے مطابق قصبے میں مقیم رونیلا ڈاریکو کی تحریک پر شہری کچرا چن چن کر ان تک پہنچانے لگے.

    رونیلا کو قصبے میں ’’انوائرمینٹل آنٹی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، سڑک سے گزرتے ہوئے پلاسٹک شاپر  چننے کی عادت کی وجہ سے انھیں یہ عرفیت ملی.

    رونیلا چاہتی تھیں کہ ان کا قصبے پلاسٹک سے پاک ہوجائے، انھوں نے انفرادی حیثیت میں‌ کام کیا، مگر خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی، تب انھوں‌نے ایک انوکھا راستہ تلاش کیا.

    رونیلا نے اعلان کر دیا کہ جو  بھی  ان کے پاس ایک کلو پلاسٹک لائے گا، اسے آدھے کلو چاول بدلے میں‌دیے جائیں گے.

    اس خبر نے عوام کے لیے تحریک کا کام کیا اور لوگ شہر بھر سے پلاسٹک اکٹھا کرکے ان کے پاس لانے لگے.

    مزید پڑھیں: مردان میں غلط جگہ کچرا پھینکنے پر 5 ہزار روپے جرمانہ عائد

    پروگرام کی شہرت جلد دور دور تک پھیل گئی. شہری گھر اور اطراف کا کچرا جمع کرکے خوشی خوشی جمع کرانے پہنچنے لگے، ماحولیات کو آلودگی سے بچانے کی اس مہم کی بھرپور پذیرائی ملی ہے.

    سوال یہ ہے کیا کہ اس انوکھے منصوبے کا اطلاق کراچی میں کیا جاسکتا ہے؟ اس بارے میں‌ارباب اختیار کو سوچنا ہوگا.

  • ماحولیاتی خطرات کو اجاگر کرتے کچرے سے بنے فن پارے

    ماحولیاتی خطرات کو اجاگر کرتے کچرے سے بنے فن پارے

    دنیا بھر میں تیز رفتار صنعتی ترقی جہاں معاشی بہتری لائی، وہیں ماحول کو ناقابل نقصان پہنچنا شروع ہوگیا۔

    اس ترقی کے باعث ہر شے تک ہماری رسائی نہایت آسان ہوگئی اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے نہایت بے دردی سے مختلف اشیا کا استعمال کر کے انہیں پھینکنا شروع کردیا اور نتیجتاً چند ہی دہائیوں میں ہماری زمین کچرے کا ڈھیر بن گئی۔

    کئی ایسی اشیا وجود میں آگئیں جو ایک بار استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں لیکن زمین پر وہ طویل عرصے تک موجود رہتی ہیں، ان اشیا میں پلاسٹک سر فہرست ہے۔

    اب جبکہ زمین کا کوئی کونا ایسا نہیں جو کچرے سے اٹ نہ چکا ہو، اور سمندر کی معلوم گہرائی تک بھی پلاسٹک پایا جاچکا ہے تو اس کچرے کو صاف کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    عملی اقدامات کے علاوہ کئی افراد ایسے بھی ہیں جو مختلف کوششوں سے اس مسئلے کو اجاگر کر رہے ہیں تاکہ ہر شخص انفرادی طور پر اس کام میں اپنا حصہ ڈال سکے۔

    اسٹیفنی کلگسٹ بھی ایسی ہی فنکارہ ہیں جو کچرے سے مختلف فن پارے تشکیل دے رہی ہیں۔

    اس سے ایک طرف تو وہ کچرے کو دوبارہ استعمال کر کے اپنے حصے کا کام کر رہی ہیں تو دوسری جانب اپنے فن پاروں سے لوگوں میں ماحولیاتی خطرات کا شعور بھی بیدار کر رہی ہیں۔

    اسٹیفنی ان جانوروں اور نباتات کو اپنے فن پاروں میں جگہ دیتی ہیں جو ماحولیاتی خطرات کا شکار ہیں اور تیزی سے معدومی کی طرف گامزن ہیں۔ ان کا موٹیو ہے، ’ فطرت کو واپس پلٹنے دیں، کم خرچ کریں‘۔

    آئیں آپ بھی ان کے کچھ فن پارے دیکھیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    Hey there! 😄 I will be taking over @theotherartfair today! While I am most known for my sculptures, I also paint in watercolors, acrylics, oils and do murals. I am most interested in colors, the climate crisis we are facing and the small things in nature. (think mushrooms, insects, bacteria and so on) My work has a cheerful post-apocalytic feel to it, humans have left only their stuff behind and nature is striving again. I am super excited to share a little more about my daily creative live, so be sure to check in at @theotherartfair during the day to know more about my interests and inspirations! #TOAF #toaflondon #TheOtherArtFair #TOAFtakeover #TakeoverTuesday #stephaniekilgast #realartstudio #artstudio #contemporaryartist #artistofinstagram

    A post shared by Stephanie Kilgast (@petitplat) on