Tag: plastic

  • استعمال شدہ پلاسٹک سے تیار ہونے والا پارک

    استعمال شدہ پلاسٹک سے تیار ہونے والا پارک

    دنیا بھر میں ماحول کو شدید نقصان پہنچانے والے عنصر پلاسٹک کو ختم کرنے کے منصوبوں کے بارے میں سوچا جا رہا ہے اور اس ضمن میں ایک اور منصوبہ سامنے آیا ہے۔

    فرانس میں دریا میں پھینکے جانے والے پلاسٹک سے خوبصورت پارک تیار کیے جارہے ہیں۔

    فرانس کے دریا میوز کے کناروں پر خوبصورت پارک بنائے جارہے ہیں جس سے دریا کی خوبصورتی میں اضافہ ہورہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ پارک استعمال شدہ پلاسٹک سے بنائے جارہے ہیں۔

    اس کے لیے سب سے پہلے دریا میں پھینکا جانے والا پلاسٹک اکٹھا کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    بعد ازاں اسے پگھلا کر 6 کونوں والے پلیٹ فارم تیار کیے جاتے ہیں جن پر کھاد ڈال کر سبزہ اور مختلف پودے اگائے جاتے ہیں۔

    یہ پلیٹ فارمز بہت بڑی تعداد میں دریا کے کناروں پر چھوڑ دیے جاتے ہیں جس کے بعد مذکورہ حصہ خوبصورت سا پارک معلوم ہونے لگتا ہے۔

    ان پر لگے پودے نہ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ہوا کو صاف ستھرا کر رہے ہیں بلکہ یہ مختلف پرندوں کی غذائی ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں پلاسٹک کا بے دریغ استعمال جاری ہے جس کے باعث ہمارے شہر اور سمندر پلاسٹک کے کچرا دان میں بدلتے جارہے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق ہر سال کم از کم 80 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک کا کچرا سمندر میں پھینکا جاتا ہے اور اگر ہم نے اپنی یہی روش برقرا رکھی تو سنہ 2050 تک سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • خاتون انڈیانا جونز کچرا جزیرے کے سفر پر

    خاتون انڈیانا جونز کچرا جزیرے کے سفر پر

    سنہ 80 کی دہائی کا مشہور فلمی کردار انڈیانا جونز جس کی شخصیت اپنے دور کی بہترین اور مقبول ترین افسانوی شخصیت سمجھی جاتی تھی، دور دراز مقامات اور دنیا سے چھپے مقامات کی کھوج لگاتا تھا۔

    ایسی ہی ایک اور خاتون ایک ایسا ہی پوشیدہ مقام منظر عام پر لانے کے لیے محو سفر ہیں جنہیں خاتون انڈیانا جونز بھی کہا جارہا ہے۔

    ایلیسن ٹیل نامی یہ سیاح وہاں کے سفر پر ہیں جہاں جانے کا کوئی سیاح سوچ بھی نہیں سکتا۔

    ایلیسن سیاحت کے لیے بہترین سمجھے جانے والے ملک مالدیپ کے ’کچرا جزیرے‘ کو سامنے لانا چاہتی ہیں۔

    یہ علاقہ مالدیپ کا ایک ویران علاقہ ہے جو کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ یہاں پر تمام رہائشی علاقوں کا کچرا لا کر پھنکا جاتا ہے اور یہ پورا علاقہ اب کچرے کا علاقہ بن چکا ہے جس کی طرف توجہ کرنا بے حد ضرور ہوگیا ہے۔

    ایلیسن دنیا کو یہی جزیرہ دکھانے نکلی ہیں۔

    بحرہ ہند کے کنارے واقع اس علاقے میں موجود کچرا سمندر میں بھی جارہا ہے چنانچہ اس مقام پر سمندر گندگی اور کچرے گڑھ بن چکا ہے۔

    بڑے بڑے کچرے کے پہاڑ، کچرے سے بھرا پانی اور یہاں موجود آبی حیات کے اندر سے نکلنے والا زہریلا اور گندا کچرا لوگوں کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔

    ایلیسن کہتی ہیں کہ جزیروں کی سیاحت پر جانے والے سیاح سرفنگ کرنا اور پانی میں مختلف کھیل کھیلنا پسند کرتے ہیں، لیکن اس مقام پر یہ سب ایک بھیانک خواب معلوم ہوتا ہے۔

  • آپ کے کانٹیکٹ لینس سمندروں کی آلودگی کا سبب

    آپ کے کانٹیکٹ لینس سمندروں کی آلودگی کا سبب

    کیا آپ کانٹیکٹ لینسز استعمال کرتے ہیں؟ آپ کو چشمے سے چھٹکارہ دلانے والے یہ لینسز سمندروں اور دریاؤں میں پلاسٹک کی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

    کانٹیکٹ لینس عام طور پر لچک دار پلاسٹک سے بنائے جاتے ہیں تاکہ آکسیجن ان سے گزر کر آنکھ کے قرنیہ تک جاسکے۔

    امریکی ماہرین نے ایک تحقیق کا آغاز کیا کہ ان لینسز کی معیاد ختم ہونے کے بعد انہیں کس طرح ضائع کیا جاتا ہے؟

    سروے میں علم ہوا کہ زیادہ تر امریکی شہری استعمال شدہ کانٹیکٹ لینس فلش یا سنک میں بہا دیتے ہیں جو مختلف مراحل سے گزر کر سمندروں اور دریاؤں میں پہنچ کر ان کی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق صرف امریکا میں ساڑھے 4 کروڑ افراد کانٹیکٹ لینس استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح یورپ کی 5 سے 15 فیصد آبادی انہیں استعمال کرتی ہے جو سب سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی اقتصادی فورم نے دنیا بھر کے سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کی تعداد پیش کی تھی۔ عالمی اقتصادی فورم کے مطابق جنوبی بحر اوقیانوس میں پلاسٹک کے 297 ارب ٹکڑے موجود ہیں۔

    جنوبی بحر الکاہل میں 491 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے پھینکے گئے ہیں۔ شمالی بحر اوقیانوس میں 930 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے سمندر کو آلودہ کیے ہوئے ہیں۔

    بحرہ ہند میں 1 اعشاریہ 3 کھرب پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔ سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • سال 2018 کا مقبول لفظ جان کر آپ پریشان ہوجائیں گے

    سال 2018 کا مقبول لفظ جان کر آپ پریشان ہوجائیں گے

    آکسفورڈ چلڈرن ڈکشنری نے ’پلاسٹک‘ کو سال 2018 کا لفظ قرار دیا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے منعقدہ کیے گئے کہانی لکھنے کے ایک مقابلے میں 1 لاکھ 34 ہزار کہانیاں موصول ہوئیں۔ ان کہانیوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ پلاسٹک تھا۔

    آکسفورڈ کے مطابق اس لفظ کو بچوں کی جانب سے بہت زیادہ استعمال کیے جانے کے بعد رواں سال کا لفظ قرار دیا گیا۔

    آکسفورڈ کا کہنا ہے کہ اس لفظ کا بے تحاشہ استعمال ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے بچے ماحولیاتی مسائل سے آگاہ ہیں اور ان سے نمٹنا چاہتے ہیں۔

    مقابلے کے لیے جمع کروائی کہانیوں میں ایک اور لفظ بہت زیادہ استعمال کیا گیا جو ’ری سائیکل‘ تھا۔

    آکسفورڈ کے مطابق بچوں کی جانب سے جمع کروائی گئی زیادہ تر کہانیوں میں ماحولیاتی مسائل کو کسی نہ کسی طرح اجاگر کیا گیا۔

    نمائندہ آکسفورڈ کا کہنا ہے کہ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ ہمارے بچے ان ماحولیاتی خطرات سے بہت جلدی آگاہ ہوگئے جنہیں سمجھنے میں ہمیں طویل عرصہ لگا۔

    انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی مسائل مستقبل قریب میں سب سے بڑے مسائل ہوں گے اور ہماری نئی نسل ابھی سے ہی ان سے آگاہ ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کیا مستقبل کی سڑکیں پلاسٹک سے تعمیر ہوں گی؟

    کیا مستقبل کی سڑکیں پلاسٹک سے تعمیر ہوں گی؟

    پلاسٹک ہمارے کرہ ارض کو جس قدر نقصان پہنچا رہا ہے بدقسمتی سے اسی قدر پلاسٹک بنایا بھی جارہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہمارے شہر اور سمندر پلاسٹک کے کچرے سے آلودہ ترین ہوچکے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 26 کروڑ 90 لاکھ ٹن پلاسٹک کی اشیا بنائی جاتی ہیں جو عموماً ایک بار استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں۔

    دراصل پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

    دنیا بھر سے استعمال شدہ پلاسٹک کو ختم کرنے کے منصوبوں کے بارے میں سوچا جارہا ہے اور اس ضمن میں بھارت ایک نئے منصوبے کے ساتھ سامنے آیا ہے۔

    بھارت میں ضائع شدہ پلاسٹک سے سڑکیں بنائی جارہی ہیں۔

    اس منصوبے کے تحت کچرا اٹھانے والوں کو پلاسٹک جمع کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے جس سے شہروں کی صفائی میں مدد مل رہی ہے۔ اس کے بعد اس پلاسٹک کو پگھلا دیا جاتا ہے۔

    بعد ازاں اسے تعمیراتی کمپنیوں کو فراہم کردیا جاتا ہے جہاں پر اس میں مختلف اشیا بشمول تارکول کی آمیزش کر کے ایک نئی شکل میں ڈھالا جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سڑکیں عام سڑکوں کے مقابلے میں بارش اور ہیٹ ویو کے موقع پر زیادہ پائیدار ثابت ہوسکتی ہیں جب شدید گرمی کے موسم میں تارکول سے بنی سڑکیں پگھلنے لگتی ہیں۔

    بھارت میں اب تک اس مٹیریل سے 21 ہزار میل کی سڑکیں بنائی جا چکی ہیں اور سڑکوں کی تعمیر کے معاملے میں اب یہ بھارتی حکومت کی پہلی ترجیح بن چکی ہے۔

    یاد رہے کہ بھارت ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے نہایت مؤثر انداز میں کام کر رہا ہے اور  بھارت نے اپنی تمام ذرائع آمد و رفت کو سنہ 2030 تک بجلی پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں بجلی سے چلنے والے رکشے

    گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں نہ صرف بھارت کو دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں سے ایک بنا چکا ہے بلکہ یہ ہر سال 12 لاکھ بھارتیوں کو مختلف جان لیوا امراض میں مبتلا کر کے انہیں ہلاک کردیتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پلاسٹک سے بھری قوی الجثہ وہیل نہر میں آگئی

    پلاسٹک سے بھری قوی الجثہ وہیل نہر میں آگئی

    بیلجیئم کے شہر بروجژ کی نہر سے پلاسٹک سے بنی قوی الجثہ وہیل نمودار ہوگئی۔

    یہ وہیل دراصل پلاسٹک سے بنائی گئی جس کا مقصد لوگوں کی توجہ پلاسٹک کی آلودگی کی طرف مبذول کروانا ہے۔

    بروجژ کی نہر میں بنائی جانے والی یہ وہیل 38 فٹ طویل ہے اور اسے 5 ٹن پلاسٹک کے کچرے سے بنایا گیا ہے۔

    اسے بنانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ پلاسٹک انہوں نے سمندروں اور دریاؤں سے جمع کیا ہے۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

    پلاسٹک سمندروں میں موجود آبی حیات کی بقا کے لیے بھی سخت خطرات کا باعث بن رہی ہے۔

    زیادہ تر جاندار پلاسٹک کو غذائی اشیا سمجھ کر نگل جاتے ہیں جو ان کے جسم میں ہی رہ جاتا ہے نتیجتاً ان کا جسم پلاسٹک سے بھرنے لگتا ہے اور یہ جاندار بھوک کی حالت میں مر جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پلاسٹک نے بے زبان وہیل کی جان لے لی

    اسی طرح یہ جاندار پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں جس سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنس جانے والے جاندار بعض اوقات ہلاک بھی ہوجاتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ممبئی میں پلاسٹک پر پابندی عائد

    ممبئی میں پلاسٹک پر پابندی عائد

    بھارت کے سب سے بڑے شہر ممبئی کی مقامی حکومت نے شہر بھر میں پلاسٹک مصنوعات کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

    گو کہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی پلاسٹک کے استعمال کو روکنے کے لیے پابندیاں عائد کی گئی ہیں لیکن مہاراشٹر پہلی ریاست ہے جس نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے پلاسٹک کے استعمال پر اتنے بڑے پیمانے پر پابندی عائد کی ہے۔

    پابندی کے تحت شہر میں پلاسٹک بیگ، پلاسٹک کے (ڈسپوز ایبل) برتن اور دیگر پلاسٹک مصنوعات کا استعمال ممنوع قرار پاگیا ہے۔

    حکام کے مطابق پہلی بار پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں پر 5 ہزار روپے جرمانہ عائد ہوگا، تاہم اگر کوئی شخص ایک بار سے زائد پابندی کی خلاف ورزی کرتا پایا گیا تو اس پر 25 ہزار روپے جرمانہ اور 3 ماہ کی قید کی سزا دی جائے گی۔

    مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے، ’ہم چاہتے ہیں کہ پلاسٹک سے بنے بیگ کا استعمال ذمہ دارانہ انداز سے کیا جائے۔ اسی لیے ہم نے ہر اس طرح کے پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کی ہے جسے دوبارہ استعمال کے قابل نہیں لایا جاتا‘۔

    اس پابندی کو تحفظ ماحولیات کے لیے کام کرنے والے افراد نے سراہا ہے تاہم پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ افراد پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں۔ بھارت میں اس وقت 9 ارب ڈالر مالیت کی پلاسٹک کی صنعت فعال ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پلاسٹک کے کھلونے خوبصورت فرنیچر میں تبدیل

    پلاسٹک کے کھلونے خوبصورت فرنیچر میں تبدیل

    بچوں کے کھلونے زیادہ تر پلاسٹک سے بنائے جاتے ہیں جو خراب ہوجانے یا ٹوٹ جانے کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔ بیلجیئم کی ایک کمپنی نے ان کھلونوں کو ری سائیکل کر کے نئی زندگی دے دی۔

    ایکو برڈی نامی یہ کمپنی بچوں کے پرانے کھلونے جمع کرتی ہے۔ اس کمپنی کے ارکان مختلف اسکولوں میں جا کر بچوں کو پلاسٹک کے نقصانات بتاتے ہیں اور ان سے پرانے کھلونے دینے کا کہتے ہیں۔

    ان کھلونوں کو بعد ازاں ایک پلانٹ میں لے جایا جاتا ہے جہاں انہیں توڑا جاتا ہے۔ مختلف رنگوں کے ٹکڑوں کو الگ کیا جاتا ہے اور ان سے بچوں ہی کے لیے نیا خوبصورت فرنیچر تخلیق کیا جاتا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق ہمارے بچوں کے زیر استعمال 80 فیصد کھلونے کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیے جاتے ہیں۔

    زمین میں تلف نہ ہونے کے سبب یہ کھلونے سالوں تک یونہی کچرے کے ڈھیر پر پڑے رہتے ہیں اور شہروں کی گندگی اور آلودگی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سونم کپور کا پلاسٹک استعمال نہ کرنے کا عہد

    سونم کپور کا پلاسٹک استعمال نہ کرنے کا عہد

    دنیا بھر کی معروف شخصیات اس وقت مختلف تنظیموں کے ساتھ مل کر ماحول کو بچانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ معروف بالی ووڈ اداکارہ سونم کپور نے بھی تحفظ ماحول کی مہم میں شامل ہو کر ماحول دوست ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

    سونم کپور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹا گرام پر اپنی ایک تصویر پوسٹ کی جس میں وہ کپڑے کا ایک تھیلا تھامے ہوئے نظر آرہی ہیں، ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ پلاسٹک ہمارے دریاؤں، جنگلی حیات اور کرہ ارض کو تباہ کر رہا ہے۔

    انہوں نے لکھا کہ میں عہد کرتی ہوں کہ آئندہ کبھی بھی پلاسٹک استعمال نہیں کروں گی۔

    خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل اقوم متحدہ نے بالی ووڈ اداکارہ اور پروڈیوسر دیا مرزا کو بھارت میں خیر سگالی سفیر برائے ماحولیات مقرر کیا تھا۔

    دیا مرزا اپنے ساتھ دیگر فنکاروں کو بھی تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے کی دعوت دے رہی ہیں جس سے متاثر ہو کر کئی فنکاروں نے ماحول دوست اقدامات شروع کردیے ہیں۔

    چند روز قبل عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ہونے والی تقاریب میں بھی کئی فنکاروں نے شرکت کی اور ماحول دوست بننے خصوصاً پلاسٹک کا استعمال ختم کرنے کا عزم کیا۔

    یاد رہے کہ رواں برس اقوام متحدہ کی جانب سے پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے پر کام کیا جارہا ہے جو ہماری زمین کو بری طرح سے آلودہ کر رہی ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • پلاسٹک کا گڑھ بنتے ہمارے سمندر

    پلاسٹک کا گڑھ بنتے ہمارے سمندر

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ رواں برس یہ دن سمندروں کو پلاسٹک کی آلودگی سے بچانے کے خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    سمندروں کا عالمی دن منانے کی تجویز سنہ 1992 میں دی گئی تھی اور تب سے اسے مختلف ممالک میں انفرادی طور پر منایا جارہا تھا تاہم 2008 میں اقوام متحدہ نے اس دن کی منظوری دی جس کے بعد سے اس دن کو باقاعدہ طور پر پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں سمندروں کی اہمیت، آبی جانوروں کے تحفظ اور سمندری آلودگی میں کمی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    انسانی زندگی اور زمین کی بقا کے لیے ضروری سمندر پلاسٹک کی تباہ کن آلودگی سے اٹ چکے ہیں۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی اقتصادی فورم نے دنیا بھر کے سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کی تعداد پیش کی تھی۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق جنوبی بحر اوقیانوس میں پلاسٹک کے 297 ارب ٹکڑے موجود ہیں۔

    جنوبی بحر الکاہل میں 491 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے پھینکے گئے ہیں۔

    شمالی بحر اوقیانوس میں 930 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے سمندر کو آلودہ کیے ہوئے ہیں۔

    بحرہ ہند میں 1 اعشاریہ 3 کھرب پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔

    سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    پلاسٹک سمندروں میں موجود آبی حیات کی بقا کے لیے بھی سخت خطرات کا باعث بن رہی ہے۔

    زیادہ تر جاندار پلاسٹک کو غذائی اشیا سمجھ کر نگل جاتے ہیں جو ان کے جسم میں ہی رہ جاتا ہے نتیجتاً ان کا جسم پلاسٹک سے بھرنے لگتا ہے اور یہ جاندار بھوک کی حالت میں مر جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پلاسٹک نے بے زبان وہیل کی جان لے لی

    اسی طرح یہ جاندار پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں جس سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنس جانے والے جاندار بعض اوقات ہلاک بھی ہوجاتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔