Tag: PMA

  • پی ایم اے پاسنگ آؤٹ پریڈ: باصلاحیت افسران کے لیے اعزازی شمشیر

    پی ایم اے پاسنگ آؤٹ پریڈ: باصلاحیت افسران کے لیے اعزازی شمشیر

    ایبٹ آباد: پاکستان ملٹری اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے دوران باصلاحیت افسران کو اعزازی شمشیر اور کمانڈنٹ کین سے نوازا گیا، تقریب کے مہمان خصوصی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے۔

    تفصیلات کے مطابق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے دوران اکیڈمی کے سینیئر انڈر آفیسر محمد داؤد خان کو اعزازی شمشیر سے نوازا گیا۔

    آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ بٹالین سینیئر انڈر آفیسر شعیب اکمل کو پریذیڈنٹ گولڈ میڈل عطا کیا گیا، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اوور سیز گولڈ میڈل کمپنی سینیئر انڈر آفیسر جگت پوڈل کو ملا، جگت پوڈل کا تعلق نیپال سے ہے۔

    چیف آف آرمی اسٹاف کین 34 ویں ٹیکنیکل گریجویٹ کورس کے انڈر آفیسر مدثر امین کو دی گئی، کمانڈنٹ کین 65 ویں انٹیگریٹڈ کورس کے انڈر آفیسر حیدر اعجاز کو عطا کی گئی۔

    20 ویں لیڈی کیڈٹ کورس کا حصہ کورس انڈر آفیسر زنیرہ شفقت بھی کمانڈنٹ کین کی حقدار ٹھہریں، پانچویں ٹریننگ بیسک ملٹری کی کورس جونیئر انڈر آفیسرحرا عرفان کو بھی کمانڈنٹ کین سے نوازا گیا۔

  • پاکستان میں کرونا کیسز کے عروج کا وقت قریب آ چکا، ماہرین نے خبردار کر دیا

    پاکستان میں کرونا کیسز کے عروج کا وقت قریب آ چکا، ماہرین نے خبردار کر دیا

    کراچی: حکومت سندھ، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مئی کے آخر میں کرونا کیسز کی تعداد عروج پر پہنچنے کا بڑا خدشہ ہے۔

    اے آر وائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے کہا کہ مئی کے آخر میں کرونا کیسز کی تعداد اپنے عروج پر ہوگی ، سندھ میں ابھی کرونا کے مثبت کیسز کی تعداد 10 فی صد ہے، لیکن آیندہ دنوں میں صورت حال زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔

    صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں سماجی فاصلوں اور لاک ڈاؤن کو مزید مؤثر بنانا ہوگا، کیسز کی پیک وسط مئی اور مئی کے آخر میں ہوگی، اگر لاک ڈاؤن میں رعایت دی تو تعداد زیادہ بڑھ جائے گی، حکومت نے فیلڈ اسپتال میں بستروں کی تعداد 5 ہزار کر دی ہے جسے 11 ہزار تک لے کر جائیں گے۔

    پی ایم اے

    ادھر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی مئی میں کو وِڈ نائنٹٰین کی وبا تیزی سے پھیلنے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے، پی ایم اے کا کہنا ہے کہ مئی کے دوسرے، تیسرے ہفتے میں کرونا کیسز اندازے سے زیادہ ہوں گے، اسپتالوں، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف پر بوجھ حد سے زیادہ ہوگا، عوام اور انتظامیہ کو سخت حفاظتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

    پی ایم اے کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے اے آر وائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مئی کے پہلے سے تیسرے ہفتے تک کیسز میں بے تحاشا اضافے کا خدشہ ہے، کیسز بڑھنے کی وجہ بظاہر یہی ہے کہ سرکار کا لاک ڈاؤن مؤثر نہیں، رمضان میں بھی ہم سماجی رابطے کم کرنے پر کنٹرول نہیں کر پائیں گے، ہمارے پاس بیڈز اور وینٹی لیٹرز کی تعداد بہت کم ہے، لوگوں سے گزارش ہے کہیں نہ جائیں گھر پر بیٹھیں۔

    انھوں نے کہا کہ ڈاکٹرز کی مکمل حفاظتی سامان کی دستیابی اب تک ممکن نہیں ہو پا رہی، کرونا سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ عملے کی بھی کمی کا سامنا ہے، امریکا تک کو چین سے وینٹی لیٹرز منگوانا پڑے، پاکستان میں تو کرونا سے نمٹنے کے لیے صورت حال بہت خراب ہے، ملک کا ہر شخص یہ بات سمجھ لے کہ کرونا وائرس حقیقت ہے۔

    ڈاکٹر قیصر کا کہنا تھا کہ 5 سے 6 دنوں میں کرونا کیسز اور اموات کی تعداد دگنی ہوگئی ہے، کرونا کے پیک کے خدشے کو عوام مل کر ہی ختم کر سکتے ہیں، بیان نہیں کر سکتے کرونا سے کس حد تک خطرناک صورت حال ہو سکتی ہے، علما سے بھی گزارش ہے رمضان میں عبادات سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

    جناح اسپتال

    ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناح اسپتال ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا کہ پاکستان میں کرونا کے کیسز کا پیک کا وقت قریب آ چکا ہے، ایسے کیسز بھی بڑھ سکتے ہیں جنھیں وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑے، لوگ گھروں سے باہر نہ نکلیں، بچے بھی گلی محلوں میں کھیل کر جراثیم گھروں میں لے کر جاتے ہیں، رمضان المبارک کا احترام ہم سب کے دلوں میں ہے، ہم جتنی بھی کوشش کر لیں مساجد میں سماجی فاصلہ نہیں رکھا جا سکتا، گزارش ہے کہ لوگ گھروں میں عبادات کریں۔

    ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا کہ کلورین سے پورا شہر صاف کرنا ممکن نہیں، بہتر ہے گھروں میں عبادات کریں، لوگ غیر ضروری طور پر نکلیں گے تو صورت حال کنٹرول کرنا مشکل ہوگا۔

    چیف آفیسر شوکت خانم

    چیف آفیسر شوکت خانم ڈاکٹر عاصم یوسف نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کرونا کے کیسز کا عروج ابھی آنا باقی ہے، حکومت کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے کیسز ابھی تک کم ہیں، تاہم حکومت نے معاشی حالات دیکھ کر لاک ڈاؤن میں نرمی کی، لوگوں سے یہی گزارش کریں گے کہ باہر نہ نکلیں اور سماجی فاصلے رکھیں۔

    انھوں نے کہا دکانوں پر ہجوم سے وائرس پھیلاؤ کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، کرونا کے کیسز بڑھے تو ہمارا سسٹم اسے نہیں سنبھال پائے گا، احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہ ہوا تو بہت سے لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    سی ای او انڈس اسپتال

    انڈس اسپتال کے سی ای او ڈاکٹر باری کا بھی کہنا تھا کہ مئی میں کیسز کی تعداد خطرناک حد تک بڑھنے کا خدشہ ہے، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور گھروں سے نکلنے والے زیادہ متاثر ہوں گے، امریکا جیسی صورت حال پاکستان میں ہوئی تو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوگا، عوام سے گزارش ہے معاملے کو انتہائی سنجیدہ لیں اور گھروں میں رہیں۔

  • وائرس چند دن تک جسم میں رہ کر ختم ہو جاتا ہے، آئسولیشن وارڈز سے مطمئن نہیں: پی ایم اے

    وائرس چند دن تک جسم میں رہ کر ختم ہو جاتا ہے، آئسولیشن وارڈز سے مطمئن نہیں: پی ایم اے

    کراچی: پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ وائرس جسم میں چند دن تک رہتا ہے پھر ختم ہو جاتا ہے، ہم جناح یا کسی بھی اسپتال میں قائم آئسولیشن وارڈز سے مطمئن نہیں ہیں، ہمارے کہنے کے بعد تھرمل اسکینر کے انتظامات کیے گئے جس سے کافی بہتری آ گئی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق آج پاکستان میڈیکل ایسوسی ہاؤس میں کرونا وائرس کے حوالے سے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں ڈاکٹر قیصر سجاد ، ڈاکٹر سہیل اختر، ڈاکٹر عافیہ ظفر، ڈاکٹر نثار راؤ، ڈاکٹر ثمرین سرفراز، ڈاکٹر محمد شریف ہاشمانی، ڈاکٹر عبد الغفار شورو اور دیگر نے بات کی۔

    جنرل سیکریٹری پی ایم اے ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا ہم نے توجہ دلائی تو حکومت نے احتیاطی اقدامات کیے، کرونا وائرس کے علاج کے لیے بنائے گئے سینٹرز کے بارے میں ٹیلی ویژن کے ذریعے آگاہی فراہم کی جائے، وائرولوجی لیب ہونی چاہیے جس میں جدید چیزیں ہوں، لیب میں ویکسین بنانے اور تحقیق کرنے کے انتظامات ہوں، شہر سے دور آئسولیشن وارڈ بنائے جائیں، ہم حکومت سے تعاون کے لیے تیار ہیں۔

    مہلک کرونا وائرس سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری، تعداد 2924 ہو گئی

    انھوں نے کہا کرونا وائرس کی انفلوئنزا وائرس جیسی علامات ہوتی ہیں، ہر نزلہ زکام اور بخار کرونا وائرس نہیں، ہر آدمی ماسک کی تلاش میں ہے اور ٹیسٹ کروانے پر زور دے رہا ہے، اگر ایسی کوئی علامات ہوتی ہیں تو گھر پر آرام کریں، ڈاکٹر ٹیسٹ کروانے کا کہے تو ٹیسٹ کروائیں، جن کے پھیپھڑے خراب ہیں، کینسر یا دل کی بیماری ہے انھیں کرونا وائرس ہو جائے تو ان کی جان بچانا مشکل ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر قیصر کا کہنا تھا کہ ماسک وہی شخص لگائے جس کو نزلہ کھانسی یا زکام ہے، ماسک نہ ہو تو ٹشو پیپر استعمال کریں، ڈراپلیٹس ایک میٹر کے فاصلے پر موجود شخص کو متاثر کر سکتا ہے، یا اگر وہ ڈراپلیٹس کسی چیز پر گئے ہیں تو 48 گھنٹے تک اس پر اثرات موجود ہوں گے، اس لیے صابن سے ہاتھ 20 سیکنڈ تک اچھی طرح دھوئیں، ساڑھے 6 لاکھ اتائی ڈاکٹرز کی پریکٹس جاری ہے لہٰذا کسی اچھے اور قابل ڈاکٹر ہی کو دکھائیں، پیراسٹامول ٹیبلیٹ کا استعمال کر سکتے ہیں۔

    حکومت کے ٹھوس اقدامات، پاکستان میں کرونا کے قدم رک گئے، جدید تھرمل اسکینر نصب

    ڈاکٹر ثمرین سرفراز

    پریس کانفرنس میں ڈاکٹر ثمرین نے کہا کہ کرونا وائرس کی فیملی بہت بڑی ہے جس میں 8 وائرس ہیں، اس سے متعلق سوشل میڈیا پر غلط انفارمیشن پھیلائی گئیں، ڈینگی کا بھی علاج نہیں ہے لیکن اس سے 99 فی صد مریض بچ جاتے ہیں، کونٹیکٹ اور ڈراپلیٹس سے بچاؤ کا خیال رکھنا ہے، کھانسی سے متاثرہ شخص ماسک پہنیں، وائرس چند دن تک جسم میں رہتا ہے پھر ختم ہو جاتا ہے، ہر نزلہ زکام بخار سے متاثرہ شخص کا ٹیسٹ ہونا ضروری نہیں ہوتا، 14 دن سے زیادہ وائرس جسم میں نہیں رہتا، کوارنٹین ان لوگوں کو کیا جاتا ہے جو کرونا وائرس سے متاثرہ شخص سے رابطے میں رہا ہو، یہاں بنائے گئے آئسولیشن اور کوارنٹین وارڈز آئیڈیل نہیں ہیں۔

    ڈاکٹر عافیہ ظفر

    ڈاکٹر عافیہ نے کہا کہ شہر میں ماسک کے ختم ہونے کی وجہ سمجھ نہیں آتی، بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، انفیکٹڈ افراد گھر میں رہیں پبلک والی جگہوں پر جانے سے گریز کریں تاکہ دیگر افراد متاثر نہ ہوں، موسم گرم ہونے سے وائرس کی منتقلی میں بھی کمی آئے گی، سرد ممالک میں زیادہ تیزی سے وائرس منتقل ہو رہا ہے، یہاں جو صورت حال ہے اس کے لیے سنگل آئسولیشن وارڈ ہی کافی ہے۔

    ڈاکٹر سہیل اختر کا کہنا تھا کرونا ہمارے لیے ایک بلیسنگ بن کر آیا ہے، یہ وائرس اس قوم کے لیے آیا جو حفظان صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھتے، ہمیں اللہ نے جھنجھوڑا ہے، حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنا اس سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے۔ ڈاکٹر نثار راؤ کا کہنا تھا کہ ہم اتنے زیادہ لوگوں کو ماسک فراہم نہیں کر سکتے، بہت سے لوگ اس دھندے میں ملوث ہیں جو ماسک چھپاتے ہیں۔

  • کراچی میں چکن گونیا نامی بیماری کی وبا پھیل گئی، ڈاکٹرز بھی متاثر

    کراچی میں چکن گونیا نامی بیماری کی وبا پھیل گئی، ڈاکٹرز بھی متاثر

    کراچی: مچھر کے ذریعے پھیلنے والی ایک اور بیماری چکن گونیا نے کراچی میں اپنے پنجے گاڑ لیے، کراچی کے علاقے ملیر میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف سمیت سیکڑوں افراد بیماری سے متاثر ہوگئے، اسپتالوں میں مریضوں کا رش لگ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں مچھر کے ذریعے پھیلنے والی ایک اور پراسرار بیماری نے ملیر میں وبائی شکل اختیار کر لی، مریضوں کا علاج کرنے والے 70 سے زائد ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی متاثر ہوگیا، مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی یہ پراسرار بیماری متاثرہ فرد کو 104 درجہ حرارت تک تیز بخار میں مبتلا کردیتی ہے۔

    بیماری کی علامات میں گھٹنوں، ہتھیلیوں اور ٹخنوں سمیت جسم کا جوڑ جوڑ دکھنے لگتا ہے، سرکاری سطح پر اس بیماری تشخیص نہیں ہو سکی تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی علامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر چکن گونیا وائرس ہو سکتا ہے۔

    ملیر میں یومیہ 1700  تک کی تعداد پراسرار بیماری سے اسپتالوں میں پہنچ رہی ہے بیماری نے ملیر میں علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو بھی نہ بخشا، ملیر کھوکھرا پار، ملیر سٹی اور گڈاپ میں چکن گونیا کے کئی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، سندھ گورنمنٹ اسپتال کھوکھرا پار میں متاثرہ 18 افراد زیرعلاج ہیں جن میں اسپتال کے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف بھی شامل ہیں۔

    dengue

    چکن گونیا سے متاثرہ افراد کی فہرست جاری کردی گئی ہے، متاثرین میں سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد کے 18 ڈاکٹرز پیرا میڈیکل اسٹاف کے 38 ملازم، 8 سینیٹری ورکرز بھی شامل ہیں، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ بیماری مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے لہٰذا مچھروں سے بچنے کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں۔

    ملیر میں مرض پھیلنے کے بعد ای ڈی او ہیلتھ کراچی نے سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد کا دورہ کیا جہاں بڑی تعداد میں مریض زیرعلاج ہیں۔ ڈاکٹر عبد الوحید کا کہنا ہے کہ مرض کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور اس غرض سے ڈاکٹروں کی ٹیم بھی تشکیل دے دی ہے۔

    پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ شہر میں ہنگامی بنیادوں پر صفائی کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صفائی کے اقدامات نہ کیے گئے تو وبائی امراض شدت اختیار کرجائیں گے۔

    اس حوالے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں گندگی سیوریج کی ناقص صورتحال اور کچروں کے ہزاروں ٹن ڈھیر بیماریوں کی وجہ ہوسکتی ہے۔

    سیوریج کا پانی صاف نہ کرنے کے باعث مچھروں کی افزائش نسل میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے، ماہرین نے کہا ہے کہ چکن گونیا نامی بیماری اس سے پہلے پاکستان میں نہیں تھی۔