Tag: pm-theresa-may

  • برطانوی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور

    برطانوی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی حکومت مشکل میں پھنس گئی،  پارلیمنٹ میں تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوگئی، جس پر آج ووٹنگ ہوگی، پاکستانی نژاد ساجد جاوید کو وزارت عظمیٰ کےلیے اہم امیدوار قرار دیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کے بریگزٹ معاہدے پر ایم پیز کو 11 دسمبر کو حق رائے دہی استعمال کرنا تھا تاہم ووٹنگ منسوخ ہوگئی۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کے 48 ایم پیز نے درخواستیں جمع کروا دی، جس میں تھریسامے کی حمایت ختم کرنے کا اعلان گیا ہے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ درخواستیں جمع کروانے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے تاہم ذرائع کے مطابق کابینہ اراکین سمیت دیگر کا کہنا ہے کہ 48 افراد نے درخواستیں جمع کرو ائی ہے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگر تھریسامے بریگزٹ معاہدے کو پارلیمنٹ سے منظور کروانے میں ناکام رہی تو حکمران جماعت کو پارٹی کے نئے سربراہ کا انتخاب کرنا پڑے گا جو آئندہ کا وزیر اعظم بھی بن جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے مختلف رہنماؤں کے نام لیڈڑ شپ اور وزارت داخلہ کے لیے سامنے آرہے ہیں جس میں موجودہ وزیر داخلہ ساجد جاوید کو وزارت عظمیٰ کے لیے اہم امیدوار قرار دیا جارہا ہے۔

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے 48 سالہ پاکستانی نژاد ساجد جاوید کو رواں برس اپریل میں برطانوی وزارت داخلہ کا قلم دان سونپا تھا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق کہ پاکستانی نژاد ساجد جاوید اس سے قبل برطانیہ کی لوکل گورنمنٹ، ہاوسز کے وفاقی وزیر تھے۔ ساجد جاوید سنہ 2010 سے برطانوی پارلیمنٹ کا حصّہ ہیں۔ وہ ساجد جاوید برطانیہ کے سابق انویسٹمنٹ بینکر، اور برومزگرو سے ایم پی منتخب ہوکر وزیر برائے بزنس اور ثقافت بھی رہ چکے ہیں۔

    برطانیہ کی کنزرویٹیو پارٹی کے رکن اور نو منتخب وزیر داخلہ ساجد جاوید پاکستانی بس ڈرائیور کے بیٹے ہیں جو سنہ 1960 میں اہل خانہ کے ہمراہ برطانیہ منتقل ہوگئے تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ بریگزٹ سے متعلق ملتوی ہونے والی رائے شماری آئندہ برس 21 جنوری سے پہلے ہونی ہے۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کردی

    یاد رہے کہ ایک روز قبل برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا ووٹنگ ملتوی کرنے سے قبل اپنے بیان میں کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ معاہدے کو مسترد کیے جانے پر ان کی حکومت ختم اور اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی اقتدار میں آسکتی ہے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے 2016 میں اقتدار میں آنے کے ایک ماہ بعد سے برطانیہ میں سب سے بڑے بحران کا سامنا کررہی ہیں۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی قوم نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دئیے تھے۔

  • کسی کوحق نہیں وہ عورت کے لباس پر تنقید کرے، برطانوی وزیراعظم

    کسی کوحق نہیں وہ عورت کے لباس پر تنقید کرے، برطانوی وزیراعظم

    لندن : برطانوی وزیراعظم تھریسامے مسلمان خواتین کے حق میں بول پڑیں اور سابق  برطانوی وزیر خارجہ  سے معافی کا مطالبہ کردیا اور کہا کہ کسی کو حق نہیں وہ عورت کے لباس پر تنقید کرے۔

    تفصیلات کے مطابق برقع پہننے والی خواتین پر طنز کے بعد سابق برطانوی وزیر خارجہ مشکل میں پھنس گئے، برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کسی کوحق نہیں وہ عورت کے لباس پر تنقید کرے۔

    تھریسامے کا سابق وزیر خارجہ کے آرٹیکل کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہنا تھا کہ بورس جونسن نے جو زبان استعمال کی وہ قابل مذمت ہے انہیں معافی مانگنی چاہیے۔

    اس سے قبل پارلیمانی سیشن میں بھی سابق وزیر خارجہ کے بیان کی مذمت کی گئی، سعیدہ وارثی نے کہا بورس جونسن کا اشتعال انگیز بیان سیاسی چال ہے۔

    گذشتہ روز کنزرویٹو پارٹی مسلم فورم کے بانی لارڈ شیخ نے وزیراعظم تھریسامے سے مطالبہ کیا تھا کہ سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کی جانب سے مسلمان خواتین کی توہین کرنے پر صرف معافی مانگنا کافی نہیں ہے بلکہ انہیں پارٹی سے نکال دینا چاہیئے۔


    مزید پڑھیں : مسلم خواتین برقعہ پہن کر لیٹر بکس کی طرح نظر آتی ہیں، بورس جانسن کی ہرزہ سرائی


    بورس جونسن اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انھوں نے معافی مانگنے سے بھی انکار کردیا ہے۔

    بورس جونسن نے کہا تھا کہ ڈنمارک کی جانب سے سڑکوں پر برقعہ یا نقاب اوڑھنے پر جرمانے عائد کرنا غلط ہے اور باپردہ مسلمان خواتین کو لیٹر باکس سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا موازنا بینک لوٹنے والوں اور باغی نوجوانوں سے کیا جاسکتا ہے۔