Tag: POETRY

  • اداکار فیروز خان مداحوں کے سامنے ایک نئے روپ میں

    اداکار فیروز خان مداحوں کے سامنے ایک نئے روپ میں

    کراچی : پاکستان شوبز کے نامور اداکار فیروز خان بھی شاعری کے دلدادہ نکلے، سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے ایک غمگین شعر پر مداحوں نے انہیں دل کھول کر داد دی۔

    پاکستان کے معروف فلم و ڈرامہ انڈسٹری کے اداکار فیروز خان کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک غمگین شعر لکھا گیا ہے جسے پڑھنے کے بعد مداح داد دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

    ٹی وی ڈرامہ ’خدا اور محبت‘ کے تیسرے سیکوئل میں اپنی جاندار اداکاری سے شائقین کو رلانے والے اداکار فیروز خان آج کل نئے پروجیکٹس پر کام کرنے میں کافی مصروف ہیں۔

    فیروزخان اتنی مصروفیت کے باوجود بھی اپنے مداحوں سے رابطہ رکھنا نہیں بھولتے اور ہر دن نئی پوسٹ کے ذریعے مداحوں کو ٹریٹ دیتے نظر آتے ہیں۔

    فیروزخان کی جانب سے اپنی نئی پوسٹ میں ایک غمگین، دل کو چھو لینے والا شعر لکھا گیا ہے۔ فیروز خان نے لکھا کہ،

    درد اتنا ہے کے ہر رگ میں ہے محشر برپا،
    اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے۔

    فیروز خان کےاس شعر کے ساتھ پوسٹ کی گئی تصویر بھی کافی اداس اور اُن کی آنکھیں بھی غمگین نظر آ رہی ہیں۔

    فیروز خان کے مداحوں کی جانب سے اُن کی اس پوسٹ پر داد دینے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اُن کے چند مداح اُن کے شعر کے بدلے میں شعر و شاعری سے بھی جواب دے رہے ہیں۔

     

  • راحت اندوری "دو گز زمیں” کے مالک بن گئے

    راحت اندوری "دو گز زمیں” کے مالک بن گئے

    افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
    لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کردیا
    دو گز سہی مگر یہ مِری ملکیت تو ہے
    اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کردیا

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبول بھارت میں اردو زبان کے شاعر راحت اندوری اپنے لاکھوں مداحوں کو روتا چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سوئے۔

    ڈاکٹر راحت اندوری بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور کے اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں ان کا کوررونا ٹیسٹ مثبت آنے کے ایک دن بعد انتقال ہوگیا تھا، ان کی عمر 70سال تھی۔

    راحت اندوری کو کورونا وائرس کے سبب سانس لینے میں دشواری کے پیش نظر اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا اور وہیں حرکتِ قلب بند ہو جانے کے سبب وہ خالق حقیقی سے جاملے، ان کے علاج پر مامور ڈاکٹر ونود بھنڈاری نے میڈیا کو بتایا کہ منگل کے روز انہیں دوسری بار دل کا دورہ پڑا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

    یکم جنوری 1950 کو بھارت میں پیدا ہونے والے راحت اندوری پیشے کے اعتبار سے اردو ادب کے پروفیسر رہ چکے ہیں بعد ازاں آپ نے کئی بھارتی ٹی وی شوز میں بھی حصہ لیا۔

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں پسند کیے جانے والے بھارت کے مشہور شاعر نے غزلوں کے علاوہ بالی ووڈ کی فلموں کے لیے متعددگیت بھی لکھے بلکہ گلوکاری کے کئی شوز میں بطور جج حصہ بھی لیا۔ بالی وڈ کی مشہور فلم ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘اور دیگر فلموں کے گیت راحت اندوری نے ہی قلم بند کیے تھے۔

    راحت اندوری کے کلام میں یہ خاص بات ہے کہ وہ ہر خاص وعام میں یکساں مقبول ہے وہ ہر اہم موضوع کو اپنے شعروں میں ڈھال کر بہت سلیقے، خوبصورتی اور منفرد انداز کے ساتھ سامعین کے سامنے پیش کرتے تھے۔

    انہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی تھی کہ پانچ سو سال بعد کا ادب انہیں کس طرح یاد رکھے گا، وہ لمحہ موجود میں جیتے تھے اور اپنی شاعری کے موضوعات آس پاس کے واقعات سے اٹھاتے تھے۔

    اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
    یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے

    لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
    یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

    میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
    ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

    ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
    ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

    جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
    کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

    سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
    کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

    ایک سنجیدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ نوجوان نسل کی نبض تھامنا خوب جانتے تھے۔ اس کی ایک مثال ہے ان کی نظم ” بلاتی ہے مگر جانے کا نہیں "جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔

    بلاتی ہے مگر جانے کا نئیں
    یہ دنیا ہے ادھر جانے کا نئیں

    میرے بیٹے کسی سے عشق کر
    مگر حد سے گزر جانے کا نئیں

    ستارے نوچ کر لے جاوں گا
    میں خالی ہاتھ گھر جانے کا نئیں

    وہ گردن ناپتا ہے ناپ لے
    مگر ظالم سے ڈر جانے کا نئیں

    حالات حاضرہ پہ کہنا ہو یا مزاحیہ شاعری کے ذریعے لوگوں کو محظوظ کرنا ہو، ان کے الفاظ پر پورا مجمع ایک دم واہ واہ کی صداؤں سے گونج اٹھتا تھا۔

    بھارت میں گائے کے ذبیحہ پر عدالتی پابندی کے بعد راحت اندوری کا کہنا تھا کہ

    کوئی کیا سوچتا رہتا ہے میرے بارے میں
    یہ خیال آتے ہی ہمسائے سے ڈر لگتا ہے

    نئے خوف کا جنگل ہیں میرے چاروں طرف
    اب مجھے شیر نہیں گائے سے ڈر لگتا ہے

    ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

    گھروں کے دھنستے ہوئے منظروں میں رکھے ہیں
    بہُت سے لوگ یہاں مقبروں میں رکھے ہیں
    ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
    ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں۔

    عام طور پر راحت اندوری کو نئی پوت بطور شاعر ہی پہچانتی ہے، انہوں نے نئی نسل کو کئی رہنمایانہ باتیں بتائیں جو اُن کے فنی سفر ، تلفظ اور گلوکاری میں معاون ثابت ہوئی۔

  • اداکارہ یمنیٰ زیدی نے شاعری شروع کردی، ویڈیو وائرل

    اداکارہ یمنیٰ زیدی نے شاعری شروع کردی، ویڈیو وائرل

    کراچی : ٹیلی وژن کی معروف اداکارہ یمنیٰ زیدی نے شاعری شروع کردی، سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں انہوں نے اپنے خیالات کو شعروں میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ٹی وی ڈراموں میں اپنی شاندار اداری کے جوہر دکھا نے والی یمنیٰ زیدی اب شاعری بھی کرنے لگیں، سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر انہوں نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں انہیں ایک غزل کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    This Creative hour though 🤓….. sharing my recent poem 👻

    A post shared by Yumna Zaidi (@yumnazaidiofficial) on

    اس ویڈیو کی خاص بات یہ ہے کہ جو غزل وہ پڑھ رہی ہیں وہ انہوں نے خود ہی لکھی ہے۔ یمنیٰ زیدی نے اپنی دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ غزل سنائی تو ان کے مداحوں نے ان کی زبردست انداز میں پذیرائی کی۔

    واضح رہے کہ اداکارہ یمنیٰ زیدی مختلف چینلز پر کئی کامیاب ٹی وی ڈراموں میں اپنی پرفارمنس دکھا چکی ہیں، اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل "پکار’ میں بھی انکی پرفارمنس کو ناظرین نے بہت سراہا تھا-

  • اک اوردریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو

    اک اوردریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو

    شاعری میں جداگانہ اسلوب اور منفر د لب و لہجے کے حامل   اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی کا آج 91 واں یوم پیدائش ہے، الگ اور بے باک انداز انہیں  دیگرشعراء سے ممتاز کرتا ہے۔

    اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں9 اپریل  1928 میں پیدا ہوئے۔انہوں نے بی اے تک تعلیم پائی اور جنگ عظیم کے دوران میں ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہو گئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آ گئے۔

    قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور آگئے اور یہاں وہ کئی اخبارات، ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔

    منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انہوں نے جدید انسان کے روحانی خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لیے چڑیل اورچیل ایسی علامات استعمال کیں۔ منیر نیازی کی نظموں میں انسان کا دل جنگل کی تال پر دھرتا ہے اور ان کی مختصر نظموں کا یہ عالم ہے کہ گویا تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دی گئی ہو۔

    کج اونج وی راھواں اوکھیاں سن

    کج گَل وچ غم دا طوق وی سی

    کج شہر دے لوک وی ظالم سن

    کج مينوں مَرن دا شوق وی سی

    منیر نیازی اردواور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے، اردو میں ان کے تیرہ شعری مجموعے شائع ہوئےجن میں تیزہوا اور تنہا پھول، دشمنوں کے درمیان شام، جنگل میں دھنک، سفید دن کی ہوا، ماہ منیر، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعت سیار شامل ہیں۔

    معروف شاعر کے پنجابی میں‌ بھی تین شعری مجموعے شائع ہوئے اس کے علاوہ کلیات منیر کی بھی اشاعت ہوئی جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے۔منیر نیازی کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا اسی لیے غزل میں بھی ان کا لب ولہجہ بلند آہنگ ہوجاتا ہے۔

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں

    ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

    اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو

    بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو

    بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو

    کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو

    حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو

    ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں

    معروف شاعر منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔

    شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے شاعر 26 دسمبر سنہ 2006 کو لاہور میں وفات پاگئے۔شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہوگی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا، ان کی اپنی زندگی کی بہترین اور بھرپور عکاسی اس شعرسے ہوتی ہے۔

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

    میں ایک دریا کے پار اترا تومیں نے دیکھا

  • عظیم گلوکار الن فقیر کو ہم سے بچھڑے 18 برس بیت گئے

    عظیم گلوکار الن فقیر کو ہم سے بچھڑے 18 برس بیت گئے

    کراچی: پاکستان کے عظیم گلوکار الن فقیر کو ہم سے بچھڑے 18 برس بیت گئے لیکن آج بھی ان کے مقبول گیت کانوں میں رس گھولتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق معروف لوک فنکار الن فقیر کو مداحوں سے بچھڑے اٹھارہ برس بیت گئے، اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت وہ آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

    الن فقیر نے شاہ لطیف کے مزار سے پاکستان ٹیلی وژن تک سفر کیا، لوک گلوکاری کا بے تاج بادشاہ الن فقیر جیسا کوئی نہیں، انہوں نے ملک کو ’’تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا‘‘ اور ’’اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا‘‘ جیسے لازوال نغمے بھی دیے۔

    وادی مہران کے مردم خیز علاقےدادو ضلع میں انیس سو بتیس میں پیدا ہونے والے الن فقیر کی طبعیت شروع سی ہی صوفیانہ تھی سونے پر سہاگا قدرت نے انہیں خوبصورت آوازسے نواز رکھا تھا، ان کی گلوکاری کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا، الن فقیر نے صوفیانہ کلام گا کر ملک اور بیرون ملک میں شہرت حاصل کی۔

    الن فقیر نے اپنے فنی سفر کا آغاز شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری کے ذریعے حیدر آباد ریڈیو سے کیا ،ان کا گایا ہوا گیت تیرے عشق میں جوبھی ڈوب گیا اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا انہیں فن کی دنیا میں امر کر گیا۔

    اپنے جداگانہ انداز گلوکاری کی بدولت الن فقیر کو کئی ایوارڈز بھی دیے گئے، ان میں اسی کی دہائی میں ملنے والا صدارتی ایوارڈ سرفہرست ہے۔ لوک گلوکاری کا یہ چمکتا ستارہ چار جولائی سن دو ہزار کو اس جہان فانی سے کوچ کر گیا مگر وہ آج بھی اپنے چاہنے والے کے دلوں میں زندہ ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • درد کہاں جاتے ہیں مائے

    درد کہاں جاتے ہیں مائے

    شاعری کا ظہور انسانی جذبے سے ہوتا ہے۔ جب میں سوچتا ہوں کہ غزل کا ظہورکیسے ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ من بھیتر میں تسلیم ورضا کا بے پناہ جذبہ اس کا باعث ہے؛ اُس وقت جب ہم حسن کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہیں تب چاہے مسرت کا حصول ہو یا دکھ اٹھائیں۔ لیکن نظم کیوں پیدا ہوتی ہے؟ یہ بالکل ایک الگ سوال ہے۔ نظیر سے لے کر اقبال اور فیض تک اور آج تک کے تقریباً تمام اہم نظم گو شعرا تک نظم کی روایت پر نگاہ دوڑائی جائے تو اس کا جنم ایک جذبۂ پیکار سے ہوتا معلوم ہوتا ہے۔جذبۂ پیکاراپنے وجود کے معروض کو بدل دینے کی تڑپ سے لب ریزجذبہ۔

    افتخار بخاری 80 کی دہائی کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نظم گوشاعروں میں نمایاں نام ہے۔ کاتب تقدیر نے ان کے لیے کوئی ایسی کہانی گھڑی کہ ان کی پہلی کتاب کو منظرعام پر آنے میں پینتیس سال لگ گئے۔ ایک طرف یہ رجحان اور ایک طرف یہ کہ ابھی شاعری کی سیڑھی پر پہلا قدم دھرا پڑا ہے اورمجموعہ بھی چھپ کر آجاتا ہے۔

    دو اہم نام شامل ہیں جواس کتاب ’درد کہاں جاتے ہیں مائے‘ کاتعارف کراتے ہیں۔ فلیپ پرفکشن کے جادوگر محمد حمید شاہد اور پیش لفظ کے طور پرعلینہ کے خالق علی محمد فرشی۔

    میں اس کتاب کی پہلی نظم کو مرکز نگاہ بناکر یہ بتانے کی سعی کرنا چاہتا ہوں کہ اس شاعری کا جنم کہاں سے ہوا ہے اوراس سلسلے میں ان دوصاحبان کے فرمودات سے مدد لے کر اپنی بات کروں گا۔

    فرشی صاحب معاصر نظم میں داخلی پیٹرن کی متنوع تشکیل کا ذکر کرتے ہیں لیکن انھوں نے افتخار بخاری کی کسی نظم میں یہ تشکیلی عمل ہمیں دکھانے سے گریز کیا ہے جس کی وجہ سے ان کا یہ دعویٰ ادھورا رہ گیا ہے کہ”افتخار کی نظم اسلوب کے ذریعے اپنی پہچان کراتی ہے۔“ ہاں، انھوں نے تاثراتی تجزیہ خوب کیا ہے۔

    اس کتاب کی پہلی نظم ہے: ”شاعری چالاک ہوتی ہے“۔

    ”شاعری چالاک ہوتی ہے
    بھیس بدل کرستم گروں کی
    نظروں سے چھپی رہتی ہے
    جب میں دوسروں کے کھیتوں میں
    ہل چلاتاہوں
    شاعری بھوک بن کرمیرے پیٹ میں ہوتی ہے۔

    مل میں محنت کرکے
    جب میں شام گھر لوٹتا ہوں
    شاعری تھکن کی صورت
    میرے لٹکے ہوئے بازوؤں میں ہوتی ہے
    اور جب میری آنکھیں
    شہر لاحاصل کے منظروں کی بیگانگی میں
    بے مصرف ہوجاتی ہیں
    شاعری مہربان عورت کا
    روپ دھار کر
    میرے خوابوں میں چلی آتی ہے۔

    جب میرے ستم گر
    شاعری کو پناہ دینے کاالزام لگا کر
    میری تلاشی لیتے ہیں
    وہ کچھ بھی برآمد نہیں کرسکتے۔
    اس وقت شاعری خوف بن کر
    ان کے دلوں میں ہوتی ہے“

    علی محمد فرشی نے افتخاربخاری کو امیجسٹ قرار دیا ہے۔ یہ خاصا سویپنگ اسٹیٹمنٹ ہے۔ دو تین نظموں میں امیجز کی جھلک ملتی ہو تو ہو لیکن باقی شاعری ایسی سادہ بیانی سے عبارت ہے جو اپنی فنی تشکیل کے لیے شبیہ سازی کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔نظم کی تنقید میں یہ اہم نکتہ نظرانداز کیا جاتا ہے کہ اس کی اپنی ضرورت کیا ہے۔ افتخاربخاری کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی جو مجھے نظر آئی ہے، وہ یہی فنی ادرا ک ہے کہ یہاں اس شاعری کی اپنی ضرورت کیا ہے۔ یہی اس نظم گو کی فنی پختہ کاری ہے کہ جس چیزکی ضرورت ہے وہ ادراک کے دائرے میں ہے۔ تمام متن میں نظم کی اس سمت سے روگردانی نہیں کی گئی ہے۔ ایک کثیرالجہت امیج کی تشکیل بہ ہرحال نظم کے متن کو اُس سمت سے بالکل الگ راستے کی طرف لے جاتی ہے جہاں شاعری میں فکشن کا رنگ کارفرمائی دکھاتا ہے اور چوں کہ وہ شاعری ہے اس لیے نہ وہاں امیج بننے دیتا ہے نہ افسانے کافریم۔

    مذکورہ بالا نظم میں ہر شے بالکل واضح ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ایک داستان گو پوری وضاحت کے ساتھ کہانی سناتاہے۔ پہلے بند میں ایک کسان کا کردار بیان کیا گیا ہے اور دوسرے میں مزدور کا جو شہر کی دوڑ میں لاحاصل بھاگتا ہے‘ جو سرمایہ دارانہ نظام کا ایندھن بناہوا ہے۔ تیسراکردار ایک میٹا نریٹو کی مانند ہے جو ہے بھی اور نہیں بھی۔ جوتمام بیانیے پر غالب نظر آتا ہے۔ جسے شاعر نے شاعری کہا ہے۔ یہ کرداردراصل ایک جذبہ ہے جو کسان اور مزدور کے ساتھ ساتھ سفرکررہا ہے‘ جس سے اہلِ اقتدارخوف زدہ ہیں۔ کیا یہ جذبہ محض داخلی نوعیت کا ہے جس کے لیے نظم میں ’شاعری‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن یہ صرف شاعری نہیں ہے، یہاں شاعری اپنے معروض کی مزاحمت کا نام ہے۔ یہاں معروض اور موضوع کا جدلیاتی عمل واضح دکھائی دیتا ہے۔ یوں اس نظم کا کلیدی اشارہ جذبۂ پیکارہے۔ لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔

    محمد حمید شاہد نے اس شاعری کے داخلی پیٹرن کو زیادہ بہتر طورپر نشان زد کیا ہے‘ جس میں ابھرنے والے امیجزشاعرانہ سے زیادہ فسانوی ہیں۔ یہ ایک کہانی کی تجسیم کرتے ہیں جودکھ اور نارسائی سے عبارت ہے‘ جو بے تعبیر ہے۔ وہ چوں کہ خود ایک فسوں گر فسانہ گو ہیں، اس لیے زیادہ حیرانی کا باعث نہیں جوانھوں نے ایک شاعر کے متن کے داخلی پیٹرن کے ایک غالب اشارے کو پکڑلیا ہے۔ اس تناظر میں اس نظم کے اسلوب کا ایک اور اشارہ دیکھیے۔ متن کے داخلی پیٹرن سے جس جذبۂ پیکار کی جھلک ملتی ہے اس کی لسانی تشکیل کے تمام اشارے اس کی خوابیدہ کیفیت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ فعال جذبۂ پیکار نہیں ہے، یہ اپنی انقلابی حرکیات کی عدم فعالیت کے سبب اپنی نارسائی کو دکھ بناکر زیست کررہا ہے۔

    دیکھا جائے تو یہ شاعری ہمارے سماج میں عدم فعال جذبوں کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے‘ یہیں اس شاعری کا جنم ہوتا ہے۔ اسی کی طرف حمید شاہد اشارہ کرتے ہوئے نظم (شاعری) پر اتنا بڑا الزام دھرتے ہیں کہ:”جس خواب کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی، اس کی آخری پناہ گاہ کہانی نہیں، ایک نظم ہوتی ہے۔“ مذکورہ نظم اور دیگر کئی ساری نظمیں اس الزام کو تقویت فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نظم کی اس توہین آمیز بے سمتی پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقتاً یہ نظم ہی ہے جوایک بے خواب دنیا میں جنم لیتی ہے اور اسے خواب دیکھنا سکھاتی ہے اور اسے تعبیر کاشعور عطاکرتی ہے۔

    سب سے اہم نکتہ جو افتخاربخاری کی ان نظموں میں کھوجا جانا ہے، یہ ہے کہ ان کا داخلی پیٹرن نظمیت کو اپنی تشکیل کا کہاں تک حصہ بناسکا ہے۔ فی الوقت تو اسے کلیشے زدہ طرز اظہار کی نمایندہ شاعری کہا جاسکتا ہے۔ دیکھیں:
    نظم دوسری یاد: جدائی کا بے انت کہرا‘ فراموش ستارے‘ عہد رفتہ کی گردآلود آوازیں‘ مہذب جہنم‘ لہومیں بہتی آتش۔
    نظم آدمی: دیارغیر‘ پیالیوں سے اٹھتی بھاپ‘ بھید کھولنا‘ آنکھوں سے درد امنڈنا۔
    نظم زمین پر ایک دن: دل کا خموشی سے محو گفتگو ہونا‘ گلیوں کا بھٹکنا‘ کاسۂ گدائی‘ یہ سامنے کا عام خیال کہ اگر دن کا استعمال کیا جائے تو ناکامی ملے گی یا کام یابی۔
    غرض ہرنظم کی تشکیل اس طرح کی نہایت ہی مستعمل یا سامنے کی تراکیب سے ہوئی ہے۔
    علی محمد فرشی نے بالکل صائب اشارہ دیا ہے کہ ڈکشن افتخاربخاری کا مسئلہ نہیں ہے‘ یقیناً یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری بیان اور خیال کی ندرت سے تہی محسوس ہوتی ہے۔ڈکشن محض لفظوں کی کرتب بازی نہیں، ذہین تخلیق کار کے لیے جہان ِمعنی کے نئے در وا کرنے کاراستہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس شاعری میں ان کا کوئی منفردلہجہ تشکیل نہیں پایا۔

    اس مجموعے میں جونظم مجھے سب سے زیادہ پسند آئی، آپ بھی ملاحظہ کریں:

    سفرمیں نیند کی خواہش

    سنو!
    جب تم کسی لمبے سفرپر جارہی ہو
    ریل گاڑی بے کشش، بے رنگ
    رستوں سے گزرتی ہو
    مسافت کی طوالت سے
    تم اکتانے لگو
    اورپھراچانک نیند آجائے
    سہاناخواب دیکھو
    اور جب جاگو
    تو یہ جانو
    کہ لمبا راستہ طے ہوچکا ہے
    تو بڑی راحت سی ملتی ہے
    مرے حق میں تمھاری آرزو بھی
    زندگانی کے سفر میں
    نیند کی خواہش تھی
    لیکن کیا کروں
    مجھ کو سفر میں نیند آئے بھی
    تو جلدی جاگ جاتا ہوں

  • آج معروف شاعر محسن بھوپالی کی گیارہویں برسی ہے

    آج معروف شاعر محسن بھوپالی کی گیارہویں برسی ہے

    آج اردو ادب کو لافانی اشعار دینے والے معروف شاعر محسن بھوپالی کی 11ویں برسی ہے‘ انہوں نے اردو شاعری کو نئی جہت عطا کی اورزندگی بھر مزاحمت کا استعارہ بنے رہے۔

    محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن تھا اور وہ بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگ پور میں 29 ستمبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہوگیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔ آخر میں وہ کراچی منتقل ہوگئے۔

    این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے کے بعد وہ 1952ء میں محکمہ تعمیرات حکومت سندھ سے وابستہ ہوئے۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی دوران انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    محسن بھوپالی کی شعر گوئی کا آغاز 1948ء سے ہوا۔ ان کی وجہ شہرت شاعری ہی رہی۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ "شکست شب” 1961ء میں منظر عام پر آیا۔ ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکست شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گرد مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعہ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقد سخن شامل ہیں۔

    محسن بھوپالی کویہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئے گئے تھے۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔

    محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے ۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کرگئے تھے خصوصاً ان کا یہ قطعہ توان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں ان سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔

    تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
    راہ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘ کی تقریب پزیرائی کے موقع پر انہوں نے خصوصی نظمانہ تحریر کیا اور 9 جنوری 1994 کو اس تقریب میں پڑھا ۔

    اپنے ملک پہ اک مدت سے قائم ہے
    گنتی کے ان سرداروں
    ……..اورجاگیروں کے پانے والوں
    کی نسلوں کا راج
    آزادی سے بڑھ کر جن کو پیارا تھا
    انگریزوں کا تاج!
    سوچ رہا ہوں…….. شائد اب کے
    قسمت دے دے مظلوموں کا ساتھ
    استحصالی ٹولے سے…. پائے قوم نجات
    صبح ہوئی تو گونج رہا تھا’
    بے ھنگم نعروں کا شور
    اپنے خواب کی ہم نے کی…….. من مانی تعبیر
    پھر ہے اپنے قبضے میں……. ملت کی تقدیر
    پاکستان کا مطلب کیا؟…. …موروثی جاگیر

    محسن بھوپالی کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے۔ انہوں نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔

    اگر یہی ہے شاعری تو شاعری حرام ہے
    خرد بھی زیر دام ہے ، جنوں بھی زیر دام ہے
    ہوس کا نام عشق ہے، طلب خودی کا نام ہے

    ان کی شاعری کے موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے۔ ان کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
    ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
    الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

    سنہ 1988 میں ان کے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا ۔ اس کے بعد انہیں بولنے میں دشواری ہوتی تھی مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے زندگی کے معمولات جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کرتے اور شعر پڑھتے رہے۔

    اردو ادب کو ایک لافانی ذخیرہ فراہم کرنے والے و محسن بھوپالی 17جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوئے اورکراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر

    ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر
    بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اڑان پر

    آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر
    تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

    پوچھو سمندروں سے کبھی خاک کا پتہ
    دیکھو ہوا کا نقش کبھی بادبان پر

    یارو میں اس نظر کی بلندی کو کیا کروں
    سایہ بھی اپنا دیکھتا ہوں آسمان پر

    کتنے ہی زخم ہیں مرے اک زخم میں چھپے
    کتنے ہی تیر آنے لگے اک نشان پر

    جل تھل ہوئی تمام زمیں آس پاس کی
    پانی کی بوند بھی نہ گری سائبان پر

    ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے
    چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکاں پر

    سایہ نہیں تھا نیند کا آنکھوں میں دور تک
    بکھرے تھے روشنی کے نگیں آسمان پر

    حق بات آ کے رک سی گئی تھی کبھی شکیبؔ
    چھالے پڑے ہوئے ہیں ابھی تک زبان پر

    **********

  • ساتھی

    میں اس کو پانا بھی چاہوں
    تو یہ میرے لیے نا ممکن ہے
    وہ آگے آگے تیز خرام
    میں اس کے پیچھے پیچھے
    افتاں خیزاں
    آوازیں دیتا
    شور مچاتا
    کب سے رواں ہوں
    برگ خزاں ہوں
    جب میں اکتا کر رک جاؤں گا
    وہ بھی پل بھر کو ٹھہر کر
    مجھ سے آنکھیں چار کرے گا
    پھر اپنی چاہت کا اقرار کرے گا
    پھر میں
    منہ توڑ کے
    تیزی سے گھر کی جانب لوٹوں گا
    اپنے نقش قدم روندوں گا
    اب وہ دل تھام کے
    میرے پیچھے لپکتا آئے گا
    ندی نالے
    پتھر پربت پھاند آ جائے گا
    میں آگے آگے
    وہ پیچھے پیچھے
    دونوں کی رفتار ہے اک جیسی
    پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے
    وہ مجھ کو یا میں اس کو پا لوں
    *********

  • گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا

    گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
    ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

    ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی
    فسانہ جگر لخت لخت ایسا تھا

    ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے
    چٹخ کے ٹوٹ گیا دل کا سخت ایسا تھا

    یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک
    کوئی نہ سہہ سکے لہجہ کرخت ایسا تھا

    کہاں کی سیر نہ کی توسنِ تخیل پر
    ہمیں تو یہ بھی سلیماں کے تخت ایسا تھا

    ادھر سے گزرا تھا ملکِ سخن کا شہزادہ
    کوئی نہ جان سکا ساز و رخت ایسا تھا

    *********