Tag: POETRY

  • سڑک‘ کُن اورہم‘ عمران کی شاعری

    سڑک‘ کُن اورہم‘ عمران کی شاعری

    اردوشاعری کی ابتدا قلی قطب شاہ سے ملتی ہے اور تب سے آج تلک اس میں متعدد شعراء سخن آزمائی کرچکے ہیں اور ان میں سے ہی ایک نام عمران شمشاد ہے جس نے موجودہ اردو شاعری میں ایک نئے رجحان کو روشناس کرایا ہے۔

    عمران شمشاد کے مجموعہ کلام کا نام ’عمران کی شاعری‘ ہے اوراس کی اشاعت کا اہتمام علی زبیر پبلیکشنز نےکیا ہے‘ کتاب میں صفحات کی کل تعداد  208روپے ہے اور اس کی قیمت 400 روپے مقرر کی گئی ہے۔

    کتاب میں غزلوں اور نظموں کی کل تعداد 97 ہے اور عمران شمشاد اس کتاب کے پہلے صفحے پر درج نمائندہ شعر سے اپنے فکری مزاج کا پتہ دے رہے ہیں کہ ’عمران کی شاعری‘ پڑھنا آسان ثابت نہیں ہوگا۔

    پھول کو دھول کی ضرورت ہے
    اس قدر دیکھ بھال ٹھیک نہیں

    کتاب کا کاغذ معیاری ہے اوراس کے سرورق کو انعام گبول اور طحہٰ صدیقی نے رنگوں سے زبان دی ہے۔

    imran-post-2

    عمران کی شاعری کے بارے میں

    عمران شمشماد اسلوب کے اعتبار سے ایک نئے شاعر ہیں اور نئے سے مراد یہاں نووآرد نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب میں روایت سے ہٹ کرشاعری کہی گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران شعریات کی دنیا میں کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں اور اس معاملے میں وہ نتائج سے خوفزدہ دکھائی نہیں دیے کہ آیا اسے شرفِ قبولیت بھی حاصل ہوگا کہ نہیں! بس وہ کرگزرے ہیں۔

    دیکھیں ! عمران کتاب کی ابتدا میں کس طرح حمد کی عمومی روایت سے انحراف کرتے نظرآتے ہیں۔

    میرا مالک میری مشکل
    آسانی سے حل کردے گا

    کُن کے عنوان سے عمران نے اس کتاب میں نعتیہ نظم تحریر کی ہے جس میں عمران نے آخری مصرعے میں آشکار کیا ہے کہ یہ نعتیہ کلام ہے۔

    کُن خدا کا اگرارادہ ہے
    اس ارادے کی ابتدا کیا ہے
    کون اس کا جواب دے گا مجھے
    کُن محمد ﷺ کے ماسوا کیا ہے

    عمران کے ہاں مستعمل زبان انتہائی آسان اور عام فہم ہے اور بہت حد تک اسے عامیانہ بھی کہا جاتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ہاں رائج لسانی سہولیات انہیں آنے والے وقتوں میں ایسا شاعربنادے گی جسے عوام میں مقبولیت حاصل ہوگی۔

    سڑک

    مشاعروں میں اکثر عمران شمشاد سے فرمائش کی جاتی ہے کہ اپنی نظم ’سڑک‘ سنائیں۔ اس کتاب میں یہ نظم شامل ہے اور اس میں لفظیات کا جس قدرخوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے اور خیالات کے بہاؤ کو درست سمت دی گئی ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ نجانے کیوں مجھے اس نظم کو پڑھتے ہوئے نظیر اکبر آبادی کا ’آدمی نامہ‘ یاد آرہا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اگر سڑک کو جدید دور کا آدمی نامہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

    صغیر قد سے ابھر رہا ہے
    کبیر حد سے گزر رہا ہے

    امین کنڈا لگا رہا ہے
    نظام تانگا چلا رہا ہے

    کسی کی ہاتھی نما پراڈو
    سڑک سے ایسے گزر رہی ہے

    نواب رکشا چلا رہا ہے
    اور ایک واعظ بتا رہا ہے
    خدا کو ناراض کرنے والے جہنمی ہیں
    خداکو راضی کروخدارا

    اور یہ دیکھیں کہ

    نئے مسافرابھررہے ہیں
    سڑک جہاں تھی وہیں کھڑی ہے
    مگر حقیقت بہت بڑی ہے
    سڑک پہ بلی مری پڑی ہے

    عمران شمشاد کی ایک اور نظم ’سودی بیگم کا جائزہ لیتے ہیں جس میں شاعر معاشرے میں رائج معاشی نظام کو بیان کررہے ہیں اوراسے پڑھتے ہوئے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی چوبارے پر دو خواتین کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے لیکن ایک عامیانہ سے جملے کو استعمال کرکے عمران سودی نظام کی بہت بڑی حقیقت کو اپنے قاری پر آشکار کردیتے ہیں۔

    بینک میں پہلا قدم رکھا تو اس کی چپل
    موٹے سے قالین میں دھنس گئی
    رضیہ پھر غنڈوں میں پھنس گئی

    نظم کی طرح عمران کی غزل بھی قاری کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے اور کتاب میں موجود غزلیں قاری کو اکساتی ہیں کہ وہ اسے مزید پڑھیں۔

    کچھ نہ کچھ تو ہے مشترک عمران
    روح میں روشنی میں پانی میں

    آدمی آدمی کی دیواریں
    آدمی آدمی کا دروازہ

    چکنی چپڑی جوبات کرتا ہے
    پیرچھوتا ہے ہات کرتا ہے

    imran-post-1

    کتاب کی پشت پر عمران رقم دراز ہییں کہ ’’میری پیشانی دیکھنے والےیہ لکیریں نہیں‘ وہ رستے ہیں میں جہاں سے گزر کے آیا ہوں‘‘۔ یقیناً اس قسم کی اچھوتی شاعری کے لیے عمران نے کئی دشوار منزلیں طے کی ہوں گی اور یہ مشکل منزلیں انہوں نے اپنے لیے خود منتخب کی ہیں۔ امید ہے کہ ان کی یہ محنتیں رائیگاں نہیں جائیں گی اور آج نہیں تو کل ان کے اس منفرد انداز کو تسلیم کیا جائے گا۔

    شاعر کے بارے میں

    جیسا کہ کتاب کے نام سے واضح ہے ‘ اس کے مصںف عمران شمشاد ہیں جو کہ اے آروائی نیوز کے پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ سے اسکرپٹ ہیڈ کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔

    عمران شمشاد نے دوسو سے زائد ڈاکیومنٹریز لکھی ہیں اور مختلف ٹی وی چینلز کے لیے ڈرامے لکھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    شاعراقرا یونی ورسٹی میں گزشتہ چار سال سے زائد عرصے سے میڈیا سائنسز کے طلبہ و طالبات کو اسکرپٹ رائٹنگ کا فن سکھا رہے ہیں۔ ان کے آئندہ منصوبوں میں ایک ناول اورافسانوں کا مجموعہ شامل ہیں جبکہ اردو شاعری کی ایک اورکتاب پر کام بھی جاری ہے۔

  • شاعرِمشرق علامہ اقبال کی آج 139ویں سالگرہ ہے

    شاعرِمشرق علامہ اقبال کی آج 139ویں سالگرہ ہے

    آج شاعرِ مشرق مفکر ِپاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال کی آج 139 ویں سالگرہ ہے، ان کا فکری پیغام برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا کرنے کا بنیادی سبب بنا تھا۔

    ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877کو پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں پیداہوئے تھے‘ آپ بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔

    اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجۂ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔

    علامہ اقبال کو دورجدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔

    یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی خالق سمجھا جاتا ہے گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

    علامہ اقبال کی اردو، انگریزی اور فارسی زبان میں تصانیف میسرہیں


     سندھ اوربلوچستان کے تعلیمی اداروں میں تعطیل کا اعلان


    نثر

    علم الاقتصاد

    فارسی شاعری

    اسرار خودی
    رموز بے خودی
    پیام مشرق
    زبور عجم
    جاوید نامہ
    پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرقأ
    ارمغان حجاز


    ایران کی ایک شاہراہ ’شاعرِمشرق‘ کے نام سے منسوب ہے


    اردو شاعری

    بانگ درا
    بال جبریل
    ضرب کلیم

    انگریزی تصانیف

    فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء
    اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو

    آپ 21 اپریل 1938 کو ساٹھ سال کی عمر میں لاہور میں انتقال فرما گئے آپ کا مزار بادشاہی مسجد کے سائے میں مرجع خلائق ہے۔

  • غزل گو شاعر ناصر کاظمی کی آج 43ویں برسی منائی جارہی ہے

    غزل گو شاعر ناصر کاظمی کی آج 43ویں برسی منائی جارہی ہے

    ناصر کاظمی کے مداح   آج  ان کی برسی  منا رہے ہیں

    کراچی: ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم انبالہ میں ہوئی۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل نہ ہو سکی۔ شعر گوئی کا آغاز جوانی میں ہو گیا ۔ شاعری کے علاوہ موسیقی سے بھی گہری دلچسپی تھی۔

    ،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’
    ‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

    ،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’
    ‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں

    اس طرح کے کئی لازوال شعر ان کی تخلیق ہیں۔ ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہار غم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔ ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔

    ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں ہیں۔ چند مضامین لکھے اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے جس میں کیفیت، روانی اور لہجے کی نرمی کا بڑا دخل ہے۔ پہلا مجموعہ "برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ ۔ دوسرے دو مجموعے "دیوان” اور "پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔ ناصر کاظمی 2 مارچ 1972 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔

  • بیٹھے رہیں گے شام تلک تیرے شیشہ گر،یہ جانتے ہوئے کہ خسارہ دکاں میں ہے

    بیٹھے رہیں گے شام تلک تیرے شیشہ گر،یہ جانتے ہوئے کہ خسارہ دکاں میں ہے

    آج 24 نومبر اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کا یومِ پیدائش ہے۔

    یہ دُکھ نہیں کہ اندھیروں سے صلح کی ہم نے
    ملال یہ ہے کہ اب صبح کی طلب بھی نہیں

    پروین شاکر 24 نومبر 1954 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے انہوں بچپن میں پروین کو کئی شعراء کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور زبانی دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔

    سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں، اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990 میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے بعد میں طلاق لے لی۔

    ممکنہ فیٖصلوں میں اک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
    ہم نے تو اک بات کی اس نے کمال کردیا

    شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالے فنون میں شائع ہوتا رہا۔ 1977ء میں آپ کا پہلا مجموعہ کلام خوشبو شائع ہوا۔ اس مجموعہ کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی اور پروین شاکر کا شمار اردو کے صف اول کے شعرامیں ہونے لگا۔ خوشبو کے بعد پروین شاکر کے کلام کے کئی اور مجموعے صد برگ، خود کلامی اور انکار شائع ہوئے۔ آپ کی زندگی میں ہی آپ کے کلام کی کلیات ’’ماہ تمام‘‘ بھی شائع ہوچکی تھی جبکہ آپ کا آخری مجموعہ کلام کف آئینہ ان کی وفات کے بعد اشاعت پذیر ہوا۔

    26 دسمبر 1994ء کو اس خبر نے ملک بھر کے ادبی حلقوں ہی نہیں عوام الناس کو بھی افسردہ اور ملول کردیا کہ ملک کی ممتاز شاعرہ پروین شاکر اسلام آباد میں ٹریفک کے ایک اندوہناک حادثے میں وفات پاگئی ہیں۔

    پروین شاکر کو اگر اردو کے صاحب اسلوب شاعروں میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا لب و لہجہ دیا اور شاعری کو نسائی احساسات سے مالا مال کیا۔ ان کا یہی اسلوب ان کی پہچان بن گیا۔ آج بھی وہ اردو کی مقبول ترین شاعرہ تسلیم کی جاتی ہیں۔

    پروین شاکر نے کئی اعزازات حاصل کئے تھے جن میں ان کے مجموعہ کلام خوشبو پر دیا جانے والا آدم جی ادبی انعام، خود کلامی پر دیا جانے والا اکادمی ادبیات کا ہجرہ انعام اور حکومت پاکستان کاصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سرفہرست تھے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

  • معروف اردو شاعر بےخودبدایونی کو ہم سے بچھڑے ۹۸برس بیت گئے

    معروف اردو شاعر بےخودبدایونی کو ہم سے بچھڑے ۹۸برس بیت گئے

    10 نومبر معروف اردو شاعر جناب بے خود بدایونی کا یومِ وفات ہے۔

    بیٹھتا ہے ہمیشہ رِندوں میں
    کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے

    بے خود بدایونی کا اصل نام محمد عبد الحئی صدیقی تھا۔ آپ 17 ستمبر 1857ء کو بدایوں کے ایک صوفی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُس زمانے کے رواج کے مطابق بے خود نے پہلے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور وکیل کی حیثیت سے مراد آباد اور شاہجہان پور میں کام کیا۔ پھر وکالت سے اکتا کر سرکاری نوکری سے وابستہ ہوئے اور سروہی (راجستھان) اور جودھپور میں خدمات انجام دیتے رہے۔

    بے خود بدایونی انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتداء کے ممتاز شعراء میں شامل ہیں۔ انہوں نے شاعری میں پہلے الطاف حسین حالی، پھر داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی۔ اپنی زندگی کا زیادہ حصہ جودھپور میں بسر کرنے کے باعث وہ اردو ادب کے مراکز دہلی اور لکھنؤ سے دور رہے، اور غالباً اسی وجہ سے انکی شاعری بہت عام نہ ہو سکی۔ طویل عرصے تک طبع نہ ہونے کی باعث انکے بہت سے اشعار کو مختلف شعراء نے اپنی تخلیق کے طور پر پیش کیا، اور ان کے بہت سے کلام کو بے خود دہلوی اور کچھ اور شعراء کے کلام سے بھی منسوب کیا گیا۔

    بے خود بدایونی غزلیات، حمد و نعت اور رباعیات کے شاعر تھے۔ محبت، فلسفہ، تصوف اور اسلام انکی شاعری کا موضوع تھا۔ اُن کی چار کتب "ہوش و خرد کی دکان”، "صبر و شکیب کی لُوٹ”، "مرآۃ الخیال” اور "افسانۂ بے خود” کے نام سے شائع ہوئیں۔

    10 نومبر 1912ء کو بے خود کا بدایوں میں انتقال ہوا اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔

    پردے سے پُچھتے ہو ترا دل کہاں ہے اب
    پہلو میں میرے آؤ تو کہدوں یہاں ہے اب