Tag: plastic

  • برفانی سمندر بھی پلاسٹک کے کچرے سے آلودہ

    برفانی سمندر بھی پلاسٹک کے کچرے سے آلودہ

    پلاسٹک کا کچرا ہمارے ماحول کو تباہ کرنے والا سب سے خطرناک عنصر ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دنیا بھر کے سمندروں میں بھی پلاسٹک کی تعداد میں خوفناک اضافہ ہورہا ہے اور برف سے ڈھکا سمندر بھی اس سے محفوظ نہیں۔

    کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے قطب شمالی کے سمندر کی برف میں بھی پلاسٹک کا کچرا جما ہوا پایا جس کے بعد برفانی سمندر میں پائی جانے والی آبی حیات کی زندگی کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    تحقیق میں شامل ماہرین نے آرکٹک سمندر کے 5 مختلف مقامات کا تجزیہ کیا۔ نتیجے کے مطابق اوسطاً ایک لیٹر کی برف میں مختلف جسامت کے 12 ہزار پلاسٹک کے ٹکڑے موجود تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اشیا میں مختلف پیکنگ کی تھیلیاں، نائیلون، بحری جہازوں سے جھڑنے والا پینٹ اور پولیسٹر وغیرہ شامل ہیں۔ آرکٹک کے سمندر میں پلاسٹک کی یہ مقدار اس سے قبل پائے جانے والے پلاسٹک کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں 5 کھرب پلاسٹک کی اشیا موجود ہیں۔ ان سب کا اگر وزن کیا جائے تو یہ 2 لاکھ 68 ہزار ٹن بنتا ہے۔

    پلاسٹک کے اس تمام کچرے کو اگر ایک قطار میں رکھا جائے تو یہ پوری دنیا کے گرد 425 تہیں بنا سکتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پلاسٹک کے استعمال کو روکنے کے لیے انوکھا اقدام

    پلاسٹک کے استعمال کو روکنے کے لیے انوکھا اقدام

    نئی دہلی: بھارتی ریاست کیرالہ کے ایک گاؤں میں کسی شادی کے دوران پلاسٹک کے برتن استعمال ہونے کی صورت میں اس شادی کا میرج سرٹیفیکٹ نہ جاری کرنے کا اعلان کردیا گیا۔

    کیرالہ کے ضلع کنور میں واقع اس گاؤں کی پنچائیت کا عزم ہے کہ شادیوں میں ہونے والے ضیاع کو کم سے کم کیا جائے اور مذکورہ اقدام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

    فی الحال اس اقدام کو صرف شادیوں تک محدود کیا گیا ہے تاہم پنچائیت کا کہنا ہے کہ اس کا اطلاق بہت جلد ہر اس تقریب پر کیا جائے گا جس میں مہمانوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہوگی۔

    پنچائیت کے فیصلے کے مطابق پنچائیت کے چند افراد ہر شادی کی تقریب کا دورہ کریں گے اور اسی صورت میں میرج سرٹیفیکٹ جاری کریں گے جب شادی میں پلاسٹک کی اشیا استعمال نہ کی گئی ہوں۔

    خلاف ورزی کی صورت میں دلہا اور دلہن کے خاندان پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔

    بھارتی اخبار کے مطابق پنچائیت نے جب اس فیصلے کا اعلان کیا تو کئی لوگوں نے اعتراض اٹھاتے ہوئے پلاسٹک کے برتنوں کا متبادل پوچھا جس کے بعد شادیوں کے انتظامات سنبھالنے والے افراد نے اسٹیل اور پتوں سے بننے والے برتنوں کے استعمال کی تجویز دی۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک کا کچرا ہمارے ماحول کو تباہ کرنے والا سب سے خطرناک عنصر ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

     پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانیہ کا پلاسٹک پر پابندی لگانے کا فیصلہ

    برطانیہ کا پلاسٹک پر پابندی لگانے کا فیصلہ

    دنیا بھر میں پلاسٹک کا استعمال ماحول، جنگلی حیات اور انسانی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہورہا ہے جس کے خوفناک اثرات دن بدن سامنے آتے جا رہے ہیں۔ پلاسٹک کے انہی نقصانات کو دیکھتے ہوئے برطانیہ نے ایک بار کے لیے قابل استعمال پلاسٹک پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اس فیصلے کا اعلان برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے کامن ویلتھ اقوام کی میٹنگ کے دوران کیا۔

    فیصلے کے تحت ایسا پلاسٹک جو صرف ایک ہی بار استعمال کیا جاسکے جیسے پلاسٹک کا شاپنگ بیگ، اسٹرا اور کان کی صفائی کرنے والے کاٹن سوئیب پر پابندی لگا دی جائے گی۔

    یہ پابندی برطانیہ کے 25 سالہ ماحولیاتی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت برطانیہ کی ماحولیاتی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

    میٹنگ کے دوران پیش کیے جانے والے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں اس وقت 15 کروڑ ٹن پلاسٹک موجود ہے اور ہر سال 10 لاکھ پرندے اور ایک لاکھ سے زائد سمندری جاندار اس پلاسٹک کو کھانے یا اس میں پھنسنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔

    بریفنگ کے مطابق صرف اسٹرا بھی پلاسٹک کے کچرے میں بے تحاشہ اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ برطانیہ میں ایک سال کے دوران 8 ارب 50 کروڑ اسٹرا کو استعمال کے بعد پھینکا گیا۔

    خیال رہے کہ برطانیہ پلاسٹک کے استعمال کو کم سے کم کرنے کے لیے قابل تقلید اقدامات کر رہا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس مائیکرو بیڈز پر پاندی عائد کی جاچکی ہے۔

    مائیکرو بیڈز پلاسٹک کے ننھے ننھےذرات ہوتے ہیں جو کاسمیٹکس اشیا، ٹوتھ پیسٹ اور صابنوں میں شامل کیے جاتے ہیں۔

    چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں اور دریاؤں میں شامل ہو کر ان کی آلودگی میں اضافہ اور سمندری حیات کی بقا کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔

    اسی طرح گزشتہ برس پلاسٹک کی تھیلیوں پر بھی قیمت مقرر کی جاچکی ہے جس کے بعد سپر اسٹورز میں یہ بیگ مفت ملنا بند ہوگئے۔

    قیمت مقرر ہونے کے بعد ان بیگز کے استعمال میں حیرت انگیز کمی دیکھنے میں آئی۔ حکومتی ڈیٹا کے مطابق ان بیگز کی خریداری پر قیمت مقرر کیے جانے کے بعد اس کی طلب میں 99 فیصد کمی آچکی ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ان نشانات کی مدد سے پلاسٹک کی تباہ کاری کو جانیں

    ان نشانات کی مدد سے پلاسٹک کی تباہ کاری کو جانیں

    ہم اپنی روز مرہ زندگی میں پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی پینے کے عادی ہیں۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے پانی رکھنے کا سب سے بہترین ذریعہ پلاسٹک کی بوتلوں کو سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان بوتلوں میں پانی پینا دراصل زہر پینے کے مترادف ہے۔ آپ بازار سے جو پانی کی بوتل خرید رہے ہیں، آپ کو نہیں علم کہ وہ کتنی پرانی ہے۔ زیادہ پرانی بوتلوں میں پلاسٹک کے ننھے ذرات جھڑ کر پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جو لا محالہ ہمارے جسم میں جاتے ہیں۔

    یہ خدشہ اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب یہ بوتلیں دھوپ یا تیز روشنی میں رکھی ہوں۔ اس صورت میں پلاسٹک کی نہایت معمولی مقدار پگھل کر پانی میں شامل ہوجاتی ہے۔ گو کہ یہ مقدار انتہائی معمولی ہوتی ہے لیکن یہ جسم میں جا کر خطرناک بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ایسا پلاسٹک جو کھایا جاسکتا ہے

    اسی طرح ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آپ کوئی پلاسٹک کی بوتل لیں تو اسے دبا کر دیکھیں۔ اگر اس میں سے کڑکڑاہٹ کی آواز آئے تو یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ بوتل کا پلاسٹک ٹوٹ پھوٹ رہا ہے اور اس کے ذرات پانی میں شامل ہورہے ہیں۔

    یوں تو ہر قسم کا پلاسٹک ہی تمام جانداروں کے لیے نقصان دہ ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ اقسام کے پلاسٹک میں شامل کیمیائی اجزا نہایت خطرناک ہوتے ہیں اور انہیں ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔

    دراصل پلاسٹک کی بوتلوں پر کچھ مخصوص نشانات بنے ہوتے ہیں جو مختلف علامتوں کے ذریعے یہ بتاتے ہیں کہ اس پلاسٹک کو کن اجزا سے بنایا گیا ہے۔ ویسے تو تمام ہی قسم کی پلاسٹک صحت کے لیے زہر قاتل ہے لیکن کچھ پلاسٹک کم نقصان دہ اور کچھ بہت زیادہ نقصان دہ ہیں۔
    symbols

    آئیے آپ بھی ان نشانات سے آگاہی حاصل کریں تاکہ اگلی بار پلاسٹک کی بوتل خریدنے سے پہلے آپ کو علم ہوسکے کہ کہیں آپ زہر تو نہیں خرید رہے۔


    پی ای ٹی یا پی ای ٹی ای

    یہ نشان عموماً پلاسٹک کی بوتلوں پر لکھا جانے والا نہایت عام نشان ہے کیونکہ پلاسٹک کی زیادہ تر اقسام (خصوصاً عام استعمال والی پلاسٹک) کو ایک ہی اجزا سے تیار کیا جاتا ہے۔

    p3

    یہ بوتلیں ایک ہی بار استعمال کے لیے موزوں ہوتی ہیں، اس کے بعد ان کا استعمال ترک کردینا چاہیئے۔ یہ پلاسٹک جراثیم کی افزائش کے لیے موزوں ماحول فراہم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس پلاسٹک میں شامل اجزا جسم میں جا کر ہارمونز کا نظام تباہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔


    ایچ ڈی پی یا ایچ ڈی پی ای

    ماہرین پلاسٹک کی اس قسم کو محفوظ ترین قسم قرار دیتے ہیں۔ یہ عموماً سخت پلاسٹک ہوتا ہے جس سے برتن، مختلف تیلوں کی بوتلیں، کھلونے وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔

    یہ پلاسٹک کسی قسم کے اجزا خارج نہیں کرتے تاہم اس مٹیریل سے بنی بہت زیادہ پرانی بوتلوں کا استعمال بھی محفوظ نہیں۔


    پی وی سی یا 3 وی

    یہ وہ پلاسٹک ہوتا ہے جو عموماً موڑا جا سکتا ہے اور اسے مختلف اشیا کو لپیٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دو نہایت زہریلے اجزا کو خارج کرتا ہے جو جسم کے ہارمونز کو شدید متاثر کرتا ہے۔

    pvc-2

    pvc

    ماہرین کی تجویز ہے کہ اس پلاسٹک کے استعمال سے گریز کیا جائے۔


    ایل ڈی پی ای

    یہ پلاسٹک بوتلیں بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ یہ کیمیائی اجزا خارج نہیں کرتا تاہم پھر بھی اسے استعمال کے لیے بالکل محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

    ایک اور سفید رنگ کا نیم شفاف پلاسٹک (پولی پروپلین) دواؤں کی بوتل یا فلیورڈ دہی کے کپ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ سخت اور وزن میں ہلکا ہوتا ہے۔ یہ قسم نسبتاً محفوظ کہی جاسکتی ہے کیونکہ یہ درجہ حرات کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور گرم ہونے پر پگھلتا نہیں۔

    اسی کیمیائی طریقے سے بنائی جانے والی پلاسٹک کی ایک اور قسم جسے پولی سٹرین کہا جاتا ہے، وزن میں ہلکی اور نہایت ارزاں ہوتی ہے۔

    ldpe-2

    ldpe

    اس سے وہ اشیا بنائی جاتی ہیں، جن میں آپ کو کسی ریستوران سے ’ٹیک اوے‘ کھانا دیا جاتا ہے۔ جیسے ڈسپوزایبل کپ، کھانے کے کنٹینر، یا چمچے وغیرہ۔ یہ تیز درجہ حرات پر پگھلنے لگتے ہیں لہٰذا یہ صرف ایک بار استعمال کے لیے ہی بہتر ہیں۔


    پی سی یا نان لیبلڈ پلاسٹک

    یہ پلاسٹک کی سب سے خطرناک قسم ہوتی ہے جو عموماً کھیلوں میں استعمال کی جانے والی پانی کی بوتلوں میں استعمال ہوتی ہے۔

    p4

    یہ قسم ری سائیکلنگ یا ری یوزنگ (دوبارہ استعمال) کے لیے بھی استعمال نہیں کی جاسکتی۔

    مضمون بشکریہ: برائٹ سائیڈ

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • کپڑے دھونا آبی حیات کی موت کا سبب، لیکن کیسے؟

    کپڑے دھونا آبی حیات کی موت کا سبب، لیکن کیسے؟

    کیا آپ جانتے ہیں ہمارے کپڑے دھوئے جانے کا عمل آبی حیات کی موت کا سبب بن سکتا ہے؟ اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ ہمیں خطرناک طور پر بیمار بھی کرسکتا ہے۔

    ہمارے کپڑے عموماً کچھ مخصوص مٹیریل سے بنتے ہیں جن میں نائلون، پولیسٹر، فلیس اور اسپینڈکس شامل ہیں۔ شاید آپ کو اس کا علم نہ ہو مگر ان تمام مٹیریلز کی تیاری میں پلاسٹک کا بڑا حصہ استعمال ہوتا ہے۔

    جب ہم واشنگ مشین میں کپڑوں کو دھوتے ہیں تو کپڑوں کے نہایت ننھے ننھے ذرات جھڑ کر پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جس کے بعد یہ سیوریج اور بعد ازاں ندی نالوں اور سمندروں میں جا پہنچتے ہیں۔

    یہ ذرات معمولی ذرات نہیں ہوتے۔ پلاسٹک سے بنے ہونے کی وجہ سے یہ ناقابل تحلیل ہوتے ہیں اور یہی آبی حیات کو خطرناک نقصانات حتیٰ کہ موت تک کا شکار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ذرات آبی حیات کے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں جس کے بعد یہ ہماری خوراک کا حصہ بھی بنتے ہیں۔

    سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ماحول میں موجود زہریلے عناصر ان پلاسٹک کے ننھے ذرات سے کسی مقناطیس کی طرح چمٹ جاتے ہیں جو ہمیں خطرناک بیماریوں میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک کے ننھے ننھے ذرات جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں میں شامل ہو کر اور مٹی میں شامل رہ کر ان کی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں جس کے بعد یہ ہر قسم کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پلاسٹک بیگز کی فروخت کے خلاف پنجاب اسمبلی میں تحریک التوا

    پلاسٹک بیگز کی فروخت کے خلاف پنجاب اسمبلی میں تحریک التوا

    لاہور: پنجاب اسملبی کے اجلاس میں پلاسٹک بیگز کی فروخت کے خلاف تحریک التوا جمع کروا دی گئی۔ تحریک التوا میں کہا گیا کہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز سیوریج نظام کے لیے تباہ کن اور آبی حیات کے لیے جان لیوا ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی رکن سعدیہ سہیل رانا نے پنجاب اسملبی کے اجلاس کے دوران پلاسٹک بیگز کی فروخت کے خلاف تحریک التوا جمع کروائی۔

    تحریک التوا کے متن میں کہا گیا کہ ماحول دشمن شاپنگ بیگز پر پابندی آج تک یقینی نہ بنائی جا سکی۔ شاپنگ بیگز انسانی صحت کی خرابی کا باعث ہیں۔

    رکن صوبائی اسمبلی کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز سیوریج نظام کے لیے تباہ کن اور آبی حیات کے لیے جان لیوا ہیں۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک کا کچرا ہمارے ماحول کو تباہ کرنے والا سب سے خطرناک عنصر ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

     پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پلاسٹک کا کچرا دنیا کے گرد 425 تہیں بنانے کا سبب

    پلاسٹک کا کچرا دنیا کے گرد 425 تہیں بنانے کا سبب

    پلاسٹک کا کچرا ہمارے ماحول کو تباہ کرنے والا سب سے خطرناک عنصر ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حال ہی میں عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار نے کئی خوفناک حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں 5 کھرب پلاسٹک کی اشیا موجود ہیں۔ ان سب کا اگر وزن کیا جائے تو یہ 2 لاکھ 68 ہزار ٹن بنتا ہے۔

    پلاسٹک کے اس تمام کچرے کو اگر ایک قطار میں رکھا جائے تو یہ پوری دنیا کے گرد 425 تہیں بنا سکتا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی اقتصادی فورم نے دنیا بھر کے سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کی تعداد پیش کی جسے جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔

     عالمی اقتصادی فورم کے مطابق جنوبی بحر اوقیانوس میں پلاسٹک کے 297 ارب ٹکڑے موجود ہیں۔

    جنوبی بحر الکاہل میں 491 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے پھینکے گئے ہیں۔

    شمالی بحر اوقیانوس میں 930 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے سمندر کو آلودہ کیے گئے ہیں۔

    بحرہ ہند میں 1 اعشاریہ 3 کھرب پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔

    سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانیہ پلاسٹک کی آلودگی ختم کرنے کے لیے کوشاں

    برطانیہ پلاسٹک کی آلودگی ختم کرنے کے لیے کوشاں

    دنیا بھر میں پلاسٹک کا استعمال ماحول، جنگلی حیات اور انسانی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہورہا ہے جس کے خوفناک اثرات دن بدن سامنے آتے جا رہے ہیں۔

    نصف سے زائد کرہ ارض کو پلاسٹک سے آلودہ کرنے کے بعد اب انسان کو خیال تو آیا ہے کہ اس آلودگی سے چھٹکارا پایا جائے تاہم بدقسمتی سے ہماری زندگیوں میں پلاسٹک کا استعمال اس قدر عام ہوچکا ہے کہ ہم معمولی سے کام کے لیے بھی پلاسٹک کی تھیلیوں کے محتاج ہیں۔

    تاہم دنیا کے کئی ممالک پلاسٹک کے استعمال کو ختم یا کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں جس میں برطانیہ سرفہرست ہے۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی آلودگی ختم کرنے کے لیے برطانیہ قابل تقلید اقدامات کر رہا ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں وہ کیا اقدامات ہیں۔

    ملکہ برطانیہ کی خصوصی توجہ

    برطانیہ کی ملکہ الزبتھ نے کچھ عرصہ قبل برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم دیکھی جس میں پلاسٹک کی تباہ کاری کو دکھایا گیا تھا۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد ملکہ بے حد متاثر ہوئیں اور انہوں نے پلاسٹک کے استعمال کو کم سے کم کرنے کا حکم شاہی جاری کردیا۔

    ملکہ کے حکم کے بعد برطانوی شاہی محل بکنگھم پیلیس میں طعام کے دوران پلاسٹک کے اسٹراز اور بوتلوں کا استعمال بند کردیا گیا ہے۔

    علاوہ ازیں محل کا عملہ ایسی اشیا کو زیر استعمال لانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جو زمین میں باآسانی تلف ہوسکیں اور کچرا پھیلانے کا سبب نہ بنیں۔

    ریستورانوں میں پلاسٹک کا کم استعمال

    برطانیہ کے کئی معروف ریستورانوں نے رواں برس پلاسٹک کے استعمال کو کم سے کم کرنے کا عزم کیا ہے جس کے بعد بہت جلد یہ ریستوران اپنے گاہکوں کو پلاسٹک کے برتنوں میں سرونگ کرنا بند کردیں گے۔

    اسکاٹ لینڈ ایک قدم آگے

    ایک طرف جہاں اس آلودگی کو ختم کرنے کے لیے انفرادی طور پر کوششیں کی جارہی ہیں وہیں برطانیہ کے زیر انتظام اسکاٹ لینڈ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پورے ملک میں پلاسٹک کے اسٹراز کے استعمال اور ان کے بنانے پر پابندی عائد کردی ہے۔

    مائیکرو بیڈز پر پابندی

    برطانیہ میں گزشتہ برس مائیکرو بیڈز پر پاندی عائد کی جاچکی ہے۔ مائیکرو بیڈز پلاسٹک کے ننھے ننھےذرات ہوتے ہیں جو کاسمیٹکس اشیا، ٹوتھ پیسٹ اور صابنوں میں شامل کیے جاتے ہیں۔

    چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں اور دریاؤں میں شامل ہو کر ان کی آلودگی میں اضافہ اور سمندری حیات کی بقا کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔

    معروف سپر مارکیٹ کا قابل تقلید اقدام

    برطانیہ کی ایک بڑی سپر مارکیٹ چین آئس لینڈ گزشتہ برس اس وقت دنیا بھر کی خبروں کا مرکز بن گئی جب اس نے اپنے اسٹورز کو پلاسٹک سے پاک بنانے کا اعلان کیا۔

    یہ چین فی الوقت پلاسٹک کی جگہ کاغذ کے تھیلے اور پھلوں کے گودے سے بنائے گئے کنٹینرز استعمال کر رہا ہے۔

    ایک معروف سپر مارکیٹ چین کے اس اقدام سے پلاسٹک کی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو تقویت ملی ہے اور دیگر چینز نے بھی اس بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • سال 2017: پلاسٹک خوردنی اشیا میں تبدیل

    سال 2017: پلاسٹک خوردنی اشیا میں تبدیل

    سال 2017 اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق اس شعبے میں یہ سال خوردنی اشیا کے نام رہا جس میں مختلف پھینک دی جانے والی چیزوں کو کھانے کے قابل بنایا گیا تاکہ کچرے کے ڈھیر میں بدلتی ہماری زمین پر دباؤ میں کچھ کمی آئے۔

    آئیں دیکھتے ہیں سائنسدانوں نے رواں برس کن اشیا کو خوردنی اشیا میں تبدیل کیا۔


    پانی کی گیند

    پانی کی فراہمی کا سب سے عام ذریعہ پلاسٹک کی بوتلیں ہیں جو زمین میں تلف نہ ہونے کے سبب شہروں کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کر رہا ہے۔

    ان بوتلوں سے نجات کے لیے کچھ ماہرین نے پانی کی گیندیں ایجاد کر ڈالیں۔ ان گیندوں کو ایک باریک جھلی کی صورت دائرے کی شکل میں تیار کیا گیا اور اس کے اندر پانی بھر دیا گیا۔

    پانی کی یہ گیندیں ویسے تو کھائی جاتی ہیں تاہم یہ پیاس بجھانے کا ضروری کام ہی سر انجام دیتی ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خوردنی گلاس

    انڈونیشیا میں سمندری گھاس سے خوردنی گلاس تیار کیے گئے جو پانی پینے کے کام آسکتے تھے۔ یہ گلاس نہ صرف کھانے کے قابل ہیں بلکہ اگر آپ انہیں پھینکنا چاہیں تو یہ بہت جلد زمین کا حصہ بن کر وہاں خودرو پودے بھی اگا سکتے ہیں۔


    الجی جیلی سے بنائی گئی بوتل

    آئس لینڈ میں ایک طالب علم نے الجی جیلی کو جما کر بوتلوں کی شکل دے دی۔ اسے اس شکل میں برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر کوئی سیال مادہ بھراجائے۔

    جیسے ہی اس کے اندر بھرا پانی یا سیال ختم ہوجاتا ہے یہ ٹوٹ جاتی ہے یا گل جاتی ہے۔ اب یہ پھینکنے کے بعد زمین میں نہایت آسانی سے اور بہت کم وقت میں تلف ہوجانے والی شے ہے۔


    کھانے والے اسٹرا

    کیا آپ جانتے ہیں امریکا میں ہر روز 5 کروڑ پلاسٹک کے اسٹرا مختلف جوسز پینے کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔ بظاہر معمولی سا پلاسٹک کا ٹکڑا دکھائی دینے والا یہ اسٹرا بھی کچرے کے ڈھیر میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔

    اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا میں سمندری گھاس سے اسٹرا تیار کرنے کا تجربہ کیا گیا جسے بے حد پذیرائی ملی۔ اس اسٹرا کو مختلف فلیورز سے بنایا جاتا ہے جس کے باعث لوگ جوس ختم کرنے کے بعد اس اسٹرا کو بھی نہایت مزے سے کھا لیتے ہیں۔


    کھانے والا ریپر

    دودھ کے پروٹین سے تیار کیے جانے والے باریک ریپر آکسیجن کو جذب نہیں کرسکتے لہٰذا اس کے اندر لپٹی چیز خراب ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔

    ان ریپرز کو مختلف اشیا کے ساشے پیکٹ، برگر کے ریپرز اور سبزیاں اور پھل محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ان ریپرز سے بنے ساشے کو کھولنے کے بجائے آپ پورا ریپر گرم پانی میں ڈال کر اپنی مطلوبہ شے تیار کرسکتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا سبز کرنسی دنیا کا مستقبل ثابت ہوگی؟

    کیا سبز کرنسی دنیا کا مستقبل ثابت ہوگی؟

    دنیا بھر میں جہاں بٹ کوائن کی مقبولیت میں بے حد اضافہ ہوتا جارہا ہے وہیں یورپی ملک نیدر لینڈز کے دارالحکومت ایمسٹر ڈیم میں سبز کوائن مقبولیت حاصل کر رہے ہیں جو کسی اور شے سے نہیں بلکہ پلاسٹک سے بنائے جارہے ہیں۔

    جی ہاں ہماری زمین کو کچرے کے ڈھیر میں بدلنے والے پلاسٹک کو نیدرلینڈز میں سبز کرنسی میں تبدیل کیا جارہا ہے جسے کئی مقامی کاروباری و تجارتی اداروں نے قبول کرنے کی حامی بھرلی ہے۔

    ایک فلاحی تنظیم کی جانب سے شروع کیے جانے والے اس پروجیکٹ کے تحت لوگوں کو سبز بیگز فراہم کیے جاتے ہیں جس میں وہ غیر ضروری پلاسٹک ڈال دیتے ہیں۔

    جب یہ پلاسٹک وہ اس تنظیم کے حوالے کرتے ہیں تو انہیں بدلے میں پلاسٹک کے سبز سکے دیے جاتے ہیں جو پلاسٹک ہی سے بنائے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: مستقبل کی سڑکیں پلاسٹک سے تعمیر ہوں گی

    یہ سکے مقامی دکانوں سے چھوٹی موٹی اشیا کی خریداری یا ڈسکاؤنٹ کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں مذکورہ علاقے کی 30 تجارتی کمپنیوں نے ان سکوں کو قبول کرنے کی حامی بھر لی ہے۔

    یہ پروجیکٹ پلاسٹک کے حوالے سے لوگوں کی سوچ بھی تبدیل کر رہا ہے۔

    سبز کوائن حاصل کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اب پہلے کی نسبت پلاسٹک کا استعمال کم کردیا ہے جبکہ وہ پلاسٹک کی استعمال شدہ اشیا کو ری سائیکل بھی کرنے لگے ہیں۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال 5 سے 14 ملین ٹن پلاسٹک صرف سمندروں میں پھینکا جاتا ہے۔ زمین پر جابجا پڑے پلاسٹک کے ڈھیر اس کے علاوہ ہیں۔

    ماہرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ پلاسٹک کی خطرناک آلودگی سے نمٹنے کے لیے یہ کہنا مشکل نہیں کہ مستقبل قریب میں یہ سبز سکے ہی دنیا کا مستقبل ہوں گے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔