Tag: poet

  • سلویا پلاتھ ۔ ڈپریشن کے عفریت کی پیدا کردہ شاعری اور دردناک موت

    سلویا پلاتھ ۔ ڈپریشن کے عفریت کی پیدا کردہ شاعری اور دردناک موت

    ’انجیر کے درخت پر ہر شاخ تازہ جامنی انجیروں سے لدی ہوئی ہے، اسے کسی ایک انجیر کا انتخاب کرنا ہے اور اس انتخاب نے اسے سخت تذبذب میں ڈال رکھا ہے۔

    ہر انجیر دوسری سے لذیذ اور خوش نما دکھائی دے رہی ہے اور اس کے انتخاب کو مشکل بنا رہی ہے، لیکن ابھی وہ کوئی ایک انجیر منتخب کر کے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہی ہے، کہ تمام انجیریں ایک بعد ایک درخت سے گرنے لگتی ہیں اور گرتے ہی سوکھ جاتی ہیں، اس نے انہیں چننے میں اتنی دیر لگائی کہ ان کی تازگی ختم ہوگئی اور وہ بدمزہ ہوگئیں۔‘

    یہ منظر معروف امریکی شاعر سلویا پلاتھ کے واحد ناول دا بیل جار کا ہے اور یہ زندگی کی تمثیل ہے۔ عورت کی زندگی کے بے شمار رنگ الگ الگ انجیروں کی صورت اس کے سامنے آتے ہیں اور اسے ان میں سے کسی ایک کو چننا ہوتا ہے۔

    ایک انجیر شوہر کا گھر اور گھریلو زندگی ہے، دوسری انجیر شاعر ہونا ہے، تیسری انجیر اپنی دلچسپی کے مطابق کسی شعبے میں جانا اور اس کی ماہر بننا ہے، چوتھی انجیر دنیا کے سفر پر نکلنا ہے، اور اوپر کی شاخوں پر مزید کئی خوش نما انجیریں جو ناقابل رسائی ہیں، لیکن اسے کوئی ایک انجیر چننی ہے۔

    اس تمثیل میں دراصل سلویا نے بیسویں صدی کے محدود معاشرے میں جینے والی ایک عورت کی افسردگی بیان کی ہے، جس کے خیال لامحدود لیکن زندگی محدود ہے۔ جو کوئی فیصلہ کر بھی لے، تو اسے اس کے غلط ہونے کا خوف اور دوسری انجیر نہ چننے کا قلق ہے۔

    اس نے ایک بار لکھا، کیا میں لباس کی طرح زندگی کو بھی بدل بدل کر دیکھ سکتی ہوں کہ کون سی میرے لیے موزوں ترین ہے؟

    جسے اس بات کی خلش ہے، کہ میں زندگی کے ہر رنگ اور ہر تنوع کو بھرپور طریقے سے محسوس کرنا چاہتی ہوں، لیکن میں خوفناک حد تک محدود ہوں۔

    سلویا پلاتھ 27 اکتوبر 1932 کو امریکی ریاست میساچوسٹس میں پیدا ہوئی، اس کے والد بوسٹن یونیورسٹی میں بیالوجی کے پروفیسر تھے، لیکن جب سلویا صرف 8 برس کی تھی تو وہ چل بسے۔

    والد کی موت نے سلویا کو گہرا جذباتی و نفسیاتی صدمہ پہنچایا اور غالباً یہیں سے اس کی زندگی میں ایک طویل اور عذاب ناک ڈپریشن کی بنیاد پڑی، اس ڈپریشن نے اس کی زندگی کے سارے رنگوں کو پھیکا کردیا اور پیچھے رہ گئی اتھاہ سیاہ تاریکی جس میں وہ ساری زندگی ڈوبتی ابھرتی رہی۔

    11 برس کی عمر سے سلویا نے ڈائری لکھنی شروع کردی تھی اور اپنے احساسات اور جذبات کو ایسے خوبصورت جملوں میں پرویا جنہیں پڑھ کر کوئی بھی اندازہ کر سکتا تھا کہ یہ بچی بڑی ہو کر لفظوں سے کھیلنے والی جادوگر بنے گی۔

    18 برس کی عمر میں اس کی پہلی باقاعدہ نظم ایک مقامی اخبار میں شائع ہوئی، بعد میں سلویا نے نثر بھی لکھا اور ایک ناول اور کچھ افسانے تحریر کیے۔

    دا بیل جار

    سنہ 1953 میں کالج کی تعلیم کے دوران سلویا نے نیویارک میں میڈموزیل میگزین میں ملازمت کی، فیمنسٹ نظریات کا حامل یہ میگزین خواتین میں بے حد مقبول ہوا اور یہاں گزارے گئے وقت نے سلویا کے ادبی سفر کا تعین کیا۔

    سلویا کے واحد ناول دا بیل جار کی داغ بیل اسی ملازمت نے ڈال دی تھی جب اس نے وہاں اعلیٰ حس مزاح اور بلند معیار سوچ رکھنے والے افراد اور خصوصاً خواتین کے ساتھ وقت گزارا۔

    تصویر: ٹیڈ ایکس

    دا بیل جار کی کہانی ایسٹر گرین ووڈ نامی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو خطرناک حد تک ذہین اور بہترین حس مزاح کی حامل لیکن شدید ڈپریشن کا شکار ہے، سلویا نے دراصل اپنی زندگی کی کہانی ایسٹر کی صورت میں پیش کی اور اس میں کچھ افسانوی رنگ بھی اختیار کیا۔

    سلویا کی حس ظرافت اس قدر ذومعنی تھی کہ سننے والے کو ہنسنے کے بہت دیر بعد علم ہوتا کہ کہنے والا اس کا تمسخر اڑا گیا، اس نے یہی انداز اپنے ناول کی ہیروئن کا بھی رکھا جو بہت مقبول ہوا۔

    اس کے ناول نے اس وقت کی عورت کے لیے مروجہ اصول، مرد کی کھلی چھوٹ اور معاشرے کے تضادات پر بہت بے باک انداز میں سوال اٹھائے۔

    یہ ناول جنوری 1963 میں سلویا کی موت سے صرف ایک ماہ قبل اس کے قلمی نام سے شائع ہوا تھا۔

    ذہنی خلجان، خودکشی کی کوشش اور شاعری

    سلویا کی اصل وجہ شہرت اس کی نظمیں ہیں جو اس کے ذہنی خلفشار کا تحفہ تھیں، اس کے اپنے اندر کی عکاس نظمیں جو بھیانک خالی پن، عام لوگوں کی ڈگر سے ہٹ کر مشاہدے اور ذہانت و ڈپریشن کی پیدا کردہ مختلف ڈھب کی سوچ کی تصویر ہیں۔

    اس کی شاعری نے عورت کے دکھوں، ان کہے جذبات اور جنسیت کے گرد قائم خاموشی کا حصار توڑا اور اس کا نڈر اظہار کیا۔

    ذہنی خلجان اور ڈپریشن کے باعث سلویا ہمیشہ بے چینی کا شکار رہی، اس میں خودکشی کا رجحان بھی موجود تھا اور عام افراد کے برعکس موت اسے خوفزدہ کرنے والی شے نہیں لگتی تھی۔

    سنہ 1954 میں وہ ایک بار خودکشی کی کوشش بھی کر چکی تھی جس کے بعد کئی ماہ اسے نفسیاتی اسپتال میں گزارنے پڑے، ڈپریشن کی گولیاں تو ہمیشہ ہی اس کی ساتھی رہیں۔

    اس کی ایک نہایت مشہور نظم لیڈی لازرس جسے شاہکار کی حیثیت حاصل ہے، بائبل کے ایک کردار پر مبنی ہے جو فنا ہو کر پھر سے جی اٹھتا ہے۔ سلویا نے یہ نظم اپنی موت سے چند ماہ قبل اس وقت لکھی جب وہ اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہی تھی۔

    خود کو لیڈی لازرس سے تشبیہ دیتے ہوئے اس نے لکھا، مرنا بھی ایک آرٹ ہے۔

    اس نے ایک بار اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں لکھا، میں یا تو لمحے بھر میں بے حد خوش اور سرگرم رہ سکتی ہوں، یا پھر بے حد سست اور غمگین ہو سکتی ہوں، ان دونوں کیفیات کے بیچ معلق رہنا مجھے پاگل بنا دے گا۔

    ایک بار اس نے کہا، کیا سوچوں سے باہر جانے کا کوئی راستہ ہے؟

    محبت، جو اسے موت تک لے گئی

    سنہ 1956 میں سلویا کی ملاقات انگریزی کے معروف شاعر ٹیڈ ہیوز سے ہوئی، دونوں ایک دوسرے سے متاثر اور پھر ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوئے اور محبت ناموں سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ شادی پر منتج ہوا۔

    جلد ہی دونوں میں اختلافات سامنے آنے لگے۔ اس دوران دونوں کے یہاں ایک بیٹی فریڈا اور بیٹا نکولس پیدا ہوئے۔

    لیکن اصل طوفان شادی کے 6 برس بعد تب آیا جب یہ دونوں ڈیوڈ وول اور آسیا وول نامی ایک جوڑے کے گھر کے ایک حصے میں کرائے پر رہنے لگے اور ٹیڈ آسیا کی زلف کے اسیر ہوگئے۔

    سلویا کو جب ٹیڈ کی اس بے وفائی کا علم ہو تو وہ بے حد دل برداشتہ اور رنجیدہ ہوئی، شوہر سے جھگڑے کے بعد سنہ 1962 میں وہ بچوں کو لے کر انگلینڈ چلی آئی، یہاں نئی زندگی کی مشکلات، ڈپریشن اور نفسیاتی دوروں کا جن منہ کھولے کھڑا تھا اور اب سلویا کے لیے ان سے نمٹنا آسان نہ تھا۔

    اپنے ذہنی خلجان اور غم کی کیفیت میں سلویا نے ایک کے بعد ایک نظم لکھ ڈالی، لیڈی لازرس انہی دنوں کی تخلیق ہے۔ ان دنوں میں تخلیق کی گئی اس کی نظموں کا مجموعہ بعد از مرگ ایریل کے نام سے شائع ہوا۔

    ان دنوں سلویا کے ڈاکٹر نے اس کی ذہنی کیفیت کے پیش نظر اسے اسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا لیکن سلویا نے اینٹی ڈپریسنٹس تک کھانا چھوڑ دی تھیں۔

    5 ماہ تک رنج، تنہائی اور ذہنی خلفشار سے لڑتے رہنے کے بعد بالآخر ایک دن سلویا نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے، فروری 1963 کی ایک صبح، جب اس کے دونوں بچے سو رہے تھے، اس نے بچوں کا ناشتہ بنا کر ان کے سرہانے رکھا اور گیس اوون کھول کر اپنا سر اس میں گھسا دیا، کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر نے جلد اسے تمام تکلیفوں سے نجات دلا دی۔

    بچے اٹھے تو وہ اپنی ماں کو ہمیشہ کے لیے کھو چکے تھے۔ اپنی موت کے وقت سلویا کی عمر صرف 31 برس تھی۔

    سلویا کی زیادہ تر نظمیں ان کی موت کے بعد شائع ہوئیں جنہیں عام لوگوں نے بھی پسند کیا اور ادبی حلقے بھی ان کی اختراعی سوچ اور بے باکی پر دم بخود رہ گئے، سنہ 1971 میں ان کا ناول دا بیل جار ان کے اصل نام سے شائع ہوا۔

    سنہ 1982 میں سلویا کی نظموں کے مجموعے کو پلٹزر پوئٹری پرائز بھی ملا۔

    سلویا کی موت ان کے شوہر ٹیڈ کے لیے بھی مشکلات لے آئی، ادبی طبقے کی خواتین نے انہیں سلویا کی خودکشی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ٹیڈ کو قتل کی دھمکیاں تک موصول ہوئیں۔

    دوسری طرف آسیا وول بھی احساس جرم کا شکار رہی اور 6 سال بعد اس نے بالکل اسی طرح خودکشی کرلی جیسے سلویا نے کی تھی، ساتھ ہی اپنی 4 سالہ بیٹی کو بھی مار ڈالا، گیس سے بھرے بند کچن سے دونوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔

    سلویا کا ذہنی خلفشار اور خودکشی کا رجحان صرف اس تک محدود نہ رہا، اس کے بچوں نے اس کی دیوانگی، ذہانت اور فن سب ہی وراثت میں پایا، بیٹی فریڈا شاعر اور مصور بنی، بیٹے نکولس نے جو ایک پروفیسر تھا، سنہ 2009 میں 47 سال کی عمر میں خودکشی کرلی۔

    سلویا نے ایک بار کہا تھا، مجھے ان چیزوں کی خواہش ہے جو مجھے آخر میں مار ڈالیں گی، کون جانے کہ اسے خوشی کی خواہش تھی جس کی تلاش میں وہ تمام عمر سرگرداں رہی، یا پھر یہ اذیت اور بے چینی خود اسی کی منتخب کردہ تھی جو اسے موت تک لے آئی۔

  • مایہ ناز شاعر جمیل الدین عالی کو مداحوں سے بچھڑے 5 برس بیت گئے

    مایہ ناز شاعر جمیل الدین عالی کو مداحوں سے بچھڑے 5 برس بیت گئے

    لاہور : جیوے جیوے پاکستان اور دیگر مقبول ملی نغموں کے خالق مایہ نازشاعر، ادیب اور کالم نگار جمیل الدین کو مداحوں سے بچھڑے پانچ برس بیت گئے۔

    عالی جی کے صاحبزادے راجو جمیل الدین کہتے ہیں عالی جی ملک کا سرمایہ تھے پاکستانیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔

    دوہوں اور نظموں کو پہچان دینے والے اردو ادب کے مایہ ناز شاعر، مترنم، ادیب اور محقق جمیل الدین عالی کی پانچویں برسی آج عزت و احترام سے منائی جارہی ہے۔

    نوابزادہ جمیل الدین احمد خان یہ کسی ریاست کے والی نہیں بلکہ شاعری کے عالی جی ہیں جنہوں نے بیس جنوری سنہ انیس سوپچیس کو دہلی کے معزز گھرانے میں آنکھ کھولی، جمیل الدین عالی اعلی تعلیم یافتہ اور قابل بینکر تھے۔

    اس دن کی مناسبت سے ان کے اہل خانہ کی جانب سے برسی کی تقریب کا انعقاد کیا گیا جبکہ ان کے دوست احباب نے بھی خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جس میں ان کی طویل ملکی قومی، سماجی، عوامی، فلاحی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

    جمیل الدین عالی پاکستان رائٹرز گلڈ کے اعلی عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ انجمن ترقی اردو سے ایک طویل عرصہ تک وابستہ اور اپنی انتہائی قابلیت سے ملک میں اردو زبان کی ترقی اور ترویج کیلئے کام کرتے رہے۔

    ان کی لکھی ہوئی کتابوں میں ’اے میرے دشت سخن، لاحاصل، نئی کرن، دعا کر چلے اور صدا کر چلے شامل ہیں نیز ان کے مشہور سفر ناموں میں دنیا میرے آگے، تماشا میرے آگے، شنگھائی کی عورتیں، ایشین ڈرامہ، بس ایک گوشہ، مہر ماہ وطن، اصلات بینکاری قابل ذکر ہیں اسی طرح ان کے دوہوں کو بھی زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔

    جمیل الدین عالی پاکستان میں دوہو ں کے خالق جانے جاتے ہیں، تقسیم ہند کے بعد خاندان کے ہمراہ کراچی آگئے اور یہاں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ جمیل الدین عالی 23 نومبر 2015 کو 90 برس کی عمر میں دار فانی سے رخصت ہوئے تھے۔

  • جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘ نغمے کے خالق حمایت علی شاعر انتقال کرگئے

    جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘ نغمے کے خالق حمایت علی شاعر انتقال کرگئے

    معروف شاعر، ادیب اور استاد حمایت علی شاعر 93 برس کی عمر میں انتقال کرگئے ، آپ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم تھے ، تدفین بھی وہیں کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق معروف شاعر وادیب حمایت علی شاعر گزشتہ شب انتقال کرگئے ، دو روز قبل انہوں نے اپنی 93 ویں سالگرہ منائی تھی ۔ حمایت علی شاعر کے انتقال کی خبر سے ادبی حلقوں میں سوگواری کی فضا ہے۔

    حمایت علی شاعر 14 جولائی 1926ء کو اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے تھے، قیام پاکستان کے بعد انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اورسندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ بعد ازاں وہ اسی جامعہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔

    حمایت علی شاعر کے چار شعری مجموعے آگ میں پھول ، مٹی کا قرض ، تشنگی کا سفر اورہارون کی آواز شائع ہوچکے ہیں جبکہ ان کتابوں کا انتخاب حرف حرف روشنی کے عنوان سے شائع ہواتھا۔

    انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے اپنی خود نوشت سوانح عمری مثنوی کی ہئیت میں تحریر کی جو آئینہ در آئینہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ حمایت علی شاعر کی دو نثری کتابیں شیخ ایاز اور شخص و عکس بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اردو شاعری میں ان کا ایک کارنامہ تین مصرعوں پر مشتمل ایک نئی صنف سخن ثلاثی کی ایجاد ہے ۔

    حمایت علی شاعر نے ملی نغمے بھی تحریر کیے جن میں سب سے مشہور‘ جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘ بھی شامل ہے۔ یہ نغحمہ 1965 میں ریلیز ہونے والی فلم ’مجاہد‘ کے لیے لکھا گیا تھا جسے نگار ایوارڈ بھی ملا تھا۔ نغمہ مسعود رانا نے گایا تھا جبکہ موسیقی خلیل احمد نے تشکیل دی تھی۔

    حمایت علی شاعر نے مختلف شعبوں میں کام کیا ہے جن میں تدریس ، صحافت، ادارت، ریڈیو، ٹیلیوژن اور فلم کے علاوہ تحقیق کا شعبہ نمایاں ہے۔ٹیلی ویژن پر ان کے کئی تحقیقی پروگرام پیش کئے جا چکے ہیں ،جن میں پانچ سو سالہ علاقائی زبانوں کے شعراء کا اردو کلام خوشبو کا سفر ،اردو نعتیہ شاعری کے سات سو سال پر ترتیب دیا گیا پروگرام عقیدت کا سفر،احتجاجی شاعری کے چالیس سال پر ترتیب دیا گیا پروگرام لب آزاد،پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام محبتوں کے سفیراور تحریک آزادی میں اردو شاعری کا حصہ نشید آزادی کے نام سر فہرست ہیں۔

    حمایت علی شاعر نے متعدد فلموں کے لیے گیت بھی تحریر کیے جنھیں نگار اور مصور ایوارڈ سے نوازا گیا۔ان فلموں میں جب سے دیکھا ہے تمھیں، دل نے تجھے مان لیا،دامن،اک تیرا سہارا،خاموش رہو، کنیز، میرے محبوب، تصویر، کھلونا، درد دل اور نائلہ کے نام سر فہرست ہیں۔

    انھوں نے ایک فلم لوری بھی پروڈیوس کی تھی جو اپنے وقت کی کامیاب ترین فلم تھی۔ حمایت علی شاعر کے فلمی نغمات کا مجموعہ بھی ’تجھ کو معلوم نہیں‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔

  • مایہ ناز شاعر جمیل الدین عالی کا 94واں یوم پیدائش

    مایہ ناز شاعر جمیل الدین عالی کا 94واں یوم پیدائش

    کراچی: دوہوں اور نظموں کو پہچان دینے والے اردو ادب کے مایہ ناز شاعر، مترنم، ادیب اور نقاد جمیل الدین عالی کی 94ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    نوابزادہ جمیل الدین احمد خان یہ کسی ریاست کے والی نہیں بلکہ شاعری کے عالی جی ہیں جنہوں نے بیس جنوری سنہ انیس سوپچیس کو دہلی کے معزز گھرانے میں آنکھ کھولی، جمیل الدین عالی اعلی تعلیم یافتہ اور قابل بینکر تھے۔

    دوہے اور نظم کو انہوں نے پہچان عطا کی، عالی جگرمرادآبادی جیسے استاد کی شاگردی میں بھی رہے، وہ پاکستان سے دل وجان سے محبت کرتے تھے، سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد اور جیوے جیوے پاکستان جیسے ملی نغمے آج بھی سب کو یاد ہیں۔

    جمیل الدین عالی کے والد نواب علاؤالدین احمد خان مرزا غالب کے دوست اور شاگردوں میں سے تھے،جمیل الدین عالی نے ابتدائی تعلیم دہلی سے حاصل کی ، جمیل الدین عالی 1951ء سے 1971 تک سول سروس آف پاکستان میں کام کرتے رہے

    جمیل الدین عالی ایک حساس کالم نگار تھے، معاشرے کی خرابیوں اور حکومتوں کی بے حسی پر تنقید ان کے کالموں میں بکثرت پائی جاتی تھی، جمیل الدین عالی مترنم شاعر اور وثیق نقاد تھے، انہوں نے آئیس لینڈ کا طویل سفر نامہ بھی لکھا، قدرت اللہ شہاب، شعیب حزین اور ابن انشا عالی جی کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔

    انہوں نے نہ صرف شاعری میں طبع آزمائی کی بلکہ سفرنامہ نگاری اور اخباری کالم بھی ان کی ادبی اور علمی شخصیت کی پہچان بنے، جمیل الدین عالی کو 2004 میں ہلال امتیاز 1991 میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی ادبیات پاکستان کا ’’کمال فن ایوارڈ سمیت درجنوں ایوارڈ سے نوازا گیا۔

  • معروف شاعر محسن بھوپالی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    معروف شاعر محسن بھوپالی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    آج اردو ادب کو لافانی اشعار دینے والے معروف شاعر محسن بھوپالی کی 12ویں برسی ہے‘ انہوں نے اردو شاعری کو نئی جہت عطا کی اورزندگی بھر مزاحمت کا استعارہ بنے رہے۔

    محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن تھا اور وہ بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگ پور میں 29 ستمبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہوگیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔ آخر میں وہ کراچی منتقل ہوگئے۔

    این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے کے بعد وہ 1952ء میں محکمہ تعمیرات حکومت سندھ سے وابستہ ہوئے۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی دوران انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    محسن بھوپالی کی شعر گوئی کا آغاز 1948ء سے ہوا۔ ان کی وجہ شہرت شاعری ہی رہی۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ “شکست شب” 1961ء میں منظر عام پر آیا۔ ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکست شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گرد مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعہ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقد سخن شامل ہیں۔

    محسن بھوپالی کویہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئے گئے تھے۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔

    محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے ۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کرگئے تھے خصوصاً ان کا یہ قطعہ توان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں ان سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔

    تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
    راہ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘ کی تقریب پزیرائی کے موقع پر انہوں نے خصوصی نظمانہ تحریر کیا اور 9 جنوری 1994 کو اس تقریب میں پڑھا ۔

    اپنے ملک پہ اک مدت سے قائم ہے
    گنتی کے ان سرداروں
    ……..اورجاگیروں کے پانے والوں
    کی نسلوں کا راج
    آزادی سے بڑھ کر جن کو پیارا تھا
    انگریزوں کا تاج!
    سوچ رہا ہوں…….. شائد اب کے
    قسمت دے دے مظلوموں کا ساتھ
    استحصالی ٹولے سے…. پائے قوم نجات
    صبح ہوئی تو گونج رہا تھا’
    بے ھنگم نعروں کا شور
    اپنے خواب کی ہم نے کی…….. من مانی تعبیر
    پھر ہے اپنے قبضے میں……. ملت کی تقدیر
    پاکستان کا مطلب کیا؟…. …موروثی جاگیر

    محسن بھوپالی کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے۔ انہوں نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔

    اگر یہی ہے شاعری تو شاعری حرام ہے
    خرد بھی زیر دام ہے ، جنوں بھی زیر دام ہے
    ہوس کا نام عشق ہے، طلب خودی کا نام ہے

    ان کی شاعری کے موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے۔ ان کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
    ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
    الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

    سنہ 1988 میں ان کے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا، اس کے بعد انہیں بولنے میں دشواری ہوتی تھی مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے زندگی کے معمولات جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کرتے اور شعر پڑھتے رہے۔

    اردو ادب کو ایک لافانی ذخیرہ فراہم کرنے والے محسن بھوپالی 17جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوئے اور کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • دلوں کو چھو لینے والے شاعر اور ادیب ابن انشا کو ہم سے بچھڑے 41 برس بیت گئے

    دلوں کو چھو لینے والے شاعر اور ادیب ابن انشا کو ہم سے بچھڑے 41 برس بیت گئے

    کراچی: شاعر، مزاح نگار، اور کئی کتابوں کے مصنف ابن انشا کو ہم سے بچھڑے اکتالیس برس بیت گئے، وہ اپنے طرز کے واحد ادیب تھے، جہاں ان کی نثر قاری کے دل کو گدگداتی تھی تو وہیں انکی شاعری کا سوزدلوں کو گداز کردیا کرتا تھا۔

    بیسویں صدی کے چند ہی ادیب و شاعر ایسے ہیں جن کے اشعار اور جملے زبان زد عام ہوں انہی میں معروف ادیب، شاعر، مترجم و سفارتکار ابن انشا بھی شامل ہیں، ابن انشا کو بچھڑے 41 برس بیت گئے۔

    بھارتی شہر جالندھر کے ایک گاؤں میں 15 جون 1927ء کو پیدا ہونے والے ابن انشاء کا اصل نام شیر محمد تھا۔ ریڈیوپاکستان سمیت کئی سرکاری اداروں سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور اس دوران کئی یورپی و ایشیائی ممالک کے دورے کئے۔

    بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی، کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنیوالے ادیب و شاعر ابن انشاء نا صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنیوالی تمام خوبیاں واصناف موجود تھیں۔

    انشاء جی نے جہاں اردو نظم ، غزل، کہانیوں، ناول، افسانوں، سفر ناموں، کالم نگاری ، تراجم ،بچوں کے عالمی ادب ، مکتوبات اور دیگر ادبی اصناف پر کام کیا ۔ ان کے کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کے اشعار گیت و غزل انسانی جذبات کے قریب تر ہوکر دل کے تار کو چھولیتے۔

    استاد امانت علی کی گائی ہوئی معروف غزل ( انشا جی اٹھو اب کو چ کرو) کے خالق ابن انشا تھے، ابھی ادب و فن کے متلاشی ان کی صلا حیتوں سے پوری طرح استفادہ بھی نہ کرسکے تھے کہ گیارہ جنوری انیس سو اٹھتر کو انشا جی کو دنیا سے کو چ کرگئے، کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے

    جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے

    کراچی: انوکھے مصرعوں اور نت نئی تاویلوں کے شاعر جون ایلیا کو  پیوند خاک ہوئے سولہ برس بیت گئے، ان کی شاعری آج بھی زمانے کی تلخیوں اور بے اعتنائیوں کو بےنقاب کرتی ہے۔

    شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر 1937 کو امروہہ، اترپردیش کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے، وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی، انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

    ‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا، اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏:

    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں

    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے، یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے، چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اس لئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔ حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔ سعید کہتے ہیں،’’جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔‘‘

    جون ایلیا نے 1957 میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

    جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش

    اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

    جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنافات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔

    میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب

    اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا

    ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

    جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

    ایک سایہ میرا مسیحا تھا

    کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

    جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں ہیں۔ انہوں اسماعیلی مکتبہ فکر کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائل اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

    آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔

    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا

    میں بے ہنگام لڑکا تھا، میں صد ہنگام لڑکا تھا

    مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں

    میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

    مرمٹا ہوں خیال پر اپنے

    وجد آتا ہے حال پر اپنے

    جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔

    1980 کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

    کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا

    وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

    جون ہی تو ہے جون کے درپے

    میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

    کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

    کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں

    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

  • علیم خان نے صحافی اور شاعرہ ’روبینہ پروین‘ کی کفالت کا اعلان کردیا

    علیم خان نے صحافی اور شاعرہ ’روبینہ پروین‘ کی کفالت کا اعلان کردیا

    لاہور: تحریک انصاف کے سینئر وزیر علیم خان نے سڑک کنارے بے یارو مددگار  زندگی گزارنے والی شاعرہ اور صحافی روبینہ پروین کی مکمل کفالت کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز نے 10 ستمبر کو ماضی کی صحافی اور شاعرہ روبینہ پروین کی لاہور میں سڑک پر بے یارو مددگار زندگی گزارنے اور اُن کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی رپورٹ پیش کی تھی۔

    حالات کی ستم ظریفی نے 53 سالہ شاعرہ کا ذہنی توازن بھی خراب کردیا اور وہ اب فٹ پاتھ پر بیٹھی بیٹی کی یاد میں اداس رہتی ہیں۔ روبینہ پروین20سال قبل ادبی محفلوں میں حصہ لیتی تھیں مگر صرف تین سال میں انہیں سب نے تنہا چھوڑ دیا۔

    اے آر وائی نیوز کی نمائندہ رابعہ نور سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنے اشعار سنائے، ان کا کہنا تھا کہ مجھے میری بیٹی نماز کی طرح پانچ وقت یاد آتی ہے۔

    علیم خان کا اعلان

    تحریک انصاف کے سینئر وزیر علیم خان نے اے آر وائی نیوز کی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے اُن کے مکمل علاج اور کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کا اعلان کیا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک ٹویٹ میں اُن کا کہنا تھا کہ اےآروائی نیوزکی رپورٹ دیکھ کردل بھرآیا، روبینہ پروین کاعلاج کراؤں گا اور انہیں ماہانہ وظیفہ بھی دیاجائےگا۔

    علیم خان کا کہنا تھا کہ صحافی یا معاشرے کے کسی بھی فردکو برےحالات میں کبھی تنہا نہیں چھوڑناچاہیے۔

  • موسم خزاں ۔ شاعروں کی نظر میں

    موسم خزاں ۔ شاعروں کی نظر میں

    سال کا ہر موسم اور ہر ماہ اپنے اندر کچھ الگ انفرادیت رکھتا ہے۔ دھوپ کے گھٹتے بڑھتے سائے، سردیوں کی لمبی راتیں، ٹھنڈی شامیں، پت جھڑ، پھولوں کے کھلنے کا موسم، بارش کی خوشبو اور بوندوں کا شور، ہر شے اپنے اندر الگ جادوئی حسن رکھتی ہے۔

    آج کل کی تیز رفتار زندگی میں ہر شخص اتنا مصروف ہے کہ کسی کو موسموں پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔ لیکن بہرحال شاعروں اور تخلیق کاروں کی تخلیق کا مرکز یہی موسم ہوتے ہیں۔

    پرانے وقتوں میں بھی شاعر و ادیب موسموں کی خوشبو محسوس کر کے اپنی تخلیقات جنم دیا کرتے تھے۔ ستمبر کا مہینہ جسے پت جھڑ یا خزاں کے موسم کا آغاز کبھی کہا جاتا ہے بھی کئی تخلیق کاروں کے فن کو مہمیز کردیا کرتا ہے۔

    آپ نے آج تک مشرقی ادب میں ستمبر کے بارے بہت کچھ پڑھا ہوگا، آئیے آج سمندر کے اس طرف مغربی ادب میں جھانکتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ مغربی شاعروں و ادیبوں نے ستمبر کے بارے میں کیا لکھا۔

    sep-5

    انگریزی ادب کا مشہور شاعر ولیم ورڈز ورتھ جو فطرت کو اپنی شاعری میں بیان کرنے کے لیے مشہور ہے، ستمبر کے لیے لکھتا ہے

    موسم گرما کو رخصت کرتے ہوئے
    ایک روشن پہلو دکھائی دیتا ہے
    موسم بہار کی نرمی جیسا
    پتوں کے جھڑنے کا موسم
    خود روشن ہے
    مگر پھولوں کو مرجھا دینے کے لیے تیار ہے

    کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر رابرٹ فنچ کہتے ہیں، ’ستمبر میں باغوں میں سناٹا ہوتا ہے، سورج سروں کو جھلسانے کے بجائے نرم سی گرمی دیتا ہے، اسی لیے مجھے ستمبر بہت پسند ہے‘۔

    sep-7

    اٹھارویں صدی کا ایک آئرش شاعر تھامس مور ستمبر کے لیے لکھی گئی ایک نظم میں کہتا ہے

    ستمبر کا آخری پھول
    باغ میں اکیلا ہے
    اس کے تمام خوبصورت ساتھی پھول
    مرجھا چکے ہیں یا مر چکے ہیں

    اٹھارویں صدی کے برطانوی ادیب ہنری جیمز لکھتے ہیں، ’نرم گرم سی دھوپ اور اس کی روشنی، یہ سردیوں کی سہ پہر ہے۔ اور یہ دو لفظ ادب میں سب سے زیادہ خوبصورت الفاظ ہیں‘۔

    sep-4

    مشہور شاعر تھامس پارسنز کہتا ہے

    دکھ اور گرے ہوئے پتے
    غمگین سوچیں اور نرم سی دھوپ کا موسم
    اف! میں، یہ چمک اور دکھ کا موسم
    ہمارا جوڑ نہیں، پر ہم ساتھ ہیں

  • سجاد علی کا جون ایلیا کو پڑھنے کا مشورہ، ویڈیو دیکھیں

    سجاد علی کا جون ایلیا کو پڑھنے کا مشورہ، ویڈیو دیکھیں

    کراچی: نامور پاپ اور کلاسیکل موسیقی پر مہارت رکھنے والے پاکستانی گلوکار سجاد علی نے اپنے مداحوں کو معروف شاعر جون ایلیا کی شاعری پڑھنے کا مشورہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق گلوکار سجاد علی نے اپنے حالیہ ریلیز ہونے والے گانے ’لگایا دل‘ کے بول کی مکمل ویڈیو جاری کردی جس میں اُن کا کہنا تھا کہ وقت کی کمی کے باعث گانے میں صرف پانچ اشعار پیش کیے گئے تھے البتہ اب آپ اُسے پورا سُن سکیں گے۔

    سجاد علی نے گانے میں ایک شعر پڑھا جس کے ذریعے انہوں نے اپنے مداحوں کو مشورہ دیا کہ اگر شاعری پڑھنی ہو تو جون ایلیا کو پڑھو کیونکہ میں نے بڑے بڑے شاعروں کو پڑھا ہوگا مگر  ایسا کبھی نہیں پڑھا، ساتھ ہی گلوکار کا کہنا تھا کہ یہ شعر اُن کا پسندیدہ ہے جس سے اب بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر لوگوں کی طرح سجاد علی بھی جون ایلیا کی شاعری اور فلسفے سے متاثر ہیں۔

    اگر پڑھنے لگو تو جون پڑھنا

    بڑے شاعر پڑھے ایسا پڑھا نئیں

    واضح رہے کہ سجاد علی کے نئے گانے ’لگایا دل‘ کی ویڈیو 7 اپریل 2018 کو ریلیز ہوئی تھی جس کی ہدایت کا اُن کی صاحبزادی تھیں، منفرد ویڈیو میں کالج کے طلباء کی محبت کی اور کہانی بیان بتائی گئی تھی کہ کس طرح وہ ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور جب ان کے دل ٹوٹتے ہیں تو ان کے کیا احساسات ہوتے ہیں۔

    سجاد علی دھیمی اور دلوں کو چھو جانے والی موسیقی ترتیب دینے کے حوالے سے مشہور ہیں، ان کے نئے گانے میں بھی اس کی جھلک واضح طور پر نظر آئی، سجاد علی کا 2013 میں ریلیز کیا گیا گانا ’ہر ظلم تیرا یاد ہے‘ آج بھی لوگوں کے دلوں میں رچا بسا ہوا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

    اپریل میں ریلیز ہونے والی چار منٹ کی ویڈیو میں گانے کے صرف پانچ اشعار تھے جسے مداحوں نے بہت پسند کیا تھا تاہم اب گلوکار نے مکمل گانے کے بول کی ویڈیو ریلیز کردی۔

    ویڈیو دیکھیں

    خیال رہے کہ سجاد علی نے جون ایلیا کی مشہور و معروف غزل ‘میرا ایک مشورہ ہے التجا نئیں‘ کی زمین پر گانے کے بول خود تحریر کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔