Tag: plastic

  • سوویت دور کے تھیلے پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے معاون

    سوویت دور کے تھیلے پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے معاون

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں پلاسٹک کی متبادل پیکجنگ اشیا بنانے پر بھی کام جاری ہے۔

    ایسی ہی کوشش روس میں بھی کی جارہی ہے جہاں سوویت یونین کے دور میں استعمال کیے جانے والے تھیلوں کو پھر سے فروغ دیا جارہا ہے۔

    اووسکا نامی یہ تھیلے تاروں سے بنائے جاتے ہیں۔ اس وقت ان تھیلوں کو پلاسٹک کی تباہ کن آلودگی سے نمٹنے کے لیے بہترین خیال کیا جارہا ہے۔

    سوویت دور میں یہ تھیلے نابینا افراد تیار کیا کرتے تھے اور ان سمیت لاکھوں افراد اس کی خرید و فروخت سے منسلک تھے، پلاسٹک کی آمد کے ساتھ ہی اس روزگار سے وابستہ تمام افراد بے روزگار ہوگئے۔

    اب ان تھیلوں کو پھر سے فروغ دینے کا مقصد ان افراد کو روزگار فراہم کرنا اور سب سے بڑھ کر پلاسٹک آلودگی کے اضافے کو روکنا ہے۔

    ان تھیلوں کے دکانوں پر پہنچتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد نے انہیں خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ کئی افراد کا کہنا تھا کہ انہیں دیکھ کر انہیں اپنا بچپن یاد آگیا جب ان کی دادی ایسے تھیلے استعمال کیا کرتی تھیں۔

    اس وقت صرف روس میں اس نوعیت کے 5 لاکھ تھیلے فروخت ہوچکے ہیں جبکہ انہیں اٹلی بھی بھیجا جارہا ہے۔ اسے استعمال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ تحفظ ماحول کے لیے اس کوشش کا حصہ بن کر بے حد خوشی محسوس کر رہے ہیں۔

  • سندھ حکومت کا پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا اعلان

    سندھ حکومت کا پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا اعلان

    کراچی: محکمہ ماحولیات سندھ نے پلاسٹک تھیلیوں کی پابندی پر عملدرآمد کرانے کا اعلان کردیا جس کے مطابق پابندی کا اطلاق رواں سال یکم اکتوبر سے ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق مشیر ماحولیات سندھ مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ یکم اکتوبر سے پلاسٹک تھیلیوں کی تیاری، فروخت، استعمال پر پابندی ہوگی، پلاسٹک تھیلیوں سے متعلق عوامی آگاہی مہم کا آغاز کردیا گیا ہے۔

    مشیر ماحولیات سندھ مرتضیٰ وہاب نے کلفٹن کے علاقے میں شہریوں میں کپڑے کے تھیلے تقسیم کیے، انہوں نے کہا کہ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی کپڑے کے تھیلے تقسیم کیے جائیں گے۔

    پیپلزپارٹی رہنما مرتضیٰ وہاب نے پلاسٹک تھیلیوں کے کارخانوں، دکانداروں سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہتر مستقبل کے لیے سندھ حکومت کا ساتھ دیں۔

    مزید پڑھیں: اسلام آباد میں پلاسٹک بیگز پر پابندی کے بعد متبادل بیگز کے سیمپل تیار

    انہوں نے کہا کہ پلاسٹک تھیلیوں کا استعمال ممنوع ہے اس پر عملدرآمد کرانا چاہتے ہیں، کراچی کے 50 فیصد برساتی نالے پلاسٹک کی تھیلیوں کی وجہ سے چوک ہیں۔

    وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پلاسٹک بیگ سے انکار مہم کے لیے خصوصی پیغام بھی جاری کردیا ہے۔

    واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں پلاسٹک بیگز پر پابندی کے بعد متبادل بیگز کے سیمپل تیار کرلیے ہیں، وزارت موسمیاتی تبدیلی کا کہنا تھا کہ 14 اگست کے بعد پلاسٹک بیگز استعمال کرنے والوں پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

  • ببول کے پتوں سے بنا پلاسٹک

    ببول کے پتوں سے بنا پلاسٹک

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں پلاسٹک کی متبادل پیکجنگ اشیا بنانے پر بھی کام جاری ہے۔

    ایسی ہی ایک کوشش میکسیکو کی ایک سائنس دان سینڈرا اورٹز نے بھی کی ہے جنہوں نے ببول / کیکر کے پتوں سے متبادل پلاسٹک تیار کیا ہے۔ سینڈرا کا کہنا ہے کہ یہ پلاسٹک بائیو ڈی گریڈ ایبل یعنی زمین میں تلف ہوجانے والا، غیر زہریلا اور کھانے کے قابل ہے۔

    اس پلاسٹک کو بنانے کے لیے سینڈرا نے ببول کے پتوں کو کاٹ کر ان کا جوس نکالا اور ان میں غیر نقصان دہ کیمیکلز کی آمیزش کی، اس کے بعد اسے ایک سپاٹ سطح پر پھیلا دیا، خشک ہونے کے بعد یہ محلول ایک پیکجنگ کی شکل اختیار کرگیا۔

    یہ پلاسٹک زمین میں 1 ماہ میں تلف ہوسکتا ہے جبکہ صرف چند دن میں پانی میں حل ہوسکتا ہے۔ اس دوران اگر اسے جانور یا پرندے کھالیں تو یہ روایتی پلاسٹک کے برعکس ان کے لیے نقصان دہ بھی نہیں ہوگا۔

    سینڈرا کے مطابق اسے مختلف رنگوں اور سائز میں بنایا جاسکتا ہے جبکہ اس کی موٹائی میں بھی کمی یا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پلاسٹک کو بنانے کے لیے سینڈرا کو 10 روز لگے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر اسے کمرشل بنیادوں پر فیکٹری میں تیار کیا جائے تو یہ اس سے بھی کم مدت میں تیار ہوسکتا ہے۔

    ببول کے جس پودے سے یہ پلاسٹک بنایا گیا ہے وہ میکسیکو کا مقامی پودا ہے اور میکسیکو میں اس پودے کی 300 اقسام پائی جاتی ہیں۔ سینڈرا مختلف اقسام پر ریسرچ کر رہی ہیں کہ کون سی قسم پلاسٹک بنانے کے لیے زیادہ موزوں ہوسکتی ہے۔

  • پاکستانی طالبہ نے ماحول دوست پلاسٹک تیار کرلیا

    پاکستانی طالبہ نے ماحول دوست پلاسٹک تیار کرلیا

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں پلاسٹک کی متبادل پیکجنگ اشیا بنانے پر بھی کام جاری ہے۔

    ایسی ہی ایک کوشش ایک پاکستانی طالبہ نے بھی کی ہے۔ ڈاکٹر انجم فیروز نامی طالبہ جامعہ کراچی سے فوڈ سائنسز اور ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ انہوں نے ایسا پلاسٹک تیار کیا ہے جس کی تیاری میں آم کی گٹھلی استعمال ہوئی ہے۔

    آم کی گٹھلی سے تیار ہونے کے بعد یہ پلاسٹک نہ صرف ماحول دوست بلکہ کھائے جانے کے قابل بھی بن گیا ہے، اگر اسے پھینک دیا جائے تو یہ آسانی سے چند لمحوں میں پانی میں حل ہوجائے گا یا چند دن میں زمین میں تلف ہوجائے گا۔

    ڈاکٹر انجم کا خیال ہے کہ چونکہ پاکستان آم کی پیداوار کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے لہٰذا اس پلاسٹک کی تیاری نہایت آسانی سے قابل عمل ہے۔

    خوردنی یا ایڈیبل پلاسٹک کا آئیڈیا نیا نہیں ہے، دنیا بھر میں اس آئیڈیے کے تحت مختلف اشیا سے پلاسٹک کا متبادل تیار کیا جارہا ہے۔

    اس سے قبل امریکن کیمیکل سوسائٹی کے ماہرین نے دودھ کے پروٹین سے پلاسٹک کا متبادل تیار کیا تھا۔ یہ متبادل آکسیجن کو جذب نہیں کرسکتا لہٰذا اس کے اندر لپٹی چیز خراب ہونے کا کوئی خدشہ نہیں۔

    اس پیکنگ کے اندر کافی یا سوپ کو پیک کیا جاسکتا ہے۔ استعمال کرتے ہوئے اسے کھولے بغیر گرم پانی میں ڈالا جاسکتا ہے جہاں یہ پیکنگ بھی پانی میں حل ہوجائے گی۔

    پاکستان میں پہلی بار مقامی طور پر خوردنی پلاسٹک تیار کیا گیا ہے اور اسے نہایت آسانی سے بڑے پیمانے پر تیار کر کے ماحول اور صحت کے لیے نقصان دہ پلاسٹک سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔

  • یہ دردناک ویڈیو دیکھ کر آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرم آئے گی

    یہ دردناک ویڈیو دیکھ کر آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرم آئے گی

    ہم انسانوں نے اس زمین پر اس طرح ترقی کی ہے کہ ہم دوسرے جانداروں کی موجودگی بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ زمین کے وسائل کا بے دریغ استعمال اور چیزوں کو ایک بار استعمال کر کے بے دردی سے پھینک دینا ہماری عادت بن چکا ہے۔

    اس معمول میں ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہماری یہ عادتیں اس زمین پر بسنے والے دیگر جانداروں کو بے تحاشہ نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ہمارے پھینکے گئے کچرے نے جانوروں اور پرندوں کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

    سب سے زیادہ بے رحمانہ رویہ ہمارا پلاسٹک کی طرف ہے جسے ہم ایک بار استعال کر کے پھینک دیتے ہیں۔ پلاسٹک ہزاروں سال تک یونہی زمین پر رہنے والی چیز ہے اور اس کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے زمین اب ایک پلاسٹک کا کچرا گھر معلوم ہوتی ہے۔

    یہ پلاسٹک جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ اکثر سمندری و زمینی جانور اور پرندے انہیں کھانے کی اشیا سمجھ کر کھا لیتے ہیں جس کے بعد یہ اشیا ان کے جسم کے اندر پھنس جاتی ہیں۔

    اس کے بعد یہ زہریلا پلاسٹک آہستہ آہستہ اس جاندار کو اس طرح موت کے گھاٹ اتارتا ہے کہ وہ بھوک سے مرتے ہیں تاہم ان کا پیٹ پلاسٹک سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔

    زیر نظرویڈیو بھی ایک ایسی ہی ننھی سی معصوم چڑیا کی ہے جسے جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کچھ افراد نے بغور دیکھا۔ یہ چڑیا بے چینی کا شکار تھی جبکہ کچھ کھا بھی نہیں پا رہی تھی۔

    جب اس ننھی چڑیا کے جسم کا ایکسرے کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس کے اندر پلاسٹک کی بے شمار اشیا موجود تھیں۔ اس کے بعد اس چڑیا کے جسم میں نلکی ڈال کر ابکائی کے ذریعے وہ اشیا باہر نکالی گئیں۔

    زیر نظر ویڈیو اسی پروسس کی ہے جو اتنی دردناک اور تکلیف دہ ہے جسے دیکھ کر ہر حساس شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ ہمای خود غرضی نے ان معصوم بے زبانوں کو کس حال میں پہنچا دیا۔

  • کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں۔

    ایک مصری فنکار نے بھی ایسا ہی ایک طریقہ نکالا ہے۔

    مصر سے تعلق رکھنے والا فنکار شیدی رباب کچرے سے آلات موسیقی بناتا ہے۔ رباب ایک موسیقار ہے جبکہ وہ آلات موسیقی بھی بناتا ہے۔

    وہ کچرے سے مختلف پلاسٹک و شیشے کی بوتلوں کو اکٹھا کر کے ان سے ڈرمز، گٹار اور بانسریاں بناتا ہے۔

    رباب کا کہنا ہے کہ اس طرح سے وہ لوگوں کی توجہ مصر میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور کچرے کے ڈھیروں کی طرف دلانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ دریاؤں اور سمندروں میں کچرا پھینکنا کس قدر نقصان دہ ہے۔

    دریائے نیل کے مغربی کنارے پر رباب کی سازوں کی دکان موجود ہے جہاں ہر وقت موسیقی کے شیدائیوں کا ہجوم رہتا ہے۔

    رباب ان آلات کو موسیقی سیکھنے والے بچوں میں مفت تقسیم کرتا ہے اور جو بچے موسیقی سیکھنا چاہتے ہیں انہیں سکھاتا بھی ہے۔ اسے اقوام متحدہ سے ینگ چیمپئن آف دا ارتھ پرائز بھی مل چکا ہے۔

    رباب کا عزم ہے کہ وہ اپنے ملک میں پھیلی آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اس لیے نہ صرف وہ خود کچرے سے آلات موسیقی تیار کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سکھاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے مشن کا حصہ بن سکیں۔

  • فیس کی جگہ پلاسٹک کی اشیا طلب کرنے والا اسکول

    فیس کی جگہ پلاسٹک کی اشیا طلب کرنے والا اسکول

    ہماری زمین کو آلودہ کرنے والی سب سے بڑی وجہ پلاسٹک اس وقت دنیا بھر کے ماہرین کے لیے درد سر بن چکا ہے، اس پلاسٹک کے کچرے کو ختم کرنے کے لیے دنیا بھر میں مختلف کوششیں کی جارہی ہیں۔

    ایسی ہی کوشش بھارت کا ایک اسکول بھی کر رہا ہے جو بچوں کو تعلیم دینے کے عوض ان سے فیس کے بجائے استعمال شدہ پلاسٹک وصول کر رہا ہے۔

    بھارتی ریاست آسام کا یہ گاؤں غریب افراد پر مشتمل ہے اور یہاں کے لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ جب یہاں پر یہ اسکول کھولا گیا تو صرف 20 بچوں کا داخلہ ہوا۔

    صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسکول نے تمام بچوں کے لیے تعلیم مفت کردی تاہم شرط رکھ دی گئی کہ ہر بچہ ہر ہفتے کم از کم 25 پلاسٹک کی اشیا اسکول میں جمع کروائے گا۔

    یہ پلاسٹک شہر میں ری سائیکلنگ فیکٹریوں کو دے دیا جاتا ہے جو اس سے نئی اشیا بنا لیتی ہیں۔

    ریاست آسام میں لوگ موسم سرما میں آگ جلانے کے لیے پلاسٹک کا استعمال کرتے ہیں جس سے نہایت زہریلے دھوئیں کا اخراج ہوتا ہے۔ اس اسکول کی پلاسٹک وصول کرنے کی پالیسی سے اب اس رجحان میں کمی آرہی ہے جبکہ گلی کوچوں کی بھی صفائی کی جارہی ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق بھارت میں روزانہ 26 ہزار ٹن پلاسٹک پیدا کیا جارہا ہے جو استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے اور یوں بھارت میں کچرے اور آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے۔

    تاہم بھارت اب سلسلے میں اقدامات کر رہا ہے اس کا عزم ہے کہ سنہ 2022 تک سنگل استعمال پلاسٹک کو ختم کردیا جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

  • ان نقصان دہ اشیا کو اپنے گھر سے نکال باہر کریں

    ان نقصان دہ اشیا کو اپنے گھر سے نکال باہر کریں

    بعض لوگ اپنے گھر کو بہت سے سامان سے بھر دیتے ہیں جس کا مقصد ضرورت کے وقت کسی شے کی دستیابی، گھر کو خوبصورت بنانا اور سہولت پیدا کرنا ہوتا ہے۔

    تاہم ان میں سے کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو نقصان دہ بن سکتی ہیں اور ماہرین ایسی اشیا کو گھر میں نہ رکھنے کی تجویز دیتے ہیں۔ آئیں جانتے ہیں ایسی کون سی اشیا ہیں جو آپ کے گھر میں موجود ہیں اور آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

    پلاسٹک کے ڈبے

    پلاسٹک کے ڈبے کچن اور فریج میں مختلف اشیا محفوظ کرنے کے لیے نہایت کارآمد ثابت ہوتے ہیں لیکن یہ ڈبے آپ کے قاتل بھی بن سکتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں موجود پلاسٹک کے ڈبوں پر ’پی سی‘ لکھا ہے تو ایسے ڈبوں کو ایک لمحہ بھی سوچے بغیر کوڑے دان کی نذر کردیں۔

    پی سی کا مطلب ہے پولی کاربونیٹ، اس عنصر میں ایک زہریلا کیمیکل بسفینول اے (بی پی اے) شامل کیا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل تنفس کے مسائل، امراض قلب، اور بلڈ پریشر کا سبب بن سکتا ہے۔

    پلاسٹک کے ان ڈبوں کی جگہ آپ شیشے کے ڈبے استعمال کر سکتے ہیں۔

    ایئر فریشنر

    گھر کو خوشبوؤں سے مہکا دینے والا ایئر فریشنر اپنے اندر بے شمار کیمیکلز رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی خوشبو طویل وقت تک موجود رہتی ہے۔ مستقل ایئر فریشنر کا استعمال آپ کی صحت کے لیے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔

    خوشبو کے لیے پھولوں والے پودے گھر میں رکھے جاسکتے ہیں۔ گلاب و موتیا کے تازہ پھول بھی کمرے کو خوشبو سے مہکا دیتے ہیں۔

    پرانا ٹوتھ برش

    ٹوتھ برش کے استعمال کے عرصے کو کم رکھیں، ٹوتھ برش جراثیم ذخیرہ کرنے کی آئیڈیل جگہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر 3 سے 4 ماہ بعد ٹوتھ برش تبدیل کر لینا چاہیئے چاہے وہ بہتر حالت میں ہی کیوں نہ موجود ہو۔

    ماہرین کے مطابق جب ہم بخار، نزلہ، زکام یا کسی اور بیماری کے دوران ٹوتھ برش استعمال کرتے ہیں تو بیماری کے جراثیم برش میں بھی جگہ بنا لیتے ہیں۔

    صحت مند ہونے کے بعد وہی ٹوتھ برش دوبارہ استعمال کرنا اس بیماری کو واپس بلانے کے مترادف ہے۔

    پرانے کپڑے

    پرانے اور غیر ضروری کپڑے جمع کیے رکھنا بے وقوفانہ عمل ہے۔ جن کپڑوں کی آپ کو ضروت نہ ہو انہیں کسی ضرورت مند کو دے دیں۔

    ماہرین کے مطابق ایسی الماری جس میں بے تحاشہ کپڑے ٹھنسے ہوں، ہر بار کھلنے پر آپ کو ذہنی تناؤ میں مبتلا کر دیتی ہے۔

    غیر ضروری کپڑے رکھنے سے آپ کا دماغ آپ کو یہ تاثر بھی دیتا ہے کہ آپ کے پاس بہت سے کپڑے موجود ہیں اور آپ کو خریداری کرنے کی ضرورت نہیں۔

    یہ دھوکہ اس وقت مشکل سے دو چار کر سکتا ہے جب آپ کو پتہ چلے کہ کسی اہم موقع کے لیے آپ کے پاس واقعی کوئی مناسب لباس موجود نہیں۔

    پلاسٹک کے کٹنگ بورڈ

    کٹنگ یا چوپنگ بورڈ سبزیاں کاٹنے کے عمل میں آسانی پیدا کرتا ہے تاہم اگر یہ پلاسٹک کا ہو تو آپ کی کٹی ہوئی سبزیوں کو جراثیموں سے بھر سکتا ہے۔

    ہر بار جب پلاسٹک کے کٹنگ بورڈ پر چھری سے خراش لگتی ہے تو اس میں جراثیموں کی رہائش کے لیے ایک نئی جگہ پیدا ہوجاتی ہے۔

    پلاسٹک کی جگہ لکڑی کے کٹنگ بورڈ استعمال کریں۔ لکڑی قدرتی طور پر اینٹی بائیوٹک خصوصیات رکھتی ہے لہٰذا اس پر کاٹی جانے والی سبزیوں سے آپ ایک صحت بخش کھانا تیار کرسکتے ہیں۔

  • پلاسٹک سمندروں کو آلودہ کررہا ہے، جی20 ممالک سمندری کچرا اٹھانے کیلئے رضامند

    پلاسٹک سمندروں کو آلودہ کررہا ہے، جی20 ممالک سمندری کچرا اٹھانے کیلئے رضامند

    ٹوکیو : سمندروں سے پلاسٹک کا کچرا کم کرنے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں جس کے لیے باقاعدہ اقدامات کیے جائیں، یہ اقدامات رضاکارانہ طور پر اٹھائے جائیں گے اور سالانہ بنیادوں پر ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے حامل ممالک کا گروپ ’جی 20‘اس بات پر رضامند ہوگیا ہے کہ سمندروں سے پلاسٹک کا کچرا کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں جو کہ سمندروں کو آلودہ کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

    عالمی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جاپان میں ہونے والے جی ٹوئنٹی کے ایک اجلاس میں ارکان ممالک اس بات پر راضی ہوگئے کہ سمندروں سے پلاسٹک کا کچرا کم کرنے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں جس کے لیے باقاعدہ اقدامات کیے جائیں اور اس ضمن میں ایک ڈیل سائن کی جائے۔

    معاہدے کے تحت جی ٹوئنٹی ممالک اس ضمن میں پابند ہوجائیں گے تاہم اس بات کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ سمندروں سے کچرا اٹھانے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات رضاکارانہ طور پر اٹھائے جائیں گے اور سالانہ بنیادوں پر ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔

    جاپانی اخبار کے مطابق جاپانی حکومت پرامید ہے کہ اس ضمن میں نومبر میں پہلا اجلاس منعقد ہوگا جس میں آئندہ کے لائحہ عمل اور موثر اقدامات پر بات کی جائے گی۔

    معاہدے کے تحت نہ صرف امیر اور بڑے ممالک کو اس دائرے میں لایا جائے گا بلکہ ترقی پذیرممالک کو بھی اس بعد کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ سمندروں میں پلاسٹک نہ پھینکیں خواہ وہ ماہی گیری کے جال ہوں یا پھر پلاسٹک کی بوتلیں ہوں۔

    ٹھوس سائنسی شواہد سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ سمندروں میں گرایا جانے والا پلاسٹک وھیل سے لے کر کھچوﺅں تک کی غذا میں شامل ہوکر ان کی تیزرفتار ہلاکت کی وجہ بن رہے ۔

    دوسری جانب یہ پلاسٹک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر بہت تیزی سے خرد ذرات یا مائیکرو پلاسٹک میں ڈھل رہا ہے، اب یہ سمندری جانوروں اور سی فوڈ کے ذریعے دوبارہ ہمارے کھانے کی میز تک پہنچ رہا ہے۔

  • کیا آپ بھی ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کھاتے ہیں؟

    کیا آپ بھی ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کھاتے ہیں؟

    کیا آپ ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ تناول فرماتے ہیں؟ یہ سوال سننے میں تو عجیب سا لگتا ہے تاہم ماہرین نے حال ہی میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص مختلف غذائیں کھانے کے ساتھ ساتھ کریڈٹ کارڈ بھی کھا رہا ہے۔

    عالمی ادارہ ماحولیات ڈبلیو ڈبلیو ایف نے حال ہی میں ایک مہم شروع کی ہے جس میں انہوں نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ ان کی غذا میں پلاسٹک کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے اور وہ تقریباً ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ جتنا پلاسٹک کھا رہے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اس وقت دنیا کا ہر انسان ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک کھا رہا ہے اور یہ مقدار ایک کریڈٹ کارڈ جتنی ہے۔

    تحقیق کے مطابق ہر انسان سال میں کم از کم 1 لاکھ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) کھا رہا ہے جو اس کی غذا میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ مقدار ماہانہ 21 گرام اور سالانہ 250 گرام بنتی ہے۔

    لیکن یہ پلاسٹک کہاں سے آرہا ہے؟

    تحقیق کے مطابق اس وقت ہماری زمین پر استعمال ہونے والے پلاسٹک میں سے 80 لاکھ ٹن پلاسٹک سمندروں میں جارہا ہے۔

    ان میں پلاسٹک کے نہایت ننھے منے ذرات بھی ہوتے ہیں جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے۔ یہ مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔

    زراعتی مٹی میں شامل پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ سمندروں میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے۔

    بعد ازاں جب یہ مچھلیاں پک کر ہماری پلیٹ تک پہنچتی ہیں تو ان میں پلاسٹک کے بے شمار اجزا موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔