Tag: poet

  • بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے

    بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے
    نئے چراغ جلا رات ہو گئی پیارے

    تری نگاہ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا
    کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے

    نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
    عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے

    اداس اداس ہیں شمعیں بجھے بجھے ساغر
    یہ کیسی شام ِخرابات ہو گئی پیارے

    وفا کا نام نہ لے گا کوئی زمانے میں
    ہم اہل دل کو اگر مات ہو گئی پیارے

    تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ
    الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے

    *********

  • دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

    دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
    ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

    بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں
    لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں

    ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
    دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

    جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
    آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

    وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
    اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں

    **********

  • چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

    چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
    عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

    اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
    اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا

    ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
    اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا

    اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
    بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا

    ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
    ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا

    میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
    شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا

    چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
    وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا

    مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
    منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا

    **********

  • اک ہنر تھا کمال تھا، کیا تھا

    اک ہنر تھا کمال تھا، کیا تھا
    مجھ میں تیرا جمال تھا، کیا تھا

    تیرے جانے پہ اب کے کچھ نہ کہا
    دل میں ڈر تھا ملال تھا، کیا تھا

    برق نے مجھ کو کر دیا روشن
    تیرا عکس جلال تھا، کیا تھا

    ہم تک آیا تو بہر لطف و کرم
    تیرا وقت زوال تھا کیا تھا

    جس نے تہہ سے مجھے اچھال دیا
    ڈوبنے کا خیال تھا، کیا تھا

    جس پہ دل سارے عہد بھول گیا
    بھولنے کا سوال تھا ،کیا تھا

    تتلیاں تھے ہم اور قضا کے پاس
    سرخ پھولوں کا جال تھا، کیا تھا

    *********

  • ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

    ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
    ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

    تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
    یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں

    قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
    چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

    اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
    مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

    تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
    ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

    اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
    کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

    گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
    یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

    **********

  • قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا

    قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا
    وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا

    آنکھیں ہیں کہ خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے
    اور زخم جدائی ہے کہ بھر بھی نہیں جاتا

    وہ راحت ِجاں ہے مگر اس در بدری میں
    ایسا ہے کہ اب دھیان ادھر بھی نہیں جاتا

    ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
    پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا

    دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
    اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا

    پاگل ہوئے جاتے ہو فرازؔ اس سے ملے کیا
    اتنی سی خوشی سے کوئی مر بھی نہیں جاتا

    *********

  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
    دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

    عہد جوانی رو رو کاٹا پیر ی میں لیں آنکھیں موند
    یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

    حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی
    ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا

    ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
    چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

    سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
    بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا

    سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
    کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

    کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
    کوچے کے اُس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

    شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مئے خانے میں
    جُبہ، خرقہ، کرتا، ٹوپی مستی میں انعام کیا

    یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
    رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا

    ساعدِ سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیے
    بُھولے اُس کے قول و قسم پر ہائے خیالِ خام کیا

    کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت ہے
    استغنا کی چوگنی اُن نے جُوں جُوں میں ابرام کیا

    ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
    سحر کیا، اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا

    *********

  • فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا

    فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا
    بجھتا ہوا دِیا نہ مقابل ہوا کے لا​

    دریا کا اِنتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
    ساحِل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا​

    تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گُل
    تھوڑی سی اُس کے جسم کی خُوشبو چُرا کے لا​

    گر سوچنا ہے اہل مشیت کے حوصلے
    میدان سے گھر میں اِک میت اُٹھا کے لا​

    محسن اب اُس کا نام ہے سب کی زبان پر
    کِس نے کہا تھا اُس کو غزل میں سجا کے لا​

    **********

  • شکل اس کی تھی دلبروں جیسی

    شکل اس کی تھی دلبروں جیسی
    خو تھی لیکن ستمگروں جیسی

    اس کے لب تھے سکوت کے دریا
    اس کی آنکھیں سخنوروں جیسی

    میری پرواز ِجاں میں حائل ہے
    سانس ٹوٹے ہوئے پروں جیسی

    دل کی بستی ميں رونقیں ہيں مگر
    چند اجڑے ہوئے گھروں جیسی

    کون دیکھے گا اب صلیبوں پر
    صورتیں وہ پیمبروں جیسی

    میری دنیا کے بادشاہوں کی
    عادتیں ہیں گداگروں جیسی

    رخ پہ صحرا ہیں پیاس کے محسن
    دل میں لہریں سمندروں جیسی

    *************

  • پھروہی میں ہوں وہی شہربدرسناٹا

    پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا
    مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا

    دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو
    ہجر والوں نے لیا رختِ سفر سناٹا

    کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے مرا رونے والا
    اس طرف میں ہوں مرے گھر سے ادھر سناٹا

    تو صداؤں کے بھنور میں مجھے آواز تو دے
    تجھ کو دے گا مرے ہونے کی خبر سناٹا

    اس کو ہنگامۂ منزل کی خبر کیا دو گے
    جس نے پایا ہو سر راہ گزر سناٹا

    حاصل کنج قفس وہم بکف تنہائی
    رونق شام سفر تا بہ سحر سناٹا

    قسمت شاعر سیماب صفت دشت کی موت
    قیمت ریزۂ الماس ہنر سناٹا

    جان محسنؔ مری تقدیر میں کب لکھا ہے
    ڈوبتا چاند ترا قرب گجر سناٹا

    ***********