Tag: plastic

  • رنگوں بھری افشاں سمندری آلودگی میں اضافے کا سبب

    رنگوں بھری افشاں سمندری آلودگی میں اضافے کا سبب

    آپ نے اکثر ایسی آرائشی اشیا دیکھی ہوں گی جنہیں رنگوں بھری چمکیلی افشاں یا گلیٹرز سے سجایا جاتا ہے۔ اگر آپ اپنے گھر میں ایسی آرائشی اشیا سجانے کے عادی ہیں تو جان لیں کہ آپ سمندروں میں آلودگی کی وجہ بن رہے ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے ان گلیٹرز کو سمندروں اور آبی حیات کے لیے سخت نقصان دہ قرار دیا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک کی طرح یہ گلیٹر بھی کسی صورت زمین یا پانی میں حل یا تلف نہیں ہوتے اور جوں کے توں موجود رہتے ہیں۔

    گلیٹرز کو پلاسٹک کی چھوٹی قسم یعنی مائیکرو پلاسٹک بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ فلٹر سے بھی باآسانی گزر جاتے ہیں۔

    سمندر میں جانے کے بعد یہ آبی حیات کی خوراک کا حصہ بن جاتے ہیں اور یوں ان کے جسم میں پلاسٹک جمع ہوتا رہتا ہے جو بالآخر ان کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی طرح گلیٹرز پر بھی پابندی عائد کی جائے تاکہ سمندری آلودگی میں کمی اور آبی حیات کی حفاظت کی جا سکے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کو کچرے کا ڈھیر بننے سے بچانے کے لیے کوشاں 10 سالہ طالبہ

    پاکستان کو کچرے کا ڈھیر بننے سے بچانے کے لیے کوشاں 10 سالہ طالبہ

    پاکستان اور خصوصاً شہر کراچی کچرے کا ڈھیر بنتا جارہا ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی میں بے حد اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم سرگودھا کی 10 سالہ غیر معمولی بچی اپنے ملک کو صاف ستھرا بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

    صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا سے تعلق رکھنے والی 10 سالہ زیمل عمر نے صرف 6 سال کی عمر میں اپنے ارد گرد موجود گندگی اور کچرے کو دیکھ کر بے زاری اور کراہیت کا اظہار کرنا شروع کردیا۔

    آہستہ آہستہ اسے احساس ہوا کہ یہ مسئلہ صرف اس کے علاقے یا شہر کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہے، اور تب ہی اس نے اپنے ننھے ہاتھوں سے اس کچرے کے ڈھیر کی صفائی کرنے کا عزم کیا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر کچرے کی نئی تہہ

    ننھی سی زیمل کو یہ معلومات بھی بہت جلد ہوگئیں کہ پلاسٹک کی تھیلیوں میں پھینکا جانے والا کچرا ہی اصل مسئلے کی جڑ ہے کیونکہ پلاسٹک زمین میں تلف نہیں ہوتا اور یہی بڑے پیمانے پر کچرا پھیلانے کا سبب بنتا ہیں۔

    وہ کہتی تھی، ’لوگ ان کا بہت بے دردی کے ساتھ استعمال کر کے انہیں پھینک دیتے ہیں اور انہیں دوبارہ استعمال کرنے کا نہیں سوچتے‘۔

    زیمل کے ننھے ذہن نے اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کا حل سوچنا شروع کیا اور تب ہی اس کے ذہن میں پرانے اخبارات کا خیال آیا۔

    آپ جانتے ہوں گے کہ کاغذ درختوں سے حاصل کی جانے والی گوند سے بنتے ہیں اور اخبارات کے لیے استعمال ہونے والے اخبارات ایک سے 2 بار استعمال کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔

    زیمل نے انہی اخبارات سے کچرے کے بیگز بنانے کا سوچا۔ ’زی بیگز‘ کے نام سے یہ کاغذی تھیلے بہت جلد لوگوں میں مقبول ہوگئے اور اس کی انتہائی کم قیمت کی وجہ سے لوگوں نے انہیں خریدنا بھی شروع کردیا۔

    اب جبکہ زیمل اپنی تعلیم کے فقط ابتدائی مراحل میں ہی ہے، وہ ابھی سے لوگوں میں تحفظ ماحول اور آلودگی سے بچنے کا شعور پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

    زیمل بتاتی ہے کہ اسکول کے ساتھ بیگز بنانے کا کام نہایت مشکل ہے چنانچہ یہ کام وہ صرف ویک اینڈ کو انجام دیتی ہے اور اس میں اس کے اہلخانہ اور کزنز بھی اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

    اس کم عمر ترین سماجی انٹر پرینیئور کو اب تک پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں 2 ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

    زیمل اپنے کام اور آگاہی مہم کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلانا چاہتی ہے اور اس کے لیے بے حد پرعزم ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ زیمل کاغذی تھیلوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو بھی غریب بچوں میں تقسیم کردیتی ہے۔

    کچرے کے نقصانات کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پینے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجانے والی پانی کی بوتل

    پینے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجانے والی پانی کی بوتل

    کیا آپ نے پانی کی کسی ایسی بوتل کا تصور کیا ہے جو آپ کے پانی پینے کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی جائے؟

    آئس لینڈ کے ایک طالبعلم ایری جانسن نے ایک ایسی بائیو ڈی گریڈ ایبل یعی زمین میں تلف ہوجانے والی پانی کی بوتل بنائی ہے جو پانی کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی جائے گی۔

    یہ بوتل الجی جیلی سے بنائی گئی ہے جسے جما کر بوتل کی شکل میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ اسے اس شکل میں برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر کوئی سیال مادہ بھراجائے۔

    تاہم جیسے ہی اس کے اندر بھرا پانی یا سیال ختم ہوجاتا ہے یہ ٹوٹ جاتی ہے یا گل جاتی ہے۔ اب یہ پھینکنے کے بعد زمین میں نہایت آسانی سے اور بہت کم وقت میں تلف ہوجانے والی شے ہے۔

    یاد رہے کہ پانی کے لیے استعمال ہونے والی پلاسٹک کی بوتلوں کو تلف کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ یہ زمین اور پانی کے اندر کچرے کے ڈھیر کی صورت میں جمع ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک کی اشیا موجود ہوں گی۔

    تو کیا آپ اس کچرے کو کم کرنے کے لیے اس انوکھی بوتل میں پانی پینا چاہیں گے؟

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان میں پلاسٹک کھانے والی پھپھوندی دریافت

    پاکستان میں پلاسٹک کھانے والی پھپھوندی دریافت

    اسلام آباد: وطن عزیز کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایسی پھپھوندی دریافت ہوئی ہے جو پلاسٹک کو کھا سکتی ہے۔

    وفاقی دارالحکومت کے ایک کچرے کے ڈھیر سے اتفاقاً دریافت ہونے والی اس پھپھوندی کا نام اسپرگلس ٹیوبی جینسس ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ زمین میں تلف نہ ہوسکنے والی پلاسٹک کو چند ہفتوں میں توڑ سکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ دریافت دراصل اس پھپھوندی کی نہیں، بلکہ اس کی پلاسٹک کھانے والی خاصیت کی ہے جو حال ہی میں دریافت ہوئی ہے۔

    مذکورہ پھپھوندی پلاسٹک کے مالیکیولز کو توڑ کر انہیں الگ کردیتی ہے جس کے بعد ان کی تلفی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ یہ عموماً مٹی میں پائی جاتی ہے اور اکثر اوقات پلاسٹک کی اشیا کے اوپر ملتی ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ اس پھپھوندی کو پانی میں اور زمین پر کچرے کے ڈھیر کی صورت میں موجود پلاسٹک کی اشیا کو تلف کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    اس سے قبل برطانوی ماہرین نے بھی ایسی سنڈی دریافت کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو پلاسٹک کو کھا سکتی تھی۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق سنہ 2014 میں 31 کروڑ ٹن سے بھی زائد پلاسٹک بنایا گیا۔

    پلاسٹک خصوصاً اس سے بنائی گئی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    پلاسٹک کے ان نقصانات سے آگاہی ہونے کے بعد دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں آہستہ آہستہ اس پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • روانڈا جیسے ملک میں بھی ایئرپورٹ پر مسافروں کی سخت چیکنگ

    روانڈا جیسے ملک میں بھی ایئرپورٹ پر مسافروں کی سخت چیکنگ

    امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک میں ایئرپورٹ پر بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کی سخت چیکنگ تو ایک معمول کی بات بن گئی ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں مشرقی افریقہ کا ملک روانڈا بھی اپنے ملک میں آںے والے افراد کی نہایت سخت چیکنگ کرتا ہے؟

    اگر کبھی آپ کا روانڈا جانے کا اتفاق ہو تو ایئرپورٹ پر اترتے ہی آپ کے سامان کی نہایت سخت چیکنگ کی جائے گی۔ اس لیے نہیں کہ کہیں آپ اسلحہ یا منشیات اپنے ساتھ نہ لیے جا رہے ہوں، بلکہ اس لیے کہ کہیں آپ کے سامان میں پلاسٹک بیگ تو موجود نہیں۔

    جی ہاں، روانڈا میں پلاسٹک کی تھیلیاں اپنے ساتھ رکھنا یا استعمال کرنا نہایت سخت جرم ہے۔

    روانڈا میں سنہ 2008 میں پلاسٹک پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ یہ فیصلہ ملک میں شدید گندگی اور آبی آلودگی کو دیکھتے ہوئے کیا گیا۔

    روانڈا کے وزیر برائے قدرتی وسائل ونسنٹ بروٹا نے ایک بار عالمی اقتصادی فورم میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس پابندی سے عام لوگوں کو کوئی مسئلہ نہیں تھا، مسئلہ ان لوگوں کو تھا جو پلاسٹک بنانے کی صنعت سے وابستہ تھے۔

    انہوں نے بتایا، ’ان لوگوں نے اس کے خلاف شکایات کیں اور احتجاج بھی کیا، لیکن وقت کے ساتھ انہیں بھی معلوم ہوگیا کہ پلاسٹک پر پابندی سے ہمیں زیادہ فوائد حاصل ہوئے بہ نسبت پلاسٹک کو استعمال کرنے سے‘۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے بے تحاشہ استعمال کے باعث سنہ 2050 تک سمندر میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کینیا میں پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد

    کینیا میں پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد

    نیروبی: افریقی ملک کینیا میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا اور جرمانے کا سامنا کرنا ہوگا۔

    یہ فیصلہ اس عدالتی درخواست کے بعد سامنے آیا ہے جس میں پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ تاجروں نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی کہ پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے سے ان کے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے۔

    تاہم عدالت نے درخواست کو رد کرتے ہوئے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا اصولی فیصلہ جاری کردیا۔

    گو کہ اس سے قبل کئی ممالک پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کر چکے ہیں تاہم کینیا اس حوالے سے قابل تعریف ہے کہ یہاں خلاف ورزی کی صورت میں 32 ہزار یورو کا جرمانہ جبکہ 4 سال قید کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات کا کہنا ہے کہ کینیا کی سپر مارکیٹس میں سالانہ 10 کروڑ تھیلیاں استعمال ہوتی تھیں۔ اب اقوام متحدہ نے کینیا کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔

    یاد رہے کہ کینیا کی حکومت 6 ماہ قبل اس پابندی کا اعلان کر چکی تھی اور پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ افراد اور استعمال کندگان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ماحول دوست بیگز کا استعمال شروع کردیں۔

    اس قانون کے مکمل طور پر اطلاق کے روز متعدد مقامات پر اس وقت شدید افراتفری کی صورتحال سامنے آئی جب دکانداروں نے اپنے گاہکوں کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سامان دینے سے انکار کردیا اور ان سے کہا کہ وہ اپنا سامان ہاتھوں میں اٹھا کر لے جائیں۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    کراچی: صوبہ سندھ کے ساحلی دارالحکومت کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کی بہتات نے ایک اور نایاب نڈل مچھلی کی جان لے لی۔ مچھلی سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق نایاب نڈل فش پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    ماہی گیروں نے پھنسی ہوئی مچھلی کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نہ سکی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک نے ایک طرف تو سمندر کو آلودہ ترین کردیا ہے، دوسری جانب مختلف آبی حیات کو نہایت خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کھانے پینے کی اشیا کا پلاسٹک ریپر سمندر میں بہا دیتے ہیں جس کے باعث سمندر آہستہ آہستہ پلاسٹک کے سمندر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کراچی کے ساحل پر 200 کلومیٹر تک پلاسٹک کا کچرا پھیلا ہوا ہے۔

    یہ پلاسٹک آبی حیات کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اکثر مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اس پلاسٹک کو نگل لیتے ہیں جو ان کے جسم میں رہ جاتی ہے، جس کے بعد ان کا جسم پھولنے لگتا ہے، بھوک لگنے کی صورت میں وہ کچھ بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ پلاسٹک ان کے معدے کی ساری جگہ گھیر چکا ہوتا ہے۔

    یوں آہستہ آہستہ وہ بھوک اور پلاسٹک کے باعث ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں بھی پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    اس صورت میں اگر یہ پلاسٹک ان کے نظام تنفس کو متاثر کرے تو یہ پلاسٹک میں پھنسنے کے باعث بھی مرجاتے ہیں جیسے کراچی کی اس نڈل مچھلی کے ساتھ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں براہ راست پھینکے جانے والے پلاسٹک کے علاوہ، زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا بھی 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پلاسٹک کھانے والی سنڈی دریافت

    پلاسٹک کھانے والی سنڈی دریافت

    لندن: برطانوی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک ایسی سنڈی دریافت کی ہے جو پلاسٹک کو کھا سکتی ہے۔

    برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے محققین کے مطابق یہ سنڈی شہد کی مکھی کے چھتے سے موم کھاتی ہے اور جب اس پر تجربات کیے گئے تو اس سنڈی نے پلاسٹک کی کیمیائی ساخت کو توڑ کر باآسانی اسے ہضم کرلیا۔

    تاہم یہ عمل اتنا بھی آسان نہیں تھا اور گیلیریا مولونیلا نامی اس سنڈی کو پلاسٹک کی تھیلی میں سوراخ کرنے میں 40 منٹ کا وقت لگا۔

    ماہرین کے مطابق یہ سنڈی دنیا بھر میں پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

    تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف نقطہ آغاز ہے اور وہ پلاسٹک کو تلف کرنے کے لیے بدستور کسی تکنیکی حل کی تلاش میں ہیں۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    ہر سال دنیا بھر میں 8 کروڑ ٹن پلاسٹک کی تھیلیاں بنائی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: پلاسٹک کی آمیزش کی وجہ سے کاغذ کا کپ گلنا مشکل

    پلاسٹک کی یہ تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    پلاسٹک کے ان نقصانات سے آگاہی ہونے کے بعد دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں آہستہ آہستہ اس پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ 

  • بلوچستان میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد

    بلوچستان میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد

    کوئٹہ: صوبہ بلوچستان کی اسمبلی میں پلاسٹک کی تھیلیوں کی فروخت، استعمال اور پیداوار پر پابندی کا بل منظور کرلیا گیا جس کے بعد اب اگلے ماہ سے صوبے بھر میں پلاسٹک کی تھیلیاں ممنوع قرار دے دی جائیں گی۔

    بلوچستان اسمبلی میں مذکورہ بل وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات سردار رضا محمد نے پیش کیا جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

    بل کی منظوری کے بعد صوبائی ایجنسی برائے تحفظ ماحولیات ای پی اے نے بھی پابندی کا باقاعدہ نوٹی فیکیشن جاری کردیا ہے۔

    صوبے میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا اطلاق 15 مئی سے ہوگا۔ یہ اقدام ماحولیات کے تحفظ اور لوگوں کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھایا گیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق حکومتی عہدیداران اس سے قبل ہی پلاسٹک کی پیداوار اور کاروبار سے منسلک افراد اور اداروں پر زور دے رہے تھے کہ وہ پلاسٹک کی تھیلیوں کے بجائے ماحول دوست بیگز کی تیاری پر کام کریں۔

    جس کے بعد کاروباری افراد نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اس معاملے میں یورپی ممالک کی تقلید کرتے ہوئے اور ان کی تکنیکوں کو اپناتے ہوئے اس پر کام کریں گے۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    پلاسٹک کے ان نقصانات سے آگاہی ہونے کے بعد دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں آہستہ آہستہ اس پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سال 2016: ماحول کو بچانے کے لیے ہم نے کیا کیا؟

    سال 2016: ماحول کو بچانے کے لیے ہم نے کیا کیا؟

    جیسے جیسے دنیا میں قدرتی آفات و مختلف موسمیاتی عوامل سامنے آرہے ہیں ویسے ویسے ماحولیات کا تحفظ اور موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے بارے میں آگاہی بڑھتی جارہی ہے۔

    تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ مستقبل قریب میں ہمیں کلائمٹ چینج کے باعث جن شدید خطرات کا سامنا ہوگا، ان کے مقابلے میں ہمارے اقدامات نہایت معمولی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کو ہنگامی بنیادوں پر کلائمٹ چینج کے اثرات سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، بصورت دیگر یہ دنیا کی ترقی، امن اور فلاح کے لیے دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔

    رواں برس پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس سلسلے میں کیا کیا اقدامات کیے گئے، اور دنیا نے مزید کن ماحولیاتی خطرات کا سامنا کیا، آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    پاکستان ۔ کلائمٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں سے ایک

    جنوری تا جون

    پاکستانی پارلیمنٹ مکمل طور پر شمسی توانائی پر انحصار کرنے والی دنیا کی پہلی پارلیمنٹ بن گئی۔

    مارچ میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے سرسبز پاکستان پروگرام کی منظوری دی جس کے تحت ملک بھر میں 5 سال کے اندر 10 کروڑ درخت لگانے کا ہدف رکھا گیا۔

     وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) نے قومی پالیسی برائے جنگلات کا حتمی مسودہ تیار کر کے مشترکہ مفادات کونسل کو ارسال کردیا۔ مسودہ تاحال منظوری کا منتظر ہے۔

    وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ اور افزائش کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی۔

    پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے 3 سابق فوجی افسران نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی جس میں تجویز دی گئی کہ تینوں ممالک مل بیٹھ کر کلائمٹ چینج سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے پائیدار منصوبوں پر کام کریں اور علاقائی تعاون میں اضافہ کریں۔

    انہوں نے متنبہ کیا کہ دوسری صورت میں یہ تینوں ممالک آپس میں مختلف تنازعوں کا شکار ہوجائیں گے جس سے ان 3 ممالک میں بسنے والے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

    جولائی تا دسمبر

     وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے مطابق شمالی علاقوں میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا جس کے باعث چترال اور گلگت بلتستان کے کچھ حصوں میں 5000 کے قریب گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئے۔

    مقامی افراد کے مطابق برفانی پہاڑی علاقوں میں گرمی میں درجہ حرارت 30 سے اوپر کبھی نہیں گیا لیکن رواں برس یہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔

    ڈپٹی کمشنر تھر پارکر ڈاکٹر شہزاد تھیم نے تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد کردی۔

     کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے شہر میں ماحول دشمن درخت کونو کارپس کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی۔

    وفاقی حکومت نے شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لیے نصب مانیٹرنگ سسٹم پر 8.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا۔

    رواں سال پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں بدترین دھند دیکھی گئی جسے ماہرین نے اسموگ قرار دیا۔ عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق لاہور میں زہریلی اسموگ کی وجہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کا جلایا جانا تھا جو ایک غیر معمولی عمل تھا۔

    اس فوگ کی وجہ سے مختلف حادثات میں پنجاب میں 15 سے زائد افراد ہلاک بھی ہوئے۔

    لاہور ہائیکورٹ نے بھی حکومت سے اسموگ کے حوالے سے حفاظتی اقدامات اور آگاہی مہم کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    پاکستان نے انسداد ماحولیاتی نقصانات کے لیے طے کیے جانے والے معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل کی توثیق کردی جس کے بعد پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا جو دنیا بھر کو موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے نقصانات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات پر عمل کریں گے۔

    پنجاب کے ضلع لیہ کے نواحی علاقے بکھری احمد کے مقام پر دریائے سندھ نے آگے بڑھنا شروع کردیا جس کے بعد ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ دریا کے آگے بڑھنے کے باعث اس مقام پر تیزی کے ساتھ زمین کا کٹاؤ جاری ہے اور زمین دریا برد ہورہی ہے۔

    وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج زاہد حامد نے اعلان کیا کہ پاکستان بہت جلد دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی کا پارک قائم کرنے والا ہے جس سے 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔

    برطانوی باکسر عامر خان نے سندھ کے صحرائی علاقے تھر پارکر میں 200 کنویں بنانے کا اعلان کیا۔

    وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر نایاب پرندے تلور اور ہجرت کر کے آنے والے دیگر پرندوں کے تحفظ و افزائش نسل کے لیے 25 کروڑ روپے جاری کردیے گئے۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے مقامی حکومت نے پانی ضائع کرنے والے گھروں پر جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

    ٹھٹھہ اور بلوچستان کے ساحل پر غیر معمولی جسامت کی جیلی فش دیکھی گئی جو اس سے قبل پاکستان میں کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔

    عالمی ادارے جرمن واچ نے گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس 2017 جاری کیا جس میں کلائمٹ چینج سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان کو ساتویں نمبر پر رکھا گیا۔

    رواں برس آخری عشرے میں تلور کا شکار بھی موضوع بحث رہا۔ قطر سے آنے والے شہزادوں نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں دل بھر کر تلور کا شکار کیا۔ ان کے جانے کے بعد بھی انہیں شکار کی اجازت دینے کا معاملہ مختلف اداروں اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کے درمیان کھینچا تانی کا سبب بن رہا ہے۔

    سائنس آف دی ٹوٹل انوائرنمنٹ نامی جریدے میں شائع کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں رہنے والی 40 فیصد آبادی پارے (مرکری) کی آلودگی اور اس کے نقصانات کے خطرے کا شکار ہے۔

    دنیا نے کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟

    جنوری تا اپریل

    یورپین خلائی ایجنسی نے ماحولیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے سیٹلائٹ لانچ کردیا۔

    کینیا میں ہاتھیوں کے تحفظ کے لیے قائم کیے جانے والے فورم ’جائنٹ کلب‘ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں شرکا کی جانب سے زور دیا گیا کہ ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت پر فوری پابندی عائد کی جائے۔

    مئی تا اگست

    متحدہ عرب امارات کی حکومت نے بارشوں میں اضافے کے لیے مصنوعی پہاڑ بنانے کا فیصلہ کیا۔

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل مکمل طور پر معدوم ہوگئی جس کی سائنسدانوں نے تصدیق کردی۔ یہ کلائمٹ چینج کے باعث معدوم ہونے والا پہلا ممالیہ ہے۔

    دوسری جانب معدومی کے خطرے کا شکار جانداروں کے تحفظ کے لیے نہایت منظم اقدامات اٹھائے گئے جن کے باعث چین میں خطرے کا شکار پانڈا، اور کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، معدومی کے خطرے کی زد سے باہر نکل آئے۔

    دنیا بھر میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا جس کے بعد عالمی خلائی ادارے ناسا نے متنبہ کیا کہ جنگلات میں لگنے والی آگ کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔

    آسٹریلیا کے حکومتی سائنسی ادارے کے مطابق آسٹریلیا نے اپنے جغرافیہ میں ایک میٹر کی تبدیلی کرلی۔

    ماہرین کے مطابق آسٹریلیا اپنی ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے ہر سال 7 سینٹی میٹر شمال کی جانب حرکت کر رہا ہے اور سنہ 2020 تک اس کے جغرافیے میں 1.8 میٹر کی تبدیلی ہوچکی ہوگی۔

    ناروے دنیا کا وہ پہلا ملک بن گیا جہاں ملک بھر میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد کردی گئی۔

    قطب شمالی اور گرین لینڈ میں برف گلابی ہونا شروع ہوگئی۔ قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

    ستمبر تا دسمبر

    امریکی صدر بارک اوباما نے بحرالکاہل میں قائم کی گئی سمندری جانداروں کی حفاظتی پناہ گاہ (ریزرو) کو وسیع کرنے کے منصوبے کی منظوری دی جس کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی آبی پناہ گاہ بن جائے گی۔ یہاں 7000 آبی جاندار رکھے گئے ہیں جن میں معدومی کے خطرے کا شکار ہوائی کی مونگ سگ ماہی اور سیاہ مونگے شامل ہیں۔

    امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے دور میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بے شمار اقدامات کیے اور جانے سے قبل انہوں نے کلائمٹ چینج کو سیاسی ایجنڈے میں شامل کرلیا تھا۔

    انڈونیشیا میں علمائے دین نے جنگل میں جان بوجھ کر لگائی جانے والی آگ کے خلاف فتویٰ جاری کرتے ہوئے اسے حرام قرار دے دیا۔

    عالمی عدالت برائے انصاف نے ماحولیاتی نقصانات سے متعلق کیسوں کی سماعت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    فرانس نے ملک بھر میں پلاسٹک سے بنے برتنوں جیسے کپ، پلیٹ اور کانٹوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    سنہ 1975 میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف منظور ہونے والے معاہدے سائٹس کی کانفرنس میں مختلف ممالک نے دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی تجارت کے شکار جانور پینگولین اور دنیا سے تیزی سے ختم ہوتے روز ووڈ درخت کے کاٹنے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

    برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ دنیا کے برفانی خطے قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کلائمٹ چینج کے باعث وہاں موجود برف پگھل رہی ہے اور اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔

    سات نومبر کو مراکش میں ماحولیات کی عالمی سالانہ کانفرنس کوپ 22 کا آغاز ہوا۔ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں تاریخی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد رواں برس کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے اقدامات اٹھانا تھا۔

    نو نومبر کو امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخاب جیت کر نئے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کی فتح نے دنیا بھر میں ماحولیات کی بہتری کے لیے کیے جانے والے کاموں پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔

    صدر ٹرمپ کا انتخابی منشور ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں کئی بار کلائمٹ چینج بھی کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے تھے۔

    عالمی ادارہ تجارت ڈبلیو ٹی او نے فیصلہ کیا کہ وہ اب دنیا بھر میں ماحول دوست مصنوعات پر سرمایہ کاری کرے گا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں 24 اہم موسمیاتی مظاہر کا ذکر کیا گیا جو کرہ ارض پر آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرے کو ظاہر کرتے ہیں۔

    ایسے موسمیاتی مظاہر کا اس سے پہلے تصور بھی ناممکن تھا۔

    سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ایک ایسی شارک کو حرکت کرتے دیکھا گیا جس کے بارے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ ڈائنو سارز سے بھی پہلے سے ہماری زمین پر موجود ہے۔

    اب تک اس شارک کو کسی نے نہیں دیکھا تھا جس کے باعث یہ شارک ایک تخیلاتی حیثیت اختیار کر گئی تھی اور اس کے بارے میں مصدقہ طور پر نہیں کہا جاسکتا تھا کہ آیا یہ موجود ہے بھی یا نہیں۔

    فرانس میں دنیا کی پہلی سولر ہائی وے کا افتتاح کردیا گیا۔

    دنیا کے سب سے گرم ترین صحرا، براعظم افریقہ کے صحرائے اعظم میں 37 سال بعد برفباری ہوئی۔

    رواں برس دنیا بھر میں فضائی آلودگی میں بھی خطرناک اضافہ دیکھا گیا اور پیرس، میڈرڈ، تہران، نئی دہلی اور لاہور وغیرہ میں تاریخ کی بلند ترین فضائی آلودگی کی شرح ریکارڈ کی گئی۔