Tag: poet

  • اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا

    اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
    ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا

    اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
    زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا

    موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
    ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا

    تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
    ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا

    آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
    راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا

    زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے
    اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا

    کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ
    دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا

    ***********

  • زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا

    زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
    دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

    ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
    اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا

    اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
    شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا

    دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
    دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا

    **********

  • جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

    بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
    اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا

    چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لب لعلیں کی
    اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا

    اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
    پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا

    اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
    اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا

    عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی
    جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

    **********

  • فقیر شاعر ساغر صدیقی کو گزرے 43 برس بیت گئے

    فقیر شاعر ساغر صدیقی کو گزرے 43 برس بیت گئے

    لاہور: اردو ادب کے عظیم فقیر منش شاعر ساغر صدیقی کو دنیا سے رخصت ہوئے تینتالیس برس بیت گئے لیکن ان کا کلام آج بھی زندہ ہے‘ ساغر 19 جولائی  1974  کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
    منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
    منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

    اردوزبان کو لطافت بخشنے والے عظیم شاعر ساغر صدیقی کو اہل ذوق آج ان کی رحلت کے چالیس سال بعد بھی یاد کررہے ہیں ۔ ساغر صدیقی سنہ 1928میں بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔

    ان کا اصل نام محمد اختر تھا اورآپ چودہ برس کی عمر میں ہی شعر کہنے لگے تھے، ابتدا میں ’ناصر حجازی‘کے تخلص سے غزلیں کہیں بعد ازاں ’ساغر صدیقی‘ کے نام سے خود کو منوایا۔

    ساغر بقدرِ ظرف لٹاتا ہوں نقد ِ ہوش
    ساقی سے میں ادھار کا قائل نہیں ہوں دوست

    ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ ’’لڑکا‘‘ (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔

    مجھ کو خزاں کی ایک لٹی رات سے ہے پیار
    میں موسمِ بہار کا قائل نہیں ہوں دوست

    اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں ساغرکی مانگ بڑھ‍ گئی۔ مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی یافت ہو جاتی تھی کہ انہیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ و دو کی ضرورت نہ رہی۔ کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔

    یہ جو دیوانے سے دوچار نظر آتے ہیں
    ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

    سنہ 1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ‍ لیا۔ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ فلم بنانے والوں نے ان سے گیتوں کی فرمائش کی اور اس میں انہیں بے مثال کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔


    اردو کے 100 مشہور اشعار


     اس زمانے میں ان کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساغرسے لکھوائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    وہ ایک درویش صفت شاعر تھے۔عشق مجازی عشق حقیقی ،جدوجہد، لگن اور آوارگی ساغر صدیقی کی شاعری کا موضوع بنے‘ ساغر کی آواز میں سوز اور کلام میں آفاقی پیغام تھا‘ دنیا سے متعدد بار دھوکے اٹھانے کے بعد ساگر نے نشے میں چھپنا چاہا ‘ جس کے سبب وہ ہر شے سے بے خبر ہوکر سڑکوں پر آبیٹھے۔

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    غربت اور نشے کی لت نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور وہ شراب کے بعد بھنگ اور مارفین جیسے گھٹیا اقسام کے نشے بھی استعمال کرنے لگے جس کے سبب ان کی صحت دن بدن جواب دیتی چلی گئی‘ اس دور میں بھی ان کی شاعری کمال کی تھی۔ ساغر کوا ن کے اپنے دوستوں نے لوٹا اور ایک چرس کی سگریٹ کے عوض ان سے فلمی گیت اور غزلیں لکھوائیں اور اپنے نام سے شائع کرائیں۔

    کچھ حال کے اندھے ساتھی تھے‘ کچھ ماضی کے عیار سجن
    احباب کی چاہت کیا کہیے ‘ کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

    جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
    اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

    ساغر نشے کی آغوش میں جانے سے قبل ایک نامور شاعر تھے اسی سبب ان کا کلام ناشروں نے ان کے نام سے چھاپا اور یہ گوہرِ نایاب ضائع ہونے سے بچ گیا‘ وفات تک ان کے کل چھ مجموعے غم بہار‘ زہر آرزو (1946ء)‘ لوح جنوں (1971ء)‘ سبز گنبد اور شبِ آگہی منظرِ عام پر آچکے تھے۔ ساغر نے غزل ‘ نظم‘ قطعہ‘ رباعی ‘ نعت ‘ گیت الغرض ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے

    آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    انیس جولائی انیس سو چوہتر کی صبح جب لوگ بیدار ہوئے تودیکھا کہ سڑک کنارے ایک سیاہ گٹھری سی پڑی ہے ‘ قریب آئے تو معلوم ہوا کہ اپنے وقت کا نابغہ ٔ روزگار شاعر’ساغر صدیقی ‘ اس جہان فانی سے رخصت ہوچکا ہے ، آپ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں‘ ہر سال آپ کے مزار پر عرس کا انعقاد ہوتا ہے۔

    محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
    ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

    چلو تم بھی سفر اچھا رہے گا
    ذرااجڑے دیاروں تک چلیں گے


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • قومی کتاب میلے میں حادثے کا شکار‘نوجوان شاعرہ انتقال کرگئیں

    قومی کتاب میلے میں حادثے کا شکار‘نوجوان شاعرہ انتقال کرگئیں

    قومی کتاب میلے میں اسٹیج سے گر کر زخمی ہونے والی نوجوان شاعرہ فرزانہ ناز کئی دن اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکمش میں مبتلا رہنے کے بعد خالقِ حقیقی سے جاملیں۔

    تفصیلات کے مطابق قومی کتاب میلے کی اختتامی تقریب کے فوراً بعد پاک چائنا فرینڈ شپ سینٹر کے مین آڈیٹوریم کے 12 فٹ بلند اسٹیج سے نیچے گرکرنوجوان شاعرہ فرزانہ ناز شدید زخمی ہوئیں اور پھر ان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے گزشتہ روز انتقال کرگئیں۔

    مین آڈیٹوریم میں اسٹیج اورحاضرین کے درمیان حد فاصل رکھنے کے لیے ایک خالی جگہ ہے جس کا فرش سنگِ مرمر کا ہے۔ فرزانہ سیڑھی سے چڑھتے ہوئے اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکیں اور سر کے بل اس خالی جگہ میں جا گریں۔

    انہیں فوراً شفاانٹرنیشنل ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ ہوش میں نہ آسکیں۔اسپتال ذرائع کے مطابق ان کے سر اور ریڑھ کی ہڈی پر شدید چوٹیں آئی تھیں‘ انہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈمیں رکھا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہوئیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے بھی کئی افراد اس کھائی نما جگہ میں گر کر زخمی ہوچکے ہیں، لیکن انتظامیہ اس تعمیری نقص کو درست کرنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتی۔

    فرزانہ ناز کا گزشتہ سال ہی پہلا شعری مجموعہ ’ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے‘ شائع ہوا تھا جسے ادبی حلقوں میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔

    معروف محقق و شاعرکا اظہارِ افسوس


    اردو ڈکشنری بورڈ کے سربراہ اور معروف محقق و شاعر عقیل عباس جعفری نے اس واقعہ پراظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ’’واقعہ مجھ سمیت متعدد لوگوں کی نظروں کے سامنے پیش آیا مگر ہم کچھ بھی نہ کرسکے۔ انسان واقعی کتنا بے بس ہے‘‘۔

    انہوں نے توقع بھی ظاہر کی ہے کہ ’’اسلام آباد کے مئیر شیخ انصرعزیز جو سی ڈی اے کے چئیرمین بھی ہیں اور اس فرینڈ شپ سینٹر کے نگراں بھی، وہ اس تعمیری نقص کو فوراً ٹھیک کروائیں گے‘‘۔ انکا کہنا تھا کہ فرحانہ ناز تو اب واپس نہیں آسکتی لیکن شاید اس سے آئندہ ہونے والے ممکنہ حادثات کا امکان ختم ہوسکے ۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔ 

  • شاعرِمشرق علامہ اقبال کی آج 139ویں سالگرہ ہے

    شاعرِمشرق علامہ اقبال کی آج 139ویں سالگرہ ہے

    آج شاعرِ مشرق مفکر ِپاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال کی آج 139 ویں سالگرہ ہے، ان کا فکری پیغام برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا کرنے کا بنیادی سبب بنا تھا۔

    ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877کو پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں پیداہوئے تھے‘ آپ بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔

    اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجۂ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔

    علامہ اقبال کو دورجدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔

    یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی خالق سمجھا جاتا ہے گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

    علامہ اقبال کی اردو، انگریزی اور فارسی زبان میں تصانیف میسرہیں


     سندھ اوربلوچستان کے تعلیمی اداروں میں تعطیل کا اعلان


    نثر

    علم الاقتصاد

    فارسی شاعری

    اسرار خودی
    رموز بے خودی
    پیام مشرق
    زبور عجم
    جاوید نامہ
    پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرقأ
    ارمغان حجاز


    ایران کی ایک شاہراہ ’شاعرِمشرق‘ کے نام سے منسوب ہے


    اردو شاعری

    بانگ درا
    بال جبریل
    ضرب کلیم

    انگریزی تصانیف

    فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء
    اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو

    آپ 21 اپریل 1938 کو ساٹھ سال کی عمر میں لاہور میں انتقال فرما گئے آپ کا مزار بادشاہی مسجد کے سائے میں مرجع خلائق ہے۔

  • آج ممتاز شاعر قابلؔ اجمیری کا یومِ پیدائش ہے

    آج ممتاز شاعر قابلؔ اجمیری کا یومِ پیدائش ہے

    آج سے پچاسی سال قبل 27 اگست1931ءکو اجمیرکے ایک قصبہ  “چرلی” کے متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے عبد الرحیم کے والد عبدا لکریم صاحب اجمیر میں ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے۔ ابھی یہ بچہ صرف ساڑھے چھ سال کا ہی تھا کہ والدہ اس دار فانی سے کوچ کرگئیں ابھی اس حادثہ کو گزرے  چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ باپ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا جس کے بعد اُن کے دادا نے پرورش کی انہوں نے ابتدائی تعلیم دارالعلوم معنییہ عثمانیہ اجمیرمیں حاصل کی لیکن حصولِ معاش کے سبب سے تعلیم کو نا مکمل چھوڑنا پڑا۔

    پندرہ سال کی عمر سے شعر کہنے والے عبدالرحیم نے اپنا تخلص قابل اجمیری اپنایا شاعری کا شوق ان کوارمان اجمیری کے پاس لے گیا اوران سے اصلاح سخن لینے لگے۔

    اسی زمانے میں مولانا عبدالباری معنی اجمیری مہتمم دارالعلوم مغیثیہ عثمانیہ کے مکان پر شعراء اور اہل قلم حضرات کی نشست رہتی تھی اور یہی وہ جگہ تھی جو منبع فیوض تصور کی جاتی تھی پھر قابل اس محفل کی طرف رجوع ہوئے وہیں کی صحبت کا فیض ہے کہ ان میں صحیح شعری ذوق و شعور پیدا ہوا۔

    1947 کے فسادات میں دوسرے تمام مسلمانوں کی طرح ان کو بھی ترکِ وطن کرنا پڑا, پاکستان آ کر حیدر آباد میں سکونت اختیار کی اور 1948 میں ڈاکٹر نامی اور مخدوم محمد یوسف مرحوم کی مدد سے ایک ہفت روزہ “شاہین” جاری کیا

    1949 کے اواخر میں ٹی بی کا موذی مرض حملہ آور ہوا بیماری کے شروع میں پَس اندازکیا ہوا پیسہ  دوا اور ڈاکٹروں کے نذر ہو گیا  چونکہ مستقل کوئی ذریعہ معاش نہ تھا اس لئے علاج بھی باقاعدگی سے نہ ہو سکادن یوں ہی گذرتے رہے اور فن کار کے سینے کے زخم مہکتے رہے۔

    qabil ajmairi

    قدرت کی ستم طریفی کہ سمندِ ناز پر ایک اور تاز یانہ اس وقت پڑا جب  قابل کا آخری سہارا صرف دو سال چھوٹا بھائی اور قوتِ بازو بھی بیمار ہو گیا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملا۔
    ۔1951 میں جب ایک شاعر کی حیثیت سے ان کی شہرت عام ہوئی تو عوام نے ذاتی صورت میں دلچسپی لینی شروع کی اور جب لوگوں نے اس فن کار کی غربت اور بیماری کو دیکھا تو صرف یہی نہیں کہ صاحبِ اقتدار حضرات کو توجہ دلانے کی کوشش کی بلکہ اخبارات کے ذریعہ حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایک شاعر گم نامی کے عالم میں ایڑیاں رگڑ رہا ہے  لہذا وزارتِ صحت اس کے علاج کا کوئی معقول اِنتظام کرے۔

    تا ہم حکومت کی جانب سے نہ کوئی مدد آنی تھی نہ آئی، یوں مفلسی، غربت اور ناقدری کے باعث محض 31 سال کی عمر میں قابل اجمیری دار فانی سے کوچ کر گئے بعد ازاں سندھ حکومت نے انہیں  ’’شاعر سندھ‘‘ کے خطاب سے نوازا۔

    قابل کی شاعری میں زندگی کی تلخیاں اور نفسیات کی باریکیاں ایسی سموئی ہوئی ہیں جس طرح ایک کامل مصوّر مختلف زنگوں کے مزاج اور خطوط کی کشید سے ایک ایسی تصویر بناتا ہے کہ دیکھنے والوں پر سحر کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

    کتابیں و کلیات

    پہلا مجموعہ کلام ۔۔۔ دیدہ بیدار ۔۔۔۔۔۔۔ 1963ء
    دوسرا مجموعہ کلام ۔۔۔۔ خونِ رگِ جاں  ۔۔۔۔ 1966ء
    کلیاتِ قابل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1992ء

    قابل اجمیری کے شعری نمونے 

    ’’ تمہیں خبر بھی ہے یارو کہ دشتِ غربت میں

    ہم آپ اپنا جنازہ اٹھائے پھرتے ہیں

    ضبط غم کا صلہ نہ دے جانا

    زندگی کی دعا نہ دے جانا

    بیکسی سے بڑی امیدیں ہیں

    تم کو کوئی آسرا نہ دے جانا ‘‘

    منتخب اشعار

    ’’ بے کسی سے بڑی امیدیں ہیں

    تم کوئی آسرا نہ دے جانا

    کوئی احسان کر کے قابل پر

    دوستی کی سزا نہ دے جانا ‘‘


     

    ’’ضبط غم کا صلہ نہ دے جانا

    زندگی کی دعا نہ دے جانا

    بیکسی سے بڑی امیدیں ہیں

    تم کو کوئی آسرا نہ دے جانا‘‘


    ’’ اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو

    زندگی کتنی خوبصورت ہے

    جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ

    زندگی کو مری ضرورت ہے ‘‘


    ’’ کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں

    زندگی آج ترا قرض چکا دیتے ہیں

    تیرے اخلاص کے افسوں ترے وعدوں کے طلسم

    ٹوٹ جاتے ہیں تو کچھ اور مزا دیتے ہیں‘‘


    ’’خلش بڑھ کر فغان ہو جائے گی کیا

    محبت داستاں ہو جائے گی کیا

    اڑا جاتا ہے قابل ذرہ ذرہ

    زمیں بھی آسماں ہو جائے کیا ‘‘


    ’’ خیالِ سود نہ اندیشہ زیاں ہے ابھی

    چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی

    رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر

    تمہیں سلیقہ بے گانگی کہاں ہے ابھی

    سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل

    نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے ابھی ‘‘


    ’’ بہت نازک طبیعت ہو گئی ہے

    کسی سے کیا محبت ہو گئی ہے

    نہیں ہوتی کہیں صرفِ تماشا

    نظر تیری امانت ہو گئی ہے

    کہاں اب سلسلے دار و رسن کے

    محبت بھی ندامت ہو گئی ہے

    غمِ دوراں کی تلخی بھی جنوں میں

    ترے رُخ کی ملاحت ہو گئی ہے

    خبر کر دو اسیرانِ فلک کو

    مری دنیا بھی جنت ہو گئی ہے ‘‘

    ذبان ذد عام غزلیں

    ’’ تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے

    میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے

    مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو

    مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے

    کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ مرے لہو کی بہار کب تک

    مجھے سہارا بنانے والو، میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے

    ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن

    تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے

    ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو، بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو

    مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے ‘‘

    ’’ وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد

    سحر تھی شام سے پہلے سحر ہے شام کے بعد

    مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز

    مرے سلام سے پہلے مرے سلام کے بعد

    چرغِ بزمِ ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ

    جلے تھے شام سے پہلے بجھے ہیں شام کے بعد

    یہ رات کچھ بھی نہیں تھی یہ رات سب کچھ ہے

    طلوعِ جام سے پہلے طلوعِ جام کے بعد

    رہِ طلب میں قدم لڑکھڑا ہی جاتے ہیں

    کسی مقام سے پہلے کسی مقام کے بعد ‘‘

    بشکریہ: پروفیسر ارشد رضا

  • شہرہ آفاق شاعر’فراز احمد فراز‘کو گزرے 8 برس بیت گئے

    شہرہ آفاق شاعر’فراز احمد فراز‘کو گزرے 8 برس بیت گئے

    اسلام آباد: اردو زبان اور غزل کو آفاقی شہرت بخشنے والے شاعر فرازاحمد فرازؔ کی آجآٹھویں برسی ہے آپ کا شمار عصر حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ءکو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سید محمد شاہ برق کا شمارکوہائی فارسی کے ممتاز شعراء میں ہوا کرتا تھا۔


    احمد فراز کے مشاعرے کی ویڈیو دیکھنے کے لئے نیچے اسکرول کیجئیے


    احمد فراز اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل تھے اور انہوں ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

    ریڈیو پاکستان کے بعد احمد فراز پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

    احمد فراز کا شمار عہد حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی عمومی شناخت ان کی رومانوی شاعری کے حوالے سے ہے لیکن وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہر دور میں صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں جھیلنی پڑیں اور جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔

    آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

    کیا عجب کل وہ زمانےکو نصابوں میں ملیں

    احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘ کے نام شامل ہیں۔

    اب کے ہم بچھڑےتوشاید کبھی خوابوں میں ملیں

    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی تھی۔

    احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • ماہِ آزادی پر نامور شاعر و ادیب انور شعور کے خیالات

    ماہِ آزادی پر نامور شاعر و ادیب انور شعور کے خیالات

    َ

    انور شعور نامور شاعر ہیں ، آپ کئی اخبارات اور رسائل سے وابستہ رہے ہیں، آپ کی اب تک تین تصانیف شائع ہوچکی جن میں ’’اندوختہ، مشق سخن، می رقصم‘‘ شامل ہیں۔ کم تعلیمی یافتہ ہونے کے باوجود آپ نے مطالعے پر زور دیا اور معاشرے میں اپنی جگہ بنائی۔ ماضی میں آپ ریڈیو پاکستان پر بچوں کے کئی پروگرام کرچکے ہیں اور سب رنگ ڈائجسٹ سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ دیگر نامور شاعروں کے ساتھ آپ کے بہت گہرے مراسم رہے ہیں۔ آپ اردو کے فروغ کے لیے مختلف انجمنوں اور اداروں سے وابستہ رہے اور آپ کا کلام مختلف ’’فنون‘‘ دیگر رسائل میں شائع ہوتا رہا ہے۔ آپ کے مشہور اشعار میں سے ایک شعر درج ذیل ہے۔


    ’’اچھا خاصہ بیٹھے بیٹھے گُم ہوجاتا ہوں،

     اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہوجاتا ہوں‘‘


    آپ نے ہر موضوع پر شعر لکھے ہیں اور آج نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ یومِ اگست کے حوالے سے ہم نے انور شعور سے رابطہ کیا اور اس حوالے سے اُن کا تفصیلی انٹرویو لیا جو آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

    ANWER POST 1

    سوال :  تحریک پاکستان کے حوالے سے کیا باتیں یاد ہیں؟

    جواب : تقسیم کے 68سال کیسے گزرے یہ تو نہیں معلوم ہاں مگر افسوس یہ ہے کہ ہم جس پاکستان کے لیے ہجرت کر کے آئے تھے وہ پاکستان دو لخت ہوگیا۔ بمبئی میں تحریک آزادی زور و شور سے جاری تھی، جناح صاحب نے اپنا سیاسی تدبراستعمال کیا اور ہندوستان کے مسلمانوں کو  نیا ویژن دیا۔ جس کی بدولت ہندوستان کے مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد نے بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان کا رُخ کیا۔

    سوال : پاکستان  پہنچنے کے بعد کن حالات سے گزرے؟

    جواب : وطن پہنچنے اور یہاں بسر ہونے کے بعد ہر خاندان کی لازاوال قربانیوں کی اپنی داستاں ہے تاہم اُس وقت کے دارلحکومت کراچی پہنچنے تک ہمارا خاندان کن مراحل سے گزرا یہ بہت لمبی اور کٹھن داستان ہے، بس یوں سمجھو کہ جو بیٹھے بیٹھے پانی کا حکم دیتا تھا اُس کو یہاں آکر روٹی حاصل کرنے کےلیے تک و دو کرنی پڑی بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس اجنبی شہر میں اجنیبت کا بہت احساس تھا، بہن بھائیوں کے بچھڑنے کے غم نے تو کئی سال تک جینے کی آس تک چھین لی تھی۔

    سوال : پاکستان آنے کے بعد ایسا کون سا واقعہ ہے، جو آج تک آپ کے ذہن پر نقش ہو؟

    جواب : ہم تو اُس وقت بہت چھوٹے تھے اس بات کا غم تو ہمارے والدین کو بہت تھا یہی وجہ ہے کہ وہ وقت سے پہلے بوڑھے ہوئے اور دوبارہ اپنے آبائی گھر کو دیکھنے اور دیگر رشتے داروں کی حسرت لیے دنیائے فانی سے کوچ کرگئے، پاکستان آنے کے بعد سب سے پہلا واقعہ مجھے جناح صاحب کا جنازہ یاد ہے جس میں لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر میں دنگ رہ گیا تھا اس سے قبل اتنے لوگ کسی جگہ پر اتنی بڑی تعداد میں نہیں دیکھے تھے۔

    سوال : پاکستان آنے کے بعد کہاں منتقل ہوئے اور یہاں زندگی کی ابتداء کیسے کی؟

    جواب : ہمارے مستقبل اور ایمان کو بچانے کی خاطر ہمارے والدین نے اس خطے کا رخ کیا مگر افسوس صورتحال تبدیل نہیں ہوئی بلکہ وہی ہے جو تقسیم سے قبل سنتے آئے تھے۔ بمبئی سے ہمارے اہل خانہ پرانا اردو کالج بوہرہ پیر منتقل ہوئے جہاں روڈ بہت چوڑے چوڑے تھے اور ریڈیو اسٹیشن سے آگے بہت کم آبادی تھی کچھ عرصہ اس علاقے میں رہائش اختیار کی، اس کے بعد ہمارے والد نے ناظم آباد میں گھر لیا۔ اس علاقے میں مجھے تعلیم کے حصول کے لیے حسینی ہائی اسکول میں داخل کروایا گیا وہ الگ بات ہے کہ تعلیم میں عدم دلچسپی کے باعث تعلیم صرف 5ویں کلاس تک حاصل کی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے گھر سے بھاگ گیا۔

    ANWER POST 3

    اس دوران مجھے نعت خوانی کا جنون سوار ہوگیا تو گھر والوں نے اس یقین دہانی کے ساتھ گھر واپس بلایا کہ وہ دوبارہ اسکول میں داخل نہیں کروائیں گے اور آئندہ میں تعلیم کے حصول کے لیے مدرسے جاؤں گا۔ مدرسے جانے کے بعد مجھے شاعری کا شوق سوار ہوا اور پھر شعراء اکرام و ادبی لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران مجھے ایک استاد ملے جنہوں نے میرے ذوقِ شاعری کو دیکھتے ہوئے کئی تصانیف عنایت کی بعد ازاں مطالعہ کرتے کرتے ملک کی کئی بڑی ہستیوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل رہا۔

    سوال : کسی سرکاری ادارے میں ملازمت کی؟

    جواب : سرکاری ملازمت تو اچھی تعلیم سے میسر آتی ہے تاہم میں بچوں کے رسائل کو بڑے ذوق سے پڑتا رہا اور آہستہ آہستہ کر کے ریڈیو پاکستان کے پروگراموں میں اپنی جگہ بنائی اور اپنے آپ صلاحیتیوں کو وہی سے منوانا شروع کیا۔

    سوال :  سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے جو باتیں کی جاتی ہیں اُن میں کتنی صداقت ہے؟

    جواب : اس حوالے سے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 11 دسمبر 1971 کو اچانک اُس وقت کے صدر یحیٰ خان کی تقریر نشر ہوئی جس میں انہوں نے للکارتے ہوئے پیغام دیا کہ ’’ہم ہر جگہ لڑیں گے ، دفتروں، چوکوں، بستیوں ، آبادیوں وغیرہ وغیرہ میں جنگ کریں گے ‘‘۔ اس اعلان کے نشر ہونے کے بعد میں نے اسٹیشن میں بیٹھے تمام افراد کو روتے ہوئے دیکھا کیونکہ لوگ سمجھ گئے تھے کہ وطن دو لخت ہوگیا ہے ‘‘۔

     سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہماری افواج نے وہاں کی عورتوں کے ساتھ عصمت دری کی ، نوجوانوں پر مظالم کیے ،بچوں کو قتل کیا۔ یہ سب غلط اور پروپیگنڈا ہے وہاں جو کچھ بھی ہوا وہ ردعمل تھا ہاں مگر یہ بتاؤ ہماری فوج وہاں ظلم کیوں کرتی کہ جب ’’بنگالہ دیش کی افواج نے ہمارے 90 ہزار فوجی گرفتار کیے ہوئے تھے اور ایسے ہی کئی ہزاروں فوجی ہتھیار ڈال چکے تھے‘‘۔

    سوال : آپ کے خیال میں سانحہ سقوط ڈھاکہ کیوں پیش آیا؟

    جواب : پاکستان دو لخت نہ ہوتا مگر یہ ایک سازش کے تحت کیا گیا، بنگلہ دیش میں ڈیوٹی پر مامور پاکستانی فوجیوں کو علم نہیں تھا کہ بنگلہ دیش آزاد ہورہا ہے انہوں نے اپنے سنیئرز کے احکامات مانتے ہوئے ہتھیار ڈالے اور یحیٰ خان نے بھی ایک موقع پر یہی کہا کہ ہم نے فتح حاصل کرلی ہے اور پاکستان دولخت نہیں ہوا ۔ بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ ہی ہے تاہم صورتحال سامنے آنے پر معلوم ہوا کہ واقعی ہم ٹوٹ چکے ہیں‘‘۔

    سوال : مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی سیاسی زندگی کے بارے میں کچھ یاد ہے؟

    جواب : جناح کے بعد اگر ملک میں کوئی قومی لیڈر کے طور پر سامنا آیا تو وہ اُن کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح تھیں تاریخ گواہ ہے کہ اُن کے ساتھ ہم نے بہت غلط رویہ اختیار کیا اور دھاندلی کے ذریعے اُن کا سیاسی قتل کیا، شاید یہ کسی تسلسل کا سلسلہ تھا۔

    ANWER POST 3

    بعد ازاں ملکی معاملات کو جاگیر دار وڈیروں کے حوالے کردیا گیا اور قوم مختلف ٹولوں قومیتوں، فرقوں کے نام پر بٹ گئی، ان جاگیر داروں نے ہمارے ملک کے ساتھ بہت غلط کیا اور سازش کے تحت اقتدار پر آج تک قابض ہیں۔

    سوال : آپ مشاعروں وغیرہ کے سلسلے میں اکثر  بھارت جاتے ہیں، بھارت میں مسلمان (اقلیتوں) کے حالات کیسے ہیں؟

    جواب : حیران کُن بات یہ ہے کہ بھارت کے مسلمان ہندو حکومت کو برا نہیں کہتے وہاں کے مسلمانوں کا ماننا ہے کہ ’’بھارت میں نوکریاں، تعلیمی اداروں میں داخلوں سمیت ہر چیز میرٹ پر ہوتی ہے۔ رواں سال ریختہ کی جانب سے منعقد کردہ مشاعرے میں شرکت کرنے کے بعد میں نے وہاں کے ایک طالب علم سے سوال کیا کہ ’’کیا تمھارے ساتھ ہندو حکومت کا رویہ صیح ہے تو اُس سے ایک لمحہ ٹھرے بغیر جواب دیا کہ ہمارے ملک میں میرٹ کا نظام ہے اگر میں میرٹ پر پورا اتروں گا تو میں ہر چیز حاصل کرسکتا ہوں‘‘۔

    ANWER POST 4

    ہاں مگر بھارت میں ذات پات کا بہت تفرقہ ہے مگر ہم اُس ملک کو تنقید کا نشانہ اس لیے نہیں بناسکتے کیونکہ ہمارے ملک کے جاگیردار طبقے نے رعایا اور اپنے درمیان اُس سے بھی خطرناک فرق رکھا ہوا ہے، ہمارا ملک اسلامی ہے تاہم اسلامی اصولوں کے حساب سے تمام زمین اللہ کی ہے مگر ہمارے اسلامی ملک میں اس اصول کو بالائے طاق رکھ دیا گیا اسی وجہ سے پوری قوم مخمصے کا شکار ہے۔

     سوال : پاکستان کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟

    جواب : مجھے امید ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ پاکستان ترقی کرے گا آج کے نوجوانوں تک جو باتیں نہیں پہنچی اُس کے ذمہ دار ہماری نسل ہے، میری نوجوانوں سے گزارش ہے کہ اپنے حصے کا کام کریں آہستہ آہستہ پورا ملک صیح ہوجائے گا اور یہ زمین ہمیں تسلیم کر لے گی۔

    سوال : ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہمیں ملکی ترقی میں کیسے کردار ادا کرنا چاہیے؟

    جواب : آزادی کے بعد سے آج تک یہ تعین نہیں کیا گیا کہ بطور پاکستانی ہمیں اس ملک کی خدمت کے لیے کیا کرنا ہے کیونکہ اس کی سب سے بڑی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے مگر آپ نوجوان اپنے حصے کا کام کرتے جاؤں تاکہ ملک مستحکم رہے۔

    سوال : جشن آزادی کے موقع پر نوجوانوں کے نام کوئی پیغام؟

    تمام نوجوانوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم آزاد ہیں ہاں مگر ایک بات یاد رکھیں آزادی میں بھی کچھ پابندیاں ہیں جس سے آپ کی ثقافت کا معلوم ہوتا ہے بس ہر موقع پر اُس کا خیال ضرور رکھیں۔

    انٹرویو کے اختتام پر انور شعور نے اپنے دو اشعار سنائے جو آپ کی خدمت میں پیش کیے جارہے ہیں۔


    قائد نے چند سال میں حاصل یہ گھر کیا

    اسلامیانِ ہند کی شب کو سحر کیا

    لیکن سوال یہ ہے کہ ! اے رہ روانِ قوم

    ستر برس میں آپ نے کتنا سفر کیا


  • معروف شاعر اکبر الہ آبادی کا یومِ وفات آج منایا جارہا ہے

    معروف شاعر اکبر الہ آبادی کا یومِ وفات آج منایا جارہا ہے

    معروف شاعر اکبر الہ آبادی کا آج یوم وفات منایا جارہا ہے۔

    اکبر الٰہ آبادی 16 نومبر 1846ء کو الٰہ آباد کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید اکبر حسین تھا اور تخلص اکبر تھا۔

    ابتدائی تعلیم سرکاری مدارس میں پائی اور محکمہ تعمیرات میں ملازم ہوگئے۔ 1869ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیلدار ہوئے۔ 1870ء میں ہائی کورٹ کی مسل خوانی کی جگہ ملی۔ 1872ء میں‌وکالت کا امتحان پاس کیا۔ 1880ء تک وکالت کرتے رہے۔ پھر منصف مقرر ہوئے، 1894ء میں عدالت خفیفہ کے جج ہوگئے، 1898ء میں خان بہادر کا خطاب ملا۔

    وہ اردو شاعری میں ایک نئی طرز کے موجب بھی تھے اور اس کے خاتم بھی، انہوں نے ہندوستان میں مغربی تہذیب کے اولین اثرات کی تنقید میں اپنی طنزیہ شاعری سے خوب کام لیا۔ ان کے متعدد اشعار اردو شاعری میں ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    مشرقیت کے دلدادہ اور مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید کے سخت خلاف تھے۔ اُن کے کُچھ مشہور شعر جو زبان زد عام ہیں۔ مثلاََ

    ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں کہ

    جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

    فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں

    ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

    ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

    وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

    مخزن لاہور نے انھیں لسان العصر خطاب دیا، مبطوعہ کلام تین کلیات پر مشتمل ہے۔ دو ان کی زندگی میں شائع ہوگئے تھے۔ تیسرا انتقال کے بعد شائع ہوا، اکبر الٰہ آبادی کی تصانیف میں چار جلدوں پر مشتمل کلیاتِ اکبر ، گاندھی نامہ، بزمِ اکبر اور گنج پنہاں کے نام سرِفہرست ہیں۔

    آپ کا انتقال 9 ستمبر 1921ء کو الہٰ آباد میں ہوا۔